۳۳ ۔فصل صوفیوں کی وہ کیفیت جو اب ہے
جو کیفیت علم سلوک اور سالکین کی اس کتاب میں کتب تصوف سے سنا چکا ہوں اور اس کا ابطال بھی دکھلا چکا ہوںوہ کیفیت حال کے صوفیہ میں برائے نام ہے بلکہ ایک اور کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔جو پہلی کیفیت کی بانسبت زیادہ تر بری ہے۔
شروع میں پہلی کیفیت کے لوگ ہندوستان میں ظاہر ہوئے تھے ان کے چند شاگرد ویسے ہی ہو گئے تھے۔مثلاً معین الدین چستی، قطب الدین بختیار کاکی، فرید الدین مسعود یعنی بابا فرید،قطب جمال الدین احمد ہانسوی،نظام الدین اولیا، علاؤالدین صابر۔شاہ ابو المعانی شاہ ابوالعلااور سید بھیک وغیرہ یہ سب لوگ پہلی کیفیت کے شخص تھے۔
ان کے بعد یہ کارخانہ نہایت بگڑ گیااب صرف نام کے صوفی پھرتے ہیں اور وہ جو اُن میں نامی ہیں اکثر خاندانی پیر زادے ہیں۔جن کا جداعلی کوئی نامی صوفی تھا۔جس کا مزار کہیں کہیں عالی شان عمارت سے بنایا اور خوب سجایا ہے قبر پر عمدہ عمدہ غلاف ڈالے ہیں۔پھولوں اور خوشبوں سے معطر کیا ہے۔رات کو بہت چراغ جلاتے اور ادب سے زیارت کرتےاور کراتے ہیں ۔قبرکے قدموں پر جھک کر بھوسے دتیے ہیں خادم یا مجاور جو مقرر ہیں۔وہ صفائی رکھتے اور مور کی دم کے پرو سے جھاڑوں دیتے ہیں۔سال میں ایک بار موت کی تاریخ میں میلا کرتے ہیں۔کسبیوں کا ناچ ہوتاہے۔جس سےوہ پیر صاحب اپنی زندگی میں بے زار تھے۔قوالوں کے راگ درویشوں کے وجد ہوتے ہیں۔ہو حق کا نعرہ بلند ہوتا ہے۔
جاہل منتیں مانتے نذر نیاز روپیہ پیسہ کوڑیاں اور قسم قسم کے کھانے مٹھائی ریوڑیاں خوب آتی ہیں مزے اڑتے ہیں۔خدا کو چھوڑ دیا قبروں کو معبود بنا لیاہے۔جس پیر زادے کے خاندان میں کسی بزرگ کا ایسا مزار بن گیا ہے اس کے لیے تو دنیا میں ایک جاگیر پیدا ہوگئی ہے۔وہ زمینداروں سے اچھا رہتا ہے۔اور کتنے گھرانے اس قبر سے خوراک حاصل کرتے ہیں۔سارا خاندان اس مزار کو مزارشریف کہتا ہے۔بلکہ اس شہر کو بھی اس مزار کی وجہ سے شریف کہتے ہیں اور رات دن مداحی میں مصروف ہیں۔کرامتیں اور قدرتیں اس مزار کی نسبت ہمیشہ تصنیف ہو کر اڑتی رہتی ہیں دیکھو آج کل ایک کتاب نکلی ہےجس کانام حقیقتِ گلزار صابری 11 ہے۔اس کے مصنف نے باطل روایتوں کے فروغ دینے کو بعض کتابوں کے نام بھی دل سے فرض کر لیے ہیں۔کہ یہ بات مکتوب نطاب وغیرہ میں لکھی ہے۔نہ مکتوب نطاب وغیرہ کوئی چیز ہے اور نہ ہی وہ بات صحیح ہے صرف گلزار صابری کی بہار ہے۔
محمدی مولوی ہمیشہ چلاتے رہتے ہیں کہ اے ظالموں کیا کرتے ہو۔یہ نہ صوفیت ہے اور نہ اسلام ہےیہ تو بت پرستی ہے۔مگر پیر زادےکب مانتے ہیں۔نالائق دلیلوں سے ان کا مقابلہ کرتے اور ایسی بری نگاہوں سے ان کو دیکھتے ہیں۔جیسے متعصب مومن کافر کو دیکھتا ہے۔پس حال کے صوفیہ کی ایک تو یہ صفت ہے کہ جس کا بیان ہوا۔افسوس کی بات ہے کہ اڈیٹران اخبارات جو اکثر برہمو اور آریوں اور نیچریوںوغیرہ کی نسبت کچھ لکھتے رہتے ہیں۔ان صوفیوں کی طرف سے کیوں چپ ہیں چپ رہنے میں ان ہزارہاآدمیوں کا نقصان ہے۔اور چھڑ چھاڑ میں فائدہ ہے کہ آدمی جگائے جاتے ہیں۔لیکن ادب اورشا ئستگی سے کلام کرنا مناسب ہے۔
