۱۷ ۔فصل اطوار تقرب صوفیہ کے بیان میں

صوفیہ کےاطوارجن کےوسیلے سے وہ خدا سے ملنا چاہتے ہیں ان کی کتابوں سے معلوم ہوا کہ اعتقاد واثق اور خلوص اور فروتنی اور ریاضت اور ترکِ دنیا یہ پانچ وسیلے ہیں۔

 لیکن ان کا تمام  زور تصورات پر ہے۔بعض خیالوں کو ذہن میں پکاتے ہیں جب ان میں پختہ ہو گئے تو گو یا محو ہو تے ہیں۔تب سمجھتے ہیں کہ ہم کمالات کو پہنچے چنانچہ آئندہ فصلوں میں ان کے خاص خیالات کا ذکر آئے گا۔جن کے پختہ کرنے سے وہ ولی بنتے ہیں۔

 اس فصل میں عام طور پرمیں ان کے اطوار  کی طرف دیکھتا ہوں کہ کیا ہیں۔پس وہ پانچ باتیں جو اوپر مذکور ہوئیں۔اگر افراط تفریط سے محفوظ ہوں۔اور مناسب طور سے عمل میں آ یں تو بہت خوب ہیں۔لیکن ان پانچ باتوں میں اس اصل  کو نہیں پاتا۔جو عقلاً و نقلاًخدا پرستی کی جڑ ہےجس کے ساتھ ہر خوبی فی الحقیقت خوبی ہوتی ہے۔اور جس کے بغیر تمام خوبیاں برباد اور غیر مفید ہیں۔

 اور وہ اصل یہ ہے کہ خدا پرست آدمی میں سب سے پہلے صحیح اور زندہ ایمان ہونا چاہیے۔

دنیا میں  ہر فرقہ اپنے گمان میں ایک ایمان کامدعی ہے اور اس کی حماعت کرتا ہےاور وہ سب ایمان جو دنیاکے فرقوں میں ہیں ہرگز یکساں نہیں ہیں اور سب فرقےایساسمجھتے ہیں کہ گویا ہم نے باوسیلہ اپنےایمان کے خدا کو راضی کیا ہے۔

 یہ کیفیت دنیا میں ایمانوں کی دیکھ کے کیا کروں گے؟اپنے ہی قومی ایمان کو بے دلیل یا زبردستی کی دلیل سے صحیح ایمان سمجھو گے یا تمام دنیا کے ایمانوں کا مقابلہ کرکے صحیح  ایمان تلاش کرو گے اور اس کو خدا کی رضامندی کا وسیلہ سمجھے کر اختیار کرو گے۔اگر دانائی اور انصاف ہے  تو ایسا ہی کرو گے۔

 لفظ ایمان کی بحث محمدی کتابوں میں بہت ہوئی ہے۔ کتاب عینی شرح صحیح بخاری اور فتح المبین شرح اربعین اور شرح مواقف وغیرہ میں بہت کچھ لکھا ہے۔لیکن ایمان کے بارے میں جو بات فکر کی ہے۔اس کا وہاں کچھ بھی ذکر نہیں ہے۔

 جو کچھ وہاں لکھا ہےاس کا خلاصہ یہ ہے کہ بعض نےکہا ہے کہ ایمان صرف دل کا کام ہے یعنی تصدیق۔بعض نے کہا کہ دل کا اور زبان کا اکٹھا کام ہے یعنی دل سے یقین زبان سے اقرار ۔بعض نے کہا ہے  کہ ایمان صرف دل کا کام ہے۔یعنی تصدیق۔ بعض نے کہا ہے کہ صرف زبان کا کام ہے یعنی اقرار۔بعض نے کہا ہے کہ دل اور زبان کا اکٹھا کام ہے۔یعنی دل سے یقین اور زبان سے اقرار۔بعض نے کہا کہ دل کا اور زبان کا اور تمام بدنی عضاکاکام ہے ۔یعنی اعمال بھی شامل ہیں ۔پھر یہ کہ آیا ایمان اوراسلام ایک ہی بات ہے۔ یادو جدا جدا  چیزیں بعض نے کہا کہ ایک ہی چیز ہے۔دو چیزیں ہیں۔پھر یہ کہ آیا ایمان گھٹتا بڑھتا ہے۔کسی نے کہا کہ نہیں پھر یہ کہ آیا ایمان مخلوق ہے یا غیر مخلوق احمد بن حنبل نے کہا کہ غیر مخلوق ہے اور لوگوں نے کہا کہ مخلوق ہے۔فیصلہ یوں ہوا کہ آدمی کا اقرار جو اس کا فعل ہےمخلوق ہے اور ہدایتِ الہٰی جو کہ خدا کا کام ہے۔وہ غیر مخلوق ہے۔پس شے مخلوق اور غیر مخلوق مل کر ایک ایمان ٹھہرا۔

