۲۲
برہ
”خدا محبت ہے“ —(١۔یوحنا ٨:٤)۔
”خدا بزرگ ہے“ —(ایوب ٣٦: ٢٦ )۔

چونکہ خدا محبت ہے اِس لئے وہ اپنے لوگوں کے ساتھ قریبی رشتہ رکھنا چاہتا ہے۔ خدا کی میل ملاقات رکھنے کی صفت بائبل مقدس کی پہلی کتاب کے پہلے باب میں نمایاں نظر آتی ہے۔ اُس نے آدم اور حوا کو اپنی صورت پر بنایا تاکہ اُن کے ساتھ رفاقت سے خوش ہو (پیدائش ١: ٢٧ )  خداوند خدا کا ایک نام عمانوایل بھی ہے، جس کا مطلب ہے ”خدا ہمارے ساتھ“ (یسعیاہ ٧ :١٤ ؛ متی ١: ٢٣ )۔ خدا ہمارے ساتھ کا مضمون  خدا کی کتاب کے آخری باب تک چلتا ہے جب اُس کے فدیہ دے کر چھڑاۓ ہوۓ لوگ ”اُس کا منہ دیکھیں گے“ (مکاشفہ ٢٢: ٤ ) اور ابد تک اُس کے ساتھ رہیں گے۔ جس کسی کو یہ حقیقت نظر نہیں آتی وہ بائبل مقدس کے مرکزی مضمون کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے۔ چونکہ خدا بزرگ ہے اِس لئے وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔

(نوٹ: روزمرہ زبان میں ”بزرگ“ کے معنی ”عمر رسیدہ“ سمجھے جاتے ہیں، مگر خدا کے بزرگ ہونے کا مطلب ہے کہ وہ پوری قدرت، طاقت، حشمت ۔۔۔ کا مالک ہے۔)

” دیکھ، مَیں تمام بشر کا خدا ہوں۔ کیا میرے لئے کوئ کام دشوار ہے؟“ (یرمیاہ ٣٢ : ٢٧ )۔

کوئ بھی سچا توحید پرست یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر خدا بشر بننا چاہے تو نہیں بن سکتا۔ اگر کوئی ایسی بات، ایسا کام ہو (سواۓ اپنا انکار کرنے کے) جو وہ قادرِ مطلق نہیں کر سکتا تو وہ خدا سے کوئ کمتر چیز ہو گا۔

سوال یہ نہیں کہ ”کیا خدا بشر بن سکتا ہے؟“

بلکہ سوال یہ ہے کہ ”خدا نے بشر بننے کا فیصلہ کیوں کیا؟“

خدا کا حقیقی خیمہ

خدا نے بنی اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ ایک لاجواب خیمہ بناؤ تاکہ ”مَیں تمہارے درمیان سکونت کروں“ (خروج ٢٥ : ٨ )۔ اِس واقعہ کے تقریباً پندرہ سو سال بعد پاک کلام میں فرمایا گیا:

” ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔۔۔ اور کلام مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال“ (یوحنا ١: ١، ١٤ )۔

جس لفظ کا ترجمہ ”سکونت کرنا“ کیا گیا ہے وہ یونانی زبان کے ایک لفظ سے آیا ہے  جس کا مطلب ہے تنبو یا خیمہ کھڑا کرنا۔ پاک کلام میں انسان کے بدن کو بھی ”خیمہ کا گھر، خیمہ اور  مقدس“کہا گیا ہے (٢۔کرنتھیوں ٥: ١، ٤ ؛ ١۔ کرنتھیوں ٦: ١٩ ؛ ٢۔پطرس ١: ١٣، ١٤ ؛ افسیوں ٢: ٢١ )۔

ہم نے باب ١٦  میں سیکھا تھا کہ خدا کا ازلی بیٹا ایک ننھے لڑکے کی صورت میں پیدا ہوا۔ اُس کا انسانی بدن وہ خیمہ تھا جس میں اُس نے سکونت کرنا پسند کیا۔

موسی' کے زماںے میں خیمہ اجتماع جس میں خدا نے اپنی حضوری کا ازلی اور قائم بالذات نور (جلال) رکھا وہ خیمہ جانوروں کی کھالوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ لیکن یسوع میں خدا کا روشن اور ازلی جلال اور حضوری انسانی کھال میں سکونت کرتی تھی۔ اِس لئے اُس کے شاگرد کہہ سکتے تھے ”ہم نے اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال۔“

