۹
بے مثال ہستی
موسی نبی کہتا ہے ” خدا الہوں کا الہ، خداوندوں کا خداوند ہے۔ وہ بزرگوار اور قادر اور مہیب خدا ہے۔۔۔ “ (استثنا ۱٠ : ۱۷ )۔

خبردار ! اِس سفر کا اگلا مرحلہ مسافروں کو اُن کے آرام دہ علاقے سے باہر لے جائے گا۔ اُن کی عقل سمجھ کو زور لگا کر پھیلنا پڑے گا اور اُن کے دلوں کا امتحان ہو گا۔ مگر جو لوگ اِس حصے میں سے گزر جائیں گے وہ آگے آنے والے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے خوب تیار اور آراستہ ہو جائیں گے۔

خدا خدا ہے۔

ہم میں سے زیادہ تر لوگ یہ عقیدہ اور ایمان رکھتے ہیں کہ ہم خدا کو جو کچھ تصور کر سکتے ہیں وہ اُس سے بہت بڑا ہے۔

ہمارے ایمان کے اخلاص کا امتحان ہونے کو ہے۔

چھٹے دن جب خدا حیوانات بنا چکا تو اُس نے کہا ” ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں “ (پیدائش ١: ٢٦ )۔

اگلے باب میں ہم چند اُن طریقوں پر غور کریں گے جن سے پہلا انسان اور پہلی عورت اِس انداز سے بنائے گئے کہ خدا کی ذات اور شباہت کو منعکس کریں۔ لیکن اِس سے پہلے ایک اَور سوال کا جواب دینا ضروری ہے۔

خدا تو ” ایک “ ہے، پھر اُس نے کیوں کہا ” ہم ۔۔۔ بنائیں “ ؟ اُس نے یہ کیوں نہ کہا کہ مَیں انسان کو (میری) اپنی صورت پر (میری) اپنی شبیہ پر بناؤں گا؟ خدا اپنے لئے ” ہم، ہمارا، ہمیں “ کیوں استعمال کرتا ہے؟

بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ خدا جو ” ہم “ اور ” ہمیں“ استعمال کرتا ہے تو یہ ” شاہی عظمت و جلالت“ کا جمع صیغہ ہے جیسے کوئی بادشاہ اپنے لئے ” ہم“ کہہ کر بات کرتا ہے۔ بے شک خدا کی شاہانہ قدرت، جلال، شان اور عظمت بے مثل ہے، مگر عبرانی زبان کی گرامر ” شاہی عظمت و جلال“ کی وضاحت کی کوئ ٹھوس بنیاد فراہم نہیں کرتی۔

بعض دوسرے لوگ وثوق سے کہتے ہیں کہ جب خدا نے کہا ” ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں“ تو وہ فرشتوں سے مخاطب تھا حالانکہ متن میں فرشتوں کا کوئی ذکر نہیں۔ اور انسان فرشتوں کی صورت اور شبیہ پر بنایا بھی نہیں گیا۔

پاک کلام کو سیدھے سادے انداز میں پڑھنے اور اصل زبان (عبرانی) کی گرامر کو کھنگالنے سے جو بات واضح ہوتی ہے یہ ہے کہ ہمارے خالق نے پسند کیا کہ اپنا ذکر صیغہ جمع میں مگر واحد انداز میں کرے۔

صیغہ جمع — ... خدا نے کہا ” ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں“ ۔

صیغہ واحد — ” ۔۔۔اور خدا نے انسان کو اپنی (واحد اسمِ ضمیر) صورت پر پیدا کیا “ (پیدائش ١: ٢٦ ، ٢٧ )۔

خدا نے اپنے لئے ” ہم“ یا ” ہمیں“ استعمال کیا ہے۔ (بائبل مقدس میں اِس کی مزید مثالیں دیکھئے پیدائش ٣: ٢٢ ؛ ١١: ٧ ؛ یسعیاہ ٦: ٨ )۔

[نوٹ: قرآن شریف میں ” اللہ“ اپنے لئے مستقلاً ” ہم “ استعمال کرتا ہے۔ زیرِ نظر کتاب ” ایک خدا، ایک پیغام “ کے باب ٣ میں اقتباس کی گئی قرآنی آیات ملاحظہ کیجئے]۔

خدا کا اپنے آپ کو جمع اور واحد دونوں طرح سے بیان کرنا اُس کی ذات اور ہستی کے بالکل مطابق ہے۔

خدا کی یکتائی کی پیچیدگی اور تہوں کی ضخامت اور عظمت عام لوگوں کی ” ایک “ یا ” واحد “ کی تشریحات سے بہت آگے اور ماورا ہے۔ وہ ” لامحدود “ اور ” لاانتہا “ انسان کے خود ساختہ سانچے میں نہیں سما سکتا۔

خدا ، خدا ہے۔

” ازل سے ابد تک تُو ہی خدا ہے “ (زبور ٩٠ : ٢)۔

خدا کی پیچیدہ / تہہ در تہہ وحدت

خدا کی کتاب ، بائبل مقدس کے ابتدائی الفاظ یہی ہیں:

” خدا (الوہیم، مذکر اسم۔ جمع کا صیغہ) نے ابتدا میں زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ “ ( اردو ترجمے سے قطع نظر، اصل زبان میں گردان کے مطابق فعل ” پیدا کیا “ واحد ہے۔)۔۔۔ ” اور خدا کی روح پانی کی سطح پر جنبش کرتی تھی اور خدا نے کہا کہ روشنی ہو جا اور روشنی ہو گئی “ (پیدائش ١:١ ۔٣ )۔

پیدائش کی کتاب کے افتتاحی حصے میں خدا کے واحد فی التثلیث ہونے کی وضاحت موجود نہیں۔ لیکن جس انداز سے الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ اُن تفہیمات (واضح معانی) کے ساتھ بالکل ہم آہنگ ہیں جو بائبل مقدس میں بعد میں سامنے آتی ہیں۔ بائبل مقدس بالکل صفائی سے بیان کرتی ہے کہ ذاتِ الہی کے تینوں اقانیم نے تخلیق کا کام کیا۔

خدا نے ساری چیزیں اپنے کلام اور اپنی روح کے وسیلے سے خلق کیں۔

” آسمان خداوند کے کلام سے اور اُس کا سارا لشکر اُس کے منہ کے دم سے بنا “ (زبور ٣٣: ٦)۔

خدا کا کلام

جو لوگ اپنے پیچیدہ خالق کے بارے میں جانںا اور سیکھنا چاہتے ہیں اُن سب کے لئے بائبل مقدس نے کافی معلومات فراہم کر دی ہیں۔ مثال کے طور پر مقدس یوحنا کی معرفت انجیل کے ابتدائی الفاظ یوں ہیں کہ

