۴ ۔فصل اقسام صوفیہ کے بیان میں
صوفیہ کی اقسام دو طرح کی ہیں۔اول خاندانوں کے اعتبار سے اور دوئم ان کی باطنی حالت کے اعتبار سے ۔خاندانوں کے اعتبار سے یہ کیفیت ہے کہ اسلام میں جو ۷۲ فرقے اختلاف رائے سے پیدا ہوتے ہیں۔ان سے کچھ ہی زیادہ فرقے ان میں مشخیت کے لیے پیدا ہوئےہیں خاندانوں کے اعتبار سے کہتے ہیں کہ وہ جو چار پیر تھے ان سے چودہ خانوادے نکلے ہیں۔
زیدیہ۔عیاضیہ ۔ اوہمیہ ہیبئریہ ۔چشتیہ ۔ عجمیہ۔ طیفوریہ۔ کرضیہ۔ سقطیہ۔ جنیدیہ۔ کاردینہ طوسیہ۔ سہروردیہ۔ فردوسیہ ۔پہران چودہ سے اور فرقے اس قدر نکلے کہ مصنف لوگ جمع نہیں کرسکتے ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں۔قادریہ۔ یسویہ ۔نقشبندیہ۔ نوریہ۔ شطاریہ۔ خضرویہ۔نجاریہ۔ زاہدیہ ۔ الضاریہ ۔ صفویہ۔ عید روسیہ وغیرہ۔اورمشرب قلندریہ میں سے بھی مدرایہ رسول شاہی ۔ نوشاہی وغیرہ قسم قسم کے فقیر ہندوستان میں پھرتے ہوئےملتے ہیں۔اور اپنے فرقوں کے نام بتلاتے ہیں اور اسی کو خوبی سمجھتے ہیں۔ کہ ہم فلاں فرقے کے ہیں ۔وہ اپنے فرقے کے نام سے روٹی کما کر کھاتے ہیں۔ اور اکثر ان میں محض جاہل اور نکارہ سست لوگ ہیں جو محنت کرکے کھانا نہیں چاہتے ۔ غیروں سے خوراک پانا اورنشہ بازی کیے لیے کچھ دام حاصل کرنا اپنی فقیری کامنشا سمجھتے ہیں۔
پھر صوفی کہتے ہیں کہ بااعتبار باطنی کیفیت کے ہمارے درمیان تین قسم کے لوگ ہیں۔ واصلان۔متوسطان۔مقیمان۔
مقیمان وہ صوفی ہیں جو اپنی دنیاوی کیفیت میں قائم رہتے ہیں۔ اپنی بری حالت کو چھوڑ کر مدارج تصوف میں ترقی نہیں کرتے ان لوگوں کو متصوفہ کہتے ہیں یعنی چھوٹے صوفی۔یہ لوگ شکم پرور اور دنیا دار ہیں۔ کپڑے رنگے ہوئے ہاتھ میں ہاتھ تسبیح منہ میں سبحان اللہ وغیرہ الفاظ بولتے، مقبروں اور پیروں کی تعریفیں کرتے اور ان کے عرسوں یا میلوں کی تاریخیں یاد رکھتے اور ختم سناکے اچھےکھانے اوڑاتے اور دن رات پیسہ پیدا کرنے کی ایسی فکر ہوتی ہے جیسے ایمان دار خدا کی تلاش کرتا ہے۔دیہاتی نادانوں کی طرف بہت جاتے ہیں۔ اور ان کو مرید بناتے اور ان کا مال کھا جاتے ہیں۔اور ان کی تعلیم اور صحبت سے اور لوگ اسی قسم کے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ چلہ کشی یاورد خوانی وغیرہ کچھ کام بھی اگر کرتے ہیں تومنشایہی ہوتا ہے کہ لوگوں کے دل اپنی طرف مائل کریں۔اور جب کوئی دولت مند ذی اختیار ان کے ان کے پنجےمیں پھنس جاتا ہے اور ان کی عزت کرتا یا کچھ زمے داری بخش دیتا ہے یا مرنے کے بعد کسی کا مزار بنا دیتا ہے۔تو یہ بات ان کے کمال کی دلیل سمجھی جاتی اور اس کا ذکر پشتوں تک چلاآتا ہے۔کہ فلاں صاحب ایسے بزرگ تھے کہ فلاں امیر نے ان کو یہ کچھ بخشد یا تھا۔ بعض ان میں سے ایسے بھی ہیں جن کے پاس کچھ اثاثہ زمینداری یا کسی خانقاہ کی آمد کاجو ان کے آبا ءنے اسی طرح پیدا کیاتھاموجود ہےوہ عزت سے رہتے اور غریب صوفیوں کو بھی کچھ کھلاتے اور مہمان داری کرتے ہیں روٹیاں تقسیم فرماتے ہیں۔اور اس وجہ سےدور دور تک تعریفیں ہوتی ہیں اور وہ اس تعریف سے بہت خوش ہوتے ہیں۔کیونکہ آمد بڑھتی اور ولی اللہ مشہور ہوتے ہیں۔اور اس کے ساتھ جب خوش اخلاقی ظاہر کرتے ہیں۔تب زیادہ رونق ہوتی ہے۔لیکن بعض ان میں سخت دل،متعصب اور شہوانی شخص ہوتے ہیں۔
