۱۳ |
رحم اور عدل |
انسان کیا کر سکتا ہے جو خدا نہیں کر سکتا؟ |
بائبل مقدس اِس معمے، اِس پہیلی کا جواب دیتی ہے:
” خدا انسان نہیں کہ جھوٹ بولے، اور ںہ وہ آدم زا د ہے کہ اپنا ارادہ بدلے۔ کیا جو کچھ اُس نے کہا اُسے نہ کرے؟ یا جو فرمایا ہے اُسے پورا نہ کرے؟“ (گنتی ٢٣ : ١٩ )۔
لوگ ہر روز جھوٹ بولتے ہیں، اپنے ارادے بدل لیتے ہیں اور وعدے توڑتے ہیں۔ خدا یہ کام نہیں کر سکتا۔ وہ جو انتہائی کامل ہے اپنی ذات و صفات کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا۔
” وہ آپ اپنا انکار نہیں کر سکتا“ (٢۔تیمتھیس ٢: ١٣ )۔
کچھ عرصہ ہوا مجھے یہ ای میل ملی:
ای میل | |
”آپ کہتے ہیں کہ اللہ من مانے طور سے معاف نہیں کر سکتا۔ آپ کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاتھ اُس کے اپنے ہی قوانین سے بندھے ہوئے ہیں۔ آپ نے لکھا تھا 'خدا سب کچھ کر سکتا ہے لیکن اپنے آپ کا انکار نہیں کر سکتا اور اپنے قوانین سے درگزر نہیں کر سکتا۔' ہمارا نہایت رحیم خالق اپنے آپ کو یہ استعداد دینے سے کیوں محروم رکھے گا کہ اپنے بندوں کو جو معافی مانگتے ہیں معاف کر سکے؟ وہ اپنے رحم پر ایسی قدغن کیوں لگائے گا؟... کیا آپ دیکھ نہیں سکتے کہ اِس میں کوئی معقولیت نہیں ہے؟ اگر وہ ایسا قانون بنا بھی لیتا تو اُسے فوراً توڑ سکتا ہے کیونکہ وہ قادرِ مطلق ہے! یہ دلیل دینا ہی غیر معقول اور غیر منطقی ہے کہ اپنی قدرتِ کاملہ کے باوجود اللہ کسی طرح محدود ہے۔ اگر وہ چاہے تو ہم سب کو جہنم کی آگ میں پھینک دے، لیکن وہ نہایت رحیم ہے اور ہر وقت اپنے بندوں کو معاف کرنے کا انتظار کرتا ہے تاکہ جب اُن کی عدالت ہو تو وہ کامیاب ہو جائیں۔ دعا ہے کہ جس روز ہم سب اکٹھے کئے جائیں گے اور ایک ایک شخص عدالت کے لئے اکیلا کھڑا ہو گا تو اللہ ہم پر رحم کرے اور سب کو معافی عطا فرمائے!“ |
جن باتوں پر ہم نے گذشتہ باب میں غور کیا اُن کی روشنی میں کیا اِس آدمی کی دلیلوں میں کچھ مشکل ہے؟ کیا ہمارا خالق آزاد ہے کہ اپنے مقرر کردہ قوانین کو نظرانداز کر دے اور اپنی پاک ذات کا انکار کرے؟
عدل کے بغیر رحم
اِس کمرہ عدالت کا تصور کریں:
جج عدالت کی کرسی پر بیٹھا ہے۔ اُس کے سامنے ایک آدمی کھڑا ہے جو بینک لوٹنے اور وحشت ناک قتل کا مجرم ہے۔ کمرہ عدالت گواہوں سے بھرا ہوا ہے۔ مقتول کی بیوی اور خاندان کے دیگر افراد موجود ہیں۔ بینک کے ملازمین بھی حاضر ہیں۔ اخبار نویس موجود ہیں جو ساری کارروائی قلم بند کر لیں گے۔
اِس قاتل کے بارے میں عدالت کیا فیصلہ صادر کرے گی؟ سزائے موت؟ عمر قید اور ضمانت پر رہائی؟
