۲۲ ۔فصل حبس کے بیان میں
تیسری تعلیم صوفیہ کی حبس ہے۔ جب وہ دیکھتے ہیں نفی اثبات کے ذکر سے دماغ میں خلل نہیں آیا تب حبس یعنی سانس گھوٹنے کی تعلیم دیتے ہیں۔
طریقہ اس کا یہ ہے کہ خلوت میں اکیلا دو زانوں میں بیٹھے اور دونوں ہاتھوں کے دونوں انگوٹھوں سے کانوں کے دونوں سوراخ بند کرکے اور انگوٹھوں کے پاس والی دونوں انگلیوں سے دونوں آنکھیں بند کرے اور درمیانی دو انگلیوں سےدونوں سوراخ ناک کے دباکر بند کرے پھر دو انگلیوں سے اوپر کے ہونٹ اور دو سے نیچے کے ہونٹ خوب دباکر بند کرےایسا کہ سانس لینے کی جگہ کہیں نہ رہےاس وقت خیال میں گدی کی طرف متوجہ ہو کیونکہ روح ان کے گمان وہاں رہتی ہے۔اور اب جو ہوا سانس کے اندر بند ہو گئی ہےاس سے ذکر نفی اثبات کا دل میں جاری کرے جب تنگ ہو کے جان اندر سے گھبرائے تو ہاتھ ہٹا کر سانس لینا چاہیےپھر اسی طرح بند کر لینا ۔ہر روز ایسا کرنے سے سانس گھوٹنے کی عادت بڑھتی جائے گی۔یہاں تک کہ دیر دتک سانس گھونٹا کرے گا۔یہ ایسی مشقت ہے کہ ایامِ سرما میں عرق آجاتاہےاور رگوں اور پٹھوں میں تشنج اور عضا رئیسہ کے فطری کام میں خلل آتا ہے اور اس خلل کو وہ الٰہی جذبہ سمجھتے ہیں۔یہ تعلیم ہند و جوگیوں سے صوفیوں نے اڑائی ہےاور محمدی کا کلمہ کا ذکر اس میں اپنی طرف سے ملا دیا ہے۔اورجو کچھ اس سے بدن پر تاثیر ہوتی ہےوہ اس کو کلمہ کی تاثیر سمجھتے ہیں حالانکہ وہ مشقت کی تاثیر ہے اور دیوانگی کی جسمانی تاثیر ہے وہ فضلِ الٰہی کا اثر نہیں ہے۔بعض محمدی اس طریقہ حبس کو بدعت کہتے ہیں لیکن صوفی نہیں مانتے کیونکہ ان کا اس سےبڑا مطلب نکلتا ہےمرید کی عقل مارکر جلد اسےولی بناتے ہیں۔افسوس یہ ہے کہ یہ لوگ خدا کے کلام کے پاس نہیں آتے نہ خدا کی راہوں کو دریافت کرتے ہیں۔فقیروں کے بہکائے ہوئے اِدھر اُدھر بے فائدہ مشقت کھینچتے پھرتے ہیں اور دماغی خلل حاصل کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم خدا سے ملیں گے۔خدا کیا ہے؟اور اس سے کیونکر مل سکتے ہیں؟ اور اس سے مل کراس دنیا میں ہمیں کیا حاصل ہوتا ہے؟اور کیسی امید آئندہ کے لیے ہوجاتی ہے؟ان باتوں کو انہوں نےا ب تک دریافت نہیں کیا۔
یاد رکھو کہ سانس کی رگڑوں سےاور دم گھوٹنے سے اور کسی جسمانی زور سے خدا نہیں ملتا ۔پاک اور صحیح ایمان کی قلبی توجہ سے وہ ملتا ہےیہ بابئل کا طریقہ ہے۔