۱۴
لعنت

اب بات چھپانے اور بہانے بنانے کا وقت گزر چکا تھا۔

آدم نے اپنی راہ چن لی تھی، لیکن اُسے اِس راہ کے نتائج چننے کا اختیار نہ تھا۔ پوری کائنات خاموش رہے گی اور عادل منصف وہ لعنتیں اور نتائج سنائے گا جو انسان کے گناہ نے پیدا کر دیئے ہیں۔

سانپ

خدا نے پہلے ”اُس سانپ“ کو سزا سنائی کہ اُس کا حشر کیا ہو گا۔

” ... خداوند خدا نے سانپ سے کہا اِس لئے کہ تُو نے یہ کیا تُو سب چوپایوں اور دشتی جانوروں میں ملعون ٹھہرا۔ تُو اپنے پیٹ کے بل چلے گا اور اپنی عمر بھر خاک چاٹے گا اور مَیں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا۔ وہ تیرے سر کو کچلے گا اور تُو اُس کی ایڑی پر کاٹے گا“ (پیدائش ٣: ١٤، ١٥ )۔

   یہ سانپ کون تھا جس سے خدا بات کر رہا تھا؟ کیا خالق ایک رینگنے والے جانور پر غصے ہو رہا تھا؟

پاک کلام میں درج خدا کی باتوں میں اور خاص کر تمثیلوں اور پیش گوئیوں میں دُہرا پیغام ہوتا ہے۔ ایک تو واضح اور سامنے کا ہوتا ہے اور دوسرا زیادہ گہرا اور کم نمایاں ہوتا ہے۔ اِس اعلان میں بھی یہی بات ہے۔

سانپ پر جو لعنت بھیجی گئی اُس کے دو پہلو ہیں۔ اُس کی دو سطحیں ہیں۔

پہلا پہلو — دائمی مثال

سانپ کو فیصلہ سنانے اور اُس پر لعنت کرنے سے خداوند خدا بنی آدم کو ایک دائمی سبق سکھانا چاہتا تھا۔ جس رینگنے والے جانور کو شیطان نے انسان کو گناہ کرنے کی آزمائش میں ڈالنے کے لئے استعمال کیا تھا اب سے وہ زمین پر سرک سرک کر چلا کرے۔ سارے سانپوں کی یہی خصلت ہو گی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آدم اور حوا کے گناہ کرنے سے پہلے سانپوں کی بھی ٹانگیں ہوتی تھیں جیسے دوسرے پیٹ کے بل چلنے والے جانوروں کی ہیں۔ مثلاً سانپ کی قسم کے بعض جانور جیسے اژدہا اور اجگر میں ٹانگ کے بالائی حصوں کی ہڈیوں کی باقیات اب بھی موجود ہیں۔

اژدہا اور اجگر کی کھال کے نیچے آگے کو نکلی ہوئی چھوٹی چھوٹی ہڈیاں ہوتی ہے جن کی شکل بند مُٹھی سے ملتی جلتی ہے اور ان سے آگے تقریباً  آدھا انچ لمبے مُڑے ہوئے ناخن ہوتے ہیں جو مقعد کے قریب پیٹ کے پاس چھپے ہوتے ہیں۔ بند مٹھی جیسی یہ ہڈیاں ٹانگیں نہیں ہیں بلکہ ٹانگوں کے بالائی حصے کی ہڈیوں کی باقیات ہیں۔ نر سانپ اب بھی ایڑیوں کو استعمال کرتے ہیں، لیکن صرف مادہ سے میل کرنے اور لڑنے کے موقع پر، چلنے کے لئے نہیں۔ دوسری قسموں کے سانپوں کی ٹانگیں نہیں ہوتیں۔ بعض لوگ اِس حقیقت کی تشریح کر کے نظریہ ارتقا کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

گناہ نے قصوروار اور بے قصور دونوں کے لئے دُور رَس نتائج پیدا کر دیئے ہیں۔ گناہ ہی کے باعث ”ساری مخلوقات مل کر اب تک کراہتی ہے“ (رومیوں ٨: ٢٢)۔ یہاں تک کہ بے گناہ حیوانات بھی اِس سے متاثر ہوئے ہیں۔

یہی معقول وجہ ہے کہ انسان کے گناہ کرنے کے فیصلے کو ”ہبوطِ آدم“ یعنی ”آدم کا گرنا“ کہتے ہیں۔

