۱۵ |
دُہری مشکل |
”فرار ہونے والا مجرم ٣٨ سال کی تلاش کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔“
ٹیلی وژن، ریڈیو سے اِس قسم کی خبریں اکثر نشر ہوتی رہتی ہیں۔
خبر میں بتایا گیا ہے کہ سمتھ نامی ایک شخص ١٩٦٨ عیسوی میں کیلیفورنیا کے ایک قیدخانے سے فرار ہوا تھا جہاں وہ ڈاکا زنی کے جرم میں سزا کاٹ رہا تھا۔ وہ اپنی ماں کے کنوارپن کا نام استعمال کرتے ہوۓ ٣٨ سال تک جگہ جگہ پھرتا رہا۔ آخرکار وہ امریکہ کے وسطی حصے میں ایک گھنے جنگل کے علاقے میں ایک ٹریلر میں رہنے لگا۔ یہاں پولیس نے اُسے ڈھونڈ نکالا۔
کریک کاؤنٹی کے شیرف (ناظم) کے سراغ رساں نے بتایا، ”اُس نے ذرا زمین کی طرف دیکھا، پھر نظریں اُٹھا کر بولا، جی ہاں، مَیں ہی ہوں۔۔۔، اُسے خواب و خیال بھی نہیں تھا کہ پولیس اِتنے طویل عرصے تک مجھے تلاش کرتی رہے گی“ (اے۔ بی۔ سی نیوز ٢٠ مئی ٢٠٠٦ عیسوی)۔
جیسے سمتھ قانون کا پیچھا نہ چھوڑنے والے ہاتھوں سے نہ بچ سکا اُسی طرح خدا کے قوانین کو توڑنے والا شخص راست قانون دینے والے صادق منصف کی لامحدود رسائی سے بچ نہیں سکتا۔
اور قاںون توڑنے والے کون ہیں؟
” جو کوئی گناہ کرتا ہے وہ شرع کی مخالفت کرتا ہے اور گناہ شرع کی مخالفت ہی ہے“ (١۔یوحنا ٣: ٤)۔
شرع کی مخالفت کرنا یا شرع یعنی قانون کو توڑنا ایک ہی بات ہے۔
جو کوئی خدا کے اچھے اور کامل قوانین (حکموں) کو توڑتا ہے وہ قانون شکن ہے۔ لوسیفر نے یہی کیا تھا۔ آدم اور حوا نے یہی کیا تھا۔ اور ہم نے بھی یہی کیا ہے۔
ہر ایک گناہ خدا کی مخالفت ہے۔ بہت سے لوگ اپنے گناہ کو معمولی چیز سمجھتے ہیں۔ لیکن خدا کی نظر میں سارے گنہگار جو توبہ نہیں کرتے اور معافی حاصل نہیں کرتے وہ باغی مجرم ہیں، خواہ وہ کتنے ہی ”نیک“ اور مذہب پرست کیوں نہ ہوں۔
سراب کے پیچھے بھاگنے والے یعنی رجائیت پرست
موسمی حالت کے باعث وسیع ریگستان میں ایسا نظر آتا ہے کہ دُور پانی بہہ رہا ہے۔ اِس کو سراب کہتے ہیں۔ یہ فقط نظر کا دھوکا ہوتا ہے۔
جو شخص صرف روشن پہلو پر نظر رکھے اور اُمید لگائے رکھے اُس کو رجائی یا رجائیت پرست کہتے ہیں۔
کچھ عرصہ ہوا ایک پڑوسی نے مجھ سے کہا ” مَیں رجائیت پسند ہوں۔ مجھے اُمید ہے کہ مَیں جنت میں جاؤں گا۔“
جب عدالت کا وقت آۓ گا تو کیا اُس کی رجائیت اور اُس کی اپنی کوششیں اُسے ابدی سزا سے بچا سکیں گی؟
ایک دفعہ ہم کیلیفورنیا کی وادی موت (دنیا کا ایک گرم ترین صحرا) میں سے گزر رہے تھے، تو مَیں نے دیکھا کہ دُور ایک جھیل چمک رہی ہے۔ لیکن جب ہم نزدیک پہنچے تو ”جھیل“ غائب ہو گئی۔ مَیں نے دُور آگے دیکھا تو ویسی ہی ایک اَور ”جھیل“ تھی۔ وہ بھی غائب ہو گئی۔
یہ سراب تھا۔
روشنی کی کرنیں ہوا کی پرتوں یا تہوں میں سے گزرتی ہیں جن کا درجہ حرارت اور کثافت فرق فرق ہوتی ہے تو اُن کا راستہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ اِس عمل سے سراب پیدا ہوتا ہے۔ سراب اصلی جھیل کی طرح نظر آتا ہے، لیکن یہ جھیل اصلی نہیں ہوتی۔ اِسی طرح کوئی گنہگار رجائیت پسند ہو سکتا ہے کہ مجھے جنت میں جانے کا موقع مل جائے گا۔ لیکن پاک صحائف سچائی کا انکار کرتے ہیں۔ آدم کی نسل یعنی سارے انسان اپنے آپ کو عدالت اور عدالت کی سزا سے بچانے کی سکت نہیں رکھتے۔ وہ ”کمزور“ (بلکہ بے زور) ہیں (رومیوں ٥: ٦)۔
