۱۰ ۔فصل ان ولیوں کے عہدوں کے نام بحسب اختیارت

صوفی سمجھتے ہیں کہ ان کے اولیا اللہ بحسب اپنے عہدوں اور درجوں دس قسم کے لوگ ہیں۔(۱) قطب العالم (۲) دیگر اقطاب یعنی  قطب اقلیم قطب ملک جس کو شاہ ولایت بھی  کہتے ہیں اور قطب  شہر وغیرہ (۳)امامان  (۴) اوتاد (۵) ابدال(۶) اخیارو ابرار(۷)  نقبا، ونجبا  (۸)عمداء (۹)  مکتومان (۱۰) مفردان ، مجردان ۔ اب ان عہدوں اوردرجوں کی شرع اور تفصیل جہاں  تک کتب تصوف مجھے معلوم ہوئی بیان کرتا ہوں۔

(۱)قطب العالم

لفظ قطب کے معنی ہیں کہ چکی کی کیلی یعنی  وہ لوہےکی میخ جس کے گرد اور جس کے سہارے سے اوپر کا پاٹ  گھومتا ہے۔صوفی کہتے ہیں کہ دنیا کے درمیان ایک آدمی ہر زمانے میں ایسا ہوتا ہے کہ اس پر خدا کی ایک خاص نگاہ ہوتی ہے۔گویا وہ خدا کی نگاہ کا محل ہوتا ہےاورسارے جہان کاانتظام اسی آدمی سے ہوتا ہے وہ سب موجودات پر اورعالم سفلی وعلوی کے تمام مخلوقات  پر حاکمِ اعلیٰ ہوتا ہے اورسب اولیا  ء اللہ اُس کے نیچے ہوتے ہیں اسی کانام قطب العالم ہے اور اسی کو قطب الاقطاب و قطب و کیر و قطب ارشاد قطب مدار بھی کہتے ہیں۔کتاب مجمع السلوک میں لکھا ہے  کہ اسی کا نام غوث ہےلیکن دوسری بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ غوث اور شخص ہے جو قطب العالم کے نیچے ہوتا ہے۔ مراۃ الا اسرار وغیرہ میں لکھا ہے کہ قطب العالم کے دائیں بائیں دو ولی اللہ مثل وزیر وں کے  رہتے ہیں،ان دونوں کا نام غوث ہے یعنی فریاد رس وہ غوث جو قطب العالم کے دہنی طرف  رہتا ہے اس کا خطاب عبدالملک ہے اور کام اس کا یہ ہے کہ قطب العالم کے دل پر سے فیض  اٹھا کر عالمِ بالا کی موجودات کو پہنچاتا ہےاور وہ غوث جو بائیں طرف رہتا ہے اس کا خطاب عبدالرب ہے کام اس کا یہ ہے کہ قطب العالم کے دل پر سے فیض اٹھا کر عالمِ سفلی یعنی اس جہان کی موجودات کو پہنچاتا ہے اور جب قطب العالم مر جاتا ہے یا اپنے عہدے سے ترقی کرکے قطبِ وحدت ہوجاتا ہے یعنی خدا میں اس کو دوری نہیں رہتی ہے تب اس کا عہدہ خالی ہوتا ہے اور عبدالملک اس کی جگہ میں آجاتا ہےاور عبدالرب عبدالملک کی جگہ میں آجاتا ہے اور عبدالرب کی جگہ کوئی اور ولی  ترقی پا کر بھرتی ہوجاتا ہے۔

 اور یہ بھی کہتے ہیں کہ قطب العالم کا دل ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ جیسا محمد صاحب کا دل تھا۔یعنی تمام خصلتیں اس کی محمدی خصلتیں ہوتی ہیں۔کتاب لطائف اشرفی ۴ میں لکھا ہے کہ اگر غوث اور قطب  نہ ہوں تمام جہان زیر زبر ہو جائےپس معلوم ہو گیا کہ یہ لوگ جہان کے سنبھالنے  والے ہیں۔

