فصل چہارم

تنزیہ المطاعن

اب مصنف صاحب حضرت پر سے اس طعن کے دفع کرنے کی کوشش کرنے میں کہ’’ آنحضرت نے متعد داز واج کرکے اپنے نفس سے وہ رعایت کی جس کے مستحق آپ شرع شریف کےبموجب نہ تھے‘‘(صفحہ۲۱۷) ۔ حق تویوں ہے کہ عورتوں کے بارے میں حضرت نے نہ حکم کا لحاظ کیا، نہ قانون قدرت کا ،نہ قرآن مجید کا،نہ اسلام کا،نہ رسم ورواج ،نہ عرب کا۔ہر اصول حیا وشرم واخلاق وتہذیب کا خون کیاہے۔مصنف صاحب نے اُن مطاعن کےتذکرہ میں کوتاہی کی ہے ۔ہم پہلے اُن کی تفصیل بیان کرتے ہیں تاکہ بعد میں دیکھیں اُن میں سے کن کن کا جواب ہم کو ملتا ہے۔

طعن اول :حضرت ﷺکا تجاوز شرعی

جو تعداد قرآن مجید یعنی شریعت اسلام نے ازواج کی مقرر کی حضرت ﷺ نے اُس سے بدرجہ انتہا تجاوز فرمایا۔کوئی مسلمان ایک ساتھ چار سے زیادہ نکاح نہیں کر سکتا۔حضرت نے چہار چند (چوگنا)چہار پر بھی اکتفا نہ کی۔

طعن دوم:ہبہ نفس

کوئی مسلمان شریعت اسلام کےمطابق بے مہر نکاح نہیں کرسکتا۔ حضرت ﷺنےبے مہر نکاح کیایعنی اپنے تئیں نکاح کی حقیقی ذمہ داری سے سبکدوش کردیا ۔ اس کو ہبہ نفس کہتے ہیں جو مسلمان کےلئے حرام ہے۔ اس ہبہ نفس کا حکم حضرت ﷺکی ذات سے مخصوص ہے، چنانچہ قرآن مجید میں وارد ہوايَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا

’’ اے پیغمبر ہم نے تمہارے لئے تمہاری بیویاں جن کو تم نے ان کے مہر دے دیئے ہیں حلال کردی ہیں اور تمہاری لونڈیاں جو خدا نے تم کو (کفار سے بطور مال غنیمت) دلوائی ہیں اور تمہارے چچا کی بیٹیاں اور تمہاری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تمہارے ماموؤں کی بیٹیاں اور تمہاری خالاؤں کی بیٹیاں جو تمہارے ساتھ وطن چھوڑ کر آئی ہیں (سب حلال ہیں) اور جوکوئی عورت مسلمان اگر بخشے اپنی جان نبی کو اگر نبی چاہے کہ اس کو نکاح میں لے صرف تجھے کو سوائے سب مسلمانوں کے تانہ رہے تجھ پرتنگی ‘‘(احزاب ع۶آیت ۵۰)۔

مولوی ڈسکو ی بڑی سردمہری سےکہتے ہیں کہ:

’’ مہر کی اگر عورت د عویدار نہ ہوتو صحبت نکاح کےلئے وہ کب مانع ہے‘‘(صفحہ۳۶) ۔

اور نہیں سمجھتےکہ مہرکادعویٰ نہ کرنااَو ریہ بات ہےاور بے مہر عورت کوجورُوبنانا اَور ۔چنانچہ قرآن مجید میں صریح آیا ہے۔ ان تبتغوا باموالکم ’’عورتوں کو طلب کرو اپنے مال کے بدلے‘‘( نساع۴)۔ پس جو مسلمان بلامہر عورت کوجور ُو بنائے زانی ہے، اسی لئےتوبغیر مہر جورُو بنانے کے بارےمیں محمدﷺ نے اپنے حق میں فرمالیا کہ :

’’یہ صرف تیرے لئے خاص حکم ہے اَور مومنوں کے سوا ‘‘(صفحہ۳۶)۔

پس کہو یہ خصوصیت کیسی تھی ۔ یہاں مہر شروع ہی سے گدھے کےسرپر سینگ ہورہا ہے۔ پس عورت د عویدا ر کیسے ہو اور اگر عورت شرعاًاپنا مہر شروع سے چھوڑ سکتی تو پھر اور مومنین اس استحقاق سےمحروم کیسے رہ گئے ، نہیں حضرت۔ آنحضرتﷺ اپنےنفس کی رعایت چاہتے ہیں ، عورتوں کے حقوق اپنی نسبت کرتاہ کررہے ہیں ۔ یہاں تنگی اور فراخی کی باتیں ہیں’’ جائزہے تجھ پر تنگی‘‘ ۔ حضرت کی ان البیلی باتوں نے حامیاں اسلام کو کیسے ضیق (تنگی۔دشواری)میں ڈالاہے ۔

طعن سوم:وجوب قسم کی خرابی

مسلمانوں کو بہر حال اپنی متعد د عورتوں کے ساتھ کسی نہ کسی قسم کی مساوات ور عایت فرض ہے،مگر محمدﷺ ہر طرح کی رعایت سے سبکدوش ہیں ۔ بالکل ان کی مرضی پر منحصر ہے، جیسا چاہیں اپنی عورات سےسلوک کریں ۔چنانچہ نص قرآن مجید ہم پیش کرچکے ہیں۔

طعن چہارم :بیوہ و مطلقہ کی حق تلفی

ہر مسلمان مطلقہ عورت کو اختیار ہے کہ دوسرے شوہر سےملے، یعنی شوہر اگر بدسلوکی کرے اور وہ اُس سے راضی نہ ہو تو وہ شوہر سے طلاق حاصل کرلے ۔حضرت ﷺنےاپنی عورات سے یہ استحقاق چھین لیا باوجود اس کےکہ اپنے اوپر معمولی مساوات بھی شرعاً فرض نہ رکھے۔اِدھرتو فرمایا:

وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ (احزاب ع۱)جوروئیں اُس (محمدﷺ)کی مسلمانوں کی مائیں ہیں اور ماں کی حرمت ہمیشہ واجب ہے ۔

اور اُدھر یہ لکھ دیا:

’’تم کو نہیں پہنچتا کہ تکلیف دو اللہ کے رسول کو اور نہ یہ کہ نکاح کرو اُس کی عورتوں کواس کے پیچھے ،البتہ یہ بات تمہارےاللہ کے یہاں بڑا گناہ ہے‘‘( احزاب ع۷)۔

پس وہ جھوٹھی اور ظالمانہ غیرت جس کو خدا کی شریعت روا نہیں رکھ سکتی ،محمدﷺ صاحب نےاپنےلئے روارکھی ۔ اور مسلمانوں کو بھی یہ امر بہت شان گزرتا تھا کہ وہ دیکھتے تھے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے محمدﷺ ہماری عورتیں لے لیتے ہیں اور اپنی عورتوں کو ہماری مان بنا کر ہم پر حرام کردیتے ہیں۔ چنانچہ حیات القلوب (صفحہ ۵۷۰)میں ہے کہ یہ سن کر کہ محمدﷺ ﷺصاحب کی جوروئیں مسلمانوں کی مائیں ہیں۔’’ طلحہ بغضب امدو گفت محمدﷺ زنان خودرا ابر ماحرام میگر واندوخودزنان ماراتز ویج می نمایداگر خدا محمدﷺ را بمیراندہر آئینہ مابکینم بازنان اوا نچہ اوبازنان مامیکرو‘‘ اور طلحہ وغیرہ کی بابت اس قسم کی روایت کا حوالہ اس آیت کی شان نزول میں اکثرتفاسیرمیں آیا ہے۔ دیکھو حسینی احزاب ع۷اور نیزر وضۃ الاحباب صفحہ ۶۱۴ پس یوں اپنے اوپر وہ روار کھاجس کا مستحق کوئی شریعت محمدﷺی کاتابع شرعاًنہیں ہو سکتا اور اپنی عورتوں پر وہ ظلم کیا جس ظلم کی متحمل کوئی عورت مسلمان شرعاً نہیں ہوسکتی ہے۔ ہم نے یہ چارمطا عن چار جورؤوں کی رعایت سےگنوائے ہیں جن کےجواب میں سید امیر علی صاحب دوواقعات تاریخی کوبلاتعصب ونفسانیت دکھاکر یہ ثابت کرنے کا وعدہ کرتے ہیں کہ ہمارے مطاعن ’’صا ف باطنی اور ایمانداری اور عیسائی نیک نہادی سے بالکل معرا(پاک۔صاف)ہیں‘‘(صفحہ ۲۰۶)۔آیا ہمارے مطاعن یاسید صاحب کےجوابات اس صفت سے زیادہ منصف ہونے کے سزا وار ہیں ۔ناظرین تم ہی انصاف کردینا۔

فصل پنجم

امہات مومنین

۱ ۔ حالات بی بی خدیجہؓؓ

’’ جب آنحضرتﷺ کاسن شریف ۲۵ برس کاتھایعنی عین عنفوان شباب میں جبکہ قوائے عقلی و قوائے بدنی بالکل صحیح تھے ،اُس وقت آپ نے حضرت خدیجہؓؓ سے عقد کیاجوآپ سے سن(عمر)میں بہت بڑی تھیں۔ ۲۵ برس تک آپ نے خدیجہؓ کے ساتھ کمال وفاداری اور راحت سے بسرفرمائی ‘‘(صفحہ۲۰۷)۔سیدصاحب نےان واقعات کو کچھ رقت کے ساتھ بیان کیا ہےگویا حضرت محمدﷺ نےاپنی عمر سے بڑی عورت کے ساتھ شادی کرکے کوئی حقیقی خود انکاری کی تھی ،کیونکہ وہ بڑی بے باکی سے اپنی انگریزی کتاب میں ایک فقرہ یہ بھی اضافہ فرماتے ہیں کہ:

’’آنحضرت ﷺنے افلاس اور تنگ دستی کی حالت میں ایک بڈھی عورت کی پرورش کے بار کاذمہ اٹھایا ،جس میں دراصل وہ ایک خود انکاری برت رہے تھے ،جو کچھ ہلکی قسم کی نہ تھی‘‘(صفحہ ۳۳۱)۔

میں بی بی خدیجہؓؓ کے کچھ صحیح حالات سناتاہوں۔

دفعہ اول

تمول وحسن وجمال خدیجہؓ

آپ خود تسلیم کرتے ہے کہ ’’خدیجہؓ ایک متمول بی بی قریش کی قوم سے تھیں‘‘(صفحہ ۳۱)۔’’ حضرت خدیجہؓ خویلدبن اسدبن عبدالعزی بن قصبے بن کلاب کی بیٹی ہے ۔ یہ سو داگر بچی عزت والی اور بڑی مالدار قوم قریش میں تھی‘‘(ابولفدا،صفحہ۳۷۰) ۔یہ اس کا نسب ہے۔قصے محمدﷺ ﷺصاحب کے دادا عبدالمطلب کا پر دادا تھا ۔نسب کی طرف سے یہ عورت اشراف قریش سےتھی ۔’’خدیجہؓ درہر ناحیہ فلامان و حیوانات بے پایان دہشت تاآنکہ بعضے گفتہ اند کہ زیادہ ازہشتاوہزار شترواشت کہ متفرق بودو درہرناحیہ وہر مکان ملازمان ودکلائے او بتجارت مشغول بودند مانند مصر وشام وحبش وغیر آن ‘‘(حیا ت القلوب ،صفحہ ۸۶)۔اب ہم آپ کو ایک متعصب حامی اسلام کی سنائیں۔ سیرت ابن ہشام میں لکھاہے کہ

’’خدیجہؓ ایک عورت تاجر ہ اور شریف اور مال والی تھیں۔ اس وقت میں خدیجہؓ نسب کی روسے تو اوسط مرتبہ کی تھیں اور بااعتبار شرافت کے بہت بڑی تھیں اور بااعتبارمال کےسب قریش سے زیادہ تھیں۔۔۔ لہٰذااس وقت کے لحاظ سے آنحضرت ﷺاتنے بڑے امیروں میں ہوگئے تھے کہ قریش میں دوسرا آپ کا مقابل نہ تھا‘‘( تلبیسات مولوی محمدﷺ علی کانپوری ،صفحہ۲۶۔۲۷)۔

اب اُن کے حس وجمال کی سنیے’’ اندر مکہ ہیچکس بمال و جمال مثل خدیجہؓ نبود‘‘ (طبری جلد چہارم،صفحہ ۳۷۴) اور اس مال و جمال کے ساتھ عقل و فضل کا بھی اضافہ تھا۔ اس زمانہ میں تو یہ امرالنا در کالمعدوم(بہت کم دستیاب ہونے والی چیز،نہ ہونے کے برابر) کا حکم رکھتاتھا۔’’ تھی حضرت خدیجہؓ عورت فاضلہ عاقلہ جازمہ‘‘(منہاج جلد۲، صفحہ ۴۸۰)اور اس نسب پر ایک بات اور تھی کہ یہ باایمان تھی ۔اس کا بھائی ورقہ بن نوفل قریش سے نکل کر قبل زمانہ اسلام عیسائی ہوگیا تھا اور کتب مقدسہ کا پڑھنے والا تھا۔خدیجہؓ اس سے رجوع کیا کرتی تھیں( بخاری پارہ اول بددوحی) اور اپنے بھائی کےدین کی معتقد بھی تھیں ۔ پس یہ تو اظہر ہے کہ یہ عورت نسب میں ،شریف مال میں، بے عدیل اور حسن وجمال میں آپ اپنی نظیر تھی اور ان سب پر عقل و فضل سے ممتاز اور ایمان سے مزین ۔جس عورت میں ان میں کی کوئی ایک صفت بھی ہو ( چہ جو کہ وہ تمام صفات سے متصف ہو)امید واران شوہر ی کیوں اُ س کے گردپرو انہ وارجمع نہ ہوں۔ چنانچہ بخاری ومسلم میں ابوہر یرہ سے روایت ہےکہ حضر ت نے فرمایا کہ

’’نکاح کیاجاتا ہے عورت کاچار سبب سے اس کے مال کے سبب سے اور اُس کے حسب ونسب کےسبب سے اور اُس کے جمال کےسبب سے اور اس کےدین کے سبب سے ‘‘(مشارق الانوارحدیث نمبر ۲۶۳۸)۔

دیکھو خدیجہؓ میں یہ کل صفا ت ہیں ۔حضرت ﷺبڑے خوش نصیب تھے۔دنیا میں جورو اگر چراغ لےکر ڈھونڈ تےتو خدیجہؓ سے بڑھ کر انہیں کون ملتی مال دار ایسی کہ حضرت کو اس کے غلاموں میں شمار ہونا باعث فخر ۔حسب و نسب میں حضرت کےہم سر،جمال ایسا کہ دیار امصار (مصر کی جمع۔بہت سے شہر)میں شہرہ،دین ایسا کہ حضرت سے کہے وجد ک ضالاً فہدی ۔ مگر ہاں ایک نقص بتایا جاتا ہے کہ ’’وہ سن(عمر) میں بہت بڑی تھیں ‘‘۔ہم دیکھتے ہیں آیا صنادید(سردار۔بزرگ) قریش اور رئیسان عرب کی آنکھوں میں بھی یہ کوئی نقص نظر آتا تھا، جبکہ اس عورت میں ایسی بڑی بڑی خوبیاں موجود تھیں جس سے زیادہ کی تمنا حدیث میں بھی نہیں کی گئی ہے ۔’’ خدیجہؓ زنےبود باعقل وجمال ورای بزرگان مکہ ہمہ در آرزوی دی بودند واوقبول نمیکرو‘‘)طبری۳۷۵( ۔عقیقہ بن ابی معیط وصلت بن ابی شہاب اوراخواستگاری کردنددہریک چہارصد غلام وکنیز واشتند و ابو جہل وسفیان نیز اور اخواستگاری کردندو خدیجہ ہمہ راحجاب کر دانید‘‘( حیات القلوب صفحہ۸۷) ۔’’حضرت خدیجہؓ عورت فاضلہ عاقلہ عازمہ (قصد کرنے والی)تھی ۔جاہلیت میں اُسے طاہرہ ۹ کہتے تھے ۔لقب اور نسب عالی اور مال وافررکھتی تھی۔ صنادیدقریش اہالہ یاعتیق کے بعد چاہتے تھے کہ اُسے تزویج کریں اور اُس نے قبول نہ کیاتھا‘‘( منہاج البنوت جلد۲،صفحہ ۸۴۸)۔ جس عورت کے خواستگار ریئسان مکہ وصنادید قریش ہوں اور جواتنی صفات حسب و نسب ومال وجمال،عقل وفہم سے متصف ہو تو سِن(عمر) میں بڑا ہونا جس کامطلق خیال ریئسان واشراف قریش بھی نہ کرتے تھے ،اگر محمدﷺ سے گدابینونے نہ کیا تو کیا ہوا، اگر کوئی خدیجہؓ کاہمیلہ بھی ا س کا خیال کرکے اس عورت سے محروم رکھتا تو ہم کیا تمام عرب معہ جوطالب کے اس کودیوانہ اور پاگل کہتے ۔ مکر ڈاکٹرتنیز ایک یورپی حامی اسلام بی بی خدیجہؓ کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں کہ’’عرب کی چہل (چالیس)سالہ عورت یورپ کی پنجاہ(۵۰) سالہ عورت کے برابر خیال کی جاتی ہے ‘‘(ترجمہ لیکچر مترجم محمدﷺ کرامت علی، صفحہ۱۲)۔

یہ کوئی کلیہ نہیں بڑھاپا او رجوانی برسوں کاشمار نہیں ،رنج و غم ،تنگی معاش عین شباب میں بڑھا پے کو بلا لیتی ہیں اور عیش و آرام ،فارغ البالی بڈھوں کوجوان بنائے رکھتی ہیں۔ خدیجہؓ نے زندگی بڑے چین سے کاٹی تھی اور بڑی بے فکری سےبسرکی تھی۔ سب طرح کی نعمتیں اس کومیسر تھیں۔ عمر کے برسوں نے اس کے جسمانی قواپر کوئی اثر نہ پیدا کیاتھا بلکہ وہ بمصداق انگریزی مثل ... fair fat & forty ‎ (حسین موٹی چالیس سا ل )تھی۔ اس کےحسن و جمال میں کوئی تغیر نہ آیا تھا۔اب بھی لوگ اس کو دیکھ کر گروید ہ ہوتے تھے ۔صنادید قریش ورئیسان مکہ اُس کےخواستگار تھے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ گو سن پیدائش کے حساب سے اس کا سن چایس برس کاہو ، مگر ابھی وہ بالکل جوان نظر آتی تھی۔ اپنی عمر سے کم اور محمدﷺ کےلئے اچھا جوڑ تھا۔ چنانچہ اس عورت کی عمر کا اندازہ اور اُس کے قوائے جسمانی کی کیفیت اس ایک بات سے عیاں ہے کہ محمدﷺ ﷺصاحب سے اس عورت کے چاربیٹےپیدا ہوئے اور چار بیٹیاں (مسائل نکاح محمدﷺ حسین،صفحہ۱۹۱) او رنیز اس بات سے بھی یہ امر روشن ہے جس کو محمدحسین صاحب لبند بخاری بیان کرتے ہیں کہ :

’’آپﷺ کی قوت کا یہ عالم تھا کہ اس پیرانہ سالی میں ایک ہی ساعت میں رات یادن کے سبھی از واج سے ہم بستر ہوتے۔آپ کےصحبتی جو آپ کی عادت سے واقف تھے یہ کہا کرتے تھے کہ آپ میں تیس مرد کی قوت ہے ۔بعض کا خیال یہ تھا کہ چالیس کی ہے ‘‘(صفحہ۱۹۴)۔

پس جو عورت اپنے پیرانہ سالی میں ایسے جوان کی متحمل ہو سکے اور اس سے آٹھ بچےبھی جن چکے اس کو بڈھی کہنا او راس پرترس کھانا آپ لوگوں کاکیسا بےمحل ہے۔مولوی محمدﷺ فیروزالدین اپنی تاریخ محمدی حصہ اول صفحہ۵۵۔۵۶ میں کل حالات خدیجہؓ اور محمدﷺ پرنظر کرکے فرماتے ہیں کہ:

’’ خدیجہؓ بنت خویلد ملکہ عرب جو اس وقت بڑی شریف اور بخیب اور بااعتبارعزت و مال سب قریش سے بڑھ کر تھیں، انہوں نے حضرت سے نکاح کی خواستگاری کی اور ہر چند قوم قریش کےبڑے بڑے معزز اور نامی سردار اُن کے حسن و جمال اورشرافت کے سبب سے اُن کے نکاح کے خواہاں تھے، مگر انہوں نے اس اُمی(ان پڑھ) یتیم وبیکس کو سب پر تر جیح دی ۔۔۔ عمر حضرت خدیجہؓ کی ۴۰ برس کی تھی ،مگر وہ بہت صاحب جمال تھیں‘‘۔

پھر یہ کیا بیہودہ گوئیاں اور ژاژخائیاں(بکواس،بہیودہ گوئیاں) ہیں جو ہم سنتے ہیں کہ محمدﷺ نےایک بڈھی عورت کی پرورش کا بار اٹھایا، عورت پر رحم کیا، بڑاحسان کیا جو نکاح کرلیا۔

دفعہ دوم

افلاس وتنگ دستی محمدﷺ

یہ کچھ حالات تو ہم نے بی بی خدیجہؓ کے سنائے ،اب اُس کےمقابل میں محمدﷺ کی کیفیت یہ ہےکہ بجز اپنےنسب کے جوکسی طرح خدیجہؓ کے نسب سے افضل نہ تھا، آپ کےپاس کچھ نہیں مگر تقدیر کےدھنی ہیں کہ خدیجہؓ سی عورت اُ ن کو مل گئی او ربیڑا پار ہوگیا۔ چنانچہ حیات القلوب والا لکھتا ہے’’روز ے حضرت رسول بہ نز دابو طالب گفت ای و اورغمگین یا فت فرمود کہ اے عم سبب اندوہ شماچیست ابوطالب گفت ای فرزند بر اور سیش آنست کہ مانےندارم وزمانہ بسیار برمن تنگ شدہ است و پیرو تنگدست شدہ ام و قائم نزدیک شدہ است وآرزووارم کہ ترازنے بودہ بات کہ من بآن شاہ گروم رضروریات آن میسر نیست‘‘ ۔تنگ دستی وفقر وفاقہ سے حضرت ﷺاور ان کے چچا دونوں تنگ آئے ہوئےتھے۔ ابو طالب کو آرزو تھی کہ اپنے بھتیجے کی شادی اپنے جیتے جی کر کے زندگی میں بہوکو دیکھے، مگر سرمایہ شادی کاموجود نہ تھا،کوئی عورت نہ ملتی تھی۔ حتیٰ کہ ایک لڑکی ام ہانی جو ابو طالب کی تھی اور جس کی خواستگاری حضرت نےاس نو عمر ی میں کی وہ بھی حضرتﷺ کونہیں ملی۔ ابو طالب نےاور شخص سے اس کا نکاح کر دیا ،بادجو د یکہ حضرت نے بڑے الحاح سے اُس کو طلب کیا اور مابعد اپنی ناامیدی اور یاس بطور شکایت کے ابوطالب پر ظاہر کی(اس کا ذکر آگے آئے گا )۔ پس نورالدین صاحب کایہ فرمانا کہ اگر حضرت چاہتے تو’’ جوانی میں کئی بیاہ کرلیتے ‘‘(فصل الخطاب،صفحہ۲۹) کتنالغو ہے۔ ایسا ہی محمدحسین صاحب فرماتےہیں:

’’آپ اپنی قوم میں صاحب حسب ونسب تھے اور مکارم اخلاق میں مشہور وممتاز۔۔ ۔اگر آپ نفسانی اغراض رکھتے اور ان اغراض سے عیش چاہتے تو عالم شباب میں رسم ورواج قوم کے مطابق بہت سی عورتیں نکاح میں لاسکتےتھے۔ سوبہی جوان وباکرہ جو نفسانی اغراض کا اصلی محل ہیں ۔ اور اگر مخالفین یہ اعتراض کریں کہ جوانی کے وقت آپ تنگ دست تھے، اس لئے اس وقت اور نکاح نہیں کرسکتے تو اس کا جواب یہ ہے ایک دو جوان عورتوں کے نکاح پر کون سا مال کیژ صرف ہو تا تھاجس کےآپ متحمل نہ تھے ااور اگر آپ ایسے ہی ہوتے تو یتیم و رانڈعورتوں کی پرروش کرنے سے ان کےمربی و کفیل کیونکر کہلاتے‘‘(صفحہ۱۷۲،۱۷۱)۔

جناب بندہ اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت نسب وحسب کو شہد لگا کر چاٹنے والا کوئی نہ تھا۔ خو د آنحضرتﷺ کے چچا اس کےقدر دان نہ ہوئے اور شادی کے معاملہ میں وہ غیروں کو آپ پر تر جیح دیتے تھے اور حضرت کی اس تنگ دستی وجہ سے ایک گھڑے کی مچھلی یعنی چچاکی بیٹی بھی آپ کے ہاتھ سے پھسل گئی اور آپ روتے رہ گئے ۔ یہ زمانہ وہ تھاکہ حضرت ﷺکو اپنا پیٹ پالنا دشوار تھا ،ایک دو جوان عورتوں کا ذکر کیا ۔اور یتیم اور رانڈوں کی پرورش کرنا یہ اس زمانہ کے خواب نہیں ہیں۔ اُس کا وقت وہ تھا جبکہ ایک رانڈکامال حضرت کے ہاتھ لگا ۔ پس حق یہی ہے کہ اگر حضرت چاہتے تو ایک بیاہ بھی نہ کر سکتےاور چاہا اور نہ کر سکے۔ افلاس ایسا تھا زرنیست عشق ٹَیں ٹَیں(مفلسی میں عشق نہیں ہو سکتا) اسی کو کہتے ہیں ۔ چنانچہ جس زمانہ میں خدیجہؓ سے شادی ہوئ اس زمانہ میں بھی آپ کی یہی کیفیت تھی ’’ نفیسہ گو نزدآنحضرت رفتم وگفتم یا محمد چہ چیز مانع میشودترا از کد خدائی در جواب فرمود’’ اُبہت (بمعنی ساز و سامان )ندارم ‘‘اور جب اُس نے خدیجہؓ کانام لیاحضرت کی باچھیں کھل گئیں فرمایا’’ چون کنم تااودر آیددرین امرگفتم بعہدہ من کہ اور ادرین مہم راغب گر وانم‘‘( رو ضتہ الاحباب،صفحہ۱۰۵)۔ پس ایسی بے سرمائیگی اور تنگ دستی میں یہ لوگ خدیجہؓ ہی کے دست نگر تھے، چاہتے تھے کہ اُس کے خادموں اور چاکروں میں مل کر کچھ نفع دنیا کاحاصل کریں۔ چنانچہ ملا باقر مجلسی آگے لکھتے ہیں ’’ابو طالب فرموداے فرزند برادر خدیجہؓ دخترخویلدمال بسیا ردار دو اکثر اہل مکہ ازمال او منتفع شدہ اندآیا راضی ہستی کہ از برائے تو مامے بگیرم کہ بہ تجارت بروی شاید خدا نفع کرامت فرماید کہ مطالب وآرز وہائے سن بآن میسر گردو حضرت فرمود کہ بسیا ر خوب است ‘‘(صفحہ۸۷)۔یوں حضرت نے اس مال دار عورت کی ملازمت میں کچھ وجہ کفاف حاصل کیا اور رفتہ رفتہ بقول شخصےع شاہان چہ عجب گرنبوام گدارا ۔ خدیجہؓ نے محمدﷺ کی خدمات کی قدر کی ،اچھا کارندہ پایا ،ہونہار جوان،’’صورت میں شکیل اور اطوارمیں رسیلہ‘‘( تاریخ محمدی فیروز الدین ،حصہ اول ، صفحہ۵۵ )جی کو بھا گیا۔ پس درراہ عشق فرق غنی وفقیہ نیست طرفتہ العین میں بکری چرانے والے ۱۰ ،کمبل اُوڑھنے والے، فاقہ مست خادم کو اتنے بڑے امیروںمیں کردیا کہ قریش میں دوسرا جس کا مقابل نہ تھا۔ چنانچہ بعد میں حضرت ﷺاکثر عائشہؓ سے کہا کرتے تھے ’’دیا خدیجہؓ نے مجھے اپنامال اس ہنگام میں کہ محروم گر دانا مجھے لوگوں نے ‘‘(منہاج ،صفحہ۸۴۹)۔عباس وابو طالب تو خدیجہؓ کے ساتھ محمدﷺ کے نکاح کی تجویزسن کر بے اندازہ خوش ہوئے او رتقریب شادی کے بعد یہ ملار(برسات کےگیت گانا۔خوشی منانا)گاتے ہوئے اپنے قبیلے میں آئے:

؎ ہم کسی زلف پریشان کی طرح اے تقدیر   خوب بگڑے تھے مگر خوب سنوارا ہم کو

مگر خدیجہؓ کاباپ خویلدا س میں ضرور تامل کرتاتھا کیونکہ نفع صرف محمدﷺ کی طرف تھا (حیات القوب،صفحہ۹۷) ۔پس خدیجہؓ کا محمدﷺ کے ساتھ شادی کر لینا کچھ اسی قسم کاتھا،جیسا رضیہ بیگم کااپنے ایک غلام کی طرف تو جہ کرنا ۔ مولوی محمدحسین صاحب دوسرے اسلامی مناظرین سےاس خاص امر کوزیادہ سمجھ سکتے ہیں، مگر افسوس ہمارا مخاطب صفحہ تاریخ کو بدلتا ہے اور نہایت بے باکی سے کہتا ہے کہ ’’آنحضرت نےاس بڈھی عورت کی پرورش کے بار کا ذمہ اٹھایا جس سے دراصل وہ ایک خودانکاری برت رہے تھے جو کچھ ہلکی قسم کی نہ تھی‘‘ ۔خود انکا ری برتنے والی خدیجہؓ تھی جس نے ایک مفلس قلاش کر پرورش پرداخت کاذمہ اٹھایاتھا۔ آپ کیااندھیرکرتے ہیں کیا ابھی آپ خود نہیں فرماتے تھےکہ ’’اس عقدسےآنحضرت کی و قعت اپنے اہل وطن میں زیادہ ہو گئی‘‘(صفحہ۳۱)اورصر ف اس کی بدولت جب آپ نے افکار دنیا سے نجات پائی تو تو مراقبہ اور یا دالٰہی میں مصردف ہو گئے ‘‘(صفحہ۳۲) و رنہ آپ ع پر اگندہ روزی پراگندہ دل(فارسی مقولہ۔بے کار اور مفلس ہمیشہ پریشان رہتا ہے) تھے۔مگر محمدﷺ کے حامیوں نے تو قسم کھائی ہے کہ سچ نہ بولیں گے اور جھو ٹ بولنے ہیں ایک پر ایک سبقت لے جائیں گے۔ سیدامیر علی صاحب تو وہ ہانک رہے ہیں ،مگر ڈاکٹرلیٹنرصاحب جن کو اپنی قرآن دانی اور علو م اسلامیہ پرحاوی ہونے کا ناز ہے اور جن کے ہر دعوے پر اہل اسلام صاد کرنے کو تیار ہیں اندھیر مچاتے ہیں ’’خدیجہؓ سے عقدآپ نےاس خیال سے کیا کہ وہ بی بی آپ کی محسنہ تھیں اور آپ کی نبوت پر ایمان لاچکی تھیں‘‘(مترجم صفحہ۱۲)۔ ڈاکٹر صاحب کی معلومات کی داد مولوی صاحبان دیں۔ ہم آپ کو بتائیں، محمدﷺ نے خدیجہؓ سے نکاح پہلے کیاتھا اور نکاح کے پندرہ برس بعد ان میاں نےاپنی نبوت کا دعوی ٰ کیا ’’اور پھروہ بی بی آپ کی نبوت پر ایمان لائی‘‘ ۔ پس ایمان خدیجہؓ باعث نکاح نہ ہو ا بلکہ نکاح باعث ایمان ہوا۔ مگر ہم کو تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺخدیجہؓ پر ایمان لائے اور عالمگیراول کے قول کی عملی تردید فرمائی جانان جان دادہام ایمان نداوہ۔

دفعہ سوم

خدیجہؓ پر سوت (سو کن)کیوں نہیں

کیوں خدیجہؓ کے عہد میں حضرت ﷺنےدوسری جور ونہیں کی ۔ پھر آپ فرماتے ہیں:

’’ آپ کے مخالفین اس کا انکار نہیں کر سکتے بلکہ طوعاً وکرہاً(جبراً۔خوامخواہ) اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس تمام عر صہ دراز میں آپ کےاطوارو عادات میں ایک بھی اخلاقی عیب نہیں دکھائی دیاجب تک حضرت خدیجہؓ زندہ رہیں، آپ نےدوسرا عقدنہیں کیا ،حالانکہ اگر آپ ایسا کرتے تو اُ ن کی قوم کے نزدیک ایسا کرنا جائز و مباح تھا‘‘۔

عجب رنگی ہوئی بات ہے ۔ غالباًیہ تو ہمارے مصنف نہیں مانتے ہو ں گے کہ کسی شوہر کا اپنی ایک بی بی کےساتھ ۲۵ برس تک خوش گزراں کرنامتعذر(مشکل)ہے کیونکہ اس وقت بھی آپ فرماتے ہیں کہ’’ ممالک مغربی و شمالی ہیں تعددازواج مسلمانوں میں النادر کا لمعد و م کا حکم رکھتاہے‘‘(صفحہ۳۲۱)۔ اور غالباً ان ایک جو رو والے شوہر وں کے اخلاق پرآپ واغ بھی لگانا نہیں چاہتے، جب یہ لوگ ایک ہی عورت کےساتھ تمام عمر کاٹ ڈالتے ہیں ۔اگر محمدﷺ نے ایسا کیا اور نیک اخلاقی کےساتھ خدیجہؓ کے ساتھ بسر کی تو کوئی رستم کا کام تونہیں کیا ،خصوصاً جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خدیجہؓ ان کی محسنہ تھی ۔محمدﷺصاحب اُس کے مکان میں ادنےٰ چاکرکے بازیا ب ہوئےتھے ۔ اُس کی دولت سے ان کی فاقہ کشی مٹی تھی۔

’’ بی بی خدیجہؓ ہی کے مال سے آنحضرتﷺ غنی ہوگئے تھے اور ایسےبڑے امیروں میں ہوگئے تھے کہ قریش میں دوسرا ان کا مقابل نہ تھا‘‘(تلبیسات،صفحہ۲۷،۲۶)۔

اور پھر’’ اُس کی بدولت آپ نے افکار دنیا سے نجات پائی اورمراقبہ اور یادالہٰی میں ہمہ تن مصروف ہوئے‘‘ ۔اگر کوئی خراب سےخراب آدمی بھی جس کو خواری وذلت کی حالت میں کسی دولت مند عورت نےاپنا شوہر بنا کر خاک سے اُٹھا تخت پر بٹھادیا ہواپنی سرپرست محسنہ کے ساتھ یہ بدسلوکی کرتا کہ اُس کے مال سے موٹا ہو کر اُس پرایک سوت لاتا او ر اس آنکھوں کے سامنے اُس سے علاقہ پید ا کرتا تو دنیا اس کو کیا محسن کش و دغابازو ابلیس نہ کہتی؟ ہمارے خیالات محمدﷺ کی بابت ایسے برے تو نہیں کہ ہم ایسا خیال کر سکیں کہ وہ بھی محسن کشی کرنے کی جرات علانیہ کرتے یا خدیجہؓ پر سوت بٹھانے میں کامیاب ہو جاتے ۔اگر وہ ایسا کرنے کی کوشش بھی کرتے تو بھی سخت ناکام رہتے ۔سید صاحب آپ ہندوستان کی رسم کو خودبیان کرتے ہیں کہ:

’’ جس عورت سے نکاح کرنامنظور ہوتا ہےاس کے اَعِزا(عزیز کی جمع۔رشتے دار)یہ تدبیر نہایت موثر کرتے ہیں کہ دولہا سے پہلے ہی یہ عہد لے لیتے ہیں کہ کسی اَور عورت سے کبھی عقد نہ کرےگا جو اُس کے مقدور سے باہر ہوتا ہے۔پس اس وجہ سے وہ دوسری بی بی نہیں کرسکتا‘‘(صفحہ۲۲۱) ۔

اور یہ شریعت و قانون اسلام میں رائج ہے ،عورت کو حق ہے کہ قبل نکاح کے اس قسم کا شرطیہ عہد لے کہ وہ اُ س کی حین حیات کبھی دوسری زوجہ نہ کر ےگا۔ پس کیا گمان کیا جاتا ہے کہ ایک مفلس قلاش کے ساتھ ایک قریشی شہزادی نکاح کرتے وقت اپنی حرمت ورشک کا اس قدر بھی پاس نہ کرتی کہ شوہر سے کوئی عہد زبانی یا قسم اس امر کا لیتی کہ وہ کبھی اس پر سوت نہ بٹھا ئے ،خصوصاًخدیجہؓ سی’’ زنے باعقل ومال ورائے‘‘۔ کیا وہ ایسی معمولی دوراندیشی بھی نہ کر سکتی تھی جبکہ خویلد وو رقہ سے پیران طریقت اُس کےاعزامیں سے تھے جو ممالک مغربی و شمالی کی معمولی عورات اور اُن کے اعزا کیاکرتے ہیں ۔ اور اگر ایسا کوئی عہد نہ بھی ہوتا تو مجال کس کو تھی کہ خدیجہؓ کا مقابلہ کرتا۔ اُس کے ایک سخن نےمحمدﷺ صاحب کی قومی اور مالی حیثیت کے عدم کو وجود دکھایاتھا۔اس کا ایک سخن ان کو تہ و بالا کر دیتا،اگر وہ سوت کے نام پر صرف یہ سنا دیتا جو کسی وقت حضرت سعدی نے عورت کےمنہ سے سنا تھا تو آن نیستی کہ پدرم بصد دینا ۔ ترا ز قید فرنگ رہا کرو اور بقول جناب ’’اس طرز کو کچھ عورتیں ہی خوب جانتی ہیں‘‘(صفحہ۳۱۹)۔ کس کی مجال تھی کہ ایک دم کو اپنی حیثیت بھو ل جاتا اور دوسری عورت کا خیال خدیجہؓ کے حین حیات کر سکتا۔پس ع عصمت بی بی ست از بے چادری ۔

ہاں ہم یہ بھی بتائے دیتے ہیں کہ ورقہ عیسائی(مسیحی) تھا او رخدیجہؓ اس کی بہن تھی ۔عر ب کی جہالت اور اُس کی رسمیں اُن کے مکان میں جگہ کم پاتی تھیں۔ ضرور خدیجہؓ و ورقہ دونوں عیسائی (مسیحی)قوا عد ایک زوجہ کے ماننے والے تھے ۔وہ عرب کے بت پر ستوں کی تقلیدکرنے والےنہ تھے اور نہ اسلام کی شریعت ا بھی صفحہ روز گار پر آئی تھی۔ ابھی حضرت محمدﷺ ورقہ اور خدیجہؓ کے مکتب میں طالب علم تھے ۔شادی ایسی حالت میں ہوئی اور ضرور خدیجہؓ کے حین حیات میں محمدﷺ کے خیالات بھی اسی قسم کےتھے جو آپ کے ہیں۔ خدیجہؓ کا اثر ان کےشہوانی خیالات کے عمل میں آنے کاپوری طرح مانع تھا۔ خدیجہؓ کوئی معمولی عورت نہ تھی ۔حضرت ﷺابتدا سے اُس کے چاکر اور اب اُس کے احسانات کے حلقہ بگوش تھے۔ 

؎ زاہد نداشت تاب وصال پری رخان   کینجے گر فت و ترس خد ارابہا نہ ساخت

دفعہ چہارم

عیاش الطبع

حضرت بالطبع عیاش مزاج تھے ۔ذرا صبر کرو اور یہ اثر موت کو اٹھانے دو اور ہم دکھادیں گے کہ حضرت ﷺکیسے کھیل کھیلتے ہیں ۔ ابھی خدیجہؓ کومرے ہوئے دو ماہ نہیں گزریں گے کہ حضرت ﷺعورت کے اوپر عورت ،لونڈی پر لونڈی کرکے ہبہ نفس کامسئلہ جاری کرکے گو کل میں کندھیا بن جائیں گے ۔ اور ہم کو حضرت عائشہؓ کا یہ سخن یا د آئے گا جو کبھی انہوں نے ہنسی میں بطور طعنہ کے محمدﷺ کو سنایا تھا کہ اگر آج میں مرجاتی تو مجھ کو دفن کفن کرکے ’’گھر میں آکر بالکل بھول جاتے اور کسی بیوی سے دل لگا لیتے پھر کچھ بھی یادنہ رہتا ‘‘(ابوا لفدا،صفحہ۳۶۱)۔ پس آپ کایہ فرمانا بالکل بے محل ہے کہ’’ آپ کے مخالفین اس کا انکار نہیں کرسکتے کہ اس تمام عر صہ درازمیں آپ کے اطوار وعادات میں ایک بھی اخلاقی عیب نہیں دکھائی دیتا‘‘۔ اول تو یہ زمانہ اسلام کےقبل کاہے ،اس وقت کاکوئی شخص ہم کو حضرت کی صحیح تو اریخ سنانے والا موجود نہیں کہ حضرت کیا کچھ کرتےرہے ۔ سب عدم میں پوشید ہ ہے ۔

چنانچہ محمدفیروزالدین کی تاریخ محمدی حصہ اول صفحہ ۵۸میں مرقوم ہے کہ نکاح خدیجہؓ کے وقت سے دعو یٰ نبوت تک ’’اس نبی کے پندرہ برس کے حالات بالکل معلوم نہیں ہوئے‘‘ پر جہاں سے صحیح حالات معلوم ہونے لگے ہیں ،وہاں آپ دیکھیں اور شرمائیں کہ کیاوہ شخص جوعین دعویٰ نبوت کے عروج میں حفصہ سی ’’آتش مزاج‘‘(صفحہ۲۰۸) عورت کی آنکھ بچاکرعین اُس کے مکان میں اس کےبسترپر اور اس کی باری میں ماریہ لونڈی سے ایک دم میں صحبت کرنے لگتا اور جو اپنے فرزندمتبنیٰ کی جوروکوبرہنہ دیکھتے ہی عنان صبرو قرار ہاتھ سے دے بیٹھتا اورپر دہ ننگ وناموس ایک دم میں چاک کرڈالتاتھا کیاوہ شخص ایسے وقت میں جبکہ اُس کے حالات کے نگران لوگ نہ تھے خدیجہؓ سی نیک مزاج عورت کو دھوکا دےکر عورتوں یا لونڈیوں سے شہوت زنی کرنے سے باز رہ سکتا تھا؟ مگر ہم کچھ نہیں کہتے آپ کی خاطر قبول کر لیتے ہیں کہ حضرتﷺ نے خدیجہؓ کے عہد میں اُن اسباب کی وجہ سے جن کا ذکر ہم نے اوپر کیا یا خالص محبت و وفاداری ہی کی وجہ سے جو محمدﷺ پر بلحاظ اس کے خدیجہؓ ا ن کی محسنہ پرست مربیہ تھی فرض تھی ۔’’ کیسے کیسے مصائب و آلام میں صرف ایک خدیجہؓ نے آ پ کاساتھ دیاتھا‘‘(صفحہ۵۳) ۔ محمدﷺ نے خدیجہؓ کے عہد میں کوئی اور تعلق پیدا نہیں کیا، تو اس سے کیا یہی نہیں کہ محمدﷺ شریف آدمی تھے ۔دھوکہ فریب محسن کُشی اور بے وفائی خدیجہؓ کی چھت کے نیچے نہیں کرتے تھے اور یہ تو وہی کا م ہیں جو آپ بھی نہیں کرتے اور ممالک مغربی وشمالی کے وہ ہزاروں مسلمان بھی جو ’’سو میں پچانوے ایک ہی زوجہ پر حصرکرتے ہیں ‘‘(صفحہ۲۲۱)اپنی شریعت و تہذیب کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ہم نے یہ مان لیا کہ محمدﷺ طوعاًو کرہاً ایک شریف آدمی تھے جب تک خدیجہؓ کے ہاتھ میں رہے ،پر اگر کوئی نہ مانے تو آپ اُس کی شکایت بھی نہ کریں کیونکہ قرینہ اور تاریخی واقعات حضرت کی پاک دامنی کے ہرزمانہ میں خلاف ہیں۔ ہم کو معلوم ہے کہ اُس نوعمری کی حالت میں بھی جب وہ ابھی خدیجہؓ سے نکاح کرنے نہیں چلے تھے آپ نے عشق بازی شروع کردی تھی اور اپنے گھرہی میں طبع آزمائیاں کرنےلگے تھے۔ گو اُس ابتدائی زمانے کےحالات ہم تک نہیں پہنچے اور خدیجہؓ نے ان کی اُٹھتی ہوی اُمنگیں اپنےزور آور اثر سے تو ڑدیں یا اور طرف پھیر دیں یا کچھ زمانے کےلئے معطل کردیں تھیں اور مابعدیااُس سے قبل کیا کیاگزرتار ہا لوگوں کے کان تک نہیں پہنچایا پہنچابھی ہو تو اس طوفان بدتمیزی میں ا س کا خیال لوگوں نے نہیں کیا ،نہ ہم تک پہنچا ۔ پس اس ابتدائی زمانہ کا ایک حال اور و ہ بھی اس وجہ سے کہ اس کاظہور حضرت ﷺکےعروج کے وقت پھر ہوا تھا، مورخوں نے ہم تک پہنچا دیا ہے جس سے حضرتﷺ کی طبیعت کا رخ معلوم ہوتا ہے کہ اس فاقہ مستی میں بھی حضرت کو دور کی سوجھتی تھی اور کہ وہ کون بندہان تھا جو خدیجہؓ کی موت کے بعد اس زور شور سے پھوٹا تھا ۔

ابی طالب حضرت کےچچا کی ایک بیٹی تھی امہانی جس کو فاختہ کہتے تھے’’عہد جاہلیت میں حضرت ﷺنے خواستگاری کی اسے اور ہبیرہ بن وہب مخزومی نے پس تزویج کیا ابوطالب نےاُس کےتئیں ہبیرہ سے، پس فرمایا حضرت ﷺنے ابی طالب سے اے چچا میرےتو نے بیٹی اپنی ہبیرہ کو دی اور مجھے نہ دی ‘‘۔فتح مکہ میں یہ عورت مسلمان ہوگئی اور شوہرسے جدائی واقع ہوئی۔’’ پس خطبہ کیا رسول خدانے اس کو ،پس کہا امہانی نے واللہ کہ میں دوست رکھتی تھی تم کو جاہلیت میں پس کیوں دوست نہ رکھوں تم کو اسلام میں‘‘ جس سےمعلوم ہوا کہ گوابوطالب نےمصلحتاًاس عورت اور محمدﷺ میں جدائی ڈالی تھی، مگر دونوں جوانی کےزمانہ میں عشق کاتجربہ کرچکے تھے۔عورت نے اس کا اظہار اس وقت بھی کیا مگر محمدﷺصاحب نےاُسی وقت اپنے چچا سے اپنی پردرد شکایت میں ظاہر کردیاتھا۔

؎ لطف بچپن کےکھورہا ہے شباب   ساتھ کھیلے ہوئے بچھٹرتے ہیں

اس عورت نے اس وقت ابا کیا نکاح منظور نہ کیا شاید اس وجہ سے اب توحضرت سات سکہی کے پی بنے ہوئے تھے ۔ جوانی کے عشق کا اس چمگھٹے میں نباہ کیسے ہوتا، مگر اس نے یہ بہانا کیایا’’اک ادا یہ بھی تھی الفت آزمانے کے لیے‘‘۔

’’ میں ایک عورت ہوں کہ یتیم لڑکے کئی رکھتی ہوں، ڈرتی ہوں کہ اگر میں رعایت حال میں ان کے مشغول ہوں ،حق خدمت آپ کابجانہ لاسکوں، شرم رکھتی ہوں کہ اگر آپ میرےبستر پر آئیں اور کسی طفل کو دیکھیں لیٹاہوا اور دوسرا دودھ پیتا ہو‘‘( منہاج النبوۃ،صفحہ۸۸۲،۸۸۱)۔

حضرت ﷺنےاس کا عذر قبول کیا ،یہ نہیں کہا کہ کچھ مضائقہ نہیں ۔اب تو تمہاری خبر گیری او رتمہارے بچوں کی ہم پر اور زیادہ واجب ہے ۔ تمہارے بچے ہمارے بچے ہیں۔ ہم یتیموں کی پرورش کریں گے۔ انہیں بھی کیاکہ چودہویں صدی میں کوئی سیدصاحب ان کی حرم سرا کوبیوہ خانہ اوریتیم خانہ ثابت کریں گے۔غرض کہ سن کر چپ الزام دیا ہوکہ انہوں نے اپنی بیوی خدیجہؓ کی وفات کے بعد سودہ سے نکاح کیا۔ اعتراضات اوراور باتوں پر ہیں، مگر یہاں اعتراض آپ کے سخن پر ہے۔ آپ گویا ہم سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حضرتﷺ نے سودہ سے اُن اغراض کےلئے نکاح نہیں کیاجن کے لیے مردطبعاً عورت کا خواستگار ہوتا ہے، بلکہ نکاح اس نے کیا کہ سودہ بے والی وارث ہوگئی تھی، کہیں ا س کاٹھکانا نہ تھا(حالانکہ یہ بالکل غلط ہے کیونکہ اس کی قرابت داری بنی عبدشمس میں تھی او راس کا بھائی عبدبن زمعہ موجود تھا۔مسائل نکاح ، صفحہ۱۷۴)۔ حضرت ﷺنے اُس کے شوہر کی روح پر احسان کرنے کواُس سے نکاح کیا کہ اس کو کوئی جائے امن دنیا میں مل جائے ۔ گویا کسی رانڈ بیوہ کو جائے امن دینے کے لئے اُس کو جوروبنالینا بھی ضروریات سے ہے۔ یہ دستگیری ہم نے کبھی نہیں سنی۔

آپ یہ کہتے ہوئے کیوں شرماتےہیں کہ اصلی غرض محمدﷺ کی نکاح کرناتھااو رنکاح کی اغراض سے مستفید ہونا ۔ یہ ہر گز کوئی عیب کا کام نہ تھا۔ اگر کوئی اس لئے اُن کو الزام دے تو برا کرتا ہے۔گو ایک امر ضرور کھٹکتا ہے کہ ابھی خدیجہؓ کو جس کے بقول جناب محمدﷺ ’’عاشق زار تھے‘‘(صفحہ۳۱) اور جس کے ساتھ ۲۵ برس گذارے تھے ،جس نے آپ کو’’ افکار دنیا سے نجات دی تھی۔ اور کیسے کیے مصائب و آلام میں صرف اسی نے آپ کا ساتھ دیاتھا‘‘ابھی اس محسنہ کومرئے ہوئے سہ ماہی بھی نہ بیتی تھی۔ ہاں ابھی اس کا کفن بھی میلا نہ ہو ا تھا کہ حضرت جامہ زیب تن کرکے دولہا بننے کوچلے ۔ گویا خدیجہؓ کی موت پراپنے افلاس میں اوہار کھائے بیٹھے تھے، اب خدیجہؓ کومرے دوماہ گزر چکے تھے کہ حضرت کو زوجہ کی اشدضرورت تھی ۔کھڑے گھاٹ عورت کاملنا تو آ سان نہ تھا،خصوصاًاس حال میں ہورہے ۔ شایدیہ حال اُن کو پہلے سے معلوم نہ تھاما ناکہ عیش میں فرق آئےگا اور غرض فوت ہوگی۔بقول شاعر:

؎ معثوق بچہ کش سے یار وخدا بچائے   کیا انتشار ہوتا ہے بلبل کو دیکھ کر کے

یہاں سے یہ معلوم ہوتاہے کہ حضرت کس قسم کی عورات کے طلب گار رہا کرتے تھے اور اس کی تشریح آگے بھی آئے گی۔ہم حضرتﷺ کےابتدائی اُ س عشق سے حضرت پر حرف نہیں لاتے ہیں بلکہ صرف یہ کہناچاہتے ہیں کہ حضرت شروع سے رسیارہےہیں، اس کا پورا پورا انداز ہ مابعد ہوا ۔ اور ڈاکٹر لیٹنر تو اپنی نادانی ظاہر کرتے ہیں جب آپ فرماتے ہیں’’ آپ نے ۲۵ برس کی عمر تک کسی عورت کا آنکھ اٹھاکرنہ دیکھا‘‘(لکچر مترجم،صفحہ۱۲)۔ آپ کو معلوم نہیں کہ یہ امہانی کون تھی جس پر حضرت اپنا دیدۂ دل نثار کرچکے تھے۔

