۱۷
یہ کون ہے؟
”قلانچیں بھرنے والے غزال بھٹوں میں رہنے والی اولاد پیدا نہیں کرتے“ (بھٹ= زمین میں کھودا ہوا گڑھا یا سوراخ)۔
—(ولُوف ضرب المثل)

جس طرح غزال، غزال والی خصلتیں رکھنے والے بچے پیدا کرتے ہیں اُسی طرح گنہگار، گنہگاروں والی خصلتیں رکھنے والی نسل پیدا کرتے ہیں۔ انسان اپنے آپ سے گناہ کا یہ چکر توڑ کر باہر نہیں نکل سکتا۔ یہ بات صاف نظر آتی ہے۔

گنہگار اںسان

امریکہ کی فلمی صنعت پر غور کریں۔ ہر سال ہالی وڈ (بالی وڈ اور جَولی وڈ بھی) بہت اثر انگیز اور دھماکا خیز فلمیں بناتا اور برآمد کرتا ہے جن میں ہیرو اور ہیروئنیں مطلب پرستی، خود غرضی، بدچلنی، فحاشی، گندی زبان، ظلم و تشدد، انتقام اور دھوکے فریب کا خوب مظاہرہ کرتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ فلم نویس جان بوجھ کر اپنے ”اچھے کرداروں“ میں گناہ آلود خصوصیات شامل کرتے اور اُن کی نمائش کرتے ہیں؟ ایسی فلمیں کیوں نہیں بناتے جن میں ہیرو نیکوکار، ہمدرد، بے غرض، معاف کرنے والے اور دیانت دار دکھائے جائیں؟ انسان کے بہترین فرضی کردار بھی ”آلودہ“ یا بگڑے ہوۓ ہوتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ انسانی نسل گناہ آلود ہے، گناہ کی وبا میں مبتلا ہے۔

انسان کی گناہ کا رجحان رکھنے والی سرشت بے شمار عیارانہ طریقوں سے اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر آپ عرب ممالک کے رہنے والے ہیں تو آپ کہانیوں اور افسانوں کی صدیوں پرانی شخصیت ”جُوہا“ سے ضرور واقف ہوں گے۔ اِس ہوشیار اور چالاک کردار کے بارے میں بے شمار لطیفے لکھے گۓ ہیں۔ اُس کی باتوں اور حرکتوں سے تیز فہمی اور ظرافت جھلکتی ہے، لیکن بسا اوقات اُس کی خود غرضی، خود پرستی، ہتک آمیز باتیں، ناپاک سوچ، انتقامی جذبہ، مکاری، فریب اور وعدہ خلافی نمایاں ہوتی ہے۔ غور فرمائیں۔ ہمارے تخلیق کردہ مقبولِ عام کردار بھی آلودہ، ناخالص اور بگڑے ہوۓ ہوتے ہیں۔ ہم جوہا کے کردار کی ایک مثال، ایک جھلک پیش کرتے ہیں۔

ایک دفعہ ایک دوست اُس کے پاس آیا اور کہنے لگا ”آپ نے مجھے کچھ رقم ادھار دینے کا وعدہ کیا تھا۔ مَیں حاضر ہوا ہوں۔ آپ اپنا وعدہ پورا کریں۔“

جوہا بولا ”دوست، مَیں کسی کو کبھی ادھار نہیں دیتا، لیکن مجھ سے دل بھر کے وعدے لے لو۔“

ہم بھی اِس فرضی کردار ”جوہا“ سے کم نہیں کیونکہ ہم نے بہت سے وعدے کئے ہیں جنہیں پورا کرنے کا کوئی اِرادہ نہیں رکھتے۔ ہم اپنی برگشتہ انسانی فطرت میں بالکل جوہا کی مانند ہیں۔

مگر تاریخ میں ایک شخص ہے جس نے اپنے سارے وعدے پورے کۓ۔ وہ ہمیشہ سچ بولتا تھا، اُس نے کبھی دھوکا فریب نہیں کیا، کسی کی توہین یا بے عزتی نہیں کی، نہ کبھی کسی کو دھمکایا اور انتقام لیا۔

اُس کا نام ہے ”یسوع۔“

” ۔۔۔ نہ اُس نے گناہ کیا اور نہ اُس کے منہ سے کوئی مکر کی بات نکلی۔ نہ وہ گالیاں کھا کر گالی دیتا تھا اور نہ دکھ پا کر کسی کو دھمکاتا تھا۔۔۔“ (١۔پطرس ٢: ٢٢، ٢٣)۔

یہ تو ہے اُس کے بارے میں بائبل مقدس کی گواہی۔ لیکن بہت سے قدیم، غیر بائبلی تاریخی مصنفین بھی ہیں جنہوں نے یسوع ناصری کے بارے میں کچھ نہ کچھ ذکر کیا ہے۔ اُن میں سے چند ایک یہ ہیں: (١) رومی مورخ ٹیکیٹُس ( Tacitus ، ٥٥۔٢٠ عیسوی تصنیف ٹیکیٹُس ١٥ : ٤٤ ) (٢ ) یہودی مورخ یوسیفس (٣٧ ۔ ١٠١ عیسوی تصنیف Antiquities ، ١٨ : ٣)۔ (٣ ) ربیوں کی مرتب کردہ ”تالمود“ جو توریت کی تفسیر ہے (بابلی تالمود، ٤٣ الف)۔ (٤) یونانی عالم لُوسیان (The Death of Pereguire ساماسوٹاکی تحریروں میں صفحات ١١ ۔ ١٣ — ترجمہ از ایچ۔ ڈبلیو فاؤلر اور ایف جی فاؤلر، ٤ جلدیں، آکسفورڈ کلیرڈن پریس ١٩٤٩ عیسوی)۔ (٥) سوٹونیُس ( ١١٧ ۔ ١٣٨ عیسوی) شہنشاہ ہیڈرئین کا چیف سیکرٹری کلودیئس ۔ ٢٥ )۔ جے ۔ آسولڈ سینڈرز لکھتا ہے” یہ حجت کرنا کہ بائبل کا مسیح صرف انسانی تصور کی پیداوار ہے اور تواریخی حقیقت نہیں ہے اناجیل کو ادب کی دنیا میں اتنا بڑا معجزہ بنا دیتی ہے جتنا بڑا زندہ مسیح تاریخ میں ہے۔“ ارنسٹ رینان کہتا ہے کہ کسی یسوع کو اختراع کرنے کے لئے یسوع ہی درکار ہے۔ جے۔ جے روسو دلیل دیتا ہے کہ کسی شخص کا تاریخ کا موضوع بن جانا تو ناقابل فہم ہے لیکن متعدد افراد کا ایسی تاریخ لکھنے پر متفق ہونا خلافِ قیاس اور بعید از فہم ہے۔

بے گناہ ہستی

دنیا کی گناہ سے لتھڑی ہوئی ثقافتوں کے مقابلے میں یسوع کی زندگی بالکل الگ اور فرق نظر آتی ہے۔ وہ دنیا میں بے گناہ اور منزہ پیدا ہونے والی واحد ہستی ہے۔ ”۔۔۔ وہ سب باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا تو بھی بے گناہ رہا“ (عبرانیوں ٤: ١٥ )۔ کوئی ناپاک خیال اُس کے دل میں کبھی نہیں آیا۔ کوئ سخت یا کڑوی بات اُس کے ہونٹوں پر کبھی نہیں آئی۔ وہ ناصرت کے ایک معمولی سے گھر میں اپنے سوتیلے بہن بھائیوں کے ساتھ پرورش پا رہا تھا تو فطری طور سے ظاہر اور باطن میں خدا کے اِن دس حکموں اور دوسرے سارے حکموں کی تعمیل کرتا تھا (متی ١٣ : ٥٥ ۔ ٥٦ )۔ یسوع ناصرت میں پلا بڑھا (متی ٢: ٢٢ ۔ ٣٣ ؛ لوقا ٢: ٥١ ، ٥٢ )۔ وہ اپنے شرعی باپ یسوع کے ساتھ بڑھئ کا کام کرتا تھا (مرقس ٦: ٣)۔ یسوع کی فروتنی سے وہ لوگ ناخوش اور بیزار تھے جو حلیم اور فروتن خادم نہیں بلکہ فاتح ہیرو چاہتے تھے۔

” ۔۔۔ وہ اِس لئے ظاہر ہوا کہ گناہوں کو اُٹھا لے جاۓ اور اُس کی ذات میں گناہ نہیں“ (١۔یوحنا ٣: ٥)۔

تیس سال کی عمر میں یسوع نے اِس دنیا میں اپنا باقاعدہ کام شروع کیا۔

”جب یسوع خود تعلیم دینے لگا تو قریبا“ تیس برس کا تھا اور (جیسا کہ سمجھا جاتا تھا) یوسف کا بیٹا تھا (لوقا ٣: ٢٣ )۔ خدا اور شیطان کے درمیان جنگ میں تیزی آنے کو تھی۔ شیطان جانتا تھا کہ خدا کا بیٹا مجھے کچلنے کو آ گیا ہے، لیکن اُسے معلوم نہ تھا کہ یسوع کا منصوبہ کیا ہے۔

