۱۲
گناہ اور موت کا قانون
یسوع ناصری نے فرمایا ” جو کوئی گناہ کرتا ہے گناہ کا غلام ہے “ (یوحنا ٨: ٣٤ )

آدم اور حوا نے اپنے خالق و مالک کی حکم عدولی کی۔ جیسے خدا کے ساتھ شیطان کا رشتہ ٹوٹ گیا تھا اُسی طرح خدا کے ساتھ اُن دونوں کا رشتہ بھی ٹوٹ گیا اور وہ گناہ کے غلام ہو گئے۔ اُن بچوں کی طرح جنہوں نے اپنے باپ کے واضح حکم کو نہ مانا اُسی طرح اب آدم اور حوا اُس ہستی کے پاس نہیں آنا چاہتے جو اُن سے محبت رکھتا تھا اور اُن کی نگہداشت اور پرورش کرتا تھا۔ خوشی اور اعتماد کے جذبے کی جگہ خوف، ڈر، گندگی، پلیدی اور شرمندگی کا جذبہ اُبھر آیا تھا۔

” ... اُںہوں نے خداوند خدا کی آواز جو ٹھنڈے وقت باغ میں پھرتا تھا سنی اور آدم اور اُس کی بیوی نے آپ کو خداوند خدا کے حضور سے باغ کے درختوں میں چھپایا “ (پیدائش ٣: ٨ )۔

گناہ نے آدم اور حوا کو اب گندہ اور نجس کر دیا تھا اِس وجہ سے وہ اپنے خالق اور مالک سے چھپنا چاہتے تھے۔ اُن کے ابھی بیدار ہونے والے شعور یا ضمیر نے اُنہیں نیک اور بد کا احساس دیا تھا۔ اُنہوں نے جبلی طور سے سیکھ لیا کہ صرف پاک لوگ ہی پاک خدا کی حضوری میں زندہ رہ سکتے ہیں۔ آدم اور حوا اب خدا کے سامنے پاک نہیں رہے تھے، اور وہ اِس بات کو جانتے تھے۔ خدا اور انسان کے درمیان قریبی بندھن ٹوٹ گیا تھا۔

باہمی رشتہ مر گیا تھا۔

ٹوٹی ہوئی ٹہنی

ایک دن مَیں ایک مسجد کے قریب ایک درخت کے نیچے چند آدمیوں سے گفتگو کر رہا تھا۔ ہماری گفتگو کا رُخ گناہ اور موت کے موضوع کی طرف مڑ گیا۔

مَیں نے درخت سے ایک ٹہنی توڑی اور اُن سے پوچھا ” کیا ٹہنی زندہ ہے یا مر گئی ہے؟ “ ایک آدمی نے جواب دیا ” یہ مر رہی ہے۔ “

دوسرے آدمی نے کہا ” یہ مر گئی ہے۔ “

مَیں نے ذرا خفگی سے کہا ” آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مر گئی ہے؟ دیکھو، کیسی ہری اور شاداب ہے! “ اُس نے جواب دیا، ” یہ زندہ دکھائی دیتی ہے، لیکن مر گئی ہے کیونکہ اپنی زندگی کے سرچشمے سے الگ ہو گئی ہے۔ “

مَیں نے جواب دیا، ” بالکل درست! آپ نے موت کا بالکل صحیح بیان کیا جو بائبل مقدس  سے مطابقت رکھتا ہے۔ “ موت، فنا یا نیستی نہیں ہے، بلکہ زندگی کے سرچشمے سے علیحدگی یا جدائی ہے۔ اِسی لئے جب کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے تو اُس کا بدن دفن کرنے سے پہلے ہی ہم کہتے ہیں ” وہ چلا گیا/ گئی ہے، وہ اِس جہان سے رُخصت ہو گیا / گئی ہے۔ “ ہم یہ بات اِس وجہ سے کہتے ہیں کہ اُس کی روح اُس کے بدن کو چھوڑ گئی ہے، اُس کے بدن سے الگ، دُور ہو گئی ہے۔ موت کا مطلب ہے جدائی، علیحدگی۔