 میں کہتا ہوں کہ یہ صوفیہ کا دعوی ہے کہ ایسے لوگ دنیا میں ہوتے ہیں لیکن ہر دعوے کے  لیے کچھ دلیل ہونی چاہیے ورنہ دعویٰ باطل ہو گا۔ پس اس دعوے کے لیے کتب تصوف میں کوئی دلیل نظر نہیں آئی جس کا میں یہاں بیان کروں۔چاہئے کہ ناظرین کتاب ہذا  صوفیوں سے  اس دعوے کا ثبوت طلب کریں اوران سے کہیں کہ تم جو قرآن پر ایمان رکھتے ہوکیا تمہارے خدا نے تمہارے قرآن میں ایسے عہدوں کی تمہیں کچھ خبر دی ہے یا تمہارے پاس کوئی عقلی دلیل ان عہدوں کے ثبوت میں ہے،یاتم دنیا کی تاریخ سے یہ ثابت کرسکتے ہو،ان عہدوں کے اشخاص اس دنیا میں ہوتےآئے ہیں؟یاتم بتلا سکتے ہو کہ دنیا میں اس وقت ایسے ایسے  فلاں اشخاص موجود ہیں۔برخلاف اس کے صوفی یوں کہتے ہیں کہ  ایسے اشخاص ہوتے تو ہیں مگر کسی کو معلوم نہیں ہو سکتے کہ وہ کون ہیں اور کہاں ہیں۔اب فرمائیں کہ اس بات کو سوائے ناسمجھ آدمی کے کون قبول کرئے گا۔

 جہان کو سنبھالنااسی کا کام ہے جس نے جہان کو پیدا کیا ہے۔انسان میں تو اتنی طاقت بھی نہیں کہ وہ اپنی جان کو سنبھالے۔اگر  خدا آدمی کو نہ سنبھالے تو آدمی قائم نہیں رہ سکتا۔اگر آدمی فرضاًً خدا کے برابر ہو جائے علم اورطاقت میں اور حکمت ودور بینی میں تب وہ شاید خدا کا شریک جہان کو سنبھال سکتا ہے لیکن یہ بات عقلاً نقلاً محال ہے کہ کوئی مخلوق خدا کے برابر ہوجائےاور جب برابر نہیں ہوسکتا تو وہ کام بھی نہیں کرسکتا جو خداکے کرنے کا ہے۔

 غوث اور قطب عالم کا عہدہ اتنا بڑا بیان ہوا ہے کہ قرآن اور حدیث سے محمد صاحب کا بھی اتنا بڑا عہدہ ثابت نہیں ہوا۔پس یہ کیسا مبالغہ ان صوفیوں کا ہےاور ایسا خیال ان کے دلوں میں کہاں سے آگیا؟ شاید قوم صوفہ میں یغوث بت کی شان کاخیال چلا آیا ہواور حالتِ اسلام میں اس مکروہ خیال نے نئی شکل پکڑ کر یہ غوث قطب کا خیال پیدا  کردیاہوواللہ علم۔

 ہم مسیحی لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ کل جہان کا اختیار خداوند مسیح کے ہاتھ میں اور ابد تک اسی کے ہاتھ میں رہےگا۔یہ ہمارا دعویٰ کلام اللہ سے ثابت ہےاور مسیح کی شان کے مناسب ہےکیونکہ وہ اللہ انسان ہے اورسب جہان اس سے پیدا ہوا ہے پس وہ جو سارے جہان کا خالق ہےوہی جہان کو سنبھالتا بھی ہے۔