دوسرا پہلو — شیطان کا ناگزیر حشر

بائبل مقدس کہتی ہے ”کسی نبوت کی بات کی تاویل کسی کے ذاتی اختیار پر موقوف نہیں“ (٢۔پطرس ١: ٢٠ )۔ کلام ہی کلام کی تاویل یا تفسیر کرتا ہے۔ ”اُس سانپ“ پر لعنت کے دوسرے حصے میں خدا نے جو فرمایا وہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ پاک کلام کی گہرائی میں اُتریں۔

” ... مَیں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا۔ وہ تیرے سر کو کچلے گا اور تُو اُس کی ایڑی پر کاٹے گا“ (پیدائش ٣: ١٥ )۔

   یہ سانپ کون ہے جس سے خدا نے بات کی؟ بائبل مقدّس اِس کی نشان دہی کرتی ہے کہ وہ وہی متکبر فرشتہ تھا جو”آسمان پر سے گر پڑا“ یسعیاہ ١٤ : ١٢ )۔ وہ وہی ”پرانا سانپ (ہے) جو ابلیس اور شیطان کہلاتا ہے اور سارے جہان کو گمراہ کر دیتا ہے“ (مکاشفہ ١٢ : ٩ ۔ مزید دیکھئے مکاشفہ ٢٠ : ٢ ؛ لوقا ١٠ : ١٨ اور ٢۔کرنتھیوں ١١: ١٣ ، ١٤)۔ سانپ نے اپنی دغابازی اور مکاری سے حوا کو فریب دیا۔ اِسی طرح ”شیطان بھی اپنے آپ کو نورانی فرشتے کا ہم شکل بنا لیتا ہے۔“

وہ سانپ شیطان کے سوا اور کوئی نہ تھا۔

خداوند نے وہی زبان استعمال کی جو سانپ کے لائق تھی اور ابلیس اور اُس کی پیروی کرنے والے سب لوگوں کے حشر کا اعلان کیا۔ شیطان کی نسل (اولاد) اور عورت کی نسل (آنے والی پشتوں) کے درمیان ”عداوت“ (ناقابلِ مصالحت دشمنی) ہو گی۔ انجامِ کار ”عورت کی نسل“ سانپ کے ”سر“ کو کچل دے گی۔

یہ سب کچھ خدا کے مقررہ نظامِ اوقات کے مطابق پورا ہو گا۔

دو نسلیں

یہ دو نسلیں کیا ہیں؟ سانپ کی نسل اور عورت کی نسل میں کیا اشارہ ہے؟ اِن اصطلاحات کا مطلب کیا ہے؟

سانپ کی نسل سے مراد وہ سب لوگ ہیں جو شیطان کی طرح خدا سے بغاوت کرتے ہیں۔ جو لوگ شیطان کی جھوٹی باتوں کی پیروی کرتے ہیں روحانی معنوں میں وہ ابلیس کے فرزند ہیں۔

” ... تم اپنے باپ ابلیس سے ہو اور اپنے باپ کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہو۔ وہ شروع ہی سے خونی ہے اور سچائی پر قائم نہیں رہا۔ جب وہ جھوٹ بولتا ہے تو اپنی ہی سی کہتا ہے کیونکہ وہ جھوٹا ہے بلکہ جھوٹ کا باپ ہے“ (یوحنا ٨: ٤٤)۔

پھر یہ عورت کی نسل کون ہے؟

یہ ایک بے مثال تصور ہے۔ بائبل مقدس کی پوری تاریخ میں انسان کی نسل عورت سے نہیں بلکہ مرد سے منسوب ہوتی ہے۔ لیکن جب گناہ دنیا میں داخل ہو گیا تو خدا نے عورت کی نسل کی بات کی۔ کیوں؟

خدا کا یہ اعلان پہلی پیش گوئی ہے جو ”مسایاح“ یعنی مسیح موعود کی طرف اشارہ کرتی ہے جسے مرد سے نہیں بلکہ عورت سے پیدا ہونا تھا۔ ”مسایاح یا مسیح“ کا لفظی مطلب ہے مسح کیا ہوا یا چنا ہوا۔ بائبل مقدس کے زمانے میں جب خدا کسی شخص کو چنتا تھا کہ قوم کا لیڈر یا مقتدر آدمی ہو مثلاً کوئی نبی تو اُس کے سر پر تیل اُنڈیل کر مسح کیا جاتا تھا۔ اِس سے ظاہر ہوتا تھا کہ خدا نے اُس شخص کو کسی خاص کام کے لئے چنا ہے (خروج ٢٩ :٧؛ ١۔سموئیل١٠: ١ ؛ ٢۔تواریخ٩:٦؛زبور  ٤٥ :٧ )۔