اِس کے بعد مَیں نے اُن آدمیوں کو وہ حکم تفصیل سے بتایا جو خدا نے آدم کو دیا تھا۔ پھر مَیں نے اُن سے پوچھا ” خدا نے آدم سے کیا کہا تھا کہ اگر وہ گناہ کرے گا تو کیا ہو گا؟ کیا اُس نے آدم کو کہا تھا کہ اگر تُو نے ممنوعہ پھل کھایا تو مذہبی رسوم ادا کرنا، دعائیں مانگںا، نمازیں پڑھنا، روزے رکھنا، خیرات دینا اور مسجد یا گرجے میں حاضر ہوا کرنا؟ “

اُنہوں نے جواب دیا، ” نہیں۔ خدا نے کہا تھا کہ آدم مر جائے گا۔ “

” درست، خدا نے واضح کر دیا تھا کہ گناہ کی سزا موت ہو گی۔ مگر آپ بتائیں کہ جب آدم اور حوا نے خدا کی حکم عدولی کی اور ممنوعہ پھل کھایا تو کیا وہ اُسی روز گر پڑے اور مر گئے؟ “

اُنہوں نے جواب دیا ” نہیں “۔

” اچھا، تو خدا نے آدم سے جو کہا تھا ' جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا' تو اِس کا مطلب کیا تھا؟ “

اب مَیں نے اُن لوگوں کو بتایا کہ ” موت “ سے خدا کی کیا مراد ہے۔ انسان نے اپنے خالق کی نافرمانی کرنے کا چناؤ کیا۔ اِس نافرمانی سے سہ رُخی جدائی پیدا ہوئی۔

گناہ کے باعث سہ رُخی جدائی

١۔   روحانی موت: انسان کی روح اور جان کی خدا سے جدائی۔

جس روز آدم اور حوا نے پہلی دفعہ خدا کے خلاف گناہ کیا اُن کی روحانی موت واقع ہو گئی۔ درخت سے ٹوٹی ہوئی ٹہنی (شاخ) کی طرح آدم اور حوا کا خداوند خدا کے ساتھ قریبی اور گہرا رشتہ مر گیا۔ معاملہ اِس سے بھی بدتر ہے۔ آدم اور حوا کی پوری نسل اِس روحانی طور سے مردہ ٹہنی کا حصہ ہیں، اِس میں شامل ہیں۔

” ...آدم میں سب مرتے ہیں... “ (١۔کرنتھیوں ١٥ : ٢٢)۔

سارے لوگ اِس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ کُل بنی نوع انسان آدم کی اولاد یا نسل ہیں۔ مگر بہت سے لوگ پاک صحیفوں کی واضح اور صاف تعلیم کے باوجود اِصرار کرتے ہیں کہ نومولود بچے معصوم یعنی بے گناہ ہوتے ہیں۔

کٹی ہوئی ٹہنی پر ایک دفعہ پھر غور کریں۔

درخت سے جدا ہونے کے نتیجے میں اُس کا کون سا حصہ ” مردہ “ ہے؟ پوری کی پوری ٹہنی مُردہ ہے۔ آخری نوک پر تازہ پھوٹی ہوئ بالکل ننھی سی پتی سمیت — ساری شاخ مُردہ ہے۔ اگر یہ نئی پھوٹی ہوئ ننھی شاخیں، پتیاں اور پتے بول سکتے تو شاید کچھ یوں کہتے: ” ذرا ٹھہریں، ہمارا کوئی قصور نہیں کہ ٹہنی درخت سے ٹوٹ گئ یا توڑی گئی! جو کچھ کسی دوسرے نے کیا اُس سے ہم متاثر نہیں ہوۓ! “ مگر وہ متاثر تو ضرور ہوئے ہیں۔ اِسی طرح خدا کا کلام اعلان کرتا اور کہتا ہے کہ پوری انسانی نسل ” آدم میں “ ہے۔ ہم میں سے ہر ایک اُس جدا ہو چکی اور برگشتہ ” شاخ “ کا حصہ ہے اور ہم سب اِس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ آپ بُرا مانیں یا اچھا مانیں حقیقت یہ ہے کہ آدم نے گناہ کیا تو اُس نے اپنے آپ کو اور آنے والے اپنے پورے خاندان کو آلودہ کر دیا۔

