٨
خدا کس کی مانند ہے
 

ہمارا  سفر وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں سے خدا کی کتاب شروع ہوتی ہے۔ تمام زمانوں کے سب سے بڑے اعلان کے ساتھ:

” خدا نے ابتدا میں زمین و آسمان کو پیدا کیا “ (پیدائش ١:١)۔

خدا کے وجود کو ثابت کرنے کی کوئ کوشش نہیں کی گئی۔ وہ عیاں

بالذات ہے — خود ہی ظاہر ہے۔

اگر آپ کسی ویران اور سنسان ساحل پر چل رہے ہوں اور کسی جگہ آپ کو قدموں کے تازہ تازہ نشان نظر آئیں تو آپ جبلی طور پر یہی نتیجہ اخذ کریں گے کہ مَیں اکیلا نہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ یکساں فاصلوں پر بنے ہوۓ قدموں کے نشان خود بخود پیدا نہیں ہوۓ یا اُنہوں نے خود کو پیدا نہیں کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ اُنہیں ہوا اور پانی نے نہیں بنایا۔ یہ نقشِ پا کسی ” شخص “ نے بناۓ ہیں۔

آپ یہ سب کچھ جانتے ہیں۔

اِس کے باوجود بہت سے لوگ حُجت کرتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ وہ ریت جس پر پاؤں کے نشان بنے اور وہ انسان جس کے ذریعے سے یہ نشان بنے اُنہیں بھی کسی ” ہستی “ نے بنایا ہے۔ کسی خالق کے بغیر کائنات کی تخلیق کی وضاحت کرنے کی کوشش میں انسان نے بہت سے دقیق اور  پیچیدہ نظریے وضع کر لئے ہیں۔ بعض نے ” علل “ (واحد علت معنی سبب، وجہ) کا ایک طویل سلسلہ پیش کیا ہے جو اربوں کھربوں سال پیچھے یعنی ماضی میں پہنچتا ہے۔ لیکن جب وہ اُس نقطے پر پہنچتے ہیں جسے وہ ” شروع “ (ابتدا) کہتے ہیں تو بھی اِس اصل سوال کا جواب دینے کے قریب نہیں پہنچتے کہ ” یہ کس نے کیا؟ “

بائبل مقدس کہتی ہے ” ۔۔۔ جو کچھ خدا کی نسبت معلوم ہو سکتا ہے وہ اُن کے باطن میں ظاہر ہے۔ اِس لئے کہ خدا نے اُس کو اُن پر ظاہر کر دیا، کیونکہ اُس کی اَندیکھی صفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اور الوہیت دنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعہ سے معلوم ہو کر صاف نظر آتی ہیں، یہاں تک کہ اُن کو کچھ عذر باقی نہیں “ (رومیوں ١: ١٩ ، ٢٠ )۔

یہ دلیل اور منطق بالکل سادہ اور اساسی ہے — نقش کے لئے نقاش، صنعت کے لئے صانع — ایجاد کے لئے موجد کا ہونا لازم ہے۔

جس طرح یہ بات انسان کی بنائی ہوئ چیزوں مثلاً نقشِ پا، کاروں اور کمپیوٹروں کے لئے سچ ہے اُسی طرح میکانیہ یعنی پُرزہ کاری مثلاً پاؤں ، خلئے اور کہکہشاؤں کے لئے بھی سچ ہے۔ ننگی آنکھ سے دیکھیں یا خردبین یا دُور بین سے دیکھیں تو بھی کائنات کی اَن حل پیچیدگی اور پیچ در پیچ ترتیب اور بناوٹ تقاضا کرتی ہے کہ اِس کا خالق اور سنبھالنے والا کوئی ہے۔

جس طرح نقشِ پا کے لۓ نقش بنانے والا ہونا ضروری ہے اُسی طرح کائنات کے لئے کائنات کا بنانے والا ہونا ضروری ہے۔

علمِ کائنات کے ماہرین نے کائنات کی تاریخ کا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے۔ اُن کی ساری کوششیں ” مجموعی طور پر مشاہدات اور نظریات “ پر مبنی ہیں۔ اِن دنیاوی عالموں کے علم کی بنیاد مشاہدہ اور نظریہ ہے جبکہ بائبل مقدس کو ماننے والوں کے علم کی بنیاد مشاہدہ اور مکاشفہ ہے — وہ مکاشفہ جس پر الہی دستخط ثبت ہیں۔ اِس نکتے کا مطالعہ ہم نے زیرِ نظر کتاب ” ایک خدا، ایک پیغام “ کے باب ٥ اور ٦ میں کیا ہے۔ خدا نے اپنی سچائی کا انکشاف اِس طریقے سے کیا ہے کہ ہم جان سکتے ہیں کہ یہ سچ اور حقیقت ہے۔

” آسمان خدا کا جلال ظاہر کرتا ہے اور فضا اُس کی دست کاری دکھاتی ہے “ (زبور ١٩ : ١)۔

چنانچہ یہ کائنات کا بنانے والا کون ہے؟ ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ وہ کس کی مانند ہے؟ ہم جان سکتے ہیں کیونکہ اُس نے اپنے آپ کو ظاہر کیا ہے۔

ازلی اور اَبدی

ہم نے پہلے ایک ای میل پڑھی تھی جس میں ایل میل بھیجنے والے نے طنزاً پوچھا ” خدا کو کس نے پیدا کیا؟ مَیں بھول گیا ہوں۔ “ جواب یہ ہے — کسی نے نہیں کیونکہ خدا ازلی ہے — ” خدا نے ابتدا میں ۔۔۔ “ یہ الفاظ ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمارا خالق کسی کی مانند نہیں — اور بس۔

” اِس سے پیشتر کہ پہاڑ پیدا ہوئے یا زمین اور دنیا کو تُو نے بنایا ازل سے ابد تک تُو ہی خدا ہے “ (زبور ٩٠ :٢ )۔

ماضی، حال اور مستقبل خدا کے لئے کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ وہ ” کچھ نہ “ ہیں۔ ” خداوند خدا قادرِ مطلق جو تھا اور جو ہے اور جو آنے والا ہے “ (مکاشفہ ٤: ٨ )۔

وہ ازلی و ابدی اور بعید از فہم ہے۔

کوئ مخلوق ہستی خدا کے بارے میں سب کچھ ہرگز نہ جان سکے گی، ” کیونکہ وہ ۔۔۔ عالی اور بلند ہے اور ابدلآباد تک قائم ہے “ (یسعیاہ ٥٧ : ١٥ )۔

