۲۳ |
پاک کلام کا پورا ہونا |
عربی ضرب المثل ہے ” وعدہ بادل اور اُس کا پورا ہونا بارش ہے۔“ |
ہزاروں سال سے نبی اعلان کرتے آ رہے تھے کہ خدا کا منصوبہ ہے کہ نجات دہندے کو دنیا میں بھیجے:
” لیکن جب وقت پورا ہو گیا تو خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا“(گلتیوں٤:٤)۔
یسوع ناصری خدا کے وعدے کے پورا ہونے کی بارش تھا۔
خالق کا منصوبہ کوئی بعد از وقت کی سوچ نہیں تھا، بلکہ ” اُس نے پیشتر سے اپنے نبیوں کی معرفت کتابِ مقدس میں اپنے بیٹے ہمارے خداوند یسوع مسیح کی نسبت وعدہ کیا تھا۔۔۔“ (رومیوں ١: ٢، ٣ )۔
کتابِ مقدس کا پرانا عہدنامہ بادل ہیں اور مسایاح بارش ہے۔
گدھے پر سوار ہو کر یروشلیم میں داخل ہونا
مسایاح اپنے مشن کو جانتا تھا۔ اُس کی آمد سے پانچ سو سال پہلے زکریاہ نبی نے اُن بہت سے واقعات کے بارے میں لکھا جو اُس کے مصلوب ہونے سے پہلے ہوں گے۔
”۔۔۔ اے دُخترِ یروشلیم خوب للکار کیونکہ دیکھ تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے۔ وہ صادق ہے اور نجات اُس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ حلیم ہے اور گدھے پر بلکہ جوان گدھے پر سوار ہے“ (زکریاہ ٩:٩)۔
یہ نبوت یسوع میں پوری ہوئ۔ چاروں انجیلوں میں یہ واقعہ درج ہے۔ متی جو عینی گواہ اور یسوع کا شاگرد تھا وہ لکھتا ہے:
” ۔۔۔ جب وہ یروشلیم کے نزدیک پہنچے ۔۔۔ تو یسوع نے دو شاگردوں کو یہ کہہ کر بھیجا کہ اپنے سامنے کے گاؤں میں جاؤ۔ وہاں پہنچتے ہی ایک گدھی بندھی ہوئ اور اُس کے ساتھ بچہ پاؤ گے۔ اُنہیں کھول کر میرے پاس لے آؤ۔ اور اگر کوئی تم سے کچھ کہے تو کہنا کہ خداوند کو اِن کی ضرورت ہے۔ وہ فی الفور اُنہیں بھیج دے گا۔ یہ اِس لئے ہوا کہ جو نبی کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہو کہ
'صیون کی بیٹی سے کہو کہ دیکھو تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے۔ وہ حلیم ہے اور گدھے پر سوار ہے بلکہ لادُو کے بچے پر“ (متی ٢١ : ١۔ ٥ )۔
یوں یسوع نے اپنے آپ کو بادشاہ کی حیثیت سے قوم کو پیش کیا، تاکہ جیسا نبیوں نے پیش گوئ کی تھی وہ ردّ کیا جاۓ (یسعیاہ باب ٥٣ ؛ زبور ٢٢ ؛ مزید دیکھیں دانی ایل ٩: ٢٤ ۔ ٢٧ ۔ جہاں زمانوں کے لئے خدا کے منصوبے کا خاکہ دیا گیا ہے)۔ پورے منصوبے کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ ” ۔۔۔ ممسوح قتل کیا جاۓ“ (دانی ایل ٩: ٢٢ )۔ لیکن خود اپنے لۓ قتل نہیں ہو گا۔
