Wives of Muhammad by Ahmad Shah Shaiq

امہات المومنین

یعنی مومنین کی مائیں

محمد صاحب کے کردار کا ایک جائزہ

اُن کی ازواج کے ساتھ

علامہ احمد شاہ صاحب شائق

۱۸۹۷


Dr. Imad ul-din Lahiz

علامہ احمد شاہ صاحب شائق

Ummahatul-Mominin

The Mothers of the Faithful

A Review of the Character of Muhammad as
Shown in his Dealings with His Wives.

By

Rev Allama Ahmad Shah Shaiq

1897

اعلان مشتہر

مولوی ابوسعید محمدﷺحسین صاحب بٹالوی ایڈیٹر اشاعت السنتہ نے اپنے مضمون ’’عصمت انبیا ‘‘( رسالہ مذکور نمبر ۴ جلد ۱۷ صفحہ ۱۲۳ ۔۱۲۵ ) میں انہوں نے ریئس المتکلمین امام المناظرین مسٹر اکبر مسیح کے دلائل بنام عصمت محمدﷺ کا جواب لکھنا چاہا ہے( کہ جس کا جواب الجواب رسالہ کہاوت قرآن بر کلمہ رحمانی میں ادا ہو چکا ہے)۔ تمام عیسا ئیوں کے روبرو عموماً مسٹر موصوف نے خصو صا ً ایک بے باکانہ تحدی (للکارنا۔ مقابلے کی دعوت دینا)پیش کی ہے جس کو وہ ان الفاظ میں تحریر فرماتے ہیں:

’’ اگر مسٹر اکبر مسیح د ل سے آنحضرت ﷺکو ایک مقدس مصلح نہیں جانتے اور وہ حضرتﷺ کو عیاذًا ہااللہ (خدا کی پناہ)صریح گناہوں کا مرتکب خیال کرتے ہیں ، تو وہ مرد میدان ہیں تو آنحضرت ﷺکا کم سے کم ایک گناہ( جس میں آپ نے قرآن مجید اور اپنی شریعت کا انکارکیا ہو اور آنحضرتﷺ کی طرف سے مسلمانوں نے اس کا کافی عذر نہ کیا اور شافی جواب نہ دیا ہو) ثابت کریں اور اس کا اس خاکسا رسےایک ہزار روپیہ انعام لیں‘‘۔

اس خاص تحدی پر جومسٹر اکبر مسیح کودی گئی تھی مولوی صاحب نے مابعد عام کردیا ہے کہ جس سےعلاوہ مسٹر موصوف اَورلوگ بھی ایک ہزار روپے کےبلکہ دو ہزار روپے کے امیدوار ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے اپنےرسالہ میں (جس کو روبر و حاضرین ’’جلسہ اعظم مذاہب ‘‘منعقدہ لا ہور ماہ دسمبر ۱۸۹۶ءپڑ ھا تھا اور جس کو اب آپ نےرسالہ اشاعت السنتہ میں شائع کیا ہے، بڑی بےبا کی سے اپنےاشتہار پر تاکید کی ہے اور فرماتے ہیں(پرچہ نمبر۱۰جلد۱۷،صفحہ۳۰۴):

’’میں نے آج کل اپنے رسالے اشاعت السنتہ میں ایک مضمون ’’عصمت انبیا ‘‘درج کیا ہے ۔۔۔ اس میں مَیں نے اس مضمون کا اشتہار دیا ہے کہ اگر کوئی شخص۔۔۔ آنحضرتﷺ کا ایک گناہ ثابت کرے تو مَیں اُس کو ایک ہزار روپیہ انعام دُوں گا ۔ اس مقام میں اس لفظ’’ گناہ‘‘ کے ساتھ ’’خطا‘‘بھی زیادہ کرتا ہوں اوریہ کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص آنحضرتﷺ کی ایک ایسی خطا ثابت کرے جس پر منجانب اللہ اطلاع ہو کر اس کی اصلاح نہ کی گئی ہو تو وہ بھی ہم سے ایک ہزار روپیہ انعام لے ‘‘۔

ہم کو نہیں معلوم کہ حاضر ین جلسہ نے اس اشتہار کوسن کر بر وقت کیا خیال کیاہوگا ،مگر اس قدر تو مولوی صاحب نے سمجھ ہی لیا ہے کہ بو جوہ چند در چند مہذب اشخاص مولوی صاحب کی تحدی کواپنے طرز مجوزہ کے موافق قبول کرنے سے اجتناب کریں گے۔چنانچہ اپنے مخاطب اکبر مسیح سے بعد تحدی وہ یہ فرمائش کرتے ہیں کہ:

’’اگر آ پ کو اپنا انداز ظاہری تہذیب و طرز ملائمت اس ثبوت سےبالغ ہو تو آپ اُن عیسائیوں میں سے جو اسلام سے مرتد ہو کر کرسچن ہو ئے ہیں اور اُن کا مقصو د اس تبد یل مذہب سے صرف ٹکڑا کما کھانا ہے ، کسی کو پیش کریں اور وہ بھی یہی انعام لیں‘‘۔

یہ تحدی بھی بڑی مزہ کی ہے ۔ اکبر مسیح کو تومولوی صاحب نےتحدی قبول کرنے سے بوجہ اُن کے ’’انداز ظاہری تہذیب و طرز ملائمت‘‘ کے قاصر ہ سمجھا اور دوسرا دروازہ اپنی شرائط نا قابل تعمیل سے بند کردیا کیونکہ بےچارہ اکبر مسیح ایسا کوئی عیسائی کہاں پائے جو’’ اسلام سے مُرتد ہو کر کرسچن صر ف ٹکڑاکما کھانے کے لئے ہوگیا ہو‘‘۔ عیسائیوں میں توسپولیا کے سے مسلمان دین فروش دنیاطلب تو ہیں نہیں جن کی جان کوکوئی مصطفی خلیل آفندی دمشقی راوی (دیکھو پیسہ اخبار ۶ مارچ۱۸۹۷ء)۔

