۱۰
خاص الخاص مخلوق

اِس کتاب میں دو باب پیچھے ہم نے سب زمانوں کے عظیم ترین اعلان پر غور کیا تھا کہ ” خدا نے ابتدا میں زمین اور آسمان کو پیدا کیا “ (پیدائش ١:١)۔ اب ایک اَور اعلان سامنے آتا ہے:

” خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا “ (پیدائش ١: ٢٧ )۔

خدا نے انسان کو اپنی ساری مخلوقات کا ” تاج “ یا ” اشرف المخلوقات “ بنایا۔

خدا کی صورت پر

” پھر خدا نے کہا ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں اور وہ سمندر کی مچھلیوں اور آسمان کے پرندوں اور چوپایوں اور تمام زمین اور سب جانداروں پر جو زمین پر رینگتے ہیں اختیار رکھیں۔ اور خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ خدا کی صورت پر اُس کو پیدا کیا۔ نروناری اُن کو پیدا کیا “ (پیدائش ١: ٢٦، ٢٧ )۔

” خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ “ اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پہلے انسان ہر لحاظ سے خدا کی مانند تھے۔ خدا کا کوئی ثانی نہیں۔

” خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا “ اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدا کی صفات میں شریک ہیں۔ انسان کو اِس مقصد سے خلق کیا گیا کہ وہ خدا کی صفات کو منعکس کرے۔ خدا نے پہلے مرد اور پہلی عورت کو وہ خصوصیات عطا کیں جن کے باعث وہ خدا کے ساتھ بامعنی اور بامقصد رشتے سے لطف اندوز ہو سکیں۔

خدا نے انسان کو عقل عطا کی اور استعداد بخشی کہ وہ بڑے بڑے سوال پوچھے، منطقی استدلال کر سکے، عقلی دلیلیں دے سکے اور اپنے خالق کے بارے میں گہری سچائیوں کو سمجھ سکے۔ خدا نے انسان کو محسوسات بخشے اور شعور دیا کہ وہ خوشی اور ہم آہنگی اور ہمدردی جیسے احساسات کا تجربہ حاصل کرے۔

خدا نے انسان کو (قوتِ ارادی) بھی عطا کی، جس میں ازلی نتائج کے حامل فیصلے کرنے کی آزادی اور ذمہ داری دونوں شامل ہیں۔

اِن کے علاوہ اُس نے انسان کو ابلاغ کی صلاحیت عطا کی جس میں بولنا، اشارے کرنا اور گانا وغیرہ شامل ہیں۔ اُس نے اُنہیں طویل المدت منصوبے بنانے اور حیرت ناک تخلیقی عمل کے ساتھ اُنہیں پایہ تکمیل تک پہنچانے کی لیاقت اور قابلیت بھی بخشی۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ اُس نے انسان کو ابدی جان اور روح عطا کی کہ وہ ہمیشہ تک اپنے خالق کی پرستش کریں اور اُس (خالق) سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔

یہ قابلیت اور استعداد انسان کو دنیائے حیوانات سے الگ اور ممیز کرتی ہے۔

خدا نے انسان کو اپنی خاطر، اپنے لئے خلق کیا تھا۔ خدا جو ” محبت ہے “ (١۔یوحنا ٤: ٨) اُس نے مرد اور عورت کو خلق کیا، اِس لئے نہیں کہ اُسے (خدا کو) اُن کی ضرورت تھی بلکہ اِس لئے کہ وہ اُنہیں چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ مَیں انسان سےمحبت کروں اور وہ میری محبت کو منعکس کریں۔

انسان کا بدن

پیدائش کی کتاب کا پہلا باب بڑے اختصار سے بیان کرتا ہے کہ خدا نے دنیا کیسے خلق کی اور دوسرا باب تفاصیل مہیا کرتا ہے، اور خاص طور سے انسان کی

تخلیق کا حال تفصیل سے بیان کرتا ہے۔

” اور خداوند خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اُس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا تو اِنسان جیتی جان ہوا “ (پیدائش ٢: ٧)۔

خدا نے آسمان اور زمین تو عدم (کچھ نہ) سے بنائے تھے، مگر اُس نے پہلے انسان (آدمی) کو مٹی سے بنانا پسند کیا۔ موجودہ دَور میں حیاتیات کے عالم تصدیق کرتے ہیں: ” ایک لحاظ سے بدن توجہ طلب نہیں ہے۔ وہ عام سے بیس عناصر جن سے بدن بنا ہے، وہ سب زمین کی سوکھی مٹی میں موجود ہیں۔ “

بے شک انسانی جسم ایسے معمولی عناصر سے مل کر بنا ہے، مگر صنعت اور کاریگری کا معجز نما شاہکار ہے، جس میں تقریباً سات نیل پچاس کھرب (۰۰۰، ٠٠۰ ، ٠٠۰ ، ٠۰٠ ، ٠٠۰ ، ٥۰٠ ، ٧) زندہ خلیے ہیں اور ہر ایک خلیہ اپنا الگ اور مخصوص کام کر رہا ہے۔