۲ ۔ حالات بی بی سعیدہ یعنی سودہؓ

حضرت ﷺخدیجہؓ کےانتقال کے چند مہینے بعد جب طائف سے بےکس ونا چار اور مظلوم وستم دیدہ(ستایا ہوا۔مظلوم) پھرے تو آپ نے سعیدہ سے عقدکیا جو ایک شخص مقران نامی کی زن بیوہ تھی جس نےاسلام قبول کر لیاتھا اور مشرکین کے ظلم وستم سے ملک حبش میں چلاگیا تھا۔مقران غریب الوطن ہواتھااور اُس کی زوجہ بے والی وارث ہوگئی تھی ،گو اُس کے دوتین عزیززندہ تھے۔ پس ہر ایک اصول فیاضی دہرت کا مقتضا(تقاضا کیا گیا) یہی تھاکہ آ پ اس نیک بخت سے عقد کرلیں ۔کوئی اخلاقی قاعدہ یا قانون اس عقدے مانع نہ تھااور اس بیچاری بیوہ کاکوئی گھربار نہیں تھا جہاں وہ بیچاری جاتی اور خود آنحضرتﷺ کا یہ حال تھا کہ نان شبینہ کےمحتاج تھے ۔ اس عالم میں آپ نے سعیدہؓ سے عقدکیا‘‘(صفحہ۶۰۷)۔ ہمیں یاد نہیں کہ کبھی کسی عیسائی یا غیرعیسائی مورخ نے حضرت کو اس بارےمیں کہ آپ’’ نان شبینہ کو محتاج تھے‘‘۔ اس عجلت میں عورت آئے کہاں سے؟قریش میں نوشتہ و عہد پیمان ہو چکا تھا کہ کوئی اپنی بیٹی مسلمان کو نہ دے (ابو الفدا،صفحہ۲۸۲) مسلمان گنےگئے تھے اور عورتیں ان میں وہی تھیں جو اپنے اپنے شوہروں کےساتھ مسلمان ہوگئیں تھیں اور عورتوں کی قلت بھی ایسی کہ ہجرت حبشہ میں۸۳ مردوں کےدرمیان ۱۸ تھیں(ابو الفدا،صفحہ۲۸۲)۔ ان میں کوئی فالتو عورت نہیں۔ پس محمدﷺ کو کسی ایسی ہی عورت کا مل جانا ممکن تھا جوکسی مسلمان کی بیوہ ہو اور حضرت کی چیلی تھی۔’’ نقل است کہ خولہ بنت حکیم نزدآنحضرت آمد بعد از وفات خدیجہ وگفت چرازن نمی خواہی فرمودکرازن کنم خولہ گفت گر میخواہی کر ہت واگر ثیب میخواہی ہست کر عائشہؓ دختر دوست تو و ثیب سودہ بنت زمعہ کہ ایمان بتو آور وہ حضرت فرمود کہ ہر دور امجہبت من خواستگاری خالی( روضتہ الاحباب ،صفحہ ۱۵۰)۔پس اس بے صبری و عجلت کی حالت میں ایسی عورت سودہ ہی ہوسکتی تھی ۔فوراً اس سے نکاح کر لیا بقول شخصے تجھے اور نہیں مجھے ٹھور نہیں۔ حضرت ۵۱ برس کے رنڈوے تھے اور یہ رانڈآپ سے سن میں چھوٹی ،اچھا خاصہ جوڑا تھا۔ مولوی صاحبان ناحق کو غم کرتے ہیں۔

مگر کوئی کلام نہیں حضرتﷺ نے اُس سے اپنی ضرورت نفسی میں نکاح کیا تھا ،کچھ سودہ کو پناہ دینے کا آپ کو سودا نہ ہوا تھا۔ یہ عورت حضرت ﷺکےساتھ ۸ہجری یعنی پورے گیارہ برس تک رہی ۔اب حضرت ﷺکے پاس ایک حرم سرا تھا ،جو رؤوں، لونڈیوں کی کمی نہ تھی بلکہ ضرورت سے زیادہ افراط اور حضرت کو عورتیں اور خوشبو ازحد مرغوب تھیں ۔چنانچہ سودہ کو’’ جب کبرسن(بڑھاپا) نے پایا یعنی بڈھی ہوئی سال ہشتم میں ہجرت سے، اُسے طلاق دی ‘‘کوئی قصور اس عورت کا نہیں تھا، صرف کبرسن کو پہنچی تھی۔ خط نفس بمقابلہ سا کنان حرم سرااس سے حاصل نہ تھا،گو اگر وقت نکاح یہ لاوارث تھی او ر کہیں اس کا ٹھکانہ نہ تھا۔ اب گیارہ برس بعد اس پر اور تاکید ہونا چاہئے۔ مگر نہیں ،حضرت کو اس کے ٹھکانا یابے ٹھکانا ہونے سے غرض نہ تھی ۔وہ تو اپنا ٹھکانا ڈھونڈتے تھے ۔سو وہ بڈھی سمجھی جاتی ہے اس لئے طلاق دیاجاتا ہے ۔مصیبت زدہ عورت کہاں جائے گی،اب اس کا کوئی ٹھکانا نہیں۔ گریہ وزاری کرتی ہوئی حضرت ﷺکےپاس آتی ہے ۔امان چاہتی ہے، پر کیا ہوسکتا ہے ۔آخر ’’ایک رات سرراہ پر اس جناب کے سودہ بیٹھی جس وقت عائشہ صدیقہ کےگھر تشریف فرماتے تھے( یہ تو دربدرروتی پھرے اور راہ کی خاک چھانے اور حضرت نئی دلہن کے یہاں آرام فرمائیں۔

؎ بامن خستہ جگرآہ چہ کردی ظالم   بامن خاک بسر اہ چہ کردی ظالم

عرض کی کہ یا رسول اللہ میں تجھ سے کچھ طمع نہیں رکھتی، آرزو شہوت کی مجھے نہیں رہی، لیکن چاہتی ہوں کہ قیامت کے روز آپ کی ازواج میں میراحشر ہوا اور نوبت بار ی اپنی عائشہ صدیقہؓ کو بخشی۔ پس حضرت اس کی طلاق کے قصدسے گزرے بارجعت (واپسی۔عورت کو طلاق دینے کے بعد پھر اپنی زوجیت میں لانا) کی‘‘( منہاج النبوۃ،صفحہ۸۵۱) بھی کیا۔ یہ تو حشرمیں دامن گیر ہوگی ۔کیوں صاحب !کیا’’ ہر ایک اصول فیاضی اور مروت کا مقتضا یہی تھا‘‘۔ کیامقران غریب الوطن جس نے دین پر اپنی جان تصدیق کی تھی، اُس کی خدمات کا صلہ یہی تھا؟ پس ایسےوقت میں ہم کو سودہ کےاس خواب کی تعبیرملتی ہے جو اس نے قبل نکاح دیکھنا بیان کیا تھا کہ:

’’ سووہ جب حبش سے مکہ میں آئی خواب دیکھا کہ پیغمبر اُ س کی طرف آئے اور اُس کی گردن پر پیررکھا اوراُس نے اپنے شوہر کو اس واقعہ سے خبر دار گرداناکیا ۔شوہر نے کہااگر سچ کہتی ہے تو عنقریب میں مروں گا اور پیغمبرتجھے خواہش فرمائیں گے ‘‘(منہاج ،صفحہ۸۵۰)۔

دیکھو سو دہ ؓ کی گردن پر’’بمقتضائے اصول فیاضی و مروت‘‘ یوں پیررکھتےہیں۔ فَاعتَبِرُویا اُولی ِالاَبصار (پس سمجھ والو!عبرت حاصل کرو)۔اور کیا ،اس بیچاری بیوہ کے کبرسن کے ساتھ یہی سلوک روا تھا ؟پر محمدﷺ کےلئےآپ کی نگاہ میں ’’ہر ایک اصول فیاضی اور مروت کا مقتضا یہی تھا‘‘۔

لطیفہ محمدحسین صاحب فرماتے ہیں کہ:

’’ آ نحضرت جوان عورتوں کے مقابلے میں بڈھی عورتوں کو تر جیح دیتے ہیں، اس لئے عیاش مزاج نہیں ہوسکتے‘‘( اور یہ نادر مثال حوالہ قلم کرتے ہیں )،’’یہ عقلی اور طبعی قاعدہ ہے کہ جس عورت کا جمال وشباب کسی مرد کا مرغوب و معشوق ہوتا ہے۔وہ اس کے ہوتے دوسری عورت کا جو جمال اور شباب میں اس سے کم تر ہو ہرگزطالب نہیں ہوتا ۔پلاؤ کا طالب پلاؤ کے ہوتے جَوکی سوکھی روٹی کبھی نہیں کھاتا‘‘(صفحہ۱۸۷) ۔

اس وقت وہ عورتیں سودہ اور عائشہ حضرت کے پاس ہیں۔ ایک بڈھی، دوسری صاحب جمال وشباب حضرت نے بڈھی کو بالکل تر ک کر دیا اور جوان سے عیش اڑانے لگے۔ پلاؤ اور جَوکی روٹی کی بھی مولو ی صاحب نے خوب کہی۔ حضرت نے عائشہ کو پلاؤ بھی کہاتھا۔ چنانچہ فضل عایشۃ علےالنسا کفضل الثرید علےسانر الطعام مشہور حدیث ہے یعنی عورتوں میں عائشہ کو وہ فضلیت ہے جو کھانے میں ثرید کو۔ چنانچہ حضرت نے جوکی سوکھی روٹی با لکل چھوڑدی اور ہمیشہ ثریدنوش جان فرماتے رہے اور بعدعائشہؓ کےدوسری جوان عورت ماریہ تھی۔ حضرت اس پر بھی فدا تھے ، آگے دکھائیں گے ۔ فی الحقیقت جوانوں کےمقابلہ حضرت بڈھی عورت کےبقول سعدی ع اےسیزتراناں جو بن خوش نہ شاید طلب گار کبھی نہیں رہے۔ زبان کا ذائقہ بدلنے کی نوبت ضرور آتی تھی۔

۳ ۔ عائشہؓ کاحال

’’ابو بکر ایک صحابی جان نثار آنحضرت ﷺکےتھے۔ان کی ایک چھوٹی سی بیٹی تھیں ، جن کانام عائشہ ؓ تھا۔ اُ ن کے والدما جد کو ہمیشہ سے یہ آرزو تھی کہ اپنی دختر کو آپ کے حبالہ عقدمیں دےکر اس رشتہ محبت کو مضبوط کریں ۔۔۔اُس لڑکی کا سِن(عمر) کل سات برس کاتھا ۔مگر اُس ملک کے دستور کے موافق اس عمر کی لڑکی سے شادی کرنا جائزتھا۔ ازواج نبی میں پاکیزہ صرف یہی تھیں ۔ اس وجہ سے اُن کے والد کی کنیت ابو بکر تھی‘‘ (صفحہ۲۱۸)۔ہم کو ہمیشہ آرزو رہی کہ ہمار امخاطب کبھی توبھولے سے واقعات تاریخی کو سچے طور سے بیان کرتا ۔ابو بکر کو کبھی آرزونہ تھی کہ وہ اپنی ننھی سی جائی کو ادھیڑحضرت کی جو روبناتا اور جوں ہی اس کو معلوم ہو ا کہ حضرت ﷺعائشہ کو تاڑتے ہیں ،اُس نے اپنی بیٹی کے بچانے کو ہر طرح کا عذر وحیلہ کیا ۔

جسمانی وطبی عذر :۔پہلا عذر جسمانی و طبی تھا ۔ جب حضرت ﷺنے ابوبکرؓ سے کہاتیر ی بیٹی کو اللہ نےآسمان پر میری جوروبنا دیا تو زمین پر اس کو میری جوروبنا۔اس نے نہایت لجاجت(منت سماجت) سے عرض کی کہ حضرت وہ تو بہت چھوٹی ہے ۔ دیکھو کتاب نزہتہ المجالس ومنتخب النفائس علامہ عبدالرحمٰن الصفوری الشافعی جلد۲صفحہ۲۶۷(مصری) ۔اس عربی کتاب کے باب مناقب اُمہات المومنین میں حضرت کی ازواج کا حال مثل روضتہ الاحباب ومدارج النبوۃ کے بڑی شرح وبسط سے لکھاہوا ہے۔ حضرت ﷺنے یہ عذر ابوبکر کا قبول نہ کیا ۔

رسمی عذر :تب اُس نے دوسرا عذر رسمی پیش کیا یعنی یہ کہ شرفا اپنی زبان کا پاس کرتے ہیں۔ جس کو بیٹی کہتے ہیں، اس کے ساتھ بیٹی کااور جس کوبہن کہتے ہیں اُس کے ساتھ بہن کابرتاؤ کرتے ہیں۔ اس طرح ابوبکر نے حضرت سے کہا کہ عائشہ تو آپ کی بھتیجی لگتی ہے، آپ پر حرام ہے۔ چنانچہ تحفۃا لاخیا رترجمہ مشارق الانوارمیں حدیث ۲۰۱۶میں وار دہوا ہے کہ:

صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ نکاح کا بیان ۔ حدیث ۷۳

راوی: عبداللہ بن یوسف , لیث , یزید , عراک , عروہ

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ عَنْ عِرَاکٍ عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ عَائِشَةَ إِلَی أَبِي بَکْرٍ فَقَالَ لَهُ أَبُو بَکْرٍ إِنَّمَا أَنَا أَخُوکَ فَقَالَ أَنْتَ أَخِي فِي دِينِ اللَّهِ وَکِتَابِهِ وَهِيَ لِي حَلَالٌ

عبداللہ بن یوسف، لیث، یزید، عراک، عروہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ کے نکاح کا پیغام ابوبکر کو بھیجا، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا میں تو آپ کا بھائی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا تو میرا بھائی اللہ کے دین اور اس کی کتاب کی رو سے ہے (اس لئے) عائشہ مجھ پر حلال ہے۔

(مترجم فائدہ میں بیان کرتا ہے کہ )’’ابوبکر صدیق نے حضرت عائشہؓ کی منگنی کے وقت یہ عذر کیا کہ حضرت مجھ کو بھائی فرمایا کرتے ہیں۔ سو بھائی کی بیٹی سے نکاح کیونکر درست ہوگا ۔ حضرت نے جواب دیا کہ ہماری اور تیر ی دینی برادری ہے، ا س سے حرمت نہیں ثابت ہوتی، حرمت کاسبب تو نسبی برادری ہے‘‘۔ دیکھوع پیرے کہ دم زعشق زندبس غنیمت است ۔حضرت ﷺعائشہؓ کو لینے کے لئے کیسی کیسی باتیں بناتے ہیں ۔ ابوبکر حیران ہے ۔

اخلاقی عذر:تیسرا عذر اخلاقی یعنی وعدے کی وفا کااُس کے پاس اَور ہے، اور اگر دیکھا جائے تو یہ بہت بڑا عذر تھا۔مگر حضر ت کی نگاہ میں ہیچ تھا ۔ چنانچہ’’در خاطر صدیق خدشہ پیداشدچہ مطعم بن عدی عائشہؓ براے پسر خود خطبہ نمودہ بود و ابو بکر قبول کروہ دباوے وعدہ درمیان داشت وہر گز خلف وعدہ نکر دہ بود‘‘( روضتہ الاحباب ،صفحہ۱۵۱)۔دیکھو سچے واقعات یہ ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا یہ سخن کہ ابوبکر کو آرزو تھی کہ اپنی دخترکو حضرت کے حبالہ عقدمیں دے انتہائی لغوہے ۔ ابوبکر کو آرزو تھی کہ کسی طر ح وہ اپنی چھوکری کو اس کےپنجہ سے رہا کرائے۔ نکا ح کے وقت عائشہ کی عمر ۷ سال کی تھی۔ ابھی تو فتنہ ہیں ،کچھ دن میں قیامت ہونگی۔ دوبرس بعد ۹ برس کی عمر میں حضرت نے اُس سے صحبت کی۔ یہ امر قابل غور ضرور ہے کہ حضرت نے دو برس اپنے عزم بالجزم کو ملتوی کرکے کیونکر صبر کیا۔ اُن واقعات پر نظر ڈالنے سے صحیح قیاس صرف یہی پیدا ہوتا ہے کہ ابو بکر نے یہ گوارہ نہ کیا اور اس بات پر مُصر ہوا کہ کم سےکم دو برس حضرت عائشہ کو معاف کریں اور انہوں نے اس وعدہ پر فوراًنکاح چاہا اور عجلت کی وجہ شائد یہ تھی کہ حضرت کو خوف تھا،مبادا ابو بکر کی رائے پِھر جائے یا کوئی اور امر مانع ہو۔

کم عمر نوخیز باکرہ صرف حضرت کو یہی نظر پڑتی تھی ۔ابو بکر ہزار بچتا تھا، حضرت ایک نہ مانتے تھے۔ قہر درویش برجان درویش ابوبکر کو مجبور ہونا پڑا۔ حضرت ﷺکی عمر ۵۳ برس کی تھی جب ۹ برس کی لڑکی سے صحبت کرنے چلے تھے۔ بی بی خدیجہؓ کی عمر حضرت سے کوئی ۱۵ بر س بڑی تھی اور حضرت کا اُن کے ساتھ نبا ہ کرنا مصنف کی آنکھوں میں کچھ غیر معمولی سانظر آیا حالانکہ ایسی مثالیں ہزاروں موجودہیں۔ خود زید ابو اسامہ نے ام ایمن سے نکاح کیا تھا جو اُس کی عمر کےلحاظ سے دو چندسے زیادہ عمر والی تھی۔ مگر ۵۳ برس کے بڈھے کا ۹ برس کی لونڈیا بیاہنا کوئی عام مسلمان بھی جائز نہ رکھے گا۔ مگر ہاں بنگال کے کلین بر ہمنون کی بات دوسری ہے۔ ہندوستان میں حال کے قانون کےموافق بارہ برس سے کم عورت کے ساتھ مقاربت کرنا جرم قرار پایا ہے۔ عرب ہندوستان سےکچھ بہت مختلف نہیں۔ پس یہ غلط محض ہے کہ ’’ اس ملک کے دستور کےموافق اس عمر کی لڑکی کے ساتھ شادی کرنا جائز تھا‘‘۔ اگر جائز ہوتا تو ابوبکر کم سنی کا عذر کیوں کرتا ، شرفا ئے عرب میں اس قسم کی کوئی اور نظیریں آپ ہمکو بتائیں ؟

مگر یہاں اصل اعتراض شادی کرنے پر نہیں ہے بلکہ صحبت کرنے پر ہے۔ قرآن مجید میں سن بلوغ کا بھی جس میں نکاح کرنا چاہیے ذکر ہے۔ سورہ نسا(رکوع۱ )جلالین میں اس کی تفسیر میں سن بلوغ موافق امام شافعی کے ۱۵ برس ہے۔ بیضاوی نے بھی ۱۰ برس کو ایک حدیث کی بنا پر سن بلوغ تجویز کیا ہے۔ مگر امام ابو خلیفہ ۱۸ برس کوسن بلوغ تجویزفرماتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ﷺنےاپنی صاحبزادی فاطمہ کا نکاح علی کے ساتھ اسی دستور کی رعایت میں ۱۸ برس کی عمر میں کیا تھا( روضتہ الا حباب ،صفحہ ۲۱۲)۔ ۵۳ برس کے بڈھے کا ۹ برس کی چھوکری سے صحبت کرنا ،ہم اس تعلق کو بجز عیاشی کےاور کچھ نہیں کہہ سکتے۔ چنا نچہ فیروز ڈسکوری فرماتے ہیں کہ:

’’ شہوت پرست لوگ کنواری کے ساتھ نکاح کرنا افضل واعلیٰ خیال کرتے ہیں‘‘(دفعہ طعن،صفحہ۲۱)۔

دراصل ایسی کم سن سے مباشرت کرنا شہوت پرستوں کی خصوصیات سےمشہور ہے ۔اے فارس ،عرب اور ہند کےمسلمانوں کون تم میں سے ۹ برس کی لڑکی کو صحبت کےلئے ۵۳ برس کے بڈھےکو سپرد کر کے حضرتﷺ کے فعل کی حمایت کرے گا؟ ہم کو ابو بکر پر تو افسوس آتاہے اور حضرت کے چلن پر نفرین کرنے کےلئے اور ہمارے پاس کافی الفاظ نہیں ہیں۔ ہم اور کچھ نہ کہیں گے بجز اس کے کہ حقیقت میں خدیجہؓ کی وفات کے بعد محمدﷺ کا چلن عورتوں کے بارے میں ازبس گندا ہو گیا تھا۔ اور بہت کچھ وہ ’’مرد چوُں پِیر شوَد ،حرص جو اں می گردد‘‘(فارسی مثل۔بڑھاپے میں کھانے پینے،عورت یا پیسے کی حرص بڑ ھ جاتی ہے) کے مصداق ہوگئے تھے۔ کچھ عجیب نہیں کہ ایسے ایسےحالت دیکھ کر یہود محمدﷺ سے متنفر و بیزار ہو کر صاف کہتے تھے کہ’’سمت این مرد ہمہ بامرنکاح مصروف است ہموار ہ بازواج وا متزاج بازنان مشفوف ‘‘۔ حسینی تفسیر رعد،رکوع۲ اور اس کے جواب میں ہر کہ تنگ آمد بجنگ آمد حضرت کے ہا تھ میں سوا ئے تلوار کے کچھ نہ تھا۔

عائشہؓ پرالزام زنا

ہم بی بی عائشہؓ کی صرف اس قدر حالات پر اکتفا کردیتے مگر بعض کو تاہ اندیش مسلمانوں نے بڑی بڑی منہ زوریاں کی ہیں۔ کبھی عائشہؓ کو مقدسہ مریم کے مقابلہ میں پیش کیا ہے اور نہ دیکھا ’’چہ نسبت خاک رابا عالم پاک‘‘(فارسی مثل ۔چھوٹے کا بڑے سے کیا مقابلہ) ۔کبھی عائشہؓ کے الزام زنا پر مقدسہ کو متہم(مُت۔تَ۔ہِم۔تہمت لگانے والی )ٹھہرایا ہے اور اس اتہام(تہمت۔الزام) سے عیسائیوں کو الزام دیا ہے۔حکیم نور الدین صاحب خواہ مخواہ ہم کو چھیڑ کر کچھ سننا چاہتے ہیں، وہ فرماتے ہیں:

’’ عائشہؓ کا اتہام صرف اتہام ہے جسکا کوئی ثبوت نہیں۔اپنے گھرمیں دیکھیے ایک کنواری کے رحم میں سے لڑکا پیدا ہوا ۔ایک متہم(جس پرتہمت لگائی گئی ہو )ہوئی اور اتہام لگانےوالے وجود اتہام کے بیان سے عاجز آئے اور دوسرے مہتم ہوئے اور کنوارے پن میں بقول عیسائیوں کے لڑکا جن چکی ،پھر بدنامی سے بچ گئی اور روح القدس سے حاملہ کہلائی ‘‘ (فصل الخطاب ، اول ،صفحہ ۱۶۳)۔

اسکے جواب میں مختصراً گزارش ہے کہ سورہ نور(۱۱:۲۴)میں وارد ہواہے إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْجو لوگ لائے ہیں یہ طوفان تمہیں میں ایک جماعت ہیں۔ اس سے اظہر ہے کہ عائشہؓ پر الزام لگانے والے ’’ تمہیں میں ایک جماعت ہیں‘‘ یعنی مسلمان بڑے بڑے رِیش مُقطع(تراشی ہوئی ڈاڑھی) والے ایماندار، خلفائے راشدین کے رشتہ دار ،اُمہات مومنین کے سگے ،حال کے ملّانوں کے بڑے، حضرت کے صحابیوں میں طبقہ اولیٰ والے اور وہ بھی ایک دو نہیں بلکہ ایک جماعت کی جماعت ۔تفسیرحسینی والا اُن میں سے پانچ کے نام بھی بتاتا ہے۔’’ عبداللہ بن ابی کہ پیشوائے منا فقان است‘‘،اچھا صاحب ہم اس کو چھوڑے دیتے ہیں ،یہ منافق ہے۔ زید بن رفاعہ وحسان بن ثابت ، شاعر ومسطح بن اثامہ پسر خالہ ابوبکر صدیق، حمنہ بنت حجش خوا ہرام المومنین زینب‘‘ یہ کون ہیں ہم آگے بتائیں گے۔

قصہ اس کا حسینی و مدارج میں یوں لکھاہے کہ:

’’ غزوہ مریسن میں عائشہؓ حضرت کے ساتھ تھیں۔ جب غزوہ سے فارغ ہو کر لوٹے ایک منزل پر عائشہ قضائے حاجت (پاخانہ پھرنا) کے لئے گئیں۔ لوٹیں تو معلوم ہو اکہ ایک ہار ان کا گم ہوگیا ۔پس وہ اسکے ڈھونڈنے کو پھریں، اس اثنا میں لشکر حضرت کا کوچ کر گیا۔عائشہ کے ہودَج (اونٹ کا کجاوہ) کولوگوں نے شتر(اونٹ) پر رکھا۔ان کو خیال تھا کہ عائشہ اندر بیٹھی ہیں ،مگر عائشہ بالکل تنہا رہ گئیں ۔ لہٰذا اس منز ل پر رات بسر کی ،دوسرے ر وز ایک سپاہی لشکری نوجوان صفوان بن معطل کے ہمراہ لشکر محمدﷺ میں پہنچیں‘‘۔

رات بھر حضرت محمدﷺ کی محبوبہ عائشہؓ کا گم رہنااورایک نوجوان کے ساتھ صبح کے وقت لشکر کے عقب میں پہنچنا اور قضا ئےحاجت اور گمشُدگی، عقدکی وجہ سے لشکر سے چُھٹ جانا اور کسی کو خبر نہ ہونا اورپھر لوگوں کا خالی اور پُر ہودج میں تمیز نہ کرنا،حضرت کی کبر سنی اورجورو کا ۱۲ برس کی عمرکا ہونا ۔یہ سب ایسے قرینے تھے کہ لوگوں کو جو عائشہ کے حالات ،اُس کی طبیعت اور مزاج سے ابتدا سے واقف تھے،باوجود حسن ظن و خیال کرنا پڑا کہ عائشہؓ صفوان بن معطل کے ساتھ مرتکب زنا ہوئی۔ مسلمانوں کی ایک جماعت کی جماعت کا عائشہ کی نسبت اس طرح کا خیال ہونا، تما م قرینے اس قسم کے تھے کہ خود حضرت ﷺبھی باوجود اس کے کہ اُن کے کل اغراض اخفائےراز کے تھے انتہا درجہ اپنی پیاری بیوی سے بدظن ہوئے اور کامل ایک ماہ تک بول چال نہ کر کے فکر طلاق عا ئشہ میں رہے۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس معاملہ میں اُن کے صلاح کا ر تھے۔ چنانچہ عائشہ خود بیان کرتی ہیں:

’’ جب میں مدینہ میں پہنچی بیمار ہوئی اور ایک مہینہ تک بیمار تھی ،لیکن مزاج حضرت کا اپنی اس بیماری میں اپنی طرف متغیر پایا تھا۔ وہ لطف و عنایت نہ دیکھتی تھی جو اور بیماریوں میں دیکھتی تھی۔ اتنا تھا کہ گھر میں تشریف لاتے تھے اور پوچھتے تھے کہ کس طرح ہے، وہ اور پھر جاتے اور میرے نزدیک نہ آتے اور نہ بیٹھتے میرے پاس۔ یہاں تک کہ بیماری میری نقاہت یعنی ناتوانی کو پہنچی۔ طلب فرمایا اُس جناب نے علی بن ابو طالب اور اسامہ بن زید کو کہ مشورت کریں۔ علی بن ابوطالب نے کہا یا رسول اللہ تنگ نہیں کیا ہےحق تعالیٰ نے واسطے تیرے عورتوں کو اور سوائے عائشہ کے بہت عورتیں ہیں‘‘( منہاج،صفحہ ۲۴۱۔ ۳۴۳)۔