 اصل بات کا کچھ ذکر نہیں کہ جس چیز کا اقرار اور یقین ہوتا ہےوہ کیا ہے اورکہاں سے ہے؟ہم مسیحوں کا زور اس بات پر بہت ہےکہ کیا ہے اور کہاں سے ہے؟

 یہ دو الفاظ کہ ہمارا ایمان کیا ہے اورکہ کہاں سے ہے؟اگر ناظرین یاد رکھیں تو جلد صحیح ایمان پائیں گے۔اس سوال کا جواب کہ کہاں سے ہے؟اور کیا ہے؟محمدی لوگ یوں دیں گے کہ ہمارا ایمان قرآن و حدیث سے ہےاور خدا کی وحدتِ فردی اور اور محمد صاحب کی رسالت پر ہے۔صوفی یوں کہیں گے کہ ہمارا ایمان قرآن و حدیث اور اقوال صوفیہ سے ہے۔اور خدا کی وحد ت وجودی اور محمد صاحب کی رسالت پر اور انتظام قطبیہ پر ہے۔ہم مسیح یوں کہیں گےکہ ہمارا ایمان تمام سچے پیغمبروں کی کتابوں  میں سے ہے۔نہ کہ آدمیوں کی حدیثوں اور اقوال  میں سے۔اور خدا کی وحدت اور تثلیث مجید پر ہےاوراس بات پر ہے کہ یسوع مسیح ابنِ اللہ اور ہمارے گناہوں کاخداکی طرف سےبھیجا ہوا کفارا ہے۔اوراسی کے ہاتھ میں سب کچھ ہے۔لفظ کہاں سےمیں ہم یہ ڈھونڈتے ہیں کہ آیا ماخذایمان معتبر ہے یا نہیں اور لفظ کیا میں ہم یہ تلاش کرتے ہیں کہ وہ چیز جو روح میں رکھی  جاتی ہے۔ اس کی ابدی زندگی کے لیے مفید ہےیا نہیں۔پس ہمارے ایمان  کو اور اس کے ماخذ کو اور اپنے ایمانوں کو ان کے ماخذوں کو دیکھ کر آپ ہی انصاف کرسکتے ہیں کہ صحیح ایمان کیا ہے؟

 صوفیہ وغیرہ کا ایمان نہ روح کی مرضی کے مناسب ہے اور نہ اس کا ماخذ معتبر اس لیے ان کی بنیاد خام  رہتی ہے اسی بنیاد خام پر وہ ان پانچ باتوں پر زور دیتے ہیں جن کا اب میں ذکر کرتا ہوں۔

(۱) یہ وہ سچ کتے ہیں کہ اعتقاد واثق چاہیےلیکن سچائی پر اعتقاد واثق چاہیے۔ناکہ باطل بات پر صرف اعتقاد واثق میں ہی خوبی نہیں ہے خوبی سچائی میں ہے۔ بعض بت پرستوں اور جاہل آدمیوں نے غلط باتوں پر اعتقاد واثق رکھ کر جان نثار کی ہے۔تو کیا ان کا بھیلا ہو جائے گا؟ہرگز نہیں۔یہ قول بالکل غلط ہےکہ پیر من خس است اعتقاد من بس است۔

