۹۔فصل سالکین کے بیان میں
لفظ سالکین کے معنی ہیں کہ راہ روندہ۔لیکن صوفیہ کی اصطلاح میں تقربِ حق کے اس طالب کو سالک کہتے ہیں کہ جو عقل و معاش بھی رکھتا ہو۔لفظ سالک مجذوب کے مقابلے میں ہے۔کیونکہ مجذوب راہ روندہ نہیں ہے۔نہ وہ مسلمان ہے نہ ہندو ہےنہ صوفی نہ کوفی وہ بیرا ہ کھینچا ہوا شخص ہےاور اس میں عقل معاش نہیں ہے۔کیونکہ وہ پاگل ہے۔سالک با عقل ہے اورقواعد و تصوف پر چلتا ہے۔اس لیے مجذوب و سالک ہر دو لفظ مقابلے کے ہیں۔
صوفی لوگ تین چیزوں کی تلاش کرتے ہیں۔ان میں سے پہلی چیز جذبہ ہےاور ان میں اس کی بڑی قدرو منزلت ہے۔کیونکہ یہ ان کے گمان میں خدا کی طرف سے ایک کشش ہے۔ ہم مسیحی بھی اس کشش کو جو اللہ سے ہوتی ہے۔بڑی نعمت اور فضل سمجھتے ہیں۔چنانچہ خداوند مسیح نے فرمایا ہے کہ میرا باپ آدمیوں کو میری طرف کھینچ لاتا ہے۔اسی کشش کو ہم جذبہ سمجھتے ہیں۔لیکن ان کے خیال اورہمارے خیال میں فرق صرف اتنا ہے کہ وہ لوگ دیوانگی کو کشش سمجھتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کشش الٰہی سے دیوانگی دفع ہوتی ہے ۔روح میں زندگی اور عقل میں ہو شیاری اور خیالات میں روشنی اور دل میں تازگی آتی ہے۔تب حقوق اللہ اور حقوق العبادوہ شخص پہچانتا ہے اور بجا لاتاصوفی سمجھتے ہیں کہ سب حقوق اڑ جاتے ہیں اور قیدِ الٰہی شرع کی نہیں رہتی۔
دوسری چیز جس کی وہ تلاش کرتے ہیں سلوک ہےاور یہ نہ کشش ہے اور بلکہ کوشش ہےجو حصول مراد کے لیے خدا کی راہ میں سالک اپنی طرف سے کرتاہے۔یعنی صوفیہ کے تجویز کیے ہوئے طریقوں کو عمل میں لاتا ہے تاکہ وہ خدا کا ولی ہو جائے۔پس ہر سالک کے گمان میں راہ روندہ ہے،جو بھی منزل و مقصود تک نہیں پہنچا جیسے مسافر جو ابھی راہ میں ہے۔
ہم اس بات کو پسند کرتے ہیں اورواجب جانتےہیں کہ انسان کو قربتِ الٰہی کے لیے کوشش اور محنت کرنی چاہیے۔لیکن ہم میں اور صوفیہ میں فرق صرف اتنا ہےکہ وہ لوگ انسانی خیال سے تجویز شدہ طریقوں کو عمل میں لا کر خدا سے ملنا چاہتے ہیں اور ہم مسیحی لوگ ان طریقوں کو اس مطلب پر مفید سمجھتے ہیں جو خدا نے آپ اپنے کلام میں اپنے پیغمبروں کے ذریعے ظاہر کیا ہےاور اپنی قدرتوں سے ان پر گواہی دی ہے۔پس ان کا سلوک وہ ہے۔ہمارا سلوک یہ ہے۔
تیسری چیز جس کی وہ تلاش میں ہیں عروج ہے۔یعنی وصول بمنزلہ مقصود اس کوو ہ لوگ خدا کی بخشش بھی کہتے ہیں۔کہ خدا اس سالک کو کوئی رتبہ یا ولایت کا کوئی درجہ بخشا ہے۔مثلاً کوئی قطب ہو گیا یا غوث بن گیایا شاہ ولایت ہو گیاوغیرہ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے عہدے اور درجے خدا نے آدمیوں کو کبھی نہیں بخشے یہ صرف فرضی باتیں ہیں۔اگر ان میں کچھ عروج ہے تو یہی ہے کہ اکثر جاہل لوگ کسی کو بڑا مرتاض دیکھ کر اس کے گرد ہو جاتے ہیں اور برملا پیر سمجھتے ہیں اور اس کی قبر چونے یا سنگِ مرمر کی بناتے اور برج کھڑا کرتے ہیں اور ڈھول بجا کر سال بسال میلہ لگاتے ہیں اور تماشہ دکھلاتے ہیں۔یہی عروج ان کے پاس ہے اور ہمیں ان میں کچھ عروج نظر نہیں آتابلکہ عروج کے عوض بہت سا نزول وہاں ہے۔
