۱۹
قربانی کا قاںون
خداوند خدا نے فرمایا ”۔۔۔ جان رکھنے ہی کے سبب سے خون کفارہ دیتا ہے“ — (احبار  ١٧ : ١١)

تاریخ کے پہلے خاندان  کے حالات پیدائش کی کتاب کے چوتھے باب میں قلم بند ہیں۔ وہاں سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ جب آدم اور حوا کو عدن کے اِنتہائ دلکش اور خوش منظر باغ سے باہر نکال دیا گیا تو پوری انسانی نسل کو نکال دیا گیا۔ اُن کی اگلی ساری نسلیں لعنتی دنیا میں پیدا ہوں گی اور پرورش پائیں گی اور یہ دنیا دشمن کے کنٹرول میں ہو گی۔

پہلا پیدائشی گنہگار

” ۔۔۔ اور آدم اپنی بیوی حوا کے پاس گیا اور وہ حاملہ ہوئ اور اُس کے قائن پیدا ہوا۔ تب اُس نے کہا مجھے خداوند سے ایک مرد ملا“ (پیدائش ٤: ١)۔

”قائن“ کا مطلب ہے ”حاصل کرنا“۔ پہلے درد ناک اور عجیب وضح حمل پر حوا بے ساختہ پکار اُٹھی ”مجھے خداوند سے ایک مرد ملا۔“ مجھے خداوند سے ایک مرد حاصل ہوا۔ شاید اُس نے سوچا کہ قائن ہی وہ موعودہ نجات دہندہ ہے جسے خدا نے بھیجا ہے کہ ہمیں گناہ کے ہلاکت خیز نتائج سے بچاۓ۔

حوا کا یہ ایمان اور یقین تو درست تھا کہ موعودہ نجات دہندہ ”خداوند (خدا) سے“ آۓ گا۔ اُس کا یہ ایمان رکھنا بھی درست تھا کہ مسایاح عورت سے پیدا ہو گا۔ لیکن اُس کی یہ سوچ غلط تھی کہ میرے شوہر سے ہونے والا بچہ موعودہ نجات دہندہ ہے۔

اُس  کی یہ غلط فہمی جلد ہی دُور ہو گئ۔

تھوڑے ہی عرصے میں آدم اور حوا کو معلوم ہو گیا کہ ہمارا چہیتا پہلوٹھا پیدائشی طور پر گناہ کی جبلت رکھتا ہے۔ قائن فطری طور پر گناہ کرتا تھا۔ شیطان کی طرح — اور اپنے والدین کی طرح قائن بھی تکبر اور سرکشی کرتا تھا۔ قائن تو موعودہ فدیہ دینے والا نہیں تھا۔ وہ تو خود ایک بے بس گنہگار تھا جسے خود مخلصی کی ضرورت تھی۔

جب تک آدم اور حوا کا دوسرا بیٹا پیدا ہوا انسان کی حالت کے بارے میں اُن کی سوچ اور اُن کا تناظر کافی حقیقت پسندانہ ہو چکا تھا۔

” ۔۔۔ پھر قائن کا بھائ ہابل پیدا ہوا “ (پیدائش ٤: ٢)۔

آدم اور حوا نے اپنے دوسرے بیٹے کا نام ” ہابل“ رکھا جس کا مطلب ہے ”باطل، بطلان، ہیچ یا کچھ نہ“۔ وہ کسی طرح بھی راست باز بچہ پیدا نہیں کر سکتے تھے۔ گنہگاروں کا موعودہ نجات دہندہ، آدم کی گناہ آلودہ نسل سے پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ آدم اور حوا مل کر صرف اپنے جیسے گنہگاروں ہی کو جنم دے سکتے تھے۔ اُنہیں گناہ کی سزا سے بچانے کے لئے اگر کوئی راست باز  ”آدم“ ہونا تھا تو ضرور تھا کہ وہ خداوند (خدا) سے ہو۔