خلیہ زندگی کی بنیادی اکائی ہے۔ خلیہ اِتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ صرف بہت طاقتور خردبین ہی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم اِس میں کام کرنے والے لاکھوں حصے ہوتے ہیں۔ ہر ایک خلیے میں ڈی این اے کا دو میٹر لمبا مڑا تُڑا دھاگا ہوتا ہے۔ یہ ڈی این اے کسی بھی شخص کے بنیادی خدوخال کا مجموعہ قوانین ( code ) ہوتا ہے۔

بِل گیٹس کمپیوٹر کے پروگراموں ( software ) کا گرو مانا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسانی خلیہ کمپیوٹر کے پروگرام کی مانند ہے لیکن اِس سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ پروگرام ( tissues ) ہے جو کبھی پیدا کیا گیا ہے۔ انسانی بدن میں کم سے کم ٢٠٠ سے زیادہ اقسام کے خلیے ہوتے ہیں۔ اِن میں سے کچھ مائع تیار کرتے ہیں مثلاً خون، دوسرے خلیے بافتیں، ریشے اور اعضا تیار کرتے ہیں۔ اور بعض خلیے جسم کے افعال کو منظم کرتے اور منظم رکھتے ہیں مثلاً نظامِ ہضم اور نظامِ تولید۔

ایک عظیم روحانی سچائی کو سمجھانے کے لئے بائبل مقدس انسانی نظام کے ہم آہنگ نظام کی مثال دیتی ہے: ” ۔۔۔ سارا بدن ہر ایک جوڑ کی مدد سے پیوستہ ہو کر اور گٹھ کر اُس تاثیر کے موافق جو بقدر ہر حصہ ہوتی ہے اپنے آپ کو بڑھاتا ہے ۔۔۔ “ (افسیوں ٤ : ١٦ )۔

اپنے جسم کی ساخت اور کام کرنے والے حصوں پر غور کریں۔ ہمارا پنجر جس میں ٢٠٦ ہڈیاں ہیں وہ رباط (ریشہ دار پٹیوں)، عضلات (نسوں)، پٹھوں، چمڑی اور بالوں سے آراستہ پیراستہ ہے۔ اور ہمارا دورانِ خون کا نظام خون، شریانوں اور رگوں پر مشتمل ہے۔ رگیں اور شریانیں زندگی کے ضروری اجزا کو جسم کے ایک ایک حصے تک پہنچاتی ہیں۔ اِس کے علاوہ  معدہ ، انتڑیاں، گُردے اور جگر ۔۔۔ وغیرہ ہیں۔ اور نہایت پیچیدہ طور سے مرتب کیا گیا اعصابی نظام ہے جو دماغ سے منسلک ہے۔ اور اُس دیانت دار اور باوفا پمپ کو نہ بھولیں جسے دل کہتے ہیں۔ اور خدا نے آپ کو آنکھیں، کان، ناک، منہ اور زبان دی ہے، اِ س کے ساتھ حنجرہ، آواز پیدا کرنے والے غدود، ذائقہ محسوس کرنے کے اعضا اور دانت دیئے ہیں! اور یہ ہاتھ اور پاؤں کیسے کارآمد ہیں! کیا آپ نے کبھی خدا کا شکر ادا کیا ہے کہ اُس نے آپ کو انگوٹھے دیئے ہیں؟ انگوٹھے کے بغیر جھاڑُو اور ہتھوڑی استعمال کرنے کی کوشش تو کریں! اور انگلیوں کے ناخن کیا کم کارآمد ہیں!۔۔۔

چنانچہ تعجب کیسا کہ داؤد نبی لکھتا ہے:

” مَیں تیرا شکر کروں گا کیونکہ مَیں عجیب و غریب طور سے بنا ہوں۔ تیرے کام حیرت انگیز ہیں۔ میرا دل اِسے خوب جانتا ہے “ (زبور ١٣٩ : ١٤ )۔

جان اور روح

انسانی جسم بے شک حیرت افزا ہے، لیکن صرف جسم ہی انسان کو ” خاص “ نہیں بنا دیتا۔ حیوانات، پرندگان اور مچھلیاں وغیرہ سب کے بدن حیرت افزا ہیں۔ انسان کی بے مثالیت اُس کی جان اور ابدی روح کے باعث ہے۔ جان اور روح ہیں جنہوں نے پہلے آدمی اور پہلی عورت کو ” خدا کی صورت “ پر ہونے کا اعزاز بخشا اور وہ ” خاص ہستیاں “ بنے۔

خدا نے مٹی سے انسان کا بدن بنانے کا کام پورا کر لیا تو اُس نے ” اُس کے نتھںوں میں زندگی کا دم پھونکا اور انسان جیتی جان ہوا “ (پیدائش ٢: ٧)۔ خدا نے آدم کے لئے جو بدن بنایا وہ صرف ایک مکان یا خیمہ تھا جس میں خدا نے آدم کی ابدی روح اور جان رکھی۔