افسوس !مولوی صاحب اپنے جوش حمایت اسلام میں ایسے ازخودر فتہ(آپے سے باہر۔دیوانہ) ہوگئے اور بالکل بھول گئے کہ اُس اکھاڑے میں جس کو آپ نے للکارا ہے ایک نہیں بیسیوں مردمیدان موجود ہیں اور اگر دراصل کہیں آپ اُن کو بہ ثبوت فی گناہ ایک ایک ہزار روپیہ دینے لگیں تو خز ائین سلاطین اسلامیہ ایک آن میں خالی ہو جائیں ۔مجھ کو ان اشتہاروں کی وقعت معلوم ہے اور آپ کوبھی معلوم ہے۔اس دین دار شیخ چلّی کے جس کو آپ جھلا کر’’ کذ اب(نہایت جھوٹا) وعیار لاثانی ودجال قا دیانی‘‘ کہاکرتے ہیں ۔ہزار وں روپےکے انعاموں کے سینکڑوں اشتہار دیکھ، سن کر جووہ روز اپنے اباطیل کے رد کرنے والوں کو دو نوں ہاتھوں سے دینے کا وعدہ کیا کرتا ہے ،مَیں آسودہ ہوگیا ہوں اورافسوس کرتا ہوں کہ آج تک اُن میں سے کوئی انعام جناب کو نہیں ملا۔ اُن اشتہاروں کی بابت اےجناب مولانا آپ ہی نے یہ فرمایا ہے اور خوب فرمایا ہے کہ:

’’قادیانی نے بار بار لوگوں کو اپنے مقابلہ کے لئےاشتہاردیئے ہیں اور ان اشتہاروں میں علادہ زادِراہ کےسال بہ تک دو سو روپیہ ماہوارتنخواہ( یہ تو آپ کے ہزار پر بھی ۱۴ سو زائد ہوئے جاتےہیں) دینے کے وعدے کئےہیں، مگر اکثر لوگوں نےاس کو فریبی وپاگل سمجھ کر اُس کے اشتہاروں کا جواب تک بھی نہ دیا ۔بعض نے اس کا جواب یہ دیا کہ ہم نے تیرے اشتہار کو آگ میں ڈال دیا۔ بعض نے ایسا ہی کچھ اَور سنایا ۔اس لئے اس (مرزا) نے بے دھڑک یہ اشتہار جلسہ تحقیق مذاہب جاری کردیا جس سے وہ مقابلہ مخالفین سے تو بےفکر ہے اور۔۔۔سمجھتا ہےکہ ہمارے مخالف مولوی ہزار بار عام لوگوں کو ہمارے فریبوں پر آگاہ کریں مگر جہان احمقوں سے خالی نہیں ہے ، نہ کبھی ہو ا، نہ آئندہ ہوگا ۔ شیخ چلی مرگیا ،تو کیا ہوا اُس کے ذُرِّیات (ذریت کی جمع۔اولاد،تخم)کا تو اختتام نہیں ہوا ‘‘(اشاعت السنتہ نمبر ۱۲ جلد۱۶ صفحہ۳۷۸،۳۷۷)۔

پس آپ کو معلوم ہو کہ ہم آپ کےاس اشتہار کومرزائی اشتہاروں سے کچھ زیادہ وقعت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے، مگر ہم کو جہان کے احمقوں کاحضوصاً پنجاب کے شیخ چلیوں کا ڈر ہے ،کیونکہ گوآپ کو بھی معلوم ہے کہ عیسائی پادری ہزار بار محمدﷺکو گنہگار خود ان کے اپنے منہ سے اقبال کر ا کہ ثابت کر چکے ہیں اور اُن کی تاریخ زندگی کے اعمال نامہ کو روشنی دکھا چکے مگر آپ کی یہ باد ہوائی تحدی جو آپ نے دی ہے ابلہ فریبی (دغا۔ بےوقوف بنانا) کا کام ضرور کرےگی ۔ لہٰذا ہمارا فرض ہوا کہ ہم خالص نیت سےمحض بغرض احقاق حق آپ کی اس تحدی والے ہزار ی انعام کے جادوکو توڑدیں اور دکھادیں کہ آنحضرتﷺ کےایک یا دو خطا کا ذکر کون کرے۔وہ سراپا خطاتھے اور آپ سینکڑوں گناہوں سے جوقولی بھی ہیں ، فعلی بھی ہیں اور خیالی بھی اور جوقرآنی بھی ہیں ، اخلاقی بھی ہیں اور رسمی بھی ہیں لدئے ہوئے تھے جس کے لئے مسلمانوں نے گوطرح طرح کے حیلےتر اشے اور عذر کئے ،مگر عیسائیوں نے اُنکو ردکر دیا اور ان پر سے مولویوں کی ہر معذرت لے جانے کوجھاڑ پھینکا۔ لو!تم بھی کیا کہوگے تمہارے تحدی کو ہم یوں قبول کئے لیتے ہیں کہ ایک عیسائی سے جونہ کسی شہرت کا خواست گار ہے اور نہ اپنے پر ائے سے کسی نفع کا، محمدﷺ کو بربنائے واقعات تاریخ اسلامی گنہگار ثابت کرکے اس تحریر کو جس کی منشیانہ عبارت ،محققا نہ روشن وظریفانہ مذاق پر آپ بھی لوٹ جائیں شائع کرتے ہیں اورآپ کے ایک ہزار روپیہ انعام کی رعایت سے الکتاب کی ایک ہزار جلدیں مفت بصیغہ ڈاک پیڈایک ہزار مسلمانوں کے نذر کرتے ہیں کہ وہ گھربیٹھے آپکی تحدی بھی سن لیں اور اس کا جواب بھی ۔