مگر مسیحِ موعود کو باقی سب سے فرق ہونا تھا۔ ہسٹری کے خاص اور صحیح لمحے  پر اُس ”خدا کے ممسوح“، ”خدا کے چنے ہوئے“ کو دنیا میں آنا تھا تاکہ ”جسے موت پر قدرت حاصل تھی یعنی ابلیس کو تباہ کر دے اور جو عمر بھر موت کے ڈر سے غلامی میں گرفتار رہے اُنہیں چھڑا لے“ (عبرانیوں ٢: ١٥ )۔

خدا نے اپنا پورا منصوبہ اُسی دن ظاہر نہیں کر دیا تھا جب گناہ انسانی نسل میں داخل ہوا تھا۔ خدا کا یہ کہنا گویا پیش گوئی کا ایک ہیولی تھا، مگر اِس سے آدم اور حوا اور اُن کی نسل کو اُمید کی ایک جھلک نظر آنے لگی۔ اِس ابتدائی وعدے میں بہت سی بنیادی سچائیاں مضمر ہیں جنہیں خدا کے نبی بعد میں تفصیل سے بیان کریں گے۔

زیرِ نظر کتاب کے باب ١٨ میں تین وجوہات بیان کی جائیں گی کہ خدا نے اپنے مںصوبے کو رمزیہ انداز میں کیوں بیان کیا۔ بائبل مقدس کو تاریخی ترتیب سے پڑھنے میں ایک لطف یہ ہے کہ انسان کو شیطان، گناہ اور موت سے چھڑانے کا خدا کا منصوبہ ایک ڈرامے کی طرح سامنے آتا ہے۔ خدا نے اپنی حکمت سے اِس منصوبے کو بتدریج ظاہر کیا۔ ”حکم پر حکم ... تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں“ (یسعیاہ ٢٨ : ١٠ )۔

خاص لعنت

خدا نے بتایا کہ عورت کی نسل سانپ کے سر کو کچلے گی۔ اِس پیش گوئی کو بیان کرنے کے لئے خدا نے الفاظ کا چناؤ بڑی احتیاط سے کیا اور آدم اور حوا پر واضح کر دیا کہ اُن کے گناہ کے عملی نتائج کیا ہوں گے۔ اِن نتائج کو ”لعنت“ کہا گیا ہے۔

” ... اُس نے عورت سے کہا کہ مَیں تیرے دردِ حمل کو بہت بڑھاؤں گا۔ تُو درد کے ساتھ بچے جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہو گی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا۔ اور آدم سے اُس نے کہا چونکہ تُو نے اپنی بیوی کی بات مانی اور اُس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت مَیں نے تجھے حکم دیا تھا کہ اُسے نہ کھانا اِس لئے زمین تیرے سبب سے لعنتی ہوئی۔ مشقت کے ساتھ تُو اپنی عمر بھر اُس کی پیداوار کھاۓ گا اور وہ تیرے لئے کانٹے اور اونٹ کٹارے اُگاۓ گی اور تُو کھیت کی سبزی کھاۓ گا۔ تُو اپنے منہ کے پسینے کی روٹی کھاۓ گا جب تک کہ زمین میں تُو لوٹ نہ جاۓ اِس لئے کہ تُو اُس سے نکالا گیا ہے کیونکہ تُو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جاۓ گا“ (پیدائش ٣: ١٦ ۔ ١٩ )۔

   آدم اور حوا نے اپنے خالق کے خلاف بغاوت کرنے کا فیصلہ کیا اور اُنہیں اِس کی ہولناک قیمت ادا کرنی پڑی۔

اب ایک خاندان بنانے کی خوشیوں کے ساتھ درد اور مصیبت اور تکلیف شامل ہو گی اور زمین اناج، پھل اور سبزیاں قدرتی طور پر پیدا کرنے کے بجاۓ جڑی بوٹیاں، کانٹے اور اونٹ کٹارے اُگاۓ گی۔ آرام اور شادمانی اور لطف کے بجاۓ مشقت اور محنت ہو گی۔ اِس سے بھی بدتر یہ کہ انسان کی اِس عارضی زندگی پر موت نامی ظالم عفریت کا سایہ منڈلاتا رہے گا۔