ہم نے پیدائش کی کتاب کے پہلے باب میں سیکھا تھا کہ پہلا آدمی اور پہلی عورت خدا کی صورت اور شبیہ پر خلق کئے گئے تھے۔ اِس عظیم اعزاز میں یہ بڑی ذمہ داری بھی شامل تھی کہ وہ صحیح انتخاب اور درست فیصلے کریں۔ آدم اور حوا اور اُن کی اولاد کے لئے خدا کی مرضی یہ تھی کہ وہ اپنے خالق کی پاک اور محبت بھری صفات کو منعکس کریں۔ مگر جب آدم اور حوا نے اپنے خالق اور مالک کی نافرمانی کی تو وہ اُس کی شبیہ کو منعکس کرنے کی اہلیت کھو بیٹھے۔ وہ خدا پرست نہ رہے بلکہ اُسی وقت خود پرست ہو گئے۔ اعلی' درجے سے گر کر ادنی' درجے پر آ گۓ۔ اور وہ اپنے جیسی اولاد پیدا کرنے لگے۔

”اور آدم۔۔۔ اُس کی صورت اور شبیہ کا ایک بیٹا اُس کے ہاں پیدا ہوا۔۔۔ اور اُس (آدم) سے بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں“ (پیدائش ٥: ٣ ۔ ٥)۔ یہ سب بیٹے اور بیٹیاں اُسی کی صورت اور شبیہ پر تھے (اور ہیں)۔

وُلوف ضرب المثل ہے ”قلانچیں بھرنے والے غزال بھٹ (بل) کھودنے والے بچے پیدا نہیں کرتے۔“ اِسی طرح گنہگار والدین راست باز بچے پیدا نہیں کرتے۔ پاک کلام میں لکھا ہے:

” ۔۔۔ ایک آدمی کے سبب سے گناہ دنیا میں آیا اور گناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئ اِس لئے کہ سب نے گناہ کیا“ (رومیوں ٥: ١٢ )۔

گنہگار عبادت کرتے ہیں۔

” ۔۔۔ ہابل بھیڑ بکریوں کا چرواہا اور قائن کسان تھا۔ چند روز کے بعد یوں ہوا کہ قائن اپنے کھیت کے پھل کا ہدیہ خداوند کے واسطے لایا۔ اور ہابل بھی اپنی بھیڑ بکریوں کے کچھ پہلوٹھے بچوں کا اور کچھ اُن کی چربی کا ہدیہ لایا۔۔۔“ (پیدائش ٤: ٢۔ ٤ )۔

قائن کسان اور ہابل چرواہا بن گیا۔ اگر گناہ کے اثرات اُن کے اِرد گرد اور اُن کے اندر موجود تھے تو بھی وہ خدا کی کائنات کی شان و شوکت سے گھرے ہوۓ تھے۔ اور وہ (خدا) محبت سے اُن کی نگہداشت اور پرورش کر رہا تھا۔ اگرچہ قائن اور ہابل دونوں گنہگار تھے تو بھی خدا اُن سے محبت رکھتا تھا اور چاہتا تھا کہ وہ مجھے جانیں اور عبادت اور سجدہ کرنے میرے پاس آئیں۔ لیکن اِس کے لئے اُنہیں اپنے گناہ کے مسئلے کے لئے کوئی علاج، کوئی تریاق چاہئے تھا۔ خدا پاک ہے اور ضرور ہے کہ ”اُس کے پرستار  روح اور سچائی سے پرستش کریں“ (یوحنا ٤: ٢٤ )۔

بے شک والدین نے اُن لڑکوں کو بہت اچھی تعلیم دی تھی۔ ایک وقت تھا کہ وہ خود (والدین) اپنے خالق کے ساتھ قریبی دوستی سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ قائن اور ہابل دونوں جانتے تھے کہ گناہ خدا کی نظر میں ناگوار اور گھنونی چیز ہے۔ اپنے والدین کی طرح ہم بھی خدا کی حضوری سے خارج ہیں۔ اگر ہمیں خدا سے کوئ تعلق اور رابطہ رکھنا ہے تو اُسی (خدا) کی شرائط کے مطابق رکھنا ہو گا۔

اور اچھی خبر یہ تھی کہ خدا نے ایک طریقہ بنا دیا تھا جس سے قائن اور ہابل کے گناہ ڈھانکے جا سکتے تھے بشرط یہ کہ وہ خدا پر توکل رکھتے اور اُس کے پاس اُس طریقے سے آتے جو اُس نے قائم کیا تھا۔