لاکلام ہم حضرت ﷺکو اُن کے ابتدائی عقائداور دینی تعلیمات کی وجہ سے جس میں وہ مصدق کتب سماوی ضرور تھی، عرب کاایک بڑا مصلح مانتے ہیں اور اس سبب سے ان کی واجبی عزت وتو قیر بھی کرنا چاہتے ہیں اور اپنی طرف سے صرف اس امرحق پر اکتفاکرنے کوتیا ر تھے کہ اُن کی نسبت عدم عصمت کا اقرار جو ہر فردوبشر کو عارض ہے ، آپ لوگوں سے بھی کرادیں تاکہ آپ ان میں اورابن مریم میں حقیقی و واقعی امتیاز کرنے کی قابلیت حاصل کریں۔ ہم کو کیا ضرور ت کہ ہم اُن کی خطاؤں اور گناہوں کا جن کے وہ خود مقرتھے شمار کر کے ایک ناگوار بحث میں اُلجھیں، مگر جب دیکھتے ہیں کہ آپ لوگ اپنی سخت نافہمی وتعصب کی وجہ سے اس کو ہمارے عجزپر محمول کرتے ہیں اور ہم کو تحدی کرتے ہیں اور اس بدیہی ولازمی بات سے کہ آنحضرت ﷺبھی مثل دیگر بنی آدم کے بار عصیاں لدے ہوئے تھے ۔انکار کرکے سچوں کو جھوٹا بنا کر نادانوں کی گمراہی کا باعث ہوتے ہیں ،تو ایسے وقت میں اصلی کیفیت سے چشم پوشی کرنا اور لوگوں کومغالطہ میں رہنے دینا بحکم ۔

اگر بینم کہ نابنیا ہ چاہ است   اگر خاموش بہ نشینم گناہ است

ہمارے لئے ہر گز زیبا نہیں ۔ یہ کتاب دراصل ایک پہاڑ ہے جو آپ لوگوں کے سروں پر اچانک ٹوٹ پڑا ہے۔ اس کا جواب بجز اس کے کہ’’سر پر گرےپہاڑ تو فریاد کیاکریں‘‘ کچھ نہیں ہوسکتا ۔ ہم کوکوئی منصب نہ تھا کہ ہم اس کتاب کےمضمون یا عبارت میں کوئی دخل دیں اور واجبی طور سے ہم دخل دے بھی نہیں سکتے ۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم اس کو بجنسہٖ آپ لوگوں کے رُوبرو لے آئیں جس کے لئےہم یقینا ً معذور ہیں اور ہم باادب التجاکرتے ہیں کہ آپ غور کریں اور انصاف کو کام میں لائیں۔

سننے سمجھنے کوبات حق نے دئیے گوش و ہوش   حق بطرف جس کے ہو آج نہ رہیو خموش

المشتہر (ڈاکٹر)احمد شاہ شائق سابق میڈیکل افسر لیہ لداخ ملک تبت خوردساکن حال آکسفورڈانگلینڈ۔


 