انسان غلبہ اور فرمان روائی کھو بیٹھا۔ گناہ لعنت لے آیا۔

کیا موت معمول کی چیز ہے؟

جو لوگ پاک صحیفوں کو نہیں مانتے وہ تنگی، مصیبت، نقصان، محرومی، ٹوٹے رشتوں، بیماری، بڑھاپے اور موت کو فطری اور معمول کی بات قرار دیتے ہیں۔ گناہ کی لعنت کے بارے میں سچائی یا حقیقت کو سمجھنا یہ سمجھنے کی کلید ہے کہ ہمارے کراہتے ہوئے کرہ ارض پر جو حالات ہیں وہ ایسے کیوں ہیں۔ بہت سے سمجھ دار اور عقل مند لوگ بنی نوع انسان کی قابلِ رحم حالت کو اِس بات کا ثبوت قرار دیتے ہیں کہ خدا کا کوئی وجود نہیں۔ وہ ایسی دلیلیں اِس لئے دیتے ہیں کیونکہ گناہ کے دنیا میں داخل ہونے اور اِس کے اثرات کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کیا بوڑھا ہونے کا عمل سلیقہ اور توقیر کے ساتھ نہیں ہو سکتا تھا۔ اور جھریاں پڑنے اور کمزور اور خستہ حال ہونے کے بجائے شاعرانہ انداز سے بتدریج ختم نہ ہو سکتے تھے۔ چونکہ کوئی عقل مند کاری گر (خدا) ہے ہی نہیں اِس لئے ایسا نہیں ہوتا۔ اور چونکہ یہ جاندار نہایت بھونڈے طریقے سے مرتب ہوئے ہیں اِس لئے ثابت ہوتا ہے کہ خدا کا کوئی وجود نہیں ہے۔ انسانوں نے خود ہی غلط انا کے باعث ”عقل مند کاری گر“ (خدا) کا تصور گھڑ لیا ہے۔

سینیگال میں لوگ (خاص کر جنازے کے وقت) کہتے ہیں ”خدا نے زندگی پیدا کرنے سے پہلے موت پیدا کی تھی“۔ بہت سے لوگوں کو اِس فلسفے سے تسلی ملتی ہے۔ یہ سوچ کر منطق اور پاک صحائف دونوں کی تردید کرتی ہے جو کہتے ہیں کہ موت ”سب سے پچھلا دشمن ہے جو نیست کیا جاۓ گا“ (١۔کرنتھیوں ١٥ : ٢٦ )۔

بدی، رنج و غم، مصیبت، مشقت، غربت اور موت معمول کی چیزیں معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن یہ حملہ آور عناصر اِس دنیا کے لئے فطری یا طبعی چیزیں نہیں ہیں، جیسے کہ سرطان کے جراثیم صحت مند شخص کے بدن کے لئے فطری یا طبعی چیز نہیں ہیں۔

خوشبودار گلاب کے پودے پر کانٹے، فصل پیدا کرنے کے لئے محنت مشقت، خوبصورت اور دلکش بچے میں ضد، شوہر کا اپنی حسین بیوی کے ساتھ بدسلوکی کرنا، وضع حمل کے دل پسند عمل کے ساتھ شدید درد، جسم کے صحت مند نظام پر حملہ آور ہوںے والی بیماریاں، بڑھاپے کا عذاب، موت کی ناگوار اور کرخت حقیقت، ہمارے جسموں کا مٹی میں لوٹ جانا — یہ خدا کے اصل منصوبے کا حصہ نہ تھے۔

خدا نے مخلوقات کو ایسا نہیں بنایا تھا کہ اپنے ہی خلاف لڑتی رہے۔

گناہ کے دنیا میں داخل ہونے سے پہلے آدمی کو ساری مخلوقات پر اختیار اور تسلط حاصل تھا، ساری چیزیں پورے طور پر آدم اور حوا کی مطیع تھیں۔ دنیا راستی اور سلامتی سے معمور تھی۔ پھر یوں ہوا کہ ہمارے پہلے والدین گناہ اور موت کی راہ پر ہو لئے اور اُن کے ساتھ گناہ آلود اور مرتی ہوئی پوری انسانی نسل بھی آ گئی۔

کل مخلوقات متاثر ہوئی

کوئی شخص یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ یہ تو انصاف نہیں ہے! ایک شخص کے گناہ کی خاطر کوئی دوسرا کیوں دُکھ اُٹھاۓ؟

ہم میں سے ہر شخص اپنے لئے فیصلے کرتا ہے اور اِن فیصلوں کے لئے خدا ہمیں ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ ہم ایک لعنتی دنیا میں رہتے ہیں۔ وُلوف لوگوں کی ضرب المثل کے پیچھے جو حقیقت ہے وہ صاف ظاہر ہے ”وبا خود کو اُسی تک محدود نہیں رکھتی جس نے اُسے شروع کیا۔“