متوسطان وہ ہیں جو مقیمان کے اوپر اور واصلاں کے نیچے سمجھے گئےہیں انہوں نےد نیا کو کسی قدر چھوڑا اور تصوف کے طریقوں کو اختیار کیا ہے۔ لیکن ابھی تک خدا کے پاس نہیں پہنچنے کوشش کررہے ہیں کہ پہنچ جائیں ان کو سالکین کہتے ہیں ۔
میں دیکھتا ہوں کہ ایسے صوفیہ میں کہیں کہیں نظر آجاتے ہیں۔سو مقیمان میں شاید پانچ ایسے ہوں۔ان میں کچھ تو خدا کی محبت ہےجس کی سبب سے انہوں نے جفا کشی اختیار کی ہےاور کچھ اپنا دنیاوی آرام چھوڑا ہے۔ اس لیے وہ عزت اور محبت اور ہم نشینی کے لائق ہیں۔ان کی نسبت مجھے یہی افسوس ہے کہ جس راہ پر وہ چلے جاتے ہیں۔وہ راہ خدا سے ملنے کی نہیں ہے۔بے فائدہ مشقت کھینچتے ہیں۔ان اطوار سے جو انہوں نے اختیار کیے ہیں۔خدا کو کبھی نہ پائیں گے۔ میں ان کی منت کرتا ہوں کہ میری یہ باتیں سن کر خفا نہ ہوں۔بلکہ فکر میں پڑ جائیں۔اور غور کریں کہ جو کچھ اس کتاب میں بیان ہوا ہےسچ ہے یا نہیں۔
ان متوسطان میں سے کئی ایک آدمی ہمارے مسیحیوں کی جماعت میں بھی آ ملے ہیں ۔اور دینِ مسیحیت کا انہیں لطف حاصل ہوا ہے۔کیونکہ وہ سچائی کے بھوکے اور رضیاتوں کے تھکے ماندے تھے۔جب وہ مسیح کے پاس آئے مسیح نے بموجب اپنے وعدے کے (متی 1۱۔۸) ان کے دلوں میں آرام داخل کردیا۔اب وہ خدا کا شکر کرتے ہیں کہ صوفیوں کے جال سے نکلے اور پیغمبروں کی جماعت میں آئےاور خدا کو فی الحقیقت پایااور اس سے فضل حاصل کیا جودلوں اور خیالوں میں جلوہ گر ہواہے اور تبدیل ہو کر نئے انسان ہو گئے ہیں۔اب پورا یقین ہے کہ وہ انتقال کے بعد وہ حقیقی آرام میں پہنچیں گے۔کیونکہ اسی زندگی میں خدا کی قدرت اور محبت کا ہاتھ اپنی طرف دیکھتے ہیں ۔پس یہ لوگ ان صوفی متوسطان کو بہت یاد کرتے ہیں جن کو غلطی میں پیچھے چھوڑا ہےان کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں۔کہ خدا تعالیٰ ان کو بھی اس گرداب میں سے ایسا نکالے کہ جیسا ہمیں نکالا ہے۔کیونکہ وہ جو پیچھے رہ گئے ہیں وہ بکواسی اور شریر نہیں صرف بھول میں ہیں۔
واصلان وہ صوفی سمجھے گئے ہیں جو کہ ان مقیمان اور متوسطان کے گمان میں خدا سے مل گئے ہیں ۔تصوف یا سلوک کی منزلیں طے کرکے منزل مقصود کو پہنچے ہیں۔یہی بیان اس کتاب میں بڑی بحث کا ہے۔
اس لیے میں صاف صاف کہتا ہوں کہ ایسے اشخاص جن کو واصلان کہا جائےصوفیہ میں کبھی ہوئے نہ کبھی ہوں گئے۔یہ صوفیوں کا وہم ہے جو وہ کہتے ہیں ہم میں واصلان بھی گزرے ہیں۔