مَیں جس گاؤں میں بیٹھا لکھ رہا ہوں، اُس کو پانی دریاۓ سینیگال سے فراہم کیا جاتا ہے جو کئی کلومیٹر دُور ہے۔ اِس گاؤں میں ایک کنواں بھی ہے، لیکن کوئی شخص اُس کا پانی نہیں پیتا۔ یہ کنواں ” آلودہ “ ہے۔ اِس کا پانی کھارا ہے۔ اِس سے نکالے ہوئے پانی کا ایک ایک قطرہ ” نمک “ سے آلودہ ہے۔ ایک قطرہ بھی خالص نہیں۔

اِسی طرح آدم سے پیدا ہونے والا، اُس کی نسل کا ایک ایک فرد گناہ سے آلودہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی طبعی یا فطری طور پر گناہ کرتے ہیں، گناہ اُن کی فطرت کا حصہ ہے۔ اچھا یا نیک بننے کے لئے شعوری کوشش اور جدوجہد کرنی پڑتی ہے، جبکہ خود غرض، مطلبی اور ضرر رساں بننے کے لئے کوئی خاص کوشش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مقدس داؤد نبی واضح کرتا ہے کہ ہم جبلی طور پر گناہ کرتے ہیں:

” دیکھ! مَیں نے بدی میں صورت پکڑی اور مَیں گناہ کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پڑا “ (زبور  ٥١ :٥ )۔ ” شریر پیدائش ہی سے کج رَوی اختیار  کرتے ہیں۔ وہ پیدا ہوتے ہی جھوٹ بول کر گمراہ ہو جاتے ہیں “ (زبور ٥٨ :٣)۔ ” وہ سب کے سب گمراہ ہوئے۔ وہ باہم نجس ہو گئے۔ کوئی نیکوکار نہیں۔ ایک بھی نہیں “ (زبور ١٤ :٣ )۔

سینیگال کے وُلوف لوگوں کے پاس کئی بہت اچھی ضرب الامثال ہیں جن سے کئی لوگوں کو یہ سچائی سمجھنے میں مدد ملی ہے۔ ایک کہاوت ہے ” چوہا ایسا بچہ پیدا نہیں کرتا جو مٹی (بل) نہ کھودتا ہو۔ “ اِسی طرح گناہ آلود آدم کوئی بچہ پیدا نہ کر سکا (نہ کر سکتا ہے) جو گناہ نہ کرتا ہو۔

ایک اور ضرب المثل ہے ” وبا خود کو اُسی تک محدود نہیں رکھتی جس نے اُسے شروع کیا۔ “ یہ بات المناک ہے مگر ہے سچی۔ موروثی اور پیدائشی نقص یا وبائی مرض کی طرح آدم کی گناہ کی فطرت ہم سب میں اور ہماری اولاد اور ہماری نسل میں پھیل گئی ہے۔

” پس جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گناہ دنیا میں آیا اور گناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت آدمیوں میں پھیل گئی اِس لئے کہ سب نے گناہ کیا “ (رومیوں ٥: ١٢ )۔

شروع کے جملے پر غور کریں ” ایک آدمی کے سبب سے گناہ دنیا میں آیا۔ “ اور پھر آخری جملے کو دیکھیں ” سب نے گناہ کیا۔ “ ہم میں سے ہر ایک پیدائشی گنہگار ہے اور عملاً گنہگار ہے۔ ہم اپنے گناہوں کے لئے آدم کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے۔ پاک کلام کہتا ہے:

” تمہاری بدکرداری نے تمہارے اور تمہارے خدا کے درمیان جدائی کر دی ہے اور تمہارے گناہوں نے اُسے تم سے رُوپوش کیا “ (یسعیاہ ٥٩ : ٢)۔