” ابتدا میں کلام تھا
اور کلام خدا کے ساتھ تھا
اور کلام خدا تھا۔
یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔
سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں۔۔۔ “
(یوحنا ١: ١۔٣)۔

جیسا کہ ہم نے گذشتہ باب میں دیکھا ” کلام “ یا ” کلمہ “ خدا کے باطنی خیالات کا خارجی ظہور ہے۔ جیسے آپ اپنے خیالات اور الفاظ کے ساتھ ایک ہیں، اُسی طرح خدا اپنے کلام /کلمہ کے ساتھ ” ایک “ ہے۔ کلام کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ” خدا کے ساتھ “ (اُس سے ممیز) اور ” خدا “ (اُس کے ساتھ ایک) ہے۔

یہ دیکھنے سے بھی نکتہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ ” کلام “ کا ذکر کرنے کے لئے شخصی یا ذاتی اسمِ ضمیر ” وہ “ اور ” اُس “ استعمال کئے گئے ہیں۔

نوٹ: اردو زبان میں اَسمائے ضمیر کے استعمال میں یہ تخصیص بسا اوقات واضح نہیں ہوتی۔

خدا کا / کی روح

جیسے خدا نے اپنے کلام کا بیان شخصی انداز میں کیا ہے اُسی طرح وہ اپنے روح کا اظہار بھی شخصی انداز سے کرتا ہے۔

” تُو اپنی روح بھیجتا ہے اور یہ پیدا ہوتے ہیں اور تُو رُوۓ زمین کو بنا دیتا ہے “ (زبور ١٠٤ : ٣٠ )۔

” اُس کے دم (روح) سے آسمان آراستہ ہوتا ہے “ (ایوب ٢٦ : ١٣ )۔

” مَیں تیری روح سے بچ کر کہاں جاؤں یا تیری حضوری سے کدھر بھاگوں؟ “ (زبور ١٣٩ : ٧)۔

” روح القدس ۔۔۔ تمہیں سب باتیں سکھائے گا “ (یوحنا ١٤ : ٢٦ )۔

(نوٹ: بائبل مقدس کے نئے عہدنامے کے اردو ترجمے میں یہ اہتمام رکھا گیا ہے کہ جہاں ” روح “ سے مراد ” روح القدس “ ہے وہاں اِسے مذکر استعمال کیا گیا ہے — مترجم)۔

خدا کے روح کا ذکر کرتے ہوئے بائبل مقدس شخصی اسمائے ضمیر استعمال کرتی ہے۔ لیکن اردو ترجمے میں بسا اوقات یہ تخصیص واضح نہیں ہوتی کیونکہ جاندار اور بے جان دونوں کے لئے ایک سے لفظ استعمال ہوتے ہیں۔ یعنی یہ، وہ، اِس کا، وغیرہ۔ کلام (جس نے بول کر خلق کیا) اور روح القدس (جس نے کلام کے حکموں کی تعمیل کی) ازلی و ابدی ممیز روح ہے، تاہم خدا کے ساتھ ” ایک “ ہے۔

خدا بزرگ / عظیم ہے۔

” ۔۔۔تُو اے خداوند خدا بزرگ ہے کیونکہ جیسا ہم نے اپنے کانوں سے سنا ہے اُس کے مطابق کوئی تیری مانند نہیں اور تیرے سوا کوئی خدا نہیں “ (٢۔سموئیل ٧: ٢٢ )۔

یہ الفاظ مقدس داؤد نبی کی ایک دعا کا حصہ ہے۔ اکثر توحید پرستوں کو مندرجہ بالا بیان سے اتفاق کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی۔ مگر بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ بات تو فوراً مان لیتے ہیں کہ " خدا بزرگ / عظیم ہے! خدا ہی خدا ہے، کوئی اُس کی مانند نہیں! لیکن وہ خدا کے اُس مکاشفے کو فوراً رد کر دیتے ہیں جو اُس نے اپنی ذات میں کثرت فی التوحید کے بارے میں دیا ہے۔

چونکہ " کوئی اُس کی مانند نہیں “ تو کیا ہمیں حیران ہونا چاہئے کہ اُس نے اپنے آپ کو اُس سے بھی زیادہ بڑا اور پیچیدہ ظاہر کیا ہے جتنا ہم فطری طور پر تصور کر سکتے ہیں؟ خدا ترغیب دیتا ہے کہ ہم اُس کے حق میں صحیح تصورات سوچیں۔

” تُو نے گمان کیا کہ مَیں بالکل تجھ ہی سا ہوں، لیکن مَیں تجھے ملامت کروں گا “ (زبور ٥٠ : ٢١ )۔

خدا واحد ہے۔

راسخ العقیدہ یہودی ایک دعا کا ورد کرتے ہیں جسے عبرانی زبان میں ” شما “ کہتے ہیں۔ اِس کے الفاظ ہیں ” ادونائی الوہینو، ادونائی اکد “ (  Adonai   eloheynu,  Adonai  echad  ) جس کا مطلب ہے ” خداوند ہمارا خدا، خداوند ایک (ہی) ہے۔ “ یہ دعا تورات میں سے ہے:

” سُن اے اسرائیل! خداوند (یہوہ) ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے “ (استثنا ٦: ٤)۔

خدا کی یکتائی کو بیان کرنے کے لئے عبرانی زبان کا لفظ ” اِکد “ استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ اکثر کثیرالعناصر وحدت کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے مثلاً انگوروں کا گچھا۔ بائبل مقدس میں دوسری جگہ جہاں کماندار اور اُس کے سپاہیوں کا ذکر آتا ہے وہاں 'اکد' کا ترجمہ ” ایک دستہ “ کیا گیا ہے۔ جب مقدس داؤد اسرائیل کا بادشاہ بنا تو بائبل مقدس کہتی ہے ” ۔۔۔ اور بنی بنیمین ابنیر کے پیچھے اکٹھے ہوئے اور ایک دستہ (اکد) بن گئے “ (٢۔سموئیل ٢: ٢٥ )۔ یہی لفظ اِس حقیقت کا بیان کرنے کے لئے استعمال ہوا کہ ” خداوند ایک ہے۔ “ پھر یہی لفظ سامنے آتا ہے جب پہلا آدمی اور اُس کی بیوی ” ایک تن “ ہو گئے (پیدائش ٢: ٢٤ )۔ دوسری آیات جن میں عبرانی زبان کا یہی لفظ استعمال ہوا اُنہیں دیکھنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ اپنی وحدت بیان کرنے کے لئے خدا جو لفظ استعمال کرتا ہے اُس میں ایک سے زیادہ ہستیاں (وجود) شامل ہو سکتے ہیں۔

پرانے عہدنامے میں بیسیوں آیات ہیں جو خدا کی وحدت فی التکثیر کا بیان اور توثیق کرتی ہیں۔ ایک مثال یہ ہے:

” ۔۔۔جس وقت سے کہ وہ تھا مَیں وہیں تھا اور اب خداوند خدا نے اور اُس کی روح نے مجھ کو بھیجا ہے “ (یسعیاہ ٤٨ : ١٦ )۔

پرانے عہدنامے کی دوسری آیات جو خدا کی پیچیدہ یا تہہ در تہہ وحدت کی تصدیق کرتی ہیں یہ ہیں: پیدائش ١٧ : ١۔٣ ؛ ١٨ : ١۔١٣ ۔ ابرہام پر خدا جسمانی صورت میں ظاہر ہوا۔ یہ رُویا یا خواب نہیں تھے بلکہ رُوبرو ملاقاتیں تھیں: پیدائش ٣٥ : ٩ ۔١٥ ؛ خروج ٣: ١۔٦؛ ٢:٦، ٣ ؛ ٢٤ : ٩ ۔١١ ؛ ٣٣: ١٠ ، ١١؛ خروج ٣٣ :١١ کا موازنہ ٣٣: ٢٠ سے کریں۔ موسی' ذاتِ خدا کے ایک اقنوم (بیٹے) سے روبرو باتیں کیا کرتا تھا۔ لیکن اُسے ذاتِ خدا کے دوسرے اقںوم (باپ) کا چہرہ دیکھنے کی اجازت نہ ملی۔ پیچیدہ اور ادق بات ہے؟ جی ہاں۔ خدا، خدا ہے، دیکھئے یوحنا ١: ١۔ ١٨ ۔ ہم پرانے عہدنامے کی مزید آیات پیش کرتے ہیں جن کو خدا کی وحدت فی التکثیر کے عقیدے اور تصور کے بغیر نہیں سمجھ سکتے، زبور ٢؛ ١٠١ :١ (موازنہ کریں متی ٢٢ : ٤١ ۔ ٤٦ کے ساتھ)، امثال ٣٠ :٤ ؛ یسعیاہ ٤٣ :١٠ ، ١١ (یوحنا ١٢: ٤١ سے موازنہ کریں)؛ یسعیاہ ٢٦ : ٣، ٤ ؛ ٤٠ : ٣۔ ١١ ؛ ٤٣: ١٠ ۔ ١٣ (یسعیاہ ٧ : ١٤ ؛ ٧:٦، ٩)؛ یسعیاہ ٤٨ :١٦ ؛ ٦٣ : ١۔٧ ؛ یرمیاہ ٢٣ : ٥، ٦ ؛ دانی ایل ٧: ١٣، ١٤ ؛ ہوسیع ١٢ : ٣۔٥ ؛ میکاہ ٣: ١ ۔٢ ۔۔۔وغیرہ۔

یہ خداوند خدا کون ہے؟

اُس کی روح کون ہے؟

یہ ” مَیں “ اور ” مجھ “ کون ہے جسے خدا اور اُس کی روح نے بھیجا ہے؟ خدا کے کلام کو پڑھتے اور اُس پر غور کرتے ہوۓ آگے بڑھیں گے تو اِن سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔

سہ عنصری اکائیاں

ہماری اردو زبان کا لفظ ” یکتا، یکتائ “ فارسی کے لفظ ” یک “ سے مشتق ہیں جس کا مطلب ہے ” ایک۔ “ اِسی طری ” واحد “ ، واحدیت، اور ” وحدانیت “ عربی زبان کے لفظ ہیں جن کا مادہ ” احد “ (اکائی، ایک) ہے۔

بہت سے لوگ خدا کے بارے میں " ازلی تثلیث فی التوحید (توحید فی التثلیث) کے نظریے یا تصور کو رد کرتے ہیں، لیکن ہماری روزمرہ زندگی میں پائی جانے والی بے شمار " ایک میں تین " اکائیوں کا انکار کرنے یا انہیں رد کرنے اور باطل قرار دینے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔

مثال کے طور پر وقت یا زمان ایک قسم کی سہ عنصری اکائی ہے جو ماضی، حال اور مستقبل پر مشتمل ہے۔ دوسری ایسی اکائی مکان (جگہ) ہے جو ابعادِ ثلاثہ یعنی لمبائی، چوڑائی اور اونچائی پر مشتمل ہے۔

انسان، روح، جان اور جسم سے مل کر بنا ہے۔

ایک ہی آدمی باپ اور بیٹا ہو سکتا ہے۔

سورج بھی ایک سہ عنصری اکائی ہے:

آسمانی جسم — سورج

اُس کا نور، اُس کی روشنی — سورج

اُس کی دھوپ یا حرارت — سورج

کیا یہ تین سورج ہیں؟ سورج تین نہیں بلکہ ایک ہے۔ سورج کے ایک ہونے اور سہ عنصری اکائی میں کوئی فرق کوئی تضاد نہیں۔ یہی حال خدا کا ہے۔ جس طرح روشنی اور حرارت سورج سے صادر ہوتی ہیں، اُسی طرح خدا کا کلام اور خدا کا روح خدا سے صادر ہیں۔ تو بھی وہ ایک ہیں جیسے سورج ایک ہے۔

یہ سچ ہے کہ اِس سلسلے میں ساری دنیوی اور زمینی مثالیں ادھوری اور ناقص ہیں اور واحد حقیقی خدا کی پیچیدہ ذات کی وضاحت نہیں کر سکتیں۔ خدا سورج کی مانند نہیں ہے۔ وہ تو ایک شخصی، محبت کرنے والی ہستی ہے جسے انسان جان سکتا ہے۔ تو بھی یہ مثالیں ہمیں ایک مشترکہ بنیاد کی طرف لا سکتی ہیں اِس لئے کہ سارے لوگ متفق ہیں کہ کائنات میں سہ عنصری اکائیاں موجود ہیں اور ایک اکثریت متفق ہے کہ خالق اپنی مخلوق سے ماورا ہے۔

” ... گھر کا بنانے والا گھر سے زیادہ عزت دار ہوتا ہے۔ چنانچہ ہر ایک گھر کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ہوتا ہے مگر جس نے سب چیزیں بنائیں وہ خدا ہے “ (عبرانیوں ٣:٣، ٤ )۔

اگر خدا کی کائنات پیچیدہ اکائیوں سے بھری پڑی ہے تو کیا یہ حیرت کی بات ہے کہ خود خدا ایک پیچیدہ اکائی ہے؟ جب ہم اپنے سارے سائنسی علم کے ساتھ بھی دنیا کی تشریح اور وضاحت نہیں کر سکتے جس میں ہم رہتے اور موجود ہیں تو اُس ہستی کی کیا وضاحت اور تشریح کریں گے جس نے اِسے خلق کیا ہے؟
خدا، خدا ہے۔