پاک کلام نے یہ بھی کہا ہے کہ یسوع ”حقیقی خیمہ کا خادم ہے جسے خداوند نے کھڑا کیا ہے نہ کہ انسان نے“ (عبرانیوں ٨: ٢ )۔

موسی' کے زمانے میں خیمہ اجتماع اور بعد کے زمانے میں ہیکل وہ جگہ تھی جہاں گنہگار اپنے گناہ کو ڈھانکنے کے لئے جانوروں کی قربانیاں پیش کر سکتے تھے۔ یسوع اپنے لڑکپن میں اور جب جوان ہو گیا تو بہت دفعہ ہیکل میں جایا کرتا تھا۔ لیکن کہیں بیان نہیں ہوا کہ اُس نے اپنے گناہ کی قربانی چڑھائی۔ کیوں نہیں چڑھائ؟ اُس میں گناہ نہیں تھا۔ یسوع ”ظاہر ہوا تاکہ اپنے آپ کو قربان کرنے سے گناہ کو مٹا دے“ (عبرانیوں ٩: ٢٦ )۔ وہ قربانی بنا اور رومیوں کی صلیب قربان گاہ بنی۔

ساری علامات کے پیچھے یسوع حقیقت تھا۔

”وہ جو جسم میں ظاہر ہوا“ (١۔تیمتھیس ٣: ١٦ )۔

ایک دفعہ یسوع یروشلیم میں عظیم ہیکل کے پاس کھڑا تھا۔ اُس نے لوگوں سے کہا ۔

”اِس مقدس کو ڈھا دو تو مَیں اُسے تین دن میں کھڑا کر دوں گا۔ یہودیوں نے کہا چھیالیس برس میں یہ مقدس بنا ہے اور کیا تُو اُسے تین دن میں کھڑا کر دے گا؟ مگر اُس نے اپنے بدن کے مقدس کی بابت کہا تھا۔ پس جب وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا تو اُس کے شاگردوں کو یاد آیا کہ اُس نے یہ کہا تھا اور اُنہوں نے کتابِ مقدس اور اُس قول کا جو یسوع نے کہا تھا یقین کیا“ (یوحنا ٢: ١٩ ۔ ٢٢ )۔

یہودی نہ سمجھے کہ جس ”مقدس“ کی بات یسوع کر رہا تھا وہ اُس کا اپنا بدن ہے۔ انہوں نے خیال کیا کہ وہ یروشلیم کے شاندار مقدس (ہیکل) کی بات کر رہا ہے۔ لیکن خدا کی حضوری کا جلال اور  نور اب اُن انسانوں کی بنائ ہوئ ہیکل کے پاک ترین مقام میں نہ تھا۔

اب وہ یسوع کے بدن کے ”مقدس“ میں تھا۔

اپنی زمینی خدمت کے آخری دنوں میں یسوع نے اپنے تین شاگردوں کو خدا کے اِس جلال کی آب و تاب دیکھنے کا موقع دیا۔

” ۔۔۔ یسوع نے پطرس اور یعقوب اور اُس کے بھائی یوحنا کو ہمراہ لیا اور اُنہیں ایک اونچے پہاڑ پر الگ لے گیا اور اُن کے سامنے اُس کی صورت بدل گئی اور اُس کا چہرہ سورج کی مانند چمکا اور اُس کی پوشاک نور کی مانند سفید ہو گئی۔۔۔ دیکھو ایک نورانی بادل نے اُن پر سایہ کر لیا اور دیکھو اُس بادل میں سے آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں، اِس کی سنو۔۔۔“ (متی ١٧ : ١۔ ٥ )۔

خدا کا چندھیا دینے والا ، آب و تاب سے چمکنے والا نور جس سے آسمان میں فرشتے اپنے چہرے چھپا لیتے ہیں وہ یسوع میں تھا (ہے)۔ جلالی حضوری  جو خیمہ اجتماع میں اور ہیکل میں سکونت کرتی تھی وہی یسوع میں سکونت کرتی تھی (یسوع خود وہ نور ہے،  یوحنا ٨: ١٢ )۔

وہ جلالی بادل جو کبھی خیمہ اجتماع کے اوپر چھایا رہتا تھا اب یسوع کے اوپر چھایا رہتا تھا۔

یسوع زمین پر خدا کی دیدنی حضوری تھا۔

خدا کے بیٹے کا یہ نورانی جلال اُس وقت بھی موجود تھا جب باپ نے آسمان سے فرمایا:

” یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں اِس کی سنو“ (متی ١٧ : ١۔٥ )۔

خدا اِس معاملے میں بہت سنجیدہ ہے۔

جب خدا کا بیٹا ”ابنِ آدم“ بنا تو اُس کے ابنِ آدم بننے سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے داؤد نے لکھا ”بیٹے کو چومو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ قہر میں آۓ اور تم راستہ میں ہلاک ہو جاؤ کیونکہ اُس کا غضب جلد بھڑکنے کو ہے۔ مبارک ہیں وہ سب جن کا توکل اُس پر ہے“ (زبور ٢: ١٢ )۔

” بیٹے کو چومو“ کا مطلب ہے کہ بیٹے کی تعظیم کرو۔

ہم نے کئی دفعہ دیکھا ہے (اور آپ نے بھی دیکھا ہو گا) کہ لوگ مذہبی راہنماؤں اور پیروں وغیرہ کے ہاتھ چومتے ہیں (یا اُن کے گھٹنوں اور پیروں کو لگا کر اپنے ہاتھ چومتے ہیں) حالانکہ یہ پیر اور مذہبی راہنما ہاتھ چومنے والوں کی طرح بے بس گنہگار ہیں۔ یہی لوگ اُن آدمیوں کی تعظیم کرنے بھی جاتے ہیں جن کے بدن خاک میں مل کر خاک ہو چکے ہیں، جبکہ خدا نے ساری دنیا کے لئے اعلان کیا ہے کہ ”۔۔۔ سب لوگ بیٹے کی عزت کریں جس طرح باپ کی عزت کرتے ہیں۔۔۔“ کیونکہ ”باپ بیٹے کو عزیز رکھتا ہے“ (یوحنا ٥: ٢٣ ، ٢٠ )۔

پیش رَو

دو ںبیوں نے خاص طور سے اُس پیش رَو کے بارے میں لکھا جو ”خداوند کی راہ درست“ کرے گا۔ اُن میں سے ایک یسعیاہ نبی تھا (یسعیاہ ٤٠ :٣ )۔ وہ پیش رو زکریاہ کا بیٹا یوحنا نبی تھا (یسعیاہ ٤٠ : ٣۔ ٩؛ ملاکی ٣: ١؛ لوقا باب١ ؛ یوحنا باب ١)۔ دوسرے نبی تو یہ اعلان کرتے تھے کہ ”خدا مسایاح کو دنیا میں بھیجے گا“ مگر یوحنا کو یہ نمایاں اعزاز ملا کہ اُس نے اعلان کیا کہ مسیحِ موعود، خود خداوند آ گیا ہے!

” اُن دنوں میں یوحنا بپتسمہ دینے والا آیا اور یہودیہ کے بیابان میں یہ منادی کرنے لگا کہ توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے۔ یہ وہی ہے جس کا ذکر یسعیاہ نبی کی معرفت یوں ہوا کہ بیابان میں پکارنے والے کی آواز آتی ہے کہ خداوند کی راہ تیار کرو۔ اُس کے راستے سیدھے بناؤ“ (متی ٣: ١ ۔ ٣ )۔

توبہ

خداوند کی آمد کے لئے لوگوں کو تیار کرنے کی خاطر  یوحنا کا پیغام سیدھا سادہ تھا:

” توبہ کرو!“

جس لفظ کا ترجمہ توبہ کیا گیا ہے، یونانی زبان میں اُس کے لئے لفظ میٹانوئیو ہے۔ اِس کے دو حصے ہیں۔ ایک 'میٹا' جس کا مطلب ہے 'حرکت' یا 'تبدیلی'۔ دوسرا حصہ دماغ کے خیالات کا مفہوم رکھتا ہے۔ چنانچہ 'توبہ' کا بنیادی مطلب ہے، ذہنی خیالات کی تبدیلی یعنی سوچ کی تبدیلی — غلط سوچ چھوڑ کر درست سوچ کی طرف آنا۔

روزاںہ معمولات کے تناظر میں ”توبہ“ کی وضاحت کچھ یوں ہو گی۔ فرض کریں کہ مَیں بس کے ذریعہ ایک شہر سے دوسرے شہر — مثلاً لاہور سے پشاور جانا چاہتا ہوں۔ مَیں ایک بس میں سوار ہو جاتا ہوں جو میرے خیال میں درست بس ہے یعنی پشاور جانے والی ہے۔ اور سیٹ پر بیٹھ کر آرام سے آنکھیں بند کر لیتا اور سو جاتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد آنکھ کھلتی ہے تو دیکھتا ہوں کہ بس کا رُخ شمال میں پشاور کی طرف نہیں بلکہ جنوب میں ملتان کی طرف ہے۔ اب کیا کروں؟

