۲۳ ۔فصل روزوں اور شب داریوں کے بیان میں۔
روزے اور شب داریاں بجائے خود قربتِ الٰہی کے لیے مفید اور خاص قسم کی عبادات تو ہیں اور اس سےفائدہ تو ہوتا ہے۔اس آدمی کو جو فی حقیقت خدا کا طالب ہے اورسچے ایمان سےخدا کے حضور میں چلتا پھرتا ہے۔روزوں اور شب داریوں کے ساتھ جب سچی طلب اور سچا ایمان نہ ہو تو ان سے صرف جسمانی دکھ حاصل ہوتا ہے۔بعض صوفی صایم الدہر بنتے ہیں یعنی سال بھر برابر خفیہ روزہ رکھتے ہیں محمدی فقہ کے امام کہتے ہیں کہ یہ کام منع ہےمحمد صاحب نے صایم الدھر ہونے سے حدیث میں منع کیا ہے۔صوفی کہتے ہیں کہ ہم عیدیں اور تشریق من روزہ نہیں رکھتے اس لیے اس لیے ہم صایم الدہر نہیں ہیں۔اور وہ شب داریاں بھی کرتے ہیں اور بعض ان میں ایسے ہیں کہ جو خفیتہً کہ کوئی نہ جانے ساری ساری رات جاگتے کبھی آسمان کو تکتے کبھی ٹہلتے کبھی دیوار سے کمر ٹکا کر بیٹھ جاتے کبھی کبھی ساری رات کسی قبر پر بیٹھ کر اس مردہ خاک شدہ کی منت کرتےہیں کہ ہمیں بھی کچھ نعمت دے۔اگر حقیقی روزے اور حقیقی شب داریاں ہوتیں تو ضرور تقرب الٰہی ہوتا مگر وہ تو کچھ دیوانگی کی حرکتیں دکھاتے ہیں۔اس لیے ان کی شب داریوں میں سوائے نیند کی بربادی کے سبب مزاج میں خلل آتاہےصبح کو آنکھیں سرخ نظر آتی ہی۔دل کہتا ہے کہ ہم نے رات بھر خدا کی عبادت کی ہے۔ سبحان اللہ ہم کیا خوب آدمی ہیں اب ہم کوئی دن میں ولی ہوتے ہیں اور جب ہم صاحبِ تایثر ہو جائیں گے۔فلاں فلاں مخالف کا بد عا ستیاناس کردیں گے۔ہائے افسوس یہ شیطان جو ایک بدروح ہے۔انسان کے کان میں کیسا پھس پھساتا رہتا ہےاور نیک آدمیوں کے سب اعمال حسنہ کو جو وہ گر پڑکے کچھ کرتے بھی ہیں یہ برباد کردیتا ہے۔ریااور فخر اور ناپاک امیدیں اور طرح طرح کے بد منصوبے لے کر ہر عابد زاہد بلکہ حقیقی خدا پرست کے پاس بھی جاتا ہے۔اور اس کی مٹی خراب کرتا ہےوہ جس کا بھروسہ اعمال پر ہے۔ہمیشہ شرمسار اور ناامید رہتا ہے۔اور فی الواقع آخر کو شرمندہ ہو گااگر خدا صادق القول ہے۔
مگر وہ مسیحی جس کا بھروسہ صرف مسیح پر ہے اعمال حسنہ کی بربادی اپنی طرف سے اور شیطان کی طرف سے جب دیکھتا ہے اور جب بڑا زور مارکر نیکی کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ اس میں بھی نقصان رہا تو کہتا ہے کہ سچ ہے کہ میں اعمال سے نہیں بچ سکتا مجھے یسوع مسیح کی بڑی ضرورت ہے۔
حاصل کلام یہ ہے روزے اور شب داریاں وغیرہ عبادات اگرچہ زمانہ گزشتہ کے بزرگوں کے اطوار ہیں اور مفید بھی ہیں۔مگر باطل خیالات کے ساتھ ان سے کیا ہوسکتا ہےصرف یہ کہ روزوں سے قوت بدنی میں خلل آئے اور معدہ ضعیف ہو اور شب داریوں کی کثرت سے دماغ میں خلل اور پٹھوں میں ہل چل ہو اور اس کے اوپر سانس کی رگڑوں سے دل ضعیف ہو جائے اور حبس کی تاثیر سے مزاج بدل جائے اور یوں یہ ساری حرکتیں مل کر اسے دیوانہ سا بنا دیں اور وہ ولی سمجھا جائے ۔
ان حرکتو ں سے بعض بشدت دیوانے ہو جاتے ہیں۔دو تین شریف زادوں کے نام مجھے معلوم ہیں جوکہ انہیں حرکتوں سےپاگل ہوگئے۔اور وہ مجذوب سمجھے جاتے ہیں۔بعض میں قدرے دیوانگی آتی ہےان کو سالک مجذوب کہتے ہیں۔
پس ان باتوں کے سوا جن کا اوپر ذکر ہوا صوفیہ کے پاس اور کچھ نہیں ہے صرف یہی ان کی اصولی باتیں ہیں۔اب ناظرین انصاف سے کہیں کہ یہ ان کے طریقے خدا سے ملنے کے ہیں یا دیوانگی سے ملاقات کرنے کے ہیں؟