۱ ۔پہلی فصل زمانہ گزشتہ وحال کی کیفیت میں
ہر عقل مند آدمی کو اسبات میں کچھ شک و شبہ نہیں کہ زمانۂ گزشتہ میں درمیاں خیالات مردم دنیا کے خصوصاً غیراقوام کے درمیان سخت اند ھیرا تھا اور اِس وقت دنیا میں بہت روشنی اور تھوڑا اندھیرا ہے۔بعض اندھیرے کے اسباب باانتظام خدا رفتہ رفتہ اٹھ گئے ہیں اور اٹھتے چلے جاتے ہیں۔
گزشتہ زمانے کی نسبت اب لوگوں کے تجربات بڑھ گئےہیں۔اب ہمیں وہ باتیں معلوم ہو گی ہیں۔جو کہ پہلے لوگوں کو معلوم نہ تھیں۔اگلے زمانے میں اپنے اپنے ملک کے درمیان گھرے ہوئے بیٹھےتھےدور دراز کے ممالک کے باشندوں سے خط و کتابت اور ملا قات کا موقع نہ تھا کہ آپس میں خیالات کو مقابلہ کرکے صحیح و سقیم میں امتیاز کرسکتے۔اب یہ موقع خوب حاصل ہے۔
اگلے زمانے میں چھاپہ خانے نہ تھےاور یہ حکمت آدمیوں کو معلوم نہ تھی۔پس وہ اپنے اپنے خیالات کی کتابیں اپنی زبان میں بمشکل قلم سے لکھا کرتے اور لکھواتے تھے۔ اور بہت سے دقت سے تھوڑے نسخےموجود ہوتے تھے۔اور بڑی قیمت سے بکتے تھے۔اب کتابیں عام ہو گئی ہیں۔
اگلے زمانے میں پڑھنے لکھنے کا عام رواج بھی نہ تھا۔ہزاروں جاہل اشخاص ان پڑھ ہوتے تھے۔اور عالم فاضل تو بہت ہی تھوڑے ہوتے تھے۔اور وہ بھی صرف اپنے ملکی خیالات کے عالم ہوا کرتے تھے۔نہ جہان کی باتوں سے آگاہ اور سب جاہل ہدایت کے لیے ان کے منہ کی طرف تاکتے تھے۔اب یہ باتیں دفع ہو گئیں۔ڈاک اور ریل اور تار اور مدرسوں مطبعات اور کثرت کتب اور اخبارات اور تعلیم عام اور ملکی اسن چین وغیرہ سے دنیا کا رنگ ہی بدل گیااورروشنی کازمانہ آ گیا ہے۔
گزشتہ تاریکی کے عہد میں ہر ہر ملک کے لوگوں میں سےبعض چتر آدمیوں نے بقدر اپنی اپنی فہمید کے دین و دنیا کے انتظام کے لیے کچھ کچھ مذاہب اور دستورات جاری کرلیے ہیں جنہیں اس وقت کچھ باتیں صحیح اور منا سب اور غلط اور غیر مناسب نظر آتی ہیں۔بلکہ اس روشنی کے زمانے کے درمیان مذاہب اور دستورات دنیا کے عجیب کہلبلی مچی ہوئی ہے۔بعض اپنے مذہبوں کو چھوڑ کر دوسرے مذہبوں میں چلے جاتے ہیں۔بعض اپنے قدیم مذہب کی مرمت کرتے ہیں۔بعض لا مذہب ہو بیٹھتے ہیں اور بالکل جھوٹ بولتے ہیں۔کہ ہم اپنے قدیم مذہب پر ہیں۔جب کہ قدیم خیالات و دستورات چھوڑ دیا ہے ۔ ہاں بعض ہیں جوکہ بےفقری سے لیکر کے فقیر ہیں۔
اب فکر کیجیے کہ یہ کہلبلی دنیا میں کیوں پڑی ہے۔اسی روشنی کے سبب جو کہ اب دنیا میں آگئی ہے۔ان لوگوں نے اپنے مذاہب قدیمہ کے درمیان اس روشنی کی کچھ غلطیاں دیکھیں اور ان کی تمیز نے انہیں بے چین کیا۔تب سے وہ کچھ حرکتیں کرنے لگے ہپں۔
یہودی اور عیسائی دین کی کتابیں بھی اسی تاریکی کے عہد میں لکھی گئیں تھی ۔لیکن اس روشنی کےزمانے میں وہی ایک عیسائی دین ہے ہر منصف اور عاقبت اندیش آدمی کے خیال میں قائیم رہ سکتا ہے اور بغیر اس کے وہ کہیں تسلی نہیں پاسکتا۔بلکہ جس قدر یہ روشنی دنیا میں زیادہ بڑھتی ہے۔اُسی قدر زیادہ زیادہ اس دین کی خوبی ظاہر ہوتی جاتی ہے۔یہ دین تمام دنیا کی حدوں تک دوڑ گیااور اس دین کی اصل کتاب یعنی بائبل شریف دو سو پچاس زبانوں سے زیادہ میں ترجمہ ہو کر عام ہو گئی۔اوریوں اس دین کا مقابلہ دنیا کے تمام مذاہب کے ساتھ خوب ہو گیااور ہو رہا ہے۔ اس نے دنیا کے سب مذہبوں کو گرا دیا ہےاور کوئی دنیا کا مذہب اس پر غالب نہ آیااور نہ آسکتا ہے۔اس لیے کہ یہ خدا سے ہے۔اگرچہ اس عہد تاریکی میں جاری ہوا۔مگر خدا سے جاری ہواتھا لہذا اس عہدِروشنی میں قائم اور مضبوط رہتا ہے۔اہلِ دنیا کے مذاہب انسانوں سے تھے اس لیے وہ شکست کھا گئے۔لیکن خدا کی ڈالی ہوئی بنیاد محکم ہے اسےا بد تک جنبش نہ ہو گی۔اور وہی عیسائی دین ہے۔