میرے سامنے دو ہی انتخاب ہیں — دوہی فیصلے ہیں۔

اوّل: اپنے فخر اور انا کے باعث اپنی غلطی نہ مانوں کہ سب کے سامنے سُبکی ہو گی۔ اُسی بس میں بیٹھا رہوں اور غلط منزل پر جا پہنچوں۔

دوم: اپنی انا کو چھوڑوں یعنی اپنی سوچ کو بدلوں اور اپنی غلطی کا اِقرار کروں۔ اقرار کی سچائی اُس وقت ثابت ہو گی جب مَیں بس رُکوا کر یا اگلے سٹاپ پر غلط بس سے اُتر کر درست بس پر سوار ہوں گا۔

سچی توبہ یہ ہے کہ انسان جھوٹ کو چھوڑ کر سچائی پر ایمان لاۓ اور سچائی کی پیروی کرے۔ توبہ ایک سکے کی دو اطراف ، دو رُخوں کی مانند ہے۔

ایک رُخ کہتا ہے: توبہ کر!

دوسرا رُخ کہتا ہے: ایمان لا!

دونوں رُخ ایک ہی سچائی کا حصہ ہیں۔

” خدا کے سامنے توبہ کرنا اور ہمارے خداوند یسوع مسیح پر ایمان لانا“ (اعمال ٢٠ : ٢١ )۔

 توبہ کا مطلب ہے کہ جس چیز پر آپ نجات کے لئے ایمان رکھتے ہیں اُس کے بارے میں اپنی سوچ بدلنا۔

توبہ کے بغیر ایمان سچا نہیں ہو سکتا۔

اِسی لئے یوحنا نبی یہ پیغام دیتا تھا کہ اپنی غلط سوچ سے توبہ کرو۔ اقرار کرو کہ ہم  اپنے آپ کو نہیں بچا سکتے۔ آسمان سے آنے والے مسایاح بادشاہ کو خوش آمدید کہو!وہ تمہیں تمہارے بد ترین دشمنوں سے چھڑانے آیا ہے بشرطیکہ تم اپنے آپ پر بھروسا کرنا چھوڑ کر اُس پر ایمان لاؤ اور اُسی پر بھروسا رکھو!

جو لوگ خدا کے سامنے اپنی گناہ آلود حالت کا اقرار کرتے تھے اُنہیں یوحنا دریاۓ یردن میں بپتسمہ دیتا تھا۔ اِسی لئے وہ ”یوحنا بپتسمہ دینے والا“ کے نام سے مشہور ہوا۔ پانی سے بپتسمہ لینے سے گناہ نہیں دُھل سکتے تھے اور نہ دُھل سکتے ہیں۔ دریا میں غوطہ لینے سے لوگ ظاہری طور پر اظہار کرتے تھے کہ ہم نے مسیحِ موعود کے بارے میں پیغام کو باطنی طور پر قبول کر لیا ہے کہ وہ ایمان لانے اور توبہ کرنے والے گنہگار کو گناہ کی غلاظت سے دھو کر پاک صاف کرنے کو آنے والا ہے۔

برگزیدہ

اپنی زمینی خدمت کے آغاز میں یسوع یوحنا کے پاس آیا تاکہ اُس سے

دریاۓ یردن میں بپتسمہ لے۔ مسیحِ موعود بے گناہ تھا اور اُسے بپتسمہ لینے کی ضرورت نہ تھی، لیکن بپتسمہ لینے سے اُس نے اپنے آپ کو بنی نوع انسان کے ساتھ ایک ظاہر کیا جنہیں چھڑانے وہ آیا تھا۔

یسوع کے بپتسمہ لینے کے بعد وہ منظر دکھائی دیا جو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ اِس میں ہمیں واحد حقیقی خدا کی پیچیدہ وحدت کی ایک اَور جھلک نظر آتی ہے۔

” یسوع بپتسمہ لے کر فی الفور پانی کے پاس سے اوپر گیا اور دیکھو اُس کے لئے آسمان کھل گیا اور اُس نے خداوند کے روح کو کبوتر کی مانند اُترتے اور اپنے اوپر آتے دیکھا۔ اور دیکھو آسمان سے یہ آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں“ (متی ٣: ١٦ ، ١٧ )۔

