۱۶ ۔فصل وحدت وجودی اور شہودی کے بیان میں
سب بُری باتوں سے زیادہ اور خطر ناک اور نالائق بات صوفیہ میں یہ ہے کہ وہ سب کے سب بالا اتفاق وحدت الوجود کے قائل ہیں اور وحدت الوجود کے معنی کتب تصوف اور غیاث اللغات میں یوں مرقوم ہیں۔(وحدت الوجود باصطلاح متصوفین موجودات راہمہ یک وجود حق سبحانہ تعالے دانستن وجود باماسوا رامحض اعتبارات شمر دن چنانچہ موج وحباب و گرداب قطرہ و ژالہ ہمہ رایک آب پندآشتن)۔
یہی ہمہ اوست ہے جس کے سب صوفی قائل ہیں اور تمام تصوف کی ساری عمارت اسی بنیاد پرقائم ہے۔ہاں بہت محمدی عالم اس کے قائل نہیں ہیں اور اس خیال کو کفر سمجھتے ہیں تو بھی صدہا بزرگ عالم محمدی جنہوں نے اسلام میں تسلی نہیں پائی اور ناچاری سے تصوف کی طرف جھکے ہیں اس نالائق خیال کی طرف مائل نظر آتے ہیں اور ایسی تقریریں کرتے ہیں کہ اہلِ شرع کو بھی تھام رکھیں اور اس عقیدے کو ہاتھ سے نہ چھوڑیں کیونکہ یہ عقیدہ اگر گمراہی ٹھہرے تو ان کے سب اولیا گمراہ ثابت ہوتے ہیں اور تسلی کی کوئی بات ان کے پاس نہیں رہتی کیونکہ تمام قرآن میں تسلی کا تو کوئی مقام نہیں ہے۔صوفیہ کے گھر میں یہ ہمہ اوست خیال انہیں کچھ تسلی دیتا ہے۔
صوفیہ کے سب خاندانوں میں نقشبندیہ خاندان زیادہ تر باشرع اور احتیاط کا گھرانا ہے۔اسی گھرانے کے مرید ہمارے شہر پانی پت کے ایک بزرگِ اعظم فاضل جلیل قاضی ثنا اللہ مصنف تفسیر مظہ 9 ری وغیرہ ہیں۔اور وہ مرزا مظہر جان جانان بزرگ دہلی کے مرید تھے۔مرزا صاحب کے تصوف کی ساری کیفیت ایک کتاب میں مندرج ہے۔جس کا نام معمولات مظہریہ 10 ہے۔ہندوستان میں جس قدر تصوف کی کتابیں لکھی گئیں۔یہ کتاب ان سب میں اعلیٰ رتبہ کی ہےاور قاضی صاحب نے اس کی صحت پر گواہی لکھی ہے۔وحدت الوجود کے مسئلے کی بابت اسمیں یوں مرقوم ہے۔(صفحہ ۱۰۲) صانع اور مصنوع میں عینیت ہےیا غیریت اس بارےمیں شرع ساکت ہےلیکن کاملیں پر یہ بے حد کشف سے ظاہر ہوا ہے۔مراد یہ ہے کہ کاملین نے کشف سے معلوم کیا ہے کہ عینیت ہے۔پس یہ ہمہ اوست کا اقرار ہوگیا۔
پھر اس خاندان میں نامدار بزرگ ہوئے ہیں۔شیخ احمد سرہندی ہیں جنکو مجدد الف ثانی کہتے ہیں اور شاہ عبدالحق محدث دہلوی ان کی بڑی تعریف شرح فتوح الغیب کے خاتمے میں لکھتے ہیں اور فی الحقیقت وہ صاحبِ علم اور سنجیدہ صوفی تھے۔ان کے مکتوبات ان کی لیاقت ظاہر ہے۔کہ محمدی دین کا علم ان کو پورا تھا۔
انوار العارفین صفحہ ۴۷میں ان کا بیان یوں مرقوم ہےکہ حقائق الاشیا ثابتہ یہ معاملہ حواس سے علاقہ رکھتا ہے۔لیکن عارفین حواس عقلیہ سے آگے بڑھ گئے ہیں انہوں نے وہاں جا کر ہمہ اوست کا بھید پایا ہے۔پس ان بزرگوں کے بیان سے ظاہر ہے کہ وہ شرع محمدی کو بھی قائم رکھتے ہیں اور ہمہ اوست بھی چھوڑنا نہیں چاہتے۔