جس طرح شیطان نے پہلے کامل آدمی کو آزمایا تھا کہ خدا کی شریعت کی نافرمانی کرے، اب وہ دوسرے آدم کو بھی آزمانے کی کوشش کرے گا کہ خدا کے حکموں کی خلاف ورزی کراۓ۔

”پھر یسوع ۔۔۔ چالیس دن تک روح کی ہدایت سے بیابان میں پھرتا رہا اور ابلیس اُسے آزماتا رہا۔ اُن دنوں میں اُس نے کچھ نہ کھایا اور جب وہ دن پورے ہو گۓ تو اُسے بھوک لگی، اور ابلیس نے اُس سے کہا اگر تُو خدا کا بیٹا ہے تو اِس پتھر سے کہہ کہ روٹی بن جاۓ۔ یسوع نے اُس کو جواب دیا لکھا ہے کہ آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر ایک بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے“ (لوقا ٤: ١ ۔٤ ؛ متی ٤: ١۔٤ )۔

غور کریں کہ شیطان یسوع سے کوئی ”بُرائ“ کرانے کی کوشش نہیں کر رہا تھا بلکہ ابلیس کا مقصد یہ تھا کہ یہ بے گناہ آدم (جو ”میرے“ علاقہ پر حملہ آور ہوا ہے) آسمان میں خدا باپ سے الگ ہو کر اپنے طور پر آزادانہ کام کرے۔ جیسا کہ ہم نے باب ١١ میں دیکھا خدا سے الگ ہو کر آزادانہ سوچنا اور کام کرنا گناہ ہے۔

نکتہ یہ ہے کہ اگر مسیحِ موعود صرف ایک ہی گناہ کر لیتا تو وہ آدم کی ملعون نسل کو گناہ اور موت کی شریعت سے چھڑانے کا مشن پورا نہ کر سکتا۔

جس طرح کوئی ایسا شخص جو خود بھاری قرض تلے دبا ہوا ہے کسی دوسرے کا فرض ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتا اُسی طرح کوئی گنہگار شخص دوسروں کے گناہوں کا فدیہ دینے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ لیکن خدا کا بیٹا جو ابنِ آدم بن گیا اُس پر اپنے گناہ کا کوئی قرض نہ تھا۔ وہ موت سے بالکل بچا رہ سکتا تھا اِس لئے کہ وہ بے گناہ تھا۔ لیکن ہم دیکھیں گے کہ خدا کا منصوبہ یہ نہیں تھا۔

یسوع نے بہت دفعہ اپنے آپ کو ”ابنِ آدم“ کہا۔ یہ مسیح موعود کا ایک لقب ہے جس کا مطلب ہے ”بنی نوع انسان کا بیٹا / انسانیت کا بیٹا“ (یونانی، اینتھروپوس Anthropos )۔ کیا خوب لقب ہے! ہم پسند کریں یا ناپسند، مگر ہم سب آدم زاد یعنی ”انسانیت کے بیٹے“ ہیں۔ لیکن جہاں تک ممتاز اور سرفراز ”خدا کا بیٹا“ کی بات ہے تو اُس نے ”ابنِ آدم“ بننے کا انتخاب کیا۔ وہ اپنی مرضی سے ”ابنِ آدم“ بنا (پسرِ آدم یا ولدِ آدم نہیں) تاکہ انسانی نسل کے مشابہ ہو جاۓ! یہ لقب یسوع کی الوہیت کو بھی ویسے ہی ظاہر کرتا ہے جیسے اُس کی بشریت کو، کیونکہ یہ انسانیت میں خدا کی شخصی مداخلت کا بیان کرتا ہے (دیکھئے دانی ایل ٧: ١٣، ١٤ ؛ متی ٨: ٢٠ ؛ لوقا ٥: ١٤ ؛ ٢٢ : ٦٩ ۔ ٧٠ ؛ یوحنا ٥: ٢٧ ؛ ١٣ : ٣١ ؛ مکاشفہ ١: ١٣ ۔ ١٨ ؛ ٤: ١٤ )۔

(نوٹ: مداخلت کا مفہوم اکثر منفی سمجھا جاتا ہے، لیکن خدا کی مداخلت کا مقصد یہ تھا کہ شفاعت اور وسیلہ مہیا کیا جاۓ— مترجم)۔

یسوع چالیس دن بیابان میں رہا۔ اِس دوران شیطان اُسے گناہ کرنے کی ترغیب دیتا رہا کہ وہ خدا کے کامل منصوبے کو چھوڑ کر خود آزادانہ کام کرے۔ ابلیس کو جواب دینے کے لئے یسوع نے ہر دفعہ پاک صحائف سے اقتباس کیا۔ مثلاً: لوقا ٤:٤ میں یسوع کے الفاظ موسی' کی توریت کی کتاب استثنا ٨: ٣ کا اقتباس ہیں۔

” ۔۔۔ اور ابلیس نے اُسے اونچے پر لے جا کر دنیا کی سب سلطنتیں پل بھر میں دکھائیں اور اُس سے کہا کہ یہ سارا اختیار اور اُن کی شان و شوکت مَیں تجھے دے دوں گا کیونکہ یہ میرے سپرد ہے اور جس کو چاہتا ہوں دیتا ہوں۔ پس اگر تُو میرے آگے سجدہ کرے تو یہ سب تیرا ہو گا۔ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا لکھا ہے کہ تُو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اُسی کی عبادت کر۔۔۔“ (لوقا ٤: ٥ ۔٨ )۔

جس طرح خدا نے آدم کو ساری مخلوقات پر اختیار اور فرماں روائی دی تھی اُسی طرح اب شیطان یسوع کو فرماں روائی اور ”اختیار“ کی پیش کش کر رہا تھا، جو اُس نے اُس وقت غصب کیا تھا جب آدم نے اُس (شیطان) کی پیروی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

انسان کے گناہ کی وجہ سے شیطان واقعی ”اِس دنیا کا سردار“ اور ” ہوا کی عمل داری کا حاکم یعنی وہ روح “بن گیا تھا” جو اب نافرمانی کے فرزندوں میں تاثیر کرتی ہے“ (یوحنا ٢١: ٣١ ؛ افسیوں ٢:٢ )۔ خدا کا بیٹا اِس لئے آیا تھا کہ انسان کی کھوئی ہوئ عمل داری اور اختیار کو بحال کرے۔ مگر یہ کام اُس نے شیطان کے طریقے سے نہیں بلکہ خدا کے طریقے سے کیا ہے۔

آدم کے برعکس یسوع نے شیطان کی بات نہ مانی۔

خدا کا کلمہ مجسم ہوا تھا۔

یسوع کے پیروکار

اپنا خاص کام شروع کرنے کے ابتدائی دنوں میں یسوع نے بارہ آدمی چن لئے جو ہر وقت ہر جگہ جہاں وہ جاۓ اُس کے ساتھ رہیں۔ بہت سی عورتیں بھی اُس کے پیچھے پیچھے چلتی تھیں۔ یہ آدمی اور عورتیں یسوع کے کاموں اور اُس کی باتوں کے عینی گواہ ہیں۔

” ۔۔۔ وہ منادی کرتا اور خدا کی بادشاہی کی خوش خبری سناتا ہوا شہر شہر اور گاؤں گاؤں پھرنے لگا اور وہ بارہ اُس کے ساتھ تھے۔ اور بعض عورتیں جنہوں نے بُری روحوں اور بیماریوں سے شفا پائی تھی ۔۔۔ اور بہتیری اَور عورتیں بھی تھیں جو اپنے مال سے اُن کی خدمت کرتی تھیں“ (لوقا ٨: ١۔ ٣)۔

یسوع مردوں، عورتوں اور بچوں کی یکساں عزت کرتا تھا۔ اناجیل میں بہت سے واقعات مرقوم ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ وہ عورتوں سے عزت اور مہربانی کرتا تھا۔ یہ رویہ اُس زمانے کی یہودی اور رومی ثقافت اور رواج سے بہت ارفع و اعلی' تھا۔

یسوع دنیا کے ہر ایک شخص کو بے حد قیمتی اور قابلِ قدر سمجھتا تھا، لیکن اُس نے کسی کو مجبور نہیں کیا کہ میری سنو، میرا یقین کرو، مجھ پر ایمان لاؤ اور میری پیروی کرو۔ وہ اُن لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا بہت پسند کرتا تھا جو سچائی کو سننے اور قبول کرنے کو تیار ہوتے تھے، خواہ اُنہیں اِس کی کتنی ہی قیمت ادا کرنی پڑے۔

ایک کلیدی سوال

بہت سے عام لوگ تو یسوع پر ایمان لے آۓ تھے اور اُس کی پیروی کرتے تھے، لیکن یہودی مذہبی راہنما (فقیہ، فریسی) ایمان نہ لاۓ۔ایک دن یسوع نے اُن سے ایک فیصلہ کن سوال پوچھا:

” تم مسیح کے حق میں کیا سمجھتے ہو؟ وہ کس کا بیٹا ہے؟“ (متی ٢٢: ٤٢ )۔

اُنہوں نے جواب میں کہا کہ مسیحِ موعود داؤد بادشاہ کی نسل سے ہو گا۔ یسوع نے اُنہیں یاد دلایا کہ داؤد نے پیش گوئی کی تھی کہ موعودہ نجات دہندہ داؤد کا دنیوی بیٹا اور خدا کا آسمانی بیٹا دونوں ہو گا (زبور ٢ اور ١١٠ ؛ متی ٢١ : ٤١ ۔ ٤٦ )۔ اِس سے چند دن پہلے یسوع نے اپنے شاگردوں سے بھی ایسا ہی سوال پوچھا تھا:

” لوگ ابنِ آدم کو کیا کہتے ہیں؟ اُنہوں نے کہا بعض یوحنا بپتسمہ دینے والا ۔۔۔ یا نبیوں میں سے کوئ۔ اُس نے اُن سے کہا مگر تم مجھے کیا کہتے ہو؟ شمعون پطرس نے جواب میں کہا تُو زندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے۔ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا مبارک ہے تُو شمعون بریوناہ کیونکہ یہ بات گوشت اور خون نے نہیں بلکہ میرے باپ نے جو آسمان پر ہے تجھ پر ظاہر کی ہے“ (متی ١٦ : ١٣ ۔ ١٧ )۔

جلد یا بدیر ہم سب کو اِس سوال کا جواب دینا ہو گا۔

تم یسوع کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ وہ کس کا بیٹا ہے؟

بعض لوگ کیا کہتے ہیں؟

مغربی دنیا میں بعض لوگ یسوع کو ایک افسانوی کردار یا زیادہ سے زیادہ کوئی تواریخی شخص سمجھتے ہیں۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ اخلاقیات کا بڑا اُستاد تھا، اور بس۔

راسخ العقیدہ یہودی تو یسوع کا نام لینے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ اُس کا ذکر کرنا پڑ جاۓ تو ”وہ آدمی“ کہہ کر بات کرتے ہیں۔

ہندو اپنے بہت سے دیوی دیوتاؤں کی طرح یسوع کو بھی بھگوان (خدا) کا ایک اوتار مانتے ہیں۔

ہمارے مسلمان دوست کہتے ہیں کہ ہم یسوع کو ایک نبی مانتے ہیں اور اُس کی تعظیم کرتے ہیں، لیکن وہ خدا کا بیٹا نہیں۔

ایک آدمی نے ای میل میں یوں لکھا:

ای میل

”مَیں سعودی عرب میں رہتا ہوں۔ ہم ایمان رکھتے ہیں کہ یسوع صرف ایک نبی ہے اور خدا کا بیٹا نہیں۔ یسوع کو قتل نہیں کیا گیا تھا۔ وہ دوبارہ آئیں گے اور سب لوگ دیکھیں گے کہ وہ کس کی طرف ہیں۔ مَیں دعا کرتا ہوں کہ آپ کے جیتے جی ایسا ہو جاۓ تاکہ آپ ہمارے شاندار مذہب میں شامل ہو جائیں اور حقیقی روشنی دیکھیں۔“

ملائشیا سے ایک صاحب نے لکھا:

ای میل

” مَیں ایمان رکھتا ہوں کہ خدا واحد ہے۔ وہ نہ کبھی انسان بنا اور نہ انسان جیسا نظر آیا ۔۔۔ اگر کوئی شخص سوچتا ہے کہ خدا انسانی صورت میں موجود ہے تو وہ بڑا کافر ہے۔“

یسوع کے بارے میں مسلمانوں کے یہ نظریات قرآن شریف کی تعلیم پر مبنی ہیں۔

قرآن شریف کیا کہتا ہے؟

قرآن شریف میں متعدد بار آیا ہے کہ ”مسیح ابنِ مریم اِس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول تھا“ (سورہ ٤: ١٧١ ۔ ١٧٣ ؛ ٥: ٧٥ ؛ ٢: ١٣٦ )۔ تاہم قرآن شریف یہ بھی کہتا ہے کہ یسوع نبیوں میں یکتا ہے اِس لئے کہ اُس کا کوئی جسمانی باپ نہ تھا۔ قرآن شریف اُسے عیسی' ابنِ مریم کہتا ہے (سورہ ١٩ : ٣٤ )۔ قرآن شریف نبیوں اور پیغمبروں کے گناہوں کا ذکر کرتا ہے، لیکن یسوع سے کوئی گناہ منسوب نہیں کرتا۔ اُسے ”پاکیزہ لڑکا“ کہا گیا ہے (سورہ ١٩ :١٩ ۔ مقابلہ کریں سورہ ٤٨ :٢ اور ٤٧ : ١٩ سے)۔ قرآن شریف اُس کو واحد نبی کی حیثیت سے پیش کرتا ہے جس میں زندگی پیدا کرنے کی، اندھوں کو بینائی دینے کی، کوڑھیوں کو شفا دینے کی اور مُردوں کو زندہ کرنے کی قدرت ہے (سورہ ١٩: ١٩ ؛ ٣: ٤٥ ۔ ٥١ ' ٥: ١١٠ ۔ ١١٢ )۔ صرف یسوع ہے جس سے قرآن شریف اعلی' و ارفع القاب منسوب کرتا ہے مثلاً ”المسیح“، روح اللہ (خدا کا روح) اور کلمۃ اللہ (خدا کا کلمہ) (سورہ ٤: ١٧١ )۔

یسوع کے بے مثال ہونے کی قرآنی تصدیق دیکھنے کے بعد کہ قرآن اُسے ”مسیح ابنِ مریم“ تو کہتا ہے لیکن اُس کی شخصیت کا جو بیان کرتا ہے وہ بائبل مقدس کے بیان سے قطعاً فرق ہے۔ مندرجہ بالا آیت جو اُس سے اعلی' ارفع القابات منسوب کرتی ہے یہ بھی کہتی ہے ” مسیح عیسی' ابنِ مریم اِس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اللہ کا ایک رسول تھا اور ایک فرمان تھا جو اللہ نے مریم کی طرف بھیجا اور ایک روح تھی اللہ کی طرف سے (جس نے مریم کے رِحم میں بچے کی شکل اختیار کی) پس تم اللہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور نہ کہو کہ “تین”ہیں۔ باز آ جاؤ یہ تمہارے ہی لئے بہتر ہے، اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے۔ وہ پاک ہے، اِس سے کہ کوئی اُس کا بیٹا ہو“(سورہ٤: ١٧١ )۔

سینیگال میں بچے اور بڑے سب فوراً کہتے ہیں ”یسوع خدا کا بیٹا نہیں ہے! خدا کا کوئی بیٹا!“ اور پورے یقین سے یہ بھی کہتے ہیں ”یسوع کو صلیب نہیں دی گئی تھی!“

یہ بات بھی قرآن شریف سے آئی ہے جو کہتا ہے ”پھر (یہودی) اپنے کفر میں اِتنے بڑھے کہ مریم پر سخت بہتان لگایا اور خود کہا کہ ہم نے مسیح، عیسی' ابنِ مریم، رسول اللہ کو قتل کر دیا ہے۔ حالانکہ فی الواقع اُنہوں نے نہ اُس کو قتل کیا نہ صلیب پر چڑھایا، بلکہ معاملہ اُن کے لئے مشتبہ کر دیا گیا۔ اور جن لوگوں نے اِس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں۔ اُن کے پاس اِس معاملے میں کوئی علم نہیں ہے، محض گمان ہی کی پیروی ہے۔ اُنہوں نے مسیح کو یقیناً قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے اُس کو اپنی طرف اُٹھا لیا، اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے۔“ (سورہ ٤: ١٥٦ ۔ ١٥٨ )

بائبل مقدس کیا کہتی ہے؟

قرآن شریف کے ضبطِ تحریر میں آنے سے صدیوں پہلے، چالیس نبیوں اور رسولوں نے جنہوں نے پرانے اور نئے عہدنامے کے صحائف لکھے، مسیحِ موعود اور اُس کے مشن کی ایک بالکل فرق تصویر پیش کی ہے۔

مقدس یوحنا جو تین سال سے زیادہ عرصے تک مسیح کے ساتھ چلتا پھرتا اور گفتگو کرتا رہا اُس نے یسوع کے لقب ”خدا کا بیٹا“ کے بارے میں گواہی دی:

” ۔۔۔ یسوع نے اَور بہت سے معجزے شاگردوں کے سامنے دکھاۓ جو اِس کتاب میں لکھے نہیں گۓ۔ لیکن اِس لئے لکھے گۓ کہ تم ایمان لاؤ کہ یسوع ہی خدا کا بیٹا مسیح ہے اور ایمان لا کر اُس کے نام سے زندگی پاؤ“ (یوحنا ٢٠ : ٣٠، ٣١ )۔

یوحنا رسول نے یہ بھی لکھا:

” ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔ یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔ سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اُس میں سے کوئ چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئ۔۔۔ اور کلام مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال ۔۔۔“ (یوحنا ١:١ ۔ ٣ ، ١٤ )۔

چند سال ہوۓ کہ ایک مسلمان دوست نے مجھ پر بھروسا کرتے ہوۓ کہا کہ قرآن شریف نے یسوع کو کلمۃ اللہ اور روح اللہ کے القاب دیئے ہیں، اگر یسوع خدا کا کلمہ اور روح ہے تو وہ خدا ہے۔ بعد میں ایسا ہوا کہ بعض لوگوں نے میرے اُس دوست پر کفر اور شرک کا الزام لگایا۔ اِسلام میں شرک قطعی گناہ ہے۔ خیر گزری کہ ہمارا یہ دوست اچھے لوگوں کے درمیان تھا۔ یسوع کی زمینی زندگی کے دوران یہودی مذہبی لیڈروں نے یسوع پر بھی ایسا ہی الزام لگایا تھا۔

یسوع نے کہا، ” مَیں اور باپ ایک ہیں۔ یہودیوں نے اُسے سنگسار کرنے کے لئے پتھر اُٹھاۓ۔ یسوع نے اُنہیں جواب دیا کہ مَیں نے تم کو باپ کی طرف سے بہتیرے اچھے کام دکھائے ہیں۔ اُن میں سے کس کام کے سبب سے مجھے سنگسار کرتے ہو؟ یہودیوں نے اُسے جواب دیا کہ اچھے کام کے سبب سے نہیں بلکہ کفر کے سبب سے تجھے سنگسار کرتے ہیں اور اِس لئے کہ تُو آدمی ہو کر اپنے آپ کو خدا بناتا ہے“ (یوحنا ١٠ : ٣٠ ۔ ٣٣)۔

یہودیوں نے یسوع پر اُسی بات کا الزام لگایا جو لوسیفر نے کرنے کی کوشش کی تھی— خدا کی یکتا، بے مثال اور اعلی' اور ارفع حیثیت پر غاصبانہ قبضہ کرنا — اُنہوں نے یسوع پر الزام لگایا کہ تُو اپنے آپ کو خدا بناتا ہے۔

لیکن وہ اُلٹی بات کر رہے تھے۔

خدا بننا نہیں، بلکہ تجسم

نہ یسوع نے اور نہ نبیوں نے کبھی تعلیم دی کہ انسان خدا بن سکتا ہے، البتہ

صحائف نے واضح طور سے بتایا ہے کہ خدا انسان بنے گا۔ مثال کے طور پر مسیح موعود کی پیدائش سے تقریباً ٧٠٠ سال پہلے یسعیاہ نبی نے لکھا کہ:

” ۔۔۔ جو لوگ تاریکی میں چلتے تھے اُنہوں نے بڑی روشنی دیکھی۔ جو موت کے سایہ کے ملک میں رہتے تھے اُن پر نور چمکا ۔۔۔ ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اُس کے کندھے پر ہو گی اور اُس کا نام عجیب، مشیر، خداۓ قادر، ابدیت کا باپ، سلامتی کا شہزادہ ہو گا“ (یسعیاہ ٩: ٢، ٦ )۔

مسیحِ موعود سے منسوب القابات پر غور کریں:

عجیب : یہ لقب صرف خدا کے لئے مخصوص ہے۔ اِس کا مطلب ہے 'غیر معمولی'۔

مشیر: مسیحِ موعود متشخص اور متجسم حکمت ہو گا۔

خداۓ قادر: خدا خود انسانی جسم اختیار کرے گا۔

ابدیت کا باپ: وہ ابد کا مالک ہے۔

سلامتی کا شہزادہ: وہ گنہگاروں کا خدا سے میل ملاپ کراۓ گا، باطنی اطمینان عطا کرے گا اور کامل عالمی امن و امان بحال کرے گا۔

یسعیاہ نے آنے والے مسیحِ موعود کے بارے میں یہ بھی لکھا:

” اے صیون کو خوش خبری سنانے والی ۔۔۔ زور سے اپنی آواز بلند کر! خوب پکار اور مت ڈر۔ یہوداہ کی بستیوں سے کہہ دیکھو اپنا خدا!“ (یسعیاہ ٤٠ :٩ )۔

مجسم ہونا خدا کے منصوبے میں ازل سے شامل تھا، لیکن یہ نہیں تھا کہ کوئی انسان خدا بن بیٹھے۔ یہ کہنا کہ ایک انسان خدا بن گیا تھا کفر ہے، لیکن یہ ماننا اور تسلیم کرنا کہ ازلی کلمہ انسان بن گیا خدا کے قدیم منصوبے کو قبول کرنا ہے۔

تحریر سے یا رُوبرو

اگر آپ کسی شخص کو جاننا چاہتے ہیں تو کون سا طریقہ بہترین ہے؟

  • اپنا رابطہ تحریری خطوط تک محدود رکھیں۔ یا
  • کچھ عرصے تک خط و کتابت کرنے کے بعد اُس شخص سے رُوبرو ملاقات

کریں اور کچھ وقت اُس کے ساتھ رہیں۔

بائبل مقدس بہت حیرت انگیز ہے۔ خدا آدم اور حوا کے ساتھ چلتا پھرتا اور باتیں کیا کرتا تھا۔ اُس کا منصوبہ تھا کہ اُن کی اولاد، اُن کی نسلیں مجھے ذاتی اور شخصی طور سے جانیں۔ اُس کا ہرگز یہ ارادہ نہ تھا کہ یہ رابطہ یا تعلق صرف کاغذی کارروائی تک محدود رہے۔ خداوند خدا صدیوں تک اپنا کلام اپنے نبیوں سے پاپائرس کے طوماروں اور جانوروں کی کھالوں پر لکھواتا رہا۔ اُس نے وعدہ کیا کہ مَیں اپنے آپ کو انسانی شکل میں انسانوں پر ظاہر کروں گا۔ خدا نے نہ صرف یہ انتظام کیا کہ اپنی باتیں ایک کتاب میں ہم تک پہنچاۓ بلکہ یہ بھی کہ ایک بدن میں اپنا کلام ہمیں مہیا کرے۔

” ۔۔۔وہ دنیا میں آتے وقت کہتا ہے کہ تُو نے قربانی اور نذر کو پسند نہ کیا بلکہ میرے لئے ایک بدن تیار کیا“ (عبرانیوں ١٠ :٥)۔

”۔۔۔ اِس میں کلام نہیں کہ دین داری کا بھید بڑا ہے یعنی وہ جو جہنم میں ظاہر ہوا۔۔۔“ (١۔تیمتھیُس ٣: ١٦ )۔

داؤد نبی نے پیش گوئی کی تھی کہ خداوند (خدا) خود زمین پر آۓ گا ”دیکھ! مَیں آیا ہوں، کتاب کے طومار میں میری بابت لکھا ہے“ (زبور ٤٠ : ٧ )۔ ملاکی نبی نے پیش گوئ کی کہ خدا ایک پیشرو کو بھیجے گا جو خداوند (خدا) کی آمد کے لئے لوگوں کو تیار کرے گا (ملاکی ٣: ١)۔

شان کے ناشایان؟

خدا نے اپنے اِس منصوبے کا بار بار اعلان کیا کہ مَیں انسانوں کے ساتھ سکونت کروں گا۔ اِس کے باوجود لوگ کہتے ہیں کہ یہ بات خدا کی لامحدود اور بعیداز فہم شان کے خلاف ہے کہ وہ انسان بنے۔

بے شک تجسم کا تصور عقل کو چکرا دیتا ہے، لیکن کیا واقعی یہ خدا کی شان کے خلاف ہے؟ یا یہ خدا کی ذات کا حصہ ہے اور اُس کے ارادے اور منصوبے کا حصہ ہے کہ انسانوں کے ساتھ قریبی اور گہرا رشتہ قائم کرے کیونکہ انسانوں کو اُس نے اپنے لئے خلق کیا ہے؟

زندگی میں ہم خود کو اُن لوگوں کو نہایت قریب محسوس کرتے ہیں جن کو ہمارے جیسا تجربہ ہوا تھا۔ تسلی دینے اور مدد کرنے کے لئے وہی لوگ زیادہ قابل ہوتے ہیں جو اُسی قسم کے دکھوں اور مشکلات میں سے گزرے ہوں۔ ہمارا خالق قطعی تسلی دینے والا ہے، وہ مطلق مددگار ہے۔

”۔۔۔ پس جس صورت میں کہ لڑکے خون اور گوشت میں شریک ہیں تو وہ خود بھی اُن کی طرح اُن میں شریک ہوا ۔۔۔ کیونکہ جس صور ت میں اُس نے خود ہی آزمائش کی حالت میں دُکھ اُٹھایا تو وہ اُن کی بھی مدد کر سکتا ہے جن کی آزمائش ہوتی ہے۔۔۔ کیونکہ ہمارا ایسا سردار کاہن نہیں جو ہماری کمزوریوں میں ہمارا ہمدرد نہ ہو سکے بلکہ وہ سب باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا تو بھی بے گناہ رہا“ (عبرانیوں ٢: ١٤ ، ١٨ ؛ ٤: ١٥ )۔

