۱۸ ۔فصل علم سینہ اور سفینہ کے بیان میں

لفظ  سفینہ کے معنی ہیں بیاض اشعار یعنی شعروں کی کتاب اور کشتی کور بھی سفینہ کہتے ہیں۔علمِ سفینہ بااصطلاح صوفیہ وہ علم ہے جو کتب میں مرقوم ہے۔اور اس سے محمدی شرع  کی کتابوں پر اشارہ ہوتا ہے۔

 علم سینہ ان کے گمان میں وہ باتیں ہیں جو محمد صاحب سے اور  صوفی بزرگوں سےسینہ بہ سینہ یعنی خفیہ تعلیم سے ان میں آئی ہیں۔ان باتوں کو وہ چھپا کر رکھتے ہیں۔اور خاص مریدوں کو سکھلاتے ہیں۔اور علم سفینہ کی نسبت اس علم سینہ کی بڑی عزت کرتے ہیں۔گویا اصل معرفت یہی ہے۔مراد یہ ہے کہ محمد صاحب کی عام اور علانیہ تعلیم تو قرآن و حدیث ہےاور خفیہ تعلیم  صوفیہ کے پاس پوشیدہ ہے۔

 نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت نے دوطرح کی تعلیم دی ہےعلانیہ اور خفیہ۔علانیہ میں کچھ اور ہے خفیہ میں کچھ اور ہے۔اور یہ بات عدم صفائی اور فساد کی ہے دنیاوی مزاج لوگ جن کے دلوں میں اور  کاموںمیں  صفائی نہیں ہے۔وہ ایسے کام کرتے ہیں کہ خدا کے پیغمبروں نے ایسے کام نہیں کیے۔جو کچھ انہوں نے خدا سے پایاجہاں کے سامنےعلانیہ رکھ دیا تاکہ اہلِ دنیا ان باتوں کو پرکھیں۔مسیح خداوند نےصاف فرمایا کہ (یوحنا ۱۸۔۲۰)میں نے آشکارا عالم سے باتیں کیں۔میں نے ہمیشہ عبادت خانوں اور ہیکل میں جہاں سب یہودی جمع ہوتے ہیں تعلیم دی اور خفیہ کچھ نہیں کہا۔

 دیکھو یہ کیسی صفائی کی بات ہےاب کوئی مسیحی یہ نہیں کہ سکتا ہےمجھے  کچھ خفیہ تعلیم مسیح سے پہنچی ہے۔پھر یہ کیا بات ہے کہ محمد صاحب سے شرعی تعلیم علانیہ اور تصوفی تعلیم خفیہ ہوتی ہے۔اُسپر لطف کی  بات یہ ہے کہ جو کچھ صوفیہ کے پاس خفیہ تھا وہ سب ظاہر ہو گیا اور ان کی کتابوں میں مرقوم ہے۔پس وہ خفیہ اب خفیہ نہ رہااور ظاہر ہو گیا۔کہ اس میں بہت کچھ تعلیم علانیہ کے خلاف ہے۔اور دانش مند کے سامنے نہ اس علانیہ کا اعتباررہا نہ اس خفیہ کا بلکہ معلم کی چالاکی ثابت ہوئی اور نقادوں کو معلوم ہو گیا کہ نہ علانیہ میں زندگی ہے اور نہ خفیہ میں۔

 اس وقت شاید کوئی محمدی صاحب کہیں حضرت محمد صاحب نے خفیہ کچھ نہیں سکھلایا ہے۔صوفی لوگ حضرت پر تہمت لگاتے ہیں جو ان کی خفیہ تعلیم کے قائل ہیں۔اس لیے مجھے یہ بتلانا بھی  واجب ہے کہ حضرت میں کچھ خفیہ تعلیم کی عادت تو تھی  خلافت کا انتظام حضرت علی کے ساتھ تو خفیتہً  کچھ اور کیااور ابو بکر کے ساتھ کچھ اور کیا اور اس خفیہ بندو بست  سے کس قدر فساداور خون  ریزی اور امت میں تفرقہ پڑااگر آنحضرت اس خلافت کا انتظام صاف صاف قرآن میں کہہ دیتے تو کاہے کو وہ فساد ہوتے؟اور کیوں یہ سنی شعیہ بنتے؟دیکھو مسیح  نے پطرس کے حق میں صاف صاف کہہ دیا تھا(متی ۱۶: ۱۸سے ۲۰، یوحنا ۲۱: ۱۵ سے ۱۷ اور ۲۳) کہ تو میرے پیچھے ہولے صاف ظاہر ہے کہ اس وقت وہ کلیسیا کے انتظام کے لیے  مقررہو گیا اور سب حواری خاموشی سے اس کے پیچھے ہو لیے  ہیں۔محمد صاحب نے ایسانہیں کیا ۔بلکہ اس کو کچھ خفیہ کہہ کر فساد برپا کردیا میری اس سے  صرف یہ غرض ہے کہ خفیہ تعلیم کی عادت توتھی کیا تعجب ہے کہ تصوفی خیالات کی جڑ خفیہ سکھلائی ہو۔