۲۶ ۔فصل۔نقشبندیہ کی بعض اصطلاحات کے بیان میں۔

 ان لوگوں کے پاس گیارہ لفظ ایسےعمدہ ہیں جن کے سنانے سے وہ سادہ لو حوں  کے دلوں کو اپنی طرف خوب کھینچتے ہیں کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جس آدمی میں یہ گیارہ باتیں ہوںوہ تو  ضرور ولی اللہ ہوں گے۔وہ گیارہ لفظ یہ ہیں۔

 وقوف قلبی وقوف زمانی وقوف عددی ہوش دروم نظر برقزم۔سفر دروطن۔خلوت درانجمن۔یاد کرد باز گشت۔نگاہ داشت۔یاداشت۔

وقوف قلبی یہ ہے کہ ذکر کے مفہوم سےذاکر کا قلب آگاہ رہے۔

میں کہتا ہوں کہ ضربوں کی دہمادم میں ذکر کا مفہوم ایسا گم ہوتا ہے کہ سوا جسمانی رگڑوں کے اور کچھ  نظر نہیں آتاپھر ذکر ہوتا ہے۔لاالہ الااللہ کا جس کا مفہوم یہ ہے کہ سب جھوٹے معبود باطل ہیں خدا سچا معبود برحق ہےصوفیہ نے اس کا مفہوم ہمہ اوست نکالا ہے۔جو لفظوں سےکچھ تعلق نہیں رکھتاپھر وہ کیونکر لفظوں سے چسپاں رہ سکتاہے۔

 میں سمجھتا ہوں کہ وقوف قلبی یہ ہے کہ دل ہر وقت خدا کی حضوری میں رہےذکر ہو یا نہ ہو اور یہ برکت ہم مسیحیوں کو بافضلِ مسیح بلامشقت خوب حاصل ہےکیونکہ اس نے جس کے ہم مرید ہیں ہمارے دلوں میں خدا کی محبت  کو جاری کردیا ہے۔

وقوف زمانی یہ ہے کہ صوفی اپنے حال سے آگاہ رہے۔کہ اس کا ہروقت اطاعت میں گزرتا ہےیا معصیت میں۔یہ کیسی بات ہے جب کہ صوفی ہمہ اوست کا قائل ہے۔اور فاعل ہر فعل کاخدا کو مانتا ہے۔اورو حدت الوجود میں غرق ہے۔پھر اطاعت اور مصیبت کیا چیز ہے۔کیا وہ ایمان لاتا ہے کہ میں فعل مختار انسان ہوں اور بدی مجھ سے ہوتی ہے نہ کہ خدا سےاگر وہ ایسا مانتا ہے تو صوفی نہیں ہے۔پھر ذکر کا فرضی مفہوم اس کے پاس کہاں ہے۔سچاو قوف زمانے سچے مسیحیوں سے ہوتا ہے۔کہ وہ ہر وقت اپنا حساب آپ لیتے رہتے ہیں۔

 وقوف عددی اس کو کہتے ہیں کہ نفی اثبات کا ذکر برعایت طاق ہوا کرے جفت نہ رہے یعنی ۲۰ نر ہے اکیس بارو غیرہ ہوجائے تاکہ جفت جفت الگ کرکے آخر کو تین جو طاق ہیں باقی رہیں۔کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان اللہ وتر یحب الوتر۔اللہ طاق ہے اور طاق کو پیار کرتا ہے۔

مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں کا بیان ۔ حدیث ۸۰۸

اسماء باری تعالیٰ کو یاد کرنے کے لئے بشارت

راوی:

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن لله تعالى تسعة وتسعين اسما مائة إلا واحدا من أحصاها دخل الجنة " . وفي رواية : " وهو وتر يحب الوتر "

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں یعنی ایک کم سو جس شخص نے ان ناموں کو یاد کیا وہ ابتدا ہی میں بغیر عذاب کے جنت میں داخل ہو گا۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ طاق ہے اور طاق کو پسند کرتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