گناہ کی نوعیت اور فطرت بھی ایسی ہی ہے۔ اب زندگی دلکش اور خوش گوار نہیں رہی۔ آدم کے گناہ کے نتیجہ میں ”ساری مخلوقات مل کر اب تک کراہتی ہے“ (رومیوں ٨: ٢٢ )۔ گناہ کی لعنت سے سب متاثر ہیں۔

اچھی خبر یہ ہے کہ ہمارے خالق نے ابتدا ہی سے چھڑانے کا واضح منصوبہ بنا رکھا تھا، جیسے گھڑی ساز گھڑی کے اندر ایسے پرزے لگا دیتا ہے کہ اگر وقت آگے پیچھے ہو جاۓ تو ان پرزوں کی مدد سے اِس خرابی کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ اِس کو میکانکی نظام کہتے ہیں۔ اِسی طرح کائنات بنانے والے نے بھی اپنی دنیا میں ایک میکانکی نظام رکھا ہے جس سے وہ شیطان، گناہ اور موت کی تباہ کن قوتوں کا ازالہ کر کے توازن قائم رکھتا ہے۔ شروع ہی سے خدا کا کوئی مقصد تھا کہ اُس نے گناہ کو دنیا میں آنے دیا اور اِس گناہ کی لعنت کو ختم کرنے کا اور جو اُس (خدا) پر ایمان لائیں اُن کے لئے اپنا فضل ظاہر کرنے کا منصوبہ بھی خدا نے شروع ہی سے بنا رکھا تھا۔

خدا کی کہانی کے شروع میں غم و اندوہ، دکھ درد اور موت کا کوئی وجود نہ تھا اور جب کہانی ختم ہو گی تب بھی یہ چیزیں باقی نہ رہیں گی۔ ایک دن گناہ اور اُس کی لعنت موقوف اور معدوم کر دی جاۓ گی۔ “... وہ (خدا) اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔ اِس کے بعد نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہ و نالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں... اور پھر لعنت نہ ہو گی“ (مکاشفہ ٢١ :٤ ؛ ٢٢ :٣)۔ ہم اپنے سفر کے اختتام کے قریب اِس شاندار مستقبل کے بارے میں مزید سیکھیں گے۔

خدا کا فضل

کیا آپ کو یاد ہے کہ نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل کھانے کے بعد آدم اور حوا نے کیا کیا تھا؟

اُنہوں نے اپنے لئے انجیر کے پتوں سے لنگیاں بنائ تھیں۔ یہ اپنے گناہ اور شرمندگی کو ڈھانپنے اور چھپانے کی انسان کی پہلی کوشش تھی۔ خدا نے آدم اور حوا کی اپنی ذاتی کوشش کو قبول نہ کیا، بلکہ اُن کے لئے خدا نے خود ایک کام کیا۔

” ... خداوند خدا نے آدم اور اُس کی بیوی کے واسطے چمڑے کے کُرتے بنا کر اُن کو پہناۓ“ (پیدائش ٣: ٢١ )۔

خدا نے آدم اور حوا کو جانوروں کی کھالوں کی بنی ہوئ پوشاک فراہم کی۔ ایسا کرنے کے لئے خون بہایا گیا۔

تصور کریں کہ خدا نے چند بھیڑیں یا کوئی اور موزوں جانور چنے، اُنہیں ذبح کیا اور آدم اور حوا کے لئے ”چمڑے کے کُرتے“ بنائے۔ خدا اُن دونوں کو گناہ کی قیمت کے بارے میں اور اپنی پاک ذات کے بارے میں اہم سبق سکھا رہا تھا اور سمجھا رہا تھا کہ شرم ناک طور پر نااہل اور نالائق گنہگار میرے حضور میں کیسے مقبول ٹھہر سکتے ہیں۔

آدم اور حوا کو یہ خاص پوشاکیں مہیا کرنے سے اُن کا خالق اُن پر اپنا فضل کر رہا تھا جنہوں نے ابھی ابھی اُس کے خلاف بغاوت کی تھی۔ وہ خدا کی مہربانی اور رحم کے حق دار نہ تھے — لیکن یہی تو فضل ہے — رحم جس کے ہم حق دار نہیں۔

جس کے ہم حق دار ہیں وہ ملنا عدل ہے (=ابدی سزا)