خدا نے انسان کو بدن اِس لئے دیا کہ وہ اپنے اِرد گرد کی دنیا سے واقف ہو سکے، اُس کا ادراک کر سکے، اور جان اِس لئے دی کہ انسان اپنے باطن، اپنے اندرون کو جان سکے اور روح اِس لئے دی کہ وہ خدا کو جان سکے، خدا کا ادراک کر سکے۔

بدن پر جان نے حکمرانی کرنی تھی،

جان پر روح نے حکمرانی کرنی تھی،

اور روح پر خود خدا نے حکمرانی کرنی تھی۔

پاک کلام روح، جان اور بدن میں امتیاز اور فرق کرتا ہے (دیکھئے  ١۔تھسلنیکیوں ٥: ٢٣ ؛ عبرانیوں ٤: ١٢ ، ١٣ ؛ یوحنا ٤: ٢٤ )۔

” خدا روح ہے اور ضرور ہے کہ اُس کے پرستار روح اور سچائی سے پرستش کریں “ (یوحنا ٤: ٢٤ )۔

خاص مقصد کے لئے خلق کئے گئے

ماہر کاری گر (خدا) نے انسان کو ایک قسم کا ” ثالوث “ بنایا جس میں ” روح ، جان اور بدن “ (١۔تھسلنیکیوں ٥ : ٢٣ ) ایک ساتھ رکھے اور انساںوں کے لئے ممکن کیا کہ وہ اپنے خالق کے ساتھ گہری رفاقت کا لطف اُٹھائیں۔ خدا نے انسان کو زندگی دی اور اب یہ انسان کا ممتاز اور اعزازی حق ہے کہ وہ اپنے خالق مالک کی خوشنودی اور حمد و ستائش کے لئے زندگی بسر کرے۔

” ہر  ایک کو جو میرے نام سے کہلاتا ہے اور جس کو مَیں نے اپنے جلال کے لئے خلق کیا۔۔۔ مَیں نے اُن لوگوں کو اپنے لئے بنایا تاکہ وہ میری حمد کریں “ (یسعیاہ ٤٣ :٧ ، ۲۱)۔

انسان خدا کی تمجید اور اُس کے جلال کے لئے خلق کئے گئے۔

یہ زمین انسانوں کے لئے بنائی گئی، لیکن انسان خدا کے لئے بنائے گئے۔ خالق کا ارادہ اور مقصد یہ تھا کہ پہلے انسان مجھے (خدا کو) جانیں، اُس کی رفاقت میں خوش رہیں اور اُس سے ہمیشہ محبت رکھیں۔ میرے اور آپ کے لئے بھی اُس کا یہی ارادہ اور مقصد ہے۔

” تُو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ “ (مرقس ١٢ : ٣٠ )۔

عمدہ ترین ماحول

آدم کو خلق کرنے کے بعد خدا نے ایک پُرتکلف اور خوبصورت باغ لگایا جسے عدن کا نام دیا گیا۔

” اور خداوند خدا نے مشرق کی طرف عدن میں ایک باغ لگایا اور انسان کو جسے اُس نے بنایا تھا وہاں رکھا۔ اور خداوند خدا نے ہر درخت کو جو دیکھنے میں خوش نما اور کھانے کے لئے اچھا تھا زمین سے اُگایا اور باغ کے بیچ میں حیات کا درخت اور نیک و بد کی پہچان کا درخت بھی لگایا۔ اور عدن سے ایک دریا باغ کو سیراب کرنے کو نکلا اور وہاں سے چار ندیوں میں تقسیم ہوا “ (پیدائش ٢: ٨ ۔١٠ )۔

عدن غالباً اُس ملک میں واقع تھا جسے آج کل عراق کہتے ہیں۔ عدن کے عراق میں واقع ہونے کا تصورِ  بائبل مقدس ٢: ١٣، ١٤ میں دی گئی معلومات پر مبنی ہے۔ بعض لوگ عدن کے باغ کو جنت کہتے ہیں حالانکہ بائبل مقدس ایسا نہیں کہتی۔ زمینی عدن کو آسمانی فردوس کے ساتھ گڈمڈ نہیں کرنا چاہئے۔

باغ عدن بے انتہا اور لامحدودخوشیوں، خوشنما مناظر، دلفریب آوازوں اور روح افزا خوشبوؤں سے بھرا ہوا وسیع و عریض باغ تھا۔ ایک چمکتا ہوا دریا اُسے سیراب کرتا تھا۔ اُس دریا کے کناروں پر لذیذ اور رسیلے پھلوں کے درخت  تھے۔ بےشمار قسموں کے پھل اور میوے تھے۔ بھینی بھینی خوشبوؤں والے پھول تھے، بلند قامت درخت تھے اور سرسبزو شاداب وادیاں تھیں کہ بس دیکھتے رہو۔ جنگلی جانور، پرندے اور کیڑے مکوڑے تھے کہ اُن کا مطالعہ کرو، پُراسرار جنگل تھے کہ کھوج لگاتے رہو، سونا اور قیمتی پتھر اور جواہر تھے کہ دریافت کرتے رہو۔ واقعی خدا نے آدم کو ” لطف اُٹھانے کے لئے سب چیزیں افراط سے “ دی تھیں (١۔تیمتھیُس ٦: ١٧ )۔