جس طرح جھلستے ہوئے ریگستان میں کوئی شخص اپنی چھاگل سے پانی گرا دے اور راستہ کھو چکا ہو اُسی طرح بنی نوع انسان گناہ کے باعث اپنی کھوئی ہوئی ہمیشہ کی زندگی کو دوبارہ حاصل کرنے میں بے بس ہیں۔
”۔۔۔ہم سب کو مرنا ہے اور ہم زمین پر گرے ہوۓ پانی کی طرح ہو جاتے ہیں جو پھر جمع نہیں ہو سکتا“ (٢۔سموئیل ١٤:١٤ )۔
بھٹکے ہوئے آدمی کو کچھ نظر آتا ہے اور وہ سچے دل سے یقین کرتا ہے کہ نخلستان ہے جس سے میری جان بچ جاۓ گی۔ لیکن وہ ”نخلستان“ جھلس دینے والی گرمی کی لہریں ثابت ہوتا ہے۔ وہ پیاس کا مارا، جس کے جسم میں پانی بہت کم ہو گیا ہے، بوجھل قدموں سے چلتا ہوا ایک سراب سے دوسرے سراب کی طرف بڑھتا ہے اور بالآخر مر جاتا ہے۔
یہی حال گنہگار کی رجائیت پسندی، اخلاص اور اپنی کوشش سے جنت حاصل کرنے کی تعلیم دینے والے مذاہب کا ہے۔
” ایسی راہ بھی ہے جو انسان کو سیدھی معلوم ہوتی ہے پر اُس کی انتہا میں موت کی راہیں ہیں“ (امثال ١٤ : ١٢ )۔
اپنی گناہ آلودہ حالت کا کچھ ازالہ کرنے کی خاطر دنیا بھر میں کروڑوں لوگ آج بھی ایسی راہوں پر چل رہے ہیں جو اُنہیں درست اور سیدھی معلوم ہوتی ہیں۔ وہ مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔ شرعی طریقوں سے اپنے بدنوں کو دھوتے ہیں، رٹی رٹائی دعائیں میکانکی انداز میں دہراتے ہیں، بعض قسم کے کھانوں سے پرہیز کرتے ہیں، خیرات کرتے ہیں، موم بتیاں اور دیئے جلاتے ہیں، تسبیح پر اُنگلیاں چلاتے ہیں، دیگر ورد زبانی یاد کر کے دہراتے ہیں اور ایسے کام کرتے ہیں جن کے بارے میں یقین رکھتے ہیں کہ یہ ”نیک کام“ ہیں۔ بعض لوگ اپنے مذہبی لیڈروں کی اطاعت کرتے ہیں اور بعض لوگ اُمید رکھتے ہیں کہ اگر ہم کسی پاکیزہ اور سچے مقصد کی خاطر شہید ہوں گے تو جنت میں جائیں گے۔
کیا ممکن ہے کہ وہ کسی سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہوں؟
اپنے آپ کے بارے میں سچا نظریہ
ایک وُلوف ضرب المثل ہے کہ ”سچائی (تیز) کالی مرچ نہیں ہے۔“
سچائ اگرچہ ہمیں پریشان کرتی اور تکلیف دیتی ہے تو بھی خدا ہمارے بارے میں بے رحم سچائی بتاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم اپنے گناہ کے بارے میں اُس کے سامنے دیانت دار ہوں۔ اگر ہم دیانت دار نہیں تو ہم اُس سخت بیمار خاتون کی مانند ہیں جو ہماری پڑوسن تھی اور ہمارے اُس کے ساتھ گہرے مراسم تھے۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ مجھے کسی اچھے ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔ وہ زور دے کر کہتی تھی کہ مَیں ٹھیک ہو جاؤں گی۔ چند ہی ہفتوں بعد وہ فوت ہو گئی۔
اپنی زمینی زندگی کے دوران مسیح خداوند نے اپنے آپ کو راست باز اور نیکوکار سمجھنے والے مذہبی راہنماؤں کے ایک گروپ سے کہا:
” تندرستوں کو طبیب کی ضرورت نہیں بلکہ بیماروں کو۔ مَیں راست بازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو بلانے آیا ہوں“ (مرقس ٢: ١٧ )۔
پاک صحائف کے صاف صاف بیان کے باوجود ہر مذہب کے عبادت خاںوں میں لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ تم کافی نیک ہو، بس تھوڑی سی اَور کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ خدا کی اصل اور خالص راست بازی کی تعلیم نہیں دیتے اور نہ گناہ کے ہولناک نتائج بتاتے ہیں۔
