۱۵ ۔فصل یقین کے بیان میں
جازم راسخ ثابت اعتقاد کانام صوفیہ کی اصطلاح میں یقین ہے۔اور وہ سمجھتےہیں کہ یقین کی تین قسمیں ہیں۔اول علم الیقین یہ حاصل ہوتاہے کہ دلائل قطعیہ سےمثلاًبرہان یا خبر متواتر سے۔دوئم عین الیقین یہ حاصل ہوتا ہے۔آنکھ کے مشاہدے سے۔سوئم حق الیقین یہ حاصل ہوتا ہے۔کسی شے کے حاصل کے ہونے سے بتواتر خبر ملی ہے کہ دوزخ اور بہشت موجود ہیں۔ جب ہم نے اس خبر پر یقین کیا کہ تو یہ علم الیقین ہوااور آنکھ سے دوزخ اور بہشت کو جا کر دیکھ لیا تو یہ عین الیقین ہوااورجب دوزخ یا بہشت میں ڈالے جاتے ہیں تو تب حق الیقین ہوا۔
میں سمجھتا ہوں کہ ان اصطلاحوں میں کچھ غلطی نہیں ہے۔یہ درست باتیں ہیں لیکن مجھے حیرانی اس امر میں ہے کہ ان صوفیہ کےعقائد اور خیالات تو علم ایقین کےرتبےسے بھی بہت نیچے گرے ہوئے ہے۔اور وہ لو گ ہرگز برہان سے اور خبر متواتر سےاپنے عقائد کا ثبوت نہیں دے سکتےپھر وہ عین الیقین اور حق الیقین کا ان عقائد کی نسبت کیونکر دم بھرتے ہیں۔ان کے پاس صرف توہمات ہیں اور ان کانام یقینات انہوں نے رکھ چھوڑا ہے۔اچھی اچھی اصطلاحیں محمدی اہلِ شرع کے مقابلے میں جمع کی ہیں۔لیکن ان کے اندر کچھ زندگی اور خوبی نہیں ہے۔