(۲) دیگر اقطاب یعنی دوازدہ اقطاب

 قطب العالم توکل جہان میں ایک شخص فرض کیا گیا پھر اس کے نیچے بارہ قطب اور مانے جاتے ہیں۔جو اس کے حکم میں رہتے ہیں۔کیا تعجب ہے کہ یہ  خیال قدیم صوفیہ نے خداوند یسوع مسیح اوراس کے بارہ شاگردوں پر غور کرکے اپنے ولیوں کی طرف الٹ لیا ہو۔وہ کہتے ہیں کہ کل زمین  ہفت اقلیم میں منقسم ہے اورہر اقلیم میں ایک قطب رہتا ہے جس کو قطب اقلیم کہتے ہیں۔پھر ہر ولایت میں ایک قطب فرض کرتے ہیں۔جس کو شاہِ ولایت کہتے ہیں اور پانچ ولایتیں بتلاتے ہیں۔یہ پرانے زمانے کی تقسیم ہے۔پس سات اورپانچ بارہ قطب ہوئے۔

فتوحاتِ مکی ۵ میں لکھا ہے کہ قطبوں کی  کچھ نہایت نہیں ہےقطب زہاد، قطب عباد ، قطب عرفا، قطب متو کلان وغیرہ۔ہر صفت پر ایک قطب ہوتا ہےاور ہر گاؤں میں ایک قطب رہتا ہےاور گاؤں کی حفاظت کرتا ہےاورولیوں کی بھی انتہا نہیں ہے۔جب کوئی ولی ترقی کرتا ہے تو وہ قطب ولایت بن جاتا ہے۔پھر ترقی کرکے قطب اقلیم ہوتا ہے۔اسی کو قطب ابدال کہتے ہیں اور وہ ترقی کرکے عبدالرب یا بایان غوث  ہو جاتا ہے۔پھر  دہناغوث یا عبدالملک بنتا ہے۔پھر قطب عالم ہوتا ہےاور وہاں سے ترقی کرکےقطب وحدت ہوتا ہےانہیں کو مفردون اور مجردون کہتے ہیں لیکن یہ صرف صوفیہ کی تجویز ہےاس کا ثبوت تو کچھ نہیں ہےبلکہ دعوے بے دلیل ہے۔اوراس روشنی کے زمانے میں اس کا بطلان ظاہر گو گیا  اور معلوم ہوگیاہے۔کہ یہ ان کی وہمی اور فرضی بات تھی۔خدا نے ایسے غوث اور قطب وغیرہ کچھ نہیں بنائے۔البتہ بعض لوگ خود نیک اور خدا پرست گزرے ہیں۔ان کی موت کے بعد مریدوں نے ان کی قبروں پر دکان داری جاری کرنے کے لیے ان کے نام غوث اور قطب اور شاہ ولایت اور مخدوم صاحب رکھ لیے ہیں اور مذکورہ عہدے فرض کیے ہیں۔پھر آپ ہی کہتے ہیں کہ ان عہدے داروں کی موت کے بعد دوسرے لوگ ان عہدوں پر مقرر ہوتے ہیں۔پس چاہئے کہ ان مرد گان کو ان عہدوں سے برخاست شدہ سمجھ کر ان کی قبریں نہ پوجیں۔بلکہ ان زندوں کو تلاش کریں جو بجائے ان کے عہدہ یاب ہوئے  ہیں۔

(۳) اوتاد

 لفظ اوتاد وَتَد یا وِتَد کی جمع ہے۔لکڑی کی کھونٹے کو عربی میں وَتَد کہتے ہیں محمد صاحب نے  پہاڑوں کو قرآن میں اوتاد کہا ہے۔گویا وہ خدا کی طرف سے زمین پر گاڑے ہوئے کھونٹے ہیں۔تاکہ زمین جنبش نہ کرے صوفی کہتے ہیں کہ ہمارے ولیوں میں سے چار ولی ایسے ہیں کہ وہی اوتاد ہیں۔مراۃ الاسرار ۶ میں لکھا ہے کہ مشرق میں عبدالرحمٰن کھونٹا ہے۔مغرب میں عبدالودود  کھونٹا ہے۔جنوب میں عبدالرحیم کھونٹا ہے۔شمال میں عبدالقدوس کھونٹا ہے۔ان چاراشخاص سے جہان کا استحکام ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ جہان کا استحکام صرف خدا کی قدرت سے ہےنہ  کہ ان چار اوتاد سے جن کا ثبوت نہ عقل سے ہے نہ کلام اللہ سے۔

