فصل ہفتم

حضرتﷺ کی لونڈیاں

علاوہ اِن کے حضرت کی لونڈیاں ہیں جن کا مطلق ذکرہمارے سید صاحب نے نہیں کیا بلکہ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ’’ ہمارے فقہانے لونڈیاں رکھنے کو جائز قرار دیا ہے۔ حالانکہ یہ فعل آنحضرت کے احکام کی اصل منشا کے خلاف ہے۔ تاہم اُس پر مخالفین اسلام نے نہایت سخت طعن کیا ہے‘‘ (صفحہ۳۱۸) ۔مگر مدارج النبوۃ والا نہیں مانتا ۔وہ صحیح تاریخ جس کی تائید ہر سیرت محمدی سے بجز جناب کی کتاب کے ہوتی ہے۔ حضرت کی چارلونڈیا ں بھی گناتا ہے(صفحہ ۸۸۲)۔ ہم یہاں دو کے حال تحریر کرتے ہیں جن کے حالات سے آپ نے خاص طور پرانکارکیا تھا۔

۱۔ ماریہؓ 

ماریہ بنت شمعون قطبی یہ کنیز سپید(سفید) پوست صاحب جمال تھی ۔مسلمان ہوئی تھی ۔حضرت ملکِ یمین(لونڈی) کر کے اُسے تصرف میں لائے تھےاور اس سے محبت رکھتے تھے ایسی کہ حضرت عائشہؓ صدیقہ اُس پر رشک کرتی تھیں۔ اور ابراہیم بن رسول اللہ اُس سے پیدا ہوا اور بھی مدینہ میں واسطے اس کے گھر تعمیر کیا گیا ۔ اب اُس جگہ کو مشربہ ام ابراہیم کہتے ہیں ‘‘( منہاج ،صفحہ ۸۸۲)۔ایسی کنیز ماریہ جس کےعشق میں حضرت اس درجہ مبتلا تھے کہ ان کی محبوبہ عائشہؓ بھی رشک کرتی تھی۔حضرت نے ازواج محمدﷺ کے زمرہ میں اس کا ذکر تک نہیں کیا۔اور ہم کو دو ایک عورتیں ضرورت سے زیادہ بڈھی کرکے دکھائیں اور حضرت کے ’’جودوکرم ‘‘کا راگ الاپا ۔پس اب آپ کو کوئی چارہ نہیں۔ آپ اس سے انکار کر جائیں۔ آپ بری روش اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ مولانا حالی کا سخن کتنا راست آرہا ہے۔ جنہیں ہو جھوٹ کو سچ دکھانا،اُنہیں سچوں کو جھٹلانا پڑے گا۔

دفعہ اول

تحریم ماریہ کا قصہ

سید صاحب اپنی انگریزی کتاب میں فرماتے ہیں کہ ’’جو حکایت حفصہ اور محمدﷺ کے خانگی تنازع کی اور باب ماریہ قبطیہ میور سپر نگر اور اوس برن نے کچھ مزا لےکر بیان کی ہے۔ ازسرتا پا جھوٹ محض اور ازراہ بعض کے ہے۔ یہ روایت جس کو تمام معز ز مفسرین قرآن باطل ٹھہرا چکے ہیں ۔ فی الحقیقت بنی امیہ یا کسی عباسی عیاش کے زمانہ میں بربنائے ضعیف ترین سندا یجاد کی گئی اور اُن عیسائی نکتہ چینوں نے نبی کو متہم کرنے کی غرض سے بڑی حرص کے ساتھ اس کو قبول کیا ہے۔ آیت قرآن مجید جو خیال کی گئی ہے کہ اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے ،دراصل ایک مختلف معاملہ سے علاقہ رکھتی ہے۔ محمدﷺ نے بچپن میں جب وہ اپنے چچا کے گلے چراتے تھے شہدکا شوق پیدا کر لیاتھا جو اکثر زینب کے پاس سے آتا تھا۔ حفصہ اور عائشہؓ نے ان کا شہد چھڑانے کی سازش کرلی اور وہ اُن سے قسم لینے میں کامیاب ہوگئیں کہ پھر کبھی شہد نہ چھوئیں۔ مگر جب قسم کھا چکے دل میں خیال آیا میں محض اپنی جورؤوں کو خوش کرنے کی غرض سے ایک چیز کو حرام ٹھہرائے لیتا ہوں جس میں کوئی امر حرام نہیں۔ اُن کے ضمیر نے اس کمزوری کی بابت اُن کو سخت ملامت کی اور تب یہ آیت نازل ہوئی ’’اے نبی کیوں حرام ٹھہراتا ہے جسے خدا نے حلال ٹھہرایا ہے، خوشنودی اپنی جورؤوں کی ‘‘(زمخشری صفحہ ۳۳۴)۔