کمرہ عدالت میں حاضرین کو کہا جاتا ہے کہ کھڑے ہو جائیں۔
مجرم کی طرف دیکھتے ہوئے جج کہتا ہے ”مجھے معلوم ہوا تم باقاعدگی سے دعائیں نمازیں پڑھتے اور خیرات دیتے ہو۔ تم جس طرح تسبیح کے دانوں پر انگلیاں چلاتے ہو بہت متاثر کرتے ہو۔ مَیں نے سنا ہے کہ تم بہت مہمان نواز اور مسافر پرور بھی ہو۔ فرق تو بہت تھوڑا ہے لیکن تمہارے نیک کام تمہارے بُرے کاموں سے زیادہ ہیں۔ مَیں تمہاری رحم کی اپیل منظور کرتا ہوں۔ تمہیں معاف کیا جاتا ہو۔ تم آزاد ہو۔ جا سکتے ہو۔“
منصف ہتھوڑا اُٹھا کر میز پر مارتا ہے۔
چاروں طرف سے غصیلی بڑبڑاہٹ اور لمبے سانس کھینچنے کی آوازیں آنے لگتی ہیں ... کمرہ عدالت میں ایسے منظر کے بارے میں شاید ہی کبھی سنا ہو گا۔ کمرہ عدالت میں ایک طرف ترازو لٹکا نظر آتا ہے۔ یہ علامت ہے کہ ساری شہادتوں کو جانچا پرکھا جاتا ہے۔ لیکن جب کسی شخص کا جرم ثابت ہو جاتا ہے تو مناسب سزا سنانا ضروری ہوتا ہے۔ مجرم نے ”نیک کام“ کئے ہوں یا نہ، اِس کا عدالتی فیصلے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہم سب اِس بات سے واقف ہیں۔
نیک کاموں کا بُرے کاموں سے زیادہ ہونے کا نظام اگر دنیاوی عدالت کے کمرے میں کبھی استعمال ہوا بھی ہو، تو کیا ایسا بے انصافی کا طریقہ خدا کے آسمانی کمرہ عدالت میں استعمال ہو گا؟
عادل منصف
خدا ہماری خیالی کہانی کے جج کی مانند نہیں ہے۔ اُس کا ایک صفاتی نام ”عادل منصف“ ہے (٢۔تیمتھیس ٤: ٨ )۔ چار ہزار سال ہوئے ابرہام نبی نے یہ سوال پوچھا تھا ”...کیا تمام دنیا کا انصاف کرںے والا انصاف نہ کرے گا؟“
(پیدائش ١٨ : ٢٥ )
خدا رحم کرنے کے لئے عدل و انصاف کو بالائے طاق نہیں رکھ دیتا __ ہرگز نہیں۔ ایسا کرنے سے اُس کے راست تخت کی بنیادیں اُکھڑ جائیں گی اور اُس کے پاک نام پر دھبا لگ جائے گا۔
” صداقت اور عدل تیرے تخت کی بنیاد ہیں۔ شفقت اور وفاداری تیرے آگے آگے چلتی ہیں“ (زبور ٨٩ : ١٤ )۔
ہمارے ای میل بھیجنے والے دوست کی طرح یہ فرض کرنا ہی غلط ہے کہ خدا اپنی ”قدرت کاملہ“ کا استعمال کرتے ہوۓ اپنے ہی قوانین کی پروا نہیں کرے گا، کیونکہ اِس مفروضے میں یہ بات مضمر ہے کہ ”تمام دنیا کا انصاف کرنے والا“ اُن گنہگاروں سے کم راست ہے جن کی وہ عدالت کرے گا۔
ہم انسانوں میں جبلی طور سے انصاف کی سمجھ اور احساس موجود ہے۔ اِس لئے بہت عجیب بات ہے کہ ہم اِس کھلی حقیقت اور سچائی کی مزاحمت کریں کہ ہمارے خالق میں بھی عدل و انصاف کا وہی شعور موجود ہے۔ ہم اپنے دلوں میں یہ جانتے ہیں کہ جو جج بُرائی کی سزا دینے میں ناکام رہتا ہے اُس میں کوئی ”بڑائ یا عظمت“ نہیں ہے۔
یرمیاہ نبی لکھتا ہے:
” ... تیری وفاداری عظیم ہے۔ میری جان نے کہا میرا بخرہ خداوند ہے اِس لئے میری اُمید اُسی سے ہے“ (نوحہ ٣: ٢٣ ، ٢٤ )۔
غور کریں کہ نبی نے یہ نہیں کہا کہ
”تیرا ناقابلِ پیش گوئی ہونا عظیم ہے“ یا ”تیری متلون مزاجی عظیم ہے۔“ ہم کسی من موجی دیوتا سے کیا اُمید رکھ سکتے ہیں؟ خدا وفاداری میں عظیم ہے۔ بہت سے لوگ جو اُسے ”الرحیم اور الرحمن“ کہہ کر پکارتے ہیں بھول جاتے ہیں کہ وہ ”سچا اور عادل“ بھی ہے (١۔یوحنا ١: ٩ )۔
یک رُخی تناظر سے خدا کے بارے میں نظریہ بھی بگڑ جاتا ہے۔
خدا کی متوازن ذات
پرندے کو اُڑنے کے قابل ہونے کے لئے کون سا پر (پنکھ، بازو) ضروری ہے، دایاں یا بایاں؟
سب کو معلوم ہے کہ پرندے کو اُڑنے کے لئے دونوں پروں کی ضرورت ہوتی ہے! اگر کوئی سوچتا ہے کہ پرندہ ایک پر سے اُڑ سکتا ہے وہ پرندوں کی فطرت اور کششِ ثقل اور ہوا میں حرکت کرنے کے قوانین سے ناواقف ہے یا اُنہیں نظرانداز کر رہا ہے۔
اِسی طرح جو کوئ کہتا ہے کہ خدا عدل کو برقرار رکھے بغیر رحم کر سکتا ہے وہ خدا کی ذات اور گناہ اور موت کی شریعت کو نظر انداز کر رہا ہے۔
خدا کا رحم اور عدل ہمیشہ کامل طور سے متوازن رہتے ہیں۔ داؤد بادشاہ لکھتا ہے:
” مَیں شفقت اور عدل کا گیت گاؤں گا۔ اے خداوند! مَیں تیری مدح سرائی کروں گا“ (زبور ١٠١ : ١ )۔
داؤد نے چند قبیح گناہ کئے تھے اور جانتا تھا کہ مَیں خدا کی رحمت اور شفقت کا حق دار نہیں۔ معنی اور صراحت کے مطابق رحمت یا شفقت ہوتی ہی بلا استحقاق ہے۔
واجب سزا دینا (اور پانا) عدل ہے۔
واجب سزا نہ دینا رحمت یا شفقت ہے۔ آسان لفظوں میں سزا معاف
کر دینا، رحمت یا شفقت ہے۔
داؤد کے خدا کی حمد اور ستائش کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ جانتا تھا کہ خدا نے عدل کو بالائے طاق رکھے بغیر غیر مستحق گنہگاروں پر رحم کرنے کی ایک راہ نکالی ہے۔ اِسی لئے داؤد ”شفقت اور عدل“ کا گیت گا سکتا تھا۔
پاک خدا کے لئے گناہ معاف کرنا کوئی سادہ اور آسان معاملہ نہیں۔ عدل کا تقاضا ہے کہ گناہ اور قصور کی سزا دی جاۓ۔ خدا یہ تقاضا پورا کئے بغیر کسی گنہگار کو ہرگز معاف نہیں کرتا۔ اگر کوئی شخص ہمارا قصور کرتا ہے تو ہم بہ حیثیت انسان اُسے کہہ سکتے ہیں، چلو کوئی بات نہیں۔ بس بھول جاؤ، یہ کون سی بڑی بات ہے۔ ہم بڑی مہربانی سے کسی شخص کو معاف کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ لیکن بے انتہا پاک منصف ایسا نہیں کر سکتا۔
