۲۰ ۔فصل تصور شیخ کے بیان میں

سب صوفی اس بات کے قائل ہیں کہ تصورِشیخ ابتدا میں  مرید کے لیے ضرور ہےیعنی خیال کے وسیلے سے پیر جی کی صورت اپنے دل میں قائم  کرنا اور ایسا قائم کرنا کہ گویاوہی صورت اس کا معبود ہے۔اور یہ شعر سناتے ہیں کہ

چون دیدہ عقل آمد اَحول   معبود تو پیر تست اول

حضرت مجدد صاحب اپنی جلد ثانی کے ۳۱ مکتوب میں اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی کتاب قول جمیل میں اس کی تعلیم دیتے ہیں اور کتاب رشحات کی فصل اول مقصد دوئم رشحہ چہارم میں ایک آیت قرآنی یعنی سورہ توبہ کی ۱۱۹آیت     ( وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ )     کی تفسیر خواجہ احرار سےیوں منقول ہےکہ صادقین کے ساتھ ہونا دو معنی رکھتا ہے۔

 اول مجالست جسمانی۔دوئم باطنی تصورات پس دیکھو کہ یہ صوفی قرآن کے مطالب کو کس  ظلم اور زبردستی سے  اپنے مطلب پر کہنچتے ہیں با لکل  نیچریوں کی تفسیروں کی مانند یہ تفسیر ہے۔عقل اس تفسیر کو قبول نہیں کر سکتی۔ میں پوچھتا ہوں کہ اس تعلیم میں اور بت پرستی میں کیا فرق ہے؟ حضرت مرزا مظہر  جان جانان سے  کتاب معمولات  مظہر یہ میں منقول  ہے کہ نواب مکرم خان نے اپنے پیر خواجہ محمد  معصوم صاحب کی خدمت میں خط لکھا اور کہا کہ آپ کی محبت خدا و رسول کی محبت پر غالب آ گئی اور میں اس سے شرمندہ ہوں۔پیر صاحب نے جواب دیا کہ پیر کی محبت عین خداا و رسول کی محبت ہے۔اور پیر کے کمالات مرید میں آجاتے ہیں۔یہ تو سچ ہے کہ جب پیر معبود ہو گیا تو جوکچھ پیر میں ہےاس میں تاثیر کرے گا۔جیسے بت پرستی سے سنگدلی  اور خدا پرستی سے زندگی حاصل ہوتی ہے۔لیکن پیر صاحب میں کیا ہے صرف ہمہ اوست کا خیال ہےکہ  ویسے ہی یہ ہو جائیں گے۔ہم جانتے ہیں یہ سب بدعتی لوگ خدا اور انسان کے درمیان بعض جسمانی وسائل قائم کرتے ہیں۔لیکن خدا کے کلام میں صاف لکھا ہے کہ خداایسے پرستاروں کو چاہتا ہے کہ جو روح اورراستی سے پرستش کرتے ہیں۔مگر یہ تصور شیخ کی وہی بات ہے کہ ہے جیسے بت پرست لوگ بت کو اپنے اور حقیقی خدا کےدرمیان قائم کرتے ہیں۔