آیۓ، اب بیان کا اگلا حصہ سنیں۔

” چند روز کے بعد یوں ہوا کہ قائن اپنے کھیت کے پھل کا ہدیہ خداوند کے واسطے لایا اور ہابل بھی اپنی بھیڑ بکریوں کے کچھ پہلوٹھے بچوں کا اور کچھ اُن کی چربی کا ہدیہ لایا اور خداوند نے ہابل کو اور اُس کے ہدیہ کو منظور کیا، پر قائن کو اور اُس کے ہدیہ کو منطور نہ کیا۔۔۔“ (پیدائش ٤: ٣۔ ٥ )۔

کہانی اچھی طرح سنانے کے اصول کے مطابق یہاں بھی ساری تفصیل ایک ساتھ نہیں بتائی گئی۔ صرف بتایا گیا ہے کہ قائن اور ہابل نے کیا کیا۔ اُنہوں نے یہ کام کیوں کیا؟ اِس کی تفصیل پاک کلام میں کسی دوسری جگہ بتائی گئی ہے۔ یہ دونوں جوان واحد حقیقی خدا کی پرستش کرنا چاہتے تھے۔ دونوں میں سے ہر ایک ”خداوند کے لئے ہدیہ لایا۔“

قائن چن چن کر اچھے سے اچھے پھل اور سبزیاں لایا جن کی کاشت اُس نے بڑی محنت اور مشقت سے کی تھی۔

ہابل ایک معصوم اور بے داغ برہ لایا۔ اُسے ذبح کیا اور اُسے پتھروں یا مٹی کی بنی ہوئ سادہ سی قربان گاہ پر جلایا۔

ہابل کو کیسے معلوم تھا کہ سب کچھ اِسی طرح کرنا ہے؟ خدا نے اُسے بتایا تھا۔ عبرانیوں ١١ :٤ میں بتایا گیا ہے کہ ہابل نے ”ایمان سے“ خداوند کے لئے قربانی گزرانی۔ اُس نے خدا کے حکموں اور وعدوں پر ایمان رکھا۔ پاک کلام نے عوضی قربانی کے لئے خدا کے تفصیلی احکام اور قانون بعد میں آگے چل کر بیان کۓ ہیں، لیکن ہابل نے ان سے بہت عرصہ پہلے ان ہی کے مطابق فرماں برداری سے قربانی چڑھائی۔ مثال کے طور پر پیدائش باب ٤ میں بتایا گیا ہے کہ ہابل ”بھیڑ بکریوں کے پہلوٹھے بچے“ لایا، (موازنہ کریں خروج ١٣ : ١٢ )۔ ہابل اپنے ریوڑ میں سے برہ لایا (دیکھئے احبار ٥: ٦)۔ ہابل نے اُن کی چربی گزرانی (دیکھئے احبار ٣: ١٦ )۔ یہ تو بیان نہیں کیا گیا کہ ہابل نے اپنا برہ مذبح پر چڑھایا،  لیکن امکان ہے کہ اُس نے ویسے ہی کیا، جیسے اُس کے بعد آنے والے ایمان داروں کو کرنا تھا (پیدائش ٨: ٢٠ ؛ ١٢ : ٧ ؛ ١٣ : ٤، ١٨ ؛ ٢٢ : ٨، ٩ ؛ خروج ٢٠ : ٢٤ ۔ ٢٦ )۔

ظاہری لحاظ سے ہابل کا خونین ہدیہ سنگدلانہ، وحشیانہ اور قابلِ نفرت تھا جبکہ قائن کا زرعی چیزوں کا ہدیہ خوبصورت اور دلکش تھا۔ اِس کے باوجود پاک کلام کہتا ہے:

” خداوند نے ہابل کو اور اُس کے ہدیہ کو منظُور کیا پر قائن کو اور اُس کے ہدیہ کو منظور نہ کیا۔ اِس لئے قائن نہایت غضب ناک ہوا اور اُس کا منہ بگڑا“ (پیدائش ٤: ٤ ، ٥)۔

خدا نے ہابل کا ہدیہ کیوں منظور کیا اور قائن کا ہدیہ نامنظور کیا؟

ہابل نے خدا کے منصوبے کا یقین کیا۔

قائن نے یقین نہ کیا۔

ہابل کا ایمان اور  برہ

پاک کلام ہمیں بتاتا ہے کہ ہابل ”ایمان سے“ خدا کے پاس آیا۔ اِس سے پتا چلتا ہے کہ خدا نے قائن اور ہابل پر ظاہر کر دیا تھا کہ مَیں (خدا) کیا چاہتا ہوں، میری شرائط کیا ہیں۔