” اناجیل میں پوری تفصیل درج ہے کہ یسوع گدھے پر سوار ہو کر یروشلیم میں داخل ہوا تو اُس کے بعد کیا کیا ہوا۔ وہ ہیکل میں گیا اور وہاں سے اُن سب کو ہانک کر نکال دیا جو اُسے پیسہ کمانے کے لۓ استعمال کر رہے تھے۔ وہاں کاروبار کرنے والے ہکا بکا رہ گۓ۔ یسوع نے اُن سے کہا “ لکھا ہے کہ میرا گھر دعا کا گھر کہلاۓ گا مگر تم اُسے ڈاکوؤں کی کھوہ بناتے ہو۔” اور اندھے اور لنگڑے ہیکل میں اُس کے پاس آۓ اور اُس نے اُنہیں اچھا کیا“ (متی ٢١ : ١٣، ١٤ )۔
اگلے چند دن یسوع ہیکل میں آ بیٹھتا تھا اور لوگوں کو خدا کی سچی باتیں سکھاتا تھا۔ اور مذہبی راہنما اِس کوشش میں لگے رہے کہ کسی چال سے اُس سے کوئی ایسی بات کہلوائیں جس سے اُس پر الزام لگا کر اُس کو قتل کریں، لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔
یسوع آسمانی حکمت سے اُن کے سوالوں کے جواب دیتا تھا اور سب لوگ تعجب کرتے تھے (متی ابواب ٢١ ۔ ٢٥ )۔
پھر وہ وقت آ گیا
وہ گھڑی آ پہنچی
یسوع واحد شخص ہے جو ٹھیک ٹھیک جانتا تھا کہ
مَیں کب مروں گا۔
مَیں کہاں مروں گا۔
مَیں کیسے مروں گا۔
مَیں کیوں مروں گا۔
” ۔۔۔ جب یسوع سب باتیں ختم کر چکا تو ایسا ہوا کہ اُس نے اپنے شاگردوں سے کہا تم جانتے ہو کہ دو دن کے بعد عیدِ فسح ہو گی اور ابنِ آدم مصلوب ہونے کو پکڑوایا جاۓ گا۔ اُس وقت قوم کے بزرگ کائفا نام سردار کاہن کے دیوان خانہ میں جمع ہوۓ اور مشورہ کیا کہ یسوع کو فریب سے پکڑ کر قتل کریں گے مگر کہتے تھے کہ عید میں نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ لوگوں میں بلوا ہو جاۓ“ (متی ٢٦ : ١۔ ٥ )۔
اب مطلب پرست اور خود غرض مذہبی راہنما کچھ بھی کر گزرنے کو تیار تھے۔ کئی موقعوں پر اُنہوں نے اُسے پکڑنے کی صلاح کی ” لیکن اِس لئے کہ اُس کا وقت ابھی نہیں آیا تھا کسی نے اُس پر ہاتھ نہ ڈالا“ (یوحنا ٧: ٣٠ )۔
پھر اُنہیں وہ موقع مل گیا جس کی تلاش تھی۔
یہوداہ جو دل سے نہیں بلکہ بظاہر یسوع کا شاگرد تھا وہ ہیکل کے کاہنوں کے پاس گیا اور پیش کش کی کہ مَیں فریب سے یسوع کو تمہارے ہاتھوں میں دے سکتا ہوں۔ کاہنوں نے اُسے چاندی کے تیس سکے دینا منظور کیا۔ غداری کے اِس فعل سے پرانے عہدنامے کی متعدد اور پیش گوئیاں پوری ہوئیں (زبور ٤١ :٩ ؛ زکریاہ ١١: ١٢، ١٣ اور متی ٢٦ : ١٤ ۔١٦ ؛ ٢٥ : ٣۔ ١٠ )۔
یوں وہ دن آ گیا جب یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا ” وہ وقت آ گیا“ (یوحنا ١٢ : ٢٣ )۔
اب خدا کے برّے کے مرنے کا وقت آ گیا۔