وہ لاتبدیل ہے ” پر تُو لاتبدیل ہے اور تیرے برس لاانتہا ہیں “ (زبور ١٠٢ :٢٧ )۔

بڑا اور عالی تر

ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ خدا کتنا بڑا ہے، وہ ہمارے تصور میں آ سکنے والی ہر چیز سے بڑا اور عالی تر ہے۔

اُس ازلی ہستی نے جیسے اپنے موجود ہونے یا اپنے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ وہ عیاں بالذات ہے، اُسی طرح وہ اپنے وجود کی وضاحت کرنے کی بھی کوشش نہیں کرتا کیونکہ ہمارے ذہن محدود ہیں اور ہم زمان و مکان اور مادہ سے ہٹ کر کسی چیز کو جاننے اور سمجھنے کی صلاحیت یا استعداد ہی نہیں رکھتے۔

مجھے یاد ہے کہ لڑکپن میں مَیں آسمان کو غور سے دیکھا کرتا اور سوچا کرتا تھا کہ اگر مَیں اِتنی بلندیوں اور اِتنی دُور تک سفر کر سکوں تو بالآخر ایک چھت تک اور کائنات کی آخری حد تک پہنچ جاؤں گا۔ مَیں یہ سوچ اور سمجھ نہیں سکتا تھا کہ میرے تصور میں جو چھت ہے اُس سے آگے لامحدود خلا ہے!

بعض باتیں صرف اِس صورت میں سمجھ میں آ سکتی ہیں کہ جو کچھ خدا نے منکشف کر دیا ہے اُس کا یقین کریں، اُس پر ایمان رکھیں۔

خدا کے مسلمہ اور لاتبدیل کلام پر ایمان ہی اعلی' ترین حکمت اور عرفان کی کلید ہے۔

” ۔۔۔ خدا کے پاس آنے والے کو ایمان لانا چاہئے کہ وہ موجود ہے اور اپنے طالبوں کو بدلہ دیتا ہے۔۔۔ ایمان ہی سے ہم معلوم کرتے ہیں کہ عالم خدا کے کہنے سے بنے ہیں۔ یہ نہیں کہ جو کچھ نظر آتا ہے ظاہری چیزوں سے بنا ہے “ (عبرانیوں ١١ : ٣ ، ٦)۔

جدید سائنس تصدیق کرتی ہے کہ ” جو کچھ نظر آتا ہے وہ ظاہری چیزوں سے بنا ہے “ ۔ علمِ طبیعیات کے ماہرین بتاتے ہیں کہ مادہ نادیدنی ایٹموں سے بنا ہے۔ یہ ایٹم الیکٹرونز سے بنا ہے جو ایک مرکزہ کے گرد گھومتے ہیں۔ یہ مرکزہ پروٹونز اور نیوٹرونز  سے بنتا ہے، جو قوارکس ( quarks ) سے بنتے ہیں جو ۔۔۔ بنی نوع انسان نے بہت کچھ دریافت کر لیا ہے، تو بھی ہم بہت ہی تھوڑا علم رکھتے ہیں۔ دانا لوگ جانتے ہیں کہ انسان کی ذہنی استعداد کتنی محدود ہے۔

ایک بات ہے جسے سائنس نہ صحیح ثابت کر سکتی ہے نہ باطل — کہ ” عالم خدا کے کہنے سے بنے ہیں۔ “ ہم یہ بات اپنی خداداد چھٹی حس ہی سے جان سکتے ہیں۔ اِس کی وجہ صاف ظاہر ہے:

” خدا انسان سے بڑا ہے “ (ایوب ٣٣ :١٢ )۔

اُس عظیم ہستی نے اپنے بارے میں اَور کیا کچھ منکشف کیا ہے؟

لامحدود — لااِنتہا

وہ قادرِ مطلق ہے۔ ” آہ اے خداوند خدا! دیکھ تُو نے اپنی عظیم  قدرت اور  اپنے بلند بازو سے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور تیرے لئے کوئی کام مشکل نہیں ہے “ (یرمیاہ ٣٢: ١٧ )۔ خالق اپنی تخلیق سے فائق ہوتا ہے۔ وہ ہمارے تصور سے پرے اور ماورا ہے۔

وہ عالمِ کل ہے۔ ” تُو میرا اُٹھنا بیٹھنا جانتا ہے۔ تُو میرے خیال کو دُور سے سمجھ لیتا ہے “ (زبور ١٣٩ : ٢)۔ وہ خالق ماضی، حال اور مستقبل کی ہر ایک بات جانتا ہے۔ وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ عاقل نہیں بنتا۔ ” اُس کے فہم کی انتہا نہیں “ (زبور ١٤٧ : ٥)۔

وہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔ ” مَیں تیری روح سے بچ کر کہاں جاؤں یا تیری حضوری سے کدھر بھاگوں؟ “ (زبور ١٣٩: ٧ )۔ وہ لامحدود بیک وقت آپ کے ساتھ بھی ہے اور میرے ساتھ بھی۔ اور جب وہ زمین پر انسانوں کے ساتھ ہم کلام ہوتا ہے تو اُسی لمحے آسمان پر فرشتوں کے ساتھ بھی بات کر رہا ہوتا ہے۔

وہ لامحدود — بے انتہا ہے۔

رُوح

اِس لامحدود ہستی کے بارے میں ایک اَور اہم معلومات بھی ہے۔

” خدا روح ہے “ (یوحنا ٤: ٢٤ )۔

خدا نادیدنی، لامحدود اور اپنی ذات میں روح ہے جو بیک وقت ساری جگہوں پر موجود ہے۔ اگرچہ اُسے جسم کی ضرورت نہیں مگر وہ خود مختار اور قادر ہے کہ جیسے چاہے اپنے آپ کو ظاہر کرے۔ پاک صحائف میں کئی مواقع کا ذکر ہے جب خدا مردوں اور عورتوں پر نادر، بے مثال اور دیدنی طور پر ظاہر ہوا “ ۔۔۔ جیسے کوئی شخص اپنے دوست سے بات کرتا ہے ویسے ہی خداوند رُوبرو ہو کر موسی' سے باتیں کرتا تھا “ (خروج ٣٣ : ١١)۔

خدا جو اعلی' ترین روح (پرماتما) ہے چاہتا ہے کہ میری تخلیق کردہ روحانی ہستیاں مجھے جانیں، مجھ پر بھروسا رکھیں اور میری پرستش کریں کیونکہ مَیں نے اُنہیں اِسی مقصد سے خلق کیا ہے۔

” ... باپ اپنے لۓ ایسے ہی پرستار ڈھونڈتا ہے۔ خدا روح ہے اور ضرور ہے کہ اُس کے پرستار روح اور سچائ سے پرستش کریں “ (یوحنا ٤ :٢٣ ، ٢٤ )۔