یہ حدیث ہے محمد صاحب کی اور یہ مقام صوفیوں اور مسلمانوں اور مسیحیوں کے لیے فکر کا ہےکیونکہ اس میں محمد صاحب گواہی دیتے ہیں کہ اللہ طاق ہے۔محمدی صوفیوں کو چاہیئے کہ لفظ طاق کا بیان کریں کہ کیا ہے؟کیو نکہ مجرد واحد  تو طاق نہیں ہوسکتا۔اوریہ  حدیث معتبر حدیثیوں میں سے ہے۔اورسب اہلِ ہندسہ جانتے ہیں کہ ایک کا عدد نہ طاق  ہےنہ جفت دو جفت ہے اور تین طاق ہےاورتمام محمدی فلاسفر کہتے ہیں کہ  عدادنیٰ نام ہےتین کا  جس کو انگریزی کالم پرائم نمبر کہتے ہیں۔ اور ہم مسیحی بہدایت کلام  اللہ تعالیٰ کو طاق یعنی تثلیث سمجھتے ہیں۔اور یہ بھی سچ ہے کہ خدا طاق سے پیار کرتا ہے۔کیونکہ اس کی ذات پاک کواس سے مناسبت ہے۔اور یہی سبب ہے کہ اس کی حمد میں آسمان پر فرشتگان عدد طاق کی رعایت رکھتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ قدوس قدوس قدوس رب الافواج۔

 صوفی کہتے ہیں کہ ذکر میں عدد طاق کی رعایت رہے تاکہ خدا اس کو پسند کرے۔ہم کہتے ہیں کہ ذات پاک میں بھی طاق کی رعایت رہےپس ہمارا وقوف عددی کامل ہے ناکہ ان کا انہوں نے ان اللہ وتر کو تو چھوڑ دیاجو اصلی بات تھی اوراس کی جگہ میں ہمہ اوست رکھ  دیا۔لیکن یحب الوتر عمل کرنا چاہتے ہیں۔اخیر اینہم غنیمت است اس مقام کوکئی بار  غورسے پڑھواور اس کا مطلب حفظ کرلو۔

 ہوش دروم کے معنی یہ ہیں کہ صوفی ہر سانس سے آگاہ رہے کہ وہ غفلت میں نہ گزرے۔یہ بات محال ہے  جو ہو نہیں سکتی کیونکہ غفلت جسم کا خاصہ ہے۔دیکھو خود محمد صاحب کیا فرماتے ہیں؟

مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ استغفار وتوبہ کا بیان ۔ حدیث ۸۵۷

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توبہ و استغفار

راوی:

وعن الأغر المزني رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إنه ليغان على قلبي وإني لأستغفر الله في اليوم مائة مرة " . رواه مسلم

حضرت اغر مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ بات ہے کہ میرے دل پر پردہ ڈالا جاتا ہے اور میں دن میں سو مرتبہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں۔ (مسلم)

(انہ لیغانُ علی قلبی)میرے دل پر غفلت کا پردہ آجاتا ہے۔بندے نے اس حدیث کا بیان تعلیمِ میں مفصل لکھ دیا ہے۔اگر خوب سمجھنا چاہوتو وہاں دیکھو۔

 نظر برقدم یہ ہے کہ جب صوفی کہیں اٹھ کر جائے  تو اس کی نظر پیر کی پشت پر رہے تاکہ متفرق چیزوں کو دیکھنے سے طبیعت پراگندہ نہ ہواور نظر بے جا نہ ہو جائے۔پس اس بات کو پسند نہیں کرنا چاہیےکہ سب چیزوں کو جو دنیا میں ہیں دیکھیں۔خدا نے آنکھیں اسی لیے دی ہیں کہ ہم اس  جہان کی چیزوں کو دیکھیں اگر ہم اللہ کے لوگ ہیں اور خدا ہمارا دوست ہو کر ہمارے ساتھ ہےتو ہم ضرور نیک نظر رہیں گے۔اگر خدا ہمارے ساتھ نہیں ہےاور زبر دستی اس کی حضوری کو اپنے خیال میں رکھتے ہیں۔تواس بناوٹ سے ہم کہاں تک نیک رہیں گے۔خواہ نظر بر قدم ہوں۔خواہ بر فلک بد خیالات ضرور دل میں پیدا  ہوں گے۔

