فصل ا ول
تعدّ د از و ا ج
تمام عیسائی قائل ہیں کہ عہد قدیم میں کثرت ازواجی اُس زمانہ کی تہذیب کےاندازہ سے حلال ومشروع تھی ۔ بنی اسرائیل نےاس رسم کو اپنے پیشینوں (پیشین ۔قدیم زمانے کا۔اگلا)کی تقلید میں جاری رکھا ۔ ان کے انبیاو صلحانے اس کے جو از کو تسلیم کیا ،مگر عہد جدیدمیں جو مسیح موعود کی بعثت سے شروع ہوا اور جس نے بنی آدم کی ترقی تہذیب کانیا راستہ جاری کیا ۔وہ رسم جو طلاق کے ساتھ ہمیشہ توام رہی ہے ، اٹھ گئی۔ اُس کے اور اس کےجواز کی سچی فلسفی کو سیدنا مسیح نےایک ہی جگہ اس طرح بیان کردیا کہ اب کثرت ازواجی کے حرام ہوناشروع ہونے میں کسی عیسائی کو شک کی گنجائش نہیں رہ سکتی ۔’’۔۔۔ موسیٰ نے تمہاری سخت دلی کےسبب سے تم کو اپنی بیویوں کوچھوڑ دینے(طلاق)کی اجازت دی مگرابتدا سے ایسا نہ تھا‘‘(متی ۸:۱۹)۔اس بیان میں مردو عورت کے تعلقات کی بنا ابتدائی منشاء خالق بتایاگیا ۔ شروع میں ایک مرد تھا ،ایک عورت۔ ان کی مضوعی جدائی کی جس کو طلاق سے تعبیر کرتے ہیں کوئی رعایت فطرت نے نہیں رکھی ۔ انسانی سخت دلی نے جو رؤوں(بیویوں) کی تعداد بڑھائی اور عقلانے اس کی برائیوں کو طلاق سے کم کیا ۔ کثرت ازواجی کو اٹھادو، طلاق جوا س کا لازم ملزوم ہے اُ ٹھ جائے گا۔ دین عیسائی کی حقیقی منشا کے کثرت ازواجی اس قدرخلاف ہے کہ پرانے خیالات سے لدے ہوئے علمائے عیسوی بھی اس کو مسیح کی تعلیم کی ضدسمجھتے ہیں ۔جس کا نتیجہ یہ ہوا آپ تسلیم کرتے ہیں کہ مما لک عیسائی یعنی یورپ کے لوگ تعدد ازواجی کو فی نفسہ ٖایک فعل قبح(نقص۔عیب) سمجھتے ہیں اور اس کو صرف قانوناً ناجائز نہیں جانتے کہ عیاشی وفسق وفجور کا نتیجہ سمجھتے ہیں(صفحہ۲۱۷)ا ورحق بھی یہی ہے، کیونکہ عیاشی وفسق وفجور سب صر یح سخت دلی کے ثمر ے ہیں۔ پس روئے زمین پربجز عیسائیوں کے کوئی ملت نہیں جو ا س رسم کے خلاف شرعاًوقا نوناً تاکید کرے ۔ مسیحی دین ہی نے انسانی اخلاق کی حقیقی اصلاح کا ذمہ لےکر سو سائٹی کی اس ’’قبح عظیم ‘‘کی بیخ کنی کی ہے ۔ بر خلاف اس کے اسلام نےکثرت ازواجی کو جو غیر مہذب یا نیم مہذ ب و سخت دل قوموں کےدرمیان سو سائٹی کی ضروریات سے متصور ہو چکی تھی اورجس کا فائد ہ اہل مقدرت (قدرت۔بساط)اپنی عیاشی کے وسائل کی وسعت کےموافق باآسانی ا ٹھاتے تھے۔ نہ صرف بے عیب بتا کر رواہی رکھا بلکہ شارع اسلام اور الُہ اصحابہ المقادبین بآدایہ نے اپنے عمل وسنت سے اُ س کی تقدیس کر دی ، مگر پھر بھی انسانیت واصول شائستگی و فلاح قومی وخاندانی کے اس قدریہ رسم خلاف ہےکہ تہذیب کی ترقی اس کو خودمسد ود کرتی جاتی ہے اور وہی لوگ جن کی شرع نےاس کو جائز اور جن کے نبی نے اس کو مقدس قرا ر دیا ہے باوجود حصول تمام وسائل کے اس سے فائد ہ اٹھانے کو راضی نہیں اور فی نفسہٖ اس کو اپنے آرام و آسائش کےایسا خلاف دیکھتے ہیں کہ عملی طورسے اُس سے بیزار ودست بردار ہو کر اپنی بیٹیوں کواُس کے مصائب سے محفوظ رکھنے کی بڑی بڑی کوششیں کرتے ہیں اور وہ لوگ جن کے ذہن ’’نئی روشنی‘‘ سے منور ہوگئے ہیں باوجود حمایت اسلام کےاس مردود رسم کو نہ صرف ایک قبح عظیم جاننے لگےہیں بلکہ بلاتامل زناکاری کاتعلق کہہ رہے ہیں ۔
تہذیب وشائستگی پر عیسویت نےاس بارےمیں کیا اثر پیدا کیااس سے معلوم ہو سکتا ہےکہ مسلماناں ہند نے سب سے پہلے ظل سبحانی حکومت نصرانی کے سایہ عاطفت (مہربانی کا سایہ)میں طرح بہ طرح اس رسم کوانسانی ترقی کی ضد قرار دیا ہے اور وہ ان اسلامی ممالک کےمسلمانوں سے کس درجہ ممتاز ہو گئے ہیں،جن پر اس تعلیم کا اثر نہیں پڑنےپایا اور جو سراسرا نہیں علمائے اسلام کی رہبری قبول کئے ہوئےہیں جن کو خیالات کُہنہ(پرانے خیالات)کے بارسےسبکدوش ہونے کاموقع بالکل نہیں ملا ۔ ابھی ہرگز روم ،عرب، ایران اور افغانستان جوخاص اسلام کو لئےہوئے ہیں،اپنے ہندی مسلمانوں کی نیک تعلیم کوسننے کےلائق نہیں۔اردو خواں قصہ مبثلا(محصنات:محصنہ کی جمع۔نیک بیویاں)حافظ نذیر احمدصاحب سے درس لے چکی ہیں اور کثرت ازواجی کی خرابیوں کو دیکھ چکے ہیں اور اگر کوئی صاحب خود محمدﷺ کی ازواج کے حالات میں دوسری محضات قلم بند کریں تویہ سب سے زیادہ عبرت بخش ہو۔ مگر ہمارے مخاطب سیدامیر علی صاحب بہت درست فرماتے ہیں اور جوکچھ فرماتے ہیں عین دین عیسوی کی تعلیم کی فلسفی کےمطابق ہے کہ:
’’ ابتدائی خلقت انسان میں یعنی تمدن کے ابتدائی زمانہ میں جبکہ اس قوت ماسکہ کی تکمیل نہیں ہوئی تھی۔ جو ترقی عقل وتہذیب نفس کے زمانہ میں نظام تمدنی کےاجزا کو یکجا رکھتی ہےاورمتفرق نہیں ہونے دیتی ،اس زمانہ کے لیے تعددازواج ایک اصل الاصول تحفظ نفس کا تھا جس کو اس ترقی و تہذیب کے زمانہ میں ایک قبح عظیم تصور کرنا چاہیے‘‘ (صفحہ ۱۹۷)کہ رسم تعدد از واج ’’آخر زمانہ میں جو عقل واخلاق میں ترقی ہوئی، اس کے سراسر خلاف ہے‘‘۔(صفحہ۲۱۸حاشیہ)
عیسائیوں نےاپنےقوانین میں اس تعدد ازواج کو صرف ایک ’’قبح عظیم ‘‘ نہیں بلکہ صاف صاف زناٹھہر ا یا ہے اور ہمارے سیدصاحب کو ان کی رائے پر صاد کر دینے میں ذرہ تامل نہیں ۔ چنانچہ وہ اپنی انگریزی کتاب میں اس مضمون کے آخر میں فرماتے ہیں کہ :