روحوں کا باپ

خدا کا ایک صفاتی نام ” روحوں کا باپ “ ہے (عبرانیوں ١٢ :٩ )۔

زمین کو خلق کرنے سے پہلے خدا نے بے شمار اربوں کھربوں طاقتور، پرشکوہ اور عالی شان ہستیاں خلق کیں جن کو ” فرشتے “ کہا جاتا ہے تاکہ وہ اُس کے آسمانی مسکن میں اُس کے ساتھ رہیں۔ ” فرشتہ “ کا مطلب ہے ” قاصد “ یا ” خادم “ ۔ خدا کا مقصد تھا کہ محبت کرنے والی رعیت ہو جو ابدیت میں شریک ہو۔ اُس نے روحیں خلق کیں تاکہ وہ اُسے جانیں، اُس کی پرستش کریں، اُس کی فرماں برداری کریں، اُس کی خدمت کریں اور ہمیشہ تک اُس سے لطف اندوز ہوں۔

ایوب کی کتاب ٣٨ : ٦ ، ٧ میں بیان ہوا ہے کہ جب خدا نے زمین کو خلق کیا تو فرشتے دیکھتے تھے اور خوشی سے للکارتے تھے۔ ایوب شاعری کی کتاب ہے اِس میں فرشتوں کو ” صبح کے ستارے “ اور ” خدا کے بیٹے “ کہا گیا ہے۔ اِن دو تراکیب سے الگ الگ اور فرق فرق ہستیاں مراد نہیں۔ یہ دہرا بیان ” متوازیت یا تماثل “ کا نمونہ ہے جو عبرانی شاعری کی ایک خصوصیت ہے۔ (مزید دیکھئے ایوب ١: ٦؛ ٢ :١ )۔

” مَیں نے ۔۔۔ اُس تخت ۔۔۔ کے گردا گرد بہت سے فرشتوں کی آواز سنی جن کا شمار لاکھوں اور کروڑوں تھا “ (مکاشفہ ٥ : ١١ )۔

ابتدا ہی میں خدا نے اُتنے فرشتے خلق کئے جتنے وہ چاہتا تھا، اِس لئے کہ اُن میں نسل پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ یہ فرشتے کسی لحاظ سے بھی خدا کے برابر نہیں البتہ اپنے خالق کے ساتھ چند مشابہات رکھتے ہیں۔ خدا نے اُنہیں جذبات، ارادہ اور اپنے (خدا کے) ساتھ بات چیت کرنے کی صلاحیت بھی عطا کی ہے۔ اپنے خالق کی طرح فرشتے بھی انسانوں کو نظرنہیں آ سکتے، البتہ جب اُنہیں کسی مقصد کے تحت بھیجا جاتا ہے تو وہ دکھائی دیتے ہیں۔

بائبل مقدس کی ٦٦ میں سے آدھی سے زیادہ کتابیں فرشتوں کا ذکر کرتی ہیں۔ چند حوالے پیشِ خدمت ہیں: پیدائش ٣: ٢٥ ؛ ١٦ : ٧ ۔١١ ؛ ١٨ : ١؛ ١۔سلاطین ١٩ :٥۔٧ ؛ زبور ١٠٣ : ٢٠، ٢١ ؛ ١٠٤ :٤ ؛ دانی ایل ٦: ٢٢ ؛ عبرانیوں ١: ٤۔٧ ،١٤ ؛ ١٢ : ٢٢ ؛ متی ١: ٢٠ ؛ ٢ :١٣ ، ١٩ ، ٢٠ ؛ ٢٢ :٣٠ ؛ ٢٦ : ٥٣ ؛ لوقا باب ١ اور ٢؛ ٢،تھسلنیکیوں ١: ٧ ؛ مکاشفہ ٥: ١١ ؛ ١٨ : ١ ؛ ٢٢ : ٦۔ ١٦ (مکاشفہ کی کتاب میں لفظ ” فرشتہ “ ، فرشتے فرشتوں ٧٠ سے زیادہ بار آیا ہے)۔

خدا کی خلق کردہ روحانی ہستیوں کی بادشاہی میں صرف خدا ہی قائم بالذات، لامحدود، قادرِ مطلق، عالمِ کل اور بے پایاں روح ہے۔

سب کے اوپر

” ۔۔۔ایک ہی روح ہے ۔۔۔ ایک ہی خداوند ہے ۔۔۔ خدا اور باپ ایک ہی ہے جو سب کے اوپر ۔۔۔ ہے “ (افسیوں ٤: ٤۔٦ )۔

اگرچہ وہ ” ایک “ جو ” سب سے اوپر “ ہے زمان و مکان سے ماورا ہے، تاہم کائنات میں ایک حقیقی جگہ ہے جہاں وہ سکونت کرتا اور سلطنت کرتا ہے۔ ” خداوند نے اپنا تخت آسمان پر قائم کیا ہے اور اُس کی سلطنت سب پر مسلط ہے “ (زبور ١٠٣ : ١٩ )۔ خدا کی عظمت اور قُربت پر غور کرتے ہوئے سلیمان بادشاہ نے دعا میں اپنے خالق کے لئے یہ الفاظ کہے:

” ۔۔۔ کیا خدا فی الحقیقت زمین پر سکونت کرے گا؟ دیکھ، آسمان بلکہ آسمانوں کے آسمان میں بھی تُو سما نہیں سکتا “ (١۔سلاطین ٨: ٢٧ )۔

بائبل مقدس تین مختلف آسمانوں کا ذکر کرتی ہے۔ دو دیدنی ہیں، ایک دیدنی نہیں۔ ایک تو فضا یا فضائی آسمان ہے یعنی ہمارے سروں کے اوپر نیلا آسمان۔

ایک بین النجوم یا فضائے بسیط کا آسمان ہے یعنی وہ تاریک یا بے روشنی خلا جس میں خدا نے ستارے، سیارے اور کرے چھوڑ رکھے ہیں۔

اور پھر آسمانوں کا آسمان ہے۔ وہ روشن اور درخشاں کرہ جہاں خدا سکونت کرتا ہے۔ ہمارے خالق کا یہ آسمانی گھر اور فرشتوں کا علاقہ بلند ترین آسمان، تیسرا آسمان، باپ کا گھر، خدا کی سکونت گاہ، خدا کا مسکن، فردوس، بہشت (سورگ)، آسمان، آسمانوں کا آسمان بھی کہلاتا ہے (استثنا ١٠ : ١٤ ؛ ٢۔کرنتھیوں ١٢: ٢،٤؛ یوحنا ١٤ : ٢؛ زبور ٣٣ :١٣ ؛ ١١٥: ٣ ؛ ١۔سلاطین ٨: ٣٩ )۔