(۲) وہ خلوص کا ذکر بہت کرتے ہیں۔فی الحقیقت خلوص عجیب نعمت ہے۔اور ہر حال میں مفیدہے۔مناسب ہے کہ آدمی بےریا ہو کر پاک نیت سے خدا پرستی اور سب کام دنیاوی بھی کیاکرے۔اس سے کامیابی ہوتی ہے۔لیکن جب خلوص کے ساتھ پتھر بھی پوجےاور ہدایتِ الٰہی کے خلاف راہ اختیار کرے تو اور مکروہ و باطل عقائد میں خلوص کے در پہ ہو تو خلوص سے کیا نکلے گا؟یہی کہا جائے گا کہ یہ آدمی تو نیک نیت  ہے مگر نادانی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔کبھی کبھی ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ باخلوص لوگو ں پر خدا کی مہربانی ہوئی ہے۔اوروہ مہربانی یہی ہوئی ہے کہ انھیں راہ راست کی طرف ہدایت کےلئے بعض وسائل بخشے گئے ہیں۔اور ان کی دانانی ان پر ظاہر کی گئی ہے۔اور دکھلایا گیا ہے کہ جہاں سے تم کچھ ڈھونڈتے ہووہاں سے  کچھ نہیں مل سکتا ۔مسیح خدا وند کی طرف جاؤ وہاں سے سب کچھ پاسکتے ہو۔پس اگر وہ مسیح کی طرف آئیں تو سب کچھ پاتے ہیں۔ورنہ اپنے خلوص کا ٹوکرا سر پراٹھا کر  جہنم میں جانا ہوگا۔

(۳) فروتنی اور خاکساری بھی خوبی کی صفتیں ہیں۔اور دل کی درستی کے نشان ہو سکتے ہیں۔جب کہ سچی خاکساری ہو ورنہ ہوسکتا ہے کہ ظاہر میں فروتنی ہو اور باطن  میں پوشیدہ غرور ناپاک مطلب بھرے ہوں۔بعض لوگوں نے فروتنی کو اس لیے اختیار کیا ہے کہ لوگوں سے ان کی تعریف ہواور ان کے بہت دوست اور مرید ہو جائیں۔ایسی فروتنی ناپاک مراد کے ساتھ غیر مفید اور بلکہ عین گناہ ہے۔حقیقی    فروتنی  وہ ہےجس کا ذکر مسیح خداوند نے کیامبارک ہیں وہ جو دل کے غریب ہیں۔خواہ بظاہر شان و شوکت میں ہوں لیکن اندر دل غریب ہے۔ایسے لوگوں کے ساتتد برکت کا وعدہ ہے۔

(۱) صوفیہ کا ریاضت  پر بہت زور ہے۔اور اکثر دیکھا جاتا ہے کہ جب کوئی آدمی دنیاسے الگ ہو کر ریاضیت و عبادت میں مشغول ہوتا ہےتب وہ بہت ہی جلد پیر بن  جاتا ہےاور احمق لوگ ریاضت پر فریفتہ ہو کر اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔اوراس کے لیے کرامتیں تصنیف کرڈالتے اورچرچے اڑاتے  ہیں۔یہ سب پیر اسی طرح سے پیر مشہور  پوتے ہیں۔اوراب بھی اگر کوئی چاہے کہ میں پیر بن جاؤں تو وہ دو کام کرےاول وہ ایسی جگہ جائے جہاں بہت زیادہ جاہل ہوں۔وہاں بیٹھ کر دنیا سے کچھ نفرت دکھائےاور ریاضت کرے۔پھر دیکھو کہ وہ جلد پیر بن جاتا ہےنہیں۔ہندوں اور مسلمان فقیروں  نے ریاضت ہی دکھلاکر جاہلوں کو اپنی طرف کھینچا ہے۔لیکن دانشمند لوگ صرف ریاضت پر ہی فریفتہ نہیں ہوتے۔دیکھو رسول کیا فرماتا ہے(فلپیوں۔۔۔۲۔۲۳) یہ چیزیں تو ایجاد کی ہوئیں عبادت اور خاکساری اور بدنی ریاضت اور تن کی عزت نہ کرنا کہ اس کی خواہشیں پوری ہوں حکمت کی صورت رکھتی ہے۔