فہرست مضامین رسالہ امہات المومنین
دیباچہ
سیرت محمد ی کی خصوصیات متقدین ومتاخرین مناظرین اسلامی کا طرز۔سید میر علی کی قابل افسوس روش ۔مناظرین اسلام پادریوں سے خائف۔ وجہ تسمیہ مولویوں کی تمن کو جواب ۔مصنف کی معذرت کتب مبصرین جن سے سندپکڑی اور اس کی وجہ۔
فصل اول تعداد ازواج۔ عہد قدیم۔ عہد جدید۔ قرآن واسلام۔تعداد ازواجی کی ناشائستگی پر اقوال اہل اسلام۔ علماء اسلام خیالات کنہ سے گرانبار۔ سنت نبی سے خطر۔ ۱۷
فصل دوم سنتِ نبی۔ حضرت کی ایک درجن ازواجن ۲۰
فصل سوم قرآن مجید وتعداد ازواج ۲۲
  دفعہ اول: نئی تاویل عدل کی دل لگی ۲۲
  دفعہ دوم: عدل وسنت نبی ۲۳
  دفعہ سوم: حد تعداد نمائشی نہ حقیقی ۲۴
  دفعہ چہارم: لونڈیاں حلال ۲۵
  دفعہ پنجم: متعہ النسا(متعہ ۔شیعہ مذہب میں کچھ مدت کے لیے عورت سے نکاح کر لینا) ۔ ۲۶
فصل چہارم تنزیہ المطاعن (۱)حضرت کا تجاوزشرعی (۲) ہبہء نفس(۳) وجوب قسم کی خرابی (۴)بیوہ و مطلقہ کی حق تلفی۔ ۲۷
فصل پنجم امہات المومنین ۳۰
  اول ۔ بی بی خدیجہ ۳۰
  دفعہ اول: مال وجمال ۳۰
  دفعہ دوئم: افلاس حضرت ۳۰
  دفعہ سوئم: خدیجہ پر سوت(سوتن) کیوں نہیں ۳۵
  دفعہ چہارم: عیاش الطبع ۳۷
  دوئم۔ سودہ ۴۰
  خدیجہؓ کاکفن تجھے اور نہیں مجھے ٹھور نہیں ۔ کبر سِنی(بُڑھاپا) میں طلاق اصول ۔فیاضی ومرو ت کابرتاؤ۔ پلاؤو نانِ جوِیں(دال دلیا) کا لطیفہ ۔ ۴۰
  سوئم۔ عائشہ ۴۲
  ابوبکر کی مخالفت نکاح ۔ عائشہ کی کم سینی قہر درویش برجان درویش ۔شہوت پرستی پر دلیل ۔ عائشہ پر الزام زنا۔قولہم علی مریم بہتانا ً عظیماً۔ ۴۲
  چہارم۔ حفصہ ۴۸
  خلفائےراشدین کے اخلاق ۔آتش مزاجی حفصہ ۔نکاح کا بیعانہ ۔ ۵۰
  پنجم۔ام حبیبہ ۵۰
  دختر ابوسفیان ۔ نکاح کی پالیسی ۔ ۵۰
  ششم۔ ام سلمہ ۵۰
  اُم سلمہ۔ اس کے خواست گار دعا بے غیرتی ۔ ۵۰
  ہفتم۔اُم المساکین ۵۰
  ہشتم۔ زینب ۵۰
  دفعہ اول۔زیدبن محمد ۵۱
  دفعہ دوم ۔زیدوزینب کی ناچاقی کا باعث ۵۳
  دفعہ سوم۔حضرت وعشق زینب  ۵۵
  دفعہ چہارم ۔اخفائے (اِخفا۔چھپانا)عشق  ۵۷
  دفعہ پنجم ۔طلاق زینب ۵۹
  دفعہ ششم ۔زیدبن حارثہ ۶۱
  دفعہ ہفتم ۔زید کی وفاداری  ۶۲
  دفعہ ہشتم۔ غیرت صحابہ کرام ۔جو روبدلول ۔حرمت خنز یر ۶۳
  دفعہ نہم ۔ ازالتہ الشکوک ۔کنوارپن میں زینب سے حضرت نے کیوں نکاح نہ کیا ۔رسم تبنیت(متبنّٰے بنانا۔گود لینا) کو توڑنے کا حیلہ ۔ قرآن مجید میں اس قصہ کی مصلحت ۶۴
  دفعہ دہم ۔ مطاعن(مطعن کی جمع۔عیب۔طعنے) ۶۷
   نہم ۔ جوپرلہ ۶۸
  حضرت کا اس پر فر یفتہ ہونا ۔مہرآزادی قوم ۶۹
  دہم۔ صفیہ ۷۰
   دفعہ اول ۔بیوہ ہونا ۔ ۷۰
  دفعہ دوم۔ باپ کی شہادت ۔ ۷۰
  دفعہ سوم ۔اسلام صفیہ ۔ ۷۱
  دفعہ چہارم۔ حسن صفیہ کہ’’ از چنگال گر گم دربوہ دی‘‘ ۔ ۷۲
  دفعہ پنجم ۔جبراً صحبت کے قرائن ۔ ۷۴
  یازدہم۔ میمونہ ۷۵
  دفعہ اول ۔ اس کی قرابت داریاں ۔ ۷۵
  دفعہ دوم۔ہبہءنفس ۔ ۷۷
  دفعہ سوم۔ حضرت کی نسبت بدگمانی ۔ ۷۷
فصل ششم حالات مزید ۷۹
  نیم جوروان ۔ بنت ضحاک کلابیہ۔ اسما کندیہ ۔ملکہ بنت کعب۔ ہمشیرہ وحیہ ۔ لیلی بنت حظیم ۔ مرہ بنت عوف۔امہانی بنت ابی طالب ۷۹
فصل ہفتم حضرت محمد کی لونڈیاں ۔ ۸۲
  اول ۔ ماریہ ۸۲
  دفعہ اول۔تحریم ماریہ کا قصہ ۸۲
  دفعہ دوم ۔نص قرآن مجید ۸۳
   دفعہ سوم۔معزز مفسیرین ۔لطیفہ ۸۴
  دفعہ چہارم۔ اصل قصہ ۸۶
  دوم: ریحانہ ۸۷
  اس زمانہ کا دستور اوراس زمانہ کےحضرت ریحانہ والی روایت’’دست چھانٹ کر پسند‘‘۔ ۸۷
فصل ہشتم عیاشی ومعجزہ نبوت۔ جبرائیل ونسخہ باہ (قوت جماع)بہترین امت محمدیہ ۸۹
فصل نہم حضرت کی کثرت ازواجی کی معذرت ۹۱
  دفعہ اول۔ خواہش اولاد ذکور ۔ ۹۱
  دفعہ دوم ۔صلح واتحاد خاندانی ۔ ۹۲
  دفعہ سوم ۔بیوہ پر وری ۔ ۹۳
  دفعہ چہارم ۔ تبلیغ اسلام و تعلیم نسوان۔ رسم پردہ واسلام ۔عورت کےساتھ بے شرمی کی گفتگو ۔ ۹۴
  دفعہ پنجم۔ کثرت ازواجی حضرت قبل آیت نکاح غلط ۔حضرت نئی عوریتں نہیں کرسکتے غلط ۔ وہ حکم منسوخ و بےمعنی ۔ ۹۷
  دفعہ ششم ۔ سنت انبیا السابقین کا حیلہ ۔ حضرت کی کثرت ازواجی کی ا شدضرورت ۔ ۱۰۰
فصل دہم متعہ النسا۔ اس پر نص قرآن مجید ۔ اس پر احادیث ۔ اس پر تاریخ ۔ ۱۰۲
فصہ یازدہم تقو یم پارینہ ’’زنےنوکن اسے دوست ہر نوبہار‘‘۔روز نامچہ ازواج مظہر ات ۔چینی محل ۔ حبشی محل۔ فرنگی محل۔ جوان عورتوں خواستگاری۔ ۱۰۵
فصل دوازدہم طلاق مولوی صفدر علی صاحب کے قول کی تائید ۔امام حسن کے حالات۔دین دار۔بدمعاش۔ ۱۰۹
فصل شیردہم حیثیت زنان۔ تعلیم محمدی ۔عورت صورت شیطان ۔فتنہ شوم ۔پلید۔ جہنمی ۔مکار ۔شیطان کی خالہ۔عورت کی عزت قرآن میں ندارد(نہیں ۔ غائب) انجیل مقدس کی تعلیم۔ عورت مرد کی ہمسر۔ مستحق عزت۔ ۱۱۲

