۱۳ ۔فصل معرفت کے بیان میں

لفظ معرفت بمعنی شناختیں اگرچہ چند معنی میں اہل علم نے استعمال کیا ہے۔لیکن صوفیہ کی اصطلاح میں خدا کی ذات وصفات کی پہچان کا نام معرفت ہے۔اور یہ صحیح و درست بات ہے کہ خدا کی ذات و صفات کی شناخت معرفت ہے۔لیکن بحث اس میں ہے کہ آیا صحیح معرفت الٰہی کہاں سے ہے،اور کیونکر حاصل ہوتی ہے؟اور کہ صوفیہ نے کیا  معرفت حاصل کی ہے؟وہ خدا کی نسبت کیا کچھ سمجھتے ہیں؟اوردانشمند طالب حق کا فرض ہےکہ ان باتوں پر فکر کرے۔

 ہم جو مسیحی ہیں ہم بھی معرفت کی عزت کرتے ہیں۔اورمعرفت میں ترقی کے در پر ہیں۔کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تمام جہان کےعلوم کاحاصل یہی ہوناچاہیے  کہ آدمی اپنے خالق کو پہچانے اور ہم صاف کہتے ہیں کہ جس نے سب کچھ سیکھا اور خدا  کو نہیں پہچاناوہ اب تک جاہل ہے۔

 فی الجملہ خدا شناسی تو عام لوگوں کو حاصل ہےکہ وہ خدا کے وجود کے قائل ہیں۔لیکن اتنی خدا شناسی کافی نہیں ہے۔ضرور ہے کہ سب آدمی آگے بڑھیں اوراس قدر بڑھیں کہ نہ صرف کی ذات وصفات پر ہی بس کریں بلکہ اس کی مرضی اور ارادہ کو دریافت کرکے اور اس کے مناسب کام کرکے اس کی رضامندی اپنی نسبت حاصل کریں۔پس وہ معرفت جو کہ صوفیہ نے حاصل کی ہےوہ کہاں سے ہے؟کچھ قرآن سے ہے ۔تو بھی بطریق  تحریف معنوی  کے کچھ حدیثوں سے ہے۔سو بھی اکثر ضعیف اور وضعی حدیثوں سے کچھ اپنے بزرگ صوفیہ اقوال میں سے ہے۔کچھ اہلِ فلسفہ کے خیالات میں سے ہے۔کچھ بعض شعرا کے اشعارمیں سے ہے۔ ان کی معرفت کے ماخذ ہیں۔ناظرین انصاف سے کہیں کہ کیا یہ چیزیں اس لائق ہیں کہ دانش مند آدمی اپنی روح کو ان باتوں کے حوالے کردے؟ہر معتبر جگہ سے  جو باتیں سامنےآتی ہیں۔وہ اس روشنی کے زمانے میں مقبول نہیں ہوسکتی ہیں۔

 پھر صوفیوں نے اور ان کے ولیوں نے کیا معرفت حاصل کی ہے  اوران کے خیالات میں کیا کچھ بھر گیا تھا؟جو کچھ ان کے خیالوں میں بھر گیا تھا تصوف کی کتابوں میں یہ سب باتیں لکھی ہیں۔اور ہم نے ان  کی کتابوں کو پڑھ کر معلوم کر لیا ہے کہ اُن کے خیالوں میں کیا تھا؟اورجو کچھ ان کے خیالوں میں تھا وہی کچھ ان کی معرفت تھی۔سب سے عمدہ اور معبتر اور مسائل معرفت کی جامع کتا ب ان میں مولوی روم کی مثنوی ہے۔جس کی عبارت فصیح اور مضامین اکثر جید ہیں اور اس کی نسبت یہ شعر درست ہے۔

مثنوی مولوی معنوی   ہست قرآن درزبان پہلوی

لیکن  اس میں اور تمام کتب تصوف  میں قریب دو ثلث کے ایسے مضامین درج ہیں جن کو زمانہ حال کی روشنی غلط بتلاتی ہے۔البتہ بعض باتیں صحیح اوردرست بھی ہیں۔لیکن  بعض بڑے بڑے اصول محض غلط ہیں۔مثلاً ہمہ اوست وغیرہ۔اور میں یہ کہہ چکا ہوں کہ جو کچھ اس کے خیالوں میں تھاوہی ان کی معرفت تھی۔پس ان کی معرفت میں دیکھو کہ کہاں تک غلطی تھی۔اور اس کا سبب یہی ہوا کہ ماخذ معرفت ناقص تھا۔اس لیے ناقص معرفت حاصل ہوئی جس کا بطلان اب ظاہر ہو گیا۔پس سوچو کہ وہ لوگ اب غلط خیال  لے کراپنی روحوں میں کدھر گئے ہوں گے۔

 جو معرفت صوفیہ نے اپنی  کتب تصوف سےحاصل کی ہے۔اور جو معرفت ہندوں نے ویدوں اور شاستروں ویراگ سےحاصل کی ہے۔اور جو معرفت قلندروں نے اپنے مشرب قلندریہ اور عشقیہ نعرہ زنی سے حاصل کی ہےاور جو جو باتیں یہ جدید مذاہب والے لوگ اپنے خیالات سے پیدا کررہے ہیں۔یہ سب تنگ و تاریک اور پُر خطر اور بے تسلی ہیں۔کیونکہ وہ سب ایسی راہیں ہیں کہ انسان نے اپنے سے خدا تک نکالنے کا ارادہ کیا ہے۔عقل کہتی ہے کہ ایسی راہوں سے آدمی  خدا تک نہیں پہنچ سکتا۔کیونکہ وہ خدا کو نہیں جانتا۔