یہ جو اوپر بیان ہو اہے کہ ہمہ اوست کا بھید حواس سے دریافت نہیں ہوسکتا۔بلکہ حواس سے یہی ثابت ہے کہ حقائق الاشیا ثابتہ لیکن یہ بھید کشف سے معلوم ہوا ہے۔اور کاملین حواس سے آگے بڑھ گئے ہیں اور وہاں سے بھید کودریافت کرکے لائے ہیں۔یہ بات سادہ لوحوں کے دلوں کو خوش کرنے کے لیے کیا خوب معلوم ہوتی ہے۔فی الحقیقت دھوکا اور روحوں کی ہلاکت کے لیے زہر ہے۔
جن اشخاص کو صوفیہ کاملین کہتے ہیں۔ہمیں ان میں کچھ کمال نظر نہیں آتااور جن باتوں کو وہ کمالات کہتے ہیں۔وہ ہمیں نقصانات معلوم ہوتے ہیں۔پھر ان باتوں کی نسبت جن کو وہ ان کے مکاشفات کہتے ہیں۔حجت باقی رہتی ہے۔ہم کیونکر یقین کریں کہ وہ ان کے الٰہی مکاشفات ہیں؟کیوں نہ کہیں کہ توہمات ہیں۔جو قوت واہمہ سے نکلتے ہیں۔سچے اور جھوٹے نبیوں میں امتیاز کرنے کے لیےکچھ قواعدعقلیہ اور نقلیہ ضرور مقرر ہیں۔اوران قواعد سے جب کوئی سچا نبی ثابت ہوتا ہے توتب اس کی باتیں اس خیال سے مانی جاتی ہیں کہ وہ خدا کا نبی ہے۔یہ صوفی کون ہیں؟جن کو مکاشفے ہوتے ہیں۔اور حواس سے آگے بڑھتے ہیں۔اور وہاں سے جہاں حواس کا کام نہیں ہےکچھ لاتے ہیں۔ اوراپنے حواس میں رکھ کر لاتے ہیں۔ اور مریدوں کے حواس میں ڈالتے ہیں۔ان باتوں کو جو حواس سے ثابت نہیں ہو سکتیں اور وہ جو اہلِ حواس ہیں جنہیں خود مکاشفے نہیں ہوئےوہ ان کی تائد میں کوشش کرتے ہیں۔بلکہ ان کے آورد کو اپنے ایمان کی جگہ میں رکھتے ہیں۔
ہمیں دنیا میں تین قسم کے لوگ معلوم ہوتے ہیں۔بعض خداکے منکر ہیں مگر جہان کی ،موجودگی کے قائل ہیں۔کیونکہ جہان موجود نظرآتا ہے۔یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جہان کا وجود اور انتظام سب کچھ دہر یعنی زمانے سے ہےاور یہ لوگ دہریہ کہلاتے ہیں۔
بعض خدا کے قائل ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دہر بھی خدا کی خلقت میں سے ہیں۔ان لوگوں کی بھی دوقسمیں ہیں۔یعنی وہ جوخدا کے قائل ہیں۔دو طرح سے خدا کو سمجھتے ہیں۔ایک وہ ہیں جو ہمہ اوست میں خدا کو بتلاتے ہیں۔اور وہ سمجھتے ہیں کہ صانع اورمصنوع میں عینیت ہےنہ غیریت یعنی خدا نے جہان کو اپنے ہی اندرسے نکالا ہےیاخدا خود جہان بن گیا ہے۔پس اس جہان کی اور خدا کی ایک ہی ماہیت اور حقیقت ہوئی ۔قدیم زمانے کے مصری اور یونانی بت پرستوں کا بھی گمان تھا اور ویدوں میں بھی ایسا ہی لکھا ہے۔قوم صوفیہ جو کہ بت پرست قوم تھی۔ان کو بھی قدیم بت پرستوں سے وراثتہً یہی خیال پہنچا تھا کہ وہی خیال محمدی صوفیوں میں اب تک چلا آتاہے۔اوراس میں متعصب ہوگئے۔وہ یہ نہیں کہتے ہیں کہ ہم نے یہ خیال بت پرستوں سے لیا ہے۔ بلکہ عیب پوشی کے لیے کہتے ہیں کہ ہمارے کاملین کو مکاشفہ ہوا ہے۔بھلا صاحب جب آپ لوگ دنیا میں نہ تھے۔تو کیا اس کا مکاشفہ اس وقت بھی بت پرستوں کو ہوا تھا؟یا ان کاعقلی خیال تھا جو کہ باطل تھا۔