جس کے ہم حق دار ہیں وہ نہ ملنا رحم یا ترس ہے (= کوئی سزا نہیں)

جس کے ہم حق دار نہیں وہ ملنا فضل ہے (= ابدی زندگی)

خدا کی راست بازی

آدم اور حوا کے لئے جانور ذبح کرنے سے خدا کا مقصد یہ تھا کہ وہ جان لیں کہ وہ نہ صرف ”رحیم و کریم خدا“ ہے (زبور ٨٦ : ١٥ ) بلکہ ”خدای صادق“ (زبور ٧: ٩ ) بھی ہے۔ ضرور ہے کہ گناہ کی سزا موت سے دی جاۓ۔ جب آدم اور حوا نے اُن خوبصورت، بے زبان اور بے گناہ جانوروں کا اُبل اُبل کر نکلتا ہوا خون دیکھا تو اُن کی حالت کا تصور کیجئے۔ خدا نے اُنہیں واضح اور صاف نظر آنے والی مثال دی۔ گناہ کی سزا موت تھی (ہے)۔

خون کی پہلی قربانی خدا نے خود کی — بعد میں بے شمار قربانیاں ہوں گی۔

یہ بھی غور کریں کہ خداوند خدا ہی تھا جس نے اُنہیں ”کپڑے پہناۓ“ اور یہ کپڑے اُن کھالوں سے بناۓ جو اُس نے خود مہیا کی تھیں۔ آدم اور حوا نے تو اپنے گناہ اور برہنگی (شرمندگی) کو ڈھانپنے کی کوشش کی تھی، لیکن اُن کی کوششیں خدا کو مطمئن نہ کر سکتی تھیں۔ اُن کے گناہ کے مسئلے کا مداوا اور علاج صرف اُسی (خدا) کے پاس تھا۔ خدا چاہتا تھا کہ وہ اِس حقیقت کو سمجھیں۔ اور وہ چاہتا ہے کہ ہم بھی یہ بات سمجھیں۔

گنہگاروں کو نکال دیا گیا

پیدائش کی کتاب کا تیسرا باب یوں اختتام پذیر ہوتا ہے:

” ... خداوند خدا نے کہا دیکھو انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا۔ اب کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنا ہاتھ بڑھاۓ اور حیات کے درخت سے بھی کچھ لے کر کھائے اور ہمیشہ جیتا رہے۔ اِس لئے خداوند خدا نے اُس کو باغِ عدن سے باہر کر دیا تاکہ وہ اُس زمین کی جس میں سے وہ لیا گیا تھا کھیتی کرے۔ چنانچہ اُس نے آدم کو نکال دیا اور باغِ عدن کے مشرق کی طرف کروبیوں کو اور چوگرد گھومنے والی شعلہ زن تلوار کو رکھا کہ وہ زندگی کے درخت کی راہ کی حفاظت کریں“(پیدائش ٣: ٢٢ ۔٢٤ )۔

   جب لوسیفر اور گنہگار فرشتوں نے خدا کی مرضی کی جگہ اپنی مرضی مسلط کرنا چاہی تو اُنہیں آسمانی فردوس سے نکال دیا گیا تھا۔ اب آدم اور حوا نے خدا کی مرضی کی خلاف ورزی کی تو اُسی طرح اُنہیں زمینی فردوس سے نکال دیا گیا۔

اِس طرح آدم کو خدا کی پاک حضوری میں جانے اور حیات کے درخت (اِسے نیک و بد کی پہچان کے درخت کے ساتھ گڈمڈ نہ کریں) کے پاس جانے سے روک دیا گیا۔ پاک صحائف میں سے گزرنے کے سفر کے اختتام کے قریب ہم نیک و بد کی پہچان کے درخت کی ایک جھلک دیکھیں گے۔ حیات کا درخت ہمیشہ کی زندگی کی بخشش کی علامت ہے۔ یہ زندگی خدا اُن سب لوگوں کو بخشے گا جو اُس پر اور اُس کے منصوبہ پر ایمان لاتے ہیں۔

نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل کھانے سے آدم اور حوا نے ہمیشہ کی زندگی کا راستہ رد کر دیا اور ہمیشہ کی موت کا راستہ چن لیا۔ گناہ کے باعث آسمان اور زمین کے درمیان خوشگوار تعلق ٹوٹ گیا۔

آدم اور حوا کو بہت سنجیدہ اور خطرناک مسئلہ درپیش ہو گیا — اور ہمیں بھی اِسی کا سامنا ہے۔