جب انسان کی عمر اِتنی ہو جاتی ہے کہ وہ نیکی اور بُرائی میں، درست اور غلط میں امتیاز کر  سکے تو خدا اُسے ذمہ دار اور جواب دہ ٹھہراتا ہے۔

شیرخوار اور چھوٹے بچوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ عادل منصف (خدا) اِس کے بارے میں کیا کرے گا (پیدائش ١٨ : ٢٥ )؟ خدا کسی کو اُس بات کے لئے الزام نہیں دیتا جسے وہ شخص سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ وہ لوگوں کو اُس بات کے لئے ذمہ دار اور جواب دہ ٹھہراتا ہے جسے وہ جانتے ہیں یا خدا کی سچائی کو جاننے کی کوشش کریں تو جان سکتے ہیں (رومیوں ٢: ١١ ۔١٥ ؛ زبور ٣٤ :١٠ ؛ یسعیاہ ٥٥: ٦)۔ انسان خدا کے سامنے اس وقت جواب دہ ہوتا ہے جب وہ اِتنا بالغ اور سمجھ دار ہو جاتا ہے کہ اخلاقی فیصلے یا چناؤ کر سکے (استثنا ١: ٣٩ ؛ یسعیاہ ٧: ١٦ ؛ ٢ ۔سموئیل ١٣ : ٢٣ ؛ متی ٨: ١٠ ؛ ٢۔تیمتھیُس ٣: ١٤ ۔ ١٧ )۔ صرف خدا ہی جانتا ہے کہ کوئی شخص کس عمر میں اپنے گناہوں اور فیصلوں کے لئے جواب دہ ہوتا ہے۔ کچھ بھی ہو ہم سب کے لئے خدا کا پیغام یہ ہے کہ ” دیکھو اب قبولیت کا وقت ہے۔ دیکھو یہ نجات کا دن ہے “ (٢۔کرنتھیوں ٦: ٢)۔

بنی نوع انسان کی پوری نسل اپنے خالق سے جدا ہو چکی ہے۔ انسان روحانی لحاظ سے ” قصوروں اور گناہوں کے سبب سے مُردہ “ ہے (افسیوں ٢: ١)۔

٢۔   جسمانی موت: انسان کی جان اور روح کی اُس کے بدن سے جدائی۔

آدم اور حوا نے گناہ کیا تو وہ نہ صرف روحانی طور سے بلکہ جسمانی طور سے بھی مر گئے۔ جیسے ٹوٹی ہوئی ٹہنی کے پتے یک دم نہیں سوکھ جاتے اُسی طرح آدم اور حوا کےبدن اُسی روز مر کر نہ گر پڑے جب اُنہوں نے گناہ کیا۔ تاہم اُن کے گوشت پوست پر موت نے چڑھائ کر دی تھی۔ وہ اِس دشمن سے بچ کر بھاگ نہیں سکتے تھے۔
اب جسمانی موت کسی بھی وقت آ کر آدم اور حوا کو پکڑ سکتی تھی۔ عربی زبان کی کہاوت ہے کہ ” موت تیز رفتار ناقہ پر سوار ہوتی ہے۔ “ موت سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا۔ خدا کا کلام اِسے یوں بیان کرتا ہے:

” آدمیوں کے لئے ایک بار مرنا اور اُس کے بعد عدالت کا ہونا مقرر ہے “ (عبرانیوں ٩: ٢٧ )۔

٣۔   ابدی موت: انسان کی روح، جان اور بدن کی خدا سے ہمیشہ کی جدائی۔

زندہ ٹہنی کا مقصد  پتے، پھول اور پھل پیدا کرنا ہے۔ سوکھی ٹہنیاں جمع کر کے جلا دی جاتی ہیں۔ آدم نے خدا کے خلاف گناہ کیا تو وہ اُس حق اور اعزاز سے محروم ہو گیا جس کے واسطے پیدا کیا گیا تھا — کہ خدا کی تمجید کرے اور ابد تک اُس کے ساتھ رہے — انسان کو ابد تک زندہ اور موجود رہنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ لیکن اُس نے اپنے خالق اور مالک کی نافرمانی کی۔ اِس کی سزا خدا سے ہمیشہ کی جدائ تھی (ہے)۔