دوسرے وہ لوگ ہیں جو کہ ہمہ ازاوست کے قائل ہیں۔اور سمجھتے ہیں کہ صانع اور مصنوع میں غیریت ہے نہ عینیت اور کہ جہاں عدم سے وجود میں آیا ہے اور کہ خدا کی اور کچھ ماہییت ہےاور اشیا جہاں کی اور کچھ ماہیتیں ہیں۔اور یہ کہ حقائق الاشیا ثابتہ حق ہے۔حواس سے بھی اور مکاشفوں سے بھی۔
ہم سب مسیحی اور یہودی جو کہ پیغمبروں کے پیروں ہیں۔اسی خیال کو مانتے ہیں ۔اور اکثر علمامحمدیہ بھی اسی خیال میں ہمارے ساتھ ہیں۔اور کلام اللہ کی بھی یہی تعلیم ہے۔لیکن وہ محمدی جو تصوف میں قدم رکھتے ہیں۔ہمہ اوست کا مہلک خیال جس سے خدا کی بے عزتی ہوتی ہے وہ نہیں چھوڑتے۔
اور یہ جو اوپر کہا گیا ہے شرع محمدی اس بارے میں ساکت ہے۔سچ تو یہ ہے کہ قرآن میں ہمہ اوست کا خیال صاف صاف کہیں نہیں لکھا ہمہ ازوست کا خیال زیادہ تر بیان ہوا ہے۔صرف ایک مقام میں سورہ حدید میں ہےجس سے صوفی کچھ استدلال کرتے ہیں کہ هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ وہ (سب سے) پہلا اور (سب سے) پچھلا اور (اپنی قدرتوں سے سب پر) ظاہر اور (اپنی ذات سے) پوشیدہ ہے اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہےلفظ ظاہر سے وہ اشیا دیدنی مرادلیتے ہیں۔اور سمجھتے ہیں کہ یہ جو کچھ ظاہر ہے اللہ ہے لیکن علما محمدیہ اس کی تاویل یوں کرتے ہیں کہ وہ بد لایل ظاہر ہے۔نہ بذات اور ہم بھی یہی مانتے ہیں کہ وہ بد لایل ظاہر ہے۔اہلِ ہمہ اوست کہتے ہیں کہ وہ بذات ظاہر ہے اسی کا نام شہود ہے۔اور یہ بھی کہتے ہیں کہ محمد صاحب مفردوں میں سے تھےتو کیا تعجب ہے کہ ان کی مراد لفظ ظاہر سے وہی ہو کہ جو صوفی کہتے ہیں۔پھر یہ لوگ دو وصنعی حدیثیں سناتے ہیں۔کہ حضرت نے فرمایا کہ (انا احد بلامیم واناعرب بلا عین)یعنی میں احدا ور رب ہوں۔یہ تو کفر کے کلمے ہیں۔معتبر کتابوں میں ان حدیثوں کا ذکر نہیں ہے۔شاید صوفیہ نے بنائی ہوں۔
ہاں ایک حدیث اور ہے جو معتبر کتابوں میں مذکور ہے۔جس سے ہمہ اوست کا خیال حضرت کے ذہن میں کچھ معلوم ہوتا ہے۔وہ یہ ہے کہ يؤذيني ابن آدم؛ يسب الدهر، وأنا الدهر اللہ کہتا ہے کہ انسان مجھے دکھ دیتا ہے۔اس لیے کہ وہ دہر کو گالی دیتا ہے۔اور میں خود دہر ہوں۔اس حدیث میں حضرت دہریوں کا مذہب ثابت کرتے ہیں۔اور اللہ کو دہر بتلاتے ہیں۔
اور ناظرین کو یہ بھی معلوم ہو جائے کہ اگرچہ بظاہر یہ دو فرقے ہیں یعنی دہریے اور ہمہ اوست والے مگر فی الحقیقت حاصل ان کا ایک ہی ہے۔دہریہ کہتے ہیں کہ خدا نہیں ہے۔جو کچھ ہے یہ جہان ہے۔ہمہ اوست والے کہتے ہیں کہ خدا ہے مگر سب کچھ خدا ہے۔یہ تو ایک ہی بات ہوئی۔ دوعبارتوں میں پس جیسے دہریہ بے خدا ہیں۔ویسے ہیں ہمہ اوست والے بھی بے خدا ہیں۔