خدا نے باغ کے بیچ میں دو خاص درخت بھی لگائے۔ ایک حیات کا درخت اور دوسرا نیک و بدن کی پہچان کا درخت۔

عدن کا لفظی مطلب ہے 'شادمانی'۔ خدا نے یہ حیرت انگیز گھر انسان کی خوشی اور لطف اندوزی کے لئے بنایا تھا۔ لیکن انسان کے لئے سب سے بڑی خوشی اور مسرت یہ ہو گی کہ وہ اپنے خالق کی رفاقت سے خوش اور شادمان ہو!

سب سے بڑی خوشی اور شادمانی یہ ہے کہ انسان خدا کو ذاتی طور پر جانے اور اُس کے ساتھ رہے۔ ” تیرے حضور میں کامل شادمانی ہے۔ تیرے دہنے ہاتھ میں دائمی خوشی ہے “ (زبور ١٦ : ١١)۔

تسکین بخش کام

باغ تیار ہو گیا تو خداوند نے انسان کو اُس میں رکھا۔ خدا نے آدم سے نہیں پوچھا کہ تُو وہاں رہنا چاہتا ہے یا نہیں۔ خدا انسان کا ” بنانے والا “ تھا، اِس لئے اُس کا مالک تھا۔ خداوند جانتا ہے کہ انسان کے لئے کیا بہتر ہے اور جو کچھ خدا کرتا ہے اُس کے لئے کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہے۔

” اور خداوند خدا نے آدم کو لے کر باغِ عدن میں رکھا کہ اُس کی باغبانی اور نگہبانی کرے “ (پیدائش ٢: ١٥ )۔

پہلے اُسے ” باغبانی کرنا “ تھی، لیکن پسینے، محنت مشقت اور تھکاوٹ کے بغیر۔ یہ کامل طور سے دل پسند اور پُرلطف کام ہونا تھا، اِس لئے کہ سب کچھ ” اچھا “ تھا۔ وہاں نہ کانٹے تھے کہ چبھ جاتے، نہ جڑی بوٹیاں تھیں کہ اُکھاڑنی پڑتیں۔

دوسرے اُسے باغ کی ” نگہبانی کرنا “ تھی۔ کیا اِن الفاظ میں کوئی اِمکان نظر آتا ہے کہ کائنات میں کوئ ضرر رساں، خطرناک چیز چھپی ہوئ تھی، تاک میں بیٹھی ہوئی تھی؟

اِس سوال کا جواب تھوڑی ہی دیر میں دیا جائے گا۔

ایک سیدھا سادہ قانون

چونکہ انسان کوئی کٹھ پتلی نہیں تھا بلکہ ایک شخص تھا اِس لئے خدا نے اُسے ایک سیدھا سادہ اور صاف حکم دیا جسے انسان کو ماننا تھا۔

” اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دیا اور کہا کہ تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے، لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا (پھل) کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا “ (پیدائش ٢: ١٦ ۔ ١٧ )۔

خدا نے عورت (حوا) کو خلق کرنے سے پہلے آدم کو یہ حکم دیا۔ خدا نے آدم کو انسانی نسل کا سردار مقرر کر دیا تھا اور اُسے اِس قاںون کو بحال رکھنے کا ذمہ دار بنایا تھا۔

پہلی عورت

اِس کے بعد خدا نے عورت کو خلق کیا، اور وہ بے حد خاص مخلوق تھی!

” اور خداوند خدا نے کہا کہ آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں۔ مَیں اُس کے لئے ایک مددگار اُس کی مانند بناؤں گا ۔۔۔ اور خداوند خدا نے آدم پر گہری نیند بھیجی اور وہ سو گیا۔ اور اُس نے اُس کی پسلیوں میں سے ایک کو نکال لیا اور اُس کی جگہ گوشت بھر دیا۔ اور خداوند خدا اُس پسلی سے جو اُس نے آدم سے نکالی تھی ایک عورت بنا کر اُسے آدم کے پاس لایا اور آدم نے کہا کہ یہ تو اب میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے اِس لئے وہ ناری کہلائے گی کیوںکہ وہ نر سے نکالی گئی۔ اِس واسطے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی بیوی سے ملا رہے گا اور وہ ایک تن ہوں گے۔ اور آدم اور اُس کی بیوی دونوں ننگے تھے اور شرماتے نہ تھے “ (پیدائش ٢: ١٨ ؛ ٢١ ۔ ٢٥ )۔

یوں خدا نے پہلا آپریشن کیا۔ آدم کے پہلو سے ایک خوبصورت اور حسین بیوی بنائی اور خود اُسے آدم کو پیش کیا۔