کینیڈا کے ایک عبادت خانہ کے دروازے پر مَیں نے یہ پیغام لکھا ہوا دیکھا:
”ہم ہر ایک کو قبول کرتے ہیں اور
کسی کو نہیں کہتے کہ تُو گنہگار ہے۔“
خدا نے فردوس کے پھاٹک پر فرق پیغام چسپاں کر رکھا ہے:
”کوئی شخص جو گھنونے کام کرتا ہے ۔۔۔
ہر گز داخل نہ ہو گا۔“
(مکاشفہ ٢١ :٢٧ )
پاک کلام کہتا ہے ”سب نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں“ (رومیوں ٣: ٢٣ )۔ خدا کسی کو اُس کی خوبیوں (اچھے اعمال) کی بنیاد پر قبول نہیں کرتا۔ وہ سب کو کہتا ہے تم گنہگار ہو۔
فردوس میں صرف وہی داخل ہوں گے جو اُس طریقے سے دُھل کر صاف ہوں گے جو اُس (خدا) کے عدل اور پاکیزگی کے معیار کے مطابق ہے۔
خدا کے بارے میں درست نظریہ
ایک دن یسعیاہ نبی کو خدا کی کامل قدوسیت اور ہیبت ناک جلال کا رَویا دکھایا گیا۔ یسعیاہ نے لکھا ہے:
” جس سال عزیاہ بادشاہ نے وفات پائی مَیں نے خداوند کو ایک بڑی بلندی پر اونچے تخت پر بیٹھے دیکھا اور اُس کے لباس کے دامن سے ہیکل معمور ہو گئی۔ اُس کے آس پاس سرافیم کھڑے تھے جن میں سے ہر ایک کے چھ بازو تھے اور ہر ایک دو سے اپنا منہ ڈھانپے تھا اور دو سے پاؤں اور دو سے اُڑتا تھا۔ اور ایک نے دوسرے کو پکارا اور کہا قدوس قدوس قدوس رب الافواج ہے۔ ساری زمین اُس کے جلال سے معمور ہے اور پکارنے والے کی آواز کے زور سے آستاںوں کی بنیادیں ہل گئیں اور مکان دھوئیں سے بھر گیا۔ تب مَیں بول اُٹھا کہ مجھ پر افسوس! مَیں تو برباد ہوا! کیونکہ میرے ہونٹ ناپاک ہیں اور نجس لب لوگوں میں بستا ہوں، کیونکہ میری آنکھوں نے بادشاہ رب الافواج کو دیکھا“ (یسعیاہ ٦: ١۔ ٥ )۔
آسمان پر خدا کے اِرد گرد آگ کی طرح روشن جلال اِتنا درخشاں ہے کہ کامل طور پر پاک فرشتے بھی اپنے چہرے اور پاؤں ڈھانپے رکھتے ہیں۔ اُن فرشتوں پر خدا کے قدس اور جلال کی ایسی ہیبت ہے کہ وہ اُس کی حضوری میں بیٹھ نہیں سکتے بلکہ وہ اُس کے تخت کے چاروں طرف اُڑتے اور پکارتے رہتے ہیں ”قدوس، قدوس، قدوس رب الافواج ہے۔ ساری زمین اُس کے جلال سے معمور ہے۔“
کیا وجہ ہے کہ انسان گناہ کی اصلیت کو نہیں دیکھ سکتے؟
شاید اِس لئے کہ اُنہوں نے کبھی خدا کو نہیں دیکھا کہ وہ کون اور کیسا ہے۔ اُنہوں نے اُس کی جھلکتی بلکہ دہکتی ہوئی پاکیزگی (قدس) پر کبھی دھیان نہیں دیا، کبھی غور نہیں کیا۔ یسعیاہ خدا کا دین دار نبی تھا۔ تو بھی خداوند کے پاک جلال کی رَویا نے اُسے اُس کی اپنی ناپاکی، آلودگی اور گھنونے پن کا گہرا احساس دلایا۔ وہ پکار اُٹھا ”مجھ پر افسوس! کیونکہ میرے ہونٹ ناپاک ہیں!“
خداوند کے ساتھ موازنہ کرنے سے یسعیاہ جانتا تھا کہ مَیں اور اسرائیل کی ساری قوم کی حالت نہایت خستہ اور ناگفتہ بہ ہے!
بعد میں یسعیاہ نے لکھا ”ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پھرا“ ۔۔۔ ”۔۔۔ہم تو سب کے سب ایسے ہیں جیسے ناپاک چیز اور ہماری تمام راست بازی ناپاک لباس کی مانند ہے“ (یسعیاہ ٥٣ : ٦ ؛ ٦٤: ٦)۔ یسعیاہ جانتا تھا کہ رسمی نہانا دھونا یا اپنی ساری کوششیں بھی مجھے خداوند کے حضور پاک نہیں ٹھہرا سکتیں۔ اپنے پاک خالق کی نظروں میں ”ہم سب کے سب ایسے ہیں جیسے ناپاک چیز۔“