حضرت علی نے ضمنا ًحضرت ﷺکو یہی صلاح دی کہ آپ پر عورتیں تنگ نہیں ہیں۔ سیکڑوں عورتیں ہیں ۔آپ عائشہ کو طلاق دیجئے اور اس کی جگہ اور نکاح کیجئے۔ چنانچہ تحضۃ الاخیار والا بضمن حدیث نمبر ۱۰۲۵ قصہ افک میں عائشہ سے روایت منقو ل کرتا ہے کہ حضرت نے علی اور اسامہ کو بلایا اور’’ میرے چھوڑ دینے میں صلاح ومشورہ پوچھا‘‘ تب علی نے وہ جواب دیا۔ اب زنا کا عیب لگانے والوں کی حیثیت پر عبدالحق صاحب فرماتے ہیں:

’’ تعجب یہ ہے کہ اہل اسلام سے بھی کئی شخص اہل افک کے ساتھ شریک ہوئے مثلاًَ حسان بن ثابت اور مسطح اثامہ جو ابوبکر صدیق کی خالہ کی بیٹی کا بیٹا تھا۔حمنہ بنت حجش زینب بنت حجش کی ہمشیرہ اور بعض اور لوگ بھی جنکے نام مذکور نہیں‘‘(صفحہ ۳۴۰ دیکھیے)۔

یہ سب مسلمان ہیں۔ حسان بن ثابت محمدﷺ کا ہم زلف اُن کی پیاری ماریہ رشک عائشہ کی بہن شیرین کا شوہر( منہاج ،صفحہ ۴۶۴) بڑے جید صحابہ میں ہے۔ اسلام کا شاعر جس نے منافقین اور کفار کی ہجومیں بڑے بڑے قصیدے کہے حتٰی کہ محمدﷺ صاحب نے اس کی بابت فرمایا تھا کہ ’’ان اللّٰہ یوئد حسان بروح القدس ‘‘خدا حسان کی تائید کرتا ہے روح القدس سے۔مسطح ابو بکر کی خالہ کی بیٹی کا بیٹا تھا یعنی رشتہ میں عائشہ کا پھوپی زاد بھائی۔ یہ شخص مہاجرین سے بھی تھا اور اہل بدرسے بھی جن کے فضائل سے کسی مسلمان کوانکار نہیں اور عائشہؓ کا بھائی اور اس کے باپ ابوبکر کا اپنا۔حمنہ بنت حجش حضرت محمدﷺ کی سگی سالی تھی ۔ان کی بیوی کی بہن جن کا نکاح آسمان پر حضرت جبرائیل نے پڑھا۔ حضرت علی جنہوں نے سکوت سخن شناس کیا اور عائشہ کی طلاق کی صلاح دی۔

پھر وہ تمام حالات بھی ایسے قرینہ کےتھے کہ حضرت کو بجزسچ ماننے کےکوئی چارہ نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس کو ایک ماہ تک سچ مانا اور ایک ماہ کامل بیماری اور ناتوانائی کی حالت میں بھی وہ عائشہ سے نہ بولے بلکہ اس کو چھوڑ دینے کی مشورت علی کے ساتھ کرتے رہے اور علی نے ان کے گمان کی تائید کی اور عائشہ کی صفائی میں خود زبان نہ ہلائی اور حضرت کواس الزام کا یقین بھی ایسا پکا ہوگیا تھا کہ اُنہوں نے عائشہؓ کو مخاطب کرکے یوں کہا :

’’ اگرتو اُتری ہوئی ہے طرف گناہ کے اور صادر ہوا ہے گناہ تجھے تو طلب آمرزش کر خدا سے اور توبہ کر اور رجوع کر طرف خدا کے ‘‘ (منہاج،صفحہ۳۴۵)۔

اور عائشہؓ بھی اس کے معنی خوب سمجھی ۔چنانچہ اُس نے سُن کر یہی جواب دیا کہ:

’’مجھ کو معلوم ہے کہ آپ کو اس بات کی خبر پہنچی ہے اور آپ کے دل میں جڑ گئی ہے۔ سو اگر میں یوں کہوں کہ میں اس عیب سے پاک ہو ں توحضرت یقین کاہیکوکریں گے اور اگر ناکردہ کا اقرار کروں تو حضرت اُسے سچ مانیں گے‘‘(تحضۃ الاخیار ،فائدہ،حدیث نمبر۱۰۲۵)۔

دیکھنا چاہئے کہ محمدﷺ باوجود محبت ،واقعات پر نظر ڈال کر کسی قرینہ حقیقی سے اپنی جورو کی تصدیق نہیں کرسکتے اور نہ جورو کے پاس کوئی صفائی ہے کہ جس کی بنا پر وہ اپنے تئیں شوہر کے سامنے بری کرسکے ۔اور حضرت علی ؓ اس کل معاملہ کو ناگفتہ بہ سمجھ کر طلاق کی صلاح دے رہے ہیں اور الزام زنا کی تصدیق فرماتے ہیں جس کی وجہ سے عائشہ کو علی کے ساتھ دُشمنی ہوئی ،حتٰی کہ بعد وفات حضرت ﷺوہ حضرت علی سے لڑنے کو نکلیں۔اب اس ثبوت کے مقابل پار لوگ صفائی میں یہ فرماتے ہیں:

’’ ایک صاحب عمر خطاب حضرت کو سمجھاتے ہیں۔ یا رسول اللہ مکھی آپ کے بد ن مبارک پر نہیں بیٹھتی اس واسطے کہ نجاست پر گرتی ہے اور پاؤں اس کے آلودہ اُس سے ہوتے ہیں ۔حق تعالیٰ آپ کے مطہر بدن کو اس سے بری رکھتا ہےاور جوشخص کہ بد ترین چیزوں سے آلودہ ہو کس طرح سے نگاہ نہ رکھے‘‘ یعنی آلودہ مکھی تو آپ کے جسم مبارک پر بیٹھتی نہیں، پس عائشہ کیونکر بدی کرسکتی ہے ؟ آمنّٰا و صدقنا ۔ دوسرے صاحب ’’عثمان بن عفان نے یہ کہا یا رسول اللہ آپ کی پرچھائیں زمین پر نہیں پڑتی کہ مبادانجس زمین پر پڑے ،پس کس طرح ناشائستگی سے آپ کی حرم محترم کو نہ بچائے گا‘‘ (صفحہ۳۴۳)۔

یہ صفائی کی دلیلیں خلفائے راشد ین ہی کا حصہ تھیں اور اُن سے اطمینان کرنا حضرت محمدﷺ صاحب کا کا م تھا۔ مگر افسوس ایک ماہ تک یہ دلائل حضرت کے ذہن نشین نہ ہوئے۔ آخرآپ آلودہ مکھی اور پرچھا ئیں کی شہادت سے مطمئن ہوگئے بلکہ آپ کیا’’ نقلِ کُفر کُفر نبا شَد‘‘(کُفر کی نقل کرنے سے ناقِل کافر نہیں ہو جاتا) خدا کو بھی اطمینان اس کے بعدہوا۔بقول چندین مدت خدانےکردی تھی جھٹ آسمان سےآیت نازل کی کہ عائشہ پاک ہے اور مسلمانوں جھوٹے ۔ خیر ہم بھی اس فیصلے میں کلام نہیں کرتے کیونکہ یہ صحابہ کرام کے اخلاق ہیں۔ پر اگر اُن کو شکایت ہوتو اُن کو سمجھائے دیتے ہیں کہ حضرت ﷺ بھی مجبور تھے، ایسے واقعات پر اسی طرح خاک ڈالی جاتی ہے۔زلیخا مرتکب خطا ہوئی حضرت یوسف بے گناہ تھے۔شہر میں غوغہ اُڑا کہ عورت عزیز کی خواہش کرتی ہے ،اپنے غلام پرفریفتہ ہوگئی ہے ۔اس کی محبت میں عزیز کی آبرو ریزی ہوتی ہے۔ اس واقعہ کو چھپاتا ہے اور باوجودیکہ عورت کی بدکاری اور یوسف کی بےگناہی جانتا ہے ،اپنی جورو کو پاکدامن ثابت کرنے کےواسطے یوسف کو قید میں ڈالتا ہے،دیکھو سورہ یوسف (رکوع ۱۰۳)۔مگر ہم حکیم صاحب کی داد دیتے ہیں جب فرماتے ہیں کہ’’ اتہام کا کوئی ثبوت نہیں، اتہام اُگانے والے وجوہ الزام کے بیان سے عاجز آئے‘‘۔ اتہام کا ایسا ثبوت تھا اور وجوہ الزام کابیان ایسا مسکت(خاموش کرانے والا) کہ ایک ماہ تک حضرت کےلب پر مہر لگی رہی اور علی نے سکوت کیا اور محمدﷺ عائشہ سے توبہ کے مستدعی(استدعا کرنے والا۔ملتجی) تھے۔ اس سےبڑ ھ کر ثبوت ہم آپ کو کیا دیں۔ 

افسوس اس ناپاک قصہ کے بعد صدیقہ مریم کا تذکرہ کر کے جوآپ نے اپنا اسلام روشن کیا ہے اور مقدسہ مریم بتولہ کے اتہام کی تائید فرمائی ہے اور کنوارے پن میں لڑکا جننے پر مضحکہ آڑایا ہے اور اس میں ہم کوہمارا گھر دکھایا ہے ۔اس کی داد تو آپ کے ہم ایمان دیں گے اور اگر آپ دراصل قرآن مجید پر ایمان لاتے ہیں تو اس کا جواب آپ کو عرصہ محشرمیں ملے گا۔ اگر آپ نے زود تر توبہ نہ کرلی۔ مگر ہم آپ کو یہاں بھی سنائے دیتے ہیں کہ مقدسہ مریم وہ ہیں کہ جب کہتے ہیں ’’ قَالَتْ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا ‘‘ مریم نے کہا کہ میرے ہاں لڑکا کیونکر ہوگا مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں اور میں بدکار بھی نہیں ہوں ‘‘ (سورہ مریم۲۰:۱۹ ) تو فرشتے بھی سر تسلیم خم کرتے ہیں اور آپ کو معلوم ہے۔ ’’ قولہم علی مریم بہتاناً عظیماً ‘‘ مریم پربڑا طوفان باندھنے پر متہم کرنے والوں کا کیا حال ہوا تھا(سورہ نسا ،رکوع ۲۴)آپ کیا بکتے ہیں اور کس کی نسبت ؟فرشتوں سے تو شرماؤ ،وہ کیا لعنت کرتے ہیں۔ ’’ وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ ‘‘ جب فرشتے بولے اے مریم اللہ نے تجھ کو پسند کیا اور ستھرا بنایا اور پسند کیا تجھ کو سب جہاں کی عورتوں سے (سورہ آل عمران۴۲:۳)۔ آپ کی زبان بند نہیں ہوگئی جب آپ اس مقدسہ کی نسبت وہ کہہ رہے تھے، جو کہا، وہ کچھ بقول عیسا ئیاں نہیں تھابلکہ بقول قرآنیاں واسلامیاں وہ ہماراگھر نہ تھاجسکو آپ ڈھارہے تھے۔ وہ آپ کا ایوان قرآن مجید تھا۔ شاید آپ نے اپنا گھرنہ دیکھا تھا۔ کیا آپ کا حشر بھی مریم مقدسہ پر الزام لگانے والوں کے ساتھ ہو گا۔ کجا عائشہؓ ؑ، کجا وہ جس کی شان میں پروردگار عالم کے اصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ ۔ کیوں صاحب کیایہی آپ کے الزامی جواب ہیں جن پر آپ کو ناز ہے۔ آپ عیسائیوں کو الزام کیا دیتے ہیں ۔ پرایا شگون بگاڑ نےکو اپنی ناک کاٹتے ہیں ، بلکہ اپنی عاقبت بگاڑتے اور مسلمانوں کا ایمان برباد کرتے ہیں۔ کچھ کلام نہیں آپ کی شکایت بجاہے کہ ’’ میں نے الزامی جوابات بھی اس کتاب میں ضرور دئیے ہیں جن پر میرے نوجوان محسن مولوی عبدالکریم کسی قدر خوش نہیں‘‘۔بہر حال اس الزامی جواب سے تو شیطان رجیم ہی خوش ہوئے ہوں گے ۔ مولوی عبدالکریم تو خوش نہیں ہوسکتے تھے۔ہم عائشہؓ کا یہ قصہ ہر گز ذکر نہ کرتے مگر ہم کو حکیم صاحب نے مجبور کیا ،ضرور ہوا کہ ہم ان کو آگاہ کردیں تاکہ آئند ہ کو وہ زیادہ احتیاط سیکھیں۔ اے کا شکہ یہ مولوی بی بی عائشہؓ کی حمایت میں اپنا قلم روک رکھیں اور اُن کی فریاد سُنیں۔

؎ اور کوئی طلب ابنائے زمانہ سے نہیں   مجھ پر احسان جو نہ کرتے تو یہ احسان کرتے

۴ ۔ حفصہؓ کے حالات

’’ حفصہؓ کا شوہر غزوہ بد ر میں مارا گیا تھا اورآپ اپنےباپ کی طرح ایسی آتش مزاج تھیں کہ ان کے خواستگاروں کواُن سے عقد کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ اُن کے والد اُن کے اتنی مدت بیوہ رہنے سےعاجز آگئے تھے اور پہلے حضرت ابوبکرؓ بعد ا زاں میں حضرت عثمان ؓ کو پیام عقد بھیجا ۔مگر دونوں صاحبوں نے نہ قبول کیا۔ اُس وقت حضرت عمر ؓ کوایسا طیش آیا کہ تمام مسلمانوں کو باہمی جنگ وجدل کا اندیشہ ہوا ،جب یہ نوبت پہنچی اُس وقت آنحضرت نے پدر حفصہ کےغیظ کو فِرو کرنے کےلئے اُن سے عقد کیا‘‘(صفحہ۲۰۸)۔ محمدﷺ مدنی کے وکیل کو اس طرح سراسیمہ ہونا ضرور ہے ۔ اس تقریر پر بچے اور عورتیں بھی بغیر ہنسے نہیں رہ سکتیں۔ ہم کو تعجب آتا ہے آیا ابتدائی مسلمان جو حضرت کی محبت سے مستفیض ہو چکے خلفائے راشدین ایسے ہی اخلاق والے تھے کہ اپنی بیٹیوں کو لوگوں کے گلے پڑتے پھرتے اور اگر کوئی انکار کرے تو مارنے مرنے مستعد ہوتےحتٰی کہ ’’باہمی جنگ وجدل کا اندیشہ ہوتا ‘‘ اور غیظ فرو کرنے کےلیے‘‘ حضرت کو طوعاً و کرہاً کسی باپ کا داماد بننا پڑتا ۔ کیا اسلامی نکاح اسی اصول سےہونا چاہئے ؟ 

سید صاحب نے ایک عیب چھپانےکےلئے ایسےعیب اَور لگائے اورکئی آدمیوں کے پردےفاش کئے۔ ادھر تو حضرت عمر کی خبر لی اُن کو کوئی بےحمیت (بے شرم)مجنوں بنایا۔ اُدھر حضرت ﷺحفصہؓ کو کھتراین دی شریو ثابت کرنا چاہاکہ جن سے عقد کرنے کی جرات کسی عرب دلاور کوبھی نہ ہوسکتی تھی اور حضرت محمدﷺ کو پڑوشیو بنایا۔ یہ تو کچھ شیعہ کا اثر سا معلوم ہوتا ہے۔ اب صحیح حالات سُنیے ۔ عثمان حضرت محمدﷺ کے داماد تھے۔ ابھی ان کی عورت کا انتقال ہوچکا تھا ۔ محمدﷺ کی ایک اور بیٹی تھی ،اُم کلثوم۔ عثمان ؓاس کے امیدوار تھے ۔بھلا وہ حفصہ کے ساتھ یہ کیسے نکا ح کرلیتے جب خود رسول کی بیٹی سے نکا ح کرنےوالے تھے اور یہ ممکن نہ تھا کہ دونوں کو نکاح میں لائیں کیونکہ حضرت نے یہ کبھی ایک دم کوبھی گوارا نہیں کیا کہ اُن کی اپنی بیٹی پر سوت آئے ۔چنانچہ اپنے پیارے داماد کو نہایت سخت الفاظ میں فاطمہ پر سوت بٹھانے سے روکا تھا اور کہا تھا کہ اگر وہ دوسرا نکاح کرے تو فاطمہ کو طلاق دے( حدیث بخاری اور مسلم مشارق الا نور حدیث نبوی۱۴۰۴)۔ پس اس وجہ سے عثمان نے بعد تامل حفصہ سے نکاح کرنے سے انکا ر کیا اور اُم کلثوم دُختر رسول سے نکاح کر لیا(منہاج ،صفحہ۸۶۱)۔ وہ کچھ حفصہ کی آتش مزاجی سے خائف نہ تھے۔ وہ خود کیا کم آتش مزاج تھے جنہوں نے عمران کو جلوادیا تھا اور نہ حفصہ ہی ایسی آتش مزاج تھی کیونکہ آخر ایک اور شوہر سے بھی تو نکاح کرچکی تھی ۔اب ہم بتائیں کہ ابو بکر نے کیوں حفصہ سے نکاح منظور نہ کیا۔ آتش مزاجی سکا باعث نہ تھا۔ وہ حفصہ سے بدل نکاح کرلیتے مگر محمدﷺ حفصہ کو پہلے سے تاڑچکے تھے ،کیونکہ یہ عورت چودہ برس قبل دعویٰ نبوت پیدا ہوئی تھی ( روضتہ الاحباب ، صفحہ۵۸۳ )۔ آج ۱۷ برس کی جوان تھی اور ابوبکر کو معلوم تھا کہ محمدﷺ اس سےشادی کرنا چاہتے ہیں۔ پس بپاس ادب اُس نے اپنے نبی اورداماد کا رقیب نہ بننا چاہا۔ چنانچہ جب محمدﷺ نے عین ان ایام میں حفصہؓ سے نکاح کی تجویز کرلی تو ابوبکر ؓنےعمر ؓسے معذرت کی۔ چنا نچہ عمر ؓ کہتے ہیں:

’’ ملاقات کی ابو بکر نے مجھ سے کی اور کہا شاید تو خشم گیں(غصے میں بھرا ہوا) ہوا مجھ پر جس وقت عرض کیا تو نےحفصہ کو مجھ پر اور جواب نہ دیا میں نے،کہامیں نے ہاں خشم گیں ہوا میں، کہا صدیق نےمنع نہ کیامیرے تئیں جواب سے تیرے اُس چیز میں جو کچھ ظاہر کیا تونے مجھ پر، مگر اس بات نے کہ جانتا تھا میں کہ رسول خدا نے یا د کیا ہے اُس کے تئیں (معلوم ہوتا ہے کہ تخلیہ(تنہائی) میں یاروں کےدرمیان جوان عورتوں نے تذکرے چھڑے رہا کرتے تھے) یعنی حفصہ کو اور فاش نہ کیا میں نے رسول خدا کے ستر کو اور اگر قبول نہ کیا ہو رسول خدانے تو اس کو،تو قبول کرتا ہوں میں‘‘(منہاج، صفحہ۸۶۱)۔

۶،۵ ۔ اُم سلمہؓ۔اُم حبیبہؓ کے حالات

ہند ملقّب بہ اُم سلمہ،اُم حبیبہ اور زینب ملقّب بہ ام المساکین ان تین ازواج سے جو بیوائیں تھیں ۔آپ نے اس وجہ سے نکاح کیا تھا کہ مشرکین کی عداوت سے اُن کا کوئی والی وارث نہ باقی رہا تھا اور اُن کے اعزا اُن کا تکفل نہ کرسکتے تھے‘‘(صفحہ۳۱۸)۔ یہ طریقہ واقعی محمدﷺ کی ایجاد ہے (اگر یہ سچ ہو ) کہ حضرت عورتوں سے صرف اس غرض سے نکاح کرتے تھے کہ اُن کی پرورش کریں کیونکہ دنیا میں کوئی اور بہتر طریقہ پرورش کرنے سے کہ غیرت دور ہوجائے؟

۷ ۔ اُم المساکینؓ

اس عورت کا حال صرف اس قدر ہے کہ یہ حضرت ﷺکےساتھ ۳ یا ۴ ما ہ رہ کر مرگئی ۔اس کی نسبت سے مشہور ہے کہ اس نے اپنا نفس حضرت کو یوں ہی فی سبیل اللہ بخش دیا تھا اور بے مہر حضرت ﷺنے اس سے نکاح کرلیا تھا (تفسیر حسینی آیت ہبہ نفس، احزاب رکوع۶)۔ پس اس کے ساتھ حضرت کو کوئی موقعہ سلوک کرنےکا نہ ملا ،بجز اس کے کہ اس کو اپنی جورو بنانےکا شرف حاصل کراکے جنت میں پہنچادیا۔

ع   حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

۸ ۔ زینبؓ بنت حجش

ابو محمدعبدالحق دہلوی صاحب تفسیر حقانی نےفرمایا ہے کہ’’ شہوت ایک دیو ہے، خدا کی پناہ جب یہ خبیث کسی کےسر چڑ ھتا ہے تو پھر حیاوشرم، ننگ وناموس کیسا۔ اس کی پاک زندگی پر بڑے بڑے دھبے لگا دیتا ہے،جن پر دُنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذاب اَلیم (سخت عذاب) کا مستحق بنتا ہے ۔ پھر تھوڑی سی نشاط کے بعد دُنیا ہی میں جو کڑوے اورکسیلے(بد مزہ،ترش) پھل کھانے میں آئے ہیں۔ اُن کا مزہ بھی تازیست نہیں بھولتا‘‘ ( تقریر۔ جلسہ سوم، ندوۃ العلماء،صفحہ۸۰)۔ 

اس فصل میں ہم جو حالات آنحضرت کے لکھیں گے۔ وہ اس مقولہ کی ایک زندہ وعبرت بخش نظیر ہیں۔ سید صاحب فرماتے ہیں کہ’’ آنحضرت نے اپنے جانبا زو جانثار دروست اور عتیق زید کا عقد ایک نہایت عالی خا ندان عورت زینب کےساتھ کر دیا تھا‘‘۔ ہم بتاتے ہیں کہ زید کون تھا؟

دفعہ اول

زید بن محمدﷺ

’’زیدبن حارثہ بن شرامیل بن کعب طبی ابواسامہ اور نسب ان کا عمر وبن سبابن شخیت بن معرب بن قحطان تک منہتی ہوتاہےاور ماں اُن کی سعدی بن ثعلبہ بنی مغن بن طی میں سے تھیں‘‘(منہاج،جلد۲،صفحہ۹۰۹) جس سےمعلوم ہوتا ہے کہ یہ اشراف قبائل عرب سےتھے۔

’’ ایک روزاُن کی ماں اپنی قوم کو دیکھنے کےلئے باہر نکلتی تھیں۔۔۔ ایک گروہ نے ایک قوم کو لوٹ لیا تھا۔۔۔ اس گروہ کا گزر بنی مغن کے گھروں پر ہوا جو زید کی ماں کی قوم تھی اور زید کو اُٹھا لے گئی ‘‘( ایضاً)۔

اس طرح یہ شریف قو م والا بد قسمتی سے غلامی میں مبتلا ہوگیا۔ یہ شخص پڑ ھا لکھا تھا کیونکہ ’’آنحضرت کے واسطے کچھ لکھا کرتا تھا‘‘ (صفحہ۹۱۰) ، ہوتے ہوتے یہ خدیجہؓ کے ہاتھ آیا اُس نے یہ غلام محمدﷺ کو دیا’’ جب اُن کی خبر ان کی قوم کو پہنچی تو باپ اُن کے حادثہ اور چچا اُن کے کعب حاضر ہوئے اور اُن کا فدیہ لیتے آئے تاکہ ان کی خلاصی کرائیں‘‘۔ زید نے خدیجہؓ کےمکان سے جانا پسند نہ کیا اور رہ گئے ۔محمدﷺ صاحب اُن کو پیار کرتے تھے۔ اُنہوں نے برسم عرب کعبہ میں جاکر حجرا سود کے پا س با ضابطہ زید کو اپنا بیٹا بنا لیا اور حقوق فرزند ی ان کے قائم کئے۔ ایسا میورصاحب نے جلد۲،صفحہ ۴۹میں ثابت کیا ہے ۔عرب لوگ مثل ہندوؤں کے تبنیت کرتے تھے اور فرزند متبنیٰ کے کل حقوق مثل حقیقی بیٹے کے ہوجاتے تھے(دیکھو فصل الخطاب اول ،صفحہ۱۷۰اور منہاج،صفحہ۸۶۵)۔ چنانچہ محمدﷺ نےبھی اس رسم تبنیت کےلحاظ سے ایسا ہی کیا۔

’’آنحضرت زید کو باہر لوگوں میں لائے اور فرمایا کہ اے لوگو گواہ ہو میں نے زید کو اپنا بیٹا بنایا اور وہ میرا بیٹا ہے اور میرا وارث وہ ہوا اور میں اس کا وارث ہوا۔اور زید اسلام کے دور آنے تک اور قول سبحانہ تعالیٰ کےنزول تک زید بن محمدﷺ پکارے جاتے تھے‘‘(منہاج،صفحہ۹۱۰)۔ 