” خداوند آسمان پر سے دیکھتا ہے۔ سب بنی آدم پر اُس کی نگاہ ہے۔ اپنی سکونت گاہ سے وہ زمین کے سب باشندوں کو دیکھتا ہے۔ وہی ہے جو اُن سب کے دلوں کو بناتا اور اُن کے سب کاموں کا خیال رکھتا ہے “ (زبور ٣٣ : ١٣ ۔ ١٥ )۔

خدا واحد ہے۔

بائبل مقدس کی پہلی آیت تصدیق کرتی ہے کہ خدا صرف ایک ہی ہے۔ ” خدا نے ابتدا میں ۔۔۔ “ پرانے اور نئے عہدنامے دونوں کے صحائف علی الاعلان کہتے ہیں ” خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے “ (استثنا ٦ : ٤ )۔ ” ایک ہی خدا ہے “ (رومیوں ٣: ١٣ )۔

خدا واحد ہے۔

اُس کا کوئی مقابل نہیں۔ اُس کا کوئی ہمسر نہیں۔

علمِ الہیات کی اصطلاح میں اِسے وحدانیت یا توحید کہتے ہیں یعنی خدا کو صرف ایک ماننا۔ وحدانیت کثرت پرستی (شرک — ایک سے زیادہ خداؤں، کو ماننا) کے بالکل برعکس ہے۔ اور وحدت الوجود کے عقیدہ (یہ عقیدہ کہ ہر چیز خدا ہے اور خدا ہر چیز ہے۔ اِسے ” ہمہ اُوست “ کا عقیدہ بھی کہتے ہیں) کی بھی کامل ضد ہے۔ کثرت پرست، وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنے والے خالق اور اُس کی مخلوق میں امتیاز کو دھندلا یا گڈمڈ کر دیتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں وہ اِس حقیقت کا انکار کرتے ہیں کہ خدا ایک شخصیت ہے اور ممتاز شخصی خصائص رکھتا ہے۔

خدا پیچیدہ ہے۔

” خدا نے ابتدا میں ۔۔۔ “ یہ بنیادی اور تمہیدی سچائ ہے، لیکن یہ سادہ سچائی نہیں ہے۔ وہ لامحدود ہستی سادہ نہیں۔ وہ پیچیدہ ہے۔ اُس کی یکتائی (وحدت) کثیرالعباد یکتائی ہے۔

” خدا “ کے لئے عبرانی زبان کا لفظ ” الوہیم “ استعمال ہوا ہے۔ یہ اسم مذکر ہے اور صیغہ جمع ہے۔ (عبرانی زبان میں اِسم کے لئے واحد (ایک)، تثنیہ (صرف دو) اور جمع (تین یا زیادہ) کے صیغے استعمال ہوتے ہیں۔ ” الوہیم “ گرامر کے لحاظ سے جمع اور معنی کے لحاظ سے واحد ہے۔

واحد حقیقی خدا اپنی صفات کے لحاظ سے پیچیدہ ہے۔ بائبل مقدس کے پہلے تین فقرے بیان کرتے ہیں:

خدا (اسم، جمع کا صیغہ) نے  ابتدا میں زمین و آسمان کو پیدا کیا (فعل، گردان میں واحد) اور زمین ویران و سنسان تھی اور گہراؤ کے اوپر اندھیرا تھا اور خدا کی روح پانی کی سطح پر جنبش کرتی تھی۔ اور خدا نے کہا کہ روشنی ہو جا اور روشنی ہو گئی “ (پیدائش ١: ١۔٣ )۔

یوں خدا کی کتاب کا اِفتتاحی بیان ہمیں بتاتا ہے کہ خدا نے کائنات کو تخلیق کرنے کا کام کیسے سرانجام دیا۔ اُس نے یہ کام اپنی روح اور اپنے کلام سے کیا۔

پہلے تو خدا کی اپنی روح نیچے بھیجی گئی کہ خدا کے حکموں کی تعمیل کرے۔ جیسے فاختہ اپنے گھونسلے کے اوپر منڈلاتی ہے اُسی طرح نومولود دنیا کے اوپر ” خدا کی روح جنبش کرتی تھی۔ “ روح کے لئے عبرانی کا لفظ ” رُؤاخ “ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب روح، سانس یا توانائی ہے۔ ” خدا کی یہ روح “ توانائی دینے والی خدا کی اپنی حضوری ہے۔

” تُو اپنی روح (رُؤاخ) بھیجتا ہے اور یہ پیدا ہوتے ہیں “ (زبور ١٠٤ : ٣٠ )۔

 دوسرے، خدا بولا، خدا نے کلام کیا۔ پیدائش کے پہلے باب میں ” خدا نے کہا۔۔۔ “ دس دفعہ استعمال ہوا ہے۔ اور جب خدا بولا تو اُس نے جو حکم دیا وہ ہو گیا۔

” آسمان خداوند کے کلام سے اور اُس کا سارا لشکر اُس کے منہ کے دَم (رُؤاخ) سے بنا “ (زبور ٣٣ : ٦)۔

خدا نے دنیا کو اپنے کلام اور اپنی روح سے خلق کیا۔

وہ ابلاغ کرتا ہے۔

خدا نے ساری چیزیں بولنے (کلام کرنے) سے بنائیں۔ یہ حقیقت ہمیں خدا کے بارے میں کچھ اَور بھی سکھاتی ہے۔

وہ ابلاغ کرتا ہے یعنی بول کر اطلاع، معلومات، آگہی دیتا ہے۔

تخلیق سے پہلے ابلاغ تھا۔

” اِبتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔ یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا “ (یوحنا ١:١ ۔٢)۔

” کلام “ یا ” کلمہ “ یونانی زبان کے لفظ ” لوگوس “ ( Logos ) کا ترجمہ ہے۔ اِس کا مطلب ہے ” خیال یا سوچ کا اظہار “ ۔ بائبل مقدس میں ” لوگوس “ خدا کا ایک لقب (ممیزی نام) یا عرف (ذاتی نام) ہے۔ کلمہ کامل طور سے خدا کے ساتھ ایک ہے۔ ساری چیزیں کلمہ / کلام کے وسیلے سے خلق کی گئیں۔

خدا تو صرف سوچتا ہے کہ دنیا کا وجود ہو تو دَم بھر میں دنیا موجود ہو جاتی اور عمل کرنے لگتی، مگر خدا نے ایسے نہیں کیا۔ اُس نے اپنے خیالات، اپنی سوچ کا اظہار کیا۔ وہ بولا، اُس نے کلام کیا۔