اگر خداوند اپنی رحمت اور ترس سے آدم اور حوا کے گناہ کا مداوا نہ کرتا تو اُن کے بدنوں کے مرنے کے بعد اُنہیں ہمیشہ کے لئے کوڑے کے اس ” خوف ناک انبار “ پر پھینک دیا جاتا جو ابلیس اور اُس کے شیاطین کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ بائبل مقدس اِسے ” دوسری موت “ کہتی ہے (مکاشفہ ٢: ١١ ؛ ٢٠ : ١٤، ١٥ ؛ ٢١: ٦) کیونکہ یہ جسمانی موت کے بعد واقع ہوتی ہے۔ اسے ” ہمیشہ کی سزا “ بھی کہا گیا ہے (متی ٢٥ : ٤٦ )۔ اعراف یا برزخ (وہ مقام جہاں بدن کے مرنے کے بعد روحیں عارضی طور پر رہیں گی اور گناہوں کی سزا بھگت کر فردوس میں آ جائیں گی) کا تصور یا نظریہ انسان کی اختراع ہے۔

اگر کوئی سوچتا ہے کہ ” ہمیشہ کی سزا “ بے انصافی یا غیر معقول ہے تو اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شخص خدا کی ذات، گناہ کی سنگینی اور ابدیت کے مفہوم کو نہیں سمجھتا۔

آگے چل کر ہم خدا کی پاکیزگی اور قدوسیت اور گناہ کی ناپاکی اور پلیدی پر غور کریں گے۔

جہاں تک ابدیت کے تصور کا تعلق ہے تو ہمیں مان لیںا چاہئے کہ ” ابد “ اور ” ابدیت “ کا مفہوم ہماری عقلی اور ذہنی استعداد سے باہر ہے کیونکہ ہم 'وقت' یا 'زمان' کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔

اَبد یا ابدیت بے زمان ہے۔

اگر ہم تصور کرتے ہیں کہ کوئ شخص کروڑوں اربوں سال جہنم میں گزارے گا تو ہمارا تصور اور ہماری سوچ بالکل غلط ہے۔ ابدیت سالوں سے تشکیل نہیں پاتی۔ یہ ازلی و ابدی ” اب “ (زمانہ حال) ہے۔ جب انسان اس ناگزیر حلقے میں داخل ہوں گے تو اِس کی سنجیدہ منطق اور حقیقت کو سمجھیں گے۔ کیا آپ کو اُس امیر آدمی کی کہانی یاد ہے جو مرنے کے بعد دوزخ میں پہنچا (باب ٣)؟ وہ ابھی تک وہیں ہے۔

خدا نے واضح کر دیا ہے کہ فردوس میں داخل ہونے کی شرائط کیا ہیں۔

” ... اُس میں کوئی ناپاک چیز یا کوئی شخص جو گھنونے کام کرتا یا جھوٹی باتیں گھڑتا ہے ہرگز داخل نہ ہو گا “ (مکاشفہ ٢١ : ٢٧ )۔

اِس بات پر کوئی مفاہمت نہ ہو گی، کوئی سمجھوتا نہ ہو گا۔ جس طرح خدا کے طبعی قوانین درخت سے کٹی یا ٹوٹی ہوئی ٹہنی کو سکھا دیتے ہیں اور وہ مر جاتی ہے، اُسی طرح خدا کے روحانی قوانین گناہ کو روحانی، جسمانی اور ابدی جدائی کی سزا دیتے ہیں۔

گناہ اور شرم

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم آدم اور حوا کی طرف پھر متوجہ ہوں۔ ہم نے اُنہیں اُس موقعے پر چھوڑا تھا جب وہ خدا سے باغ کے درختوں میں چھپنے کی کوشش کر رہے تھے۔