جو لوگ ہندوؤں کی رسم تبنیت سےواقف ہیں ،وہ حضرت کی اس کارر وائی تبنیت زید کےمعنی خوب سمجھ لیں گے۔ پس زید قریب ۳۲ برس تک ابن محمدﷺ کہلائےکیونکہ نکاح خدیجہؓ کے بعد ہی تبنیت زید عمل میں آئی جب محمدﷺ کی عمر ۲۵ برس کی تھی۔ اور زینب زوجہ زید کا نکاح حضرت سے۵ ہجری میں ہوا۔ یہ اُن کے وارث تھے اور وہ اُن کے وارث اور تمام لوگ گواہ ہیں۔ حجرا سود پر قسماقسمی ہوئی مگر مولویوں کا دروغ بےفروغ بھی جس کا جواب ہم ساتھ ساتھ دیتے ہیں قابل داد ہے۔ فیروز ڈسکوی دفع طعن نکاح زینب میں فرماتے ہیں(صفحہ۵۱،۵۰) ’’زیدحضرت کا لے پالک نہیں تھا یعنی حضرت خدیجہؓ نے اُنہیں گود میں لےکر نہیں پالا تھا( گویاگود میں لےکر پالنا بھی شرط تبنیت تھی۔جوان کی اور جورو کےمر جانےپر کیا تبنیت نہیں ہوتی؟ وہ خدیجہؓ کے متبنیٰ نہ تھے بلکہ محمدﷺ کے متبنیٰ تھے )۔آنحضرت محمدﷺ صلعم کا آزاد کیا ہوا غلام تھا۔ جسے صرف شفقت اور اخلاق کی راہ سے ابن کہہ کر پکارتے تھے( یہ بات ہی اور ہے اگر یہ تھا تو پھر مابعدابن کہہ کر پکارنے کی ممانعت کیوں ہوگئی) نہ کہ لے پالک ٹھہرا کر۔متبنیٰ مثل ابن کے وارث سمجھا جاتا ہے۔(آلان جنت بالحق۔ یہی تو بات ہے ۔ عبدالحق کہہ رہے ہیں کہ محمدﷺ خلق اللہ کو گواہ کرکے کہا’’ زید میرا بیٹا ہے۔ میرا وارث وہ ہوا اور میں اسکا وارث ‘‘ کہو اب بھی تبنیت میں شک ہے؟) اور رسول صلم فرماتے ہیں ہم گروہ انبیاہیں نہ ہم کسی کے وارث نہ ہمارا کوئی وارث (اول تو تبنیت قبل دعویٰ نبوت کے عمل میں آئی جبکہ حضرت کی ہوس نے گروہ انبیامیں آنے کا خواب بھی نہ دیکھا تھا۔ اس وقت یہ قول وجود میں نہ تھا۔دوم یہ قول موضوع ہے ، شیعوں سے منہ بنوا آئے تب اس کو زبان پر لائے۔ سوم اگر نہ مانے تو یاد رکھیے جب زید ابن محمدﷺ کہلا یا حضرت یہ کلمہ زبان پر نہیں لائے ۔جب زید کو بعد نکاح زینب تبنیت سے خارج کردیااور زید ابن محمدﷺ نہ رہے تب جو چاہیں حضرت فرمادیں) ۔

لوگوں نے زید کو آنحضرتﷺ کا متبنیٰ سمجھا ،نہ کہ حقیقت میں آنحضرت کا متبنیٰ تھا۔ (اُن لوگوں نے سمجھا جن سے کہا تھا’’اےلوگو گواہ رہو میں نے زید کو اپنا بیٹا بنایا‘‘۔ زید خود بھی سمجھا ،محمدﷺ صاحب بھی یہی سمجھے ،حجرا سود بھی یہی سمجھا ۔ اور اگر حجرا سود کا قیامت میں گواہی دینا سچ ہو تو زید کی تبنیت پر ہو بھی گواہی دے گا۔ مگر افسوس مولوی پھرنہیں سمجھتے، اُن کی عقل پر پتھر پڑے ہیں،جھوٹ سے نہیں ڈرتے )۔ اسلام کےاندر متبنیٰ کر نے کا کوئی دستور نہیں ( جیسے زید کی جورو چھینی ،ورنہ ضرور تھا۔ زید کی تبنیت ثابت ہے)۔دنیاوی دستور کے مطابق بھی زید اگر آنحضرت کا متبنیٰ ہوتا تو وارث قرار دیا جاتا ( حضرت نےوارث خود قرار دیا تھا)، حالانکہ دنیا میں کوئی شخص زید کو آنحضرت محمدﷺ کا وارث قرار نہیں دیتا۔( صرف اس خوف سے کہ کہیں زینب حضرت کی بہو نہ کہی جا ئے ،ورنہ حضرت ﷺنے اُس کو اپنا وارث قرا ر دیا تھا۔ مگر جب جو رو اس کی لے لی تو تبنیت سے شرمائے اور وارثت سے محروم کیا) ۔ یہ کچھ فیروز ڈسکوی صاحب فرماتے ہیں۔ مگران کے استاد مکرم حضرت مولانا و سید نا مولوی الفت حسین فرماتے ہیں کہ’’نہ زید کو آنحضرت نےکبھی کسی قا عدہ یا رسم وریت سے متبنی ٰ کیا تھا‘‘(صفحہ۵۵)۔رسم و ریت بھی ہم دیکھا چکے ،قاعدہ بھی بتا چکے ۔ آپ غلط فرماتے ہیں کہ ’’حکم عام تھا کہ غلاموں کو عبد نہ کہو پِسَر (بیٹا)یعنی ابن کہو‘‘۔ اس کو تبنیت نہیں کہتےہیں ، نہ اس کےلئے کعبہ کوجاتے ہیں ،نہ حجرا سود پر ہاتھ رکھتے ہیں،نہ وارث ٹھہراتے ہیں، نہ لوگوں کو گوا ہ کرتے ہیں ، نہ وہ غلام مالک کا ابن مشہور ہوتا ہے۔ اگر یہی بات ہوتی تو پھر زید کو ابن محمدﷺ نہ کہنے پر مابعد قرآن مجید میں زور کیوں دیا۔ آپ کی عقل کہاں ہے؟ تبنیت اَور بات ہے اور شفقتاً بیٹا کہنا اَور بات اور ہم زید کی تبنیت ثابت کررہے ہیں۔ پس آپ کا یہ فرمانا کہ اللہ تعالیٰ سورہ احزاب میں فرماتا ہے’’ محمدﷺ تمہارے مردوزن میں سے کسی کا باپ نہیں‘‘(صفحہ۱۹)آپ کی جہالت پر دال(دلالت) ہے ۔یہ آیت اس وقت سنائی گئی جب زید کی جورو حضرت چھین چکے تھے۔ تبنیت ۳۳ برس قبل عمل میں آئی اور ایسا ہی آپ کا یہ قول بھی ہے کہ’’ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہےوحلایل انبیاء کم الذین من اصلا بکم تمہارے بیٹوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں جو تمہارے صلبی یعنی نطفہ سے ہوں (صفحہ۵۱)۔فقر ہ الذین من اصلا بکم جو تمہارے نطفہ سے ہوں ،نکاح زینب کے بعد ملحق کیا گیا ہے۔ چنانچہ حسینی میں ہے’’ چون حضرت رسالت پناہ زینب زابعد ازان کہ زید بن حارث کہ پسر خواندہ ءآنحضرتﷺ بود طلاق دادو حضرت بعقد نکاح درآور دومشر کان عرب آغاز سر زنش کردند کہ زن پسر خودر اخواستہ ابن آیت فرود آمد‘‘ ۔پس جس وقت تک یہ فقرہ نہیں آیا ضرور زن پسر خواندہ حرام تھی اورمتبنیٰ پر لفظ ابن کا حقیقی معنی میں آنا تھا۔ حضرت ﷺنے اس آیت سے قبل تبنیت کی اور اس سے قبل ہی زینب کولے لیا۔ پس رسم عرب اور اپنی شریعت کےموافق بھی وہ ملزم ٹھہرے۔ پس ’’زید کو آنحضرت کا بیٹا (نہ ) کہنا اور نکاح کوبہو سے نکاح کرلینے پر محمول ( نہ ) کرنا سراسر ضد و تعصب کی وجہ سے ہے‘‘(طعن زینب ،صفحہ۱۷ )لاریب محمدﷺ صاحب نے اپنی بہو کو بے نکاح بٹھا لیا گو شرم چھپانے کوبعد میں زید کےباپ بننے سے منکر ہوئے۔

دفعہ دوم

زیدو زینب کی ناچاقی

پھر آپ فرماتے ہیں کہ :

’’یہ بی بی نجیب الطر فین(خاندانی۔اصیل) تھیں اور اپنی عالی خاندانی وحسن وجمال کا خیال کرکے اُ ن کو اس بات کا بڑا رنج تھا کہ میری شادی ایک آزاد کردہ غلام کے ساتھ کردی۔ الغرض دونوں میں باہم ملال اتنا بڑھا کہ ایک کو دوسرے سے نفرت ہوگئی ‘‘۔

یہ غلط ہے کیونکہ جو کچھ تامل زینب کو تھا تجویز نکاح کے وقت تھا۔ جب کل پہلو اس کے دکھائے گئےاور اس کو یہ بھی معلوم ہوا کہ’’ زید ابن محمدﷺ ‘‘ ہے،محمدﷺ کا وارث ،میں اب محمدﷺ کی بہوبنوں گی تو اس سب عزت و توقیر کا لحاظ کر کے یقینا اُس جابلانہ نفرت کا خیال اُس کےدل سے محو ہو گیا او ر کس حسن عقیدت وخوشی کے ساتھ مابعد زینب نے زید کو قبول کیا ۔چوہدری مولابخش اپنے مراسلات مذہبی(حصہ دوم،صفحہ۱۴۰) میں لکھتے ہیں:

’’جب حکم خدا تعالیٰ کا زینب نےسنا تو حضرت سے آکر کہا کہ مجھے انکار اسی وقت تھا جب تک کہ آپ مشورتاً یہ بات فرماتے تھے اور جب خدائے تعالیٰ کی ایسی ہی مرضی ہے تو مجھے انکار نہیں غرض زید کا نکاح زینب سے ہو گیا‘‘۔

فیروز ڈسکوی بھی یہی فرماتے تھے(صفحہ۵) پس کتنی بے انصافی ہے کہ زینب کو باوجود اس فرمانبرداری رسول کے یہ مسلمان باغی بتائیں۔حضرت ﷺنے اُس سے کہا زید کو شوہر بنا ؤ وہ راضی ہے۔ حضرتﷺ اس سے کہتے ہیں ہماری جورو بنو وہ راضی ہے۔ ایسےہی زینب کا بھائی بھی راضی تھا ۔چنانچہ شاہ عبدالحق لکھتے ہیں’’ زینب نے اور اُس کے بھائی دونوں نے کہا راضی ہوئے ہم ‘‘( منہاج ۲،صفحہ۸۶۴)۔ ’’ایک سال یا زیادہ زینب زید کے ساتھ تھی‘‘( ایضاً)اورنہ کوئی ملال درمیان واقع ہوا، نہ کوئی نفرت کی بات ، نہ کشیدگی تا و قتیکہ آنحضرت کی آنکھ زینب سے لڑی اور اب درمیان کی کشیدگی لازمی تھی۔ حکیم صاحب فرماتے ہیں :

’’بعد نکاح زید و زینب کے کچھ مدت توجوں توں کر کےبسر ہوئے آخر زید نے اُس کےفعلی طنز و تعریض سے تنگ آکر اُسے چھوڑ دینے کا اراد ہ ظاہر کیا‘‘( فصل الخطاب ،صفحہ ۱۹۶)۔

ناحق زینب کومطعون (بدنام) کرتے ہو، جھوٹ لگاتے ہو، زینب نے زید کو ہر گز دق نہ کیا ۔تم زید سے تو پہلے پوچھ لو سید امیر علی صاحب لکھتے ہیں کہ:

’’ زید نے آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیاکہ میں زینب کو طلاق دینا چاہتا ہوں۔ آپ نےفرمایا کیوں اس سے کیا قصور ہوا زید نے عرض کی یا رسول اللہ اُس سے کوئی قصور تو نہیں ہوا،مگر اب میرا نباہ اُس سے نہ ہو گا‘‘ (صفحہ۲۰۹)۔

زید خود کہہ رہا ہے’’ زینب سے کوئی قصور نہیں ہوا‘‘ اور دراصل اُس سےکوئی قصور نہیں ہواتھاجو قصور تھا وہ حضرتﷺ کا تھا۔ اُس سے عشق لگایا تھا ، ا س کو چاہتے تھے۔ زید زینب کو حضرت کی مقبول نظر سمجھ کر اس کو اپنی ماں کے برابر جاننے لگا اور چاہا کہ اُسے اُن کی نذ ر کر دے’’زید گمان کرو کہ حضرت این سخن را براے این گفت کہ حسن زینب حضرت راخوش آمدہ ‘‘۔ آپ ناحق زینب پر الزام لگاتے ہیں۔ آپ مرد مسلمان ہیں، زینب آپ کی ماں ہیں۔ ماں کا خیال کرنا چاہیے’’ اُس سےکوئی قصور نہیں ہوا‘‘۔ زید صرف یہی کہتا ہے کہ’’ اب میرا نباہ اس سے نہ ہوگا‘‘ اور یہ سچ ہے اب نبا ہ ہوتا کیسے؟ زوجہ آپ کی تو آپ کے باپ (ابھی تک یہ لقب بحال ہے) کے دل میں بسی ہوئی تھی۔سید صاحب فرماتے ہیں:

’’ شاید زید کی نفرت کا باعث زیادہ تریہ ہو ا تھا کہ زینب نے چند کلمات کو جو آنحضرت کی زبان مبارک پر اُس وقت جاری ہوئے تھے جب آپ کی نظران پر اتفا قاَ پڑ گئی تھی ۔ایسے طرز سےمکرّ ر(بارِدیگر)و متوا تر کہا کہ اس طرز کو کچھ عورتیں ہی خوب جانتی ہیں۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ کسی ضرورت سے زید کےمکان پر تشریف لےگئے تھےاور زینب کےچہرہ کو بے نقاب دیکھ کر وہ کلمات فرمائے تھے جو فی زمانہ ہر ایک مسلمان کسی خوبصورت تصویر یاصحبت کودیکھ کربے اختیار کہنے لگتا ہےفتبارک اللہ احسن الخالقین۔ آنحضرتﷺ نے تو یہ کلمات صرف تعریف کی راہ سے تھے۔ مگر زینب کو غرور ایسا دامن گیر ہواکہ اس آیت کو اُنہوں نےمتواتر اپنے شوہر کےسامنے پڑھا تاکہ معلوم ہوکہ ہم ایسے حسین ہیں کہ خود پیغبر خدا نےہماری تعریف کی ہے ۔اس سے زید کو خواہ مخواہ اور زیادہ ملال ہوا۔آخر الامر زید نے اپنے دل میں ٹھان لیا کہ اب اس عورت کےساتھ ہر گز نہ رہوں گا‘‘ (صفحہ۲۰۹)۔

اگر یہ سچ ہے تو زید غضب کا نادان واحمق بلکہ ابن ہبنقتہ(ہبنق:احمق۔باولا) تھا۔ کوئی شوہر نہیں جواپنی زوجہ کے حسین ہونےکی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ اُس کی زوجہ اپنے حسن سے آگاہ ہےیا اس وجہ سے کہ کوئی بڑا بوڑھا یا باپ اپنی بہو کےحسین ہو نےکامدعی ہےاور زوجہ اُس کی اُس سےکہتی کہ میرے ابا یا سسر مجھ کو بڑا حسین جانتے ہیں، اپنے دل میں ملال کرے اور زوجہ کوچھوڑ دینے کا قصد ایک لمحہ کےلئے کرے،بلکہ حق یہ ہے کہ جو شخص اس قسم کےواقعہ کا مدعی ہوہم اس کو بہت ہی احمق کہیں گے۔

اس میں ایک بھید تھا۔ محمدﷺ نےوہ سخن اس طرز سےکہا تھا کہ زینب کو پورا یقین ہوگیا تھاکہ حضرت مجھ پر فریفتہ ہوگئے ہیں اور زید کوبھی پوری طرح معلوم ہو گیا تھا کہ اصل واقعہ یہ ہے ۔اس لئے اس نےاپنی جورو کو طلاق دےدی کہ محمدﷺ کا دل ٹھنڈا ہو۔اور زینب کو ازواج رسول اللہ میں داخل ہونےکا شرف حاصل ہو۔حتیٰ کہ وہ ام المومنین ہوکر زید کی بھی ماں بن جائیں۔ نہ حضرت کی’’ نظر زینب پر اتفاقا پڑگئی تھی‘‘ اورنہ حضرت نےکوئی ایسے بےلاگ کلمات زبان سے نکالے تھے،جو فی زمانہ’’ ہر ایک مسلمان بے اختیار کہنے لگتا ہے۔ حضوصاَ جب ہر ایک مسلمان دیکھ چکا کہ ان کلمات نے ایک گھر بگاڑ دیا، زوجہ شوہر میں نفاق پیدا کیا اور محمدﷺ صاحب کی نبوت پر داغ لگایا جودُھل نہیں سکتا۔

دفعہ سوم

حضرتﷺ وعشق زینب

’’ ابن بابو یہ و دیگر ان بسندہائےمعتبر از حضرت امام رضا روایت کردہ اندکہ حضرت رسول روزے برائے کارے بخانہ زید بن حارثہ رفت وچون داخل خانہ زید شد زینب زن اور ادیدکہ غسل میکندپس حضرت فرمود کہ سبحان اللہ الذی خلقک ۔۔۔ چون زید بخانہ برگشت زنش خبردار کہ رسول خدا آمد وچنین سخنے گفت و سفت زید گمان کر د کہ حضرت این سخن را برائے این گفتہ است کہ حسن اور حضرت راخوش آمدہ‘‘(حیات القلوب ،صفحہ ۵۷۳)۔پس حضرت نے زینب کو غسل کرتےہوئے تنہائی میں برہنہ دیکھا تھا اور وہ کچھ بےاختیار زبان سے نکل گیا ۔ بقول حالی:

؎ تم کو ہزار شرم سہی مجھ کو لاکھ ضبط   الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا

اور ہمارےہیرو زید اس کا مطلب آپ سےکہیں زیادہ سمجھے۔ وہ جان گئے کہ جو رو اُن کی رسول بقول کی مقبول نظر ہوگئی اور اس لئے یہ کلمات حضرت کی زبان پر جاری ہوئے۔ آپ زید سے بہتر اس معاملہ میں سجھ نہیں رکھتے۔ وہ اہل زبان ہیں اور حضرت کے صحابی اشاروں کنایوں کےماہر۔ پس حکیم نورالدین صاحب کا یہ فرمانا کہ’’ معترضین نے عشق کا کوئی ثبوت نہیں دیا‘‘(صفحہ۱۶۷)، محض حیلہ ہے۔ ہم حضرت کو مجنوں یا فرہاد نہیں بتاتے، عشق سَتّر سے نہیں ہوتا۔ ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ زینب حضرت کے دل میں بس گئی ،آنکھ لڑ گئی اور زینب بھی سمجھ گئی اور زید بھی۔ مگر فیرور ڈسکوی کی تسکین نہیں ہوتی وہ فرماتے ہیں کہ:

’’ آنحضرت صلعم کسی دن زید کےگھر گئے اور بیوی زینب کو دیکھ کر اُ ن کے حسن و جمال پر فریفتہ ہوگئےاور بے اختیار ہو کر پڑھا فتبارک اللّٰہ احسن الخالقین۔ وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ بی زینب کوئی اجنبی عورت نہ تھیں جن کا حُسن و جمال حضرت نےپیشتر کہی نہ دیکھا ہو ‘‘(صفحہ۳۰)۔

محمدحسین بھی یہی فرماتے ہیں(صفحہ۱۸۳)۔ زینب ’’نہایت خوبصورت و خوش جمال ‘‘ہونا تو ڈسکوی صاحب کوبھی تسلیم ہے(صفحہ ۴،۳)۔ وہ حضرت امام رضا کا قول بھول جاتے ہیں کہ آج حضرت ’ ’چون داخل خانہ زید شدزینب زن اور اس کہ غسل میکند ‘‘ ۔تنہائی کی حالت میں حضرت نے اُس ماہ پارہ کو کبھی نہ دیکھا تھا اور اس کے حسن و جمال نے اس سےقبل اُن کو کبھی ایسا گھائل نہ کیاتھا ۔ ایسی حالت میں محمدﷺ کا زینب کو بے ستر دیکھنا کیا کچھ اثر کر گیا ، اس کلمہ تعجب و تحسین سے عیاں ہے جواُن کے منہ سے اس وقت بے اختیار نکل گیا۔ بتاؤ تو کیا کبھی پہلے بھی حضرت نے زینب کو غسل کرتے ہوئے تنہا دیکھا تھااور دیکھ کر یہ کلمات نکالتے تھے؟ آخر پیشتر بھی تواُس کو دیکھا تھا۔ پس آ ج اس خاص تحسین و آفرین کا کیا سبب ہے ؟ اس نئی بے اختیاری کا کوئی نیا سبب ہے۔ ہاں و ہی جو ہم بتاتے ہیں’’ رموز عاشقاں عاشق ہدانند‘‘(ہم پیشہ اور ہم مشرب ہی بات کو خوب سمجھتے ہیں)۔ زینب حضرت کے چہرہ کی رنگت ،آنکھوں کی جنبش، لبوں کی حرکت اور آواز کی لوچ سے فوراََ ًپہچان گئی کہ بردلش زد ۔ اس گفت و شنید کا تذکرہ شوہر سے کیا وہ بھی سمجھ گیاکہ’’ حضرت این سخن را برائے آن گفتہ است کہ حسن او حضرت راخوش آمدہ‘‘ پرمولوی نہیں سمجھتےیا سمجھتے ہیں پر ناسمجھی کرتے ہیں ۔ یہ قصہ جو ہم نے بھی سنایا بلکہ ہم نے نہیں امام رضائےنے ،سید صاحب بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں اور مولوی ڈسکوری کو بھی مجال انکار نہیں۔ علا وہ اس کے مفسرین نے بھی بڑی تفصیل و تشریح سے اس کو بیان کیا ہےاور محمدحسین درد سے فرماتے ہیں :

’’افسوس ان مفسرین نے اُن باتوں کو نہ سوچا اس قصہ کو تفاسیر میں نقل کر کے مخالفین اسلام کو آنحضرت پر حسن پر ستی اور تعشق کا الزام و اتہام قائم کرنےکا موقع دیا‘‘(صفحہ۱۸۴) ۔

افسوس یہ لوگ مولوی صاحب کی ضروریات مناظرہ کو نہ سوچے ۔ اب ان پر تبت بد آپڑھنے سے کیا ہو سکتا ہے ۔ مولوی صاحب فرماتے ہیں:

’’ جو عامہ تفاسیرمیں لکھاہے کہ آنحضرت کی ایک دن اتفاقیہ زینب پر نگاہ پڑی تو آپ کو اس کی شکل پسند آ گئی اور آپ کے منہ سے اس کی تعریف نکل گئی۔زید کوخبر ہوئی تو اس نے بپاس خاطر آنحضرت ﷺاس کو طلاق دینی چاہی جس پر آنحضرت نے اس کوزبان سےتو طلاق دینے سےروکا مگر دل میں آپ کے خیال تھا کہ یہ پھر طلاق دے تو آپ اس کو نکاح میں لائیں، یہ محض واہی(بے ہودہ) قصہ ہے‘‘(صفحہ ۱۸۳)۔

کچھ دن بعد توآپ زینب کے وجود سے بھی انکار کرجائیں گے جیسے نورالدین نے ماریہ کے وجود سے انکار کیا۔حضرت یہ قصہ عیسائیوں نے نہیں گڑھا ہے ۔اہل بیت سے امام رضا اس کے راوی ہیں اور آپ سے زیادہ حامی اسلام سید امیر علی بھی اس سے انکار نہیں کرسکتے۔ کہیں واہی کہہ دینے سے کوئی واقعہ تاریخ واہی ہوسکتا ہے ۔واضح ہوکہ اس واقعہ سےقبل زوجہ شوہر میں خوب بنی ہوئی تھی۔چنانچہ

’’ایک سال یا زیادہ زینب زید کے ساتھ تھی اور بعد اس کےحق تعالیٰ نےاعلان فرمایا کہ ہمارے علم قدیم میں ایسا جاری ہواہے کہ ز ینب رسول خدا کی ازواج میں داخل ہو۔ پس درمیان زید و زینب کے ناسازگار ی پیدا ہوئی’’( منہاج ، صفحہ۸۶۴)۔

جب خدانے محمدﷺ کو بتا دیا کہ زینب تمہاری جو ازل میں ہو چکی ہے، مگر درمیان میں زید کی جو روکس ازلی غلطی سے ہو گئی کہ حضرت پر داغ لگ گیا اور زینب کو برہنہ حضرت دیکھ کر وہ کلمات ا ضطراب دل سے نکا ل چکے اور زینب کو معلوم ہو ا کہ کیا معنی حضرت کےہیں اور زید کو بھی یقین ہوگیا۔ تب زیدنے طلاق کی ٹھانی،پہلےنہیں اور اب زید ہر طرح مجبور تھابغیر جو رو سے ہاتھ دھوئے گزارہ نہ تھا،ورنہ سچے اسلام یعنی محمدیت میں فرق آتا تھا۔ اے ہندی مولویو،ڈسکویو ،کانپوریواوربھیر ویو،بٹالویوعلامہ عبدالرحمٰن الصفوری الشافی کے نزہت المجالس خبر ثانی(صفحہ۳۰۷) مناقب امہات مومنین تذکرہ زینب پڑھو۔اُس میں لکھا ہے کانت بیضاء جمیلتہ سمینتہ فابضر ہا البنی صلی اللہ علیہ وسلم بعدحین عندزید فاعجبتہ فقال سبحان اللہ مقلب القلوب وکان من خصایصہ ﷺ اذاراے امر اۃ ووعجبتہ حرمت علی زوجھا و حرم علی زو جہا امسا کہا وکانت تا یمتہ فسمعت البتسیح فاخبرت زوجھا زید ایذ الک فقال یا رسول اللہ ۔۔۔فی طلاقہا فقال امسک علیک زوجک ۔۔اللہ الخ یعنی زینب رنگ کی گوری حسین و جسیم تھی۔ پس اس کو نبی صلعم نے دیکھ پایا کچھ دنوں بعد زید کے گھرمیں۔ پس حضرت کو وہ بھلی لگی، پس کہا سبحان اللّٰہ مقلب القلوب اور یہ امر آنحضرت صلعم کے خصائص سے تھا کہ جب کسی عورت کو دیکھ پاتے اور وہ آپ کو بھلی لگ جاتی تو وہ حرام ہو جاتی اپنے شوہر پر اور حرام ہو جاتا شوہر پراس عورت کا رکھنا۔ زینب سوتی تھی اور وہ تسبیح سن پائی پس اپنے شوہر کو خبردی اس بات کی ۔پس اس نے کہا یا رسول اللہ مجھ کو اجازت دو تو میں عورت کو طلاق دے دوں۔حضرت نے فرمایا اپنی عورت کو اپنے پا س رکھ اور ڈر اللہ سے ۔الخ ناظرین ان خصائص نبوی پر خوب غور کرو جس شخص کی عورت حضرت کو بھا جاتی وہ شوہر کو حرام ہوجاتی تھی۔ حضرت نےکلمات تحسین زبان سے نکالے ،عورت سمجھی کہ میں حضرت کو بھا گئی،مومنہ تھی،شوہر کو خبر کردی۔ شوہر بھی مومن تھا دونوں سمجھے کہ اب علاقہ زن وشوہری کا قائم نہیں رہ سکتا اس وجہ سے طلاق ہوئی۔نہ زوجہ کا قصور ہے، نہ شوہر کا ۔قصور ان خصا ئص نبوی کا ہے اگر حسنت جمیع خصالہ کہنے والے بھی مان لیں۔