عیدِ فسح کا ہفتہ
یروشلیم کی تنگ گلیوں میں مقامی اور باہر سے آۓ ہوۓ لوگوں کا بے پناہ ہجوم تھا۔ برّوں، بکروں اور مینڈھوں کے ممیانے اور بیلوں اور بچھڑوں کے ڈکرانے کی آوازیں چاروں طرف سے آ رہی تھیں۔ خریدار مناسب جانوروں کی قیمت طے کرنے کے لئے سوداگروں سے بھاؤ تاؤ کر رہے تھے۔ یہ عیدِ فسح کا ہفتہ تھا۔
عیدِ فسح سات دن کی عید تھی جو پندرہ صدیاں پہلے خدا نے مقرر کی تھی۔ اِس موقعے پر وہ ماضی کو یاد کرتے تھے کہ خدا نے اپنی قوم کو غلامی سے اور موت کی فیصلہ کن رات کو موت سے کیسے رہائ دلائی تھی جب اُن کے آباو اجداد نے اپنے دروازوں کی چوکھٹوں پر برّے کا خون لگایا تھا۔ خدا کے نقطہ نظر سے آگے کو یعنی مستقبل میں اُس دن کی طرف دیکھنے کا بھی موقع تھا جب مسایاح فسح کے گہرے معنی کو پورا کرے گا۔
لیکن شاید ہی کوئی تھا جس نے سمجھا ہو کہ یسوع ناصری فسح کے آخری برّے کی حیثیت سے اپنا خون بہاۓ گا اور اُن سارے برّوں کی علامت کو پورا کر دے گا جو موسی' کے زمانے سے ذبح ہوتے رہے تھے۔ موسی' کا مشن یہ تھا کہ اپنے لوگوں کو بیگار لینے والے انسانوں کے جسمانی ظلم و ستم سے رہائی دلاۓ۔ اِس کے برعکس مسایاح کا مشن یہ تھا کہ سارے لوگوں کو شیطان، گناہ اور موت کے روحانی ظلم و ستم سے رہائی دلائے۔
مذہبی راہنماؤں نے فیصلہ کر لیا کہ یسوع کو مار ڈالیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ کہتے تھے کہ ” عید میں نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ لوگوں میں بلوا ہو جاۓ“ (متی ٢٦ : ٥)۔ لیکن یسوع کا منصوبہ اُسی عید میں مرنے کا تھا! ضرور تھا کہ خدا کا برّہ عیدِ فسح پر ذبح کیا جاۓ۔ ہر بات اُسی طرح واقع ہونا تھی جیسے خدا نے انتظام کیا اور منصوبہ بنایا تھا۔
جب یہودی اپنی سالانہ عیدِ فسح منا رہے ہوں اُس وقت یسوع فسح کا کامل اور آخری برہ بنے اور ذبح ہو اور ایمان داروں کو گناہ کے خلاف خدا کے غضب سے رہائی دے۔ ” کیونکہ ہمارا بھی فسح یعنی مسیح قربان ہوا“ (١۔کرنتھیوں ٥: ٧)۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ جو لوگ خدا کے منصوبے کو رد کر رہے تھے وہی اُسے پورا کرنے میں نمایاں اور بڑا کردار ادا کرنے کو تھے۔ اور شیطان کو بھی احساس تک نہ ہوا کہ مذہبی راہنماؤں کو یسوع کے قتل پر اُکسانے سے مَیں اپنی تباہی کا بندوبست کر رہا ہوں! حالات اور واقعات کے اِس چکر کو پاک کلام نے ” خدا کی وہ پوشیدہ حکمت“ کہا ہے ” جو خدا نے جہان کے شروع سے پیشتر۔۔۔ مقرر کی تھی، جسے اِس جہان کے سرداروں میں سے کسی نے نہ سمجھا کیونکہ اگر سمجھتے تو جلال کے خداوند کو مصلوب نہ کرتے“ (١۔کرنتھیوں ٢: ٧، ۸)۔