گناہ کرنے سے پہلے آدم اور حوا خدا کے جلال اور اُس کی کاملیت کے گھیرے میں تھے۔ وہ اپنے خالق کی حضوری میں بالکل پُرسکون ہوتے تھے، پریشانی کا نام و نشان نہیں ہوتا تھا۔ مگر جس لمحے اُنہوں نے خدا کا قانوں توڑا وہ اپنے آپ کو بالکل فرق انداز سے دیکھنے لگے۔ اب وہ بے سکون اور پریشان ہو گئے — صرف اپنے جسمانی ننگے پن کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے روحانی ننگے پن کی وجہ سے بھی۔

حکم کی خلاف ورزی کرنے سے پہلے آدم اور حوا کو خدا کا شعور تھا اور ” وہ شرماتے نہ تھے “ (پیدائش ٢: ٢٥ )۔ اب وہ غیر فطری طور پر خود شعور (خود آگاہ) ہو گئے اور پاک خدا کے سامنے اپنے آپ کو ناپاک محسوس کرنے لگے۔ آدم اور حوا اپنے خدا کے متضاد بن گئے۔ اب وہ ناپاک تھے۔ اب وہ خدا کی حضوری کی پاکیزگی اور تابانی میں رہنا نہیں چاہتے تھے۔ جیسے روشنی ہوتے ہی لال بیگ چھپنے کو بھاگتے ہیں اُسی طرح اب آدم اور حوا نے ” تاریکی کو نور سے زیادہ پسند کیا، اِس لئے کہ اُن کے کام بُرے تھے۔ کیونکہ جو کوئی بدی کرتا ہے وہ نور سے دشمنی رکھتا ہے اور نور کے پاس نہیں آتا۔ ایسا نہ ہو کہ اُس کے کاموں پر ملامت کی جائے “ (یوحنا ٣: ١٩، ٢٠ )۔

آدم اور حوا بے نقاب ہو چکے تھے۔ وہ کامل باغ میں خود کو غیر جگہ پر محسوس کرتے تھے۔ وہ پریشان تھے۔ خدا کی آواز نے اُن پر ہیبت طاری کر دی۔ اب وہ اپنے آپ، محبت بھرے خالق کے پاس بھی نہیں آنا چاہتے تھے۔ تو بھی اُنہیں ڈھونڈنے خدا خود باغ میں آ گیا۔

خدا کی ذات کا خاصہ ہے کہ ” کھوۓ ہوؤں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے “ (لوقا ١٩: ١٠ ) آ جاتا ہے۔

خدا انسانوں کو ڈھونڈتا ہے۔

” تب خداوند خدا نے آدم کو پکارا اور کہا تُو کہاں ہے؟ اُس نے کہا مَیں نے باغ میں تیری آواز سنی اور مَیں ڈرا کیونکہ مَیں ننگا تھا اور مَیں نے اپنے آپ کو چھپایا۔ اُس نے کہا تجھے کس نے بتایا کہ تُو ننگا ہے؟ کیا تُو نے اُس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت مَیں نے تجھ کو حکم دیا تھا کہ اُسے نہ کھانا؟ “ (پیدائش ٣: ٩ ۔١١ )

خدا نے انسان سے جو پہلا سوال پوچھا اُس پر غور کریں۔

” تُو کہاں ہے؟ “

اِس چبھتے ہوئے مگر محبت بھرے سوال سے خدا نے آدم کو احساس دلایا کہ گناہ نے اُس کا اور اُس کی بیوی کا کیا حال کر دیا ہے۔ خدا چاہتا تھا کہ وہ دونوں مانیں کہ ہم نے خلاف ورزی کی ہے، قصور کیا ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ آدم اور حوا جان اور سمجھ لیں کہ گناہ ہمارے اور ہمارے پاک خداوند کے درمیان حائل ہو گیا ہے۔

اُن کی پریشانی اور خطرناک صورتِ حال کا سبب اُن کا گناہ تھا۔ گناہ ہی کے سبب سے وہ شرم محسوس کرنے لگے اور درختوں میں اور انجیر کے پتوں میں چھپنے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن آدم اور حوا خدا سے چھپ نہیں سکتے تھے اور نہ اُس عالمِ کل کے راست غضب سے بچ سکتے تھے۔