جس طرح تخلیقِ کائنات کے پہلے دن باپ، بیٹا اور روح القدس موجود تھے یہ بیان ظاہر  کرتا ہے کہ اِس موقع پر بھی وہ موجود تھے۔ البتہ تاریخ کے اِس کلیدی اور اہم ترین لمحہ پر خدا نے اپنی تکثیری وحدت بہت صاف طور سے ظاہر کی۔ پاک کلام میں سے گزرنے کے اِس سفر میں یہ ایک مقام ہے جہاں مسافر کو چاہئے کہ رُکے، چند تصویریں لے اور غور و خوض کرے۔

منظر یوں ہے — مطلع صاف ہے، آسمان گویا چمک رہا ہے۔ ایسے پُرفضا ماحول میں خدا کا بیٹا (وہ کلمہ جس نے آسمان اور زمین کو خلق کیا) دریا سے نکل کر اوپر آ رہا ہے۔ اُسی لمحے خدا کا روح (جو تخلیق کے پہلے دن پانیوں کی سطح پر جنبش کر رہا تھا) آسمان سے اُترتا ہے۔ وہ کبوتر کی مانند اُتر کر یسوع پر آ ٹھہرتا ہے اور آسمان سے خدا باپ کی آواز گونجتی ہے ”یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں۔“

گذشتہ سالوں میں یسوع پس منظر میں تھا۔ ناصرت کے ایک عام سے گھر میں ایک متوسط سے خاندان میں رہتا تھا۔ اگرچہ وہ عام لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل تھا مگر باپ جو آسمان پر ہے اُس کی آنکھیں اپنے پیارے بیٹے پر لگی ہوئ تھیں۔ اور اب ہم یسوع کی زندگی کے بارے میں خدا کا فرمان سنتے ہیں کہ ”مَیں اُس سے خوش ہوں۔“

اِس دنیا میں جتنے بھی انسان پیدا ہوۓ اُن میں سے کسی کے لئے بھی خدا یہ بات نہیں کہہ سکتا تھا۔ صرف یسوع تھا جس نے ظاہر اور باطن میں ایک ایک بات میں اُسے (خدا کو) خوش کیا تھا۔ وہ آسمان سے آنے والا بیٹا تھا۔ وہ پاک اور بے داغ تھا اور جو کام کرنے آیا تھا اُسے کرنے کے لائق تھا۔ وہ مسایاح — ممسوح اور خدا کا برگزیدہ تھا۔ خدا نے اُسے مسح کیا، لیکن تیل سے نہیں (جیسا کہ کاہن اور بادشاہ کو کیا جاتا تھا) بلکہ روح القدس سے۔

” ۔۔۔ خدا نے یسوع ناصری کو روح القدس اور قدرت سے۔۔۔ مسح کیا“ (اعمال ١٠ : ٣٨ )۔

یسوع وہ ہستی ہے جس کے بارے میں سارے ںبیوں نے لکھا تھا۔

پرانے عہدنامے کے زمانے میں جب بھی خدا کسی کو کاہن یا بادشاہ ہونے کے لئے چنتا تھا تو کوئی بااختیار شخص مثلاً نبی اُسے تیل سے مسح کرتا تھا۔  اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ خدا نے اُسے کسی خاص کام کے لئے چنا ہے۔ لیکن خدا نے اپنے بیٹے کو روح القدس سے مسح کیا۔ پاک کلام میں تیل کو اکثر روح القدس کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ نوٹ: جیسے تخلیق کے کام میں ذاتِ الہی کے تینوں اقانیم شامل تھے اِسی طرح باپ، بیٹا اور روح القدس انسانوں کی مخلصی کے کام میں شامل ہیں۔

خدا کا برہ

” دوسرے دن اُس (یوحنا) نے یسوع کو اپنی طرف آتے دیکھ کر کہا دیکھو یہ خدا کا برہ ہے جو دنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے۔“ (یوحنا ١: ٢٩ )