شرعی یا رسمی طور سے نہانا دھونا پرانے عہدنامے کی شریعت کا حصہ تھا (دیکھئے استثنا کی کتاب)۔ اِس کا مقصد گنہگاروں کو سکھانا تھا کہ تم خدا کے حضور روحانی طور سے ناپاک ہو۔ چونکہ خدا نے مسیحِ موعود کے وسیلے سے کامل پاکیزگی اور راست بازی مہیا کر دی ہے اِس لئے اب اِن رسموں کی کوئی ضرورت نہیں (پڑھیں اعمال باب ١٠ اور کلسیوں باب ٢ )۔ تاہم آج بھی بہت سے مذاہب ظاہری اور رسمی پاکیزگی اور نہانے دھونے پر بہت زور دیتے ہیں۔ مجھے لندن سے ایک مسلم شخص کی طرف سے یہ ای میل آئی: ”مسیحیوں سمیت سارے غیر مسلم گندے اور ناپاک ہیں۔ مسلمان بہت پاک صاف اور اللہ کے نزدیک ہیں کیونکہ وہ (شرع کے مطابق) نہاتے دھوتے اور وضو کرتے ہیں۔۔۔“
ایوب نبی نے انسان کی آلودہ اور نجس حالت کو سمجھا۔ اُس نے کہا ”۔۔۔ انسان خدا کے حضور کیسے راست باز ٹھہر سکتا ہے؟ ۔۔۔ اگر مَیں اپنے کو برف کے پانی سے دھوؤں اور اپنے ہاتھ کتنے ہی صاف کروں تو بھی تُو مجھے کھائی میں غوطہ دے گا اور میرے ہی کپڑے مجھ سے گھن کھائیں گے“ (ایوب ٩: ٢ ، ٣٠ ، ٣١ )۔ اور یرمیاہ نبی نے خدا کی یہ بات لکھی ”ہر چند تُو اپنے آپ کو سجی (سوڈا) سے دھوۓ اور بہت سا صابون استعمال کرے تو بھی خداوند خدا فرماتا ہے تیری شرارت کا داغ میرے حضور عیاں ہے“ (یرمیاہ ٢: ٢٢ )۔
خدا کے بارے میں درست نظریے سے اپنے بارے میں درست نظریہ پیدا ہوتا ہے۔ اپنے خالق کے بارے میں ناقص سوچ کے باعث ہمارے اپنے بارے میں غرور اور خود پسندی کی سوچ پیدا ہوتی ہے۔
کوئی شخص جو نہایت گندے، غلیظ اور بیماری کے جراثیم سے لت پت چیتھڑے پہنے ہو تصور کر سکتا ہے کہ مَیں بالکل صاف ستھرا اور قابل قبول ہوں، لیکن یہ سوچ اُسے ایسا تو نہیں بنا دے گی۔
خدا کے جلال اور اُس کی راست بازی کے مقابلے میں ہماری بہترین کوششیں بھی ”ناپاک لباس“ (گندی دھجیوں) کی مانند ہیں۔
سب کے لئے سبق
بنی اسرائیل کی قوم بنانے اور تیار کرنے میں خدا کا ایک مقصد یہ تھا کہ ساری قوموں کو چند اہم سبق سکھائے۔ بے شک خداوند خدا اسرائیل کے ساتھ ہمیشہ وفادار تھا (اور ہے)۔ لیکن اسرائیلی خدا سے لگاتار بے وفائی کرتے رہے۔ خدا چاہتا ہے کہ ہم اُن سے سبق سیکھیں۔ ”یہ باتیں ہمارے واسطے عبرت ٹھہریں تاکہ ہم بُری چیزوں کی خواہش نہ کریں جیسے اُنہوں نے کی“ (١۔کرنتھیوں ١٠ : ٦)۔
توریت کی دوسری کتاب بنام ”خروج“ میں موسی' نے لکھا ہے کہ اسرائیلی گناہ کو ویسا نہیں دیکھتے تھے جیسا خدا دیکھتا ہے۔ اسرائیلی صدیوں سے مصر کی غلامی میں تھے۔ خدا اپنے زور آور بازو سے، اپنی قدرت اور طاقت سے اُنہیں غلامی کے گھر سے نکال لایا۔ لیکن وہ خداوند خدا اور اُس کی ذات اور صفات کے بارے میں اب تک بہت کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ وہ یہی خیال کرتے تھے کہ ہم بہت فرماں بردار ہیں اور خدا کے غضب سے بچ جائیں گے۔
” بنی اسرائیل کو اپنے اوپر اتنا اعتماد تھا کہ اُنہوں نے موسی' سے کہا جو کچھ خداوند نے فرمایا ہے وہ سب ہم کریں گے“ (خروج ١٩ :٨ )۔
وہ اپنے آپ کو بے بس گنہگار نہیں سمجھتے تھے اور نہ جانتے تھے کہ کامل راست بازی کے لئے خدا کا تقاضا کیا ہے۔وہ بھول گئے تھے کہ صرف ایک ہی گناہ نے آدم اور حوا کو اپنے خالق (خدا) سے جدا کر دیا تھا۔ خدا چاہتا تھا کہ یہ لوگ اپنے گناہ کو دیکھیں اور شرم محسوس کریں۔ یہ دیکھنے اور سمجھنے میں اُن کی مدد کرنے کے لئے خدا نے اُنہیں دس نکاتی اِمتحانی پرچہ دیا۔ اُن دس نکات سے وہ اپنے آپ کو جانچ پرکھ سکتے تھے۔