روٹی اور پیالہ
مقررہ شام کو یسوع اور اُس کے شاگرد ایک نجی بالاخانے میں جمع تھے۔ برّے کے گوشت اور کڑوے ساگ پات کا بنا ہوا کھانا کھاںے کے بعد خداوند نے ” روٹی لی اور شکر کر کے توڑی اور یہ کہہ کر اُن کو دی کہ (لو کھاؤ) یہ میرا بدن ہے۔۔۔ میری یاد گاری کے لئے یہی کیا کرو“ (لوقا ٢٢: ١٩ )۔
وہ توڑی گئی روٹی یسوع کے بدن کی علامت تھی جو اُن کی خاطر زخمی کیا جاۓ گا اور سزا برداشت کرے گا۔
اِس کے بعد یسوع نے وہ پیالہ اُنہیں دیا جس میں مے تھی جو انگوروں کو نچوڑ کر یا کچل کر نکالی گئ تھی۔ اُس نے اپنے شاگردوں سےکہا ” یہ میرا وہ عہد کا خون ہے جو بہتیروں کے لئے گناہ کی معافی کے واسطے بہایا جاتا ہے“ (متی ٢٦ :٢٨ )۔
پیالہ اُس خون کی علامت تھا جو یسوع نئے موعودہ عہد کا آغاز کرنے کے لئے بہانے کو تھا۔
یہ دو سادہ سی علامتیں خدا کے نبیوں کے اہم اور مرکزی پیغام کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ہمارا خالق انسانی جسم (بدن) اِس لئے اختیار کرے گا کہ آدم کی گنہگار نسل کی خاطر دکھ سہے اور اپنا خون بہاۓ۔
بہت سے بے مثال، شاندار اور عجیب وعدوں اور سچائیوں سے اپنے شاگردوں کو تسلی اور اطمینان دینے کے بعد یسوع اُنہیں گتسمنی نام باغ میں لے گیا (یوحنا ابواب ١٣ ۔ ١٧ )۔ وہاں اُس کی جان نہایت غمگین تھی اور پسینہ بڑی بڑی بوندیں بن کر بہہ رہا تھا۔ اِس حالت میں اُس نے منہ کے بل گر کر دعا مانگی کہ اے میرے باپ! اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جاۓ (متی ٢٦ : ٣٩ )۔
” یہ پیالہ“ کیا تھا جس سے یسوع خائف تھا؟ یہ گناہ کے لئے دکھ سہنے کا پیالہ تھا۔ یہ اپنے باپ سے جدائ تھی جو پہلے کبھی ہوئی نہ تھی اور جو وہ عنقریب برداشت کرنے کو تھا۔ اور پاتال میں اُترنے کا خوف تھا جو وہ میری اور آپ کی خاطر سہنے کو تھا۔
اُس نے یہ دعا تین دفعہ مانگی، مگر وہ اپنے باپ کی مرضی پوری کرنے پر راضی اور آمادہ تھا۔ جیسا کہ داؤد نبی نے نبوت کی تھی مسایاح وہ حالت بحال کرے گا جسے اُس نے نہیں بگاڑا تھا ” ۔۔۔جو مَیں نے چھینا نہیں مجھے دینا پڑا۔“
(زبور ٦٩ :٤ )
یسوع گناہ کی پوری اور کامل قربانی بننے کو تھا۔
گرفتاری