(۴) ابدال

  لفظ بَدل بامعنی معاوضہ یا بُدیل بمعنی شریف کے  جمع ابدال ہے۔لیکن اس کا استعمال واحدا ور جمع پر برابر ہےبعض صوفی کہتے ہیں کہ ابدال وہ لوگ ہیں جنہوں نے تبدیلی حاصل کی ہےبرُی  صفتوں میں سے نکلے ہیں اچھی صفتیں پیدا کی ہیں یہی مضمون سچ ہےاور یہ انجیل شریف کی بات ہے  نہ کہ قرآن کی کیونکہ انجیل کی بڑی اور مقدم تعلیم  یہی ہےکہ مسیحی ایماندار مسیح کی قدرت سے تبدیل ِدل اور تبدیلِ  مزاج کرتاہےاور جتنے سچے مسیحی ہیں وہ سب ابدال ہیں اور اہلِ دنیا بھی اگر غور سے دیکھیں توانہیں حقیقی مسیحی بدلے ہوئے نظر آسکتے ہیں۔

  میں سمجھتا ہوں کہ یہ خیال ان صوفیہ میں ملک شام سے آیا ہے۔اس لیے ان کی کتابوں میں عراق اور شام کی طرف بہت ابدال بیان ہوئے ہیں کیونکہ وہاں رُہبان بکثرت رہتے ہیں۔

(انورالعارفین صفحہ۱۰۵) میں لکھا ہے کہ    نشان ابدال آنست کہ زائدہ نمیشو مردایشان رااولاد و ایشان لعنت نمیکنندِچیزیرہ    کسی چیز پر لعنت نہ کرنایہ خاصہ صرف مسیحی آدمی کا ہے    اور اولاد پیدا نہ ہونا یہ خاصہ رہبان کا ہے۔کیونکہ رہبان نکاح نہیں کرتےاور اگر شادی والے پہلے سے ہوں تو وہ دونوں مرد عورت اس دنیاوی خیال سے الگ ہو کر عبادت میں مصروف رہتے ہیں اس لیے ان کی اولاد پیدا نہیں ہوتی۔پس صوفی کہتے ہیں کہ خدا نےابدال کو وہ طاقت دی ہےکہ جہاں چاہیں اڑ کر چلے جائیں اور اپنی مثالی صورت اس جہاں پر چھوڑ جائے بلکہ بعض اوقات گیڈریا شیر یا بلی وغیرہ کی صورت بھی بن جاتے ہیں۔یہ سب باتیں غلط ہیں۔ابدال وہی مسیحی ہیں جو بدل گئے ہیں جنہوں نے نیا جنم پایا ہے۔اگر کوئی صوفی ابدال بننا چاہے تو حقیقی مسیحی ہو جائے۔

صوفیوں کا تصوف اور محمدیوں کا اسلام اور کل مذاہب  دنیا کےخیالات عبادات وغیرہ سے کوئی آدمی دل کی تبدیلی حاصل نہیں کرسکتا اور جب تک اس کا دل تبدیل نہ ہو جائےخدا کا مقرب بھی نہیں سکتا۔صرف مسیحی دین ہےجس سے تبدیلی ہوتی ہےاور آدمی ابدال بن جاتا ہے۔

(۵) اخیاروابر

یہ لفظ خیر اور بر کی جمع ہے۔بمعنی نیکو کاران فی الحقیقت یہ الفاظ سچے ایمانداروں اور نیکوکاروں کے حق میں تھے۔لیکن صوفیوں نے زبردستی یانادانی سے اپنے خاص قسم کے ولیوں کے حق میں تجویز کر لیے ہیں اور کہتے ہیں کہ تین سو آدمی ایسے ہوتے ہیں اور کچھ بیان ان کا نہیں کرسکتے۔