اور وہ جو ان میں بڑے بڑے نامور ولی اللہ مشہور ہیں۔ جن کے عالی شان مقبرے بنے ہوئے ہیں۔جہاں میلوں اورعرسوں کے وقت مریدوں اور پیر زادوں اور عوام مرد عورت کا ہجوم اور چراغوں اور غلافوں اور چورو ناچ اور حال قال اور ماہ و ساوں میں پنکھیوں کی دھوم رہتی ہے۔یہ ساری کیفیتیں دلائل ولایت واصلان حق ہونے کے شان نہیں ہیں۔یہ تو پیر زادوں کی دکانداری ہے۔ البتہ وہ بزرگ اپنے اپنے زمانے میں بطور صوفیہ خدا پرست اور نیک ہونگےلیکن واصلان میں سے وہ ہرگز نہ تھے۔ وہ سب سلوک ہی میں مر گئے۔ہاں ان کے سلوک میں زیادہ استغراق دیکھ کر لوگوں نے انہیں واصلان میں سمجھ لیا ہے۔اور انہیں اڑایا ہے تاکہ وہ جاہلوں میں سے پوجے جائیں اور پیر زادے حلوے کھائیں۔اور ان کے نام سے عزت حاصل کریں کہ ہم اتنے بڑے شخص کی اولاد میں سے ہیں۔آؤ ہمارے پیر وں کو ہاتھ لگاؤ اور نذرانہ لاؤ۔
اس مقام پر یہ سوال لازم ہے کہ واصلان حق کے کیا معنی ہیں اور وہ جو واصلان ہیں کیونکر پہچانے جاتے ہیں۔پہلے اس سوال کا تصفیہ کرو۔پھر کہنا کہ کون واصل اور کون فاضل ہے۔
اس سوال کا جواب صوفیہ کی بعض تحریرات سے یوں برآمد ہوتا ہےکہ جو لوگ ہمہ اوست کے خیال میں پختہ ہو گئےہیں۔وہی ان کے گمان میں واصلان ہیں گویا خدا میں وصل ہوگئے ہیں۔اور وہ جو ان کی کچھ کرامتیں اورمکاشفے مذکور ہیں وہ علاماتِ ولایت ہیں۔اور یہ کہ ان کے عہد کے بعض لوگ ان کے متعقد تھے۔اور اب تک بہت سے لوگ ان کی قبروں پر جمع ہوتے ہیں اور ان سے منت مانتے اور درخواستیں کرتے ہیں اور اپنی مرادیں پاتے ہیں۔
اگر واصلان حق کے معنی اور علامات کچھ اور ہوں جنہیں میں نہ سمجھا ہوں تو چاہیے کہ صوفی خود بیان کرے۔میں تو ان کی کتابوں کے مطالعہ سے ایسا ہی سمجھا ہوں۔جیسا میں نےاوپر لکھاہے۔
اور اس بیان کی نسبت یوں کہتا ہوں کہ گزشتہ تاریکی کے زمانے میں وہ بیان قبول ہوا کرتا تھااب قبول نہیں ہو سکتا ہے۔کیونکہ نہایت ناقص خیال ہے۔اس وجہ سے کہ ہمہ اوست کا خیال فی الواقع ایک باطل وہم ہے۔خداتعالیٰ ہرگز ہمہ اوست کی کیفیت میں نہیں ہے۔پس یہ لوگ یعنی ان کے اولیا اگر واصل ہیں تو ہمہ اوست کے باطل خیال سے واصل ہیں ناکہ خدا سے۔
اوروہ جو ان کی کرامتیں مشہور ہیں۔ان کا اثبادت محال ہےکیونکہ اگرچہ کرامتوں کے ظہور کا اولیا اللہ سے امکان ہے۔تو بھی کچھ قاعدے ہم مسیحیوں اور محمدی محدثوں کے پاس بھی ضرور موجود ہیں۔جن سے خبروں کی آزمائش کرناعقلاً واجب ہےتاکہ ثابت ہو جائے کہ کس قسم کی خبریں لائق اعتبار ہوتی ہیں۔انہیں قواعد واجبہ کی رو سے محمدی معجزات کی خبریں غیر معتبر ٹھہر ی ہیں۔اور وہی قواعد ہیں جن سے ہر احمق بت پرست کا منہ کرامتوں کے بارے میں بند کیا جاتا ہے۔پس فرض ہے کہ ہم انہیں قواعد سے ان ولیوں کی کرامتوں کی خبروں کو بھی پرکھیں ثقہ روایوں کی تلاش کریں اور خبروں کا تواتر دیکھیں اگر ہم ایسا کریں تو یہ دفتر کے دفتر کرامتوں کے صاف اڑ جاتے ہیں۔کیونکہ یہ ظاہر مریدوں اور غرض مند پیرزادوں کے بے سرو پا زٹلیات ہیں۔جو ایک وقت میں تصنیف ہو گئےاور اب تک ہر للو پنجو سے تصنیف ہوتے چلے جاتے ہیں۔
بائبل شریف کے معجزات ایک خاص مراد پر اور ایک خاص نبوت کے ساتھ ممتاز ہو کر مرقوم ہوئے ہیں اور ان کا وقوع سنجیدگی میں ہے۔وعلی روس الاشہاد ہوا ہےاس لیے صرف وہی معجزات اعتبار کے لائق ہیں۔
