۲۹ ۔فصل مراقبہ کے بیان میں

لفظ مراقبہ اگر رقابت سےہے تو محافظت کے معنی میں ہےاور جو رقوبت سے ہےتو انتظاری کے معنی ہیں۔صوفیہ مراقبہ بہت کرتے ہیں۔گھروں میں، مسجدوں میں،جنگلوں میں اور خصوصاً بزرگوں کی قبروں پر بیٹھتے ہیں۔اور آنکھیں بند کرکے لطائف خمسہ میں سے کسی لطیفے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔زیادی تر قلب کی طرف۔اور اس کام کی طرف مستغرق ہو جاتے ہیں۔اس امید سے کہ اندر کچھ روشنی نظر آئے گی لیکن اندر کیا ہے صرف اندھیرا۔

 جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ میں نے مراقبہ کا عمدہ طور بلی سے سیکھا ہے۔وہ چوہے کے سوراخ پر ایسی دبکی لگا کر بیٹھی تھی کہ اس کا بال تک نہی ہلتا تھا ۔مجھے خیال آیا کہ مراقبہ اسی طرح چاہیے۔پس میں ایسا ہی مراقبہ کرنے لگا۔(از معمولات مظہریہ)

 معلوم ہو جائے کہ کسی آدمی کے اندر کچھ روشنی نہیں ہے۔صرف گناہ،ناپاکی اور تاریکی ہے۔اگر روشنی دیکھنا چاہتے ہو توکلام اللہ کے مضامین میں فکر کروزندگی کا نور وہاں سے دیکھو گے۔اور اگر چاہو کہ وہ نور ہم میں جلوہ گر ہو تو ایمان کے ساتھ خدا کے احکام بجا لانےاور دعا سے یہ ہو گا۔اور کیا ہو گا؟کہ نہ مثل شعلہ آگ کے اور یامثل دنیاوی دھوپ کے کوئی روشنی چمکے گی۔مگر خیالوں میں ایسی روشنی آجائےگی۔کہ نیک و بد میں خوب تمیز کرو گے۔اور حق کو پہچانوں گے۔اور خدا کے بعض پوشیدہ بھید سمجھو گے۔اور شیطان کی گہرائی دریافت کرکےاس کے جالوں سے بچو گے۔اور روح میں ایک تازگی اور زندگی ظاہر ہوگی  اور اس آیت مقدس کا بھید منکشف ہوگا۔کہا جہان کا نور میں ہوں۔صوفیہ ان مراقبوں میں بے فائدہ وقت خرچ کرتے ہیں۔اس طور سے نہ کسی کو  کچھ حاصل ہوا ہے اور نہ ہو گا۔ہم مسیحی بھی کبھی کبھی آنکھیں بند کرکے۔ذراچپ ہوجاتےہیں۔یہ اس لیے ہے کہ نادیدہ خدا کی طرف ذرا دل کو متوجہ کریں اور دلی حضوری سے خدا کے سامنے جائیں یا اس کا کلام پڑھیں۔اوردعا و نصیحت کریں۔یہ دلی توجہ ہے اور یہی ہمارا مراقبہ ہے۔