یوحنا نبی کا بیان بہت گہرے معانی رکھتا ہے۔

  • ”دیکھو! یہ خدا کا برہ ہے۔۔۔“
    یوحنا کے سامعین کسی حد تک ”برہ“ کے معنی سمجھتے تھے۔ جب سے گناہ دنیا میں داخل ہوا تب سے لوگ سوختنی قربانی کے لئے برہ لا رہے تھے۔ پندرہ صدیوں سے ہر روز صبح اور شام کو پیتل کے مذبح پر برے ذبح ہوتے آ رہے تھے۔ اور اب خدا کا اپنا برہ سامنے آ گیا تھا! دو ہزار سال پہلے ابرہام نے اضحاق سے کہا تھا ”خدا آپ ہی اپنے واسطے سوختنی قربانی کے لئے برہ مہیا کر لے گا“ (پیدائش ٢٢: ٨)۔ خدا نے ایک عوضی واقعی مہیا کر دیا تھا کہ ابرہام کے بیٹے کے بدلے مرے، لیکن وہ ”وہ برّہ“ نہیں تھا۔ وہ تو ”مینڈھا“ تھا (پیدائش ٢٢: ١٣ )۔ ابرہام کی نبوت میں ”برّہ“ خود مسایاح تھا۔ ابرہام کا اشارہ یسوع کی طرف تھا۔ اِسی لۓ یسوع نے کہا ”ابرہام میرا دن دیکھنے کی اُمید پر بہت خوش تھا چنانچہ اُس نے دیکھا اور خوش ہوا“ (یوحنا ٨: ٥٦ )۔
  • ”۔۔۔ جو گناہ اُٹھا لے جاتا ہے۔۔۔“
    آدم کے دنوں سے لے کر بے گناہ جانوروں کا خون علامتی طور پر اُن لوگوں کا گناہ ڈھانپتا آ رہا تھا جو خدا اور اُس کے منصوبے پر ایمان لاتے تھے۔ لیکن جو کام یسوع کرنے آیا تھا وہ فرق تھا — وہ گناہوں کو اُٹھا لے جاۓ گا — مکمل طور پر اور ہمیشہ کے لئے۔
  • ”۔۔۔ دنیا کا گناہ ۔۔۔“
    ماضی میں گناہ کی قربانیاں کسی ایک شخص، ایک خاندان یا ایک قوم کے لئے چڑھائ جاتی تھیں، لیکن یسوع کا خون ماضی، حال اور مستقبل کے سارے گناہ — ساری دنیا کے گناہ کے سارے قرض کی پوری اور قطعی ادائیگی مہیا کرے گا۔

”خدا کا برّہ جو دنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے“ کیا اِس کا مطلب ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے والے ہر زمانے کے ہر ایک شخص کو خدا کی طرف سے خود بخود گناہ کی معافی مل جاتی ہے؟ نہیں! جس دن سے گناہ انسان کی نسل میں داخل ہوا اُس دن سے خدا کا تقاضا ہے کہ مجھ (خدا) پر اور میرے انتظام پر شخصی طور سے ایمان رکھو۔

” صادق اپنے ایمان سے زندہ رہے گا“ (حبقوق ٢: ٤ )۔ ”راست باز ایمان سے جیتا رہے“ (رومیوں ١: ١٧ )۔ جو قربانی یسوع نے دی وہ ”دنیا کا گناہ اُٹھا لے جانے“ کو کافی تھی۔ لیکن اِس کا فائدہ صرف اُن لوگوں کو ہوتا ہے جو ایمان لاتے ہیں کہ قربانی میرے لئے تھی (ہے)۔ بہت سے لوگ اِس پیش کش کا فائدہ نہیں اُٹھاتے۔ بنی آدم کے صرف چند فی صد لوگ اِسے قبول کرتے ہیں۔(دیکھئے لوقا ١٤ : ١٥ ۔ ٢٤ )

” وہ اپنے گھر آیا اور اُس کے اپنوں نے اُسے قبول نہ کیا، لیکن جتنوں نے اُسے قبول کیا اُس نے اُنہیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا یعنی اُںہیں جو اُس کے نام پر ایمان لاتے ہیں“ (یوحنا ١: ١١، ١٢ )۔

عکس اور علامات

گذشتہ زمانے میں گناہ کی قربانی کے لئے چڑھایا جانے والا ہر ایک بے گناہ اور بے داغ برّہ ”آئندہ کی اچھی چیزوں کا عکس“ تھا (عبرانیوں ١٠ :١ )۔