ہاں بعض دنیاوی عقلمندوں نےاس دین کا بھی بڑی سختی سے مقابلہ کیا ہےاور اس پر کچھ اعتراض کیے ہیں۔کیونکہ کوئی بات خواہ حق ہو یا نا حق لوگوں نے بغیر اعتراض کیے نہیں چھوڑی خدا کی پاک ذات پر بھی ملحدوں نے اعتراض کیے ہیں۔لیکن صرف اعتراضوں سے کوئی بات باطل نہیں ہو سکتی ہے۔جب تک کہ واجبی اعتراض اس کو کہا نہ جائے۔دیگر مذاہب پر جو اعتراض ہوئے ہیں وہ ان پر کیے گئے ہیں۔مگر مسیحی دین پر جو اعتراض ہوئےہیں وہ اسے باطل نہیں کرسکتے۔بلکہ الٹے معترض کی حالت پر واقع ہوتے ہیں۔
ہم لوگ جو عیسائی ہیں اور خود کو خدا اور اپنی تمیزوں کے سامنے باانصاف سمجھتے ہیں ۔ہم نے اپنی باتوں پر حتٰی المقدور باانصاف فکر کیا ہے۔ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ جن اصولوں پر دینِ عیسائی قائم ہے۔ان کا ماننا ہر فردِ بشر پر اس روشنی کے زما نہ میں بھی زیادہ تر فرض ہےاور جن اصولوں پر قائم ہو کر ہمارے مخالف بولتے ہیں وہ اصول عقلاً باطل اور مکروہ ہیں۔اس لیے ان کے اعتراض بھی نالائق ہوتے ہیں اور ہمارے دلوں میں سے دین عیسائی کو ہلا نہیں سکتے۔پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ مخالف شکست خوردہ ہیں اور دین ِ عیسائی فتحمند ہے ہر قسم کے مخالف پر یعنی دنیاوی مذاہب کے خیالات پر اور تمام جسمانی و روحانی بد خواہشوں پر اور سب اہل الحاد پر بلکہ تمام ظالم بادشاہ ہوں کی تلواروں پر اور سب سلیم الطبع عاقبت اندیش آدمیوں کے دلوں میں بھی ۔
چار لفظ عہدِ عتیق میں ایسے ہیں۔جن پر اس وقت فکر کرنا چاہئے ۔اول اندھیرا۔ دوئم موت کاسایہ ۔سوئم چراغ۔چہارم آفتابِ صداقت پہلے ساری دنیا میں اندھیرا تھااورموت کے سائے میں سب بیٹھے تھے۔لیکن یہودیوں پر موت کا سایہ نہ تھا۔ان پرمسیح کا سایہ تھاکہ جو زندگی ہے وہ اس کےنمونوں میں تھے۔ہاں کچھ کچھ اندھیرا ان پر بھی تھا۔مگرایسا جیسا رات کو چراغ آدمیوں کے اردگرد ہوتا ہے۔کیونکہ ان کے پاس خدا کا کلام تھا۔جو کہ چراغ کی مانند تھااوراس چراغ کو روشنی میں یہ دکھلایا گیاتھاکہ آفتابِ صداقت نکلنے والا ہے۔اور وہ سارے جہان کو روشن کرے گا۔سچائی کے اظہار سے۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا مسیح کی روشنی سے کہ وہ آفتابِ صداقت ہے تمام دنیا میں دھوپ سےکہل گئی ہےاور ہر برائی بھلائی تمام دنیا میں نظر آتی ہے۔سچی باتیں اور جھوٹی باتیں۔آشکارا ہو گئیں ۔بھلے برُے آدمی بھی پوشیدہ نہ رہے ۔پس یہ وقت خدا کے وعدے کے مطابق آیا ہے اورآتا چلا جاتا ہے۔تاریکی اور موت کے نیچے سے نکلنے کا وقت ہی وہ زمانہ ہے کہ اب ہر کوئی اپنے خیالات کواور اپنے مذہب کی باتوں کو بلکہ اپنے آپ کو بھی انجیل کے سامنے لائے اور بطلان و سچائی میں امتیاز کرے۔اگر اس کے پاس انجیل سے بہترکوئی چیز ہےوہ اسے تھامے رہے۔اور ہمیں بھی دکھلائےاور اگر اس کے پاس محض بطلان اوردھوکا ہے تو وہ گمراہی میں کیوں مرنا چاہتا ہے۔اپنی جان پر رحم کرے اور غلطی میں سے نکلے ۔
صوفیوں کو بھی اِس وقت مسیح کی روشنی میں اپناتصوف اور سلوک لے کر حاضر ہونا واجب ہے اوریہ دیکھنا کہ ان کے پاس کیا کچھ ہے۔لیکن وہ صاحب اب تک گوشوں میں بیٹھے ہو ئے ہُوحق کرتے ہیں اوراپنی خانقاہوں اور مردوں کی قبروں پر سے اٹھ کر زندگی کے درخت کا پھل کھانے کو باہر نہیں آتے میں چاہتا ہوں کہ انہیں ہوشیار کروں اور دائمی استغراق میں سے نکلال کر زندگی کی روشنی میں لاؤں۔میرے بھی بعض بزرگ ہم جد ہیں ۔جو صوفی ہیں ۔اور بہت سے شریف زادے ہیں۔جو اس تصوف کی آفت میں مبتلا ہیں۔خدا تعالیٰ ان کی مدد کرےاور انہیں حیات ِ ابدی میں شامل کریں۔