حقیقی عروج جو حقیقی ولیوں کو اللہ سے بخشا جاتا ہے۔یہ ہے اطمینان الٰہی ان کی روح میں اللہ سے القا ہوتا ہے اور وہ محبت الٰہی سے اللہ کی طرف سے بھر جاتے ہیں اور معرفت کے اسرار زیادہ تر ان پر منکشف ہوتے ہیں اور کبھی کبھی وہ لوگ کلام اللہ کی خدمت کے لیے مومنین کے درمیان ا علیٰ عہدوں پر خدا کی طرف سے بھیجے جاتے ہیں اور وہ خوبی کے ساتھ جانفشانی اور جفاکشی کرکے کلام اللہ کی خدمت کرتے ہیں اور کمزوروں کو طاقت بخشتے ہیں اور بہت سے لوگوں کو بہشت کے لیے آراستہ کرتے کر ڈالتے ہیں آخر میں ابد تک وہ خدا کے پاس کے خوشی میں زندہ رہیں گے۔پس ان کے اورہمارے عرو ج میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔یہاں کچھ ہے جو اوپر سےا ن کے دلوں میں آتا وہاں کچھ ہےجو اِدھر اُدھر کے آدمیوں سے دیا جاتا ہےایک چیز ابدی ہے دوسری فانی۔
پھر صوفیہ یوں کہتے ہیں کہ جس کو خدا تعالیٰ اپنی طرف کھینچتا ہے وہ سب کچھ چھوڑتا اور عشقِ الٰہی کے رتبہ میں پہنچتا ہے اگر وہ اسی جگہ میں رہ جائے اور دنیا میں واپس نہ آئے یعنی اس کے ہوش و حواس پھر درست نہ ہو ویسےہی بے ہوش رہے وہ (صرف مجذوب ہے) اگر وہ پھر ہوش میں آجائے اورسالک بن بیٹھے اس کو (مجذوب سالک ) کہتے ہیں اور وہ جو اولاً سالک تھا اور مراتب سلوک عطا کر چکا تھاپھر وہ خدا سے کھینچا گیااس کا نام (سالک مجذوب ) ہے اور اگر سالک ہو اور سلوک تما م نہ کیا ہو اور خدا نے بھی اسے اب تک نہ کھینچاہو۔(وہ صرف سالک )ہے پس یہ صرف چار قسم، کے لوگ ہیں۔مجذوب۔ مجذوب سالک سالک مجذوب ۔سالک۔
اب وہ جو صرف سالک ہے اور وہ جو مجذوب ہے یہ دونوں ان کے گمان میں پیر و مرشد ہونے کے لائق نہیں ہےمگر وہ جو مجذوب سالک ہے اور جو سالک مجذوب ہے وہی پیر و مرشد ہونے کے لائق سمجھے گئے ہیں اوران میں بھی مجذوب سالک کا درجہ بڑا ہے۔
(ف) یہ جومحمدی لوگ پیروں کے مرید ہوتے پھرتے ہیں اکثر سالکوں کے مرید ہوتے ہیں یا بعض مجذبوں کے معتقد ہوتے ہیں۔ان کا کام تصوف کے خلاف اور بے فائدہ ہےکیونکہ پیری کے لائق وہی اشخاص سمجھے گئے ہیں جنہوں نے اولاً یا آخراً کچھ جذب کی چاشنی چکھی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بغیر دماغی خلل کے کوئی صوفی پیر مرشد ہونے کے لائق نہیں ہےاور قواعد و سلوک جن کا ذکر اسی کتاب میں مفصل آنے والا ہے۔ناظرین دیکھ کر معلوم کر سکیں گے کہ ہو سب دماغی خلل پیدا کرنے کے نسخے ہیں اور کچھ حاصل نہیں ہو سکتا مگر صرف دماغی خلل تاکہ وہ پیر کامل ہو جائیں۔
ہمارا پیرو مرشد صرف ایک ہے جو آسمان سے اترا اورازل سے خدا کے ساتھ تھاجس نے سارے جہان کو پیدا کیا جو کہ کامل خدا اور کامل انسان ہےاوروہ جہان کا نور ہے ہر ایک کہ جو اس کےپاس آتا ہےوہ روشن کرتا ہے۔یعنی یسوع مسیح ابنِ اللہ اور ہم سب مومنین اولین اورآخرین آپس میں پیر بھائی ہیں اور جس قدر سچے پیغمبر دنیا میں آئے وہ سب ہمارے بھائی تھےاور وہ اور ہم خدا وندمسیح کے بندے اور خدمت گزار ہیں ہمیں کچھ حاجت نہیں کہ پیر تلاش کریں اور کسی خفیہ نعمت کے ہم بھوکے نہیں جو سینہ بسینہ پیروں سے ہم تک پہنچےخدا ہمارا باپ ہے اور ہم مسیح میں ہو کر اس کے فرزند ہیں اس کی روح ہم میں موثر ہےہم نور میں اور روشنی میں رہتے ہیں اور برائے راست مسیح سے نعمتیں پاتے اورخوش رہتے ہیں۔