خدا کی رحمت یا خدا کا فضل خدا کے عدل کی ہرگز نفی نہیں کرتا۔ خدا کبھی نہیں کہتا کہ ” مَیں تجھ سے محبت رکھتا ہوں اِس لئے تیرے گناہ کی عدالت نہیں کرتا، تیرے گناہ کی سزا نہیں دیتا۔“ خدا یہ بھی نہیں کہتا کہ چونکہ تُو نے گناہ کیا ہے اِس لئے مَیں تجھ سے محبت نہیں رکھتا۔ خدا گنہگاروں سے محبت رکھتا ہے، لیکن ضرور ہے کہ وہ اُن کے گناہوں کی سزا دے اور اُنہیں گناہ کرنے سے روکے۔
اگر خدا ایسا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ وہ گنہگاروں پر رحم کرے؟
رحم کے ساتھ عدل
آدم اور حوا کی صورتِ حال پر پھر غور کریں۔
چونکہ خدا محبت کرنے والا اور رحیم خدا ہے، اِس لئے وہ نہیں چاہتا تھا کہ آدم اور حوا مجھ سے جدا اور دُور ہو جائیں۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہیں اور ہمیشہ کی آگ میں نہ پڑیں۔
” خداوند کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا“ (٢۔پطرس ٣: ٩)۔
لیکن چونکہ خداوند عادل اور منصف ہے اِس لئے وہ آدم اور حوا کے گناہ سے درگزر نہیں کر سکتا تھا۔ اُسے اُن کو ضرور سزا دینا تھی۔
” تیری آنکھیں ایسی پاک ہیں کہ تُو بدی کو دیکھ نہیں سکتا۔“
(حبقوق ١: ١٣ )
چنانچہ خدا کیا کرتا؟ کیا کوئی طریقہ تھا کہ گنہگار کو سزا دیئے بغیر گناہ کو سزا دی جا سکتی؟ گناہ کی نجاست اور پلیدی کیسے دُور کی جاتی اور کامل پاکیزگی کیسے بحال کی جاتی؟ کیا ایوب نبی کے اِس سوال کا کوئی جواب ہے کہ ”...انسان خدا کے حضور کیسے راست باز ٹھہر سکتا ہے؟“ (ایوب ٩: ٢ )۔ خدا کا شکر ہے کہ ایک طریقہ ہے!
پاک صحائف انکشاف کرتے ہیں کہ عادل منصف نے کیا کیا کہ وہ ”عادل“ بھی رہے اور آدم اور حوا اور میرے اور آپ جیسے گنہگاروں کو ”راست باز ٹھہرانے والا بھی ہو“ (رومیوں ٣: ٢٦ )۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اُس نے کیا کیا کہ وہ ہم پر رحم اور فضل بھی کرے اور اپنے عدل کو بھی قائم رکھے؟
اِس کا جواب آگے ملے گا۔ سفر جاری رکھیں۔
میرا کچھ قصور نہیں
اب ذرا وہ گفتگو سنیں جو ہمارے نجس اور ناپاک پہلے والدین اور اُن کے خالق کے درمیان ہوئی۔ اب یہ خالق اُن کا منصف تھا۔
” تب خداوند خدا نے آدم کو پکارا اور اُس سے کہا تُو کہاں ہے؟ ... اور ... اُس (آدم) نے کہا مَیں نے باغ میں تیری آواز سنی اور مَیں ڈرا کیونکہ مَیں ننگا تھا اور مَیں نے اپنے آپ کو چھپایا۔ اُس (خداوند) نے کہا تجھے کس نے بتایا کہ تُو ننگا ہے؟ کیا تُو نے اُس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت مَیں نے تجھ کو حکم دیا تھا کہ اُسے نہ کھانا؟ آدم نے کہا کہ جس عورت کو تُو نے میرے ساتھ کیا ہے اُس نے مجھے اُس درخت کا پھل دیا اور مَیں نے کھایا۔ تب خداوند خدا نے عورت سے کہا کہ تُو نے یہ کیا کیا؟ عورت نے کہا کہ سانپ نے مجھے بہکایا تو مَیں نے کھایا“ (پیدائش ٣: ٩ ۔١٣ )۔