ہم کودکھا یا جاتا ہے کہ کبھی ’’ ضمیر‘‘ بھی حضرت کو سخت ملامت کرتا تھا اور وہ بھی شہد کے ترک پر ۔ہم یہ انکار نہیں کرتے کہ حضرت نےکبھی شہد کو اپنے اوپرقسماً حرام ٹھہرا کر قسم نہیں توڑی ۔مگر ہاں یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ قصہ جو میور اور اسپر نگر اور اس برن نے ماریہ قبطیہ کا بیان کیا ہے از سرتاپاحق ہے اور اس کو جھو ٹا کہنے والے جھوٹے ہیں ۔ ذرا صبر کے ساتھ تاریخ ہم سے پڑھو۔

دفعہ دوم

نص قرآن مجید

رہی قرآن مجید کی آیت کہ اس کاشان نزول کیاہے۔ کسی نے شہد کے واقعہ کو قیاس کیا ،کسی نے ماریہ قبطیہ کو یا کسی نے کسی اور واقعہ کو۔کیونکہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام کرنا حضرت کی زندگی کے واقعات میں بکثرت ہے۔ اس لئے منہاج والا ان تمام قصوں کو نقل کرکے کہتا ہے ’’ قسم کی سرور عالم نے اور اُن اقوال کے جمع ہونے میں کہا ہے کہ شاید یہ تمام امور اسباب ایلا ہوئے ہوں‘‘( منہاج جلد۲، صفحہ ۲۵۲)۔ 