” ایمان ہی سے ہابل نے (جس نے خدا کے منصوبے کا یقین کیا) قائن سے (جس نے خدا کے منصوبے کا یقین نہ کیا) افضل قربانی خدا کے لئے گزرانی اور اُسی کے سبب سے اُس (ہابل) کے راست باز ہونے کی گواہی دی گئی ۔۔۔ اور  بغیر ایمان کے اُس (خدا) کو پسند آنا ناممکن ہے“ (عبرانیوں ١١: ٤، ٦)۔

جو ایمان خدا کو پسند آتا ہے وہ ایمان ہے جو اُس کے منصوبے اور اُس کے انتظام کا یقین کرتا اور اُس کی اطاعت کرتا ہے۔

جب آدم اور حوا نے پہلی بار گناہ کیا تو اُنہوں نے گناہ کے مسئلے سے نمٹنے کی خود کوشش کی۔ مگر خدا نے اُس کی کوشش کو منظور نہ کیا، بلکہ اُس (خدا) نے جانور کی پہلی قربانی کی اور آدم اور حوا کو گناہ اور شرمندگی ڈھانپنے کے لئے لباس فراہم کۓ۔ بے گناہ جانوروں کو جان سے مار کر خدا اُنہیں سکھا رہا تھا کہ ”گناہ کی مزدوری موت ہے، مگر خدا کی بخشش۔۔۔ ہمیشہ کی زندگی ہے۔“ (رومیوں ٦: ٢٣ )

بعد میں قائن اور ہابل کو بھی یہی سبق سکھایا گیا۔ لیکن اُن میں سے صرف ایک نے اِس کا یقین کیا۔

ہابل ایمان کے ساتھ فروتنی اور فرماں برداری کے ساتھ خدا کے پاس آیا اور ایک صحت مند پہلوٹھا برہ اُس کے حضور پیش کیا۔

تصور کریں کہ ہابل اپنا ہاتھ برے کے سر پر رکھتا ہے اور خاموشی سے خداوند کا شکر ادا کرتا ہے کہ اگرچہ مَیں (ہابل) موت کی سزا کا حق دار ہوں لیکن خدا اِس برے کے خون کو گناہ کی عارضی قیمت کے طور پر قبول کرے گا۔ پھر وہ چھری پکڑتا ہے اور اُس حلیم جانور کا گلا کاٹتا ہے اور دیکھتا ہے کہ اُس کی جان کا حامل خون چھلک چھلک کر بہہ رہا ہے۔

برہ ذبح کرنے سے ہابل نے خدا کی پاک ذات کے لئے اور گناہ اور موت کے قانون کے لئے تعظیم کا اظہار کیا۔ چونکہ ہابل نے خدا کے منصوبے پر توکل کیا اِس لئے خدا نے ہابل کے گناہ معاف کر دیۓ اور اُسے راست باز ٹھہرایا۔ ہابل گناہ کی سزا سے آزاد  ہو گیا اِس لئے کہ وہ سزا برے نے پوری کر دی تھی۔ ہابل کی قربانی اُس کامل قربانی کی علامت تھی اور اُس کی طرف اِشارہ کرتی تھی جس کا خدا نے وعدہ کیا تھا کہ مَیں (خدا) ایک دن وہ قربانی مہیا کروں گا جو دنیا کا گناہ دُور کر دے گی۔

یہی وجہ ہے کہ ”خداوند نے ہابل کو اور اُس کے ہدیہ کو منظور کیا۔“

قائن کے کام اور دین داری

اب رہی قائن کی بات۔ وہ کیسا دین دار نوجوان تھا! اُس نے خدا کے حضور میں خوبصورت اور قابلِ تعریف پھلوں اور سبزیوں کو ترتیب سے سجا کر رکھ دیا۔ لیکن خدا نے ”قائن کو اور اُس کے ہدیہ کو منظور نہ کیا۔“

قائن کی خطا یہ نہیں تھی کہ اُس نے کسی جھوٹے معبود کی پرستش کی بلکہ خطا یہ تھی کہ اُس نے واحد سچے خدا کی جھوٹی پرستش کی۔