یسوع نے اپنے باپ سے بات کرنا ختم کی ہی تھی کہ سپاہیوں کا ایک دستہ باغ میں داخل ہوا۔ اُن سپاہیوں کو سردار کاہنوں، فقیہوں اور قوم کے بزرگوں نے بھیجا تھا۔ وہ مشعلیں، ڈنڈے اور تلواریں لے کر اُس ہستی کو گرفتار کرنے آۓ تھے جس نے طوفانوں کو تھما دیا، بدروحوں کو نکال دیا اور مُردوں کو زندہ کر دیا تھا۔
” ۔۔۔ یسوع اُن سب باتوں کو جان کر جو اُس کے ساتھ ہونے والی تھیں باہر نکلا اور اُن سے کہنے لگا کہ کسے ڈھونڈتے ہو؟ اُنہوں نے اُسے جواب دیا یسوع ناصری کو۔ یسوع نے اُن سے کہا مَیں ہی ہوں۔۔۔ اُس کے یہ کہتے ہی وہ پیچھے ہٹ کر زمین پر گر پڑے۔ پس اُس نے اُن سے پھر پوچھا کہ تم کسے ڈھونڈتے ہو؟ اُنہوں نے کہا یسوع ناصری کو۔ یسوع نے جواب دیا کہ مَیں تم سے کہہ تو چکا کہ مَیں ہی ہوں“ (یوحنا ١٨ :٤ ۔ ٨)۔
جو لوگ اُسے گرفتار کرنے آۓ تھے یسوع نے اُنہیں اپنی شناخت خدا کے اپنے نام ” مَیں ہوں“ سے کرائی۔
یسوع نے اپنے گرفتار کرنے والوں سے جو کہا وہ صرف ” مَیں ہوں“ تھا۔ جملہ کہ ” مَیں ہی ہوں“ اردو زبان کے اُسلوب کے تقاضے کے مطابق مترجمین نے استعمال کیا ہے۔ اصل متن یعنی یونانی زبان میں حرفِ تاکید ” ہی“ نہیں ہے۔ یسوع بتا رہا تھا کہ مَیں کون ہوں —ازلی قائم بالذات ” مَیں ہوں“ جو آسمان سے اُترا تھا۔ اِسی لئے یسوع کے ” مَیں ہوں“ کہنے سے مذہبی راہنما اور سپاہی ” پیچھے ہٹ کر زمین پر گر پڑے“ تھے۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ یسوع گرفتار کرنے والوں کے ساتھ گیا تو اپنی مرضی سے گیا۔
سپاہیوں نے آگے بڑھ کر گھیرا ڈال لیا تو پطرس نے تلوار کھینچی اور سردار کاہن کے نوکر کا کان اڑا دیا۔ یسوع نے بڑی شفقت سے اُس کا کان اچھا کر دیا اور پطرس سے کہا
” اپنی تلوار کو میان میں کر لے ۔۔۔ کیا تُو نہیں سمجھتا کہ مَیں اپنے باپ سے منت کر سکتا ہوں اور وہ فرشتوں کے بارہ تُمن ۱ سے زیادہ میرے پاس ابھی موجود کر دے گا؟ مگر وہ نوشتے کہ یونہی ہونا ضرور ہے کیونکر پورے ہوں گے؟“(متی ٢٦ : ٥٢ ۔ ٥۴)
جو لوگ مذہب کے نام پر ظلم اور قتل و غارت کرتے ہیں اُن کے مقابل یسوع کیسا خوش گوار اور تازگی بخش تقابل پیش کرتا ہے! یسوع جانتا تھا کہ لوگ مجھے ٹھٹھوں میں اڑائیں گے، مجھے اذیتیں دیں گے اور قتل کریں گے، تو بھی اُس نے اُنہیں نفرت اور انتقام کا رویہ نہیں دکھایا بلکہ صبر اور مہربانی کا رویہ دکھایا۔
نبیوں نے اِن باتوں کی پیش گوئی کی تھی۔
” اُسی گھڑی یسوع نے بھیڑ سے کہا کیا تم تلواریں اور لاٹھیاں لے کر مجھے ڈاکو کی طرح پکڑنے نکلے ہو؟ مَیں ہر روز ہیکل میں بیٹھ کر تعلیم دیتا تھا اور تم نے مجھے نہیں پکڑا“ ۔۔۔ اور پاک کلام یوں وضاحت کرتا ہے کہ