آدم ایسی قریبی اور محبت کرنے والی رفیقہ اور ” مددگار “ سے کیسا خوش ہوا ہو گا جو خدا نے اُسے مہیا کی تھی! بائبل مقدس کے مرحوم عالم میتھیو ہنری نے لکھا ہے ” عورت آدم کے پہلو سے بنائی گئی۔ اُس کے سر سے نہیں بنائی گئی تاکہ اُس پر حکمرانی نہ کرے، نہ اُس کے پاؤں سے بنائ گئی کہ آدم اُسے اپنے پاؤں تلے نہ رَوندے، بلکہ اُس کے پہلو سے بنائی گئی تاکہ اُس کے برابر ہو، اُس کے بازو کے نیچے رہے تاکہ اُس کی محافظت میں ہو۔ اور اُس کے دل کے نزدیک سے بنائی گئی تاکہ اُس سے محبت رکھی جائے۔ “

آدمی کی طرح عورت بھی خدا کی صورت اور شبیہ پر بنائی گئی تاکہ وہ (عورت) خدا کی صفات کو منعکس کر ے اور  اُس کے ساتھ روحانی یکتائی کا ابد تک لطف اُٹھاتی رہے۔ خالق نے مرد اور عورت کے لئے الگ الگ اور واضح فرائض (کام) مقرر کئے، مگر بتا دیا کہ وہ قدر و قیمت اور اہمیت میں برابر ہیں۔

آج بہت سے معاشروں میں خدا کے ارادے کے برعکس عورت کے ساتھ ایک ٹھیکرے جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ اُسے پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جب لڑکا پیدا ہوتا ہے تو خوشیاں اور جشن مناۓ جاتے ہیں اور جب لڑکی پیدا ہوتی ہے تو مایوسی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ بعض آدمی اور معاشرے کے بعض طبقے اپنی بیوی کے مقابلے میں اپنے مال مویشی کی زیادہ قدر اور دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اور چند ایک معاشرے دوسری انتہا تک چلے گئے ہیں اور عورت کو بہت اونچا مقام دیتے ہیں۔ وہ اِس بات کی پروا نہیں کرتے کہ خدا نے مرد اور عورت کو الگ الگ اور واضح طور سے فرق فرق فرائض سونپے ہیں۔ دونوں انتہائیں عورت کی تذلیل کرتی ہیں۔

پہلی شادی

غور کریں کہ پہلی شادی کی رسم کس نے ادا کی تھی۔ نکاح کس نے پڑھا تھا؟ خداوند خدا نے — بائبل مقدس کہتی ہے ” وہ (خداوند) عورت بنا کر اُسے آدم کے پاس لایا۔ “ شروع ہی سے خالق اپنے بندوں کی زندگیوں میں براہِ راست شامل تھا، جنہیں اُس نے اپنے لئے خلق کیا تھا۔ وہی یہ اعلان کرتا ہے کہ ” مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی بیوی سے ملا رہے گا اور وہ ایک تن ہوں گے“۔ ”ایک “ کے لئے عبرانی زبان کا لفظ ” ایکاد “ استعمال ہوا ہے جو یکتائی، اکائی یا اتحاد کو ظاہر کرتا ہے۔ خدا نے پہلے جوڑے کو اِس انداز سے بنایا کہ وہ ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوں اور ایک دوسرے کی خدمت کریں اور خدا سے لطف اندوز ہوں اور اُس کی پرستش کریں اور کامل ہم آہنگی ہمیشہ تک قائم رہے۔ وہ چاہتا تھا کہ مرد اور عورت فرداً فرداً اور اجتماعی طور سے اپنے خالق اور مالک کو اپنی زندگیوں کا مرکز اور محور بنائے رکھیں۔

المیہ یہ ہے کہ آج کی دنیا میں بہت سے لوگ شادی کے لئے خدا کے بنائے ہوئے اصل خاکے کو بھلاۓ بیٹھے ہیں۔ اُس کی پروا نہیں کرتے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آتا، اُنہیں کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ جوں جوں سال گزرتے جاتے ہیں ایک مرد اور ایک عورت کا رشتہ کس طرح زیادہ پُرکشش اور پُرلطف بنتا جاتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں وہ اُس محبت بھرے، مخلص،  باوفا اور بے لوث رشتے کو منعکس کرنے میں ناکام رہتے ہیں جو خدا نے شروع سے میاں بیوی کے لئے بنایا تھا۔

مرد اور عورت کے مابین شادی کا بانی خالق ہے، اور اِس سے خدا کا بے انتہا محبت بھرا دل نظر آتا ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ شادی کا بندھن اُس روحانی تعلق کا نمونہ ہو جس کے لئے وہ انسانوں کو بلاتا اور دعوت دیتا ہے کہ میرے ساتھ قائم کرو اور اُس میں بڑھتے اور مضبوط ہوتے جاؤ، اور ہمیشہ تک لطف اُٹھاتے رہو۔

