۲۸ ۔فصل حلقہ اور توجھ کے بیان میں
سرگرم پیروں کا ایک خاص وقت خصوصاً مغرب کے بعد مقرر ہوتا ہے۔جب وہ اپنے مریدوں کو لے کر ذکر فکر میں مشغول ہوتے ہیں۔اس کو حلقہ اور توجہ کا وقت کہتے ہیں۔اور ان کے خاندانوں میں اس کے جداجدا طور ہیں چشتیوں کا اور طور ہے۔نقشبندیوں کا اور ہے۔مگر میں یہاں قادریوں کا طور بیان کرتاہوں۔کیونکہ ان کے حلقوں میں جانے کا مجھ کو اکثر اتفاق ہوا ہے۔
مغرب کی نماز کے بعد پیر صاحب ایک کوٹھڑی میں جا کرپشت بدیوار اپنی مسند پر بیٹھے ہیں۔اور میرید آتے رہتے ہیں۔چند منٹ میں سب لوگ جمع ہو کر دائرے کی شکل میں پیر کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں اوردروازہ بند کیا جاتا ہے۔تب پیر صاحب آنکھیں بند کرکے اپنے دل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔اور سب مرید پیر کے منہ کی طرف برابر تکتے رہتے ہیں اور پیر صاحب شوں شوں کی آواز سے ذکر کی دھونکنی جاری کرتے ہیں۔ جب سانس کی رگڑوں کی گرمی بدن میں آتی ہے۔اس وقت آنکھ کھول کر بائیں طرف والے مرید کو گھور کر غور سے دیکھتے ہیں۔اور شوں شوں کا جٹکا دیتے ہیں۔فوراً وہ مریدبھی اسی طرح ہوں ہوں میں ذکر جلی جاری کرتا ہے۔یعنی وہی نفی اثبات کا ذکر شروع کرتا ہے۔اور پیر صاحب پھر بطور سابق اپنے دل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔پھر آنکھ اٹھا کر دوسرے کو جھٹکا دیتے ہیں۔علیٰ ہذا لقیاس سب مریدوں سے یہ معاملہ ہوتا ہے۔اور سب مرید مع پیر صاحب گھنٹہ گھنٹہ تک ہوں ہوں کا شور کرتے رہتے ہیں۔اور عرق عرق ہو جاتے ہیں اور تھک تھک کر چپ کرتے جاتے ہیں۔جب سب چپ ہو گئے۔پیر صاحب ہاتھ اٹھا کر الحمد وغیرہ پڑھتے ہیں۔اورسب لوگ منہ پر ہاتھ پھیر لیتے ہیں۔یہ مشق ہر روز ہوتی ہے۔اس نشست کے دائرہ کا نام حلقہ ہے۔اور پیر صاحب کے گھور کر جھٹکا دینے کانام توجھ ہے۔گویا پیر صاحب اپنے اندر سے کچھ برکت نکال کر روز روز مریدوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں۔اس سے کبھی کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔اگر کہیں کچھ تاثیر ہوئی بھی ہو تو یہ نشان ولائت نہیں ہے۔بلکہ مسمریزم( mesmerism)کی بات جو مومن اور کافر سب کرسکتے ہیں۔توجھ کی صوفیہ میں بڑی عزت سمجھی جاتی ہے کہ پیر میں کچھ قدرت ہے۔وہ ہم میں اثر کرے گی۔ہمیشہ اس توجھ کے لیے کاملین کی تلاش میں رہتے ہیں۔اور کبھی دل سیر نہیں ہوتا۔میں نے اکثروں کو بڑی تمنا سے یہ شعر پڑھتے سنا۔
انانکہ خاک بنظر کمیا کنند | آیا بود کہ نظر سے برمن گدا کنند |