” کیا تُو تلاش سے خدا کو پا سکتا ہے؟ کیا تُو قادرِ مطلق کا بھید کمال کے ساتھ دریافت کر سکتا ہے؟ وہ آسمان کی طرح اونچا ہے۔ تُو کیا کر سکتا ہے؟ وہ پاتال سے گہرا ہے۔ تُو کیا جان سکتا ہے؟ اُس کی ناپ زمین سے لمبی اور سمندر سے چوڑی ہے “ (ایوب ١١: ٧۔٩ )۔

" ہم " خدا کے بھید “ کی تلاش کریں گے، اُس کا کھوج لگائیں گے تو ہمیں یہ اعزاز حاصل ہو گا کہ اُس کی ازلی و ابدی ذات کی ایک نہایت عجیب اور حیرت افزا صفت کا علم اور تجربہ حاصل ہو گا۔

” خدا محبت ہے “ (١۔یوحنا ٤: ٨ )۔

خدا نے کس سے محبت رکھی

خدا کی محبت ایک ناقابلِ فہم گہری کیفیت ہے جو اُس کے باپ جیسے دل سے جاری ہوتی ہے اور عملی طریقوں سے اپنا اظہار کرتی ہے۔ چونکہ خدا محبت ہے اِس لئے اُس کی محبت اُسے پانے والے (محبوب) کے حسن و جمال سے مشروط نہیں ہے۔

” دیکھو باپ نے ہم سے کیسی محبت کی ہے کہ ہم خدا کے فرزند کہلائے “ (١۔یوحنا ١:٣ )۔

یہ نکتہ قابلِ غور ہے۔ محبت کو کوئی چاہئے جو اُسے پاۓ — مختصراً محبت کو محبوب چاہئے۔ کوئی بھی صرف یہ نہیں کہتا کہ ” مَیں محبت کرتا ہوں “ بلکہ یہ کہتا ہے کہ ” مَیں اپنی / اپنے فلاں (بیوی، بچوں، پڑوسی۔۔۔ علی' ہذالقیاس) سے محبت کرتا ہوں۔ “
محبت مفعول کا تقاضا کرتی ہے۔

خدا نے خاص جاندار ہستیاں بنائیں تاکہ اُن سے محبت کر سکے۔ لیکن اُن کو پیدا کرنے سے پہلے وہ کس سے محبت رکھتا تھا؟ کیا اُسے فرشتوں اور انسانوں کو خلق کرنے کی ضرورت تھی؟ نہیں، ہمارا خالق بے نیاز اور نامحتاج ہے۔ اُس نے روحانی ہستیاں اور انسان خلق کۓ اِس لئے نہیں کہ اُسے اِن کی ضرورت تھی بلکہ اِس لئے کہ وہ انہیں چاہتا تھا۔ یہ فرق بہت اہم ہے۔

ہم نے پہلے سیکھا ہے کہ خدا بولتا، کلام کرتا ہے۔

بولنا یا کلام کرنا اُسی صورت میں بامعنی یا بامقصد ہو سکتا ہے کہ کوئی رشتہ یا تعلق موجود ہو۔ فرشتوں اور انسانوں کو خلق کرنے سے پہلے خدا کس سے کلام کرتا تھا؟ کیا اُسے کوئی دوسری ہستیاں پیدا کرنے کی ضرورت تھی تاکہ کوئی ہو جو اُس کی باتیں سمجھ سکے؟ نہیں۔ خدا کی ساری ” ضروریات “ اُس کی ذات میں پوری ہو جاتی ہیں۔ اُسے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ خدا نامحتاج اور مطمئن بالذات ہے۔ لیکن اُس کی ذات میں شامل ہے کہ وہ بولے اور کوئی اُس سے بولے، وہ محبت کرے اور کوئی اُس سے محبت کرے۔

اِس طرح ہم ایک اَور سچائی کی طرف بڑھتے ہیں — خدا تعلقات کا خدا ہے۔

محبت اور گفتگو صرف اُسی صورت میں بامقصد اور بامعنی ہو سکتے ہیں جب کوئی یگانگت یا رشتہ ہو۔ دوسری ہستیوں کو پیدا کرنے سے پہلے خدا کس کے ساتھ یگانگت رکھتا اور لطف اندوز ہوتا تھا؟ اِس کا جواب خدا کی پیچیدہ وحدت میں وجود ہے۔

فرشتوں یا انساںوں کو خلق کرنے سے پہلے ابدیت میں ہمارے تعلقات کا خدا خود اپنے آپ کے ساتھ محبت اور گفتگو کے بے تکلف اور اطمینان بخش رشتے سے لطف اندوز ہوتا تھا — یعنی اپنے شخصی کلام اور اپنے شخصی روح کے ساتھ۔

تہیں کھولنا

خدا کی ذات میں کثرت کے بارے میں ایسے گہرے خیالات کے جواب میں ایک صاحب نے یہ ای میل بھیجی:

ای میل

” خدا نے انبیا بھیجے کہ ہمیں بتائیں کہ وہ (خدا) واحد اور اکیلا ہے۔ تو اُس کا کلام کیوں نہیں سنتے اور قبول کرتے؟ تمہیں کیوں ضرورت ہے کہ ایک ایک تہہ کھولو اور اُس کی شناخت اور وضاحت کرو جبکہ تم اُن سب کو ایک ہی تہہ کی صورت میں اکٹھا کر سکتے ہو؟ “

بے شک یہ بات سچ ہے کہ اپنے لامحدود خالق کے بارے میں وہ سب کچھ نہیں سمجھ سکتے جو جاننے کی ضرورت ہے، لیکن خدا نے انبیا کے صحیفوں میں اپنے بارے میں اِتنی بہت سی سچائیاں ظاہر کر دی ہیں تو کیا ہمیں اِن سچائیوں کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے؟ اگر ہمیں خدا کی ذات کے بارے میں سوچنا ہے تو بالکل درستی سے اور صحیح طریقے سے سوچنا واجب ہے۔

لوگوں کی اکثریت اتفاق کرتی اور مانتی ہے کہ خدا ” اَحد “ ہے۔ لیکن اِس ” احد خدا “ نے اپنے بارے میں کیا ظاہر کیا ہے؟ ہم ایک ایک تہہ کھولتے ہیں تو بائبل مقدس میں خدا کے بارے میں کیا معلوم کرتے ہیں؟

ہماری ملاقات شخصی، قابلِ ادراک اور متعبر خدا سے ہوتی ہے جو اپنے کلام اور اپنے روح کے ساتھ ” ایک “ ہے۔

اپنی لاانتہا عظمت کے وسیلے سے خدا نے اپنی شناخت باپ کے طور پر، اپنے کلام کی شناخت بیٹے کے طور پر اور اپنے روح کی شناخت روح القدس کے طور پر کرائی ہے۔ ایک حقیقی خدا میں یہ تین شخصی اِمتیاز ہیں۔

آیۓ بائبل مقدس سے چند حوالے دیکھیں جو اِس سچائی کی تہیں کھولتے ہیں:

خدا کا بیٹا

پاک صحائف پوری پوری وضاحت کرتے ہیں کہ جو کلام ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا وہی خدا کا اکلوتا بیٹا ہے۔

” ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا ۔۔۔ خدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا، اکلوتا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے اُسی نے ظاہر کیا ۔۔۔ جو اُس پر ایمان لاتا ہے اُس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا۔ جو اُس پر ایمان نہیں لاتا اُس پر سزا کا حکم ہو چکا۔ اِس لئے کہ وہ خدا کے اکلوتے بیٹے کے نام پر ایمان نہیں لایا “ (یوحنا ١:١ ، ١٨ ؛ ٣: ١٨ )۔

ہمارے مسلمان بھائی ” خدا کا بیٹا “ سن کر سخت ردِ عمل کا اظہار کرتے اور ” استغفراللہ “ کا ورد کرنے لگتے ہیں۔ عربی زبان کے اِس کلمے کا مطلب ہے ” مَیں اللہ سے مغفرت چاہتا ہوں “ یا ” اللہ آپ کو یہ کفر کہنے پر معاف فرمائے “ (کفر سے مراد ہے خدا کی تضحیک یا توہین)۔ اُن کے اِس طرح جھڑکنے پر مَیں کئی دفعہ اُن ہی کی ایک ضرب المثل سے جواب دیتا ہوں، ” چرواہے کے منہ پر تھپڑ مارنے سے پہلے تحقیق کر لو کہ وہ کس لئے سیٹی بجا رہا ہے “ ۔ ” خدا کا بیٹا “ کی اصطلاح کو رد کرنے سے پہلے تحقیق کر لو کہ خدا نے اِس کے بارے میں کیا کہا ہے۔

بائبل مقدس میں سو سے زیادہ آیات ہیں جو براہِ راست خدا کے ” بیٹے “ کا ذکر کرتی ہیں۔ لیکن اِن میں سے کسی ایک میں بھی ” ایک سے زیادہ خدا “ کا مفہوم مضمر نہیں اور نہ اِن میں یہ اشارہ ہے کہ ” خدا نے بیوی کی اور اُس کے بیٹا ہوا۔ “ تاہم بہت سے لوگ اِس اصطلاح کی یہی تشریح کرتے ہیں۔ یہ سوچ نہ صرف کفر ہے بلکہ ثابت کرتی ہے کہ ایسا کہنے والا پاک کلام کو صرف سطحی طور سے سمجھتا ہے۔

زبور ٢ پڑھیں جس میں داؤد نبی مسیح کو خدا کا بیٹا کہتا ہے۔ بیٹے کے دوسرے ناموں اور القابات پر بھی غور کریں۔ اُسے ” دروازہ “ بھی کہا گیا (یوحنا باب ١٠ )۔ لیکن اِس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ لکڑی یا دھات کا دروازہ ہے۔ اُسے ” زندگی کی روٹی “ بھی کہا گیا ہے (یوحنا باب ٦ )۔ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ آٹے یا میدے کی روٹی ہے۔ اِسی طرح ” خدا کا بیٹا “ کا یہ مطلب نہیں کہ خدا نے بیوی کی اور اُس کے بیٹا ہوا۔ یوحنا ابواب ١، ٣ اور ٥ بغور پڑھیں۔

خدا چاہتا ہے اور دعوت دیتا ہے کہ ہم اُس کی سوچ سوچیں:

” کیونکہ جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اُسی قدر میری راہیں تمہاری راہوں سے اور میرے خیال تمہارے خیالوں سے بلند ہیں “ (یسعیاہ ٥٥ : ٩ )۔

چند سال ہوئے سینیگال کا ایک مشہور تاجر کار کے حادثے میں جان بحق ہو گیا۔ سینیگال کے قومی اخبار نے اُس کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اپنے دو ہزار ملازمین کو ” اپنے بیٹوں جیسا “ سمجھتا تھا۔ اور اُسے ” سینیگال کا عظیم سپوت “ قرار دیتے ہوئے اُس کی بڑی قصیدہ خوانی کی۔ کیا اِس کا مطلب ہے کہ سینیگال کے ملک نے کسی عورت کے ساتھ شادی کی تھی اور اُس کے بیٹا پیدا ہوا تھا؟ ہرگز نہیں۔ سینیگال کے لوگوں کو ملک کے کسی محبوب شہری کو یہ لقب دے کر اُس کی عزت افزائی کرنے میں کوئی دِقت محسوس نہیں ہوتی۔ وہ جانتے ہیں کہ ” سینیگال کا سپوت “ کا مطلب کیا ہے، اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اِس کا کیا مطلب نہیں ہے۔

" بیٹا " کی اصطلاح کئی معنوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ مثلاً جب قرآن شریف اور عربی لوگ کسی راہ گیر یا پیدل سفر کرنے والے کو راستے کا بیٹا " (اِبن السبیل) کہتے ہیں (سورہ ٢: ١٧٧ ، ٢١٥ ) تو ہم جانتے ہیں کہ اِس کا کیا مطلب ہے۔ اِسی طرح جب قادرِ مطلق خدا اپنے کلام کو اپنا بیٹا کہتا ہے تو ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ اِس کا مطلب کیا ہے۔

جن القاب اور اصطلاحات کو ہمارا خالق بزرگی اور عزت دیتا ہے ہمیں اُن کا مذاق نہیں اُڑانا چاہئے۔

” اگلے زمانہ میں خدا نے باپ دادا سے حصہ بہ حصہ اور طرح بہ طرح نبیوں کی معرفت کلام کر کے اِس زمانہ کے آخر میں ہم سے بیٹے کی معرفت کلام کیا جسے اُس نے سب چیزوں کا وارث ٹھہرایا اور جس کے وسیلہ سے اُس نے عالم بھی پیدا کئے۔ وہ اُس کے جلال کا پرتَو اور اُس کی ذات کا نقش ہو کر سب چیزوں کو اپنی قدرت کے کلام سے سنبھالتا ہے “ (عبرانیوں ١:١ ۔ ٣)۔

خدا چاہتا ہے کہ ہم جانیں کہ اُس نے ” ہم سے (اپنے) بیٹے کی معرفت کلام کیا “ ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم یہ بھی جانیں اور سمجھیں کہ اُس کا بیٹا ہی وہ کلام ہے جس کے وسیلے سے آسمان اور زمین کی کل چیزیں خلق کی گئیں او ر قائم ہیں۔ بائبل مقدس کے عربی زبان کے ترجمے میں بیٹے کے لقب ” خدا کا کلام “ کا ترجمہ ” کلمتہ اللہ “ کیا گیا ہے۔ قرآن شریف اور بائبل مقدس دونوں ہی اِس لقب کو مسیحِ موعود سے منسوب کرتے ہیں۔ اِس سفر میں آگے چل کر ہم اِس نکتے پر تفصیلی غور کریں گے۔