کلمہ بول کر ترتیب وار چھے دنوں میں دنیا کو وجود میں لایا۔

کیا قادرِ مطلق کو یہ کام پورا کرنے کے لئے چھے دن درکار تھے؟

نہیں۔ اُس لازمان ہستی کو وقت کے کسی عرصے کی ضرورت نہ تھی۔ تاہم اُس نے ہماری دنیا اِسی طریقے سے خلق کی۔ خدا نے نہ صرف سات دنوں کا ہفتہ مقرر کیا بلکہ اُس نے اپنی ذات اور صفات کے بارے میں ہمیں بصیرت بھی عطا کی۔ ایسا کرنا ضروری تھا کیونکہ نامعلوم خدا پر  نہ ایمان لایا جا سکتا ہے، نہ اُس کی فرماں برداری کی جا سکتی ہے اور نہ اُس کی پرستش کی جا سکتی ہے۔

خدا کے تخلیق کے چھے دنوں اور آرام کے ایک دن سے انسانوں کے لئے خدا کے ٹھہرائے ہوئے وقت کا ایک چکر مقرر ہو گیا جس پر آج بھی ساری دنیا میں عمل کیا جاتا ہے۔ دن، مہینے اور سال اجرامِ فلکی کے علم سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِن کے برعکس ” ہفتہ “ کا اِس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ خدا کا مقرر کیا ہوا ہے۔

خدا نے تخلیق کے کوائف خود بیان کئے ہیں۔ آئیے، ہم اِن کوائف کو دیکھیں، اِن کی سنیں اور ان سے سیکھیں۔

پہلا دن — روشنی اور وقت — خدا پاک ہے۔

” اور خدا نے کہا کہ روشنی ہو جا اور روشنی ہو گئی۔ اور خدا نے دیکھا کہ روشنی اچھی ہے اور خدا نے روشنی کو تاریکی سے جدا کیا اور خدا نے روشنی کو تو دن کہا اور تاریکی کو رات اور شام ہوئ اور صبح ہوئی۔ سو پہلا دن ہوا “ (پیدائش ١: ٣ ۔ ٥ )۔

پہلے دن خدا روشنی کو تخلیق کے منظر عام پر لایا۔ اُس نے وقت (زمان) کو بھی قائم کیا اور زمین کو اپنی چوبیس گھنٹے کی گردش شروع کرائی۔ یہ فلکیاتی گھڑی ہے جو دن اور رات کو باقاعدہ رکھتی ہے۔ مگر خدا نے سورج، چاند اور ستاروں کا خلق کرنا چوتھے دن تک التوا میں رکھا۔ ایک وقت تھا جب سائنسدان اِصرار کے ساتھ کہتے تھے کہ سورج کے وجود سے پہلے وقت (زمان) کا وجود سائنسی لحاظ سے غلط ہے۔ مگر اب یہ بات نہیں رہی۔ جو سائنس دان تخلیق کے بارے میں بائبل مقدس کے بیان اور کوائف کو نہیں مانتے وہ بھی وثوق سے کہتے ہیں کہ زمین کے سورج کے بغیر اور اُس سے بے نیاز بھی روشنی موجود تھی۔

” عظیم دھماکا “ کے بے دلیل نظریے کے حامی یہ قیاسی نظریہ پیش کرتے ہیں کہ سورج اور زمین کے وجود میں آنے سے ٠٠٠، ٠٠٠ ، ٠٠٠ ، ٩ (نو ارب) سال پہلے روشنی موجود تھی۔

زمین کے نیر خلق کرنے (چوتھا دن) سے پہلے روشنی مہیا کرنے (پہلا دن) سے وہ خالق ثابت کر رہا تھا کہ مَیں — روحانی اور جسمانی — روشنی کا ازلی اور قائم بالذات سرچشمہ ہوں۔ اُس کے بغیر صرف تاریکی ہے۔

ہم پاک صحائف میں جوں جوں آگے بڑھیں گے تو روشنی کے مبدا سے لگاتار ملاقات ہوتی رہے گی۔ اِس کا نقطہ عروج فردوس میں ہو گا جہاں خدا کے لوگ ” چراغ اور سورج کی روشنی کے محتاج نہ ہوں گے کیونکہ خداوند خدا دن کو روشن کرے گا “ (مکاشفہ ٢٢ : ٥ )۔

اعلی' ترین دماغوں کے لئے بھی روشنی ایک معما اور راز ہے۔ علمِ طبیعیات کے ماہرین تھوڑا بہت یہ تو جانتے ہیں کہ روشنی کرتی کیا ہے، لیکن یہ نہیں جانتے کہ یہ ہے کیا! سائںس میں روشنی ایک ” مطلق “ (از خود موجود) چیز ہے۔ یہ ٠٠٠، ٠٠، ٣ (تین لاکھ) کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ البرٹ آئنسٹائین نے طبیعیات میں جب کلیہ² E=mc2 (توانائی= کمیت × روشنی کی رفتار کا مربع) دریافت کیا تو توانائی کا خوف ناک زمانہ شروع ہو گیا۔ روشنی اپنے ماحول سے بالکل متاثر نہیں ہوتی۔ یہ بدبودار کوڑے کے ڈھیر پر بھی چمکتی ہے لیکن خود بالکل خالص رہتی ہے۔

روشنی تاریکی کے ساتھ ہم وجود نہیں ہو سکتی۔ روشنی تاریکی کو دُور کر دیتی ہے۔

خدا جو روشنی کا مبدا ہے، وہ قطعی مطلق یعنی قطعی واجب الوجود ہے۔ اُس کی درخشانی ایسی رعب دار اور ہیبت ناک ہے کہ کوئی ذی نفس برداشت نہیں کر سکتا تاوقت یہ کہ وہ اُس کی حضوری میں کھڑا ہونے کے لئے آراستہ نہ ہو۔

خدا پاک اور قدوس ہے۔

لفظ ” قدوس “ کا مطلب ہے علیحدہ کیا گیا یا ” اپنی نوع میں منفرد، خاص الخاص، نہایت پاک۔ خدا وہ ذات ہے کہ اُس کی مانند اَور کوئی نہیں۔ آسمان میں اُس کے جلالی تخت کے چاروں طرف کھڑے سرافیم (واحد سراف معنی فرشتہ— سرافیم اعلی' طبقہ کے فرشتے ہیں) لگاتار پکارتے رہتے ہیں “ قدوس، قدوس، قدوس رب الافواج ” (یسعیاہ ٦: ٣)۔ قدوسیت خدا کی واحد صفت ہے جو اہمیت یا زور دینے کے لئے بائبل مقدس میں تین تین کے مجموعے میں دہرائی گئی ہے۔ “ وہ اُس نور میں رہتا ہے جس تک کسی کی رسائی نہیں ہو سکتی “ (١۔تیمتھیس ٦: ١٦ )۔