(۶)امامان

یعنی دین کے پیشوا ایسے لوگ  البتہ محمدیوں میں  ہوئے ہیں۔جنہوں نے ان کے دین کا بندوبست ظاہری طور پر کیا ہے۔لیکن ان عہدوں کو ولایت سے کہ  امر باطنی ہے کچھ علاقہ نہیں ہے۔ان کے امام تین قسم کےہیں۔اول بارہ امام ہیں۔جو حضرت علی کی اولاد میں سے ہوئے ہیں۔جن کو شعیہ لوگ معصوم بتاتے ہیں اور اپنے دین کا پیشوا سمجھتے ہیں۔دوئم چار امام سنیوں کی فقہ کے گزرے ہیں۔جنہوں نے مسائلِ فقہ اپنے اجتہاد  سے نکالے ہیں۔سوئم وہ امام ہیں۔جو کہ جہاد کے وقت محمدی فوج کے سردار  یا سپہ سالار ہوتے تھے۔بعض ان میں سے جہادوں میں مر گئے ہیں اور ان کے مقبر ے پوجے جاتے ہیں۔چنانچہ دو امام ہمارے پانی پت میں بھی پوجے جاتے ہیں۔پس ان صوفیہ نے اپنے ولیوں کی فہرست میں ان اماموں کو بھی شامل کیا ہے تاکہ امام پر ظاہر کریں۔وہ بھی ان کی طرف تھے۔

 کتاب اصطلاحات صوفیہ مصنفہ عبدالرزاق کاشی ۷ میں لکھا ہے کہ امامان وہ دو شخاص ہیں جو قطب عالم کے داہنے اور بائیں رہتے ہیں۔یہی قدیم اصطلاح صوفیہ کی معلوم ہوتی ہے۔اس صورت میں وہ تین قسم کے  امام ولیوں کی فہرست میں نہیں آسکتے اور یہ امامان غیر معلوم شخص ہوتے ہیں۔پس یہ صرف نام ہی نام ہے اور کچھ نہیں ہے۔

(۷) نُقَباَو بخُباَ

نُقَباَ نقیب کی جمع ہےبمعنی مہتر وعریف و دانندہ انساب مردم شرح فصوص ۸ میں لکھا ہے کہ نُقبا تین سو اشخاص ہیں انہیں کو ابرار بھی کہتے ہیں اور یہ لوگ مغرب میں رہتے ہیں اور سب ولیوں میں ان کا درجہ چھوٹا ہے۔

 بخبا بخیب کی جمع ہے بعنی برگزیدہ۔شرح فصوص میں ہے کہ بخبا سات آدمی ہیں۔انہیں کو رجال الغیب کہتے ہیں۔مجمع السلوک میں لکھا ہے کہ وہ چالیس آدمی ہیں اور خلق اللہ کے حقوق میں متمرف ہیں۔آدمیوں کے حالات درست کرنے اور ان کے بوجھ اٹھانے کو کھڑے رہتے ہیں۔

 (ف) یہی چالیس آدمی ہیں جو چہل تن کہلاتے ہیں اور بعض آدمیوں کے سر پر بھی آتے ہیں۔ان کی پوجا نادان مسلمانوں میں بہت ہوتی ہے۔ایک محمدی منشی صاحب کو میں نے ۳۰ برس دیکھا کہ اپنی مصیبتوں میں برابر چہل تن کو پکارتے رہےاور ان کی نذر نیاز کرتے رہےتاکہ ان کی دنیاوی تنگیاں دفع ہوں۔لیکن کچھ تنگیاں تمام عمر دفع نہ ہوئیں۔بلکہ تنگی پر تنگی آتی رہی اور وہ اسی خیال میں مر گئےاور بعض احمق عورتوں کو اپنا برا خیال سکھلا گئے۔وہ اب تک ان چہل تن کو پکارتی ہیں۔جس کا وجود کہیں نہیں ہے۔وہ اللہ کو نہیں پکارتی ہیں جو کہ سب کچھ کرسکتا ہےاور زندہ موجود ہے۔