اللہ کا دروازہ چھوڑ دیا پیر وں کا دروازے پر بھیک مانگتے پھرتے ہیں جب کچھ نہیں پاتے تو کہتے ہیں کہ ہماری قسمت۔ارے نادان قسمت کیا چیز ہےتو خدا سے بھیک مانگ وہ دے سکتا ہے۔تونے بھوکوں کے دروازوں پر جا کر بھیک مانگی اور خالی آیا۔وہ جو غنی ہے اس کے دروازے پر کیوں نہ گیا؟کہ وہ تجھے سیر کرتااس کا وعدہ ہےکہ جو کوئی میرے پاس آتا میں اسے نکال نہ دوں گا۔
میں نے بھی ان صوفیوں کی بہت خاک چھانی بلکہ خاک پھانکی اُس وقت میں مسیحی دین سے ایسا ناواقف تھاجیسے اِس وقت بعض دیہاتی ناواقف ہیں میں نے سچے اعتقاد اور نیک نیتی سے ایسا کیا جیسا کرنا چاہئےمیں ہمیشہ جنید بغدادی اور بشیر حانی اور سری سقطی وغیرہ کی روشوں کو نگاہ رکہتا تھا۔اور صرف خدا سے یہ سننے کا محتاج تھا کہ تیرا انجام بخیر ہےپیربن کےروپےاور عزت لینے سے مجھے نفرت تھی۔تمام جفاکشی کے بعد مجھے یہی معلوم ہوا کہ یہ راہ خدا سے ملنے کی نہیں ہے۔اس سے صرف یہی حاصل ہوتا ہےکہ آدمی جاہلوں میں پیر کہلائے اوردنیا کمائے عاقبت کا دغدغہ روح میں سے نہیں نکلتا۔پس میں ان مشقتوں سے تھکا مانندہ اور ناامیدبلکہ متنفر ہو کر قرولی سے پانی پت میں آیا یہاں میرے ایک بزرگ مہربان مولوی عبدالسلام امام صابر بخش دہلوی کے داماد قاضی ثنا اللہ کے پوتوں میں سے تھے۔اورصوفی عالم گوشہ نشین کم گو اہلِ فکر میں سے تھے۔میں خلوت میں جا کر ان سےاس مذاق کی باتیں کیا کرتا۔اب آکر میں نے ان سے کہا کہ نہ اسلام سے میری تسلی ہوتی ہےاور نہ تصوف سے۔میں اب ان سب طریقوں کی پابندی چھوڑتا ہوں اورخدا کی تلاش دنیا کے اور فرقوں میں جاکر کروں گا۔اگر آپ مجھے بدلیل روک سکتے ہیں تو مہربانی کرکے روکیں۔نیچے سر کر لیا اور چپ کرگئے۔آخر میں سلام کرکے چلا آیاسات سال کے بعد مجھ پر یہ ظاہر ہوا کہ خدا کا دین صرف مسیحی دین ہے۔اور عاقبت بخیر اسی سے ہوتی ہے۔اس وقت میں لاہور میں تھا۔اور جب مجھ پر یہ ظاہر ہوا۔تب میں نے ہٹالہ والے صاحب سے یعنی شاہ مولوی میر احسن صاحب سےکہ صوفی عالم تھے۔یہ بھید خفیتہً وزیر خان کی مسجد واقع لاہور میں بیٹھ کر کہا کہ اگر آپ بدلیل میری تسلی کرکے مجھے مسیحی ہونے سے روک سکتے ہیں تو خدا کے لیے یہ کام کیجیے۔فرمایا کہ روکنے کی دلیلیں اور تسلی کی طاقت میں نہیں رکھتا مگر یہ کہتا ہوں کہ مسیحی ہونے سے تمہاری مولویت عزت تو جاتی رہے گی۔مسلمان گالیاں دیں گے رشتےدار چھوٹ جائیں گےاور مسیحی لوگ یعنی انگریز بھی تمہاری کچھ پرواہ نہ کریں گے۔عام مسیحیوں کی طرح مارے مارے پھرو گے۔