دفعہ چہارم

اخفائے عشق

’’ آخر الامرزید نے اپنے ول میں ٹھان لیا کہ اب میں اس عورت کے ساتھ نہ رہوں گااور انہوں نے آنحضرت ﷺکی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں زینب کو طلاق دینا چا ہتا ہوں ۔آپ نے فرمایا ’’ کیوں اس سے کیا قصور ہوا‘‘۔ زید نے عرض کیا ’’ یا رسول اللہ اُس سے کوئی قصور تو نہیں ہوامگر اب میرا نبا ہ اُس سے نہ ہوگا‘‘۔ آنحضرت نے تب بتا کید فرمایا کہ’’ جا اور اپنی زوجہ کی حفاظت کر اور اُس سے اچھی طرح پیش آ‘‘۔۔۔ مگر زید اپنے ارادہ طلاق سےنہ باز آیا اور باوجود یکہ آنحضرت نے ایسا حکم دیا تھا، لیکن اُس نے زینب کو طلاق دےدی۔ آنحضرت کو زید کے اس فعل سے خاص کر اور زیادہ رنج ہوا‘‘(صفحہ ۹۔۱۰)۔ ’’آپ نے زید کو بہت روکا اور تلخی معاشرت پر صبر کرنے کو بہت نصیحت و ہدایت کی اور سخت الحاح (منت کرنا)وا صرار کیا‘‘( فصل الخطاب ، صفحہ ۱۶۹)۔ حضرت کےعشق نے زوجہ وشوہر کو الگ کیا محض اس وجہ سے زید زینب کو طلاق دینا چاہتا تھا۔ اور حضرت محض زبان سے کہتے کہ طلاق مت دے حالانکہ وہ ایسا چاہتے تھے کہ طلاق ہوجائے اور طلاق سے بڑے خوش تھے۔ یہ قرآن مجید کی نص سے بھی ثابت ہے ’’جب تو کہنے لگااُس شخص کو جس پر اللہ نے احسان کیا اور تو نےاحسان کیا، رہنے دےاپنے پاس اپنی جو رو کو اور ڈر اللہ سے اور تو چھپا تا تھا اپنے دل میں ایک چیز اللہ اس کوکھو لناچاہتا ہے اور ڈرتا تھا لوگوں سے‘‘ ( احزاب رکوع ۵)۔مفسرین نے اس آخری فقرہ و تخفی فی نفسک مااللّٰہ مبد یہ کے معنی عشق زینب بتائے ہیں۔چنانچہ جلالین میں ہے’’ مجتہاوان لو فار قہازید تز وجتہا‘‘ جس سےا ظہر ہے کہ جو حضرت زبان سے کہتے تھے، اُس کےعین خلاف دل میں تھا۔ مگر حکیم صاحب عیسائیوں کی شوخی و جرات سخت قابل افسوس بتاتے ہیں، جو وہ کہتے ہیں کہ ’’آنحضرت نے اوپرے دل سے زید کو منع کیا تھا‘‘(صفحہ۱۷۰)۔ جناب بندہ آپ شاہ عبدالحق محدث دہلوی کی شوخی و جرات کو دیکھیں وہ مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں :

’’ حضرت نے فرمایا نگاہ رکھ اوپر اپنے اپنی زن کے تئیں اور خدا سے ڈر، لیکن خاطر انور اُس جناب کی چاہتی تھی کہ زید اُسےطلاق دے ۔ لیکن شرم رکھتے تھے کہ اُسے امر کریں زینب کی طلاق پراور اس بات سے بھی اندیشہ فرماتے تھے کہ لوگ کہیں گے کہ اپنے فرزند کی اہلیہ چاہتا ہے اور اہل جاہلیت جس عورت کو اپنے فرزند خواستہ منسوب کرتے تھے۔ حرام جانتے تھے جس طرح اپنے صلبی بیٹے کی جورو کو‘‘(صفحہ۸۶۵)۔

روضتہ الاحباب میں بجنسہ یہی ہے ۔دیکھو یہ معنی حضرت کے’’ بہت نصیحت و ہدایت وسخت الحاح واصرار ’’ کے ہیں، مگر ہاں ’’در خاطر انور اس جناب کی چاہتی تھی‘‘کچھ اور۔اور حضرت نے زمانہ جاہلیت کےرسم کےموافق زید کی تبنیت کی تھی۔ اُس کو اپنا وارث ٹھہرا کر لوگوں کو گواہ ٹھہرایا تھا اور زید کو نام ابن محمدکا دیا تھا۔ کیونکہ’’عرب میں ہندوؤں کی طرح منہ بولا بیٹا صلبی بیٹے کی مانند سمجھا جاتا تھا‘‘( فصل الخطاب ، صفحہ ۹۰)۔حضرت نے بھی رسم ادا کی تھی۔ پس حکیم صاحب کا فرمانا کہ ’’اگر لے پالک کی جورو سے شادی منع ہے تو اس کا ثبوت توریت یا انجیل یا شرع محمدی یا قرآن سے یا دلائل عقلیہ سے دیا ہوتا‘‘(صفحہ۱۶۸)بالکل باطل ہے۔ کیونکہ دراصل شرع محمدی نےشرع عرب تبنیت کو تسلیم کرکے زید کو محمدﷺ کابیٹا بنا دیا تھااور کُل حقوق اس کو وارثت وغیرہ کے حسب قواعد ملک عرب دلائے تھے۔ اس قاعدہ کی رو سے، اس شریعت کی رو سے جس میں حضرت نے کبھی کوئی مضرت (ضرر۔نقصان)مکی یااخلاقی نہیں دیکھی تھی بلکہ جس کے حسن کے قائل ہو کر خود اس کو بخوشی برتا تھا۔اُسی شریعت کی روسے زینب محمدﷺ پر حرام تھی ۔ اب آج زینب سے عشق کرکے حضرت اسی شرع محمدی کو اپنےفائدے اور حظ نفس کےواسطے منسوخ کرکےفرماتے ہیں ’’ میں کسی کا باپ نہیں اور تبنیت ناجائز ہے‘‘یہ مسموع(سنا گیا ۔قبول کیا گیا) نہیں، اس وجہ سے حضرت خدا کی چوری کرتے تھے۔ زبان سے جھوٹ لولتے تھے کیونکہ لوگوں سے ڈرتے تھے۔ بد نام ہونے کا خوف تھا۔ بدنامی کو یوں مٹایا کہ آسمان سے آیت بلائی۔

دفعہ پنجم

طلاق زینب

 جب طلاق زینب کو زید نےدےدیا۔ہمارے مُصنف فرماتے ہیں:

’’ اس واقعہ کےچند مدت بعد زینب نےآنحضرت کو کہلا بھیجا کہ زید نے تومجھ کو طلاق دے دیا ہے، اب میری پرورش آپ ہی پر موقوف ہے۔ پس اس وجہ سے آنحضرت نے اُس سے عقد کرلیا ‘‘۔

یہ بھی صریح خلاف واقعہ ہے۔ یاروں کی من گھڑت جس کے لئے مصنّف کوئی سند نہیں دے سکتا ۔ اصل یوں ہے کہ:

’’ جب عدت زینب کی تمام ہوئی۔ حضرت نے زید کو فرمایا جازینب کو واسطےمیرے خواستگاری کر اور حکمت تخصیص کرنےمیں زید کے واسطے اس کام کے ،یہ کہتے ہیں کہ لوگ گمان نہ کریں ۔ قہرراہ سے واقع ہواہے۔ بدن ورضامندی زید کے‘‘(صفحہ۸۶۵)۔

سچ تو یہ ہے کہ یہ غیرت ویہ اطاعت کسی صحابیؓ ہی کے دل میں ہوسکتی تھی کہ زید ہی کی جورو لےجائےاور زید ہی سے کہا جائے کہ جاؤبیٹا زینب کو ہمارا پیغام دے آؤ ۔ صد آفرین آئے زیدتمہارے دل پر تم جہالت سے اپنے حقوق فرزند انہ یہی سمجھے تھے۔ غلامی نے اوربد صحبت نے تمہاری آدمیت کوکھو دیا تھا۔ ڈسکوی صاحب نےایک اورحیلہ تجویز کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ :

’’ا ٓنحضرت کو خاص کر یہ فکر تھی کہ اگر زید نے زینب کو چھوڑ ہی دیا تو میں اُس کی تلافی اورحضرت زینب اور ان کےلواحق کو جو اس معاملہ کے سرانجام ہونے سےایک گو نہ صدمہ لاحق ہوگیا تھا۔ اُس کی تلافی کے خیال سے آنحضرتﷺ کا ارادہ ہو ا کہ زینب سے خود نکاح کرلیں‘‘(صفحہ ۸،۷)۔

دیکھو قاضی جی شہرکے اندیشہ سے دبلے ہیں ،کوئی اپنی جورو کو طلاق دے آپ کو فکردامن گیر ہےکہ اس سے نکاح کون کرےگا حالانکہ زینب کے حق میں ایسی فکر بھی بے سود تھی۔ وہ حسینہ ماہ روپری وش جس پر خودحضرت سو جان سے قربان ہوگئے تھے۔ اس کو شوہر وں کی کیا کمی تھی۔ اور اگر بقول آپ کے’’ اُس معاملہ کے سرانجام ہونے سے ایک گو نہ صدمہ ‘‘ زینب اور اُس کےلواحق کو لاحق ہو گیا تھا تو اُس کی جو ابدہی بھی حضرت کے سر پر نہ تھی۔ اگر آپ کا یہ سخن درست ہے کہ ’’ حضرت زینب کو جب اپنے حسن و جمال اور شریف القوم ہونےکا خیال آتا تو اُس سے صبر نہ ہوسکتا ،آخر زید اس کی آنکھوں میں بہت حقیر لگتا۔ رنجش شروع ہوتے ہوتے لڑائی تک نوبت پہنچی اور زید بہت تنگ ہو جاتا‘‘(صفحہ ۱)۔ کہو ایسی عورت جو اپنے شوہر کا دم ناک میں کرتی تھی اور شوہر کو مثل کتےکے حقیر جانتی تھی اور لڑنے اور مارنے کو مستعد رہتی تھی ،وہ کس رعایت کی مستحق ہوسکتی تھی؟ کیا انہیں بد اطواریوں کی شاباشی میں حضرتﷺ نے زینب کو اُس کےمظلوم شوہر زید کی ماں بنا کر اپنی جورو بنایا تھا؟ مولویو! تمہاری عقل کہا ں ہے؟پس اگر شوہر میں اور اُس میں بوجہ اُس کی اپنی بد اخلاقی و بد اطواری کے جدائی ہوگئی تھی تو کون شخص حضرت کو اس جدائی کا الزام دے سکتا ؟ جدائی عشق ناجائز نے کرائی ۔مولویو ایسے حیلوں سے کیا ہوتا ہے۔ حق بات صرف یہ ہے کہ زینب حضرت کےد ل میں بس گئی تھی۔ وہ اس کو کسی نہ کسی بہانہ سے لینا چاہتے تھے۔بلی اللہ کےنام پر چوہے نہیں مارتی ہے۔

’’ القصہ زید بموجب فرمان ازسر صدق واخلاص روان ہوا‘‘۔ زید کہتا ہے کہ جب زینب کےگھرا ٓیا میں، میری آنکھوں میں ایسی بزرگ معلوم ہوئی کہ میں اُس کی طرف نگاہ نہ کر سکا‘‘( منہاج النبوۃ)۔ آفرین ہے تیرے ادب پر ! ابھی تک زید’’ابن محمدﷺ ‘‘کہلاتاہے۔ یہ ہمیشہ محمدﷺ کو اپنا باپ سمجھتا تھا۔ اب بھی سمجھتا ہے۔ زید اُس کی جورو اب محمدﷺ کی جورو ہونے والی ہے۔ بلاشک اُس کی آنکھ میں ’’ایسی بزرگ معلوم ہوئی‘‘ کیونکہ ماں تھی۔ حتٰی کہ اس کی طرف نگاہ نہ کرسکا ۔ اے کاش زینب محمدﷺ کو ایسی بات خود معلوم ہوئی ہوتی جیسی بزرگ اب وہ زید کی آنکھوں میں تھی کہ وہ اُس کی طرف نگاہ نہ کرسکتے ۔ پس نہ زینب نے پرورش کی درخواست کی ،نہ پیغام نکاح میں سبقت کی ،نہ زید سے طلاق پانےپر اُسے یا اس کے لواحق کو صدمہ پہنچااور نہ یہ ہوا اور نہ و ہ ہوا۔یہ سب بے صبری تھی حضرت کی جواُن کے عشق نے اُن سے کرائی۔ زینب کو کوئی ضرورت پرورش کی نہ تھی۔ نہ اُس کو نکاح کی عجلت تھی ۔وہ حضرت کی بے صبری اور اضطرابی سےواقف تھی۔ چنانچہ لکھا ہے کہ محمدﷺ نے زینب سے نکاح بھی نہ کیا ،نہ کوئی شاہد ہوا۔ زینب کو معلوم بھی نہ تھا کہ یکایک اُس کے گھر میں آگھسے اور اس سے مقاربت کرلی جس سے اس کو ازحد تعجب ہوا۔ چنانچہ مروی ہے کہ:

’’حضرت زینب کے گھر تشریف لے گئے در حالیکہ وہ سر برہنہ تھی عرض کی بے گواہ یا رسول اللہ فرمایا اللہ الزاوج و جبرئیل شاہد ‘‘(صفحہ۸۶۶)۔

اللہ اور جبرئیل سے بھی نہ شرمائے۔ایک امر یہاں گوش گزار کرنا منظور ہے کہ زینب نے جو کہا’’بے گو اہ یا رسول اللہ ‘‘ تو یہ عین شریعت اسلام تھی اور محمدﷺ صاحب نے زینب سے بے گواہ صحبت کرکے شریعت سے قطعی انحراف کیا کیونکہ جامع تر مذی کتاب النکاح میں ہےکہ :

’’نبی ﷺ نے فرمایا کہ زنا کرنےوالی ہیں وہ عورتیں کہ نکاح کرتی ہیں اپنا بغیر شاہد وں کے‘‘۔

چنانچہ اس صریحی زناکاری سے بچنےکےلئے اس نے حضرت سے کہا ( اور وہ خودحضرت کی شریعت کے مطابق تھی کہ ’’ بے گواہ یارسول اللہ ‘‘ مگر حضرت ﷺجو ش میں تھے اور نہ شرمائے ، فرمایا اللہ و جبرئیل گواہ ہے۔ اللہ تو گواہ ہے اور جبرائیل بھی کون سی چیز اُن آنکھوں سے پوشیدہ ہے۔ مگر روز حساب اُن کی شہادت کا حال کھلےگا۔ پس حضرت نے بےنکاح و بے گواہ زینب سے صحبت کی اور اس قسم کی صحبت شرع اسلام کے مطابق زناہےجس کی تاریخی نظیر صرف مسلمہ وسجاح کا از دواج بے وقوع نکاح ہو سکتا ہے۔ مگر اس میں معصیت کم تھی ۔ پادری مولوی ڈاکٹر عمادالدین صاحب نے اس آسمانی نکاح کے جواز پر عمدہ ریمارک کیاہے جس کو ڈسکوی صاحب اُڑا گئے۔

’’میں کہتا ہوں کہ آسمان پر ہی جاکر جورو خصم کہلاؤ ۔ دنیا میں جو خلاف دستور کام ہےجورو خصم نہیں کہلا سکتے بلکہ گناہ کا میل ہے‘‘( تاریخ محمدی، صفحہ۲۷۳)۔

پس ڈسکوی صاحب کا خصم کے مقابلہ میں یہ فر مانا کہ ’’جس امر بی شارع کو خود اللہ تعالیٰ خبردے دے اُس میں چون و چرا کرنے والا کون‘‘ (صفحہ۲۴) ہم کو تعجب میں لاتا ہے ۔ اے حضرت اسی الہام ووحی پر تو ہم کواعتراض ہے۔ آپ اس کو سند اَ پیش کرتے ہیں۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ محمدﷺ نے خدا پر بہتان باندھا، زنا کیا اور اس کو حکم خُدا بتایا۔

دفعہ ششم

زید بن حارثہ

روضتہ الاحباب میں لکھا ہے کہ ’ ’چون آن سرور زینب رابخواست منافقان مدینہ زبان طعن کشووند وگفتند کہ محمدﷺ زن پسر خود راخواست آیت آمد۔ ماکان محمدﷺ ابا احد رجا الکم ( یعنی محمدﷺ تم میں سے کسی کا باپ نہیں ہے)واین آیت نیز نازل شد ۔ او عوہم لاباہم ہو ا قسط عنداللہ ( یعنی پکارولےپالکوں کو اُن کے باپ کا کہہ کر یہ زیادہ بھلا ہے ، خدا کے آگے) (صفحہ۵۸۹)۔ چنانچہ حسینی بھی پہلی آیت کی تفسیرمیں یہی شرح کرتا ہے(جلد ۲ صفحہ ۲۰۲) ۔ اس سورۃ میں جس میں زیدو زینب کا مذکور ہے (رکوع۶)۔حضرت نے اپنی جورؤوں کو مسلمانوں پر حرام ٹھہرایا ہے اور قرآن مجید میں یہ آیت بھی نازل کی گئی ہے۔ازواجہ امہاتہم (سورہ احزاب رکو ع ۱)محمدﷺ کی جورو ئیں مسلمانوں کی مائیں ہیں۔ اور اس سےدلیل حرمت یو ں آشکارا ہوئی’’ازواج اومادران اندومادر بر فرزند حرام است ‘‘( حسینی)۔ دیکھو یہ منطق! اپنی جورؤوں کو مسلمانوں پر حرام کرنے کےلئے مسلمانوں کی مائیں بناتے ہیں اورا بھی تک زید کو اپنا بیٹا بنائے رہے اور آپ اُس کے باپ بنے رہے۔ مگر اب کہتے ہیں ’’محمدﷺ باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں‘‘( سورہ احزاب رکوع۵) تاکہ ابا کہنے والوں کی جوروئیں حرام نہ ہوجائیں۔ مگر محمدﷺ کی جوروئیں ایمانداروں کی مائیں ‘‘ بدستور ہیں یعنی ازواج حضرت تو ایمانداروں کی اماں ہیں مگر حضرت ان کے ابا نہیں ۔ یہ کیا ایمانداری ہے؟

سید صاحب کا یہ فرمانا بہت بے جاہے کہ ’’اس پر مشرکین قریش نے بڑا غل مچایا حالانکہ خود اُن کا یہ حال تھا کہ اپنی ماؤں اور خوش د امنوں (ساسوں) سے شادی کرلیتے تھے‘‘ اور ڈاکٹر لٹیز بھی وہی آواز باز گشت سناتے ہیں:

’’عرب کے جاہل بت پرست اپنے متوفی باپ کی عورتوں کو بجز اپنی حقیقی ماں کے اپنی حرم میں داخل کر لیتے تھے‘‘(لیکچر مترجم، صفحہ۱۳) ۔

یہ بھی جھوٹ ہے اور بہتان ۔شرفااہل عرب کا محمدﷺ صاحب پر الزام لگانا ہر گز بےجا نہیں کیونکہ دراصل ان کے اخلاق اس بارے میں بہت اچھے تھے۔ وہ اپنی ماؤں سے یا بہوؤں سےشادی کو حرام سمجھتے تھے۔ چنانچہ ابوالفد امیں اہل عرب قبل اسلام کےبیان میں مذکورہے کہ:

’’وہ لوگ ماں اور بیٹی سے نکاح نہ کرتے تھےاور دو بہنوں کو جمع کرنا اُن کے نزدیک بہت بُرا تھا۔ اور جو شخص اپنے باپ کی جورو کو اپنے گھر میں ڈال لیتا اس کو برا جانتے تھے۔ اس کو مادر۔۔۔ کہتے تھے‘‘(صفحہ ۳۳۰)۔

یہ لوگ ایسے بے حیانہ تھے۔بہر کیف اس میں شبہ نہیں ہوسکتا کہ زید کو اپنی جورو چھن جانےکا اتنا رنج نہ ہوا ہو گاجتنا اس خطاب زید بن محمدﷺ کےچھن جانے کا ۔ان پر ستم ہوا۔افسوس زید لٹ گئے !اب تک حضرت اُن کو اپنا بیٹا بنائے رہے،مگر اب نیا سلوک کیا جاتا ہے۔ٹھیٹھ ہندی میں اس کو چچا بنا نا کہتے ہیں۔

دفعہ ہفتم

زید کی وفاداری

سید امیرعلی صاحب نےاپنی انگریزی کتاب کے حاشیہ (صفحہ ۳۳۶)میں ایک نئی بات یہ بھی تحریر فرمائی ہے کہ’’ سب سے بڑی معیار بنی کی پاکبازی کی یہ تھی کہ زید نےاپنے آقاکےساتھ جانباز ی میں کبھی کوتاہی نہ کی‘‘۔ اور حکیم صاحب رقم طراز ہیں کہ ’’اگر اس عقدمیں کوئی امر معیوب اور قاوح نبوت ہوتا تو یقیناً اول منکر زید ہوتا ‘‘( فصل الخطاب اول،صفحہ۱۷۱)۔ ہم کہتے ہیں کہ منکر ہو کر کسی قاضی کے پاس فریاد کرتااور اگر انکار و بے وفائی نہیں کی تو یہ زید کی تعریف کی بات ہے اور محمدﷺ کا جرم اوربد تر ہوتا ہے۔ پر اگر زید کی جانبازی کا قصہ درست ہو توہم اس کا آپ سے زیادہ قابل اطمینان سبب بتائے دیتے ہیں۔ آخر زید غلام رہ چکا تھا ۔غلامی انسان کےدل پر بُرا اثر پیدا کرتی ہے۔ طبعی آزادی، حمیت وغیرت اس سے بالکل دور ہوجاتی ہے۔ اگر آقا اپنے غلام کی جوروئیں لے یا اس کے بچوں کو اس سے جُدا کردے تو وہ صبر کرتاہے۔ حالت مجبوری میں یہ حادثات اس کے دل پر کوئی غیر معمولی اثر نہیں پیدا کرتے ۔ جب زینب باوجود اس واقعہ کے زید کو ’’ ایسی بزرگ معلوم ہوئی ‘‘ اور اس کو اُسے اپنی ماں بناتے ہوئے کوئی ملال نہ ہو ا تو زید کو محمدﷺ کی وہ حرکت جو چاہے کیسی ہی زشت وزبوں کیوں تھی؟ کیوں کر بُری معلوم ہوسکتی جب خود قرآن مجید میں اسی معاملہ کی بابت وارد ہوا’’کا م نہیں کسی ایماندار مرد کا ،نہ عورت کا جب ٹھہرادے اللہ اور اُس کا رسول کچھ کام کہ اُن کورہے اختیار اپنے کام کا اور جو کوئی بے حکم چلا اللہ کےاور اُس کے رسول کے سوراہ بھولا صریح چُوک کر ‘‘( احزاب رکوع ۴)۔ جہاں خدا کے علم قدیم میں یہ ٹھہر چکا تھا کہ زینب محمدﷺ کی جورو ہوگی،وہاں یہ بھی ٹھہرچکا تھاکہ بےچارے زید کی جورو محمدﷺ لے لیں گے۔ اب اللہ نےمحمدﷺ صاحب کا نکاح زینب سے کردیا ۔ جبرائیل شاہدہے۔ یہ قسمت کی بدی تھی۔ رضا بہ قضا(جو خدا کی مرضی ہے اس پر راضی ہیں)۔ اسلام کے معنی ہی ہیں’’ گردن نہادن‘‘۔

دفعہ ہشتم

غیرت صحابہ کرام

حکیم صاحب تعلّی(بلندی۔شیخی) کی لیتے ہیں اور فرماتے ہیں ’’ بڑے بڑے غیور جری صحابہ جو یقیناً مچھوں اورباج گیروں سے بڑھ کر وقعت و غیرت میں تھے جوا سلام کے رکن تھے۔ بہت جلد ،ہاں اُسی دم ٹوٹ پھوٹ جاتے اگر محمدﷺ کا یہ فعل معیوب وقاوح نبوت ہوتا(صفحہ۱۷۲،۱۷۱)۔ اب ہم کو مجبوراًَدکھانا پڑا کہ حضرت محمدﷺ کے صحابہ کے دل میں غیرت کو بہت بڑی گنجائش نہ تھی۔ چنانچہ مدینہ میں جو عبدالرحمٰن بن عوف او ر سعد بن الربیع میں حضرت نےبرادری قائم کی تھی، ایک دن سعد نےعبد الرحمٰن سے کہا’’ اےبھائی! میرے پاس دولت بہت ہے میں ایک حصہ میں تیرے ساتھ شریک ہونگا۔ اور دیکھ میری دو جوروئیں ہیں ان میں سے جس کو تو چاہے پسند کرلے اور میں اس کو طلاق دےدونگا کہ تو اُسے جورو بنالے۔ چنانچہ سعد نےطلاق دےدی اور اُن کے بھائی عبدالرحمٰن نے اس سے نکاح کرلیا اور سعد کے ساتھ رہا کئے۔ 

( اس کو میور صاحب نے بحوالہ کا تب الواقدی اپنی جلددوم، صفحہ۲۷۲،۳ میں لکھا ہے) اور مفسر ابوا لسعود اپنی تفسیر جلد ہفتم ،صفحہ ۱۸۴ میں انصار اور مہاجرین کی رسم جو رو بدلول کے صدر الاسلام میں جواز کا ذکر کرتا ہےاور اس کو حضرت داؤد کی سنت قرار دیتا ہے۔ ہمارے زمانہ کے مولوی صاحبان زیادہ باغیرت ہیں۔ وہ اس قسم کی برادری مثل صحابہ کرام کے نباہنے کےلئے راضی نہ ہوں گے ۔ اسی طرح روضتہ الاحباب جلد اول آخر کے قریب درباب جواز مزاح حق و ظرایف و لطایف (صفحہ ۶۷۹)میں مر قوم ہےکہ ’’مرویست کہ ضحاک ابن سفیان کلابی مروے بود بغابت قبیح الوجہ آمد باپیغمبر صلعم مبایعہ کردو عائشہؓ پیش حضرت نشستہ بودپیش نزول آیت حجاب انگہ گفت پیش من دوزن ہشند احسن ازین حمیرا یعنی عائشہؓ یکے را ترک کنم تانو اور ابخواہی‘‘ زید کسی طرح ضحاک یا سعد سے نہ غیرت میں زیادہ تھے اورنہ وفاداری محمدﷺ میں کم۔ پس ملا باقر مجلسی کا یہ قو ل بہت ہے کہ ’’زید گمان کرد کہ حسن زینب حضرت را خوش آمدہ است ‘‘ اوراُس نے طلاق دے دی ، بلکہ اپنی جو رو خود محمدﷺ کو سونپ دی۔ اُس زمانہ میں ایسی باتیں ہو ا کرتی تھیں۔ تعجب نہیں اب یہ باتیں دیوتی کہی جاتی ہیں۔ اس سےمسلمان بھی تامل کرتے ہیں ۔ ہم نے تو کسی مچھوے(ماہی گیر) اور باج گیر(محصول لینے والا) کی ایسی بے غیرتی نہیں سنی۔ یہ صحابہ کا حصہ تھا۔ مولوی محمد حسین صاحب نے اپنے خطبہ میں حرمت کے خنزیرکےباب میں فرمایا تھا کہ:

’’منجملہ نر حیوانات کے ایک یہی بڑا بےغیرت ہےاور حیوانات اپنے مطلوب مادہ پر دوسرے حیوانات کا مقابلہ اور غیرت کرتے ہیں، اس غیرت سےخالی ہے تو صرف یہی ایک حیوان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جولوگ اس جانور کا گوشت کھانےکے عادی ہیں ان میں وہ غیرت نہیں ہوتی ۔ایک کی جورو کو دوسرا ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر خلوت میں لےجائے تو وہ غیرت نہیں کرتا‘‘(اشاعت السنت نمبر۱۱،جلد۱۷،صفحہ ۳۲۵)۔

مولوی صاحب کو شاید معلوم نہ تھا کہ صحابہ کرام ایک دوسرے کو اپنی جورو کا ہاتھ خود پکڑ اکر خلوت میں بھیج دیتے تھے۔ شاید حکم حرمت خنز یر سےقبل کا یہ واقعہ ہو۔

دفعہ نہم

از التہ الشکوک

۱۔   مولوی فیروزالدین صاحب فرماتے ہیں:

’’ رسول خدا پہلے ہی کنوارپن میں زینب کو بلا مزاحمت اپنےنکاح میں لا سکتے تھے۔ اگر حضرت زینب کے حسن کےخواست گار ہوتے(صفحہ۵۰)۔

اس کا جواب ہم اس فصل کی دفعہ سوم میں دے چکے ہیں اور یہاں پھریا دو لاتے ہیں کہ الزام صرف یہ ہے کہ حضرتﷺ شہوت پرستی کے لحاظ سےاپنےنفس پر قادر نہ تھے۔ جس وقت کوئی عورت اُن کے دل میں بس گئی فوراً چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو اس سے مل بیٹھتے۔ زینب اگر اس وقت ان کےدل میں بس جاتی تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ اس وقت ان کے دل میں اپنے واسطے اس کے لئے جگہ نہ تھی۔ شفقت پدرانہ سے اپنے عزیز فرزند زید کو دےکر اس کو اپنی بہو بنانااور زید کا مرتبہ بڑھا نا منظور تھا۔ مگر اتفاقاً جو اس کو غسل کرتے ایک نظر دیکھ پایا، آتش شہوت افروختہ ہوئی اور تاب صبر باقی نہ رہی اور وہ کیا جو کیا۔ اس طرح زینب کو دیکھنے کا آپکو اتفاق پہلے کبھی نہ پڑاتھا ۔پس پہلے نکاح نہ کرنے کا سبب بھی موجود تھا اور مابعد نکاح کرنے کی اضطرابی کا بھی۔

۲۔ حکیم صاحب نے ایک عذریہ بیان کیا ہے کہ:

’’ قوم اور ملک اور رسوم کے مخالف حضرت کو دو عظیم مشکلوں کا سا منا پڑا ایک تو خدا کےقول وفعل کے مطابق تبنیت کا توڑنا اور دوسرا ایک مطلقہ عورت سےشادی کرنا۔ عرب جاہلیت میں سخت قابل ملامت و نفرت اور ذلت تصور کرتے تھے نکاح کرنا۔ مگر چونکہ عقلاًَ ورسماً وشر عاً یہ افعال معیوب نہ تھے اور ضرورتھا کہ مصلح وہادی خود نظیربنے تاکہ تابعین کو تحریک وترغیب ہو‘‘( فصل الخطاب، صفحہ۱۵۷)۔ 

(اول) رسم تبنیت کا توڑنا ۔

حضرت نےاس رسم کو خود اختیار کیا تھا۔ زید کو اپنا بیٹا بنایا تھا۔ اس کو اپنا وارث گردانا تھا۔ جیسا بتا یا گیا ،زینب کا نکاح ۵ ہجری میں ہوا اس سے قبل ۱۸ سال تک آپ اس رسم کو اپنے زمانہ نبوت میں بھی برتتے رہے اور اس میں کوئی رسمی یا عقلی یاشرعی عیب نہ دیکھا۔ اگر یہ ’’ خدا کےقول وفعل کےمطابق ‘‘ نہ تھا تو ۱۸ سال زمانہ نبوت میں حضرت کیا کرتے رہے تھے اور کیوں اس گمراہی میں مبتلا رہے۔ پھر اگر یکایک معلوم ہو گیا کہ وہ رسم معیوب ہے تو کیا صرف یہ کہہ دینا کہ خدا حکم کرتا ہے کہ متبنیٰ بیٹے اصلی بیٹے نہیں اور تبنیت اسلام میں شرعاًنا جائز ہے، اس رسم کو مٹانےکےلئے کافی نہ تھی۔کیا ضرور تھا کہ تبنیت کو ناجائز ثابت کرنے کے لئے متبنیٰ کی جورو چھینی جائے؟ دیکھو شراب اسلام میں ایک مدت تک حلال رہی مابعد حرمت شراب کا حکم ہوا،شراب حرام ہوگئی۔ ڈسکوری صاحب فرماتے ہیں:

’’آنحضرت صلعم کا یہ فعل لوگوں کےلئے عملی نمونہ اور نظیر ٹھہر کر عرب اور تمام دنیائے اسلام سے یہ واہی رسم ہمیشہ کےلئے اُٹھ گئی‘‘(صفحہ۱۲،۱۱)۔

اور پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ :

’’ عربوں میں یہ رسم پھیل رہی تھی کہ جو شخص اپنی عورت کو ماں کہہ بیٹھتا وہ اس کےحق میں بمنزلہ حقیقی ماں کے ہوجاتی اور ہمیشہ کےلئے اُس سے جد ا ہوجاتی ۔اللہ تعالیٰ نےاُن دونوں رسموں کو(ظِہار اور حرمت متبنیٰ) توڑ ڈالا‘‘(صفحہ ۹،۸)۔

اب سوچو تو کہ ظِہار(فقہ کی اصطلاح میں مرد کا اپنی بیوی کو ماں یا بہن یا ان عورتوں سے تشبیہ دینا جو شرعاً اس پر حرام ہیں) سے قدیم رسم جس سے وہ زوجہ جس کو ماں کہا جاتا تھا اور وہ شوہر پر حرام ہو جاتی تھی کسی’’ عملی نمونہ اور نظیر‘‘ کے ٹوٹ گئی ۔ کوئی ضرورت نہ ہوئی کہ حضرت اپنی جورؤوں میں سے کسی کو پہلے اماں کہیں اور پھر اُس کو اپنے اوپر حلال گردان کر نمونہ بنیں۔ حالانکہ خدیجہؓ کو جو آپ کو ’’نو ردیدہ ‘‘ کہاکرتی تھیں (حیات القلوب ، صفحہ ۹۵)باآسانی تمام آپ ایسا کہہ سکتے تھے ،کیونکہ عمر کےاعتبار سےآپﷺ لوگوں کی عِندیہ (رائے)میں حضرت اُن بڑی بی کے روبرو بالکل صاحبزادے تھے۔ تو پھر اگر حضرت اپنےمتبنیٰ کی جورو لئے بغیر اُس رسم کو مثل ظہار کے توڑواڈالتے تو کیا خرابی برپا ہوتی۔ مولوویو ذرا ہوش کی باتیں کرو ۔حکیموں اپنے دماغ کا علاج کر و۔ نئی روشنی وعقل کے ناخن لو۔ اس واقعہ سےقبل جب آپ چاہتے تبنیت کو ناجائز قرار دیتے، مگر نہیں۔ آج ناجائز قراردیتے ہیں جب متبنیٰ کی جورو پر عاشق ہوئے اُسے بے ستر دیکھا۔

(دوم) مطلقہ عورت سے نکاح کرنا

عرب جاہلیت میں اس کو حرام سمجھتے تھے ۔آپ ثابت کریں کہ یہود میں بھی یہ فعل ناجائزنہ تھا اور زینب کے نکاح سے قبل مسلمان مطلقہ عورتوں سے نکاح کیا کرتے تھے۔ چنانچہ دفعہ ہشتم میں ہم نے دکھا دیا کہ مہاجرین اور انصار عموماَ اس واقعہ سے ۵ برس قبل بھی مطلقہ عورتوں سے بڑی آرزو کے ساتھ نکاح کرلیا کرتے تھے اور حضرت کی زوجہ میمونہ کے ایک شوہر کا نام مسعود بن عمرتھا۔ اُس سےطلاق پاکر اُس نےدوسرا شوہر کیا تھا جس کی وفات پر وہ حضرت کی جوروبنی تھی( روضتہ الاحباب ، صفحہ ۵۹۸ )۔ اور حضرت ﷺکی ایک اورجورو لیلیٰ بنت حظیم کا ذکر ہے کہ اُس نے حضرت سے طلب فسخ نکاح کیا اور حضرت نے اُس کےنکاح کو فسخ کیا۔ اس نے جاکر دوسرا شوہر کیا اور بچے جنے (منہاج جلد دوسری، صفحہ ۸۸۰)۔اسی طرح حضرت کی جورو زینب ام المساکین نے اپنے ایک شوہر طفیل سے طلاق پا کر دوسرے شوہر عبیدہ سے نکاح کیا تھا۔ پس اس کی بھی مطلق ضرورت نہ تھی کہ آپ نظیر بنیں۔ آپ سےپہلے لوگ اُس کی نظیر بنے ہوئے تھے۔ضرورت صرف اس کی تھی کہ حضرت متبنیٰ کی جورو سےعشق لگائیں اور اُس کو طلاق دلواکر جورو بنائیں اور خدا پر بہتان باندھیں اور بندوں کو گمراہ کریں اور اپنے حامی مولویوں کونادم کرائیں۔ مولوی صاحب ہم کو بتائیں تو کہ حضرت کی اس سنت کےبعد کتنے لوگوں نےاپنے متبنیٰ فرزندوں کی جورؤوں سے نکاح کیا اور عرب کو فائدہ پہنچایا؟ڈسکوی صاحب کے اُستاد حضرت کی صفائی میں یہ بھی فرماتے ہیں اور یہ اُنہیں کے حصہ کا ہے کہ:

’’اگرچہ کچھ دال میں کالا معاذ اللّٰہ ہوتا تو یہ حال آپ کی کتاب قرآن مجید میں کیوں مذکور کیا جاتا۔کوئی بھی ایسی خفیہ بات کو یوں اشتہار دیا کرتا ہے ۔دشمنوں کے مذاق پر پوشیدہ یابغیر تصریح ہی کارروائی معاذ اللہ ہوسکتی تھی ۔قرآن شریف میں بہر نمط(وضع قطع) اُس کےذکر سے کچھ فائدہ نہ تھا ۔پھر کو ن اس قصہ کو ہمیشہ یاد رکھتا ، چند روز میں صورت قصہ کی بدل جاتی‘‘(صفحہ۵۶)۔

اجی حضرت اونٹ کی چوری نہورے نہورے (نہورا:خوشامد۔احسان رکھنا)!  زید محمدﷺ کا ۳۲ برس کا فرزند ابن محمدﷺ، اس کی جورو پر ی تمثال پر غسل کی بے ستری میں آپ کا عاشق ہونا ،زید کا طلاق دینا اور محمدﷺ صاحب کا جورو بنانا( نہان کئے ماند آن رازےکروسازند محفلہا ) یہ دال میں کالا نہیں بلکہ دال میں بھینسا تھا ۔کیا حضرت کےامکان قدرت میں تھا کہ اس پر راکھ ڈال دیتےاس معاملہ کا’’ دشمنوں کےمذاق پر پوشیدہ یا بغیر تصریح رہنا‘‘یاروں کی کوشش سے باہر تھا اورا یوان نبوت مسمار ہوا جاتا تھا۔بجزاس کے کوئی چارہ نہ تھا کہ حضرت ﷺخدا پر بہتان باندھیں اور اپنی بریت قرآن مجید سے چاہیں اور جاہل گنواروں کی مت ماریں۔ پس قرآن مجید میں یہ معاملہ آیا اور اُس وقت حضرت کی نبوت کی قلعی نہ کھلی۔ پس قرآن شریف میں بہر نمط اُس کےذکر سےیہ کچھ فائدہ تھا۔اگر قرآن مجید میں یہ قصہ یوں نہ آتا تو یہ تو سچ ہے کہ’’ کون اس قصہ کو ہمیشہ یاد رکھتا ‘‘ مگر پھر یہ بھی سچ ہے کہ حضرت کی نبوت طاق نسیان میں رکھی ہوئی ملتی اور آج مولوی صاحبان کا وجود نہ ہوتا۔ اس قصہ کی مثال یوں ہے کہ آپ عشق زینب کو بہم نبوت پر ایک دُنبل تصویرفرمائیں۔قرآن مجید میں اس کا وجود ایک نشتر ہے جس نے مواد خارج کرکے ایک دوامی داغ لگادیا ۔ اگرنشتر نہ لگتا تو مریض مدت کا مر چکتا، اس داغ نے بچا لیا۔ مگر دیدہء بصیرت چاہے مولوی صاحب بتائیں تو کہ بجز اس کےاور کون’’ کاروائی ہو سکتی تھی‘‘۔ کیا یہ کہ حضرت زینب کو چھپے چھپے اپنے پاس رکھتے اور وہ ہمیشہ زید کی جو رو کہلاتی اور کسی کو خفیہ کارروائی کی خبر نہ ہوتی۔ ہاں ہم مانتے ہیں کہ یہ ممکن تھا کہ حضرت زیدکو راضی کر لیتے، اس کا راضی ہونا دشوار نہ تھا ۔مگر عائشہؓ اور حفصہ سے کیسے بچ سکتے جنہوں نے ایک دم میں ماریہ لونڈی کا حال ( جو آگے آئے گا) فاش کردیا تھا ۔وہ اس تعلق کو بلاتامل مشتہر کر دیتیں اورحضرت کی دقتیں اور بڑھ جاتیں۔ حضرت نے جوتجویز سوچی وہ تمام تجویز وں سے بہتر تھی اور اس کی مصلحت ہم نےدکھا دی۔ اب تو مولوی بھی ہماری داد دیں گے۔

دفعہ دہم

مطاعن

اس نکاح سے حضرت پر یہ الزامات لگتےہیں۔

۱ ۔ اُنہوں نےجس رسم کو مان کر زید کو اپنا بیٹا بنایا تھا اور جس رسم کو ایک مدت تک مانتے رہے تھےاورجس میں کوئی خرابی نہ تھی ،اس کو محض اپنی غرض نفسانیہ کی وجہ سے توڑا تاکہ اُن پر سےالزام دفع ہو۔حالانکہ اس کا ایک جز اپنی غرض کےلئے ہمیشہ مانا کئے یعنی ا ن کی جو رو ان مسلمانوں کی ماں ہیں پر یہاں ڈسکوی صاحب کےمُنہ میں زبان نہیں کہ فرمائیں۔’’ صرف مُنہ سے کہہ دینا باہمی ناطہ رشتہ میں کوئی قاوح امر نہیں ہوسکتا۔ باہمی رشتہ ناطہ کے وقت نسب اور حقیقت کا اعتبار ہوگااور عقل بھی یہی چاہتی ہے‘‘(صفحہ۵۳)۔ جب محمدﷺ فرماتے ہیں ازواجہ امہام تہم نہ معلوم اس وقت آپ کی عقل کہاں چرنے چلی جاتی ہے۔

۲۔ ایک عورت شوہر دار جس کا شوہر مثل فرزند کےآپ سے علاقہ محبت رکھتا تھا، اس سےحضرت نےعشق لگایا۔

۳۔ حضرت چاہتے تھے کہ زید زینب کو طلاق دے مگر دل کے خلاف حد کھانے کو زبان منع کرتے تھے۔

۴۔ زید وفادار کی سادہ لوحی اور ناسجھی سے ناواجب فائدہ اُٹھا یا اور اُس سے وہ کرایا جو کوئی نہ کرتا۔

۵۔ان تمام باتوں کو حضرت نے خدا کے حکم سے منسوب کیا اور خدا پر الزام لگایا کہ اُس نے اُنکو حکم دیا کہ زینب سےاس طرح نکاح کرلیں اور خود نکاح خدا نے کردیا۔ ایسی ناپاک باتوں کو خدا سے منسوب کرکے سخت کفر کیا۔

۹۔ جویریہؓ کے حالات

’’ ایک زوجہ آپ کی جو یر یہ بنت حارث تھیں۔ جو یریہ کوایک مسلمان نے لڑائی بنی مصطلق میں گرفتار کرلیا تھا ۔ اس سے اُس نے قرار کرلیا تھا کہ کچھ روپیہ لے کر مجھے آزاد کر دینا۔ جویر یہ نے آنحضرت سےاتنا روپیہ طلب کیا۔ آپ نے اس کو مرحمت(مہربانی۔رحم) فرمایا اس عنایت کا معاوضہ اوراپنے رہا ہو جانےکا شکریہ جویر یہ نے یہ ادا کیا کہ آپ سےعقد کرلیا ۔ جو نہی مسلمانوں نے اس عقد کا حال سنا کہنے لگے ۔ اب بنی مصطلق پیغمبر خد اکے اعزامیں داخل ہیں پس اُن سےاسی طرح پیش آنا چاہیے ۔۔۔ چنانچہ قریب سواسیروں کےمع عیال واطفال رہا کردیئے‘‘ (صفحہ۳۱۰)۔ اس کے حالات سید صاحب نے بڑے تصرف کےساتھ بیان کئے ہیں جس میں صرف حضرت کی فیاضی اور کرم دکھا نا منظور ہے، مگر حضرت اس کو آزاد کرانے سےقبل اس پر عاشق ہو چکے تھے اور اسی اُمید سےآزاد کریا تھا کہ جوروبنائیں کیونکہ’’ یہ عورت نہایت شیریں اور ملیح اورصاحب حسن وجمال اس درجہ میں تھی کہ جو اُسے دیکھتا فریفتہ ہوتا ۔ عمر اس کی ۲۰ سال تھی ‘‘( منہاج ،صفحہ ۸۷۰،۸۶۹)۔اس کو دیکھ کر حضرت ضبط کیسے کر سکتے وہ بھی فریفتہ ہوگئے۔ چنانچہ خود حضرت کی پیاری بی بی عائشہؓ سے منقول ہے کہ:

’’رسول خدا ایک چشمئہ آب پر میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ یکایک جویریہ پیداہوئی، آتش غیر ت میرے درمیان پڑی کہ مبادا حضرت طرف اُس کے رغبت کریں اور منسلک ازواج میں اپنے اُسے لائیں‘‘(ا یضاً )۔

یہ عورت بھی سُن چکی ہوگی کہ اس کے متاع حسن و جمال کا خریدار اس بازار میں کون ہے اور کون سب سے زیادہ قد ر کرےگا۔ چنانچہ وہ حضرت کےپاس آئی اور بیان کیا کہ میں اسیر ہوں اور جس طرح بلی خدا کےلئے چوہے نہیں مارتی، حضرت بھی نام اللہ کے لئےعورت رہا نہیں کرتے ۔ آپ کی غرض اَور ہے ،عشق میں مبتلا ہوچکے تھے اور اپنے دل کو آزاد کرتے ہیں فرمایا ’’تیری مراد حاصل کرتا ہوں۔۔۔ اور تجھے اپنے حبالہ نکاح میں لاؤں‘‘ (صفحہ۸۷۰)۔ مگر ایک بات یاد رکھنا چاہئے کہ یہ عورت حارث سپہ سالار کی بنی مصطلق کی دختر تھی ۔اس کا باپ اس کا فدیہ دینے والاتھا۔ چنانچہ واقدی میں لکھاہے کہ:

’’ وہ واسطے فدیہ دینے اپنی لڑکی کے آیا تھااورنکاح کرنا حضرت کا جویریہ سے ناگوار ہوا ،مگر اُس کے قرابت داروں میں سے ایک نےعقد تزویح جویریہ کا حضرت علیہ السلام سے کردیا تھا ۔تب حارث نے اس بات پر اُس شخص کو سخت ملامت کی‘‘ (واقدی، صفحہ۳۰۲)۔

معلوم ہوتا ہے کہ حضرت کوبھی حارث کے آنے کا اندیشہ تھا کہ وہ نکاح سے مانع ہوگا۔ فدیہ دے کر چُھڑا لےجائے گا۔ اس وجہ سے حضرت نے جلدی کی جھٹ سے نکاح کی ٹھہرایا اور جویریہ کےرشتہ داروں کو اسیری سےرہائی کا وعدہ بشرط نکاح دےکر اُن کو نکاح کردینے پرراضی کرلیا جس کو حارث نے نفرت کی نگاہ سےدیکھا ۔ یہاں سے جویریہ کےلوگوں کی رہائی کا سبب عیاں ہے۔پس بنی مصطلق کےاسیروں کارہا ہونا یہ کوئی بڑی فیاضی نہ تھی۔

اول تو یہ ان کی خدمات کاصلہ تھایانہ سہی۔ حضرت نے اپنی معشوقہ کا دل خوش کرنےکو یہ کیا ہوگا اوراس میں بھی اپنی گا نٹھ سے کیا کھویا، مال مفت دل بے رحم ۔مسلمانوں نے اپنے سپہ سالار محمدﷺ کی خوشنودی کےلئے یہ کیا اور ایسا ہوتا ہی ہے۔ مگر نہیں اس میں بھی بڑا بھید تھا۔ حضرت ﷺ کا سراسر فائدہ تھا کیونکہ جویریہ کا صداق یعنی کابین(مہر) آزادی بنی مصطلق کے اسیروں کو گردانا ۔واقدی بھی لکھتا ہے کہ:

’’ رسول خداصلعم نے جویریہ بنت الحارث سے نکاح کیا اور مہراس کا یہ مقرر کیا کہ بعض جو قوم جویریہ سے اسیر تھے ان کو رہا کردیا اور یہ امر بعد آنے حارث کے ہوا‘‘(صفحہ۳۰۴)۔

اور یہ شرط اول اس وجہ سے ہوئی کہ رشتہ دار اس کے نکاح میں عذرنہ کریں ،ورنہ باپ جویریہ کا سخت مخالفت پر تھا۔دوم ،مہر کےتاوان سےنجات پائیں ۔سوم، عورت کا دل خوش کرکے اُس سے اپنا جی ٹھنڈا رہا کریں۔ بہرحال نکاح تو کیا ہی تھاکچھ مہر بھی چاہئے۔ ایسی شیریں وطبع حسین و جمیل نو عروس سپہ سالار بنی مصطلق کی بیٹی کا کچھ مہر ہونا وہ آزادی اسیراں تھا۔ تعریف اس میں جویریہ کی ہے کہ اس نےاپنا مہر ایسا قبول کیا جس میں سو جانیں چھوٹ گئیں او ر اس کو اس سےکچھ حاصل نہ ہوا۔ محمدﷺ نےکیا کِیا؟ جوروبنا لیا اور بس ۔یہی اُن کی فیاضی ہے ،یہی اُنکی حاتمی۔

۱۰۔ صفیہؓ کے حالات

’’ مجاہدین میں سے ایک صاحب نے جنگ خیبر میں ایک یہودیا صفیہ نامی کو بھی گرفتار کرلیاتھا۔ اس کو بھی آنحضرت نےاپنی جوروکرم کو کام فرما کر رہا کردیا اور خود اس کی خواہش سےاور اس کی رضا ور غبت سے اُس کےساتھ نکاح کرکے اس کو شرف زوجیت بخشا‘‘(صفحہ۲۱۱)۔ ’’اس کی خواہش سے اور اس کی رضاو رغبت سے ‘‘ اس کی کیا ضرورت تھی جو آپ تاکید کرتے ہیں۔ ہم کو شبہ ہوتا ہےشاید وہ جبر اََ جورو بنائی گئی ۔کل قرینہ اسی کاہے،تاریخ ہمارے ساتھ پڑھیئے ۔

دفعہ اول

صفیہ کابیوہ ہونا

اصل حال یہ ہے کہ’’ صفیہ بنت حئے بن اخطب ’’ بیوہ ‘‘ پسرابی عتیق تھی جن کا نام کنانہ تھا ۔ وہ حضرتﷺ کے ہجومیں اشعارکہتا تھااور وہ لوگوں میں بڑا شاعر مشہور تھا۔ چنانچہ حضرت نےاُس پر چند اشخاص کو مقر ر کرکے بھیجا تھا کہ انہوں نےاس کو قتل کیا تھا‘‘(واقدی۳۱۵،۳۱۴)۔

دفعہ دوم

با پ کی جواں مردی، بطل وتکزیب محمدﷺ

اُس کے باپ حئے بن اخطب کوکسی حضرت نے غزوہ بنی قریظہ کےا سیر وں کے ساتھ قتل کیا تھا۔ وہ واقعہ یوں ہےکہ ’’ جس وقت حئے اخطب حاضر کیا گیا تھا تو اُس سےرسول اللہ صلم نےفرمایا اےحئی کیا تجھ کوخدانے خوار نہیں کیا‘‘۔یہ قساوت(سنگ دلی) قلبی تھی ،مقتل پر جلّا دیوں طعنہ جگر ریش سناتا ہے ۔اُس نے کہا بڑی دلیری وتہوُّر(انتہائی دلیری)سے جو ایسے وقت میں قابل دادہے’’ ہر ذی روح ذائفہ موت کا پانے والاہےاور میرے لئے بھی ایک وقت معین تھا کہ میں اُس سےتجاویز نہیں کرسکتا‘‘۔ رضا بقضا اس کو کہتے ہیں ۔حقیقی اسلام اس کا نام ہے۔’’ اور تمہاری ضدوعداوت پر میں اپنے نفس کو ملامت نہیں کرتا ‘‘۔ یہ یہودی تھا۔ محمدﷺ کی بداخلاقیوں اور خون ریزیوں سےاُن کو دشمن خدا اور دشمن خلق خدا جانتا تھا ۔پس ضدو عداوت پر مستعد تھا۔اور ’’میں آج وقت فراق دنیا کی گواہی دیتا ہوں اس بات پر کہ تم کا ذب ہو‘‘۔ شاباش اےحئی ! شاباش اے شہید راہ خد ا ! شاباش اےاسرائیل کےپوت !دمِ واپسیں(نزع کا وقت) کی شہادت ہے۔ اس شہادت پر حئی اپنےخون سےمہر لگاتا ہے۔ اگر چاہتا کلمہ کہہ کر اصحاب محمدﷺ میں داخل ہو جاتا ،مگر نہیں زبان اس کے دل کےمطابق ہے ۔’’اور بے شبہ میں تمہارا دشمن ہوں۔ پس حضرت علیہ اسلام نےحکم اس کے قتل کا کیا‘‘۔ کچھ عبرت نہ حاصل کی ،ایسے صادق ناصح کا خون بہایا ۔تاآنکہ وہ قریب احجارالزیت کے جو مدینہ میں بازار کی جگہ ہے ماراگیا‘‘(واقدی،صفحہ۲۹۵)۔

؎ برمزار ِماغریباں نےچراغے نے گُلے   نے پرِپر وانہ باشدنہ شورِ بُلبلے

صفیہ کے شوہر کو تو حضرت اُس طرح قتل کراچکے تھے ،اس کےباپ کو حضرت یوں سنگ دلی سے آنکھوں کے سامنے قتل کراتے ہیں۔حئی کا خون تم کواے محمدﷺ زمین سے پکارتا ہے!