اپنے خالق کے پاس ایمان کے ساتھ آنے کے بجاۓ قائن اپنی کوشش اور اپنے تصورات پر توکل کر کے آیا۔ خدا نے اُس کے والدین (آدم اور حوا) کے اپنے وضع کۓ ہوۓ انجیر کے پتوں کی پوشش کو منظُور نہیں کیا تھا۔ اور وہ قائن کا پھلوں اور سبزیوں کا ہدیہ بھی منظُور نہیں کرے گا جو وہ خود ہی سوچ کے لے آیا ہے۔

بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ جو کچھ قائن کے پاس تھا وہی وہ لے آیا تھا!

خدا وہ نہیں چاہتا تھا جو قائن کے پاس تھا۔ خدا چاہتا تھا کہ وہ مجھ پر توکل کرے اور موت کی قیمت کی بنیاد پر یعنی برے کےخون کے ہدیے کے ساتھ میری پرستش کرے۔ قائن کے پاس برہ نہیں تھا وہ ہابل کو پھل اور سبزیاں دے کر اُس سے برہ خرید سکتا تھا۔ یا وہ فروتنی اور انکساری کے ساتھ ہابل کے مذبح  پر خداوند کے حضور میں آ سکتا تھا کیونکہ اُس مذبحے پر برے کا خون بہایا گیا تھا۔ لیکن قائن اپنے تکبر کے باعث ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ اُس نے اپنے ہاتھوں کے کاموں سے خداوند کی ”پرستش“ کرنا پسند کیا۔

یہی وجہ ہے کہ خداوند (خدا) نے ”قائن اور اُس کے ہدیہ کو منظور نہ کیا۔“

گناہ کی مزدوری

خدا نے ایسا قطعی رویہ کیوں دکھایا؟ اُس نے ہابل کا ذبح کیا ہوا برہ کیوں منظوُر کیا اور قائن کے تازہ پھل کیوں منظور نہ کۓ؟

خدا نے قائن کا ہدیہ نامنظور کیا۔ اِس کی سیدھی سادی وجہ یہ تھی کہ گناہ کی مزدوری موت ہے۔ گناہ اور موت کا قاںون جو خدا نے شروع میں آدم اور حوا کو بتا دیا تھا وہ بدلا نہیں تھا۔ جو لوگ خدا کے قوانین کو توڑتے ہیں وہ سب خدا کے مقروض ہیں اور یہ قرض صرف ”موت“ سے ادا ہو سکتا ہے۔ کائنات کا عادل منصف اپنے آئین اور قوانین کی خلاف ورزی اور اُن سے انحراف کے لئے موت سے کم کسی سزا کی اجازت نہیں دیتا۔

اخلاص، اپنی کوششیں، نیک اعمال یہ سبھ کچھ کتنا بھی ہو، مگر گناہ کے قرض کا قرض بے باق نہیں ہو سکتا۔

مثال کے لئے فرض کریں کہ مَیں کسی بڑے بینک سے لاکھوں ڈالر قرض لیتا ہوں اور اِتنی بڑی رقم دانائی سے کسی کاروبار میں لگانے کے بجاۓ اللے تللوں میں اڑا دیتا ہوں اور نادہندہ ہو جاتا ہوں۔ پولیس میرے گھر پر آ کر مجھے گرفتار کر لیتی ہے اور عدالت میں مَیں جج سے کہتا ہوں ”حضورِ والا مَیں عمر بھر یہ لاکھوں ڈالر کا قرض ادا کرنے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ لیکں اِس قرض کو منسوخ کرنے کے لئے میرے پاس ایک منصوبہ ہے۔ مَیں یوں کروں گا کہ نقد رقم لوٹانے کے بجاۓ مَیں کاموں سے ادائیگی کر دوں گا! مَیں ہر روز پکے ہوۓ چاولوں کی ایک پلیٹ لا کر بینک کے پریزیڈنٹ کو دیا کروں گا۔ ہفتے میں ایک دن مَیں خود کھانا نہیں کھایا کروں گا بلکہ وہ کھانا غریبوں کو کھلایا کروں گا۔ مَیں ہر روز کئی دفعہ رسمی غسل کیا کروں گا تاکہ میرے قرض کی شرمندگی دُھل جاۓ۔ اور جب تک قرض بے باق نہ ہو جاۓ یہ سب کچھ کرتا رہوں گا۔“