بائبل مقدس بیان کرتی ہے کہ خداوند خدا اپنی پوری قدرت اور جلال کے ساتھ کوہِ سینا پر اُترا ”۔۔۔ بادل گرجنے اور بجلی چمکنے لگی اور پہاڑ پر کالی گھٹا چھا گئی اور قرنا کی آواز بہت بلند ہوئی اور سب لوگ ڈیروں میں کانپ گئے“ (خروج ١٩ :١٦ )۔ اُس وقت خدا نے بلند آواز سے دس احکام اُنہیں سنائے۔
خدا نے سارے حکم زبانی سنائے (خروج باب ٢٠ )۔ اِس کے بعد خدا نے موسی' کو پہاڑ پر بلایا اور اُسے پتھر کی دو لوحیں دیں جن پر یہ احکام کندہ تھے (خروج ٢٤ : ١٢ ؛ ٣١ : ١٨ ) — ”۔۔۔ وہ لوحیں خدا ہی کی بنائی ہوئی تھیں اور جو لکھا ہوا تھا وہ بھی خدا ہی کا لکھا اور اُن پر کندہ کیا ہوا تھا“ (خروج ٣٢ : ١٦ )۔
دس حکم
١۔ میرے حضور تُو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔
اپنی زندگی کے ایک ایک دن میں اپنے پورے دل ، اپنی پوری عقل اور اپنی پوری طاقت سے خدا کو نہ ماننا، گناہ ہے (خروج باب ٢٠ )۔
٢۔ تُو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا ۔۔۔ تُو اُن کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ اُن کی عبادت کرنا۔
یہ حکم کسی بت یا مورت یا کسی بھی چیز کے آگے جھکنے اور اُسے سجدہ کرنے اور اُس کی تعظیم کرنے تک محدود نہیں۔ کسی بھی چیز (خواہش، رویہ، عادت) کو خدا کی جگہ دینا اِس حکم (قانون) کی خلاف ورزی ہے۔
٣۔ تُو خداوند اپنے خدا کا نام بے فائدہ نہ لینا۔
اگر آپ واحد حقیقی خدا کی اطاعت کرنے کا دعوی' کرتے ہیں، لیکن اُسے جاننے اور اُس کے کلام (کلمہ) کی فرماں برداری کرنے کے طالب نہیں ہوتے تو آپ خداوند کا نام بے فائدہ لیتے ہیں۔
٤۔یاد کر کے تُو سبت کا دن پاک ماننا ۔۔۔اُس میں نہ تُو کوئی کام کرے نہ ۔۔۔
خدا کا تقاضا تھا کہ میری (خدا کی) تعظیم کی خاطر اسرائیلی ساتویں دن کوئی کام نہ کریں۔
٥۔ تُو اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کرنا۔
کامل فرماں برداری میں ذرا بھی کسر ہو تو گناہ ہے۔ جو بچہ والدین کی عزت نہیں کرتا یا اُن کے ساتھ بُرا رویہ رکھتا ہے وہ اِس حکم کی خلافی ورزی کرتا ہے۔
٦۔ تُو خون نہ کرنا۔
خدا نے یہ بھی فرمایا ہے ”جو کوئی اپنے بھائی سے عداوت رکھتا ہے وہ خونی ہے“ (١۔یوحنا ٣: ١٥ )۔ عداوت، قتل کے برابر ہے۔ خدا دلوں کو دیکھتا ہے اور سارا وقت بے لوث، بے غرض محبت کا تقاضا کرتا ہے۔
٧۔ تُو زنا نہ کرنا۔
یہ حکم نہ صرف جسم کے غیر اخلاقی استعمال سے منع کرتا ہے بلکہ دل و دماغ میں ناپاک خیالات لانے سے بھی منع کرتا ہے۔ ”جس کسی نے بُری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اُس کے ساتھ زنا کر چکا۔“ (متی ٥: ٢٨ )
٨۔ تُو چوری نہ کرنا۔
اپنے جائز حصے یا حق سے زیادہ لے لینا، ٹیکس میں ڈنڈی مارنا، امتحان میں نقل کرنا یا اپنے مالک کے لئے دیانت داری سے کام نہ کرنا، یہ سب چوری کرنے کی مختلف شکلیں ہیں۔
٩۔ تُو اپنے پڑوسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دینا۔
کسی شخصی، کسی چیز یا کسی واقعہ کے بارے میں کوئی ایسا بیان دینا یا بات کرنا جو پورا سچ نہ ہو، گناہ ہے۔
١٠۔ تُو اپنے پڑوسی کے گھر کا لالچ نہ کرنا۔
جو چیز کسی دوسرے کی ملکیت ہے اُس کی طلب رکھنا گناہ ہے۔ جو کچھ ہمارے پاس ہے اُسی پر قناعت کرنی چاہئے۔
قصور وار !