کیا آپ نے غور کیا ہے کہ شادی کا بانی شادی کی کیا تعریف اور وضاحت کرتا ہے؟ ” اِس واسطے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی بیوی سے ملا رہے گا اور وہ ایک تن ہوں گے “ ۔ اور  اِس کے ساتھ ہی پاک کلام کہتا ہے ” اور آدم اور اُس کی بیوی ننگے تھے اور شرماتے نہ تھے۔ “

شادی کے لئے خدا کا منصوبہ یا مقصد یہ ہے کہ جوڑی بدن اور غرض و غایت میں ایک ہوں اور شرمائیں نہیں۔ اِس سے اعلی' اور بلند تر سطح پر انسان کے لئے خدا کا مقصد یہ تھا کہ وہ بے جھجک ہو کر اُس (خدا) کے ساتھ روحانی طور سے ایک ہو کر ہمیشہ تک لطف اُٹھاتے رہیں۔

بنی نوع انسان کو فرمانروائی بخشی گئی

خدا عورت کو مرد (آدم) کے پاس لے آیا اور اُسے دے دی تو وہ اُن دونوں سے براہِ راست اور روبرو باتیں کیا کرتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ خدا اُن پر دیدنی طور سے ظاہر ہوتا تھا کیونکہ بائبل مقدس کہتی ہے کہ خداوند خدا ” باغ میں پھرتا تھا “ (پیدائش ٣: ٨ )۔

اب تصور کریں کہ خدا آدم اور اُس کی بیوی کو ایک اونچے پہاڑ پر لے گیا جہاں سے وہ اپنے خالق کی کائنات کو اپنی اصل (بگاڑ سے پہلے کی) اور شاندار صورت میں دیکھ سکتے تھے۔

” اور خدا نے اُن کو برکت دی اور کہا کہ پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمور و محکوم کرو اور سمندر کی مچھلیوں اور ہوا کے پرندوں اور کُل جانوروں پر جو زمین پر چلتے ہیں اختیار رکھو۔ اور خدا نے کہا کہ دیکھو مَیں تمام رُوئے زمین کی کُل بیج دار سبزی اور ہر درخت جس میں اُس کا بیج دار پھل ہو تم کو دیتا ہوں۔ یہ تمہارے کھانے کو ہوں “ (پیدائش ١: ٢٨ ، ٢٩ )۔

  آدم (اَدمہ) انسان یا آدمی کے لئے عبرانی زبان کا لفظ ہے۔ اِس کے لغوی معنی ہیں ” لال مٹی “ اِس لئے کہ وہ مٹی سے بنایا گیا تھا۔ ” حوا “ کا مطلب ہے ” زندگی “ کیونکہ وہ سب زندوں کی ماں ہے (پیدائش ٣: ١٩ ۔ ٢٠ )۔

خدا نے آدم اور حوا کو اور اُن کی نسل کو اپنی مخلوقات کا نگران بنا دیا۔ اُس نے اُنہیں انسانی نسل کا ” آغاز کار جوڑا “ ہونے کا اعزاز اور ذمہ داری عطا کی۔ اُس نے اُنہیں کُل مخلوقات پر حکمرانی دی۔ حکمرانی کا مطلب ہے ” اختیار “ یا تسلط۔ آدم اور حوا اور اُن کی اولاد کو زمین سے استفادہ کرنا، اُس کی نگہداشت کرنا، اُس سے خوشی حاصل کرنا اور اُس پر حکمران ہونا تھا۔ اُنہیں زمین کو استعمال کرنا تھا۔ اُسے ناجائز یا غلط استعمال نہیں کرنا تھا۔

خالق کا ایک مقصد تھا اور اُس نے کائنات اِس طرح بنائی کہ انسانوں کے ساتھ ہم آہنگ رہے۔ شروع میں زمین تعاون کرتی تھی اور جو کچھ انسان چاہتا تھا یا جس کی اُسے ضرورت ہوتی تھی وہ مہیا کرتی تھی۔ آدم اور حوا کو کبھی فکر نہیں ہوتی تھی کہ ہمارا اگلے وقت کا کھانا کہاں سے آئے گا۔ بس اِتنا ہی کرنا ہوتا تھا کہ بے شمار قسموں کے پھلوں کے درختوں میں سے کسی کی طرف ہاتھ بڑھا کر کوئی لذیذ اور رسیلا پھل توڑیں اور کھا لیں۔ سخت زمین، جڑی بوٹیوں، کانٹوں، بیماری اور موت کا نام و نشان نہ تھا۔ کائنات کا کونا کونا آدم اور حوا کے ماتحت تھا۔ انسان کو تسلط حاصل تھا۔

کائنات اُس وقت تک آدم (انسان) کی اطاعت گزار رہتی جب تک آدم خدا کا اطاعت گزار رہتا۔