دیباچہ مصنف

اِبطال(باطل کرنا۔جھوٹا کرنا) نبوت محمدﷺیہ میں اہل کتاب کی محکم دلیل ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ حضرت محمدﷺصاحب کا چلن شایان شانِ پیغمبری و نبوت ہرگزنہ تھا ۔وہ صفحہ تاریخ کو اُلٹا اُلٹا کر مدام دکھاتے رہے ہیں کہ شہوت پرستی اور خون ریزی محمدﷺ مدنی کی سوا نح عمری کے جزواعظم ہیں۔حتی ٰ کہ کوئی کتاب ان کی سیرت پر لکھی نہیں جاسکتی جس میں ان امور کی بابت سکوت ہوسکے ۔ متقدمین(متقدم کی جمع۔اگلے زمانے کے) اسلامی مورخین کی نگاہ میں تو یہ کوئی عیب نہ تھا ، اس لئے وہ خصائص نبوی سمجھ کر بلاتامل اُن کو قلم بند کرگئے ، مگر جب مسلمانوں کو اہل کتاب خصوصاً عیسائیوں سےمناظر ہ در پیش آیا تو اپنے نبی کی ذات کو بچانے کی غرض سے اُن کو وقتاًفوقتاً طرح طرح کےعذر تراشنے اور مختلف پہلو بدلنے پڑے۔ ابتدا میں تواُ نہوں نے اس عیاشی اور خون ریزی کی ،کثرت ازواجی اور جہاد کی متبرک اصطلاحوں سے تعبیر کرکےحمایت کی اور اپنے مقابلہ میں عقل وشعو ر اور اخلاق اور تہذیب کو جن کی ان کوحب مقتضا ئے(مقتضا۔تقاضا کیا گیا) زمانہ چند اں پر واہ نہ ہوسکتی تھی ۔ مگر جب زمانہ نےترقی کی اور نرے دقیانوسی ملّانوں کودم بخود ہونا پڑا، تب نئی اور زیادہ تعلیم یا فتہ نسل نے ایسے گرامی دشمنوں سےتاب مقاومت (مقابلہ۔ برابری) نہ لاکر اعلیٰ تہذیب کےنام سے دیانت و حق گوئی سے نادانستہ عداوت پیدا کی اور کبھی تو شارع اسلام کے (جواپنی نظیر آپ ہے) اطوار کی نظیر تلاش کرنے میں انبیا سلف کی تاریخ کی عبث ورق گردانی کی ، کبھی ان کو اُس زمانہ جاہلیت کے اخلاق کا نتیجہ بتاکر اُن کے لئےمعذرت کی اور جب یہ بھی کافی نہ ہوا( اور کیونکرکافی ہو سکتا تھا)تو اُن کے مدمقابل میں معتر ضین کے بزرگوں کےسوا اخلاقی دیکھاکر گویایہ قبول کرکے سستے چھوٹنا چاہا کہ ہاں میرا باپ کاناتھا، تیرابھی تھا اور جب اس الزام سے بھی شرمندہ ہو ناپڑا او رکوئی چارہ باقی نہ رہااور روشنی کے زمانہ نےہر باقر ینہ معذرت کا دروازہ بند کر دیا تو حامی اسلام نےاپنے پیغمبر کےلئےصرف اسی میں مَفَر(جائےفرار)د یکھا کہ ایک دفعہ اُن کو بند کر کے تاریخی واقعات سےانکار کر دیاجائے اوراس انکار او ردروغ کو صرف اپنے نام اور نئی روشنی کی فہرست اور انگریزی زبان کی تحریر اور حمایت اسلام کےجوش اور اظہار تعصب اور پادریوں کو برا بھلاکہنے سے ناواقفوں کے روبروفروغ دےکر کچھ مدت کےلئےسرخروبنیں۔

سید امیر علی صاحب جن کی کتاب کے ایک جزوکا تفصیلی جو اب لکھنے کے لئے ہم نے قلم اٹھا یا ہے، ہم افسوس سے کہتے ہیں، اسی آخری گروہ سے ہم کو معلوم ہوتے ہیں ۔ پر اُنے فیشن کے ملّانے جو شائستگی او ر تہذ یب میں صرف بدو ی (خانہ بدوش۔صحراؤں میں رہنے والا)آو ار ہ گرد وحشی عربوں کو اپنا مقتدا(پیشوا۔پیروی کیا گیا)بنا تے تھے اور اسلام کی حمایت میں صرف شمشیر اٹھاناجانتے تھے ۔ جب اُن کو قلم اٹھا نا پڑا تو عجب نہیں کہ بہت سی ناگفتنی باتیں لکھ ڈ الیں۔ ہم کو اُن کی شکایت مطلق زیبا نہیں کیونکہ وہ اسی کے لائق تھی اور یہ اُن کے۔ مگر سیّدسا تمیز دار جس کے دماغ کو مغر بی شائستگی نے منور کیا جب وہ اسلام کی حمایت میں حق کو باطل اور باطل کو حق کہنے کے لئے تاریخ سے انکار اور سچ بولنے سے انحراف کرنے پر آمادہ ہوجاتاہے تو ہم کو نہ صرف افسوس بلکہ ترس آتا ہے ۔ اُن کی انگریزی کتاب جس کاترجمہ اردو ’’ تنقید الکلام فی احوال شارع الاسلام ‘‘ہماری زیر نگاہ ہے ۔یہ دراصل ایک ایسی تالیف ہے کہ جیسی کسی عام شخص کی تالیف ہونی چاہئے۔ ہم نے صرف اُس کے چودہویں باب کا جواب لکھاہےجس میں سید صاحب نے تعد دازواجی سے بحث کر کے خاص کر حضرت کی کثر ت مناکحت(باہم نکاح کرنا) کے لئے بے بنیاد و فرضی اغراض دکھا کر اُن کے لئے معذرت چاہی ہے۔ ہمارے جواب سےمعلوم ہو جائے گا کہ شارع اسلام کے اخلاق عورات کے باب میں اپنے اصل میں کیسے نفرت انگیز تھے اور اسلام پر اُنکا اثر کیا ہوسکتا ہے اور ان کے اظہار کے واسطے کس قسم کے کلمات ناگز یر ہیں۔ اور فی الحال اسباب پر اپنی بحث کومحدود کرنے کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ حضرت محمدﷺ کی معصومیت کے مدعیان کو ہم ان کی زندگی کےایک پہلو کایہ کچا چٹھا سنا کر امید رکھتے ہیں کہ آئندہ وہ اپنے دعووں کو زیادہ معتدل بنا نا سیکھیں گے ۔ بہ باب سید صاحب کی کل کتا ب کےلئے گو یا مشتے نمونہ از خروار ے ہے۔ ناظرین کو اندازہ ہو جائے گا کہ او ر اورامور میں ہمارے مخاطب نے تاریخ کی کیا کچھ درگت بنائی ہوگی او رمجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ اس نے شاذ(اتفاقاً)ہی کہیں سچ بولا ہے اور اگر بولا بھی تو ادھورا۔اور جس بے باکی سے وہ تاریخی واقعات کا انکار کرتا ہے، اُ س کی مثل ہم کو زمانہ حال کی مغربی تصنیفات میں تو ہر گز نہیں مل سکتی ، گومشرقی جاہل علما کی تحر یرات میں ملنا دشوار نہ ہو ۔