کیا جج مالی قرض کی ادائیگی کے لئے یہ غیر معقول طریقہ منظور کرے گا؟ ہرگز نہیں! اور ساری دنیا کا جج بھی گناہ کے قرض کی ادائیگی کے لئے دعائیں، روزے اور نیک اعمال منظور نہیں کرے گا۔ گناہ کا قرض چکانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے— اِس کی ادائیگی صرف ”موت“ ہے — خدا سے ابدی جدائی اور دُوری۔

کیا کوئی طریقہ ہے کہ بے بس گنہگار گناہ اور موت کے اِس بے لچک قانون سے رہائی پا سکے؟

خدا کا شکر ہو کہ طریقہ ہے۔

قرباںی کا قانون

مَیں تاش نہیں کھیلتا، مگر یہ ضرور جانتا ہوں کہ بعض پتے دوسرے پتوں کو کاٹ دیتے ہیں یعنی اُن سے بازی جیت لیتے ہیں۔ اپنی مجوزہ قیمت کے باعث وہ دوسرے پتوں سے زیادہ قیمت کے حامل ہو جاتے ہیں اور اُنہیں مات دے دیتے ہیں۔

پرانے عہدنامے میں آستر اور دانی ایل کی کتابیں بتاتی ہیں کہ قدیم بادشاہ آئین مقرر کرتے تھے جو ”مادیوں اور فارسیوں کے آئین (کے مطابق) تبدیل نہیں“ ہو سکتے تھے (دانی ایل ٦: ٨)۔ اگر کوئی بادشاہ کسی قانون کو غیر موثر (غیر نافذ) کرنا چاہتا تھا تو اُسے منسوخ کرنے کے بجاۓ وہ ایک زیادہ زبردست یا زور دار قانون نافذ کرتا تھا جو پہلے قانون کا پتا کاٹ دیتا تھا، یعنی اُس کو مات دے دیتا تھا (دانی ایل باب ٦ ؛ آستر ٣: ٨ ۔ ١٥ ؛ ٨: ٧ ۔ ١٧ )۔

اِسی طرح ”گناہ اور موت کے قانون“ پر بازی لے جانے کے لئے شروع ہی سے خدا کا راست طریقہ یہ تھا کہ اُس سے زیادہ زبردست یا زور دار قانون مقرر کرے۔ یہ ہے ”خطا کی قربانی کے بارے میں شرع“ (احبار  ٦: ٢٥ )۔ اِسے ”سلامتی کے ذبیحہ کے بارے میں ۔۔۔ شرع“ بھی کہا گیا ہے (احبار  ٧ : ١١ )۔

خدا اپنے سارے آئین اور قوانین کو بحال رکھتا ہے۔ اِسی لئے اُس نے ”ذبیحہ (قربانی) کے بارے میں قانون (شرع)“ مقرر کیا تاکہ قانونی طور پر لازم (جو منسوخ یا تبدیل نہ ہو سکے) ”قربانی کا قانون“ کو مات ہو جاۓ۔

قربانی کے قانون میں قصوروار گنہگاروں پر رحم کرنے کی گنجائش تو تھی مگر گناہ کے خلاف عدل (کا تقاضا پورا) کرنا بھی ضروری تھا۔ (خدا کو رحم اور عدل میں کامل توازن رکھنا کیوں ضروری ہے — اِس پر دوبارہ نظر ڈالنے کے لئے دیکھئے باب ١٣ )۔ خون کی قربانی کے قانون نے ایک راہ نکالی کہ خدا گنہگار کو سزا دیئے بغیر گناہ کو سزا دے۔ خدا نے وضاحت کی ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔

” ۔۔۔ جسم کی جان خون میں ہے اور مَیں نے مذبح پر تمہاری جانوں کے کفارہ کے لئے اُسے تم کو دے دیا ہے کہ اُس سے تمہاری جانوں کے لئے کفارہ ہو کیونکہ جان رکھنے ہی کے سبب سے خون کفارہ دیتا ہے“ (احبار ١٧ : ١١)۔

اِس قانوں میں دو بنیادی اصول موجود ہیں:

١۔ خون زندگی دیتا ہے:  خدا نے فرمایا ”جسم کی جان خون میں ہے۔“ جو بات پاک کلام نے ہزاروں سال پہلے کہی جدید سائنس اُس کی تصدیق کرتی ہے — جاندار کی جان خون میں ہوتی ہے۔ صحت مند خون گردش کرتا اور جسم کو سارے ضروری عناصر پہنچاتا ہے جو زندگی کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہیں اور سارے گندے مادوں کو صاف کرتا ہے۔ خون گراں قدر اور اَنمول چیز ہے۔ اِس کے بغیر انسان اور حیوان سب مر جائیں۔

٢۔ گناہ موت کا تقاضا کرتا ہے: خدا نے یہ بھی فرمایا ”خون (جان کا) کفارہ دیتا ہے۔“ لفظ کفارہ عبرانی زبان کے لفظ ”کفر“ سے مشتق ہے جس کا مطلب ہے ڈھانکنا، منسوخ کرنا، صاف کرنا، معاف کرنا، صلح کرانا، میل ملاپ کرانا۔ صرف بہاۓ گۓ خون ہی سے ممکن تھا کہ گنہگار پاک صاف کۓ جائیں اور اپنے عادل خالق سے اُن کا دوبارہ میل ہو جاۓ۔ چونکہ گناہ کی سزا موت ہے اِس لئے خدا نے کہا کہ مَیں انسان کے گناہ کی قیمت کے طور پر اور اُسے (گناہ کو) ڈھانکنے کے لئے پسندیدہ قربانی کا خون قبول کر لوں گا۔

[نوٹ۔ اُردو زبان میں لفظ ”فدیہ“ بھی استعمال ہوتا ہے۔ عبرانی زبان میں اِس کے لئے لفظ ”کوفر“ اور ”فدیون“ ہیں، جن کا مطلب ہے ”غلام کو چھڑانے کی قیمت، جان کا خون بہا، جان کا عوضانہ، ہرجانہ۔“ اِس کے علاوہ ”خلاصی“ اور ”مخلصی“ کے لفظ بھی استعمال ہوتے ہیں۔]

دیکھئے پیدائش ٦: ١٤ (اندر اور باہر رال لگانا — رال سے ڈھانک دینا) اور احبار ٥: ١٨ (کفارہ — ڈھانکنا)۔ دونوں آیتوں میں عبرانی کا لفظ ”کفر“ استعمال ہوا ہے۔ اِس کی وضاحت اوپر نمبر ٢ میں ہو چکی ہے۔

عوضی

قربانی کے قانون کا اہم اُصول مختصراً ایک لفظ میں بیان ہو سکتا ہے— عوضی۔ ایک بے گناہ جانور ایک سزا یافتہ گنہگار کی جگہ ”عوضی“ کے طور پر مرے گا۔

مسایاح کی آمد سے پہلے کی پشتوں میں خدا نے آدم کی اولاد (نسل) کو بتا دیا تھا کہ مَیں پاک جانور مثلاً برہ، بھیڑ، بکری یا بچھڑے کا خون عارضی طور پر قبول کروں گا۔ کبوتر اور فاختہ بھی قربانی کے لئے چڑھاۓ جا سکتے تھے (احبار ٥: ٧)۔ کوئی شخص کتنا بھی دولت مند یا غریب ہو، کتنا بھی اچھا یا بُرا ہو، سب کو یہ مان کر خدا کے پاس آنا ہوتا تھا کہ مَیں گنہگار ہوں اور ایمان رکھتا ہوں کہ اِس بہاۓ گۓ خون کے وسیلے سے خدا مجھے معاف کرے گا۔

ضرور تھا کہ قربانی کا جانور بے عیب اور بے داغ ہو۔ شریعت میں پچاس سے زائد دفعہ کہا گیا ہے کہ قربانی کا جانور ”بے عیب“ ہو۔ مثلاً ”۔۔۔ اگر اُس کا چڑھاوا ریوڑ میں سے بھیڑ یا بکری کی سوختنی قربانی ہو تو وہ بے عیب نر کو لاۓ“ (احبار  ١: ١٠ )۔ جانور نہ تو بیمار ہو، نہ اُس کی ہڈی یا سینگ ٹوٹا ہوا ہو، بدن پر کوئی زخم یا خراش نہ ہو۔ اُس کا علامتی طور سے بالکل بے عیب ہونا ضروری تھا۔ قربانی چڑھانے والا گنہگار شخص ”جانور کے سر پر اپنا ہاتھ رکھے تب وہ اُس کی طرف سے مقبول ہو گا تاکہ اُس کے لئے کفارہ ہو۔۔۔ اور وہ ۔۔۔ ذبح کرے“۔ اور اُس جانور کی چربی مذبح پر جلائی جاۓ۔