ازل ہی سے خدا کا منصوبہ تھا کہ مَیں جسم کی کمزوریاں، مجبوریاں اور تکلیفیں اپنے اوپر لُوں، ہاتھ پاؤں گرد آلود کروں، بھوک پیاس برداشت کروں، دکھ اُٹھاؤں، انسانوں کے سے تجربے میں سے گزروں۔ جو لوگ اِس کے اُلٹ تعلیم دیتے ہیں وہ نہ صرف خدا کے منصوبے اور نبیوں کو رد کرتے ہیں بلکہ خدا کی ذات اور صفات کو بھی رد کرتے ہیں۔ اور اِس حقیقت کو بھی رد کرتے ہیں کہ خدا نے ظاہر کیا ہے کہ مَیں وفادار اور محبت کرنے والا خالق ہوں اور چاہتا ہوں کہ انسان مجھے ذاتی طور سے جائیں۔ وہ خدا کو بعید از فہم، ناقابلِ ادراک سمجھتے ہیں جس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

دوسروں کی خدمت کرنے اور اُنہیں برکت دینے کے لئے اُن کے برابر، نیچے کی سطح پر آمادہ نہ ہونے میں کوئ ”شان“ نہیں ہوتی۔ ہمارے خالق نے ہماری سطح پر نیچے آنے کو کبھی حقیر نہیں سمجھا۔ ایسا کرنا اُس کا اپنا ارادہ، اپنا منصوبہ اور اپنی خوشی تھی۔

کیا خدا کا ہماری سطح پر نیچے آنا اُس کی شان اور عظمت کے خلاف ہے؟ تصور کریں کہ آپ اور آپ کا دوست دو نہایت نامور اور معزز مذہبی راہنماؤں کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں۔ ایک راہنما کا نام عمر اور دوسرے کا نام ہارون ہے۔ آپ کا دوست کہتا ہے ہارون کھلونا کاروں کے ساتھ کھیلتا ہے لیکن عمر نہیں کھیلتا۔ آپ کے دل میں ہارون کے لئے بہت عزت ہے اور آپ جواب دیتے ہیں ”ہرگز نہیں! خدا نہ کرے کہ ہارون صاحب کاروں سے کھیلیں!“ یہ ردِ عمل بالکل معقول اور درست ہے۔ لیکن بات آگے چلتی ہے تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ عمر اور ہارون دونوں کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جن کو بہت پسند ہے کہ ہمارے باپ فرش پر آ کر ہمارے ساتھ کھیلیں۔ کیا ہوا اگر ہمیں پتا چلا کہ ہارون اپنے بیٹوں کے ساتھ اِس طرح کھیل کر بہت خوش ہوتا ہے، جبکہ عمر اپنے بچوں کے ساتھ کھیلنے سے انکار کرتا ہے کیونکہ وہ سوچتا ہے کہ فرش پر نیچے اُترنا میری عزت اور مرتبے کے شایاں نہیں۔ اُن میں سے آپ کسے بہتر باپ، انسان اور لیڈر قرار دیں گے؟ عمر کو یا ہارون کو؟ اِسی طرح جب لوگ کہتے ہیں کہ ”یہ بات قادرِ مطلق کی شان اور عظمت کے منافی ہے کہ وہ انسانی روپ میں دنیا میں ظاہر ہو“ تو اُن کی نیت بے شک نیک ہوتی ہے لیکن وہ خدا کے جلال اور عظمت کی تعریف کرنے کے بجاۓ اِس کے الٹ کرتے ہیں۔

” ۔۔۔ وہ اگرچہ دولت مند تھا مگر تمہاری خاطر غریب بن گیا تاکہ تم اُس کی غریبی کے سبب سے دولت مند ہو جاؤ“ (٢۔کرنتھیوں ٨: ٩ )۔

آپ کی اور میری خاطر وہ ازلی کلمہ خود ہمارے کرہ ارض پر آ گیا۔ کائنات کا خالق جو جلال اور عظمت میں ”دولت مند“ تھا وہ ”غریب بن گیا“ اور خادم کی جگہ لی تاکہ ہم دولت مند ہو جائیں، مادی اور دنیوی مال سے نہیں بلکہ روحانی نعمتوں اور برکتوں سے — مثلاً معافی، راست بازی، ہمیشہ کی زندگی اور محبت، خوشی، اطمینان اور پاکیزہ خواہشات سے معمور دل کے ساتھ۔

عظمت کی وضاحت

بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ خدا اتنا عظیم اور بزرگ ہے کہ وہ گوشت اور خون کے جسم میں ہو کر زمین پر نہیں آ سکتا۔ کیا اِس کی وجہ یہ تو نہیں کہ عظمت اور بزرگی کے بارے میں اُن کا نظریہ اور تعریف یا توضیح خدا کے نظریے سے بالکل فرق ہے؟

یسوع نے عظمت کی وضاحت کرتے ہوۓ اپنے شاگردوں سے کہا ”۔۔۔ تم جانتے ہو کہ جو غیر قوموں کے سردار سمجھے جاتے ہیں وہ اُن پر حکومت چلاتے ہیں اور اُن کے امیر اُن پر اختیار جتاتے ہیں۔ مگر تم میں ایسا نہیں ہے بلکہ جو تم میں بڑا ہونا چاہے وہ تمہارا خادم بنے اور جو تم میں اوّل ہونا چاہے وہ سب کا غلام بنے کیونکہ ابنِ آدم بھی اِس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اِس لئے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے“ (مرقس ١٠ : ٤٢ ۔ ٤٥ )۔

سب سے بڑا شخص وہ ہے جو نہایت فروتن بنتا ہے اور دل و جان سے دوسروں کی بہترین خدمت کرتا ہے۔

یوحنا باب ١٣ میں بیان ہوا ہے کہ یسوع نے اپنے شاگردوں کے پاؤں دھوۓ جو کہ ایک غلام یا نوکر کا کام تھا۔ اناجیل کو پڑھنے سے ہماری ملاقات کامل خادم، خود خداوند سے ہوتی ہے۔

اور ہمارا خالق ہمارے واسطے خادم بن گیا۔

آندھی اور لہروں کا مالک

ایک دن یسوع گلیل کی جھیل پر اپنے شاگردوں کی کشتی میں سوار تھا۔

”اور دیکھو جھیل میں ایسا بڑا طوفان آیا کہ کشتی لہروں میں چھپ گئی مگر وہ سوتا تھا۔ اُنہوں نے پاس آ کر اُسے جگایا اور کہا اے خداوند ہمیں بچا! ہم ہلاک ہوئے جاتے ہیں۔ اُس نے اُن سے کہا اے کم اعتقادو! ڈرتے کیوں ہو؟ تب اُس نے اُٹھ کر ہوا اور پانی کو ڈانٹا اور بڑا امن ہو گیا۔ اور لوگ تعجب کر کے کہنے لگے یہ کس طرح کا آدمی ہے کہ ہوا اور پانی بھی اِس کا حکم مانتے ہیں؟“ (متی ٨: ٢٤ ۔ ٢٧ )۔

آپ اُن شاگردوں کے سوال کا کیا جواب دیں گے؟

”یہ کون ہے؟“

یہ تو ظاہر تھا کہ یسوع ایک بشر ہے۔ وہ کشتی میں سو رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ تھکن، بھوک اور پیاس کیا ہوتی ہے۔ لیکن پھر اُس نے کھڑے ہو کر طوفان کو ڈانٹا۔ تیز آندھی فوراً تھم گئی اور موجیں مارتی جھیل پُرسکون ہو گئی۔

کوئی تعجب کی بات نہیں کہ شاگردوں نے پوچھا ”یہ کس طرح کا آدمی ہے؟“

یہ ہے کون؟ تقریباً ہزار سال پہلے زبور نویس نے لکھا تھا کہ:

”اے خداوند لشکروں کے خدا! اے یاہ! تجھ سا زبردست کون ہے؟ ۔۔۔ سمندر کے جوش و خروش پر تُو حکمرانی کرتا ہے۔ تُو اُس کی اُٹھتی لہروں کو تھما دیتا ہے“ (زبور ٨٩ : ٨، ٩ )۔

یہ کون ہے؟ یہ کس طرح کا آدمی ہے؟ انجیل مقدس یسوع کے پانی پر چلنے کا بھی بیان کرتی ہے (متی باب ١٤ ، مرقس باب ٦ ؛ یوحنا باب ٦ )۔ اِس موقع پر بھی شاگردوں نے تعجب کیا اور ”اپنے دل میں نہایت حیران ہوۓ“ (مرقس ٦: ٥١ )۔ لیکن یسوع اِس لئے جھیل پر نہیں چلا تھا کہ لوگ حیران ہوں، بلکہ اِس لئے کہ اُن کی مدد ہو اور وہ سمجھیں کہ وہ کون ہے۔