حامیان اسلام بھی ایک طرح سے مجبور ہیں۔ عیسائیوں نے اپنے مناظرہ کو ان کے مقابلہ میں وہ جلادی ہے کہ علما ئےمحمدی عنان صبروقرار ہاتھ سے کھو چکے ہیں ۔ اس کتاب کا مترجم دردسے کہتا ہے کہ :

’’بعض متعصبین اہل کتاب نے حضرت سید الانبیا اور دین خدا اور شریعت رسول اللہ پر ایسا طعن و مضحکہ کیاہے کہ اُن کی تصنیفات کو د یکھ کر مسلمان کا دل کانپنے لگتا ہے اورراس کی آنکھوں میں خون اُتر آتا ہے اور اگر چہ وہ اپنے دل کو اس خیال سے تسکین دے لیتا ہے کہ مناظرین اسلام مثل ملّا جو اوسا باطی اور مولوی آل حسن موہانی اور ڈاکٹروزیر خان اکبر آبادی کے پادریوں کے اعتراضات کا دندان شکن جواب لکھ چکے ہیں ، مگر پھر جو زیادہ غور کرتا ہےتو یہ تصور ضرور ہوتا ہے کہ جو لوگ اہل حل و عقد (کھولنا اور باندھنا)میں داخل ہیں اور اہل خرد وار باب بصیرت سمجھے جاتے ہیں۔ وہ تو ایسے جوابات کو ہرگز تسلیم نہ کریں گے ،تاو قیتکہ ان کے شبہات اُنہیں کے مذاق میں نہ دفع کئے جائیں۔ بہ صفت اسی کتاب سے مخصو ص ہے کہ جن مسائل شر یعہ پر متعصبین نصار یٰ نے بہت سخت طعن و تشنیع کی ہے ،مثل تعد دازواج وبر دہ فروشی اور جہاد اور جنت و نار کو جسمانیا ت وماد یا ت سے تعبیر کرنا۔ اس کو اس خوبی سے دفع کیا ہے کہ یورپ کا معقول پسند فرقہ جس کےطعن و مضحکہ کو دفع کرنے کےلئے یہ کتاب تصنیف ہوئی ہے ، اب اس کو قیل وقال (بحث و مباحثہ۔بات چیت)کی مجا ل نہیں باقی رہی۔(التماس مترجم) سچ ہے ! واقعی عیسائی علما نے شارع اسلام پر ایسا جر ح (زخموں کی چیر پھاڑ کرنے والا)کیا ہے جس کے لئے کوئی مرہم اسلامی دنیا میں نہیں اور اس طرف کے حملات نے اسلام کو ایسے زلزلہ میں ڈالا ہے کہ حامیاں اسلام کا’’ دل کانپنے لگتا ہے ‘‘اور ’’ان کی آنکھوں میں خون اُترآتاہے‘‘ ۔ بوجہ غصہ وندامت وبےچارگی کے اور گو و ہ ہزار جان سے مناظرین اسلام کی تحریرات کو ’’پادریوں کے اعتراض کے دندان شکن جوابات‘‘ ماننا چاہتے ہیں ۔ پھر بھی زیادہ غور کرنے پر اُن کو آپ معلوم ہوجاتاہے کہ پادریوں کےمقابل لڑنا گو یاجنگ احد میں شہید ہوناہے ۔ اہل خرد او ر ارباب بصیرت ایسے جوابات کو ہر گزنہ تسلیم کریں گے‘‘۔

