۲۷ ۔ فصل لطائف خمسہ کے بیان میں

طریقہ مجددیہ والے کہتے ہیں کہ تمام عالم کی دو قسمیں ہیں۔عالم خلق اور  عالم امر۔ عرش یعنی خدا کے تخت کے نیچے کا جہان عالم خلق ہے اورعرش کے اوپر کا جہان عالم امر ہےان دونوں عالموں کے مجموعہ  کانام عالم کبیر ہےاور عالم صغیر ہر ایک انسان ہے۔

 عالم خلق کے پانچ اصول ہیں۔یعنی نفس اور عناصر اربعہ اورعالم امر کے پانچ اصول ہیں قلب ۔روح۔سرخفنی ۔اخفیٰ پس عالم کبیر مرکب ہے۔اجزا عشرہ ہیں پھر وہ کہتے ہیں کہ جب خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے تو عالم کبیر کے سانچے پر گویا ایک عالم صغیر سا بنایاہے کیونکہ انہیں عالم کبیرکی سب چیزیں اس میں معلوم ہوتی ہیں۔پانچواں اصول عالم خلق کے اس میں ہیں یعنی اربعہ عناصر اور نفسِ ناطقہ اورپانچواں اصول عالم امر کے اس میں یوں فرض کرتے ہیں۔کہ قلب کو جو عالم امر کا ایک لطیفہ ہے۔صنوبری گوشت کے ٹکڑے میں اللہ نے رکھا ہے۔اورروح کو عالم امر کا دوسرالطیفہ ہےبائیں پسلی کے نیچے رکھا ہےاورسر کو وسطی سینہ اور روح کے مابین جگہ دی ہے۔اور خفی کو روح اور سرکے درمیان رکھا  اور اخفی کو ٹھیک وسط سینہ میں رکھا دیاہے۔

 پس اب کمال حاصل کرنے کے لیے اولاً قلب کی صفائی چاہیےپھر دیگر لطائف میں بذریعہ  ذکر کے صفائی ہوتی رہے گی۔اور جب تمام لطائف صاف ہوں گےتب آدمی فنافی اللہ ہو جائے گا۔

میرے گمان میں یہ ان کا بیان بے اصل صرف وہم ہے۔کیونکہ وہ خوداپنے اس بیان کو نہیں سمجھاسکتے کہ یہ کیا بات ہے؟اور نہ اس کا ثبوت دے سکتے ہیں ۔ہاں عناصر کی بابت کچھ باتیں کرسکتے ہیں۔سو بھی اسی درجہ کے تک اہلِ علم نے لکھا ہے کہ مگر لطائف کی بابت جو کہتے ہیں کہ وہ وہمی بیان ہے۔عالم کبیر کو کسی بشر نے نہیں دیکھااور نہ انسان دیکھ سکتا ہے۔کون جانتا ہے کہ عالم کبیر کی کیفیت کیا ہے؟یہ علم صرف خدا کو ہے۔اور محمد صاحب فرماتے ہیں کہ (وما اوتیتم من العلم الاقلیلاً) تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔پھر ان صوفیہ نے کیونکر عالم کبیر کی کیفیت سےآگاہ ہو کر اس کا خلاصہ انسان میں پایا ہے۔خیر اس بحث کوچھوڑتا ہوں کہ انسان عالم صغیر ہے کہ نہیں۔لیکن اس بات کومانتا ہوں کہ انسان خدا کی صورت پر بنایاگیااورآزاد تھا۔اس کی وہ صورت الٰہی گناہ اور اس کے وبال کے سبب سے بگڑ گئی ہےاور وہ لعنتی ہو گیا ہے۔مسیح خداوند اس لیے دنیا میں آیا کہ فرمانبردار مومن کی بگڑی ہوئی صورت کو اپنی قدرت کی تاثیر سے بحالی بخشے اوراس پر سے لعنت کو ہٹا دے۔

 یہ بھی سچ ہے کہ اولاً قلب کی صفائی چاہیے کیونکہ قلب ہر انسانیت کی انسانی زندگی کا مرکز ہے۔لیکن میرا سوال صوفیہ سے یہ ہے کہ پہلے صاف صاف ان باتوں کا فیصلہ کرو۔کہ قلب وغیرہ میں کیوں کدورت آگئی اور کیا کدورت ہے؟بگمان شماسب کچھ خدا میں سےنکلا ہے۔کیا کدورت بھی خدا میں سے نکلی ہے؟اگر وہاں سے نکلی ہے توکدورت بھی خدا ہے۔اسے کیوں پھینکتے ہو۔کیوں ریاضت بے فائدہ  کرتے ہو۔ایک قدم پیغمبروں کے گھر  میں دوسرا بت خانے میں رکھتے ہو۔پس تم سوچو کہ کدھر کے ہو اور کہاں کی بولتے ہو۔