(۸) عُمَدا

عمود کی جمع ہے بمعنی ستون خانہ۔ صوفی کہتے ہیں کہ ایسے چار شخص ہیں جو زمین کے چار کونوں میں رہتے ہیں وہ جہان کے ستون ہیں اُن سے جہان ایسا قائم ہے جیسے چہت ستون سے قائم ہوتی ہے۔ لیکن کچھ ثبوت نہیں دے سکتے کہ وہ کون ہیں اورکہاں ہیں۔

 کمتوم بمعنی پوشیدہ یہ پوشیدہ ولی ہیں۔گویا چھپے رستم ہیں۔توضیح المذاہب میں لکھاہے کہ یہ چار ہزار آدمی ہیں۔جو پوشیدہ رہتے ہیں اور اہلِ تصرف میں سے نہیں ہیں۔کوئی ان صوفیہ سے پوچھے کہ تمہارے تو سارے ولی پوشیدہ ہیں۔تم خود انہیں جانتے کہ وہ کون ہیں اورکہاں ہیں پھر ان خاص کو مکتومان کہنے کی وجہ کیا ہےکچھ نہیں جو دل میں آیا کہہ دیا۔

(۹) مکتومان

 کمتوم بمعنی پوشیدہ یہ پوشیدہ ولی ہیں گویا چھپے رستم ہیں۔توضیح المذاہب میں لکھاہے کہ یہ چار ہزار آدمی ہیں۔جو پوشیدہ رہتے ہیں اور اہلِ تصرف میں سے نہیں ہیں۔کوئی ان صوفیہ سے پوچھے کہ تمہارے تو سارے ولی پوشیدہ ہیں۔تم خود انہیں نہیں جانتے کہ وہ کون ہیں اورکہاں ہیں پھر ان خاص کو مکتومان کہنے کی وجہ کیا ہےکچھ نہیں جو دل میں آیا کہہ دیا۔

(۱۰) مفردون ومجردون

 مفرد ومجرد وہ ہے جو اکیلا رہ گیا ہو۔صوفی کہتے ہیں کہ مفرد و مجرد وہ ہے جو فردیت کی تجلی کو پہنچا ہے۔یعنی اس مقام کو پہنچا ہے۔جہاں صرف اللہ ہی اللہ ہےاور سب چیزیں اور سب خیالات نیست و نابود ہیں۔جو لوگ اس مقام کو پہنچتے ہیں وہ خود کو بھول جاتے ہیں۔اپنے میں اور خدا میں کچھ فرق نہیں رہتا۔یہ مقام محویت ہے یا ہمہ اوست کا کامل انکشاف یہاں ہوتا ہے۔کسی صوفی نےاس مقا م کی شرح اس شعر میں کی ہے۔

توز توکم شوکہ تفریداین بود   کم ازان کم کن تجریداین بود

کشف اللغات میں لکھا ہے کہ جو لوگ اس مقام کو پہنچتے ہیں وہ قطب کے نظام سے فارغ ہو جاتے ہیں مراۃالاسرارمیں لکھا ہے کہ ایسے لوگوں  کی کچھ تعداد نہیں ہے۔اور اکثر صوفی مصنف کہتے ہیں کہ محمد صاحب بھی دعوے نبوت سے پہلے مفردوں میں سے تھے۔پہلے میرا خیال تھا کہ صوفی لوگ حضرت محمد صاحب کی نسبت ہمہ اوست کا خیال جماتے ہیں۔مگر اب زیادہ تر کتبِ تصوف کے دیکھنے سے معلوم ہوا ہے کہ شاید اس بارے میں صوفی لوگ سچے ہوں۔کیونکہ ہمہ اوست کاذائقہ البتہ محمد صاحب کے خیال میں کچھ معلوم ہوتا ہے۔غالباً وہ ضرور مفردوں سے ہوں گے۔ کیونکہ جس شخص کے خیالات میں آسمانی روشنی کچھ بھی نہیں چمکی ہے وہ اسی ہمہ اوست کے خیال میں اپنے لیے کچھ تسلی تلاش کرتا ہے۔لفظ ظاہر قرآن میں غالباً اسی مطلب پر ہو گا۔