خدا اور آدم (انسان) کا ساتھ

شروع ہی سے خدا چاہتا تھا کہ انسان میرے ساتھ گہری اور میٹھی رفاقت رکھیں۔ اِسی لئے اُس نے آدم اور حوا کو دماغ اور دل (عقل اور جذبات) دیئے جن سے وہ اُسے جانیں اور سمجھیں اور اُس سے محبت رکھیں۔ اور انتخاب اور فیصلہ کرنے کی اِستعداد دی جس سے وہ فیصلہ کرے کہ وہ اُس (خدا) پر توکل رکھے گا یا نہیں اور اُس (خدا) کی فرماں برداری کرے گا یا نہیں۔ انتخاب کا عنصر نہایت ہی ضروری تھا اِس لئے کہ سچی محبت اور وفاداری جبراً حاصل نہیں کی جا سکتی۔ کل اختیار کا مالک خداوند آدم اور حوا کو اپنے انتخاب، اپنے چناؤ کا ذمہ دار اور جواب دہ ٹھہرانا چاہتا تھا۔

آپ یہ بات سمجھنے میں غلطی نہ کریں۔ اگرچہ کائنات کے خالق اور مالک کو کسی چیز کی ضرورت نہیں، تاہم وہ قطعی طور پر رشتے اور تعلق کا خدا ہے۔

جس طرح ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمیں جانیں اور ہم سے محبت رکھیں اُسی طرح خدا چاہتا ہے کہ جن لوگوں کو مَیں نے خود خلق کیا ہے وہ مجھے جانیں اور مجھ سے محبت رکھیں۔ یہ خواہش اُس کی ازلی ذات کا حصہ ہے کہ جن کو اُس نے ” اپنی صورت پر “ بنایا ہے اُن کے ساتھ دلی لگاؤ اور دلی دوستی ہو۔

مَیں نے لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ ” مَیں خدا کا غلام (بندہ) ہوں اِس کے سوا کچھ نہیں ہوں۔ “ ہم مانتے ہیں کہ جیسے کوئی مستعد نوکر اپنے مالک کی خدمت کرتا ہے ویسے ہی اپنے خدا کی خدمت اور عبادت کرنا بہت بڑا اعزاز ہے۔ مگر پاک کلام واضح کرتا ہے کہ خدا کا ہرگز ارادہ نہ تھا (نہ ہے) کہ انسان اُس کا غلام ہو، بلکہ یہ کہ اُس کا بیٹا ہو۔ ” ۔۔۔اب تُو غلام نہیں بلکہ بیٹا ہے “ (گلتیوں ٧:٤ )۔ ” ۔۔۔غلام ابد تک گھر میں نہیں رہتا، بیٹا ابد تک رہتا ہے “ (یوحنا ٨: ٣٥)۔ خدا انسانی الفاظ اور انداز سے اپنی دلی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ جو اُس پر توکل رکھتے ہیں اُن سب کے لئے اُس کا کیا منصوبہ ہے:

” مَیں تمہارا باپ ہوں گا اور تم میرے بیٹے بیٹیاں ہو گے “ (٢۔کرنتھیوں ٦: ١٨ )۔

صرف اِتنا ہی نہیں کہ خدا ہمارے لئے اپنی محبت کو اُس محبت کے مشابہ ٹھہراتا ہے جو والدین کو اپنی اولاد سے ہوتی ہے بلکہ ہمارا خالق ایک اَور سطح کی تشبیہ استعمال کرتا ہے۔ وہ انسانوں کے لئے اپنی محبت کو اُس محبت کے مشابہ ٹھہراتا ہے جو شوہر کو اپنی محبوب دُلھن سے ہوتی ہے۔

” ۔۔۔خداوند فرماتا ہے تب وہ مجھے اِیشی (میرا شوہر) کہے گی اور پھر بعلی (میرا مالک) نہ کہے گی ۔۔۔ اور تجھے اپنی ابدی نامزد کروں گا۔ ہاں، تجھے صداقت اور عدالت اور شفقت و رحمت سے اپنی نامزد (منگیتر) کروں گا۔ مَیں تجھے وفاداری سے اپنی نامزد بناؤں گا اور تُو خداوند کو پہچانے گی “ (ہوسیع ٢: ١٦ ، ١٩، ٢٠ )۔

آپ اِس دنیا میں دو افراد کے درمیان نہایت آسودگی بخش رشتے کا تصور کریں اور پھر اِس بات پر غور کریں۔ خدا اپنے ساتھ جو رشتہ قائم کرنے کی دعوت دیتا ہے وہ اِس دنیا میں انساںوں کے درمیان ممکنہ طور سے کسی بھی بہترین رشتے سے زیادہ اور بے انتہا دلکش ہے۔

خدا کے ساتھ ذاتی اور شخصی رشتہ قائم کئے بغیر آپ کی زندگی ادھوری، نامکمل اور بے سکون رہے گی۔ دنیاوی دولت کے انبار، دنیاوی عیش و عشرت، جاہ و مرتبہ، ناموری، دوست احباب یا دعائیں آپ کی روح کے خلا کو پُر نہیں کر سکتے۔ آپ کے دل کے خالی کمرے کو جسے خدا نے اپنے لئے بنایا ہے صرف خدا ہی آباد کر سکتا ہے۔