صورت بغیر جان کے مردہ ہے۔دانشمند جان کی تلاش کرتا ہے۔نہ کہ صرف صورت کی۔مگر جاہل صرف صورت پر فریفتہ ہوتے ہیں۔پھر رسول بتلاتا ہے۔کہ ریاضت کی دو قسمیں ہیں۔ایک بدنی ریاضت ہے اوردوسری دینداری کی ریاضت (۱ تمطاؤس ۴۔۷، ۸) بے ہودہ اور بوڑھیوں کی کہانیوں سے منہ موڑ اور دینداری میں ریاضت کر کہ بدنی ریاضت کافائدہ تھوڑا ہے۔پر دینداری سب باتوں کے واسطے فائدہ مند ہے۔کہ اب کی اور آیندہ کی زندگی کاوعدہ اسی کے لیے ہے۔وہ ریاضت جو دینداری میں ہے۔اس کا علاقہ ایمانِ بر حق اور تمام صحیح عقائد اور حقیقی نیک اعمال اور حمیدہ اخلاق ہےاور بدنی ریاضت کا علاقہ ان جسمانی تکلیفات کی برداشت سے ہے۔جو امور ایجادی ہیں انسانی تجویز سے ہیں۔صوفیہ میں اور ہندو فقیروں میں بدنی ریاضت بہت ہوتی ہے۔لیکن  دینداری کی ریاضت صرف ان حقیقی مسیحیوں میں ہے جو خدا کے کلام پر چلنے کی کوشش میں رہتے  ہیں۔ان کو دنیا کے درمیان سب معاملات میں رہ کر بڑی نفس کشی کرنی پڑتی ہے۔اور یہی ریاضت مفید و آفرین کے لائق ہے۔

(۲) اور یہ جو ترک دنیا کا ذکر وہ کرتے ہیں۔یہ مضمون بھی سخت غورِ طلب ہے۔ترک دنیا کی دو صورتیں ہیں۔اول دنیا کی محبت اور خدمت دلوں میں ایسی غالب نہ رہے کہ خدا کی محبت اورخدمت میں قصور آجائے۔دنیا کے سب مناسب کاروبار اور اہلِ رشتہ کے حقوق خدا کے حکم سے اور عقل کے حکم سے فطرت کے موافق پورے کرنا انسان کا فرض ہے۔اور ایسا فرض ہے کہ اس میں قصور آئے تو آدمی خدا کا گناہگار ہوتا ہے۔اور وہ اس میں ایسادھسے کہ خداکی محبت اور خدمت میں قصور آئے تو وہ ملعون ہوتا ہے۔اس کو ضرور ہے کہ وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو پورا کرے۔پس جب ہم ترکِ دنیا کا ذکر سنتے ہیں تو یہی مطلب ہمارے خیالوں میں آتا ہے۔کہ دنیا کی محبت  خدا کی محبت پر غالب نہ آجائے۔جیسے سب دنیا داروں کی کیفیت ہے۔یہ ہم ہرگز نہیں سمجھتے کہ دنیا  کے سب کارو بار کو چھوڑ کر ہمیں جنگلوں میں جانا ضرور ہے۔یہ دنیا کو ترک کرنے کی دوسری قسم ہے۔لیکن اس قسم میں حقوق العباد متعلقہ فوت ہوتے ہیں۔اور خدا کی اور عقل کی اورفطرت کی نافرمانی ہوتی ہے۔پھر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم ایسے نافرمان ہو کر کیونکر  خداسے برکت پائیں گے؟کیا وہ اپنےنافرمانوں کو اپنا دوست سمجھے گا؟

صوفیہ نے یہ سمجھ لیا  ہے کہ دنیا سے مطلقاً  بھاگنا خدا پرستی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ صورت گناہ کی ہے۔مخالفوں کے درمیان کھڑا رہ کر اور جنگ کرکے فتح یاب ہونا بہادری ہے یا مخالفوں کے ڈر سے دور بھاگ جانا اور کہنا کہ میں دشمنوں سے جان بچا کر بھاگ آیا ہوں۔اس لیے میں بہادرہوں۔اب فرمایئے کہ بادشاہ کون سے سپاہی سے کہے گا کہ تو بہادر تیرے لیے انعام ہے پہلا شخص مسیحی ہے اور دوسرا صوفی ہے۔