اِس سے دو ہزار سال پہلے ایوب نبی نے خدا کے بارے میں کہا تھا کہ

”وہ آسمانوں کو اکیلا تان دیتا ہے اور سمندر کی لہروں پر چلتا ہے“(ایوب٩: ٨)۔

یہ کون ہے؟ خدا ہمیں دعوت ہےدیتا کہ نقطوں کو ملائیں اور سمجھیں کہ یسوع کون تھا اور ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ سمجھنا نہیں چاہتے۔

”وہ دنیا میں تھا اور دنیا اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئ اور دنیا نے اُسے نہ پہچانا“ (یوحنا ١: ١٠ )۔

” یہ کون ہے؟“ ایک دن یسوع نے غصے سے بھرے ہوۓ دیندار لوگوں کے گروہ سے باتیں کرتے ہوۓ اِس سوال کا خود جواب دیا۔

”مَیں ہوں“

”یسوع نے پھر اُن سے مخاطب ہو کر کہا “دنیا کا نور مَیں ہوں۔ جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیری میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نور پاۓ گا۔۔۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر کوئ شخص میرے کلام پر عمل کرے گا تو اَبد تک کبھی موت کو نہ دیکھے گا۔ یہودیوں نے اُس سے کہا اب ہم نے جان لیا کہ تجھ میں بدروح ہے۔ ہمارا باپ ابرہام مر گیا اور نبی مر گئے مگر تُو کہتا ہے کہ اگر کوئی میرے کلام پر عمل کرے گا تو ابد تک کبھی موت کا مزہ نہ چکھے گا۔ ہمارا باپ ابرہام جو مر گیا کیا تُو اُس سے بڑا ہے؟ اَور نبی بھی مر گئے۔ تُو اپنے آپ کو کیا ٹھہراتا ہے؟ یسوع نے جواب دیا ۔۔۔ تمہارا باپ ابرہام میرا دن دیکھنے کی اُمید پر بہت خوش تھا۔ چنانچہ اُس نے دیکھا اور خوش ہوا۔ یہودیوں نے اُس سے کہا تیری عمر تو ابھی پچاس برس کی نہیں پھر کیا تُو نے ابرہام کو دیکھا ہے؟ یسوع نے اُن سے کہا مَیں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ پیشتر اِس سے کہ ابرہام پیدا ہوا مَیں ہوں۔

”پس اُنہوں نے اُسے مارنے کو پھر پتھر اُٹھاۓ مگر یسوع چھپ کر ہیکل سے نکل گیا“ (یوحنا ٨: ١٢ ؛ ٥١ ۔ ٥٣ ؛ ٥٦ ۔ ٥٩ )۔

یہودیوں نے یسوع کو سنگسار کرنے کی کوشش کیوں کی؟ اِس لئے کہ اُس نے کہا کہ ”اگر کوئی شخص میرے حکموں پر عمل کرے گا تو ابد تک کبھی موت کو نہ دیکھے گا“ اور ”پیشتر اِس سے کہ ابرہام پیدا ہوا مَیں ہوں۔“ یسوع نے نہ صرف موت پر اپنے اختیار کا اور موسی' سے بڑا ہونے کا دعوی' کیا (ابرہام تو ١٩٠٠ سال پیشتر مر چکا تھا)، بلکہ اُس نے خدا کا ذاتی نام ”مَیں ہوں“ اپنے لۓ استعمال کیا۔ اگر یسوع نے کہنا ہوتا کہ مَیں ابرہام سے پہلے موجود تھا تو وہ کہتا کہ اِس سے پیشتر کہ ابرہام پیدا ہوا 'مَیں تھا'۔ لیکن اُس نے کہا کہ اِس سے پیشتر کہ ابرہام پیدا ہوا ”مَیں ہوں“ (مزید دیکھئے باب ٩ میں یاہ وے ( YHWH ) — خروج ٣: ١٤ )۔

یسوع کے سامعین سمجھتے تھے کہ اُس کا مطلب کیا ہے۔ اِسی لئے اُنہوں نے اُس پر کفر کا الزام لگایا اور اُسے سنگسار کرنے کو پتھر اُٹھاۓ۔

صرف خدا کی عبادت کرو

یسوع ہمیشہ یہی تعلیم دیتا تھا کہ صرف خدا ہی ہماری عبادت اور سجدے کے لائق ہے۔ اِسی لۓ اُس نے کہا ”۔۔۔ تُو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اُسی کی عبادت کر“ (متی ٤: ١٠ )۔ مگر اناجیل میں کم سے کم دس موقعوں کا ذکر ہے جب لوگوں نے جھک کر یسوع کو سجدہ کیا۔ لوگوں کے یسوع کو ”سجدہ' کرنے کے لئے جو لفظ استعمال کیا گیا ہے وہی ہے جو خدا کو سجدہ کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ متی ٨: ٢ کا موازنہ مکاشفہ ٧: ١١ سے کریں۔ دونوں جگہ ”سجدہ“ کے لئے یونانی زبان کا لفظ ”پروسکنیو “( proskneo ) استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ہے عزت و احترام کرنے کے لئے اوندھے منہ زمین پر گرنا یا لیٹنا، سجدہ کرنا۔

ایک دن ”ایک کوڑھی نے پاس آ کر اُسے سجدہ کیا اور کہا اے خداوند اگر تُو چاہے تو مجھے پاک صاف کر سکتا ہے۔ اُس (یسوع) نے ہاتھ بڑھا کر اُسے چھوا اور کہا مَیں چاہتا ہوں تُو پاک صاف ہو جا۔ وہ فوراً کوڑھ سے پاک صاف ہو گیا“ (متی ٨: ٢ ، ٣ )۔ کیا یسوع نے کوڑھی کو جھڑکا کہ مجھے کیوں سجدہ کیا ہے؟

نہیں — بلکہ اُسے چھو کر شفا دی۔

یسوع کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد اُس کے ایک شاگرد تُوما نے یسوع کے آگے گر کر یعنی سجدہ کر کے کہا ” اے میرے خداوند! اے میرے خدا!“ کیا یسوع نے اُسے اِس کفر پر جھڑکا؟

نہیں۔ اُس نے صرف یہ کہا ”تُو تو مجھے دیکھ کر ایمان لایا ہے، مبارک وہ ہیں جو بغیر دیکھے ایمان لاۓ“ (یوحنا ٢٠ : ٢٨ ۔ ٢٩ )۔

یہ واقعہ کیا سکھاتا ہے کہ یسوع کون ہے؟

آپ خود فیصلہ کریں

ہم میں سے ہر ایک کو خود فیصلہ کرنا ہے کہ مَیں یسوع کے بارے میں کیا ایمان رکھتا ہوں، یا مجھے کیا ایمان رکھنا چاہئے۔ لیکن ضرور ہے کہ اُس کے بارے میں کوئی متناقض بالذات (جو خود اپنی تردید کرے) نظریہ قبول نہ کریں۔ جیسا کہ ہمارے دوست کہتے ہیں اگر یسوع ایک ”بڑا رسول“ تھا تو پھر اُس نے جو ہونے کا دعوی' کیا وہ بھی تھا یعنی ازلی کلمہ اور خدا کا بیٹا۔ یہ کہنا کہ وہ ”ایک نبی سے زیادہ کچھ نہیں تھا“ یسوع کی اپنی گواہی اور نبیوں کے پیغام دونوں کا انکار ہے۔

اگر آپ اب بھی اِس غیر مصدقہ (بے ثبوت) عقیدہ پر یقین رکھتے ہیں تو باب ٩ بعنوان ”محرف یا اصل حالت میں محفوظ“ دوبارہ پڑھیں۔

سی۔ ایس۔ لوئیس بیسویں صدی کا ایک بڑا دانشور اور متشکک تھا۔ بعد میں وہ ایمان لے آیا۔ وہ یسوع کے بارے میں لکھتا ہے کہ

”یہاں مَیں ہر کسی کو وہ نہایت فضول اور بے وقوفی کی بات کہنے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہوں جو کئی لوگ یسوع کے بارے میں اکثر کہتے ہیں کہ مَیں یسوع کو ایک بڑا اخلاقی معلم ماننے کو تو تیار ہوں لیکن مَیں اُس کے خدا ہونے کے دعوے کو قبول نہیں کر سکتا۔ ایک یہ بات ہے جو ہمیں ہرگز نہیں کہںا چاہئے۔ جو شخص محض انسان ہو اور اُس قسم کی باتیں کہے جو یسوع نے کہیں وہ بڑا اخلاقی معلم نہیں ہو سکتا۔ وہ پاگل ہے یا جہنمی ابلیس۔ آپ کو اپنے لئے فیصلہ کر لینا چاہئے۔ یا تو یہ آدمی خدا کا بیٹا تھا، اور ہے، اگر نہیں تو پاگل یا اِس سے بھی گیا گزرا ہے۔ آپ اِس بے وقوف آدمی کو کہیں قید کر دیں، اُس پر تھوکیں اور اُسے بدروح مان کر قتل کر دیں — ورنہ اُس کے پاؤں میں گر کر سجدہ کریں اور کہیں، 'اے میرے خداوند! اے میرے خدا!' لیکن ہم سر پرستانہ، مہمل اور لغو بات نہ کہیں کہ وہ ایک عظیم اُستاد ہے۔ اُس نے یہ گنجائش ہی نہیں چھوڑی، اور نہ چھوڑنے کا ارادہ تھا۔“