عکس کو اُس چیز سے گڈمڈ  نہیں کرنا چاہئے جس نے عکس پیدا کیا۔ آپ زمین کو دیکھ رہے ہوں اور آپ کا کوئی دوست آپ کی طرف آ رہا ہو، تو ممکن ہے کہ آپ اُس کا سایہ پہلے دیکھ لیں اور اُسے بعد میں۔ وہ آپ کے پاس آ کھڑا ہو تو اُس کے ساۓ سے نہیں بلکہ خود اُس سے بات کریں گے۔

[نوٹ: اردو زبان میں ”عکس“ اور ”سایہ“ کے مفہوم میں فرق ہے۔ ”عکس“ آئینہ یا پانی میں نظر آتا ہے۔ ”سایہ“ روشنی کے برخلاف جو چھاؤں سی بنتی ہے۔]

پرانے عہدنامے کی قربانیاں خدا کی طرف سے عکس تھیں جو آنے والے مسایاح کا خاکہ پیش کرتی تھیں اور اُس کی آمد کی خبر دیتی تھیں۔

خدا کا برہ یسوع وہ عکس ڈال رہا تھا۔

” ۔۔۔ممکن نہیں کہ بیلوں اور بکروں کا خون گناہوں کو دُور کرے۔ اِسی لئے وہ (مسیح) دنیا میں آتے وقت کہتا ہے کہ تُو نے قربانی اور نذر کو پسند نہ کیا بلکہ میرے لئے ایک بدن تیار کیا۔ پوری سوختنی قربانیوں اور گناہ کی قربانیوں سے تُو خوش نہ ہوا۔ اُس وقت مَیں (مسایاح) نے کہا کہ دیکھ! مَیں آیا ہوں۔ (کتاب کے ورقوں میں میری نسبت لکھا ہوا ہے) تاکہ اے خدا! تیری مرضی پوری کروں۔ ۔۔۔ غرض وہ پہلے کو (جانوروں کی قربانیوں کو) موقوف کرتا ہے تاکہ دوسرے کو (اپنی قربانی کو) قائم کرے۔ اُسی مرضی کے سبب سے ہم یسوع مسیح کے جسم کے ایک ہی بار قربان ہونے کے وسیلہ سے پاک کۓ گۓ ہیں۔“ (عبرانیوں ١٠: ٤۔ ٧ ، ٩ ، ١٠ )

جانوروں کی قربانیاں اُس چیز کی صرف علامت تھیں جو خدا فی الحقیقت طلب کرتا ہے۔ جانور خدا کی صورت اور شبیہ پر خلق نہیں کۓ گۓ تھے۔ ایک برّے کی قدر و قیمت ایک انسان کی قدر و قیمت کے برابر نہیں ہو سکتی۔ جس طرح آپ کھلونا ماڈل کار دکاندار کے پاس لے جا کر اُسے ایک اصل کار کی قیمت کے طور پر نہیں دے دیتے اُسی طرح ایک برّے کا خون ایک انسان کے گناہ کا قرض ادا نہیں کر سکتا۔ اُسی قدر و قیمت یا اُس سے زیادہ قدر و قیمت کی قربانی درکار تھی۔

اور یسوع وہ قربانی مہیا کرنے آ گیا۔

ناقص منصوبہ بندی کرنے والا؟

چند سال ہوۓ ایک عالم سے میری خط و کتابت ہوتی رہی۔ اُس نے

فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی۔ ”یسوع اِس لۓ آیا کہ دنیا کا گناہ اُٹھا لے جاۓ“ اِس بیان کے جواب میں اُس نے لکھا:

ای میل

”دو ہزار سال ہوۓ کہ خدا نے یہ پہیلی جیسا افسانہ گھڑا۔ جو لوگ اِس سے پہلے پیدا ہوۓ اور مر گۓ اُن کا کیا ہو گا؟ معلوم ہوتا ہے کہ مسیحیوں کا خدا مناسب منصوبہ بندی نہیں کر سکتا اور سوچتا بھی کچھ کرنے کے بعد ہے کیونکہ انسان کے 'گناہ' معاف کرنے کا طریقہ وضع کرنے میں اُسے اگر لاکھوں نہیں تو ہزاروں سال لگ گۓ۔“

یہ عالم آدمی لاکھوں برّوں کی قربانیوں اور سینکڑوں پیش گوئیوں کے مفہوم اور مقصد کو نہ سمجھ سکا۔ یہ سب اُس دن کی طرف اشارہ کرتی تھیں جب مسایاح کل انسانوں کے ماضی، حال اور مستقبل کے سارے گناہوں کی سزا بھگتے گا۔ خدا کے مخلصی کے اِس منصوبے میں یہ بات شروع سے شامل تھی کہ ”جو گناہ پیشتر ہو چکے تھے ۔۔۔ اُن کے بارے میں وہ اپنی راست بازی ظاہر کرے۔ بلکہ اِسی وقت اُس کی راست بازی ظاہر ہو“ (رومیوں ٣ :٢٥، ٢٦ )۔