خدا بدی کے ساتھ ہم وجود نہیں ہو سکتا۔ اُس نے روشنی کو تاریکی سے جدا کیا۔ صرف پاک اور راست باز ہستیاں ہی اُس کے ساتھ سکونت کر سکتی ہیں۔

” خدا نور ہے اور اُس میں ذرا بھی تاریکی نہیں۔ اگر ہم کہیں کہ ہماری اُس کے ساتھ شراکت (رفاقت) ہے اور پھر تاریکی میں چلیں تو ہم جھوٹے ہیں اور حق پر عمل نہیں کرتے “ (١۔یوحنا ١: ٥، ٦ )۔

تخلیق کا پہلا دن اعلان کرتا ہے کہ خدا پاک (قدوس) ہے۔

دوسرا دن — ہوا اور پانی — خدا قادرِ مطلق ہے۔

” اور خدا نے کہا کہ پانیوں کے درمیان فضا ہو تاکہ پانی پانی سے جدا ہو جائے ۔۔۔ اور ایسا ہی ہوا۔ اور خدا نے فضا کو آسمان کہا اور شام ہوئی اور صبح ہوئی۔ سو دوسرا دن ہوا “ (پیدائش ١: ٦ ۔٨ )۔

تخلیق کا دوسرا دن دو عناصر پر توجہ مرکوز کرتا ہے جن پر سارے ذی حیات اَجسام کا دار و مدار ہوتا تھا۔ یہ ہیں ہوا اور پانی۔

” فضا “ کے لئے عبرانی زبان کا جو لفظ استعمال ہوا ہے، اُس سے مراد وہ نہایت وسیع اور بڑی محراب ہے جو  ہمارے سروں کے اوپر ہے۔ اِسی میں کرہ ہوا اور بادل رکھے گئے ہیں اور اِسی میں تارے اور ستارے دکھائی دیتے ہیں۔ ذرا غور کریں آکسیجن، نائٹروجن، دوسری گیسوں، آبی ابخرات، کاربن ڈائ آکسائیڈ، اوزون وغیرہ کا کیسا متوازن مرکب ہے۔ اِس میں معمولی سی تبدیلی کر دیں تو ہم سب مر جائیں گے۔ خدا جانتا تھا کہ مَیں کیا کر رہا ہوں۔

اُس کھربوں ٹن پانی کا تصور کریں جو ہماری فضا میں معلق ہے۔ ہوا اور پانی کے اِتنے صحیح مرکب کو تیار کرنے اور قائم رکھنے کے لئے کیسی حکمت اور قدرت درکار تھی — جو صرف بولنے سے عمل میں آئی!

” اُس نے فرمایا اور ہو گیا۔ اُس نے حکم دیا اور واقع ہوا۔ “ (زبور ٣٣: ٩)

تخلیق کے ہر  دن کی طرح دوسرا دن بھی ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارا خالق قادرِ مطلق ہے۔

تیسرا دن — زمین اور نباتات — خدا بھلا ہے۔

” اور خدا نے کہا کہ آسمان کے نیچے کا پانی ایک جگہ جمع ہو کہ خشکی نظر آۓ اور ایسا ہی ہوا۔ اور خدا نے خشکی کو زمین کہا اور جو پانی جمع ہو گیا تھا اُس کو سمندر، اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے۔ اور خدا نے کہا کہ زمین گھاس اور بیچ دار بوٹیوں کو اور پھل دار درختوں کو جو اپنی اپنی جنس کے موافق پھلیں اور جو زمین پر اپنے آپ ہی میں بیج رکھیں اُگائے اور ایسا ہی ہوا ۔۔۔ اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے “ (پیدائش ١: ٩ ۔١٢ )۔

تیسرے دن خدا نے زمین اور سمندر کو الگ الگ کیا اور بول کر ہر قسم کی نباتات کو وجود بخشا۔ ” اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے۔ “ اُس نے ہمارے کرہ ارض پر بالکل صحیح مقدار میں مائع پانی رکھا۔ اُس روز سے آج تک اُسے اِس میں کمی بیشی نہیں کرنی پڑی۔

اگلی دفعہ آپ پانی پئیں تو اپنے خالق سے کہیں ” شکریہ “ ۔ یہ پانی جس کا سائنسی فارمولا H2O دو حصے ہائیڈروجن اور ایک حصہ آکسیجن) ہے ہماری پیاس بجھاتا اور ہمیں زندہ رکھتا ہے۔ اِس حقیقت کے علاوہ بھی پانی ایک حیرت انگیز چیز ہے۔ پانی وہ واحد مائع ہے جو ٹھنڈ سے جمنے پر پھیلتا ہے۔ اِس طرح اِس کی کثافت کم ہو جاتی ہے اور تیر سکتا ہے۔ اگر پانی دوسرے مادے کی طرح عمل کرتا اور جم کر کثیف ہو جاتا تو سمندروں، بحیروں، جھیلوں، دریاؤں وغیرہ کی تہ میں جا بیٹھتا۔ اِس کا بہت بڑا حصہ دوبارہ نہ پگھلتا اور بالآخر ہمارا تازہ پانی ” مقفل “ ہو کر رہ جاتا۔ کیا خوب ہے کہ ہمارے خالق نے اِس کا بھی دھیان رکھا!

خدا نے ہر ایک پودے اور درخت کو ایسا بنایا کہ ” اپنی اپنی جنس کے موافق بیج رکھیں “ اور  مزید پودے اور درخت پیدا کریں۔ خدا نے یہ کھانے کی ساری اشیا کیوں بنائیں؟ کیونکہ ” اُس نے زمین بنائی اور تیار کی ۔۔۔ اور اُس کو آبادی کے لئے آراستہ کیا “ (یسعیاہ ٤٥ : ١٨ )۔ ہمارے نظامِ شمسی میں زمین بالکل یکتا اور بے مثال ہے۔ یہ واحد کرہ ہے جو اِس طرح مرتب کیا گیا ہے کہ یہاں زندگی قائم رہے اور پھلے پھولے۔

مثال کے طور پر اُن فوائد کے بارے میں سوچیں جو ہمیں پودوں، زندگی بخش آکسیجن، مقوی اور نشو و نما دینے والی سبزیوں اور نباتات، لذیذ پھلوں، تازگی بخش چھاؤں، کارآمد لکڑی، ضروری ادویات، خوش بودار پھولوں اور خوش نما مناظر سے حاصل ہوتے ہیں۔