”ہم سے صاف کہہ دے“

کئی دفعہ لوگ مجھے کہتے ہیں ہمیں بائبل مقدس میں دکھا کہ یسوع نے کہاں کہا تھا کہ ” مَیں خدا ہوں!“ یسوع کے زمانے کے مذہبی لیڈر بھی اُسے مجبور کرتے تھے کہ اِسی قسم کی بات کہے۔

”یسوع نے کہا، ۔۔۔ دروازہ مَیں ہوں۔ اگر کوئی مجھ سے داخل ہو تو نجات پاۓ گا۔۔۔ پس یہودیوں نے اُس کے گرد جمع ہو کر اُس سے کہا تُو کب تک ہمارے دلوں کو ڈانواں ڈول رکھے گا؟ اگر تُو مسیح ہے تو ہم سے صاف کہہ دے۔یسوع نے اُنہیں جواب دیا کہ مَیں نے تو تمہیں کہہ دیا، مگر تم یقین نہیں کرتے۔ جو کام مَیں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہوں وہی میرے گواہ ہیں۔ ۔۔ مَیں اور باپ ایک ہیں۔ یہودیوں نے اُسے سنگسار کرنے کے لئے بھی پتھر اُٹھاۓ۔ یسوع نے اُنہیں جواب دیا مَیں نے تم کو باپ کی طرف سے بہتیرے اچھا کام دکھائے ہیں۔ اُن میں سے کس کام کے سبب سے مجھے سنگسار کرتے ہو؟ یہودیوں نے اُسے جواب دیا کہ اچھے کام کے سبب سے نہیں بلکہ کفر کے سبب سے تجھے سنگسار کرتے ہیں اور اِس لئے کہ تُو آدمی ہو کر اپنے آپ کو خدا بناتا ہے“ (یوحنا ١٠ : ٩ ، ٢٤ ، ٢٥ ، ٣٠ ۔ ٣٣ )۔

یہ دین دار مذہبی لوگ اُسے کیوں سنگسار کرنا چاہتے تھے؟

وجہ یہ تھی کہ یسوع نے کہا تھا کہ ” مَیں اور باپ ایک ہیں۔“ اُن کے خیال کے مطابق یسوع کا خدا کے ساتھ ایک ہونے کا دعوی' کفر تھا۔ مگر یہی یہودی خدا پر اپنے ایمان کا اِقرار کرنے کے لئے باقاعدگی سے کہتے تھے Adonai Eloheynu Adonai echad جس کا مطلب ہے خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے۔ یہاں ”ایک“ کے لئے جو لفظ echad استعمال ہوا ہے اُس میں ایک میں کثرت کے معنی ہیں۔ یسوع نے واضح طور سے کہا کہ مَیں خدا کا بیٹا ہوں اور ہمیشہ سے خدا کے ساتھ ایک ہوں۔ اِسی وجہ سے یہودیوں نے اُس پر کفر کا الزام لگایا۔

خدا کی پیچیدہ وحدت کا دوبارہ مطالعہ کرنے کے لئے باب ٩ پڑھیں۔ خدا کا بیٹا اور کلمہ کی حیثیت سے اپنے ازلی وجود کے بارے میں یسوع نے خودنمائی کے انداز سے کبھی بات نہیں کی۔ وہ یہ نہیں کہتا پھرتا کہ ” مَیں خدا ہوں! مَیں خدا ہوں!“ بلکہ وہ دنیا میں ایسے رہا جیسے وہ چاہتا ہے کہ سارے انسان رہیں — کامل فروتنی اور انکساری اور دل سے خدا کی اطاعت گزاری کے ساتھ۔

یسوع ہی واحد ہستی ہے جو کہہ سکتا تھا کہ ” مَیں آسمان سے اِس لئے نہیں اُترا ہوں کہ اپنی مرضی کے موافق عمل کروں بلکہ اِس لئے کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے موافق عمل کروں“ (یوحنا ٦: ٣٨ )۔ یسوع کی زندگی کی شان و عظمت یہ تھی کہ وہ خدا کا سرفراز بیٹا تھا اور وہ ابنِ آدم بننے کے لئے فروتن ہو گیا۔ یہ بتانے اور سمجھانے کے لئے کہ مَیں کون ہوں یسوع نے عاجزانہ مگر زبردست اثر انگیز طریقے اختیار کئے۔

ایک دفعہ ایک دولت مند آدمی یسوع کے پاس آیا اور اُسے ”اے نیک اُستاد!“ کہہ کر مخاطب ہوا۔ یسوع نے اُس سے کہا ”تُو مجھے کیوں نیک کہتا ہے؟ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا “ (لوقا ١٨ : ١٩ )۔ یہ دولت مند آدمی ایمان نہیں رکھتا تھا کہ یسوع خدا ہے۔ لیکن یسوع جو مجسم خدا کی نیک ذات ہے، اُس نے اِس آدمی کی راہنمائی کی کہ معمے کے ٹکڑے باہم جوڑے اور سمجھے کہ وہ (یسوع) کون ہے۔

وہ چاہتا ہے کہ ہم بھی یہ سمجھیں۔

دولت مند آدمی اور یسوع کے اِس واقعہ کے ایک اَور پہلو سے بہت سے لوگ ٹھوکر کھاتے ہیں۔ وہ شخص دوڑتا ہوا یسوع کے پاس آیا ۔۔۔ اور پوچھنے لگا ”اے نیک اُستاد، مَیں کیا (کون سی نیکی) کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں؟“ (متی ١٩ : ١٦ ؛ مرقس ١٠ : ١٧ ؛ لوقا ١٠ : ٢٥ )۔ بھیڑ کو اُس نوجوان کا سوال اچھا معلوم ہوا، لیکن خداوند کے نزدیک اچھا نہیں تھا۔ یسوع جانتا تھا کہ اُس دین دار مذہبی آدمی کو ابھی تک خدا کی لامحدود پاکیزگی اور انسان کی قطعی گنہگاری کے بارے میں بنیادی اور اہم سچائیوں کی کچھ سمجھ نہیں۔ اپنے آپ کو راست باز سمجھنے والا یہ آدمی گمان کرتا ہے کہ مَیں اپنے اعمال سے بہشت میں جانے کا حق دار بن سکتا ہوں یعنی کسی نہ کسی طرح اِتنا ”نیک“ بن سکتا ہوں کہ بہشت میں جا سکوں۔ وہ اُس بچے کی مانند تھا جو اپنے گندے ہاتھ میں چند سکے لئے دنیا کے امیر ترین آدمی کے سامنے کھڑا ہو اور پوچھ رہا ہو کہ مَیں کتنے سکے آپ کو دے دوں تاکہ آپ کی جاگیر کا وارث بن سکوں؟ یسوع نے اُس آدمی کو کیا جواب دیا؟ اُس کی توجہ دوبارہ توریت اور دس حکموں کی طرف پھیری تاکہ اُسے سمجھا دے کہ مَیں اپنی طاقت سے خدا کے کامل راست بازی کے معیار پر کبھی پورا نہیں اُتر سکتا۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم کوئی ”نیک کام“ کر کے ”ہمیشہ کی زندگی“ کے حق دار بن سکتے ہیں اُن کو یہ زندگی ہرگز نہیں مل سکتی۔

یسوع نے یہ بھی فرمایا کہ ”تمہارا دل نہ گھبراۓ۔ تم خدا پر ایمان رکھتے ہو مجھ پر بھی ایمان رکھو ۔۔۔ راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں۔ کوئی میرے وسیلے کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا ۔۔۔ جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا۔ تُو کیونکر کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دکھا؟ کیا تُو یقین نہیں کرتا کہ مَیں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے؟ ۔۔۔ نہیں تو میرے کاموں ہی کے سبب سے میرا یقین کرو“ (یوحنا ١٤ : ١ ، ٦ ، ٩، ١١)۔