باقی تمام زمین پرہر گروہ کے لوگ جو کچھ کرامتیں اپنے بزرگوں کی سناتے ہیں ایک بھی نہیں ہے کہ بائبل کے معجزات کے ثبوت کی مانند اپنے بیان کا ثبوت رکھتا ہو۔
محمد صاحب قرآن میں ایک تعلیم دنیا کے سامنے لائے ہیں اگر وہ تعلیم خدا سےثابت ہوتی تو مناسب تھا کہ خدا اپنی قدرتوں سے اس پر گواہی دے کر اسے ثابت کرتا جیسے گزشتہ زمانے میں اس نے بائبل مقدس کی نسبت کیا ہے۔لیکن خوب ثابت ہو گیا کہ خدا نے قرآنی تعلیم پر کچھ گواہی نہیں دی۔ پھر ان صوفی ولیوں کی کرامتوں پر کس بات پرگواہی دیتا ہے۔آیا تصوف پر یا ہمہ اوست کے باطل خیال پر یا ان پیروں کے حال و قال پر ۔
معجزات کی وہ پُر شان قدرت جو کہ خدا میں مخفی ہےاور انتظامِ فطری سے بلند و بالا ہےجسے خدا نے بڑی سنجیدگی کی صورت میں بمزاو ثبوت پیغام گاہے بگاہے ظاہر کیا ہے۔کیا وہ قدرت ایسی عام ہو گئی کہ ان ولیوں نے صدہا کرامتیں چٹکی چٹکی میں کر ڈالیں؟کیا ان ولیوں پر بھی ایمان لانا اہل ِ دنیا پر فرض ہے؟
" دھوکا نہ کھاؤ سوکھی جڑ سے سبز ڈالیا نہیں نکلا کرتیں"۔
رہے ان کے مکاشفے اور مہلمات سو ان کی طرف بھی غور سے دیکھو کہ صرف توہمات ہیں۔حقیقی مکاشفے جوخدا کی طرف سے ہیں بائبل میں مذکور ہیں۔ان کی مانند کوئی مکاشفہ کسی ولی کا اگر کسی کو معلوم ہو تو بتلا دےتاکہ ہم اس پر فکر کرکے کہیں کہ وہ مکاشفہ ہے یا وہم ہےیاصرف ایک خیال ہےجو انسان سے ہے۔
اور یہ کہنا کہ ان کے عہد کے لوگ ان کے متعقد تھے یہ کچھ بات نہیں ہے۔جیسے سچے معلموں کے متعقد دنیا میں ہو گزرے ہیں ویسے جھوٹے معلموں کے متعقد بھی ہو گزرے ہیں۔یہ دکھلانا چاہیے کہ ان میں کیا تھا جن کے سبب سے لوگ متعقد ہوئے تھے؟
اور اب جو قبروں پر لوگ جمع ہوتے ہیں۔ان کا سبب تو وہی صوفی باطل خیال ہیں وراثتہ اً ان میں چلے آتے ہیں اورپیر زادگان کی طرف سے کشش بھی ہےاور وہ جو منت مانتے ہیں اس کا سبب انسانی بے ایمانی ہےکہ خدا کو چھوڑ کر مردوں سے درخواست کرتے ہیں مصیبت زدہ جاہل عورتیں اس بلا میں زیادہ مبتلا ہے۔لیکن کیا ہوتا ہے کیا ہر کسی کی مراد پوری ہو جاتی ہےہرگز نہیں سب کام انتظام ِ الٰہی سے ہوتے ہیں۔کیو نکر کوئی ثابت کرسکتا ہےکہ فلاں کام فلاں پیر سے ہو گیا ہےاور کہ کون کون امور میں پیرپرست کامیاب ہیں؟کہ پیروں کے منکر وہاں ناکامیاب رہے ہیں بر خلاف اس کے یہ دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو زندہ خدا کو چھوڑ کر غیر معبودوں کے دروازوں پر بھیک مانگتے پھرتےہیں کبھی سیر نہیں ہوتے بلکہ تمام لعنتیں ان کو گھیرے رہتی ہیں اورآخر ہائے ہائے کرکے بے ایمان مر جاتے ہیں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ صرف سالکین اور متصوفین صوفیہ میں ہوئے ہیں اور واصلان حق کبھی ان میں نہیں ہوئےاور جن کو انہوں نے واصلان ِ حق سمجھا ہے وہ فی الحقیقت واصلانِ حق نہ تھے۔وہ اپنے باطل خیالات میں مستغرق تھےاور اس استغراق میں ان کی حالت دگر گوں دیکھ کر ان لوگوں نے ان کو واصلان سمجھا ہے۔