اس لئے ہم بھی اس برہان قاطع کی حقیقت دکھانا چاہتے ہیں جس کاموجد ’’الجامع العلوم القدیمتہ والجد یدۃ‘‘ ہمارا مخاطب ہے تاکہ اہل اسلام کو معلوم ہوجائے کہ اُن کی طرف بایں ہمہ ہنوز روز اول ہےاور شارع اسلام پرجو کچھ طعن و مضحکہ کیاگیا،اس میں کچھ بھی طعن ومضحکہ نہیں بلکہ وہ نری حقیقت ہے جس کا دفع کرنا نہ علوم قدیمہ کے امکان میں ہے ، نہ جدید ہ کے اور جس پر ہماری یہ کتاب شاہد ہے ۔ ہمارے مخاطب مصنف کی غرض ہر گز شارع اسلام کی سوانح عمر ی کے سچے و اقعات بیان کرنا نہیں تھا، بلکہ اُس کو منظور ہے کہ’’ پیغمبر اسلام کی سوانح عمر ی اور اُن کے مواعظ ونصائح میں جو عمدہ اوصاف ہیں ان کو ایک عام پسند طرز سے بیان کرے اور اکثر ناظرین کےدل سےظنون فاسد ہ(ظن فاسد۔گمان بد،بد ظنی) وتعصبات بےجا کو دفع کرے‘‘ ۔ ہماری غرض ہے کہ ہم دکھادیں کہ اسں مصنف نے حضرت ﷺکی جھوٹی تصویر پیش کرکے لوگوں کومغالطہ میں ڈالناچاہا ہے۔ پس ہم نےحضرت ﷺکی زندگی کےایک پہلو پر بالتفصیل نظر ڈال کر بطور نمونہ مصنف کو جواب دیا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ مصنف نےاپنے ہیرو کی زندگی کےہر پہلو کےساتھ یہی سلوک کیا ہے۔ بردہ فروشی کے بارےمیں بھی، جہاد کے بارے میں بھی اور جنت اورنار کےبارے میں بھی ۔غرض کہ وہ کتاب جس کاہم جوا ب کہتے ہیں ایک عظیم الشان دروغ ہے جس میں بڑا عجوبہ صرف یہ ہے کہ وہ ایک ایسی سمت سے پیدا ہو اجدھرسے اس کی پیدایش کا اندیشہ معمولی تجر بہ سے نہیں ہوسکتا تھا۔ علما ئے یورپ جو تاریخ اسلام کے ماہرہیں اور عوام الناس بھی جن کی معلومات سر ولیم میورصاحب و غیرہ نے اپنی عالمانہ اور محققا نہ تحریر ات سے بڑھادی ہے، اس پرہنستے ہیں۔ گو جہلائے ہند جن کو تحقیق سے چند اںسرو کار نہیں، اس کوپادریوں کے مقابلہ میں تریاق اکبر ہی سمجھ لیں ۔ اسی لئے تو اس کا ترجمہ کرکے اردو خوانوں کے درمیان شائع کیاگیا ہے ۔ پس ہم ان کے خیالات کی اصلاح کے لئے زبان اردو میں یہ مختصر رسالہ تیار کرکے اہل اسلام کو پیش کرتے ہیں۔

ہمارا یہ رسالہ پیشتر آنحضرت محمد کے از و اج کے حالات پر مشتمل ہے ، اس لئے اس کا نام ’’امہات مومنین‘‘ رکھا ۔ جس معزز اصطلاحی لقب سے وہ مشہور ہیں، ہم نے اپنی اس بحث کو ہر جانب سے پورا کرنے کی خاطرساتھ ہی ساتھ علاوہ او رچھوٹے موٹے مولویوں کے جن کا نام تُمن ہے۔ مولوی محمد علی ۱ کانپوری اور مولوی حکیم نورالدین ۲ بہروی اور مولوی فیروز الدین فیرو ز ۳ ڈ سکوی اور مولوی ابو سعید محمد حسین ۴ بٹا لوی کو جو مسلمانوں کے درمیان سرآورمناظرین عصر سے سمجھ جاتے ہیں اور خود بھی اس بحث میں قلم اٹھا چکے ہیں ،جابجا جہاں تک ان کے خیالات سید امیر علی کی کمی کو پورا کرنے کی وجہ سے ہماری اس بحث میں متعلق تھے جو اب دیا ہے تاکہ اس رسالہ کے بعد پھر کسی صاحب کو یہ عذرباقی نہ رہ جائے کہ فلانے منشی صاحب یا فلانے مولوی صاحب یا فلانے سید صاحب نے جو فلاں جواب دیاتھا اور اس کی رعایت نہیں رکھی گئی ۔ پس ہم کو دعویٰ ہے کہ آج تک اسں بحث پر جو کچھ لکھاگیا اور جو عذر پیش کیا گیا ، ہم نے اُس کا جواب ہدیہ ناظرین کر دیا ہے ۔ اس جہت سے یہ رسالہ بالکل نیارسالہ ہے ۔

ہم افسوس کرتے ہیں کہ اس باب میں حضرت ﷺکے حالات تہذیب کے پایہ اور اخلاق کے مرتبہ سے ایسے گرے ہوئے ہیں کہ اُن کے تذکرہ کے لئے ایسے خیالات اور ایسے کلمات لازمی ہیں جن کا مذکو ر اور مواقع پر کوئی شخص بلا معذرت نہیں کرسکتا ۔ مگر وہ تاریخ ہی ایسی ہے جس کے نزدیک آکر کوئی شخص اپنی زبان و خیال کو کچھ دیر آلودہ کئے بغیر بچ نہیں سکتا ۔ بہر کیف ناظرین کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ جس امر کابیان بھی تہذیب سےہٹ جاتا ہے ،وہ امر فی نفسہ تہذیب کا کس قدر دشمن ہوگا ۔ حضرت ﷺکی سچی تاریخ کوہاتھ لگانے سے ہم ضرور اجتناب کرتے، مگر ہمار منصب ہم کو مجبور کرتا ہے ۔ مناظرین معذور ہیں ۔ اس کتاب کی تالیف میں ایک امریہ بھی ملحوظ رکھا گیا ہے کہ عوام ا لناس جن کے مغالطہ کے لئے سیدامیرعلی صاحب کی انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ تیار کیا گیا، وہ اُن واقعات پر اپنی تحقیقی رائے خود قائم کر سکیں ۔ اس لئے بڑی بڑی عربی کتابوں کے ناموں سے جونہ صرف عوام کی رسائی سے باہر بلکہ جن کے مضامین اور ان کے علم سے بھی ناواقف ہیں ،اُن کو ڈر ایا نہیں گیا بلکہ اُن کتابوں سے استدلال کیا گیا ہے جن کو انہیں کتابوں سے بڑے بڑے جید اور دین د ار علما اسلام نے جن کے مقابل اس وقت کوئی ایک عالم بھی سارے ہندوستان میں موجود نہیں، عوام الناس کے فائدہ کےلئے بڑی تحقیق و تفتیش سے تالیف کیاہے تاکہ محمدﷺ کےحالات کو وہ بڑی شرح وبسط(وضاحت و تفصیل) سے بیان کریں ۔