پس بہرحال واقعے سب سچ ہیں اور تاریخ محمدی مورخین و مسلمین کی لکھی ہوئی اُس پر شاہد ہے ۔ آیت پر کوئی جھگڑا نہیں ، مگر میں قرآن مجید کی وہ آیت پوری پوری نقل کئے دیتا ہوں کیونکہ حکیم نورالدین صاحب شکایت کرتے ہیں کہ’’ پادری لوگ آیت تو نہیں سنتے صرف اعتراض کرتے ہیں‘‘۔ اچھا صاحب اب کی آیت لیں اور اس کے ساتھ اس کی تفسیر بھی تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ ماریہ قبطیہ کی کیفیت سے وہ نہایت چسپاں ہے۔ سورہ تحریم کا شروع یہ ہے’’ اے نبی تو کیوں حرام کرے جو حلال کیا اللہ نے تجھ پر چاہتا ہے۔ رضامندی اپنی عورتوں کی اور اللہ بخشنے والا ہے، مہربان ٹھہرادیا۔ اللہ نے تم کو کھو ل ڈ النااپنی قسموں کا اور اللہ صاحب ہے تمہارا اور وہی ہے سب جانتا، حکمت والا اور جب چھپا کر کہی نبی نے اپنی کسی عورت سے ایک بات ۔پھر جب اُس نے خبردی اس کو اور اللہ نے جتا دیا نبی کو اور یہ جتائی نبی نے اُس میں سے کچھ اور ٹلادی کچھ پھر جب وہ جتایا عورت کو بولی تجھ کو کس نے بتایا کہا مجھ کو بتایا اُس خبروالے واقف نے اور اگر تم دونوں توبہ کرتیاں ہو تو جھک پڑے ہیں دل تمہارے اور اگر دونوں چڑھائی کرو گیاں اس پر تو اللہ ہے اس کا رفیق اور جبرائیل اور نیک ایمان والے اور فرشتے اس کے پیچھےمددگار ‘‘۔ اب کوئی حضرت سے پوچھے کہ ترک شہد پر عورتو ں کی رضامندی کیسی ؟ عورتوں کو شہد ترک کرا دینے سے غرض کیا ؟اُنکو کیا ملتا تھا؟ ’’کیوں حرام کرے جو حلال کیا اللہ نے تجھ پر چاہتا ہے رضامندی اپنی عورتوں کی‘‘ پس یہ ماریہ کا قصہ ہے۔ عورتوں کو ایک سوت سے چھٹکاراپانے کی غرض تھی ۔وہ چاہتی تھیں کہ حضرت پر اُسے حرام کروائیں۔ اُن کو خوش کرنے کو ایک پکڑکے موقع پر حضرت نے اُسے حرام کرلیا تھا۔ اب پشیمان ہیں اور حرام کو حلا ل کرتے ہیں اور پھریہ جو وارد ہوا ’’ جب چھپاکے کہی نبی نے اپنی کسی عورت سے ایک بات ‘‘(آیت ۳)۔ بھلا حرمت شہد سےا سکو کیا مناسبت۔ وہ کیا راز تھا کہ جس کے فاش ہونے سے بھانڈا پھوٹ جانےکا ڈر تھا۔ یہ راز وہی تھا کہ حفصہ نے حضرت کو ماریہ کے ساتھ چوری سے اپنی باری میں کچھ ناکردنی کرتے پکڑا تھا۔ حضرت اس کو چھپاتے تھے،مگر فاش ہوگیااور پھر یہ جو وارد ہوا ’’ اور اگر دونوں چڑھائی کرو گیاں ا س پر تو اللہ رفیق ہے‘‘ اس کے کیا معنی۔ حرمت شہد کو یا اس کی حالت کو عورتوں کی چڑھائی سے کیا تعلق ۔ حضرت چاہیں مشکوں شہد پی لیں جورؤوں کو اس سے غرض نہیں۔ حفصہ اور عائشہؓ کو کیا شامت تھی کہ عسل(شہد) کےدوبارہ حلال کرلینے سے وہ حضرت پروہ یورش کریں کہ اُنکو سوائے اللہ و جبرائیل کے کوئی رفیق نہ ملے۔ حضرت یہ سب کچھ وہی ہے کہ حفصہ وعا ئشہ کو معلوم ہو گیا کہ حضرت اُن کی باری میں چھپ کر ماریہ قبطیہ سے صحبت کرتے تھے۔ اُن کو منع کر دیا کہ تم چپ رہو، اب آج سے ماریہ مجھ پر حرام ہے مگر نہان کئے ماند آن رازی کزوسازند محفلہا عورتوں کے دل میں بات نہ رہ سکی ۔اُنہوں نے راز فاش کردیا۔حضرت شرمندہ و خفیف ہوئے ۔چوری کھل گئی ۔ادھر ماریہ کے عشق نے بھی زور کیا آپ نے قسم توڑ ڈالی ۔ جورؤوں نے چڑھائی کی بڑی گت بنائی ۔بجزاس کے کوئی چارہ نہ تھا کہ آسمان سے آیت نازل کر ائیں اور جورؤوں کو وھمکائیں۔