اور خدا نے کیا کہا کہ یہ قربانی کیا کام سر انجام دے گی؟

” ۔۔۔ تو اُسے معافی ملے گی۔۔۔“ (احبار ٤: ٢٣ ۔ ٢٦ )۔

قربانی کے جانور کے سر پر ہاتھ رکھنا علامت تھا کہ اُس شخص کا گناہ بے عیب جانور پر منتقل ہو گیا ہے۔ پھر وہ گناہ اُٹھانے والا گنہگار شخص کے عوض ہلاک ہوتا تھا۔

عوضی کے قانون کی بینیاد پر گناہ کو سزا ملتی تھی اور گنہگار کو معافی۔ گناہ کے لئے موت کی سزا خطاکار شخص کے بجاۓ بے گناہ ”کامل“ جانور پر منتقل ہو جاتی تھی۔

گناہ کی قربانی کا قانون گنہگاروں کو سکھاتا تھا کہ خدا پاک ہے اور ”بغیر خون (موت کی قیمت) بہاۓ معافی (گناہ کی سزا کی موقوفی) نہیں ہوتی۔“ (عبرانیوں ٩: ٢٢ )

جانور کی قربانی کے وسیلے سے خدا گناہ کے خلاف عدالت کرتا اور گنہگاروں پر رحم کرتا تھا جو اُس (خدا) پر توکل کرتے تھے۔ خدا نے اُن سب کو برکت دینے کا وعدہ کیا تھا جو اِس طریقے سے اُس کے پاس آتے تھے۔ جس روز خدا نے اپنے قدیم لوگوں کو دس حکم دیئے تھے اُسی دن اُنہیں بتا دیا تھا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ مَیں تمہیں قبول کروں تو اِس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اُس خون کی قربانی کی بنیاد پر میرے پاس آؤ جو مذبح پر  چڑھائی گئی ہے۔

” ۔۔۔ تُو مٹی کی ایک قربان گاہ میرے لئے بنایا کرنا اور اُس پر اپنی بھیڑ بکریوں اور گاۓ بیلوں کی سوختنی قربانیاں اور سلامتی کی قربانیاں چڑھانا اور جہاں جہاں مَیں اپنے نام کی یادگاری کراؤں گا وہاں مَیں تیرے پاس آ کر تجھے برکت دوں گا“ (خروج ٢٠ : ٢٤ )۔

گناہ کے بدلے خون کے انتظام کا بڑا مقصد یہ تھا کہ گناہ کے خلاف خدا کا راست غضب عملی طور پر دکھایا جاۓ اور یہ نظام اُس وقت تک رہے جب تک موعودہ منجی نہ آۓ۔

مسایاح کا مقصد یہ تھا کہ قربانی کے قاںون کے اصل معنی و مدعا کو پورا کرے۔

خدا کے نزدیک ایک انسانی جان ساری دنیا کے سارے جانوروں کی جانوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ جانور خدا کی صورت پر پیدا نہیں کۓ گئے تھے۔ جانوروں کی جان ازلی و ابدی نہیں ہے۔ اِس وجہ سے جانوروں کا خون اُس کی صرف علامت ہو سکتا تھا جو انسان کے گناہ کے قرض کو منسوخ کرنے کے لئے ضروری تھا۔

ہابل کے ذبح کۓ ہوۓ برے کا واقعہ پہلا  واقعہ ہے جو قلم بند ہوا ہے۔ پرانے عہدنامے میں بیسیوں واقعات کا ذکر ہے جن میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایمان دار بے عیب اور بے داغ جانوروں کا خون لے کر خدا کے حضور میں آۓ، اُسے سجدہ کیا اور اُس کی پرستش کی۔ جانوروں کی قربانی کے واقعات میں ایک واقعہ سب سے نمایاں اور منفرد ہے۔

دنیا بھر کے مسلمان ہر سال اُس کی یاد مناتے ہیں۔