” کیونکہ وہ ترستی جان کو سیر کرتا ہے اور بھوکی جان کو نعمتوں سے مالا مال کرتا ہے “ (زبور ١٠٧ : ٩)۔

یہ نکتہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ واحد حقیقی خدا مذہبی رسومات سے خوش نہیں ہوتا بلکہ اُن لوگوں کے ساتھ سچے رشتے سے خوش ہوتا ہے جو اُس پر ایمان اور بھروسا رکھتے ہیں۔

مختلف سطحوں پر خدا جن رشتوں سے راضی اور خوش ہوتا رہا اور ہوتا رہے گا وہ ہے اُس کا

  • خود اپنے ساتھ رشتہ: ازل سے ابد تک ازلی باپ، ازلی بیٹا اور ازلی روح القدس باہمی رشتے اور  محبت میں منسلک ہیں۔ مثال کے طور پر پاک صحائف میں بیان ہوا ہے کہ بیٹا باپ سے کہتا ہے ” ۔۔۔ تُو نے بنائے عالم سے پیشتر مجھ سے محبت رکھی “ (یوحنا ١٧ : ٢٤ )۔
  • فرشتوں کے ساتھ رشتہ: اُس نے فرشتے خلق کئے تاکہ اُسے جانیں، اُس سے محبت رکھیں اور اُس کے مہیب جلال کی ہمیشہ تعریف و تحسین کرتے رہیں۔ ” خدا کے سب فرشتے اُسے سجدہ کریں “ (عبرانیوں ١: ٦)۔
  • انسانوں سے محبت : خدا نے انسانوں کو خلق کیا تاکہ کسی دن اپنے خالق سے فرشتوں سے بھی زیادہ قریبی رفاقت رکھیں۔ داؤد بادشاہ لکھتا ہے ” جب مَیں تیرے آسمان پر جو تیری دست کاری ہے اور چاند اور ستاروں پر جن کو تُو نے مقرر کیا غور کرتا ہوں تو پھر انسان کیا ہے کہ تُو اُسے یاد رکھے اور آدم زاد کیا ہے کہ تُو اُس کی خبر لے؟ کیونکہ تُو نے اُسے خدا سے کچھ ہی کمتر بنایا اور جلال اور شوکت سے اُسے تاجدار کرتا ہے “ (زبور ٨: ٣ ۔٥ )۔ خدا چاہتا تھا کہ وہ اپنے لوگوں کے ساتھ رہے۔ لیکن ضرور تھا کہ پہلے انسان آزمایا جائے۔

ساتواں دن — کائنات کی تخلیق کا کام پورا ہوا

تخلیقِ کائنات کا بیان ایک اہم معلومات کے ساتھ اختتام پذیر ہوتا ہے:

” ... اور خدا نے سب پر جو اُس نے بنایا تھا نظر کی اور دیکھا کہ بہت اچھا ہے اور شام ہوئی اور صبح ہوئ۔ سو چھٹا دن ہوا۔ سو آسمان اور زمین اور اُن کے کل لشکر کا بنانا ختم ہوا۔ اور خدا نے اپنے کام کو جسے وہ کرتا تھا ساتویں دن ختم کیا اور اپنے سارے کام سے جسے وہ کر رہا تھا ساتویں دن فارغ ہوا “ (پیدائش ١: ٣١؛ ٢ : ١، ٢)۔

خدا کا خلق کرنے کا کام پورا ہوا۔ اب وقت تھا کہ جو کچھ اُس نے بنایا، اُس پر خوش ہو۔ خدا نے ساتویں دن آرام کیا (عبرانیوں ٤:٤ ) لیکن اِس لئے نہیں کہ وہ تھک گیا تھا۔ وہ قائم بالذات جس کا نام ” مَیں ہوں “ ہے کبھی نہیں تھکتا (یسعیاہ ٤٠ :٢٨ )۔ خدا نے آرام کیا یعنی کام کرنا بند کر دیا کیونکہ اُس کا تخلیق کا کام مکمل ہو گیا تھا۔ خداوند خدا مطمئن ہو گیا، کیونکہ ہر ایک چیز کامل تھی۔

ایک کامل دنیا کا تصور کریں جس میں دو کامل انسان رہتے تھے جنہیں یہ اعزاز دیا گیا تھا کہ اپنے کامل خالق کے ساتھ روز افزوں دوستی سے لطف اندوز  ہوں۔ شروع میں ہمارے کرہ ارضی کا یہ حال تھا، یہ کیفیت تھی!

واۓ افسوس! کہ یہ قدیم زمین آج کامل نہیں رہی۔ بُرائی اور بداخلاقی، دکھ درد اور غم، مفلسی اور بھوک، نفرت و عداوت، ظلم و تشدد، بیماری اور موت کی بھرمار ہے۔

خدا کی کامل دنیا کو کیا ہوا؟ یہ کہانی کے اگلے حصے میں بتایا جاۓ گا۔