دفعہ سوم

معزز مفسرین

اب ہم ا ٓپ کو معزز مفسرین قرآن مجید کی بھی سنائے دیتے ہیں۔ تفسیر کبیر امام فخرالدین رازی میں یہ قصہ موجود ہے۔ تفسیر کشاف علامہ زمحشری میں موجود ہے۔ تفسیر بیضاوی میں موجود ہے۔ تفسیر مدارک میں ہے اور پھر مشہور و معروف تفسیر جلالین میں جو نہایت ہی معتبر اور مشہور تفسیروں میں شمار کی جاتی ہےاور درسی کتابوں میں شامل ہے اور بوجہ اختصار کے صحیح سے صحیح ر وایات پر حاوی ہے۔ صرف اسی ماریہ کا قصہ نقل ہوا ہے اور صاحب تفسیر حسینی شہد والے قصہ کو بیان کر کے ماریہ کا قصہ اس وثوق کے ساتھ لکھتے ہیں’’ در روایت شہیر آن است در روز نوبت حفصہ درخانہ دےرفتے دے با جازت آنحضرتﷺ بدیدن پدررفتہ بودماریہ قبطیہ راطلبید ہ وبخدمت خود سرفراز ساخت حفصہ بران مطلع شدہ اظہار ملال کر د حضرت فرمود کہ اے حفصہ راضی نیستی کہ اورابر خود حرام گردانم گفت ہستم یارسول اللہ فرمود کہ این سخن نزدتوامانت است باید کہ باکس نگوئی او قبول کردہ چون حضرت ازخانہ دے بیرون آمد فی الحال حفصہ این سخن رابا عائشہؓ درمیان نہا د و مثردہ دادہ کہ بارے ازقبطیہ خلاص یافتم و چون آن حضرت بخانہ عائشہؓ آمدازین حکایت بہ کنایت رمزے بازگفت واین سورہ نازل شد کہ چراحرام سیکنی انچہ خدائے تعالےٰ بر تو علال ساختہ یعنی ماریہ و سوگند میخوری‘‘۔اب یہ بھی یادرہے کہ حسینی اس روایت کو ’’ روایت اشہر‘‘ کہتے ہےاور اسی کی بابت آپ فرماتے ہیں کہ’’ تمام معزز مفسرین قرآن مجید باطل ٹھہراچکے ہیں‘‘۔ اور آپ طنز اَ فرماتے ہیں’’ عیسائی نکتہ چینوں نے نبی کو متہم کرنے کی غرض سے بڑ ی حرص کے ساتھ اس کو قبول کرلیا ہے‘‘۔ خیریہ تو بےچارے عیسائیوں کا قصور ہوا تو کیا اب آپ کے ناظرین اس سے یہ بھی سمجھیں کہ تفسیر کبیر و تفسیر کشاف و تفسیر بیضاوی و تفسیر مدارک و تفسیر جلالین و تفسیرحسینی کے معز ز مصنفین نے بھی اسی غرض سے اس قصہ کو قبول کرکے’’ روایت اشہر‘‘ ٹھہرا دیا ہے ۔ کیا عیسائیوں نے ان بزرگوں کو رشوت چٹادی ؟ یا یہ بھی کوئی میور صاحب کے آور دے خیال کئے جاتے ہیں؟

ہم اس بے باک مصنف سے پوچھتے ہیں کہ وہ کون سے معز ز مفسرین ہیں جنہوں نے ماریہ کے قصہ کو جھوٹا اور کسی عباسی عیاش کی من گھڑت بنایا ہے ؟ ہمارے سید صاحب نے ایک یہ غضب بھی کیا ہے کہ اپنے بیان کے آخر میں زمخشری کا حوالہ دےکر گویا یہ سمجھا یا ہے کہ صاحب کشاف نے اس قصہ کو جھوٹا کہا ہے ۔اے ناظرین تم اس دھوکے میں نہ آنا۔ زمخشری سورہ تحریم کی تفسیر کو پہلے قصہ ماریہ ہی سے شروع کرتا ہے اور پھر دوسرا قصہ عسل(شہد) کا بھی بیان کرکے دونوں قصوں کو سچ اور اس آیت کا شان نزول ٹھہرا کر یہی لکھتا ہے’’ (لم تحرم ما احل اللہ لک ) من ملک لیمین اومن العسل ‘‘( دیکھو کشاف مطبوعہ کلکتہ۱۳۷۶ھ، جلد ثانی، صفحہ ۱۴۹۹ )۔ 