ہمہ اوست کا خیال عقلی تجویز ہے۔سب پیغمبر اس کے مخالف ہیں۔ہاں سب بت پرست اس کو مانتے ہیں۔پس اس کے ماننےوالا پیغمبروں کا ساتھی نہیں۔وہ بت پرستوں کا ساتھی ہے۔اور جو جس کا ساتھی ہےاس کا حشر اسی کےساتھ ہوگا۔تب صوفی قیامت میں بت پرستوں کے ساتھ اٹھیں گے نہ کہ پیغمبروں کےساتھ۔
ہمہ اوست کے خیال کی جڑ یہ ہے کہ بعض آدمیوں نے ایسا سمجھا کہ دینا میں ہر کاریگر جو کچھ بناتا ہے۔کسی مادے سے بناتا ہے۔بغیر مادے کے کوئی چیز کسی کاریگر سے نہیں بن سکتی۔خدانے جہان کو کیونکر بنایا ؟وہ مادہ کہاں سے لایا؟تب ان کے قیاس نے جواب دیا کہ مادہ خدا نے اپنے ہی اندر سے نکالا اور اس میں تصرف کرکےسب کچھ ظاہر کردیا۔پس سب کچھ اس میں سے ہے۔اس لیے سب کچھ وہی ہےیہی دلیل وحدت الوجود کی ان کے پاس ہے۔
خدا کے پیغمبر جو خدا سے سن کر بو لتے ہیں۔کہتے ہیں کہ خدا قادر مطلق ہے۔اس کی قدرت مطلق ہے۔یعنی آزاد اس کی قدرت کے لئے کوئی حد نہیں وہ کہیں رک نہیں سکتی۔ورنہ وہ مقید قدرت ہوتی نہ کہ مطلق۔پس اس قدرت سے اس نے جہان کو پیدا کیا عدم سے نکالا اور عدم کی تعریف علمِ حکمت میں یہ ہے(العدم یقابل الوجود فلیس للعدم وجود)۔یعنی عدم مقابلہ میں ہے وجود کے اس لیے عدم کا وجود نہ ہوا۔جس لیے فارسی لفظ نیستی ہے۔یعنی لا وجود ۔پس خدا نے جہان کو نہ اپنے اندرسے مادہ نکال کر پیدا کیابلکہ نیستی میں سے پیدا کیا ہے۔لفظ کریٹ(Create) انگریزی میں اور خلقت عربی میں اور پیدا فارسی میں اور بارا عبرانی میں ایسے معنی میں آتا ہے۔کسی چیز کا بغیر مادے کے پیدا کرنا۔پس دنیا کے کاریگر کچھ چیزوں سے کچھ چیزیں بناتے ہیں۔کیونکہ اس کی قدرت محدود اور مقید ہے اور وہ قادر مطلق نہیں۔خدا قادرمطلق ہے۔وہ نیستی سے بحکم خود چیزیں پیدا کرتاہے۔اگر ہم خدا کو دنیا کے کاریگروں کی مانند خیال کریں تو اس کو اس کی عالی شا ن سے گراتے ہیں اور مردود ہوتے ہیں۔
اس کے سوا یہ بات ہے کہ اگر یہ جہان خدا کے اندر سے نکلاہوا ہوتا تو خدا کی ماہیت میں اس جہان کو بھی دخل ہوتا۔اوراس پاک ماہیت کے جو خاصے ہیں وہ جہان میں بھی پائے جاتے ۔دیکھو خداوند یسوع مسیح خدا کی ذات میں سے نکلااور دنیا میں آیاہےاور روح القدس خدا کے اور مسیح کے اندر سے آتااور غور کرنے سے برگزیدوں کی روحوں میں معلوم ہوتا ہے۔اور جوخاصیت الٰہی ماہیت کی ہے۔وہی خاصیت ان دو نوں شخصوں میں برابر پائی جاتی ہے۔جو خدا کی ذات میں سے ہے۔اس میں خدا کی خاصیت ہے۔ اگر جہان خدا کے اندر سےہوتا تو جہان میں الہٰی خاصیت ضرور ہوتی۔اورجہان تو کچھ بھی نہیں ہے نہ کوئی شے قائم بالذات ہے نہ کسی چیز میں قدرت اور علم اور زندگی بالذات ہے۔ہر شے معلول ہے۔اور ہر علت کے لیے علت ہے۔اور وہ جو علت العلل ہے۔مخفی ہے۔اور ہر معلول کے لیے دو طرفین ہیں۔ایک وہ طرفین ہے جس سے اس کا علاقہ علتہ العلل ہے۔بواستہ علل کے ہے۔اور اسی سےاور بحال اور موجود ہے۔دوسری طرف وہ ہے جس سے اس کا علاقہ نیستی کی طرف ہے۔