 سفر در وطن۔یہ ہے کہ صفات بشریہ سے نکل کر صفات ملکیہ میں جاناصوفی لوگ توہمات میں مبتلا ہیں ہم کیونکر یقین کریں۔کہ وہ صفات بشریہ سے نکل کرصفات ملکیہ میں جایا  کرتے ہیں۔یہ ہم مانتے ہیں کہ جب  قیامت کے دن مومنین نئے بدن میں ہو کر مسیح میں اٹھیں گے۔تب فرشتوں کی مانند ہوں گے۔فی الحال کبھی ایسا وقت بھی آ جاتا ہے کہ خدا کی حضوری کےآثارزیادہ دلوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔اس وقت عجیب خوشی اور جلال کا سایہ دلوں میں محسوس ہوتا ہےاور حمد و ثنا کا لطف آتا ہے جو کہ بیان سے باہر ہے۔میرے گمان میں سفر دروطن یہ ہے کہ کہ آدمی ہمیشہ قدوسیت میں ترقی کرے۔اور جسمانی بد خواہشوں میں سے نکلتا رہےگویا وہ اپنے وطن کےقریب آتا جاتا ہےاور اپنی روح میں آسمانی مسافر ہےجب سفر تمام ہو گا۔تب وطن میں جا پہنچے گا۔ہاں یہ کیفیت ہمارے تجربے میں آ چکی ہےاس لیے ہم اس کے مقر ہیں۔مگر یہ بخشش صرف مسیحی ایماندار کو حاصل ہوتی ہے۔جب کہ وہ خداوند مسیح کا پیرو ہے سوائے مسیحی کے ہو نہیں سکتا کہ کبھی کسی کو حاصل ہو۔

 خلوت در انجمن۔ اس کے معنی ہیں کہ بظاہر جماعت میں اور باطن خدا کے ساتھ رہنا یہ دلی حضوری کا بیان ہے۔جو کہ بہت سے مسیحیوں کو  مسیح کے فضل سے حاصل ہے۔صوفیہ کو اگر کچھ حاصل ہوا بھی تو یہی ہو گاکہ وہ جماعت میں بیٹھا ہے۔اور دل میں اس کے ہمہ اوست ہے۔جو خدا  نہیں ہےایسی خدا کی حضوری سے کیا فائدہ ہے کیونکہ اگر ہمہ اوست کا خیال صحیح ہو  تو خلوت درانجمن تحصیل حاصل ہے۔

 یادکرو۔یہ ہے کہ غفلت کو بکوشش دور کرنا ۔غفلت سے  کیامراد ہے؟اگر غفلت فی الاحکام مراد ہے توفرض ہے کہ وہ غفلت بکوشش دور کی جائےاور ہم بھی اس بات میں اتفاق رکھتے ہیں۔مگر صوفیہ کی مراد یہی معلوم ہوتی ہےکہ خدا کی یاد میں اگر غفلت آئے تو بکوشش دور کرنی چاہیے۔خدا موجود ہے۔یہ خیال تو ایک  ایسا بدیہی ہے کہ ہر حال میں آدمی کو یاد رہتا ہے۔لیکن ہمہ اوست کا خیال جو باتکلف ذہن میں جمایا جاتا ہےوہ ضرور خیال سے نکل بھاگنے والی چیزہے۔اس کے لیے وہ  زور اورکوشش کام میں لاتے ہیں۔

 باز گشت۔یہ ہے کہ پہلے روح میں اللہ کو یاد کریں پھر بزبان دل یاد کریں۔

 نگاہداشت۔یہ ہے کہ کیفیت آگاہی کی حفاظت کی جائے۔

 یادداشت۔یہ ہے کہ نگاہداشت میں پائداری ہو۔یہ سب کچھ بھلا ہے۔بشرطیکہ ذہن میں اس خدا کاخیال ہو جو فی الحقیقت خدا ہے۔کوئی بت پرستوں کا بت نہ ہو۔ورنہ اس کے یہ سب حجت بے فائدہ  اور مضر ہو گی۔بت پرستوں نے پتھر ولکڑی وغیرہ کے خدا تراشے ہیں اور اہلِ عقل و صوفیہ وغیرہ نےخیالی خدا تراشے ہیں وہ خیالی بت ہیں۔حقیقی خدا وہی ہے جس کا ذکر بائبل میں ہے۔کیونکہ خدا نے خود بتلایا کہ میں کیا ہوں؟پس سچے خدا کے لیے جتنی محنت  کرو گے۔پھل پاؤ گے۔اورخیالی بتوں کےلیے  جو محنت ہو گی۔شرمندگی کا باعث ہو گی۔