کچھ نہ کچھ چھیٹر چلی جائے ظفر | گر نہیں وصل تو حسردت ہی سہی |
دوسری بات ان میں یہ ہے کہ ہر کوئی کسی نہ کسی پیر صاحب کا مرید ہےاس سے شجرہ لیا ہے۔اور کچھ وظیفہ سیکھاہاتھ میں تسبیح لی جمعرات کو زیارت کے لیے کچھ قبریں انتخاب کیں سالانہ عرسوں میں برابر حاضر ہیں اورکچھ کوشش بھی کرتے ہیں۔کہ لوگوں کو متعقد بنا دیں تاکہ روپیہ آئے اور عزت سے رہیں یہ مقصد اعلیٰ اکثروں کا ہے۔
میں ان صاحبان سے بمنت کہتا ہوں کہ اگر تم منصف آدمی ہو تو آپ ہی انصاف سے کہو کہ یہ تسبیح اور وظیفہ کس مطلب سے ہے۔کیا فتوحات اور کشائش روزی اور دست غیب اوررجوعات اور تسخیر قلوب کے وظیفے ڈھوندھ ڈھونڈھ کر تم نے اپنے لیےاختیار کررکھے ہیں۔یا نہیں اور اپنی اولاد کو بھی سکھلاتے ہو کہ نہیں۔پس یہ سر پرستی ہے یا خدا پرستی ہے۔تم کس منہ سے کہا کرتے ہوکہ فلاں شخص دنیا حاصل کرنے مسیحی ہو گیا ہے۔کیا تم خدا کے طالب ہواور وہ دنیا کاطالب تھا؟خدا سے ڈور سچا انصاف کرومیں تو مدت دراز تک صوفیہ میں رہا۔ان کے گھر کے بھید سے خبر دار ہوں۔میں نےتم میں کوئی کوئی آدمی دیکھا جو خدا کا طالب تھا۔اکثر دنیا کے طالب دیکھے اوروہی وظیفے تلاش کرتے رہے۔جن سے دنیا حاصل ہو دنیا کے طالب خود ہو دوسروں کی نسبت کیوں بد گمانی کیا کرتے ہو؟اگر تم خدا کے طالب ہوتے تو ضرور خدا کو پاتے وہ اپنے طالبوں کو بے مراد نہیں پھرنےد یتا میں نے یہ کتاب ایذا رسانی کے لیے نہیں مگر دلی محبت اور دوستی کا حق ادا کرنے کے لیے لکھی ہے تاکہ خوابِ غلفت سے جگاؤں۔
تیسری بات جو ان میں ہے یہ ہے کہ جب ان صوفیہ نے دیکھا کہ ہم میں نہ کچھ قدرت ہے نہ تاثیر ہے۔اورہم لوگوں سے کہتے پھرتے ہیں کہ ہمارے گزشتہ بزرگ ایسی ایسی قدرت اور تاثیر کے شخص تھے۔ہم میں کچھ تو ہوتاکہ عزت رہےاور ہم بھی صاحبِ تاثیر مشہور ہوں۔اور جاہل سمجھیں کہ قبر والے بڑے پیر کی قدرت حضرت سجادہ نشین صاحب میں بھی ہے۔پس وہ تعویذوں اور گنڈوں اورفلتیوں اورفال اور رمل اوربعض سفلی جادوں کی طرف مائل ہوتے ہیں بلکہ رات دن دعا میں مشغول رہتے ہیں۔
دو تین انگل کا یک مربع کاغذ لے کر اس پر لکیروں سے خانے بناتےاور خانوں میں ۲ و ۴ اور ۸ وغیرہ لکھتے اور جاہلوں کو دیتے ہیں۔کہ لو گھول کر پی لو یا گلے میں ڈال لو۔تمہاری حفاظت ہوگی۔یہ تعویذ کی صورت ہے۔
گنڈوں کی یہ صورت دو تین بالشت کا کچا دھاگا سات تار کا لیتے ہیں اوراور اس میں سات گانٹھیں دیتےاور گانٹھ میں اپنے منہ کی ہوا کو منت پڑھ کر باندھتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ لو اپنے لگلے میں باندھوں بخار نزدیک نہ آئے گا۔اور کسی چڑیل وغیرہ کی تاثیر نہ ہو گی۔یا بھینس کے سینگ میں باندھوں خوب دودھ دے گی۔