یسوع مسیح کے زمانے کے گنہگاروں کو خدا نے اُسی بنیاد پر معاف کیا جس بنیاد پر آج معاف کرتا ہے_ خدا کے انتظام اور وعدوں پر ایمان کی بنیاد پر۔

بے شک ایک فرق بھی تھا۔

جو لوگ یسوع مسیح کے زمانے سے پہلے مر گۓ تھے اُن کے گناہ ڈھانکے گۓ تھے۔ یسوع کے خون بہانے اور موت پر فتح پانے کے بعد ہی کسی گنہگار کا گناہ کا قرض معاف ہو سکتا اور کتاب میں سے منسوخ ہو سکتا تھا۔

خدا کے برے یسوع کے دنیا میں آنے سے پہلے مذبح پر برّہ قربان کرنے والے شخص کا حال اُس سوداگر جیسا تھا جو اپنی خستہ مالی حالت کے باعث بینک سے قرض لیتا ہے۔ اُس کا ایک مال دار دوست بھی اُس کے ساتھ قرض کی دستاویز پر دستخط کرتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ اگر یہ شخص قرض ادا نہ کر سکا تو مَیں ادا کروں گا۔ لیکن سال بہ سال وہ قرض ادا نہیں کر سکتا اور قرض کی رقم بڑھتی جاتی ہے۔ ہر سال اِس خستہ حال سوداگر کا دوست بینک کی دستاویز پر دستخط کرتا ہے کہ یہ قرض مَیں ادا کروں گا۔ اِس طرح وہ سوداگر دیوالیہ ہونے اور جیل جانے سے بچا رہتا ہے۔ اِس کے مال دار اور قابلِ اعتبار دوست کے ضمانت  نامے اُس کو ”ڈھانکے“ رہتے یا بچاۓ رکھتے ہیں۔

پرانے عہدنامہ کی قربانیاں گنہگار انسان کے ”ضمانت نامے“ تھیں۔ خدا نے اُنہیں عارضی طور پر  قبول کیا۔ کائنات کا ”کھاتے دار“ اپنی کتابوں میں بالکل درست اندراج کرتا ہے اور اپنے وعدے پورے کرتا ہے۔ اُس نے گناہ کو ڈھانکنے کے لئے بے عیب جانوروں کا خون قبول کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن جانوروں کا خون سارے انسانوں کے گناہ کا مجتمع قرض ادا نہیں کر سکتا تھا ”بلکہ وہ قربانیاں سال بہ سال گناہوں کو یاد دلاتی تھیں کیونکہ ممکن نہیں کہ بیلوں اور بکروں کا خون گناہوں کو دُور کرے“ (عبرانیوں ١٠ : ٣، ٤)۔

گناہ بہت خطرناک اور سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اِس کو صرف خدا کے ازلی بیٹے کا خون بہانے ہی سے حل کیا جا سکتا تھا۔ خدا کا برّہ یسوع بنی نوع انسان کے گناہ کا قرض چکانے اور بے باق کرنے آیا۔

آپ کا کیا خیال ہے؟

کیا خدا ناقص منصوبہ بندی کرنے والا اور بعد از وقت سوچنے والا خدا ہے؟ یا کیا یوحنا نبی اور اُس کے شاگردوں کے پاس کوئ معقول وجہ تھی جس سے اُنہوں نے یسوع ناصری کو پہچانا کہ ”جس کا ذکر موسی' نے توریت میں اور نبیوں نے کیا ہے“ یہ وہی مسایاح ہے اور  ”خدا کا برّہ جو جہان کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے“ یہی ہے (یوحنا باب ١ )۔

خدا بہترین منصوبہ بندی کرنے والی ہستی ہے۔ اُس نے گناہ کا مسئلہ حل کرنے کے لئے کوئ اَور منصوبہ نہیں بنایا۔ اُس کے بے زمان تناظر میں اُس کا پیارا بیٹا ہمیشہ وہ برہ تھا اور ہمیشہ رہے گا جو

”بناۓ عالم کے وقت سے ذبح ہوا“ (مکاشفہ ١٣ : ٨ )۔