تب میں نے کہا کہ اگر عزت و آرام کی حفاظت کرتا رہوں تو خدا ہاتھ سے جاتا ہےاور اگر خدا کو تھامتاہوں تو یہ سب چیزیں ہاتھ سے جاتی ہیں۔ایک نقصان تو مجھے بہر حال ہاتھ سے اٹھاناہے۔عقل کا حکم ہے کہ ایسی حالت میں چھوٹے نقصان کو گوارا کرنا چاہیےکہ بڑا نقصان نہ ہوپس میں سلام کرکے چل دیااور مسیحی ہوگیا۔اور میری روح میں تسلی آگئی۔کہ یقیناً میری عاقبت بخیر ہے۔اور اب جو میں دنیا میں زندہ ہوں ہزارکمزوریاں مجھ میں ہوں پرواہ نہیں ہے مسیح نے مجھے بچالیا ہے۔میں نجات یافتہ ہوں۔خدا کی اور میری صلح ہو گئی۔میرے گناہ بخشے گئے۔میں نے اپنی روح میں خدا سے فضل پایا۔ہاں دنیاوی دکھوں کی موجوں میں ہوں لیکن پر پار اتر کر خدا کے پاس آرام میں ابد تک زندہ رہوں گا۔کیونکہ خدا ہر وقت میرے ساتھ ہے۔
ناپاک دل کو تاہ اندیش بازاری مسلمانوں جوچاہا سو مجھے کہا اور بعض جھوٹے دینی بھائیوں نے بھی جو دکھ دیا میرا دل اور خدا جانتا ہے۔بلکہ جسمانی رشتے داروں سے ایذا پائی لیکن اسی صبر سے کام نکلا۔جو پیغمبروں میں تھااور خدا نے اپنے فضل سے دل میں القا کیا۔یہ سب کچھ خدا وند یسوع مسیح کی پاک توجہ سے ہوا جس نے مجھ پر رحم کیا۔۔وہ ایک ہی شخص ہے جس کی توجہ خاک سےافلاک پر پہنچاتی ہے۔وہ بات بالکل غلط ہے کہ دنیا میں ایسے کاملین بھی ہیں کہ جن کی توجہ سے بیڑا پارہوتا ہے۔پیر فقیر تو الگ رہے۔سچے پیغمبروں کی توجہ سے بھی کچھ نہیں ہوتا۔ایک ہی شخص ہے جس کی توجہ سے اولین و آخرین نے فضل پایا ہے۔بغیر اس کے فضل کے نہ کوئی ولی ہو سکتا ہے۔نہ کوئی نجات پا سکتا ہے۔نہ کسی کا دل صاف ہو سکتا ہے اور نہ ہی معرفت حاصل ہوتی ہے۔صرف اسی کی توجہ سے سب کچھ ہوتا ہے۔
وہ جو کہتےہیں کہ ہم مسیح کو پیچھے ہٹا کر صرف خدا سے فضل کے امید وار ہیں۔وہ سخت غفلت میں ہیں اور نادان ہیں۔کیونکہ خدا جس نے اپنا کلام یعنی بائبل پیغمبروں کے وسیلےسے دنیا کو یہ ثبوت دیا ہے۔وہ صادق القول اور لا تبدیل خدا ہے۔اور اس نےا س بات پر مہر کردی ہےکہ بغیر خداوند یسوع مسیح کے کوئی نہیں بچ سکتا اور نہ روحانی برکت پا سکتا ہے۔
پس اے میرے ہم ملک پیارے بھائیوں اٹھو فکر کرو اور باانصاف کلام اللہ کو پڑھوسمجھو اور سب واہیات مہلک خیالات پھینک دو اور مسیح پر ایمان لا کرپاک ہو جاؤتب خدا تمہارے پاس آئے گااورتم اس کے پاس جا سکو گے۔بغیر اس ایمان کے خدا اور انسان میں دشمنی رہتی ہے۔اور کسی بات پر الٰہی توجہ نہیں ہوتی حقیقی حلقہ خدا کی کیتھولک کلیسیا ہےاور حقیقی توجہ خداوند یسوع مسیح سے ہوتی ہےاس بات پر بہت سوچو۔