”مگر یہ سب کچھ اِس لئے ہوا کہ نبیوں کے نوشتے پورے ہوں۔
اِس پر سب شاگرد اُسے چھوڑ کر بھاگ گۓ۔
اور یسوع کو پکڑنے والے اُس کو کائفا نام سردار کاہن کے پاس لے گۓ جہاں فقیہ اور بزرگ جمع ہو گۓ تھے“ (متی ٢٦ : ٥٥ ۔ ٥٧ )۔
جو ہوا اور پانی اور طوفانوں پر اختیار رکھتا تھا اُس نے کیوں ہونے دیا کہ اُسے گرفتار کریں اور باندھ کر لے جائیں؟
اُس نے اپنے باپ سے محبت اور اُس کی فرماں برداری کی خاطر یہ سب کچھ ہونے دیا۔
اُس نے مجھے اور آپ کو ابدی غضب سے بچانے کے لئے یہ سب کچھ کیا۔
اُس نے یہ کیا تاکہ ” نبیوں کے نوشتے پورے ہوں۔“
سینکڑوں سال پہلے یسعیاہ نبی نے لکھا تھا ” جس طرح برّہ جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں ۔۔۔ وہ اُسے لے گۓ“ (یسعیاہ ٥٣ : ٧، ٨ )۔
اور ابرہام نبی نے کہا تھا، ” خدا آپ ہی اپنی واسطے سوختنی قربانی کے لئے برّہ مہیا کر لے گا“ (پیدائش ٢٢: ٨)۔
اور موسی' نبی نے لکھا تھا ” ۔۔۔ اور کاہن نر برّوں میں سے ایک کو لے کر ۔۔۔ اُس جگہ ذبح کر ے جہاں خطا کی قربانی اور سوختنی قربانی کے جانور ذبح کۓ جاتے ہیں۔۔۔ “ (احبار ١٤ : ١٢ ۔ ١٣ )۔
ستم ظریفی ملاحظہ کریں!
جو کاہن برّوں کو ذبح کرنے اور ہیکل میں پیتل کے مذبح پر جلانے کے فرائض سرانجام دیتے تھے اُنہوں نے ہی یسوع کو گرفتار کیا تاکہ قتل کرا ڈالیں۔ لیکن اُنہیں گمان تک نہیں تھا کہ ہم اُس برّے کو ذبح کرنے والے ہیں جس کے بارے میں سارے نبیوں نے لکھا ہے۔
مذہبی لیڈروں نے سزاۓ موت سنائی
” پھر وہ یسوع کو سردار کاہن کے پاس لے گۓ اور سب سردار کاہن اور بزرگ اور فقیہ اُس کے ہاں جمع ہو گۓ۔۔۔“ (مرقس ١٤ : ٥٣ )۔
یہودیوں کے مذہبی راہنماؤں نے رات کے وقت ایک غیرقانونی مقدمہ چلاںے کا انتظام کیا تھا۔
” اور سردار کاہن اور سب صدر عدالت والے یسوع کو مارڈالنے کے لئے اُس کے خلاف گواہی “ ڈھونڈنے لگے مگر نہ پائ کیونکہ بہتیروں نے اُس پر جھوٹی گواہیاں تو دیں لیکن اُن کی گواہیاں متفق نہ تھیں۔۔۔
” ۔۔۔ پھر سردار کاہن نے بیج میں کھڑے ہو کر یسوع سے پوچھا کہ تُو کچھ جواب نہیں دیتا؟ یہ تیرے خلاف کیا گواہی دیتے ہیں؟ مگر وہ خاموش ہی رہا اور کچھ جواب نہ دیا۔ سردار کاہن نے اُس سے پھر سوال کیا اور کہا کیا تُو اُس ستودہ کا بیٹا مسیح ہے؟ یسوع نے کہا ہاں مَیں ہوں اور تم ابنِ آدم کو قادرِ مطلق کی دہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں کے ساتھ آتے دیکھو گے۔ سردار کاہن نے اپنے کپڑے پھاڑ کر کہا اَب ہمیں گواہوں کی کیا حاجت رہی؟ تم نے یہ کفر سنا۔۔۔“ (مرقس ١٤ :٥٥ ، ٥٦ ، ٦٠ ۔ ٦٣ )