خوراک کا معاملہ دیکھیں تو خدا ہمارے کھانے کے لئے صرف تھوڑی سی چیزیں بنا سکتا تھا مثلاً کیلا، دالیں اور چاول۔ ہم اِنہی پر زندہ رہ سکتے تھے۔ لیکن خدا نے ایسا نہیں کیا۔ سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ جانوروں کے چارے اور انسانوں کے کھانے کے لئے ہماری زمین پر بیس لاکھ سے زیادہ قسم کے پودے ہیں۔

پیدائش کی کتاب کے پہلے باب میں اپنی تخلیق کے بارے میں خدا سات بار اعلان کرتا ہے کہ ” اچھا “ ہے۔ سات کا عدد کاملیت کو ظاہر کرتا ہے۔ خدا کی بنائی ہوئی ہر چیز کامل طور پر اچھی ہے۔

اِس لئے کہ وہ خود پورے اور کامل طور سے اچھا ہے:

” ۔۔۔وہ ہمیں لطف اُٹھانے کے لئے سب چیزیں افراط سے دیتا ہے “ (١۔تیمتھیُس ٦: ١٧ )۔

چوتھا دن — آسمانی اَنوار — خدا وفادار ہے

” اور خدا نے کہا کہ فلک پر نیر ہوں کہ دن کو رات سے الگ  کریں اور وہ نشانوں اور زمانوں اور دنوں اور برسوں کے امتیاز کے لئے ہوں ۔۔۔ سو خدا نے دو بڑے نیر بناۓ۔ ایک نیر اکبر کہ دن پر حکم کرے اور ایک نیر اصغر کہ رات پر حکم کرے اور اُس نے ستاروں کو بھی بنایا “ (پیدائش ١: ١٤ ۔١٦ )۔

چوتھا دن ” ترتیب کے خدا “ ، ” نظام کے خدا “ کو ظاہر کرتا ہے۔ وہی ہے ” جس نے دن کی روشنی کے لئے سورج کو مقرر کیا اور جس نے رات کی روشنی کے لئے چاند اور ستاروں کا نظام قائم کیا “ (یرمیاہ ٣١ :٣٥ )۔ رات کے وقت ستاروں کا مقررہ اور  مستحکم نظام زمین اور سمندر کے مسافروں کو قابلِ اعتماد  نقشہ فراہم کرتا ہے۔ دن کے وقت سورج قابلِ اعتماد طریقہ سے دنوں اور سالوں کا حساب بتاتا ہے۔ چاند باقاعدگی سے مدو جزر اُٹھاتا ہے اور قمری مہینوں کو مرتب کرتا ہے۔

سورج اور ستاروں کی طرح زمین کا چاند بھی مسلسل اور مستقل گواہی دیتا ہے کہ جس ہستی نے مجھے بنایا ہے وہ قابل اعتماد، معتبر اور قابلِ انحصار ہے۔ خدا نے چاند کو ” آسمان کا سچا گواہ “ کہا ہے (زبور ٨٩ : ٣٧ )۔ زمین پر ہر جگہ سے کرہ قمر مستقل طور پر زمین کی طرف چہرہ کئے رہتا ہے۔ اپنی پُشت کبھی نہیں دکھاتا۔

چاند کی تاریک سطح کو سب سے پہلے تین انسانوں نے ٢٤ دسمبر ١٩٦٨ عیسوی کو دیکھا تھا جب خلائی جہاز اپالو ہشتم نے چاند کے گرد چکر لگایا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خلا بازوں نے اُس دن پیدائش کی کتاب کا پہلا باب پڑھا جو بین النجوم خلا سے ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔

یہ چاند نہایت صحت اور پابندی کے ساتھ گھٹتا اور بڑھتا رہتا ہے۔ چاند وفادار ہے کیونکہ اُس کو بنانے والی ہستی (خدا) وفادار ہے۔

چونکہ خدا وفادار ہے اِس لئے ایک بات ہے جو وہ نہیں کر سکتا۔ وہ اپنی ذات کا انکار نہیں کر سکتا اور نہ اپنے قوانین کو نظر انداز کر سکتا ہے:  ” ۔۔۔ وہ وفادار رہے گا کیونکہ وہ آپ اپنا انکار نہیں کر سکتا “ (٢۔تیمتھیُس ٢: ١٣ )۔ ” خدا کا جھوٹ بولنا ممکن نہیں “ (عبرانیوں ٦: ١٨ )۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ خدا اِتنا بڑا اور قادر ہے کہ وہ اپنی ذات و صفات کے خلاف کام بھی کر سکتا ہے یا اپنی بات سے پھر سکتا ہے۔ خدا کے ” عظیم “ یا ” بڑا “ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں۔

متلون مزاجی خدا کی ذات و صفات کا حصہ نہیں — وفاداری اور استحکام ہے۔ سیاروں اور کہکشاؤں کے معین اور مستحکم نظام کی طرح ہمارا خالق بھی مستحکم اور معتبر ہے۔

آپ اُس پر بھروسا رکھ سکتے ہیں:

” ہر اچھی بخشش اور ہر کامل انعام اوپر سے ہے اور نوروں کے باپ کی طرف سے ملتا ہے جس میں نہ کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے اور نہ گردش کے سبب سے اُس پر سایہ پڑتا ہے “ (یعقوب ١: ١٧ )۔

تخلیق کا چوتھا دن گواہی دیتا ہے کہ خدا وفادار ہے۔

پانچواں دن — مچھلیاں اور پرندے — خدا زندگی ہے

پانچویں دن خدا نے اپنی لامحدود حکمت اور قدرت سے ہر قسم کے جاندار خلق کئے کہ سمندر میں اور فضا میں بسیں۔ اُس نے اُنہیں آراستہ کیا یعنی صلاحیتیں عطا کیں کہ اپنے اپنے منفرد ماحول میں مہارت سے چلیں پھریں اور اُڑیں۔ پانی میں مچھلیوں کو گلپھڑے اور خاص قسم کے پَر، ہوا میں پرندوں کو ہلکی پھلکی ہڈیاں اور پَر عطا کئے۔

” اور خدا نے کہا کہ پانی جانداروں کو کثرت سے پیدا کرے اور پرندے زمین کے اوپر فضا میں اُڑیں۔ اور خدا نے بڑے بڑے دریائی جانوروں کو اور ہر قسم کے جاندار کو جو پانی سے بکثرت پیدا ہوئے تھے اُن کی جنس کے موافق اور ہر قسم کے پرندوں کو اُن کی جنس کے موافق پیدا کیا اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے “ (پیدائش ١: ٢٠، ٢١ )۔