 انسان خود سے خدا تک راہ نہیں نکال  سکتاہاں خدا خود سے انسان تک راہ نکال سکتا ہے۔اور اس نے راہ نکالی بھی ہے۔کیونکہ اس نے دنیا کے شروع سےپیغمبروں کو بھیجا کہ اہلِ دنیا کے معلم ہوں اوراس نے پیغمبروں کے وسیلے سے الہام سے بائبل مقدس  کو لکھوایاکہ آدمیوں کے ہاتھ میں معرفت الٰہی کا دفتر ہو۔اور وہ اپنی روح سے طالبان حق کے لیے ہدایت کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہااور اب بھی تیار ہے۔

 پھر جن لوگوں نے پیغمبروں کو مانا اور بائبل سے معرفت حاصل کی ان کے خیالات بھی  کلیسیا  کے دفتر میں مرقوم ہیں۔اب اگر کچھ علم اور کچھ  عقل اور کچھ انصاف رکھتے ہو تو اٹھوں اور اپنی معرفتوں کو اس معرفت کے ساتھ مقابلہ کرو کہ جو بائبل سے ہےتب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ جو معرفت بائبل سے ہے وہ وہ نہایت لمبی چوڑی ،اونچی ، گہری،روشن اور پر تسلی اور زندگی بخش چیز  ہے۔اور تمام دنیاوی مصنوعی معرفتوں پر ایسی غالب ہے جیسے اللہ تعالیٰ سب چیزوں پرغالب ہے۔

 خدا کی ذات پاک کا صحیح علم۔اور اس کی صفات قدیمہ کا صحیح بیان اور اس مرضی اور ارادوں کا ذکر۔اور اس کے گذشتہ  عجیب کاموں اور انتظاموں کا تذکرہ۔اور اس کے ان عجیب  کاموں اور انتظاموں کا بیان جو ہر روز دنیا میں نظر آتے ہیں۔اور اس کی جلیل حکمت اور پیش بینی کی کیفیت وغیرہ باتیں جس قدر بائبل سے معلوم ہوتے ہیں۔ساری دنیا میں کوئی کتاب نہیں ہےکہ ان امور کا ایسا بیان کرے۔

 لیکن بائبل کو پڑھنا اور سیکھنا چاہئے اس کے ہر ایک لفظ پر غور کرکے اور ہر لفظ کے نیچے جو قادیق مندرج  ہیں کہ اس لفظ کی روشنی میں اور عرفان بائبل الٰہی روح کی مدد سے دریافت کرکےاپنی کتابوں میں لکھے ہیں۔ان سب کو دریافت کرکے پڑھنے کانام بائبل مقدس  کا پڑھنا ہے۔

 کیونکہ کسی شے کی پوری کیفیت اسی وقت معلوم ہوتی ہےجب اس کی خوبی اور برائی میں خوب غور کی جاتی ہے۔ایسا ہی معاملہ ویدوں اور قرآن وغیرہ کے سا تھ بھی برتنا واجب ہے۔تاکہ کسی کی نسبت کوئی امر حق تلفی کا وقوع میں نہ آئے۔عوام الناس کو ایسی تکلیف نہیں دی جاتی۔وہ اپنی لیاقت اور طاقت کے مناسب جو کچھ کلام متن سے سیکھتے ہیں وہ معرفت ان کی نجات کے لیے مفید  ہے۔لیکن وہ جو معرفت میں ترقی چاہتے ہیں اورلیاقت و طاقت اور ہمت بھی رکھتے ہیں۔انہیں ضرور ہے کہ اس انتہا مہر معرفت میں غوطہ زنی کرنے کی تکلیف کو گوارا کریں۔تاکہ حقیقی معرفت کا لطف  حاصل ہواورانوارِ الٰہی سے منور ہو جائیں مسیحی اولیا اللہ نے ایسا ہی کام کیا ہے۔

 حاصل کلام  یہ ہے کہ حقیقی معرفت صرف بائبل سے حاصل ہوتی ہےاور مسیحی ولیوں کو حاصل ہوئی ہےاور بائبل میں مندرج ہے۔اور پیغمبروں سے پہنچی ہے۔لیکن وہ معرفت جو تصوف وغیرہ سے ہے وہ نادانی کے خیالات ہیں جو اڑ گئے اور اڑتے جاتے ہیں۔اور وہ جو اس پر فریفتہ ہیں آخر کو شرمندہ ہوں گے۔اورہائے افسوس ؛کہیں گے۔کیونکہ انہوں نے خدا کے کلام کو ذلیل  اور حقیر سمجھا۔اور اس پر توجہ نہ کی مگر انسانوں کی باتوں  کو مفید اور معتبر قرار دیا تھا۔اس کی سزا خدا کی عدالت میں اٹھانی ہو گی۔