سردار کاہن کیوں غضب ناک ہوا؟ اُس نے کیوں اپنے کپڑے پھاڑے اور یسوع پر کفر کا الزام لگایا؟ اِس لئے کہ یسوع نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا اور ابنِ آدم کہا تھا — مسایاح، جس کی بابت سارے نبیوں نے لکھا تھا۔ اور یسوع نے اپنے آپ کو خدا کے ذاتی نام” مَیں ہوں“ سے پکارا تھا۔ اور اُس نے یہ بھی کہا ” تم ابنِ آدم کو قادرِ مطلق کی دہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں کے ساتھ آتے دیکھو گے۔“ اور نبیوں کے صحائف سے اقتباس کر کے اپنے آپ کو دنیا کا منصف بتایا۔
” مَیں نے رات کو رَویا میں دیکھا اور کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص آدم زاد کی مانند آسمان کے بادلوں کے ساتھ آیا۔۔۔“ (دانی ایل ٧: ١٣ )۔
[نوٹ: اپنے کپڑوں کو پھاڑنا انتہائ غصہ یا انتہائی غم ظاہر کرنے کا روایتی طریقہ تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خدا نے جو شریعت موسی' کو دی وہ کہتی ہے کہ ” ۔۔۔ جو اپنے بھائیوں کے درمیان سردار کاہن ہو۔۔۔ وہ ۔۔۔ اپنے کپڑے نہ پھاڑے“ (احبار ٢١ : ١٠ )۔ ایسا کرنے سے (متی ٢٧ : ٦٥ ؛ مرقس ١٤ :٦٣) کائفا نے اپنے آپ کو سردار کاہن ہونے کا نااہل کر لیا۔ نیا ابدی سردار کاہن خود یسوع ہے جو اپنے بدن کو قربانی کے لئے پیش کرنے کو دنیا میں آیا۔ صرف وہی واحد ہستی ہے جو گنہگار انسان کا پاک خدا کے ساتھ میل ملاپ کرا سکتا ہے (عبرانیوں ٢: ١٧ ؛ ٣: ١؛ ٢: ١٤ ۔ ١٦ ؛ ٧: ٢٦ ؛ ٨: ١ ؛ ٩: ١١ ، ٢٥ ؛ ١٠ : ٢١ ۔ ٢٣ )۔]
چونکہ یسوع نے نبیوں کی باتوں کا اپنے اوپر اطلاق کیا اِس لئے سردار کاہن نے اپنے کپڑے پھاڑے اور کہا
” اب ہمیں گواہوں کی کیا حاجت رہی؟تم نے یہ کفر سنا۔ اب تمہاری کیا راۓ ہے؟ اُن سب نے فتوی' دیا کہ وہ قتل کے لائق ہے۔
تب بعض اُس پر تھوکنے اور اُس کا منہ ڈھانپنے اور اُس کے مکے مارنے اور اُس سے کہنے لگے نبوت کی باتیں سنا! اور پیادوں نے اُسے طمانچے مار مار کر اپنے قبضہ میں لیا“ (مرقس ١٤: ٦٣-٦٥)۔
اِس سے سات سو سال پہلے یسعیاہ نبی نے پیش گوئی کی تھی کہ مسایاح اپنی مرضی سے دکھ سہے گا ” مَیں نے اپنی پیٹھ پیٹنے والوں کے اور اپنی داڑھی نوچنے والوں کے حوالے کی۔ مَیں نے اپنا منہ رُسوائی اور تھوک سے نہیں چھپایا“ (یسعیاہ ٥٠ : ٦)۔