خداوند خدا اِن دس حکموں کا اعلان کر چکا تو کیا ہوا؟ پاک کلام بیان کرتا ہے کہ ”سب لوگوں نے بادل گرجتے اور بجلی چمکتے اور قرنا کی آواز ہوتے اور پہاڑ سے دھواں اُٹھتے دیکھا اور جب لوگوں نے یہ دیکھا تو کانپ اُٹھے اور دُور کھڑے ہو گئے۔“ (خروج ٢٠ : ١٨ )
اب وہ ڈینگیں نہیں مار رہے تھے کہ ”جو کچھ خداوند نے فرمایا ہے وہ سب ہم کریں گے۔“
وہ امتحان میں ناکام ہو گئے تھے۔
آپ کا کیا حال ہے؟ آپ امتحان میں کیسے رہے؟
اگر آپ نے دسوں حکموں میں سو فیصد (اِس کا مطلب ہے کہ اپنی پیدائش سے لے کر اِس لمحے تک ہر روز ٢٤ گھنٹے، ہفتے میں ٧ دن) سے کم نمبر لئے ہیں تو آپ بنی اسرائیل کی مانند، اور میری مانند امتحان میں ناکام ہو گئے ہیں۔
”کیونکہ جس نے ساری شریعت پر عمل کیا اور ایک ہی بات میں خطا کی وہ سب باتوں میں قصوروار ٹھہرا“ (یعقوب ٢: ١٠ )۔
اِس کتاب کے پہلے باب میں ہم نے دیکھا تھا کہ بائبل مقدس نہ صرف دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب ہے، بلکہ سب سے زیادہ کترائی جانے والی کتاب بھی ہے۔ اِس کے اِتنی نامقبول ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ہمارے گناہ کو ظاہر کر دیتی ہے اور ہمارے غرور کو تار تار کر دیتی ہے۔ یہ ہمیں کہتی ہے ”تُو کہتا ہے کہ مَیں دولت مند ہوں اور مال دار بن گیا ہوں اور کسی چیز کا محتاج نہیں اور یہ نہیں جانتا کہ تُو کم بخت اور خوار اور غریب اور اندھا اور ننگا ہے“ (مکاشفہ ٣: ١٧ )۔ بائبل مقدس یہ بھی کہتی ہے ”۔۔۔ زمین پر کوئی ایسا راست باز انسان نہیں کہ نیکی ہی کرے اور خطا نہ کرے“ (واعظ ٧: ٢٠ )۔
خدا کی شریعت ہمیں اپنے بارے میں کچھ اچھا احساس نہیں دلاتی۔
دس حکم کیوں؟
اِن حکموں کا مقصد کیا ہے؟ اگر کوئی انسان خدا کے معیار پر پورا نہیں اُتر سکتا تو خدا نے یہ معیار بتایا ہی کیوں؟
واضح وجہ تو یہ ہے کہ خدا نے یہ دس حکم اِس لئے دیئے کہ بنی نوع انسان کو ایک واضح اور صاف اخلاقی معیار مہیا ہوتا کہ معاشرے میں نظم اور باقاعدگی قائم رہے۔ جس ثقافت یا تہذیب میں اتفاق رائے نہ ہو کہ کیا غلط اور کیا درست ہے، وہاں طوائف الملوکی، لاقانونیت اور ظلم و جبر کا دور دَورہ ہوتا ہے۔ خدا جانتا ہے کہ معاشرے میں قانون کی حکومت کی ضرورت ہے۔ لیکن خدا نے جو دس حکم دیئے تو چند مزید اہم اور ضروری وجوہات بھی تھیں۔
”۔۔۔ تاکہ ہر ایک کا منہ بند ہو جائے اور ساری دنیا خدا کے نزدیک سزا کے لائق ٹھہرے کیونکہ شریعت کے اعمال سے کوئی بشر اُس کے حضور راست باز نہیں ٹھہرے گا اِس لئے کہ شریعت کے وسیلہ سے تو گناہ کی پہچان ہی ہوتی ہے“ (رومیوں ٣: ١٩ ۔ ٢٠ )۔
دس حکموں کے تین کام
١۔ خدا کی شریعت خود کو راست باز ٹھہرانے والوں کا منہ بند کر دیتی ہے۔ ”۔۔۔ تاکہ ہر ایک کا منہ بند ہو جاۓ اور ساری دنیا خدا کے نزدیک سزا کے لائق ٹھہرے“ (رومیوں ٣: ١٩ )۔ دس حکم ہم پر واضح کرتے ہیں کہ آپ اپنے آپ کو کتنا ہی نیک کیوں نہ سمجھتے ہوں مگر خدا کی کامل راست بازی کے معیار پر کبھی پورا نہیں اُتر سکتے، اُس کے معیار کا تقاضا پورا نہیں کر سکتے۔ آپ شریعت کو توڑنے کے مجرم ہیں۔ فخر کرنا اور ڈینگیں مارنا چھوڑ دو (دیکھئے لوقا ١٨ : ٩ ۔ ١٤ ؛ افسیوں ٢: ٨،٩)۔
٢۔ خدا کی شریعت ہمارا گناہ ظاہر کر دیتی ہے، کیونکہ شریعت گناہ کی پہچان کراتی ہے۔ شریعت ایکس رے کی طرح ہے۔ ایکس رے کی تصویر ٹوٹی ہوئ ہڈی تو دکھا دیتی ہے، لیکن اُسے جوڑ نہیں سکتی۔ اِسی طرح ”شریعت کے اعمال سے کوئی بشر اُس کے حضور راست باز نہ ٹھہرے گا“ یعنی اِتنا نیک ثابت نہیں ہو گا کہ ہمیشہ کی زندگی پاۓ۔ دس حکم آئینے کی مانند ہیں جو انسان کو اُس کا گندہ چہرہ دکھا دیتا ہے، لیکن میل کچیل کو دھو کر دُور نہیں کر سکتا۔