خدا کا روح

جس طرح خدا اپنے ” کلام بیٹا “ کے ساتھ ایک ہے اُسی طرح وہ اپنے روح القدس کے ساتھ ایک ہے۔

خدا کا پاک روح دنیا کو تخلیق کرنے اور خدا کے تحریری کلام کی تحریک دینے دونوں کاموں میں شریک تھا۔ بائبل مقدس کا دوسرا فقرہ کہتا ہے کہ ” خدا کی روح پانی کی سطح پر جنبش کرتی تھی “ (پیدائش ١: ٢ )۔ اور بائبل مقدس یہ بھی بیان کرتی ہے کہ ” ۔۔۔ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی روح القدس کی تحریک کے سبب سے بولتے تھے “ (٢۔پطرس ١: ٢١ )۔

بعض لوگ یہ تعلیم دیتے ہیں کہ روح القدس جبرائیل فرشتہ ہے۔ کئی لوگ یقین رکھتے ہیں کہ خدا کا روح ایک نبی ہے۔ یہ نتائج یا امور نبیوں کے صحیفوں سے اخذ نہیں کئے گئے۔ فرشتے اور انسان خلق کی گئی ہستیاں ہیں۔ روح القدس قائم بالذات ” ازلی روح “ ہے۔

خدا کی ذات کی طرح ہم روح القدس کو بھی اپنے پہلے سے سوچے ہوئے سانچے میں نہیں ڈال سکتے۔ خدا کا ایک نبی تھا جسے آسمان کی جھلک دکھائی گئی۔ اُس نے روح القدس کو دیکھا اور بتایا کہ وہ ” تخت کے سامنے (جلتے ہوئے) سات چراغ ۔۔۔ ہیں۔ یہ خدا کی سات روحیں ہیں “ (مکاشفہ ٤ : ٥)۔ ایک اَور نبی نے اِس کا بیان یوں کیا ہے کہ روح القدس وہ ہستی ہے جو سات خوبیاں عطا کرتا ہے جو صرف خدا سے آتی ہیں، ” خداوند کی روح ۔۔۔حکمت اور خرد کی روح، مصلحت اور قدرت کی روح، معرفت اور خداوند کے خوف کی روح “ (یسعیاہ ١١ : ٢)۔

روح القدس ” سچائی کا روح “ ہے (یوحنا ١٤ : ١٧ ) جس کے وسیلے سے خدا دنیا میں اپنے اِرادے پورے کرتا ہے۔ وہ ” مددگار “ (وکیل، شفیع) ہے (یوحنا ١٤ : ١٦ )۔ جو خدا کے پیغام پر ایمان لاتے ہیں اُن سب پر وہ خدا کو قریبی طور سے ظاہر کرتا اور خدا کا تجربہ عطا کرتا ہے۔ آج کی دنیا میں بہت سے خدا کو نہیں جانتے صرف اُس کے بارے میں جانتے ہیں۔ ایسا علم نہ خدا کو مطمئن اور آسودہ کرتا ہے نہ انسان کو۔ صرف روح القدس ہے جو یہ ممکن کرتا ہے کہ انسان خدا کے ساتھ ذاتی اور شخصی تعلق سے شادمان ہوں۔ اِس کتاب میں آگے چل کر ہم خدا کے عجیب روح القدس کے بارے میں مزید سیکھیں گے۔

اپنی زمینی زندگی کے دوران خدا کے بیٹے نے اپنے شاگردوں سے وعدہ کیا، ” لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ مَیں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائے گا “ (یوحنا ١٤ : ٢٦ )۔ یہ الفاظ اُس کامل یگانگت کو ظاہر کرتے ہیں جو باپ، بیٹے اور روح القدس میں ازل سے ہے۔ باپ اور بیٹے کی طرح روح القدس بھی ایک شخصیت ہے۔ اُس کے لئے شخصی اسمِ ضمیر ” وہ “ ( He ) استعمال ہوتا ہے۔ روح القدس کے بارے میں مزید جاننے کے لئے ابواب ١٦ ، ٢٢ اور ٢٨ پڑھیں۔ اِس کے علاوہ بائبل مقدس میں خطوط اور اعمال کی کتاب پڑھیں اور روح القدس کے کردار پر خاص توجہ دیں۔

یہ سفر کیسا محسوس ہو رہا ہے؟ قدرے بوجھل؟ یہ آسانی سے سمجھ میں آنے والے خیالات نہیں ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا مذہب اور خدا کی ذات کے بارے میں ہمارا بیان درست ہے کیونکہ ” بہت آسان اور سیدھا سادہ ہے “ ۔ خدا کے بارے میں اُن کا بیان تو آسان اور سیدھا سادہ ہو سکتا ہے، مگر خدا سادہ نہیں ہے۔

” میرے خیال تمہارے خیال نہیں اور نہ تمہاری راہیں میری راہیں ہیں “ (یسعیاہ ٥٥: ٨ )۔

ہمیشہ ” واحد “

پاک صحائف بالکل واضح اور صاف ہیں۔ تمام ازل و ابد میں کوئی ایسا وقت نہیں ہوا جب خدا موجود نہ تھا۔

انجیل میں مرقوم ہے کہ بیٹا باپ سے کہہ رہا ہے ” ۔۔۔ جلال سے جو مَیں دنیا کی پیدائش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا۔۔۔ “ اور بیٹا یہ بھی کہتا ہے ” ۔۔۔ اے باپ ۔۔۔تُو نے بنائے عالم سے پیشتر مجھ سے محبت رکھی “ (یوحنا ١٧ : ٥، ٢٤ ۔ مزید دیکھئے میکاہ ٩ : ٦)۔ اور جہاں تک روح القدس کی بات ہے تو اُس کا ایک نام ” ازلی روح “ ہے (عبرانیوں ٩ : ١٤ )۔

وہ ہمیشہ سے ” ایک “ ہیں۔ انسانی تاریخ کے تناظر میں بائبل مقدس کہتی ہے کہ باپ آسمان سے کلام کرتا ہے، بیٹا زمین پر کلام کرتا ہے اور روح القدس دل سے کلام کرتا ہے (خروج ٢٠ :٢٢ ؛ عبرانیوں ١٢ :٢٥ ؛ لوقا ٣: ٢٢ ؛ ٥: ٢٤ ؛ یوحنا ١: ١ ۔١٨ ؛ ٣: ١٦ ۔ ١٩ ؛ ١٧ : ٢٢ ؛ اعمال ٣:٥ ؛ ٧: ٥١ ؛ گلتیوں ٤ :٦ وغیرہ)۔ ہر ایک کا کردار یا کام الگ الگ ہے لیکن وہ ” ایک “ ہیں۔

جب انسان خدا کے اپنے بارے میں مکاشفے میں ترقی کرتے ہیں تو وہ اُس ہستی کی فراوانی سے شادمان ہوتے ہیں جو محبت ہے اور جو اپنی لامحدود محبت عملی طریقوں سے دکھاتا ہے۔

