۱۲ ۔فصل تقسیم عالم یا مقامات عالم کے بیان میں
صوفی لوگ جہان کو چار حصوں یامقاموں میں تقسیم کرتے ہیں اور ان مقاموں کے نام یوں رکھے ہیں۔اول ناسوت۔ دوئم جبروت۔سوئم ملکوت۔ چہارم لاہوت۔
ناسوت عالم اجسام یعنی اس دنیا کو کہتےہیں۔جبروت صفات الہیہ کی عظمت و جلال کے مقام کو کہتے ہیں۔ملکوت عالم فرشتگان یا عالم ارواح وعالم غیب وعالم اسماء کانام بتلاتے ہیں۔لاہوت ذاتِ الہٰی کا عالم ہے۔جہاں جا کر سالک فنافی اللہ ہو جاتا ہے۔یعنی مفرد ومجرد ہوتا ہے۔
مراۃالاسرار میں لکھا ہے کہ مفردون ہمیشہ مقام لاہوت میں رہتے ہیں۔اور لفظ مقام اس جگہ مجازًاستعمال ہوتا ہے۔ورنہ لاہوت کوئی مقام نہیں وہاں جہات ستہ نہیں ہیں۔وہ تو صرف ذاتِ الٰہی کانام ہے ۔اس کے نیچے جبروت کا مقام ہے۔یعنی جبرو کسر کا مقام اور اس جگہ سے شش جہت کا انتظام شروع ہوتا ہےمعجزات و تصرفات اورتیرا میر بولنااور یہ اور وہ کا لفظ یہاں استعمال ہوتا ہےاور یہ خدا کے تخت کامقام ہے۔اور اس جگہ سے لے کر زمین کی خاک تک قطب عالم کا تصرف مانتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ لاہوت میں جبروت کا خیال کفر ہے۔وہ لوگ جو لاہوت میں پہنچتے ہیں مقام جبروت میں واپس آکر معجزات وغیرہ کیا کرتے ہیں۔اور اس وقت وہ لوگ لاہوت سے گرے ہوتے ہیں۔
عبدالرزاق کاشی سے منقول ہے کہ لاہوت صوفیہ کے نزدیک وہ حیات ہے جو تمام اشیا میں سرایت کیے ہوئے ہے۔اور مقام ناسوت اور روحِ انسانی اس لاہوت کا محل ہے۔اسی مضمون پر کسی صوفی کا یہ شعر ہے۔
روح شمع وشعاع اوست حیات | خانہ روشن ازو داو از ذات |
میں کہتا ہوں کہ اگرچہ عام صوفی لفظ جبروت سے عالم جبرع کسی مراد لیتے ہیں تو درحقیقت لفظ جبروت جبر سے مبالغہ ہے۔جس کے معنی ہیں بڑی زبر دستی اور بڑی بلندی پس خدا کی وہ شان جس سے وہ سب چیزوں حکومت اور بلندی رکھتا ہے اسی شان کانام جبروت ہے۔اور وہ ذات پاک جس کی وہ شان ہےاسی کا نام لاہوت ہے۔پس لفظ جبروت سے صفات قدیمہ پر اور لفظ لاہوت سے ذات پاک پر اور لفظ ملکوت سے عالمِ بالا پر اور لفظ ناسوت سے عالم ِ اجسام پر اشارہ ہوتا ہے۔اور اس نشان پربظاہر کچھ نقصان نہیں ہے۔البتہ وہ کیفیتیں جو ان مقاموں میں صوفیہ نے اپنی عقل سے اپنے ولیوں کے لیے فرض کی ہیں کہ یہاں یہ ہوتا ہے۔اور وہاں وہ ہوتا ہے۔اس کا ثبوت بدلیل ان کے ذمے ہے۔میں ان کے اس بیان کو محض وہم سمجھتا ہوں۔