فلتیوں کی یہ صورت ہے کہ جب کوئی آدمی بھوت کا بیمار سمجھا جاتا ہے تو پیر صاحب کاغذ پر فرشتوں کے یا پیغمبروں کےنام لکھتے ہیں۔اور بتی کی مانند لپیٹتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اسے جلا کر بیمار کی ناک میں دھواں چڑھاہو۔تاکہ اس کا دماغ خراب ہو اوروہ کچھ بکے اور یہ کہیں کہ فلیتے کی تاثیر سے بھوت آیا ہےوہ بولتا ہے۔اورجو بیمار مضبوط ہو اوراس دھوئیں سے نہ بکےتو ایک اور فلیتہ لکھتےاور نیلے چتھڑے میں لپیٹتے ہیں۔جس کا دھواں زیادہ گھبرا دیتا ہے اور جو وہ اس سےبھی نہ بکے تو مرچیں جلا کر دھواں دیتے ہیں یہاں تک وہ بک اٹھتا ہے۔اور کہتے ہیں کہ ہاں اب بھوت قابوں میں آیا ہے۔اب میں اس کو جلا دو گا۔چولہےمیں بیری کی لکڑیاں جلاؤ اس پر کوری ہنڈیا خالی رکھواور پاس بیٹھ کر ماش کے دانے پر کچھ پڑھتے ہیں۔اور ہنڈیا میں ڈالتے جاتے ہیں اور آستین میں ایک بکری کا پتہ جس میں سرخ نری کا رنگ بھر لاتےچھپار ہتا ہے اور موقع پا کر فوراً ہنڈیا میں ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لو بھوت جل گیاآؤ اس کا خون دیکھ لو ارے احمقوں روح میں خون کہاں سے آ سکتا ہے؟پھر کہتے ہیں کہ ہنڈیا کو باہرلے جا کر گہرے غار میں دفن کر دوکہ بھوت پھر سے نہ نکل آئے اور جلد ایک سفید جوان مرغ ، گھی ،چاول، میدا اورمیوہ وغیرہ لاؤ کہ ان فرشتوں کانذرانہ دوں جنہوں نے اس بھوت کو پکڑ کر جلایا ہے۔اورمجھےجو کچھ دینا ہے وہ جدا نقددیدو۔تب وہ جاہل غریب دیہاتی جو تنگ دست ہوتے ہیں جس طرح ہو سکتا ہے وہ یہ نذرانہ دیتے اور پیر صاحب اپنے گھر میں مرغا پلاو کہتے اورہنستے ہیں۔
فال کی یہ صورت ہے کہ ایک کتاب بنا رکھی ہے۔جس کے اول میں ایک صفحہ پر ایک نقشہ ہے ہر خانے میں کوئی حرف لکھا ہے جیسے کہ الف بے وغیرہ اورحرف کا بیان کتاب میں کچھ لکھا ہے۔
غریب مصیبت زدہ جاہل عورتیں اپنی تنگیوں میں چپ چاپ پیر صاحب کے پاس حاضر ہوتی اور اپنا دکھ روتی ہیں اور پیر صاحب فالنامہ یعنی وہی کتاب نکالتے اور وہ عورت نذرانہ کتاب پر رکھ دیتی ہے۔تب فرماتے ہیں کہ اپنی انگلی کسی خانہ پر رکھ۔جس خاننے پر وہ انگلی رکھی۔اسی کے حرف کابیان کتاب میں سےنکال کرسناتے ہیں۔اگراچھا بیان ہے توفال مبارک ہوئی اور اگربرا بیان ہے تو عورت غمگین ہو گئی۔کہ میرے لیے یہ آفت آئے گی۔تب کہتے ہیں کہ یوں صدقہ دواور یوں یوں کرو بلا دفع ہو جائے گی۔بعضوں نے رمل سیکھ لیا ہے۔وہ رمل سےمثلاًً راول جوگیوں کے کچھ بتلاتے ہیں ۔ اوریوں جناب پیر صاحب کی بزرگیاں ظاہر ہوتی ہیں۔ایسی باتوں میں اسلام کا ذکر ہے۔
یہ تین باتیں جو میں نے یہاں لکھی ہیں ان میں سے پہلی بات گویا ان کاسلوک یا صوفیت ہے۔دوسری بات میں وہ گویا طرق سلوک پورےکرتے ہیں۔تیسری بات میں ان کا عروج ہے۔جو کہ ان کی صوفیت سے حاصل ہوا ہے فقط آخر میں پھر کہتا ہوں کہ اگر خدا سے ملنا چاہتا ہو ےتو بائبل مقدس کی طرف دیکھو اور دین مسیحی کی کیفیت اور ماہیت دریافت کرنے کے لیے کوشش کرو۔
راقم بندہ :عماد الدین لاہز