وہ کتابیں روضۃ الاحباب ، مدارج النبوۃ وحیاۃالقلوب ہیں۔ ان اخیر دونوں کتابوں کا جن میں اول بیشتر رو ضۃ الاحباب پر مبنی ہے اردو ترجمہ ہوگیا ہے اور ہر کہیں ہر شخص کوجواردوبھی پڑھ سکتا ہے ، میسر آسکتاہے ۔میں نے روضۃ الاحباب مطبوعہ لکھنو ۱۲۹۷ھ اور مدارج البنوۃکا اردو ترجمہ نو لکشوری جس کا نام منہاج النبوۃہے ،استعمال کیا ہے ۔ اسی طرح تاریخ واقدی اور تاریخ ابوالفدا کا حوال بھی اُن کے اردو ترجموں سے دیاگیاہے۔

حیات القلوب ۵ ملّاباقر مجلسی جس کی جلد دوم نولکشوری اس رسالہ کے کام میں آئی ،شیعوں کی ایک بڑی معتبر تاریخ ہے اور روضۃ الاحباب اور مدارج النبوۃ ۶ کی بابت شاہ عبد العزیز صاحب جو گویا مسلماناں ہند کے آخری امام ہوئے ،اپنے رسالہ عجالہ نافع میں( اس کا بھی اردو ترجمہ ہو گیا)یہ فرماتے ہیں’’ احادیث تاریخ وسیر راو و قسم کردہ اندانچہ متعلق بوجود باجو د پیغمبر ماعلے اللہ علیہ وسلم وصحابہ کرام و آل عظا م او ست ازابتدائی تولد آنجناب تاغایت وفات آنراسیرت نامسندسیرۃ ابن اسحٰق وسیرۃابن ہشام وسیرت ملّاعمر و دیگر کتب بسیاردرین باب مصنف شدہ بالفصل نسخہ روضتہ الاحباب میر جمال الدین محدث حسینی اگر بہم رسد کہ خالہ ازالحاق وتحریف باشد بہتر ازہمہ تصانیف این باب است ۷ ومدارج والنبوۃ شیخ عبد الحق محدث وسیرت سید شاسیہ سوہب مدینہ مبسوط ترین سیر تھا اند‘‘۔

پس ہم نے اُس کتاب سے جو ’’ بہتر از ہمہ تصانیف این باب السنت‘‘ اور اس کتاب سے جو اُس سے ماخوذ ہے اور خود ’’مبسو ط ترین سیر تھا‘‘ ہے، جس کی خوبی واعتبار پر شاہ عبد العزیز ساعالم اجل شاہد ہے اور جوہرشخص کو ہر کہیں اُس کی زبان میں میسر آسکتی ہے۔اس رسالہ میں سند پکڑی ہےاورد کھایا ہے کہ آنحضرت ﷺپر ایمان لانے والے احادیث کے کماحقہ پہنچانے والے ،نرم گرم روایات میں تمیز کرنےوالے ،حضرت کے محامد(محمدت کی جمع ۔اچھائیاں)بیان کرنے والے ۸ اور زمانہ حال کےنیم نر مولویوں کےاستادوں کے پڑھانے والے ، علم حدیث کےامام کہلانے والے حضرت کے حالات ہم کو کیسے سناتے ہیں تاکہ عوام کونہ پھر یہ کہنے کی گنجائش رہے کہ اُن کتابوں تک ہم پہنچ نہیں سکتے اور نہ یہ کہنے کی گنجائش رہے کہ ہم نے اپنی طرف سے حضرت کےحالات میں تصرف کیا ہے،بلکہ اگر عاری ہو کر کہناچاہیں تو صرف یہ کہہ کر لوگوں کو اپنے اُوپر ہنسوائیں کہ میر جمال الدین ،محدث حسینی اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی اور ملاباقر مجلسی جھوٹے یادروغ گو یا کم علم یاجاہل یا دشمن اسلام تھے ۔ مگرہم یہ بھی انہیں سے سننا چاہیں گے جن کو اُن بزرگ علما ئےاسلام سے بزرگ تر ہونے کا دعویٰ ہو اور نیز اُن کے اقوال کے غلط ہونے پرکوئی دلیل لانے کا یارا ۔ ہم کو خوب معلوم ہے کہ جودلائل ہم نے اپنے دعووں کے ثبوت یااپنے مخاطبین کی تردید میں بیان کئے ہیں، وہ بالکل ہمارے نام و شہرت یا شخصیت سے غیر متعلق ہیں ۔ لہٰذا ہم اپنی اس کتاب کو مجردو تنہاتما م مسلمانوں کےروبرو پیش کر کے ان کی نہ کہ اپنی تائید یاتر دید کے خواہش مند ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ناظرین حضرت علی ؓکےاس گراں بہا مقولہ پرکار بند ہوں گے لاتنظرواالی من قال وانظرواالی ماقال (ترجمہ)’’مت دیکھو کس نے کہا دیکھوکیاکہا‘‘۔


۱. پیغام محمدﷺی اور دافع تلبیسات اُن کی تصنیف سے ہے۔

۲. ان کی تصنیف کا نام فصل الخطاب ہے۔

۳. دفع طعن از نکاح زینب ان کی تصنیف ہے۔

۴. ان کا مضمون’’مسائل نکاح و طلاق پر اعتراضات کا جواب‘‘ا ن کے دینی رسالہ اشاعت السنت کی جلد دہم کے نمبر۵ میں چھپا ہے۔

۷. ایسے ہی نسخے سوت کے ساتھ دہلی اور لکھنو کے نامی مطبعوں میں شائع ہوچکے ہیں۔

۸. مدارج النبوۃ ہے۔۔۔۔ کہ اس کی کتاب’’حضرت رسول کے اعمال۔۔ اور تال حسن جمال۔۔۔فضل وکمال کو شامل۔۔۔ترجمہ جلد اول۔۔۔