چند سال ہوۓ مَیں نے سینیگال میں رومن کیتھولک فرقے سے تعلق رکھنے والے مڈل سکول کے ایک ریاضی کے اُستاد کو خدا کی شریعت کے مقصد کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ یہ اُس کے لئے ایک حیرت ناک اور چونکا دینے والا انکشاف تھا۔ اُس نے حسرت بھری آواز سے کہا، ” ٹھیک ہے، دس حکم ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم خدا کے حضور بے بس گنہگار ہیں۔ وہ پاک ہے اور ضرور ہے کہ گناہ کی عدالت کرے اور ہم اپنے نیک اعمال یا دعاؤں یا روزوں کے ذریعہ سے اپنے آپ کو بچا نہیں سکتے۔ تو پھر ہم خدا کے حضور کیسے قابلِ قبول ٹھہر سکتے ہیں؟ حل کیا ہے؟“
٣۔ خدا کی شریعت ہمیں خدا کا حل بتاتی ہے۔ جس طرح ہسپتال میں ایکسرے لینے والا ٹوٹی ہوئی ٹانگ والے شخص کو بتاتا ہے کہ فلاں مانے ہوئے ڈاکٹر کے پاس جاؤ وہ ٹوٹی ہڈیاں جوڑ سکتا ہے، اِسی طرح شریعت اور انبیا ہمیں اُس واحد ”معالج“ کے پاس جانے کی ہدایت کرتے ہیں جو ”شریعت کی لعنت سے چھڑا“ سکتا ہے (گلتیوں ٣: ١٣ )۔ تھوڑی دیر بعد ہم اِس نکتے پر مزید بات کریں گے۔
مسیحِ موعود واحد ہستی ہے جس نے خدا کے سارے حکموں پر پورا پورا عمل کیا۔ صرف وہی کہہ سکتا ہے ”اے میرے خدا! میری خوشی تیری مرضی پوری کرنے میں ہے، بلکہ تیری شریعت میرے دل میں ہے“ (زبور ٤٠ : ٨ )۔ شریعت اُسی کی طرف ہماری راہنمائی کرتی ہے ”شریعت مسیح تک پہنچانے کو ہمارا اُستاد بنی تاکہ ہم ایمان کے سبب سے راست باز ٹھہریں“ (گلتیوں ٣: ٢٤ )۔ انسان کے گناہ کے لئے خدا کے حل کا پورا خاکہ رومیوں ٣: ٢٠ ۔ ٢٧ میں پیش کیا گیا ہے۔
بچاؤ !
اگر آپ ڈوب رہے ہوں اور کوئ نزدیک ہو جو آپ کو بچا سکتا ہو تو کیا آپ اِتنا غرور کریں گے کہ اُسے نہ پکاریں؟
یہ تسلیم کرنا شکست کی بات نہیں ہے کہ مَیں اپنے آپ کو گناہ کی سزا سے جو موت ہے بچا نہیں سکتا۔ یہ فتح کی طرف پہلا قدم ہے۔ انسان کو مدد کی ضرورت ہے۔ یہ مدد صرف خدا مہیا کر سکتا ہے۔
بہت مشہور کہاوت ہے کہ ”ہمتِ مرداں مددِ خدا“ یعنی انسان ہمت کرے تو خدا بھی مدد کرتا ہے۔ بے شک یہ کہاوت زندگی کے کئی شعبوں پر اطلاق کرتی ہے۔ لیکن جب ہماری گناہ سے آلودہ اور مُردہ روحانی حالت کی بات ہو تو اِس کے بالکل اُلٹ بات صادق آتی ہے۔ خدا اُن کی مدد کرتا ہے جو جانتے اور مانتے ہیں کہ ہم اپنی مدد نہیں کر سکتے۔
خدا اُن کی مدد کرتا ہے جو مانتے ہیں کہ ہمیں نجات دہندہ، چھڑانے اور بچانے والے کی ضرورت ہے۔
ایک عام افریقی ضرب المثل ہے کہ لکڑی کا لٹھا مدتوں پانی میں پڑا رہے لیکن مگر مچھ نہیں بنے گا۔ اِسی طرح انسان بھی اپنی نجس اور گھنونی فطرت کو بدل کر راست باز نہیں بن سکتا۔
نجس ہو گیا
پھر آدم کو یاد کریں۔ خدا نے اُسے ایک حکم دیا تھا۔
”نیک و بد کی پہچان کے درخت کا (پھل) کبھی نہ کھانا۔“
اگر آدم اور حوا اپنے خالق کا حکم مانتے تو وہ ہمیشہ تک زندہ رہ سکتے تھے اور اُس کے ساتھ اُن کا خوش گوار رشتہ اور گہرا ہو سکتا تھا۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔
ہمارے اوّلین والدین نے حکم عدولی کی اور خدا کے ساتھ اُن کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ اب گنہگار ہو گئے اور اپنے آپ کو خدا سے چھپانے کی کوشش کرنے لگے۔ اُنہیں شرم محسوس ہو رہی تھی۔ اُنہوں نے اپنا ننگا پن انجیر کے پتوں سے ڈھانپنے کی کوشش کی۔ لیکن خدا نے اُنہیں ڈھونڈ نکالا۔ اُس نے اُنہیں اپنے عدل اور رحم کی جھلک دکھائی اور پھر اپنی حضوری سے نکال دیا۔ وہ (خدا) واپسی کا راستہ مہیا نہ کرتا تو وہ ہمیشہ تک باہر (فردوس بدر) رہتے۔ وہ اپنے پاک اور قدوس خالق اور منصف کے حضور میں نجس اور ملعون تھے۔