الفاظ پر غور کریں ” پانی جانداروں کو کثرت سے پیدا کرے .“ ” بکثرت “ کا مطلب ہے بہتات، افراط، شمار میں بہت زیادہ — خرد حیات کے ماہرین بتاتے ہیں کہ جوہڑ کے پانی کے ایک قطرے میں لاکھوں خردبینی جرثومے ہو سکتے ہیں۔ تاہم بڑے جانور بھی لاتعداد ہیں۔ سمندری جانوروں کے ناقابلِ یقین اژدحام میں سب سے بڑا جانور نیلی وہیل ہے۔ یہ نہایت ہی چھوٹے چھوٹے پودے اور جانور جو سمندر کی سطح پر تیرتے رہتے ہیں کھاتی ہے۔

سمندر خدا کے زندہ معجزوں کا ایک بہت ہی بڑا مجموعہ یا انبار ہے۔

یہی بات آسمان کی وسعتوں میں اُڑنے والے قسم قسم کے حیرت انگیز   پرندوں کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔

یہاں بھی ان الفاظ پر غور کریں کہ ” اُن کی جنس کے موافق “ ۔ پیدائش کی کتاب کے پہلے باب میں یہ جملہ یا الفاظ کا مجموعہ دس بار دہرایا گیا ہے اور یوں ہر قسم کے جاندار کے اِستقرار یا قیام پذیر ہونے کا بیان کیا گیا ہے۔ زندگی کے سرچشمہ، زندگی کے بانی نے فیصلہ صادر کر دیا کہ ہر ایک پودا اور ہر ایک جاندار ” اپنی اپنی جنس کے موافق “ نسل پیدا کریں۔ انسانوں کا قیاسی نظریہ ارتقا فطرت کے اِس لاتبدیل قانون کی ضد ہے۔ اپنی اپنی قسم (جنس) کے اندر تبدلِ صورت، شکل و  صورت میں ترمیم اور ماحول کے ساتھ مطابقت پذیری ایسے عمل تو ہو سکتے ہیں، لیکن کوئی بھی جاندار خدا کی مقرر کردہ اِن واضح حدود سے بڑھ کر ” ارتقا “ نہیں کر سکتا۔ فوسل (حیوانات اور نباتات کی وہ باقیات جو مرورِ زمانہ سے پتھر بن گئیں، یا اُن کے پتھرائے ہوئے نقوش) اِس حقیقت کے بولتے ہوئے گواہ ہیں۔

صرف خدا ہی اُس بے مثال توانائی کا پانی اور قائم رکھنے والا ہے جسے زندگی یا جان کہا جاتا ہے۔ اُس کے بغیر صرف موت ہے۔

” سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اُس میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئ “ (یوحنا ١: ٣)۔

پانچویں دن کثرت سے خلق کئے گئے جاندار ہمیں سکھاتے ہیں کہ خدا زندگی ہے۔

چھٹا دن —جانور اور انسان — خدا محبت ہے

چھٹے دن کے آغاز میں خدا نے ہزاروں لاکھوں سحر آفریں اور دلکش چوپائے، رینگنے والے جاندار اور کیڑے مکوڑے پیدا کئے۔ 

” ۔۔۔اور خدا نے جنگلی جانوروں اور چوپایوں کو اُن کی جنس کے موافق اور زمین کے رینگنے والے جانداروں کو اُن کی جنس کے موافق بنایا اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے “ (پیدائش ١: ٢٥ )۔

خدا نے اِن سب کو بنایا — بعض بڑے بعض چھوٹے — اور ہر ایک کو وہ جبلت اور علم عنایت کیا جو زندہ رہنے اور طبعی دنیا میں اپنا حصہ ڈالنے اور اپنا فرض ادا کرنے کے لئے درکار تھا، اور ہر ایک کو اپنی جنس کے موافق اولاد پیدا کرنے اور اُس اولاد کی پرورش کرنے کی جبلت اور ادراک عطا کیا۔

جب خدا نے حیوانی دنیا پیدا کی تو سب کچھ ” اچھا تھا “ ۔ کوئی بدی، بُرائی، خوں ریزی ابھی اِس منظر میں داخل نہیں ہوئی تھی۔ حیوانات اِس طرح بنائے گئے تھے کہ نباتاتی خوراک کھائیں۔ خدا نے کہا کہ ” ۔۔۔ زمین کے کُل جانوروں کے لئے اور ہوا کے کُل پرندوں کے لئے اور اُن سب کے لئے جو زمین پر رینگنے والے ہیں جن میں زندگی کا دم ہے کُل ہری بوٹیاں کھانے کو دیتا ہوں ۔۔۔ “ (پیدائش ١: ٣٠ )۔ جاندار کے جاندار کو کھانے کا کوئی سلسلہ نہیں۔ دشمنی اور خوف کا وجود نہ تھا۔ خدا کی مہربانی اور شفقت ہر چیز  سے منعکس ہوتی تھی۔ شیر ببر برہ کے ساتھ گھاس چرتا تھا اور بلی اور پرندہ ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتے اور آپس کی صحبت سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ یہ دنیا کامل امن و امان کا گہوارہ تھی۔

خدا حیوانات کو خلق کر چکا تو وقت آ گیا کہ وہ اپنا شہکار — مرد اور عورت خلق کرے۔ خدا کا منصوبہ یہ تھا کہ بنی نوع انسان محبت کی ایک لازوال، شاندار اور مسرت سے بھری مملکت میں اُس کی جاں نثار اور مخلص رعایا ہوں۔

ہمارا خالق جو کچھ کرتا ہے اُس کے لئے وہ محبت نہیں، یعنی اُس کے کام محبت نہیں، وہ خود محبت ہے۔

” خدا محبت ہے “ (١۔یوحنا ٤: ٨)۔

خدا کے چھٹے دن کے تخلیقی کام اعلان کرتے ہیں کہ وہ محبت ہے۔

” ہم۔۔۔بنائیں “

چونکہ خدا محبت ہے اِس لئے اُس نے انسانوں کے لئے خوبصورت دنیا بنائی تاکہ یہ انسان اُس کی محبت  کا مرکز ہوں اور وہ اُن سے محبت کرے۔ اور چھٹے ہی دن یہ بھی ہوا کہ

” ... پھر خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں۔۔۔ “ (پیدائش ١: ٢٦ )۔

ذرا ٹھرئیے۔ ذرا رُکئے! کیا خدا نے واقعی کہا کہ ” ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں “ ؟

خدا تو ” ایک “ ہے پھر یہ ” ہم “ اور ” ہماری “ (اپنی) کیا ہیں؟

خدا یہ کس سے کہہ رہا تھا؟