سیاسی لیڈروں نے سزاۓ موت سنائی
صبح ہوتے ہی کاہن اور مذہبی لیڈر یسوع کو یہودیہ کے رومی گورنر پنطس پیلاطس کے پاس لے گۓ اور مطالبہ کرنے لگے کہ پیلاطس یسوع کو مصلوب کرنے کی سزا دے۔ تاریخ کے اُس دَور میں یہودی لوگ رومی حکومت کے ماتحت تھے اور اُنہیں کسی مجرم کو سزاۓ موت دینے کا اختیار نہیں تھا۔
مقدمے کی سماعت کے دوران پیلاطس نے تین بار علی الاعلان کہا کہ مَیں اِس میں کچھ قصور نہیں پاتا، لیکن شیطان نے کاہنوں کو اور کاہنوں نے بھیڑ کو اُکسایا اور بھیڑ چلا چلا کر کہنے لگی، ” اِسے لے جا! اسے صلیب دے! اِسے صلیب دے!“ (یوحنا ١٨ : ٣٨ ؛ ١٩ : ٤ ، ٦ ؛ ١٩ : ١٥ ؛ لوقا ٢٣ : ٢١ ؛ متی ٢٧ : ٢٢)۔
پیلاطس نے مذہبی لیڈروں کے دباؤ سے مغلوب ہو کر یسوع کو صلیب دینے کی سزا سنا دی۔ رومی قانون کے مطابق یہ انتہائ سزا تھی۔ مجرم کو وحشیانہ طریقے سے بے دردی سے کوڑے مارے جاتے تھے اور پھر اُسے صلیب پر لٹکا دیا جاتا تھا۔
” ۔۔۔ اور یسوع کو کوڑے لگوا کر حوالہ کیا تاکہ صلیب دی جاۓ۔ اِس پر حاکم کے سپاہیوں نے یسوع کو قلعہ میں لے جا کر ساری پلٹن اُس کے گرد جمع کی اور اُس کے کپڑے اُتار کر اُسے قرمزی چوغہ پہنایا اور کانٹوں کا تاج بنا کر اُس کے سر پر رکھا اور ایک سرکنڈا اُس کے دہنے ہاتھ میں دیا اور اُس کے آگے گھٹنے ٹیک کر اُسے ٹھٹھوں میں اُڑانے لگے کہ اے یہودیوں کے بادشاہ آداب! اور اُس پر تھوکا اور وہی سر کنڈا لے کر اُس کے سر پر مارنے لگے۔ اور جب اُس کا ٹھٹھا کر چکے تو چوغہ کو اُس پر سے اُتار کر پھر اُسی کے کپڑے اُسے پہناۓ اور مصلوب کرنے کو لے گۓ“ (متی ٢٧ : ٢٦ ۔ ٣١ )۔
خداوند کا پہاڑ
یوں جلال کے بادشاہ کا پاک بدن خون سے تربتر ہوا۔ اُس کا گوشت جگہ جگہ سے پھٹا، کانٹے دار شاخوں کا تاج اُس کے سر پر تھا، اور اُس کے کندھے پر لکڑی کی بھاری صلیب لادی گئی۔ اور سپاہی اسے شہر سے باہر اُس پہاڑ کی طرف لے چلے جہاں تقریباً دو ہزار سال پہلے ابرہام نے پیش گوئی کی تھی کہ:
”۔۔۔ خدا آپ ہی اپنے واسطے سوختنی قربانی کے لئے برّہ مہیا کر لے گا۔۔۔ خداوند کے پہاڑ پر مہیا کیا جاۓ گا“ (پیدائش ٢٢ :٨، ١٤ )۔
سارے عناصر جمع ہو گۓ تھے — لوگوں کی بھیڑ، مقدمہ کی کارروائی، وہ خاص شخص، اور وہ جگہ — سب کچھ ویسے ہی ہو رہا تھا جیسے نبیوں نے پیش گوئ کی تھی۔
اب سارے زمانوں کی کارروائی کا وقت آ گیا تھا۔
(یعنی وہ کام جو نہ پہلے کسی زمانے میں ہوا تھا نہ بعد میں ہو گا)۔
١. ایک تُمن میں دس ہزار سپاہی ہوتے ہیں۔