محبت صرف اِسی صورت میں بامقصد اور بامعنی ہو سکتی ہے کہ کوئی رشتہ یا تعلق ہو۔ باپ، بیٹا اور روح القدس ہمیشہ محبت اور یکتائی کے باہمی فعال رشتے سے لطف اندوز ہوتے رہے ہیں۔ بائبل مقدس میں ایک جگہ مرقوم ہے کہ بیٹا کہتا ہے ” مَیں باپ سے محبت رکھتا ہوں “ ، ” باپ بیٹے کو عزیز رکھتا ہے “ (یوحنا ١٤ : ٣١ ؛ ٥: ٢٠ — اور پاک کلام کہتا ہے ” روح کا پھل محبت ہے “ (گلتیوں ٥: ٢٢ )۔

بہترین انسانی رشتہ — مثلاً مرد اور اُس کی بیوی کا ایک ہونا، یا باپ، ماں اور بچے کے درمیان لگاؤ اور بندھن — خدا کی ذات سے صادر ہوتا ہے۔ یہ زمینی رشتے اپنی بہترین حالت میں خدا کی حیرت انگیز یکتائی اور محبت کے ہلکے سے عکس ہیں۔ ہمارا خالق ہر اچھی چیز کا اصل، منبع، نمونہ اور مقصد ہے۔

” خدا محبت ہے “ (١۔یوحنا ٤: ٨ )۔

” خدا محبت ہے “ کا بہترین عمل یہ ہے کہ وہ آپ کو اور مجھے بلاتا اور دعوت دیتا ہے کہ اُس کے ساتھ قریبی اور گہرے رشتے کا ہمیشہ تک لطف اُٹھاتے رہیں۔ اُس میں شادمان رہیں۔ وہ صرف ہمارا اعتماد چاہتا ہے، حالانکہ اُس کی ذات کی پوری وضاحت نہیں کی جا سکتی۔

خدا قابلِ اعتماد ہے۔

ہم نے تخلیق کے چھے دنوں کے مطالعہ کے دوران خدا کے بارے میں جو کچھ دیکھا اور سمجھا ہے اُس پر دوبارہ غور کریں۔ ریاضی کی مساوات کی شکل میں یہ یوں نظر آتا ہے:

پہلا دن:   خدا پاک ہے

+    دوسرا دن:   خدا قادرِ مطلق ہے

+    تیسرا دن:   خدا بھلا ہے

+    چوتھا دن:   خدا وفادار ہے

+    پانچواں دن:   خدا زندگی ہے

+    چھٹا دن:   خدا محبت ہے


=     قابلِ اعتماد خدا

کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہم اُن لوگوں پر تو جلدی سے اعتماد کر لیتے ہیں جن میں یہ خوبیاں نہیں ہوتیں، لیکن اُس ہستی پر اعتماد کرنے سے ہچکچاتے ہیں جس میں یہ خوبیاں درجہ کمال تک ہیں؟

مَیں لیٹر بکس میں چٹھی ڈالتا ہوں تو اعتماد اور یقین رکھتا ہوں کہ محکمہ ڈاک یہ چٹھی مطلوبہ پتے پر پہنچا دے گا۔ تو مجھے کتنا زیادہ اُس پر اعتماد اور بھروسا رکھنا چاہئے جو کائنات کا خالق، سنبھالنے والا، قائم رکھنے والا اور مالک ہے کہ وہ اپنے وعدے پورے کرے گا!

” جب ہم آدمیوں کی گواہی قبول کر لیتے ہیں تو خدا کی گواہی تو اُس سے بڑھ کر ہے ۔۔۔ جس نے خدا کا یقین نہیں کیا اُس نے اُسے جھوٹا ٹھہرایا کیونکہ وہ اُس گواہی پر جو خدا نے اپنے بیٹے کے حق میں دی ہے ایمان نہیں لایا “ (١۔یوحنا ٥: ٩ ، ١٠ )۔

خدا کا ذاتی نام

خدا چاہتا ہے کہ ہم اُسے جانیں، اُس پر بھروسا رکھیں اور اُس کے نام کے طالب ہوں، اُس کا نام لیں۔

” وہ جو تیرا نام جانتے ہیں تجھ پر توکل کریں گے، کیونکہ اے خداوند! تُو نے اپنے طالبوں کو ترک نہیں کیا ہے “ (زبور ٩ :١٠ )۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ خدا کا نام صرف ” خدا “ ہے یا الوہیم (عبرانی) یا اللہ (عربی) یا الہ (ارامی) یا ڈِیو (فرانسیسی) یا ڈِیوَس (ہسپانوی) یا گُوٹ (جرمن)۔ یا کسی بھی زبان میں جو کوئی بولتا ہے خدا کے لئے مستعمل لفظ یا اصطلاح یا نام۔ عربی زبان میں لفظ ” اللہ “ اپنے اصل معنی میں اردو زبان میں ” خدا “ کا مترادف ہے۔ جیسے پرانے عہدنامے میں پیدائش ١:١ کی طرح ” خدا نے ابتدا میں ۔۔۔ “ یا نئے عہدنامے میں یوحنا ١:١ کی طرح ” ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا “ — عربی زبان میں خدا کے لئے خاص یا اصل لفظ ” اللہ “ ہے جس کا مطلب ہے ” اعلی' ترین ہستی، الاعلی یا ہستئی برتر۔ “ یہ جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اُس ” اعلی ترین ہستی “ کے ذاتی اور شخصی نام بھی ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ انسان مجھے اِن ناموں سے جانیں۔ ” اللہ “ خدا کا اسمِ خاص اور ذاتی نام نہیں ہے حالانکہ بہت سے لوگ اِسے خاص نام ہی سمجھتے ہیں۔ اِسی طرح ” خدا “ اُس کا اسمِ خاص یا ذاتی نام نہیں ہے حالانکہ بہت سے لوگ اِسے بھی خاص نام مانتے ہیں۔

بے شک خدا خدا (ہستی مطلق، ہستی برتر، فائق ہستی) ہے، لیکن کیا ” خدا “ اُس کا ںام ہے؟ کیا یہ ایسا نہیں جیسے مَیں کہوں کہ میرا نام ” انسان “ ہے؟ مَیں انسان تو ہوں، لیکن میرا ایک اپنا، ذاتی نام بھی ہے۔ خدا خدا تو ہے لیکن اُس کے اپنے نام بھی ہیں جن سے اُس نے اپنے آپ کو ظاہر کیا ہے۔ اور وہ دعوت دیتا ہے کہ ہم ان ناموں سے اُسے ایک ہستی کے طور پر مخاطب کریں:

بہت سے لوگ خیال کرتے ہیں کہ خدا ناقابلِ ادراک توانائی کا سرچشمہ ہے جیسے کششِ ثقل اور ہوا یا آندھی یا اُس قسم کی قوت جو سائنس پر مبنی فلموں میں دکھائی جاتی ہے۔ یہ خدا کے بارے میں بائبلی تصور نہیں ہے۔

خدا ” ہستی مطلق “ — اصل شخصیت ہے اور چاہتا ہے کہ ہم اُسے شخصی طور پر جانیں۔ خدا کے ایک شخصیت ہونے کا تصور نہ صرف بائبلی تصور ہے بلکہ منطقی بھی ہے۔ جس طرح انسان فقط کائناتی توانائی نہیں ہیں اِسی طرح ساری چیزوں کا خالق بھی فقط کوئی توانائی نہیں ہے۔ وہ ” شخصی ہستی “ ہے اور اُس کا نام بھی ہے۔

خدا کا اصل شخصی نام پہلی دفعہ پیدائش کے دوسرے باب میں بتایا گیا ہے:

” یہ ہے آسمان اور زمین کی پیدائش جب وہ خلق ہوئے جس دن خداوند خدا نے زمین اور آسمان کو بنایا “ (پیدائش ٢: ٤)۔

کیا آپ نے توجہ کی کہ خدا نے اپنا ذکر کس نام سے کیا ہے؟

اُس کا نام ہے ” خداوند “ — یا کم سے کم اردو زبان میں اِس کا یہی ترجمہ کیا گیا ہے۔ شکر کرنا چاہئے کہ خدا ساری زبانیں پورے طور سے جانتا ہے اور یہ تقاضا نہیں کرتا کہ اُسے کسی خاص ایک زبان میں مخاطب کیا جائے۔ وہ دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنی اپنی مادری زبان میں مخاطب ہوں۔ ہم کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ اور کسی بھی طرف رُخ کر کے اپنی پسندیدہ یا دلی زبان میں اُس سے بات کر سکتے ہیں۔

مَیں ہوں

عبرانی زبان میں خدا کا اصل ذاتی نام ” خداوند “ چار حروف صحیحہ ” ے ہ وہ “ سے لکھا جاتا ہے۔ جب اِن میں حروفِ علت لگاتے جاتے ہیں تو یہ ” ے الف ہ و ے ہ “ (یاہ ویہ) یا ” یہوواہ “ بن جاتا ہے۔ یہ نام مصدر ” ہونا “ سے مشتق ہے اور لغوی معنی ہیں ” مَیں ہوں “ یا ” وہ ہے “ ۔ اِس سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ خدا ازلی قائم بالذات (خود موجود) ہے۔ پرانے عہدنامے میں خدا کا یہ ذاتی نام ٥٠٠ ، ٦ سے زیادہ دفعہ استعمال ہوا ہے۔ خدا کا کوئی دوسرا نام اِتنی دفعہ استعمال نہیں ہوا۔ (اُردو میں اِس کا ترجمہ ” خداوند “ کیا گیا ہے)۔

موسی' کی پرورش مصر میں ہوئی تھی جہاں لوگ بہت سے خداؤں اور دیوتاؤں کو مانتے تھے۔ خدا موسی' پر ظاہر ہوا تو اُس نے خدا سے درخواست کی کہ مجھے اپنا نام بتا۔ سنئے کہ خدا نے کیا فرمایا:

” خدا نے موسی' سے کہا، مَیں جو ہوں سو مَیں ہوں۔' سو تُو بنی اسرائیل سے یوں کہنا کہ مَیں جو ہوں، نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے “ (خروج ٣: ١٤ )۔

صرف شخصی ہستی ہی ” مَیں ہوں “ کہہ سکتا ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ ہم جانیں کہ وہ ” ہستی مطلق “ ہے۔ وہی ہے جو ” ہے “ ۔

ماضی، حال اور مستقبل اُس کے لئے کچھ نہیں ہیں۔ اُس کی ہستی، اُس کا موجود ہونا زمان اور مکان سے ماورا ہے۔

آپ کو اور مجھے زندہ رہنے کے لئے ہوا، پانی، خوراک، نیند، مکان اور دوسری چیزوں کی ضرورت ہے۔ لیکن خدا کو کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ وہ ایسی ہستی ہے جو اپنی قدرت سے موجود ہے۔ وہ عظیم ” مَیں ہوں — خداوند “ ہے۔

نوٹ: انگریزی زبان کی بائبل مقدس میں جب بھی خداوند بڑے حروف ( LORD ) میں لکھا جاتا ہے تو اصل زبان عبرانی میں لفظ یہوہ ( YHWH ) ہے جس کا مطلب ہے ” ازلی قائم بالذات ہستی “ ۔

خدا نے یہ بات انسان پر نہیں چھوڑی کہ اُس کی ذات کی وضاحت کرے۔ وہ اپنے بارے میں خود بتاتا ہے۔

سینکڑوں نام

باپ، بیٹا اور روح القدس کی حیثیت سے اپنے ازلی وجود میں ” خداوند (یہوواہ) “ کے سینکڑوں نام اور القاب ہیں۔ خدا کے نام اُس کی صفات کو ظاہر کرتے ہیں۔ ہر صفاتی نام کا مقصد یہ ہے کہ ہم بہتر سمجھ سکیں کہ خدا کون ہے اور کس کی مانند ہے۔ مثال کے طور پر اُس کے چند نام یہ ہیں:

آسمان اور زمین کا خالق، زندگی کا بانی، تعالی، حقیقی نور ، پاک (ہستی)، عادل منصف، یہوواہ یری (جو مہیا کرتا ہے)، یہوواہ شافی (جو شفا دیتا ہے)، یہوواہ نسی (میرا جھنڈا)، ہماری صداقت، خداوند ہمارا اطمینان، خداوند میرا چوپان، تسلی اور محبت کا خدا، فضل کا خدا، ابدی نجات کا بانی، خدا جو نزدیک ہے، یہوواہ سلوم (سلامتی) ، رب الافواج۔۔۔

ہم اپنے خالق کو جو کچھ بھی سمجھتے ہوں، مگر ہم میں سے ہر ایک کو فروتنی اور انکساری سے اقرار کرنا چاہئے کہ وہ خدا ہے اور دوسرا کوئی اُس کی مانند نہیں ہے۔ اگرچہ نہ اُس کی پوری وضاحت ہو سکتی ہے نہ اُسے پورے طور سے سمجھ سکتے ہیں تو بھی وہ چاہتا ہے کہ ہمیں اُس کا نام معلوم ہو، اُس پر توکل اور بھروسا رکھیں، اُس سے محبت رکھیں اور ہمیشہ اُس کے ساتھ رہیں۔ اِسی مقصد سے خدا نے فرمایا:

” ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں۔ “ (پیدائش ١: ٢٦)

اِس کا کیا مطلب تھا؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ دیدنی انسان نادیدنی خدا کی صورت اور شبیہ پر ہو؟