سید صاحب تم تو چپ رہتے تو اچھا ہوتا ۔حضرت کی لائف (حیات)لکھ کر تم کوکس قدر جھوٹ بولنا پڑا اور کس قدر خفیف ہونا پڑا ۔دیکھو زمخشری بھی تم کو نا امید کرتا ہے۔ سید امیر علی صاحب نے تو کم ستم کیا کہ صرف معزز مفسرین کا انکار کر کے بڑے بڑے معزز مفسرین کو گویا غیرمعزز ٹھہرایا تھا۔ مگر حکیم نورالدین صاحب خالص سفیدجھوٹ اور نراکذب بول کر بھی نہیں شرمائے ۔وہ ماریہ و حفصہ کے قصہ کا انکار ان حکیمانہ بلکہ قادیانہ الفاظ میں فرماتے ہیں ’’ عیب گیرپادری صاحب اول تو قرآن مجید سے نکال کر یہ اعتراض دکھا نہیں سکتے بلکہ کسی تفسیر سے،رہبن تفاسیر رسِل صاحب ورنڈویل ( یہ راڈول کی خرابی ہے ) نے تفاسیر قرآن مجید لکھی ہیں۔ پھر کیا ان تفاسیر کے باعث اسلام یاقرآن مجید یاصاحب قرآن محل اعتراض ہو سکتا ہے‘‘( فصل الخطاب، جلد اول، صفحہ ۶۴ا، ۱۶۵ )۔ کسی تفسیر سے حکیم صاحب نے شدید قادیان میں بیٹھ کر یہ کچھ لکھا ہے۔ ا ب تو قرآن سے بھی پم نے وہ قصہ دکھا دیا اور تفاسیر سے بھی ۔اور ہم ایک بات آپ کو بتا دیں کہ سیل صاحب یاراڈول صاحبان نے قرآن مجید کی کوئی تفسیر نہیں لکھی۔ سیل صاحب نے اپنےقرآن مجید کے ترجمہ پر جلالین و بیضاوی ویحییٰ وغیرہ مفسرین کی عبارتیں بطور حاشیہ چڑھا کر اس آیت کا شان نزول دکھایا ہے۔ اور ہم تو آپ کو سیل صاحب کی طرف رجوع کرنے کو نہیں کہتے آپ اپنی تفاسیر دیکھ کر ہوش میں آئیں اور جھوٹ نہ بولیں۔ قرآن مجید میں یہ بھی لکھا ہے لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ترجمہ: جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجیں(سورہ آل عمران آیت ۶۱)

لطیفہ حکیم صاحب اس قصہ کی تکذیب میں حضرت کی نسبت فرماتے ہیں’’ وہ ہمارے سچے ّ اور پاک ،ہاں نہایت سچے اور نہایت پاک خاتم الانبیا‘‘ خوب ! ’’سچے اور نہایت سچے‘‘تو آپ شرعی قسم توڑنےکی وجہ سے ہوئے اور’’ پاک اورنہایت پاک ‘‘آپ ماریہ کے ساتھ ظاہر ہونے کی وجہ سے جس پر حفصہ شاہد ہے ۔ حکیم صاحب نے بُرا خفش کو بھلا دیا۔

دفعہ چہارم

اصل قصہ

اب اور سُنئے آپ فرماتےہیں ’’ فی الحقیقت بنی امیہ یا کسی عباسی عیاش کے زمانہ میں بربنائے ضعیف ترین سندیہ روایت ایجاد کی گئی ہے‘‘۔ پس ہم کو ضرور ہوا کہ ہم آپ کے دروغ بے فروغ پر کسی سخت دشمن خاندان اُمیہ و عباسیہ کو شاہد لائیں ۔آپ نے ہم کو اپنی انگریزی کتاب میں سمجھا دیا کہ شیعان علے تابعان اہل بیت بنی اُمیہ او ر خاندان عباسیہ کے دشمن جانی ہیں ۔ ملابا قر مجلسی عالم شیعہ حیات القلوب صفحہ ۵۷۷ میں سورۃ تحریم کی آیات مذکورہ صدر کی بابت لکھتا ہے’’ علی بن ابراہیم بہ سند معتبر ازحضرت صادق روایت کردہ است کہ این آیات دروقتے نازل شد کہ عائشہؓ و حفصہ مطلع شد ند کو حضرت رسول باماریہ نزدیکی کردہ است و حضرت سو گند یا د کرو کہ دیگر بار ماریہ نزدیکی نکندپس حق تعالےٰ این آیات رافرستاد وامرکر د آنحضرت راکہ کفارہ قسم خودراید ہدو ترک مقاربت ماریہ ننماید‘‘۔حضرت صادق یعنی حضرت امام جعفر صادق جن کو آپ نے بڑا ستحر عالم و فقیہ مسلمہ جمہورمسلمین و اُستاد اما م ابو حنیفہ بیان فرماتا ہے( صفحہ۵۰۸، صفحہ۵۱۸ انگریزی) اورجن کا زمانہ درمیان ۸۳۔۱۷۸ھ کے ہوا ’’ بسند معتبر از حضرت صادق ‘‘ علی بن ابراہیم نے یہ روایت بیان کی ہے ۔اور افسوس ہے فضیلت و تقویٰ وور ع امام صادق پر اگر اُن کو افترا (بہتان)بنی اُمیہ یا کسی عیاش خاندان عباسیہ کی روایت اور صحیح روایت میں تمیز نہ ہو سکی ۔ تو کیا اب ہم آپ کا سخن مان لیں کہ ’’ تمام معزز مفسرین قرآن مجید نے اس روایت کو باطل ٹھہرایا ہے‘‘ یا ہم باقر مجلسی کی سنیں جو کہتا ہے’’ شیخ طبرسی و جمع ازمفسران عامہ روایت کرد ہ اند کہ روزے حضرت رسول درخانہ حفصہ بودو حفصہ رخصت طلبید کہ بخانہ پدر خودبردووچون مرخص شد و بیرون رفت حضرت ماریہ راطلبید و باد خلوت کرد و چوں حفصہ برگشت درخانہ رابستہ دیدپس صبر کروتا حضرت درراکشو دوازروے مبارکش عرق میر بخث ’’۔صفحہ ۵۷۷ اور ۵۷۸ میں لکھتا ہے ’’ چوں حفصہ برین امر مطلع شد غضبناک گردید و گفت یارسول اللہ ور روز نوبت من درفراش من باکنیزے مقاربت مسکینی ‘‘۔اگر کوئی شرم دار ہوتا تو چلّو بھر پانی میں ڈوب مرتا۔ رسول خدا کو حفصہ اخلاق واداب شوہری کا سبق دے رہی ہے ۔پس آنحضرتﷺ شرمندہ شد ( غنیمت ہے مگر یہ شرم جلد دفع ہو جا ئیگی اور آپ اس سے زیادہ بے شرمی کریں گے۔ اپنی قسم توڑیں گےاور عورت بیچاری کو ڈانٹیں گے )۔’’ فرمودکہ این سخن راہگذ ار کہ ماریہ رابر خود حرام گردانیدم و دیگر ہر گز با او مقاربت نخواہم کرو‘‘۔ 