خداوند خدا نے آدم اور حوا سے کیوں استفسار کیا؟
اُس نے اُسی طرح سے استفسار کیا جس طرح سے باپ یا ماں نافرمان بچے سے استفسار کرتے ہیں حالانکہ اُنہیں معلوم ہوتا ہے کہ بچے نے کیا کیا ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ آدم اور حوا اپنے گناہ اور قصور کو جانیں اور تسلیم کریں۔ لیکن اپنے گناہ کو تسلیم کرنے کے بجائے ہر ایک نے دوسرے پر الزام لگانے کی کوشش کی۔
آدم نے خدا اور حوا پر الزام دھرا۔ میرا کوئی قصور نہیں! جس عورت کو تُو نے میرے ساتھ کیا، اُس کا قصور ہے۔
حوا نے سانپ کو جواب دہ ٹھہرایا، ”سانپ نے مجھے بہکایا۔“
چونکہ وہ پہلے سے پروگرام کئے گئے روبوٹ نہیں تھے اِس لئے خدا نے ہر ایک کو اِس فیصلے کا جواب دہ ٹھہرایا جو اُس نے کیا تھا۔ ہر ایک خود ذمہ دار تھا، کسی دوسرے کو الزام نہیں دے سکتا تھا۔
” جب کوئی آزمایا جائے تو یہ نہ کہے کہ میری آزمائش خدا کی طرف سے ہوتی ہے کیونکہ نہ تو خدا بدی سے آزمایا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی کو آزماتا ہے۔ ہاں، ہر شخص اپنی ہی خواہشوں میں کھنچ کر اور پھنس کر آزمایا جاتا ہے۔ پھر خواہش حاملہ ہو کر گناہ کو جنتی ہے اور گناہ جب بڑھ چکا تو موت پیدا کرتا ہے“ (یعقوب ١: ١٣ ۔ ١٥ )۔
اپنے خالق کے منصوبے کو چھوڑ کر آدم اور حوا نے ”اپنی ہی خواہشوں“ کی پیروی کی جو اُنہیں گناہ اور موت کی راہ پر لے چلیں۔
حوا کو تو سانپ نے ورغلایا اور فریب دیا تھا اور آدم __ جسے خدا نے حکم دیا تھا کہ تُو نیک و بد کے درخت کا پھل نہ کھایا__ اُس نے جان بوجھ کر، اپنے ارادے سے اپنے خالق کی نافرمانی کی۔
” آدم نے فریب نہیں کھایا بلکہ عورت فریب کھا کر گناہ میں پڑ گئی“
(١۔تیمتھیس ٢ : ١٤ )۔
جان بوجھ کر یا فریب کھا کر، دونوں ہی قصوروار تھے۔ لیکن پاک کلام کہتا ہے آدم کے ممنوعہ پھل کھانے کے بعد یہ ہوا کہ ”تب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں“ (پیدائش ٣: ٧)۔
خدا نے حوا کو نہیں بلکہ آدم کو اِس بات کا ذمہ دار ٹھہرایا کہ وہ بنی نوع انسان کو راستی اور زندگی کی بادشاہی سے نکال کر گناہ اور موت کی مملکت میں لے گیا۔ خدا نے آدم کو پوری نسلِ انسانی کا ”سر“ ہونے کا اعزاز بخشا تھا، لیکن اِس بڑے اعزاز کے ساتھ ذمہ داری بھی تھی۔
آدم کے گناہ نے ہم سب کو آلودہ کر دیا ہے۔ لیکن جو فیصلے اور چناؤ ہم کرتے ہیں اُن کے لئے آدم کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے۔
” ... ہم میں سے ہر ایک خدا کو اپںا حساب دے گا“(رومیوں١٤ :١٢ )۔