اگر علتہ العلل اس کو چھوڑ دے۔تو وہ معلول نیست ہو جاتاہے۔اور اس سے ظاہر ہےہ کہ جہان نیستی سے بقدرت واجب الوجود موجود ہو اہے ۔اگر وحدت الوجود صحیح ہے تو خدا میں نیستی میں گھرا ہوا ہے ہر طرف سے پس ہمہ اوست نہیں ہے۔بلکہ ہمہ از اوست ہے اورجو خدا ہے سب سے نیارا ہے اس کی ماہیت کچھ اور ہے۔اور موجودات کی ماہیتیں کچھ اور ہیں۔ہمہ اوست کے ابطال میں بہت سی ماہیتیں ہیں۔جو دیگر مصنفوں کی کتابوں میں مرقوم ہیں۔اور اثبات میں بارے میں سواء دوتین وہمی باتوں کے کچھ بھی نہیں ہے۔
گزشتہ زمانہ تاریکی کا خصوصاً غیر اقوام پر ایسا تھا کہ اس میں اس ہمہ اوست کے خیال میں بعض لوگوں نے کچھ تسلی اختیار کی تھی۔مگرباطل تسلی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم خدا میں سے نکلے ہیں۔اور مر کر اس میں مل جائیں گے۔اور وہ لوگ اپنے جیتے جی بہ تکلف اس باطل خیال کو اپنے ذہن میں پکاتے تھے۔اورفطری بدیہی خیال جو ہمہ ازاوست کا ہے بہ مشکل ذہن سے نکا لتے تھے۔اور شیطان مجسم ہوئے پھرتےتھے۔کہتے تھے کہ ہم خود خدا ہیں۔اور اس سے شیطان کا مطلب خوب پورا ہوتا تھا۔کہ خدا کی بے عزتی ہو۔اگر ہمہ اوست صحیح بات ہو تو کیا ضرور ہے کہ صوفی اتنی ریاضت کرے کہ بے ریاضت اور باریاضت آدمی سب برابر ہیں۔اوربت پرستی کا امر بھی مکرو ہ نہیں ہو سکتا۔اور نیکی بدی میں کچھ حاجت فرق کی نہیں ہے۔ایمانداری اور بے ایمانی فرمان برداری اور نافرمانی برابر ہیں کیونکہ سب کچھ خدا ہے نعوذباللہ من ذٰلک۔
اب روشنی کازمانہ آگیا ہے۔کلام اللہ کی روشنی اور علمی روشنی نمودار ہوئی ہے۔اوراس خیال کا بطلان زیادہ تر واضح ہو گیا ہے۔اور معلوم ہو گیا ہے کہ ویدیں وغیرہ وہ سب کتابیں جن میں یہ خیال مرقوم ہے۔اللہ کی طرف سےہرگز نہیں ہیں۔انسانی تجویز سے لکھی گئی ہیں۔اور ان سے بہ سبب اس خیال کے خدا کی بے عزتی ہے۔اور یہ بھی معلوم ہو گیا ہے کہ جو لوگ اس خیال میں مر گئے ہیں۔اور اولیا اللہ سمجھے گئے ہیں وہ ہرگز خدا رسیدہ نہ تھے۔ اس خیال کو پہنچے ہوئے تھے۔پس خدا کا دوست ہونا تودرکنار رہا خدا کو پہچانا بھی نہ تھا۔اور جس کو انہوں نے خدا سمجھا تھا۔وہ بطلان تھا۔اب فرمائیں کہ وہ خدا کے دوست تھے یا بطلان کے۔
خدا پہچانا جاتا ہےخدا کے کلام سے نہ محض دلائل عقلیہ سے نہ احمق فقیروں کے خیالات سےنہ قدیم بت پرستوں کی تجویزات سے نہ ہو حق کرنے سے نہ ریاضت سے نہ ذکر فکر سے مگر خدا کے کلام سے اوروہ صوفیوں اور محمدیوں اور بت پرستوں او ر عقل پرستوں کے پاس نہیں ہے۔پھر وہ کیونکر خدا شناسی کے دم مارتے ہیں۔اگر کوئی شخص خدا شناسی کاطالب ہو تو وہ بائبل شریف کے قریب آئے اور جو کچھ بائبل شریف خدا کےبارے میں بتلاتی ہے۔اس پر غور کرے۔پھر اپنی تمیز سے پوچھے کہ خدا کیسا ہے اور کدھر ہے۔