اپنا عیب چھپانے کےلئے اپنے ننگ ڈھانکنے کےلئے حضرت نے عورت کو یوں ٹالا، قسم کھائی عورت کو ٹھنڈا کیا۔ کہا ہیں جسٹس امیر علی محمدﷺ کی دادد یں’’ اُس وقت ان کے ٖضمیر نے اُس کمزوری کی بابت کوئی سخت ملامت‘‘ حضرت کونہ کی ۔ آخر عشق غالب آیا، شرم دفع ہوئی۔ حضرت نے قسم توڑی اور قرآن مجید بھی یاد نہ رکھا’’ نہ تو ڑ قسمیں پکیّ کئے پیچھے‘‘(سورہ نحل رکوع ۱۳)۔ افسوس حضرت نے خدا پر بُہتان باندھااور ان پر وہ آیت صادق آئی ’’ ہم نے اس کو دیں اپنی آئتیں پھر اُن کو چھوڑ نکلا تو وہ ہو ا گمراہوں میں ‘‘( سورہ اعراف رکوع۲۲)۔ حضرت نے آخر خوب سوچ سمجھ کر اپنے گناہ کو ہلکا کرنے کے واسطے قرآن مجید میں کہا تھا’’ اُس سے ظالم کو ن جوجھوٹ باندھے اللہ پر یا کہے مجھ کو وحی آئی اور اس کو وحی کچھ نہیں آئی‘‘(سورہ انعام رکو ع۴)۔ حضرت نےاپنے ظلم کا اعتراف کیا، اس عاقلانہ پیرائے میں اور گنہگار اندیشہ ناکسازخدا ہوگئے۔ مگر بقول شخصی ہم تو مرشد تھے ، تم ولی نکلے ۔ سید امیرعلی صاحب نے ماریہ اور حفصہ کے اس قصہ سے انکار کیا تھا، مگر نورالدین صا حب نے ضمنا ًماریہ کے وجود سے بھی انکار کردیا اور یہ خوب کیا۔ ڈ باہی نہیں رکھا مر غا کہاں رہے گا ۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں ’’ بلکہ محققین نے ماریہ کے وجود سے بھی انکار کیا ہے‘‘ اور محققین ایسا ہی ہونا چاہئے ۔برائے نوازش آپ ہم کو اُن محققین کا نام تو بتائیں تا کہ معلوم ہوکہ آیا وہ سوائے آپکے کوئی اَور بھی ہیں۔ ہم نے تو آج تک بجز آپ کے اور کسی محقق کا نام نہیں سنا۔ مگر آپ بھی پا یہ تحقیق سے گرے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور ان محققین کے زمرہ میں شامل ہونے کےلائق نہیں کیونکہ باوجود انکار و جود ماریہ آپ نے فرمایا ہے:

’’ یہ ماریہ وہ تھی جس کی حقیقی بہن حسان کے گھر میں تھی۔ یہ ماریہ وہ ہے جس کے ساتھ شہبا زخچری آئے جسے مسلمان دلدل کہتے ہیں ( خواب ! ماریہ کے ساتھ خچری کی آمد یک نہ شددوشد )۔۔۔ ماریہ ہمارے خاتم الانبیاکی ام الولد اور سریہ بی بی تھیں‘‘(صفحہ۱۵۲)۔

واہ رے محققو ! کس برتے پروجود ماریہ سے ا نکار کیا ہے ؟ خیر ماریہ کا یہ مختصر حال ہم نے بیان کیا اور آپ کے درو غ بے فروغ کو چراغ دکھایا اور ثابت کر دیا کہ یہ قصہ امیہ یا کسی عباسی عیاش کے زمانہ میں ایجاد نہیں ہوا بلکہ فی الحقیقت عیاشی کے مرد میدان بن کر خود آپ کے ’’ سچے اور پاک ہا ں نہایت سچے اور پاک خاتم الانبیا‘‘ نے اس قصہ کو زینت بخشی ۔اب آپ دوسری لونڈی کے بھی حالات سُنئے۔

۲۔ ریحانہؓ بنت زیدؓ

بنی نظیر کے اسیروں سے یا نبی قریظہ کے وطی (جماع کرنا۔پامال کرنا)فرماتے تھے’’ حضرت اس سے ملکِ یمین(لونڈی) کر کے۔۔۔ وفات پائی اُس نے حضرت کی وفات کےآگے حجتہ الوداع سے پھرتے وقت اور بقیع کے درمیان دفن کی گئی ‘‘( منہاج،صفحہ ۸۸۳)۔ یہ تو معلوم ہو چکا کہ سید صاحب کو حضرت کی لونڈیوں کے وجود سے بالکل انکار ہے بلکہ لونڈیوں کا رکھنا ہی ’’آنحضرت کے احکام کی اصل منشا کے خلاف ہے‘‘۔تاہم آپ ایک جگہ نراجھوٹ بولنے سے چوک گئے ۔چنانچہ بنی قریظہ کے اسیروں کی کیفیت میں آپ فرماتے ہیں ’’ منقول ہے ( گویا شبہ ہے ) کہ بقیتہ السیف یہود جب مسلمانوں میں تقسیم کئے گئے تو ایک زن یہود یہ ریحانہ نام آنحضرت کے حصہ میں آئی۔ بعض نےلکھا ہے کہ وہ پہلے ہی سے آپ کے لئے مخصوص کردی گئی تھی‘‘۔ یہ تکلف ہیں۔ ان کی حقیقت آگے ظاہر ہوگی۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’عیسائی مورخ تو ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ ذرا ساحیلہ بھی مل جائےتو پیغمبر اسلام پر اعتراض کر بیٹھیں۔ چنانچہ اس روایت پر اُنہوں نے بہت گرفت کی ہے ‘‘۔مجھ کو یقین کا مل ہے کہ ہرگز کسی عیسائی مورخ نے آپ سا طرز اختیار نہ کیا ہوگا۔ مگر ہاں اپنا روپیہ کھوٹا پر کھنے والے کو الزام یہ آپ کا کام ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

’’ریحانہ کا حضرت کے حصہ میں آنا چونکہ اُس زمانہ کے دستورات مسئلہ جنگ کے سراسر موافق تھا ۔لہٰذا مورخین نصار یٰ کے اعتراضات اس بنا پر محض بے بنیاد ہیں ‘‘ ۔