بات کو پورا کر دکھانا

یسوع نے بے شمار زبردست معجزے کئے جو ثابت کرتے ہیں کہ اُسے اِس برگشتہ اور گناہ کی لعنت میں مبتلا دنیا کے ہر ایک عنصر پر اختیار اور قدرت ہے۔ وہ لوگوں کے دل کے خیالوں کو جانتا تھا، گناہ معاف کرتا تھا، روٹیاں اور مچھلیاں بڑھا کر ہزاروں کو کھلاتا تھا، طوفانوں کو تھما دیتا تھا اور اپنے حکم سے بدروحوں کو نکال دیتا تھا، بیماروں کو شفا دیتا تھا، لنگڑوں کو ٹانگیں، اندھوں کو بینائ، بہروں کو سماعت عطا کرتا تھا، اور مُردوں کو زندہ کرتا تھا۔ نبیوں کی نبوتوں اور پیش گوئیوں کے مطابق مسیحِ موعود اِس دنیا میں ”خداوند کا بازو“ تھا (یسعیاہ ٥٣ : ١ ؛ یوحنا ١٢: ٢٨ ؛ لوقا ١: ٥١ — مزید دیکھئے یسعیاہ ١٠ : ١٠ ، ١١، ٥١ : ٥؛ ٥٢ : ١٠ ؛ ٥٩ : ١٦ ؛ ٦٣ :٥ ؛ یرمیاہ ٣٢: ١٧ )۔

یسوع کا اعلی' و ارفع جلال اُس کی ہستی کے ہر حصے سے نمایاں اور ظاہر تھا بشرطیکہ دیکھنے والی آنکھیں ہوں۔ اُس کے کام اُس کی باتوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم نے تھوڑی دیر پہلے پڑھا کہ یسوع نے دعوی' کیا کہ ”زندگی مَیں ہوں۔“ اُس نے اپنے اِس دعوے کی تصدیق کیسے کی؟ اُس نے مُردوں کو پھر زندہ ہونے کا حکم دیا اور وہ زندہ ہوۓ۔

ایک موقع پر خداوند یسوع لعزر کی قبر پر آیا۔ لعزر کو مرے ہوۓ چار دن ہو گۓ تھے۔ اُس کی لاش ایک غار میں دفنائ گئی تھی۔ یسوع نے اُس مرحوم آدمی کی روتی ہوئ بہن سے کہا کہ تمہارا بھائی جی اُٹھے گا۔

اُس بہن نے یسوع کو جواب دیا ” مَیں جانتی ہوں کہ قیامت میں آخری دن جی اُٹھے گا۔“ یسوع نے اُس سے کہا کہ ”قیامت اور زندگی تو مَیں ہوں۔ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے گو وہ مر جاۓ تو بھی زندہ رہے گا“ (یوحنا ١١ : ٢٤ ، ٢٥ )۔

اور اپنے دعوے کی تصدیق کرنے کے لئے یسوع نے بلند آواز سے پکارا کہ اے لعزر نکل آ۔ اور جو مر گیا تھا وہ کفن سے ہاتھ پاؤں بندھے ہوۓ نکل آیا اور اُس کا چہرہ رومال سے لپٹا ہوا تھا۔ یسوع نے اُن سے کہا اُسے کھول کر جانے دو۔

پس بہتیرے یہودی ۔۔۔ جنہوں نے یسوع کا یہ کام دیکھا اُس پر ایمان لاۓ۔ مگر اُن میں سے بعض نے فریسیوں کے پاس جا کر اُنہیں یسوع کے کاموں کی خبر دی ۔۔۔ پس وہ اُسی روز سے اُسے قتل کرنے کا مشورہ کرنے لگے ۔۔۔ سردار کاہنوں نے مشورہ کیا کہ لعزر کو بھی مار ڈالیں کیونکہ اُس کے باعث بہت سے یہودی چلے گۓ اور یسوع پر ایمان لاۓ“ (یوحنا ١١: ٤٣۔٤٦ ، ٥٣ ؛ ١٢ : ١٠، ١١ )۔

خدا نے نبیوں (ایلیاہ اور الیشع) کو بھی مُردے کو زندہ کرنے کی قدرت بخشی، لیکن کسی نبی نے یہ دعوی' نہیں کیا کہ مَیں زندگی کا بانی ہوں۔ صرف یسوع ہی یہ دعوی' کر سکتا تھا کہ ”قیامت اور زندگی تو مَیں ہوں۔“

مگر انسان کا دل کیسا سخت ہے!

سخت دلی

یسوع کے دعوے سن کر اور اُس کی بڑھتی ہوئ مقبولیت کو دیکھ کر یہودیوں کے سیاسی اور مذہبی راہنماؤں کا جذبہ انتقام بھڑک اُٹھا۔ اِس یسوع کو خاموش کرنا چاہئے! — کوئ وجہ — کوئی بھی بہانہ ڈھونڈو، جس سے اُس پر الزام لگایا جا سکے کہ وہ واجب القتل ہے! لیکن تاریخ کے واحد کامل آدمی پر کیسے الزام لگایا جا سکتا ہے؟

ایک سبت کے دن یسوع عبادت خانے میں تعلیم دے رہا تھا کہ ۔۔۔

”۔۔۔ وہاں ایک آدمی تھا جس کا ہاتھ سوکھا ہوا تھا۔ اور وہ اُس کی تاک میں رہے کہ اگر وہ اُسے سبت کے دن اچھا کرے تو اُس پر الزام لگائیں۔ اُس نے اُس آدمی سے جس کا ہاتھ سوکھا ہوا تھا کہا بیچ میں کھڑا ہو۔ اور اُن سے کہا سبت کے دن نیکی کرنا روا ہے یا بدی کرنا؟ جان بچانا یا قتل کرنا؟

وہ چپ رہ گئے۔ “

” اُس نے اُن کی سخت دلی کے سبب سے غمگین ہو کر اور چاروں طرف اُن پر غصے سے نظر کر کے اُس آدمی سے کہا اپنا ہاتھ بڑھا۔ اُس نے بڑھا دیا اور اُس کا ہاتھ درست ہو گیا۔ “

” پھر فریسی (ایک مذہبی گروہ) فی الفور باہر جا کر ہیرودیوں (ایک سیاسی گروہ) کے ساتھ اُس کے خلاف مشورہ کرنے لگے کہ اُسے کس طرح ہلاک کریں۔

اور یسوع اپنے شاگردوں کے ساتھ جھیل کی طرف چلا گیا۔ اور ۔۔۔ ایک بڑی بھیڑ ۔۔۔ اُس کے پاس آئی۔۔۔ کیونکہ اُس نے بہت لوگوں کو اچھا کیا تھا۔ چنانچہ جتنے لوگ سخت بیماریوں میں گرفتار تھے اُس پر گرے پڑتے تھے کہ اُسے چھو لیں۔ “

” اور ناپاک روحیں جب اُسے دیکھتی تھیں اُس کے آگے گر پڑتی اور پکار کر کہتی تھیں کہ تُو خدا کا بیٹا ہے“ (مرقس ٣: ١۔ ١١ )۔

شیاطین کی بصیرت

شیاطین (اصل زبان کے لفظ کا مطلب ہے” جاننے والی ہستیاں“) جانتے تھے کہ شفا دینے والا یہ شخص کون ہے۔ اِسی لئے اُنہوں نے اُسے صحیح لقب سے مخاطب کیا اور پکار کر کہا ”تُو خدا کا بیٹا ہے!“

برگشتہ فرشتے جو آسمان پر سے گرا دیئے گئے، یسوع کی پچھلی تاریخ سے واقف ہیں۔

ہزاروں سال پہلے اِن برگشتہ فرشتوں نے یسوع کی حیرت انگیز قدرت اور بے انتہا حکمت دیکھی تھی جب اُس نے صرف کہہ کر آسمان اور زمین پیدا کئے تھے — اُنہیں عدم سے موجود کر دیا تھا۔ وہ اُس دن کو یاد کر کے تھرتھراتے تھے جب اُس نے اپنے جائز قہر میں اُنہیں آسمان سے نکال دیا تھا کیونکہ اُنہوں نے بغاوت میں شیطان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔(زمین پر آنے سے پہلے مسیحِ موعود آسمان پر تھا۔ جب لوسیفر کو گرایا گیا تو وہ وہیں تھا۔ اِسی لئے یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا ” مَیں شیطان کو بجلی طرح آسمان سے گرا ہوا دیکھ رہا تھا“ لوقا ١٠ : ١٨ )۔ اور اب وہ زمین پر اُن کے درمیان موجود تھا!

اب نوشتہ دیوار سامنے تھا۔

اُن کے آقا (ابلیس) کا اِختیار زمین بوس ہوتا نظر آ رہا تھا۔

گناہ کی لعنت ختم ہونا شروع ہو گئی تھی۔

ازلی بیٹا — عورت کی نسل— اُن کی عمل داری پر چڑھ آیا تھا۔ اِسی لۓ بدروحیں یا ناپاک روحیں (شیاطین) اُسے دیکھتی تھیں تو اُس کے آگے گر پڑتی اور پکار کر کہتی تھیں ”تُو خدا کا بیٹا ہے۔“

اور مذہبی راہنما تھے کہ سازش کر رہے تھے کہ اُسے کس طرح ہلاک کریں!

ایک دفعہ مَیں نے یہ واقعہ اپنے چند مہمانوں کو سنایا، تو اُن میں سے ایک آدمی کہنے لگا ”کیسی حیرت انگیز بات ہے! مذہبی لیڈروں سے شیاطین یسوع کی زیادہ عزت کرتے ہیں!“

ناقابلِ یقین حد تک حیرت انگیز! لیکن حقیقت ہے!