گناہ کی مزدوری موت ہے۔

خدا نے آدم سے کہا ” جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا “ (پیدائش ٢: ١٧ )۔ خدا نے مذاق نہیں کیا تھا۔ ہم اپنے دلوں میں جانتے ہیں کہ جو اپنے خالق کے خلاف بغاوت کرتے ہیں وہ سزاوار ہیں کہ اُس خالق سے جدا کر دیئے جائیں۔ ہم فلموں اور ڈراموں میں اکثر دیکھتے ہیں کہ ” بُرے لوگ “ جنہیں ہم وِلن (بدمعاش) کہتے ہیں مارے جاتے ہیں اور ” اچھے لوگ “ جنہیں ہم ہیرو کہتے ہیں کامیاب اور فتح مند ہوتے ہیں۔ کیا ہم ” بُرے لوگوں “ کے لئے افسوس کرتے ہیں؟ نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں وہ اِسی لائق تھے۔ سنجیدہ حقیقت یہ ہے کہ آدم کی ساری نسل خدا کی نظروں میں ” بُرے لوگ “ (ولن) ہے۔

” وہ سب کے سب گمراہ ہوئے۔ وہ باہم نجس ہو گئے۔ کوئی نیکوکار نہیں۔ ایک بھی نہیں “ (زبور ١٤ : ٣ )۔

خالق کے عدل کے معیار کے مطابق ہم سب موت کی سزا کے حق دار ہیں۔ خدا کی کتاب بائبل مقدس اِس کا بیان یوں کرتی ہے:

” گناہ اور موت کی شریعت “ (رومیوں ٨: ٢)۔

گناہ اور موت کی شریعت کا تقاضا ہے کہ خدا کی نافرمانی کے ہر کام کی سزا خدا سے جدائی ہے۔ اِس سے کوئی مستثنی' نہیں۔ گناہ موت لاتا ہے۔

خدا اپنی پاک اور وفادار ذات کے باعث اِس قانوں کو برقرار رکھتا ہے۔ ہمارے اصل اور پہلے والدین نے گناہ کی ایک ہی حرکت سے اپنے آپ کو خدا کی بادشاہی، راست بازی اور زندگی سے جدا کر لیا اور شیطان کی گناہ اور موت کی بادشاہی میں داخل ہو گئے۔

درخت سے کٹی ہوئی ٹہنی کی طرح وہ اُسی لمحے مر گئے۔ خدا کے ساتھ رشتہ مر گیا۔

مرجھاتی ہوئی ٹہنی کی طرح وہ جسمانی طور پر بھی مرنے لگے۔ اب تھوڑے ہی وقت کی بات تھی کہ اُن کے بدن مٹی میں واپس چلے گئے۔

سب سے بُری بات یہ تھی کہ اگر خداوند خدا اُن کے گناہ اور شرم کا مداوا نہ کرتا تو اُنہیں ابدی موت کی ہولناک کیفیت کا بھی سامںا تھا — اور خدا سے جدا ہو کر اُس ہمیشہ کی آگ میں رہنا تھا جو ابلییس اور اُس کے شیاطین کے لئے تیار کی گئی تھی۔

پاک کلام صاف صاف کہتا ہے!

” جو جان گںاہ کرتی ہے وہی مرے گی “ (حزقی ایل ١٨ : ٢٠ )۔

” کیونکہ گناہ کی مزدوری موت ہے “ (رومیوں ٦: ٢٣ )۔

” ... اور گناہ جب بڑھ چکا تو موت پیدا کرتا ہے “ (یعقوب ١: ١٥ )۔

خاص اور اچھی وجہ ہے کہ خدا اِس سنجیدہ حقیقت کو ” گناہ اور موت کی شریعت “ کہتا ہے۔ یہ ” شریعت “ —قانون، اٹل اصول ہے۔

گناہ کی سزا پر عمل درآمد ہونا چاہئے۔

اِس پر عمل درآمد ضرور ہو گا۔