اس بات میں ہم نے آپ سے صرف ایک سچی معذرت سنی ہے ۔وہ یہی ہے ۔ہم تیار ہیں کہ آپ کا سخن مان لیں بلکہ اس سے زیادہ حضرت نے جو جھوٹ بولے ، حضرت نے جو فریب دئیے، حضرت نے جو ناحق بےگنا ہوں کے خون کئے اور حضرت نے جو حرامکاریاں کیں یہ سب ’’اس زمانہ کے دستورات ‘‘ کے سراسر موافق تھا ۔لہٰذا ہم اس زمانہ کے حضرت پر اعتراض کرنا نہیں چاہتے ۔ مگر حضرت نے خدا سے کلام کرنے کا دعویٰ کیا۔ جبرائیل سے وحی حاصل کرنے کا دعویٰ کیا۔ اپنے تمام افعال کا کرانے والا حضرت نے خدا کو ٹھہرایا۔ زید اپنے فرزند متبنیٰ کی جورو چھینی خدا نے چھنوائی ۔ ماریہ اور حفصہ کی باری میں چوری سے صحبت کی خدا نے کرائی۔ اس پر اعتراض ہے۔ ورنہ دراصل حضرت کے اخلاق اُن کے ہم عصر وں کے اخلاق سے کچھ بہت اچھے نہیں تھے اور نہ ہوسکتے تھے ۔ اعتراض آپ پر ہے جو آپ اُن کو اس زمانہ کے کوئی تعلیم یافتہ سید صاحب ثابت کرنے چلے ہیں۔ پر جس طرح حضرت نے تھوڑی دیر کے لئے اپنے اوپر ماریہ کو حرام کر لیا تھا اور مابعد پھرقسم توڑ کر اُسے حلال کر لیا۔ آپ نےبھی تھوڑی دیر نیم سچ بولا اور جھٹ سے مُکر گئے اور کہنےلگے’’ میرے نزدیک ریحانہ کے ازواج پیغمبر میں داخل ہونے کی روایت مصنوعی ہے۔ علیٰ الخصوص جب دیکھا جائے کہ اس سانحہ کے بعد پھر اس کا ذکر کہیں تواریخ میں نہیں ہے۔ حالانکہ دیگر ازواج مطہرات کا احوال مشرح و مفصل تواریخ میں لکھا ہے‘‘(صفحہ۱۰۷)۔ یہ ایک طرح بالکل سچ ہے اور ہر ایک طرح بالکل جھوٹ ۔ ریحانہ حضرت کی لونڈی تھی۔ پس اس کا ذکر آپ ازواج میں کیوں ڈھونڈتے ہیں ۔پھر لونڈی کا اگر کہیں آپ کو مفصل ذکر نہ ملے ۔بجز اس کے کہ وہ اسیر تھی ،لونڈی ہوئی ،حضرت نے اس سے صحبت کی وہ مرگئی اور فلاں مقام پر دفن ہوئی۔ تو کیا تعجب یہ لونڈی تھی۔ مورخین کو حضرت کی اور ازواج جو زیادہ معزز تھیں ان کے حالات بھی تو قلم بند کرنے تھے ۔ مگر نہیں آپ یہ یقین دلانا چا ہتے ہیں کہ حضرت کے پاس کوئی عورت ریحانہ نام نہیں رہی اور نہ اُ ن کے تصرف میں آئی۔ ہم آپ کو تواریخ دکھا دیں تاکہ آپ نہ بھاگیں۔ ابوالفدا جنگ بنی قریظہ کے آخر میں لکھتا ہے کہ ’’ بعد ازاں رسول خدا نے جتنی عورتیں اور لونڈیاں بنی قریظہ کی گرفتار آئیں تھیں اور جتنا مال غنیمت وہاں سے آیا تھا، سب میں سے پانچواں حصہ نکا ل کر صحابہ کو تقسیم کردیا۔ اور اپنے واسطے (ناظرین یہ الفاظ سنیں ) ایک عورت مسماۃ ریحانہ بیٹی عمرو کی چھانٹ کر پسند کرلی(شاباش )۔ یہ عورت تا وفات پیغمبر خدا کے ان کے ملک میں رہی‘‘۔ شاید’’ چھانٹ کرپسند کرے’’ سے ہمارامخاطب سمجھنا چاہئے کہ یہ بڈھی تھی، بیوہ بھی تھی ،محتاج تھی اور کوئی مسلمان اس کو قبول بھی نہیں کرتا تھا۔ حضرت نے اس کو پرورش کرنے کےلئے لے لیا تھا۔ مگر حضرت’’ چھانٹ کر پسند ‘‘ پسلی پھڑک اُٹھی نگاہِ انتخاب کی۔