یہاں ایک اہم سوال سامنے آتا ہے۔ آدم اور حوا کو کتنے گناہ کرنے تھے جن کے بعد خدا اُنہیں باغِ عدن سے نکال دیتا؟
صرف ایک گناہ سے یہ کام ہو گیا۔
اُنہوں نے ماضی میں کتنے بھی ”نیک اعمال“ کۓ ہوتے یا بعد میں کتنی بھی کوشش کرتے، تو بھی اُس صرف ایک گناہ کے نتائج کو باطل نہیں کر سکتے تھے۔
”نیک ہونا“ خدا کا معمول کا معیار ہے۔ جب آدم نے گناہ کیا تو وہ خدا کے معیار کے مطابق ”نیک“ نہ رہا۔ وہ خالص پانی سے بھرے ہوئے گلاس کی مانند ہو گا جس میں کوئ ایک قطرہ سنکھیا ڈال دے۔ اگر گلاس میں زہریلا پانی ہو، اور اُس میں اور خالص پانی ڈالیں تو کیا اُس کا زہر نکل جاۓ گا؟ نہیں۔ اِسی طرح ہم کتنے بھی نیک کام کریں گناہ کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ گناہ کا نتیجہ موقوف نہیں ہو گا۔ لیکن اگر نیک اعمال گناہ کو دُور کر بھی سکتے تو بھی ہمارے پاس ”خالص پانی“ نہیں ہے۔ صحیح معنوں میں نیک اعمال ہیں نہیں جو اپنی گناہ آلود سرشت میں ڈال سکیں۔
ہماری بڑی بڑی کوششیں خدا کی نظر میں آلودہ اور نجس ہیں۔
آدم کی روح گناہ سے آلودہ ہو چکی تھی — اور حوا کی بھی اور ہماری بھی۔ ہم سب اُسی آلودہ سرچشمہ سے نکلے ہیں۔ داؤد نبی ہمیں خدا کا فیصلہ سناتا ہے:
” خداوند نے آسمان پر سے بنی آدم پر نگاہ کی تاکہ دیکھے کہ کوئ دانش مند، کوئی خدا کا طالب ہے یا نہیں۔ وہ سب کے سب گمراہ ہوۓ۔ وہ باہم نجس ہو گئے۔ کوئی نیکوکار نہیں۔ ایک بھی نہیں“ (زبور ١٤ : ٢، ٣)۔
ہمارا دُہرا مسئلہ
ایک سو سال پرانا واقعہ سنایا جاتا ہے کہ برطانوی جیل میں ایک آدمی قید تھا۔ اُسے سزاۓ موت ہو چکی تھی۔ ایک دن اُن کی کالی کوٹھڑی کا دروازہ کھلا اور جیلر اندر آیا اور بولا ”خوش ہو جاؤ! ملکہ معظمہ نے تمہاری سزا معاف کر دی ہے۔“
جیلر کو سخت حیرت ہوئ کیونکہ اُس آدمی نے کوئی ردِ عمل نہ دکھایا۔
جیلر نے دستاویز کو اُس کی آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوۓ کہا، ”میاں، خوش ہو جاؤ۔ یہ ہے معافی نامہ، ملکہ نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔“
اب اُس نے اپنی قمیص اُٹھائ اور ایک خوف ناک سی رسولی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہنے لگا، ”مجھے سرطان ہے۔ یہ چند دنوں یا ہفتوں میں مجھے مار ڈالے گا۔ اگر ملکہ اِسے نہیں نکالتی تو میرے لئے معافی بے کار ہے۔“
وہ شخص جانتا تھا کہ مجھے جرائم کی معافی سے زیادہ کوئی چیز چاہئے— اُسے نئ زندگی چاہئے تھی۔
آدم کی نسل کا ہر شخص اُس آدمی جیسا ہے جسے سزاۓ موت ہو چکی تھی۔ ہم پیدائشی گنہگار ہیں اور اپنی مرضی، اپنے چناؤ سے بھی گنہگار ہیں۔ ہم دُہرے مخمصے میں ، دُہری مصیبت میں پھنسے ہوۓ ہیں۔ ہمیں ضرورت ہے کہ خدا کے خلاف جرائم کی معافی ملے اور ہمیں ضرورت ہے کہ خدا سے راست باز اور ابدی زندگی ملے جس سے ہم خدا کی پاک حضوری میں رہنے کے قابل ہو جائیں۔ ہماری دُہری مصیبت یہ ہے:
- گناہ: ہم گنہگار ہیں۔ صرف خدا ہی ہمیں گناہ سے پاک صاف کر سکتا اور ہمیں ابدی سزا سے چھڑا سکتا ہے۔
ہمیں خدا کی معافی کی ضرورت ہے۔ - شرمندگی: ہم روحانی طور سے ننگے ہیں۔ صرف خدا ہی ہمیں اپنی راست بازی سے ملبس کر سکتا ہے اور اپنی ابدی زندگی دے سکتا ہے۔
ہمیں خدا کی کاملیت کی ضرورت ہے۔
ہمارے گناہ اور شرمندگی کو دُہرے علاج کی ضرورت ہے جو ہم مہیا نہیں کر سکتے ہیں۔
خوش خبری یہ ہے کہ خدا نے یہ دُہرا علاج مہیا کر دیا ہے۔