دفعہ سوم

اسلام صفیہؓ

صفیہ کو یہ حالات معلوم ہیں ۔ یہ دلائل نبوت و آثار پیغمبر ی حضرت کے مشاہد ہ کر چکی ہے۔ چنانچہ مورخ لکھتا ہے کہ جب حضرت کےپاس پہنچی ’’حق تعالیٰ نے صفیہ کے دل پر رشد و ہدایت القا کیا‘‘ حیف(افسوس) ہے۔ ’’ تب انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ و اللہ جب میں مدینہ ہی میں تھی تو خواہش اسلام رکھتی تھی او ر اسلام مجھ کو خوش آتا تھا۔بعد ازاں مجھ کو اسلام میں رغبت ہوتی رہی‘‘۔ ہم کو یہ سب یقین کرنا چاہیئےکیوں کہ واللہ کے ساتھ ہے’’ اور یہودیوں میں میراکون ہے، نہ ان میں میرا باپ ہے، نہ بھائی ہے کہ آپ نے میرے باپ اور میری چچا کی بیٹے اور میرے بھائی سب کو قتل کیا‘‘۔ مگر محمدﷺ کو عبرت نہیں ہوتی۔یہی باتیں تو صفیہ کی رشد و ہدایت کا باعث ہوتی ہیں۔’’پس اب تو اللہ اور رسول اور اسلام مجھ کو محبوب ترہیں‘‘(صفحہ۳۱۵)۔

؎ ایک آفت سےتو مرمر کےہواتھا جینا   پڑگئی اور یہ کیسی میرے اللہ نئی

پرانی روشنی کےلوگ اس بات کی حقیقت سےزیادہ آگاہ تھے۔ چنانچہ جب ابو ایوب انصاری حضور میں نبی ﷺکےآئے تھے تو اُن سے حال صفیہ کا اوران کےاہل کا جن کو قتل کیا تھاآپ نے ذکر کیا۔پس ابو ایوب کوصفیہ سےحضرت کی نسبت اندیشہ ہوا کہ وہ سوتےمیں اُن کو قتل کرے گی۔ تب ابو ایوب حضرت کی نگہانی کےلئے ساری رات درخیمہ پر شب باش رہے۔ صبح کو حضرت نے ابو ایوب سے دریافت کیا ۔’’ انہوں نے عرض کی کہ مجھ کو آپ پر صفیہ کی جانب سے خوف آیا کہ مباداوہ آپ کو اپنےباپ کےعوض سوتے میں قتل کرے، اس لئے میں نے نگہبانی میں یہیں شب بسر کی ۔آنجناب علیہ اسلام نےاُن کی تعریف و تحسین فرمائی(صفحہ ۵)۔

دفعہ چہارم

صفیہؓ کا حسن و جمال و حضرت کا عشق

یہ عورت بڑی حسینہ نو عروس ۱۷ برس کی تھی۔’’ جب صفیہ مدینہ میں پہنچی انصارکی نساؤں نے آواز ہ(شُہرہ) اس کے حسن و جمال کا سناتھا، واسطے تفرّج کے اُس کے پا س گئیں‘‘ اور عائشہؓ بھی چھپ کر اپنی سوت کو دیکھنے کو گئی تھی( منہاج ، صفحہ۸۷۴)۔ چنانچہ لکھا ہے:

’’ صفیہ خیبر کےاسیروں میں سے تھی اور نو عروس ۱۷ برس کی۔ پس ذکر کیا اُس کے حسن و جمال کا رسول خدا کے حضور ،پس پسند کیا اس جناب نے اس کو اپنےواسطے ۔۔۔ صفیہ اسیروں میں تھی اور دحیہ کلبی کے سہم میں آئیں اور عرض کی لوگوں نے حضرت سےکہ یا رسول اللہ وہ نہایت جمیلہ ہے اور سردار قبیلہ اور یہود کے شاہوں سے ایک بادشاہ کی بیٹی ہے ۔ ہارون پیغمبر کی اولاد میں سے،مناسب یہ ہے کہ وہ مخصوص آپ سے ہوں اور اصحاب کےدرمیان مانند دحیہ کے بہت ہیں اورغنیمت میں صفیہ کی مانند کم یاب ۔۔۔ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ دحیہ کو حضرت نے صفیہ کےچچا کی بیٹی دی عوض میں صفیہ کے،اَور ایک روایت میں یوں آیا ہے کہ خرید فرمایا صفیہ کو دحیہ سے سات جاریہ(لونڈی۔کنیز) دے کر‘‘(منہاج ، صفحہ ۵۰۲ ) ۔

اور صفیہ کا یہ واقعہ توصحیح مسلم میں ہے، پارہ دوم

صحیح مسلم ۔ جلد دوم ۔ نکاح کا بیان ۔ حدیث ۱۰۰۴

راوی: زہیر بن حرب , اسمعیل , ابن علیہ , عبدالعزیز , انس

حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ يَعْنِي ابْنَ عُلَيَّةَ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا خَيْبَرَ قَالَ فَصَلَّيْنَا عِنْدَهَا صَلَاةَ الْغَدَاةِ بِغَلَسٍ فَرَکِبَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَکِبَ أَبُو طَلْحَةَ وَأَنَا رَدِيفُ أَبِي طَلْحَةَ فَأَجْرَی نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي زُقَاقِ خَيْبَرَ وَإِنَّ رُکْبَتِي لَتَمَسُّ فَخِذَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَانْحَسَرَ الْإِزَارُ عَنْ فَخِذِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنِّي لَأَرَی بَيَاضَ فَخِذِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا دَخَلَ الْقَرْيَةَ قَالَ اللَّهُ أَکْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَائَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ قَالَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَ وَقَدْ خَرَجَ الْقَوْمُ إِلَی أَعْمَالِهِمْ فَقَالُوا مُحَمَّدٌ وَاللَّهِ قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا مُحَمَّدٌ وَالْخَمِيسُ قَالَ وَأَصَبْنَاهَا عَنْوَةً وَجُمِعَ السَّبْيُ فَجَائَهُ دِحْيَةُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعْطِنِي جَارِيَةً مِنْ السَّبْيِ فَقَالَ اذْهَبْ فَخُذْ جَارِيَةً فَأَخَذَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ فَجَائَ رَجُلٌ إِلَی نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَعْطَيْتَ دِحْيَةَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ سَيِّدِ قُرَيْظَةَ وَالنَّضِيرِ مَا تَصْلُحُ إِلَّا لَکَ قَالَ ادْعُوهُ بِهَا قَالَ فَجَائَ بِهَا فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خُذْ جَارِيَةً مِنْ السَّبْيِ غَيْرَهَا قَالَ وَأَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا فَقَالَ لَهُ ثَابِتٌ يَا أَبَا حَمْزَةَ مَا أَصْدَقَهَا قَالَ نَفْسَهَا أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا حَتَّی إِذَا کَانَ بِالطَّرِيقِ جَهَّزَتْهَا لَهُ أُمُّ سُلَيْمٍ فَأَهْدَتْهَا لَهُ مِنْ اللَّيْلِ فَأَصْبَحَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرُوسًا فَقَالَ مَنْ کَانَ عِنْدَهُ شَيْئٌ فَلْيَجِئْ بِهِ قَالَ وَبَسَطَ نِطَعًا قَالَ فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيئُ بِالْأَقِطِ وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيئُ بِالتَّمْرِ وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيئُ بِالسَّمْنِ فَحَاسُوا حَيْسًا فَکَانَتْ وَلِيمَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ:

’’ زہیر بن حرب، اسماعیل، ابن علیہ، عبدالعزیز، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کا غزوہ لڑا ہم نے اس خبیر کے پاس ہی صبح کی نماز اندھیرے میں ادا کی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوار ہوئے اور ابوطلحہ بھی سوار ہوئے اور میں ابوطلحہ کے پیچھے بیٹھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کے کوچوں میں دوڑ لگانا شروع کی اور میرا گھٹنا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ران سے لگ جاتا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ازار بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ران سے کھسک گیا تھا اور میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ران کی سفیدی دیکھتا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بستی میں پہنچے تو فرمایا اَللَّهُ أَکْبَرُ خیبر ویران ہوگیا بے شک ہم جب کسی میدان میں اترتے ہیں تو اس قوم کی صبح بری ہو جاتی ہے جن کو ڈرایا جاتا ہے ان الفاظ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا اور لوگ اپنے اپنے کاموں کی طرف نکل چکے تھے انہوں نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) آچکے ہیں عبدالعزیز نے کہا کہ ہمارے بعض ساتھیوں نے یہ بھی کہا کہ لشکر بھی آچکا راوی کہتے ہیں ہم نے خیبر کو جبراً فتح کرلیا اور قیدی جمع کئے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس دحیہ حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے نبی مجھے قیدیوں میں سے باندی عطا کردیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جاؤ اور ایک باندی لے لو انہوں نے صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت حیی کو لے لیا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک آدمی نے آکر کہا اے اللہ کے نبی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دحیہ کو صفیہ بن حیی بنوقریظہ و بنونضیر کی سردار عطا کر دی وہ آپ کے علاوہ کسی کے شایان شان نہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دحیہ کو باندی کے ہمراہ بلاؤ چنانچہ وہ اسے لے کر حاضر ہوئے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دیکھا فرمایا کہ تو اس کے علاوہ قیدیوں میں سے کوئی باندی لے لے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں آزاد کیا اور ان سے شادی کی ثابت راوی نے کہا اے ابوحمزہ اس کا مہر کیا تھا؟ فرمایا ان کو آزاد کرنا اور شادی کرنا ہی مہر تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راستہ میں پہنچے تو اسے ام سلیم نے تیار کر کے رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بحالت عروسی صبح کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کے پاس جو کچھ ہو وہ لے آئے اور ایک چمڑے کا دستر خوان بچھوا دیا چنانچہ بعض آدمی پنیر اور بعض کھجوریں اور بعض گھی لے کر حاضر ہوئے پھر انہوں نے اس سب کو ملا کر مالیدہ حلوا تیار کرلیا اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ولیمہ تھا۔ ‘‘۔ 

پھر لکھا ہے کہ آزادی اس کا مہر تھا۔ دیکھو اس ۱۷ برس کی حسینہ و جمیلہ شہزادی کو ایک حریف اڑائے لئے جاتا تھا۔ حضرت نے تاڑا اور دحیہ کے ہاتھوں سے بقول جناب’’ اپنے جو رو کرم کو کا م فرما کر رہا کردیا‘‘۔واہ رے جورو کرم واہ! حاتم کی گور پر لات مارنا اسی کو کہتے ہیں۔

بقول سعدی شیرازی ؎

شنیدم گو سپندے رابزرگی   رہا نید ازدہان ودست گرگے
شبان گاہ کارو بر خلقش بمالید   روان گو سپندازوی بنالید
کہ از چنگال گر گم درر بودی   چو و یدم عاقبت گرگم تو بودی

ابوالفد امیں ہے کہ ’’ صفیہ سے رسول مقبول نے اپنا نکاح کیا اور آزاد کردینا اسکا مہر مقررفرمایا‘‘(صفحہ۳۳۱) بہر حال اس کو جورو بنایا اور اس کے صلہ میں جو کچھ اُس سے کیا ،سلوک یا بد سلوک اُس کےلئے ہم محمدﷺ کی نبوت کےمشکور ہیں۔ ہم کو یہ آزادی بالکل جویریہ کی آزادی معلوم ہوتی ہے۔

دفعہ پنجم

صفیہؓ سے جبر اًَصحبت

مگر آپ کے سخن میں ہے کہ حضرت ﷺنے خود اس کی خواہش سے اور اس کی رضا ورغبت سےاس کے ساتھ نکاح کیا۔ اس میں کلام ہی قیرینہ اس کے خلاف ہے کیونکہ روضتہ الاحباب جلد اول صفحہ ۵۹۵ میں ہے ’’ چوں بمنز لےرسید ند کہ انراتبا رمیگفتذ واز انجاتاخیبر شش میل راہ است خواست کہ بادے زفاف کند صفیہ راضی نشد امتناع نمو د چنانچہ حضرت ازوی درغضب رفت و چوں بمنز ل صبہارسید ند باام سلیم مادر اِنس گفت کار سازی دے بکسنید کہ امشب بادی زنان خوہم کردرام سلیم بموجب فرمودہ اور انجیمہ بردوموے سردے شانہ کردو اوراخوش بوے ساخت ام سلیم گوید صفیہ زنے بود بغایت جوان چنانچہ درانوقت ھنوز ہفتد ہ مصالہ بود وزینت و زیورویرامی برازید باوگفتم چون پیغمبر صلم پیش تو آید بر خیز ی واقبال نمائی بروے وامتناع نہ نمائی صفیہ قبول نمودہ دران منزل حضرت باوے زفاف نمود‘‘۔ یہ اچھی ام سلیم تھی۔ جوان جوان عورتوں کو اس عورتیں اور خوشبو پسند کرنےوالے نبی سے بنا کر سنگار کرا کرملایا کرتی تھی ۔ایسی عورتوں کو کُٹنی(دلالہ) کہتے ہیں۔ مگر بٹالہ کےمولوی کی زبردستی بھی قابل داد ہے ۔آپ فرماتے ہیں ’’ حضرت صلعم نےحضرت صفیہ کےجمال با کمال کےشوق سے ان سے نکاح نہیں کیا بلکہ صرف اُن کی درخواست سے ‘‘(صفحہ ۱۸۷)۔یہ ہوتا تو ان کے ہوتے اسی سال دو بوڑھیا عورتوں (ام حبیبہؓ و میمونہ ؓ) سےآپ کا نکاح ہر گز نہ ہوتا،کہ کس درجہ حضرت صفیہ پر شیدا تھےاور کیسی کیسی بے صبری کرتے تھے اورام سلیم کی مدد لیتے تھے اور مطلق نہ خیال کرتے تھےکہ یہ عورت جس کے عزیز رشتہ داروں کا خون ابھی زمین پر سو کھا بھی نہیں ذرا دم لینے پائے۔ کچھ توہم دکھا چکے اور کچھ اور آگے دکھائیں گے۔ام حبیبہ ااور ممیونہ کا حال آئندہ آئے گا کہ کس غرض سےاُن سے نکاح کیا تھا۔

دیکھو پہلی منز ل تک تو یہ صفیہ حضرت سے راضی نہ ہوئی اور کہہ چکی تھی’’ آپ نےمیرے باپ اور چچا کےبیٹے اور میرے بھائی سب کو قتل کیا‘‘۔ بےچاری اپنے باپ ،بھائی اور شوہر کے قاتل سےراضی ہوتی کیسے ۔اور جب حضرت خیمہ میں اس کےساتھ رات بسر کرتے ہیں تو ابو ایوب پہرہ لگاتے ہیں، مبادا وہ حضرت کو اپنے باپ کے عوض سوتے میں قتل کرڈالے اور اُسی کو جناب فرماتے ہیں’’ خود صفیہ کی خواہش سےاور اس کی رضاورغبت سےاُس کے ساتھ نکاح کیا‘‘۔ شاید رضاورغبت کی تعریف ہائی کوٹ کلکتہ میں آپ بھی کرتے ہیں۔اس کو زنا بالجبرکہتے ہیں ۔مگر آپ اس کو ’’ جودو کرم کو کام فرمانا‘‘ کہتے جائیں یا کچھ اَور کہیں زبان آپکی ہے۔

۱۱۔ میمونہؓ کا حال

’’ میمونہ جن سے آپ نےمکہ میں عقد کیا تھا،آپ کی عزیزتھیں اور پچاس برس سےزیادہ ان کا سن ہو چکا تھا ۔ان کا نکاح جو آپ کے ساتھ ہو اتو ایک فائدہ تو اس سے یہ ہوا کہ ایک غریب رشتہ دار کی گزارن کی صورت نکل آئی ،دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ مشہور و معروف شخص اسلام کے شریک ہوگئی یعنی عبداللہ ابن عباس اور خالد بن ولید‘‘(صفحہ۳۱۱)۔

دفعہ اول

میمونہ کےرشتہ دار

نکاح میمونہؓ سن سات ہجری میں ہوا ۔ا گر دراصل میمونہ کی عمر ۵۰ برس کی تھی تو حضرت اس وقت اچھے خاصے ساٹھے سوپاہٹی تھے ،کیا براجوڑا تھا۔ حضرت کی جورؤوں میں ان سے زیادہ عمروالی کوئی نہ تھی۔ مگر بڈھی یہ بھی نہ تھیں۔ ان کے حسن و جمال اور کاٹھی اور طبیعت کا حال حضرت کےسخن سےعیاں ہے۔چنانچہ محمد حسین صاحب اپنے خطبہ میں(صفحہ ۳۳۰ )نقل کرتےہیں:

’’آپ نےاپنی ازواج مطہرات ام سلمہ اور میمونہ کو ایک نابینا سےپردہ نہ کرنے اور یہ عذر کرنے پر کہ وہ اندھا ہے یہ فرمایا کہ کیا تم بھی اندھیاں ہو،کیا تم اس کو نہیں دیکھتیں‘‘۔

حضرت کو فتنہ کا اندیشہ تھا۔ میمونہ کی ماں کا نام ہند تھا۔ اس کی کئی بیٹیاں تھیں ،سب حسن و جمال کے لئے مشہور ۔بیٹیاں چار( ۴ )تھیں مگر داماد ۱ چھ(۶)ہوئے۔ ایک داماد اُس کے عباس تھے، ایک جعفر بن ابی طالب، ایک بوبکر تھے اور ایک حضرتﷺ بھی اس کےداماد تھے ۔ کیونکہ اُس کی ’’ایک بیٹی اسمابینت عمیس جو مشہور صاحب حسن و جمال تھی‘‘ یکےبعد دیگرے جعفر ،ابو بکر اور علی سے بیاہی گئی اور ولید بن مغیرہ خالد کا باپ بھی اس کا ایک داماد تھا اور خالد میمونہ کا سگا بھا نجا تھا(منہاج جلد۲، صفحہ ۲۷۵)۔ یہ ہم نے اس لئے لکھا مبادا ہمارے سید صاحب کہہ دیں کہ میمونہ بےوالی وارث در بدر ماری ماری پھرتی تھی اور حضرت نے ’’ جو دو کرم کو کام فرمایا ‘‘۔ مولوی محمد حسین کہتے ہیں :

’’میمونہ کےنکاح سےبیوہ پروی کےعلاوہ ایک عجیب ولطیف رحیمانہ پولیٹکل پالیسی مدنظر تھی۔ حضرت میمونہ مکہ والے مخالفوں اور آنحضرتﷺ کے جانی دشمنوں کےاقرباسے تھیں۔۔۔ آنحضرتﷺ عمرۃ القضاء کےلئے مکہ مکرمہ میں پہنچے تو آپ نےمیمونہ کو نکاح کا پیام بھیجا۔ حضرت عباس ؓنے آنحضرتﷺ سے ان کا نکاح کردیا ۔جب عمرہ سے فارغ ہوئے اور تین روز مدت قیام مکہ کے گزرگئے تو کفار مکہ اخراج کےخواہاں ہوئے۔ میمونہ کے رشتہ دار آنحضرتﷺ کے پاس آکر بولے ہم آپ کو عہد یاد دلا کر کہتے ہیں کہ آپ مکہ سے نکل جائیں ۔ اب تین دن عہد کےگزر گئے ہیں۔آنحضرتﷺ نے پولیٹکل مصلحت کا بھرا ہوا یہ کلمہ فرمایا کہ میں نےتمہاری قوم میں سے ایک عورت سے یہاں نکاح کیا ہے۔ میں اس سے زفاف چاہتا ہوں۔ اس کلام معجزنظام اور اس پالیسی پولیٹکل مصلحت کی بھری ہوئی نے اُس وقت لوگوں پر اثر نہ کیا‘‘(صفحہ ۱۹۰،۱۸۹)۔

یہ تومعلوم ہے کہ نہ یہ عورت محتاج تھی ،نہ بے والی وارث ۔جمال کے لئے یہ خاندان مشہور تھا۔ عمر کےلحاظ سے حضرت سے ۱۰ بارہ برس کم ۔ پولیٹکل پالیسی بھی اس نکاح سے یہ منظور تھی کہ مکہ میں قیام کرنے اور نقض عہد کرنے کا حیلہ ہاتھ لگے۔ پس ہم خرماوہم ثواب (وہ فعل جس میں لذت بھی ہو اور کارِخیر)کا مضمون تھااور صفیہ کےبعد اس عورت سے نکاح کرنا بے محل نہ تھا۔ اور نہ پلاؤ قورمہ والی تقریر آپ کو زیب دیتی ہے ۔ میمونہ کو ’’جو کی سوکھی روٹی ‘‘ کہنا بجاتھا ۔حضرت کبھی کبھی یہ بیسنی روغنی روٹی بھی کھالیتے تھے۔ کوئی تعجب کا طعن نہیں۔ رہی یہ بات کہ عبداللہ اور خالد مسلمان ہوگئے تو یہ بھی امید کی جاتی ہے کہ میمونہ کا بھانجا یا بہنوئی حضرت کا بھانجا یا ہم زلف بننے کے واسطے جو کچھ کرتے تھوڑا تھا۔اب تو حضرت عرب کے بادشاہ تھے ۔سالوں ،سسروں کی کیا کمی تھی۔

دفعہ دوم

ہبہ نفس

مگر اس بی بی کے نکاح کی کیفیت قابل شنید ہے ۔اُنہوں نے اپنا نفس حضرت کو بخش دیا تھا۔ یہ نفس بخشی مسلمانوں کو اب نصیب نہیں ۔یہ خا ص حضرت کی ذات کی رعایت تھی۔ بلا مہر جس عورت کو چاہیں لے سکتے تھے۔ میمونہ نے اپنا نفس حضرت کو یوں بخش دیا اور آیت(سورہ احزاب رکوع ۷) ہبہ نفس اس پر نازل ہوئی تھی( منہاج۲،صفحہ ۸۷۶)۔

ہبہ نفس قبل نزول آیت ہبہ کےلوگوں کو کیسا معلوم پڑتا تھا ۔ہم ازواج محمدﷺ کی شہادت اس پر پیش کرتے ہیں ’’ کلینی بسند حسن ازامام محمدﷺ باقرروایت کرذاست کہ زنے ازالضا ر بخدمت رسول آمد خود را مشالگی کر وہ جامہائے نیکو پوشیدہ ورا نوقت حضرت بخانہ حفصہ یودپس گفت یا رسول اللہ اگر ترایمن حاجت سنت نفس خود رابتومی نجشم اگر قبول کنی مراپس حضرت اور ادعائے خیر کردحفصہ ان زن راملامت کردو گفت چہ بسیار کم است حیائی تو وچہ بسیار جرات می نمائی وحرص برمردان داری ‘‘( حیات القلوب ،صفحہ۵۶۸)۔ اسی طرح کئی عورتوں نے اپنا نفس رسول کو بخشا ۔یہ میمونہ بی بی ایسی ہی تھیں اور حفصہ نے جو کہالاریب حق ہے سرموخلاف نہیں۔ مگر آج کسی مسلمان کی بیٹی اپنا نفس کسی کو اس طرح بخشنے جائے تو وہ وہی کہے گا جو حفصہ نےکہا تھا۔

دفعہ سوم

ازواج حضرت ﷺکی بدگمانی

ہم ماریہ کا حال جس سے سید صاحب نے قطعی انکار کیا ہے آگے لکھیں گے ،مگر یہاں میمونہ کا حال کچھ اور لکھتے ہیں تاکہ ناظرین کو معلوم ہو جائے کہ حضرت کی عورتیں کیسا اُن کو بے اختیار سمجھتی تھیں او ر کس کس طرح کی حرکتیں عورتوں کے بارے میں حضرت سےروز سرزد ہوتی تھیں کہ ان کا خیال حضرت کی نسبت ایسا ہو گیا تھا۔

’’ میمونہ سےمروی ہے کہ کہا ایک شب میری نوبت کی شبوں سے رسول اللہ میرے پاس سے باہر گئے، اُٹھی میں اور دروازہ کو میں نے بند کیا۔ ایک لخطہ کے بعد پھر آئےاور دروازہ کو نہ کھولا میں نے ۔حضرت نے مجھے قسم دی کہ دروازہ کھول ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ میری نوبت کی شب دوسری بیبیوں کے گھر میں جاتے ہو، فرمایا ایسا نہیں کیا میں نے و لیکن قضائے حاجت کے واسطے میں گیا تھا‘‘(منہاج، صفحہ ۸۷۶)۔

پڑے پڑے چپکےسےچھپ کے آپ قضائے حاجت کےواسطے جاتے ہیں اور یہ بھی سچ ہے اور میمونہ کا کہنا بھی ۔حضرت نے اُمت کو بھی حکم دےدیا ہے کہ جورو کو خوش کرنے کی غرض سے جھوٹ بولنا مباح ہے۔ ہم سے خدیجہؓ کے باب میں کہا جاتا ہے کہ حضرت نے اس کے ساتھ پاک بازی سے ایک مدت گزاری ۔ہمیں کیسے اعتبار آئے ،نہ معلوم کس کس طرح اور کب کب حضرت قضائے حاجت کرآئے ہوں گےاو ر اس بےچاری کو خبر نہ ہوئی اور کیا عجب جو خبر بھی ہوئی ہواور اس نے بقول شخص ازخود دان خطاازبزرگان عطا ٹال دیا ہو۔


۹. ۔اس میں بھی وہ حضرتﷺ سے سبقت لے گئی تم کہتے ہو کہ محمدﷺصاحب کو لوگ جاہلیت میں امین کہتے تھے،اس کو اس سے بڑھ کر طاہرہ کہتے ہیں۔

۱۰. ۔بخاری میں روایت ہے کہ حضرتﷺ نے بیان کیا تھا کہ’’ میں نے بھی مکہ والوں کی بکریاں چند قیراط کی مزدوری پر چرائیں تھیں(مشارق الانوار،حدیث نمبر۸۸۵)جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خدیجہ سے پہلے کس درجہ تک اُتر چکے تھے۔