میں افسوس کرتا ہوں کہ میرے اُن واقعات کی فلسفیانہ تنقیدسے جو زمانہ سلف میں کثرت ازواج کے ممد ہوئے پادری جی ۔ ڈی۔بیٹس صاحب الٰہ آبادی نے اپنی کتاب ’’کلیمس آف اسمٰعیل‘‘ میں یہ اخذ کیا ہے کہ گویا میں کثرت ازواج کی حمایت کرتاہوں ،میں کثرت ازدواج کو اس زمانہ میں ایک حرامکاری کا تعلق اور منشا اسلام کے خلاف سمجھتاہو ں، جس رائے میں ایک جماعت اکثراہل اسلام کی میرے شریک ہے (صفحہ۳۶۵)کہ فہمیدہ اذہان نےاسلامی تعلیم کثرت ازواج اور طلاق پر کیا فتویٰ کفر لگا دیاہے اور اس فتویٰ کا کیا کچھ اثر ظہور میں آچکا ہے۔
مولوی محمدحسین کی اس بانگ بے ہنگام(بے موقع) سے روشن ہے:
’’ہم ان اعتراضات کی کچھ پر واہ نہ کرتے اور نہ ان کے جوابات کے درپے ہوتے ،اگر یہ اعتراضات ہمارے نو جوان اسلامی اخوان انگریزی خوانوں پر ساحرانہ تاثیر نہ کرجاتے اوروہ ان کی تاثیر سے مترددومتو حش ہو کراصل اسلام میں مذبذب نہ ہوجاتے ‘‘(مسائل نکاح ،صفحہ ۱۳۶)۔
مولویوتمہارے جوابا ت کی پر وا ہ کو ن کرتا ہے کہیں موج دریا تمہارے رو کے رک سکتی ہے ،کہیں یہ ’’اسلامی اخوان‘‘ تمہارے قابومیں آسکتے ہیں۔ سنومولف کایہ قول آب زرسےلکھنے کے قابل ہےکہ’’ ایسا فتو یٰ جب ہی دیا جائے گاکہ جب علما ئےاسلام خیالات کہنہ کے بارے سبکدوش ہوں اور واقعات کو اچھی طرح سمجھ لیں اور رسول اللہ کے احکا م کو کماحقہ سمجھ سکیں ۔اب اس نئی روشنی سے آنحضرتﷺ کےاحکام دیکھےجاتے ہیں۔ لہٰذا اُمید ہےکہ تعددازواج کی رسم بالکل موقوف ہوجائےگی(صفحہ۳۱۶) حاشیہ۲ یا دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ رسول اللہ کے احکام کو علما ئےاسلام کماحقہ نہیں سمجھ سکتے جب تک کہ انگریزی یونیورسٹی میں تعلیم نہ پائیں اور یورپ کی سیر نہ کریں اور ان کی آنکھیں نئی روشنی سے منور نہ ہوں۔یاعام فہم اورمختصر طور پر ہم کہہ دیں کہ رسول اللہ کے احکام کو کماحقہ سمجھنے کےلئے ضروری ہے کہ مولوی صاحبان نیچری بن جائیں یا عیسائی اصطلا ح میں ا س کو ہم یوں ظاہر کریں کہ ’’ نئی مے کو پر انی مشکوں میں بھریں‘‘ ۔ پس خطرہ ہے تویہ ہے کہ اسلام کی بنا پر کثرت ازواجی کومردود ٹھہرا یاجاتا ہے اور اخلاق کی غلط بنیاد ڈالی جاتی ہے۔ ہم کو خوف ہے کہ ہمارے فخرمساوات گو اخلاق و تہذیب ،تقاضا ئےنئی روشنی کو تو بخوبی سمجھےمگر اسلام کو نہیں سمجھتے،وہ بھول چوک کی عیسویت ہے۔ کیاا مید کی جاتی ہے کہ ایماندار مسلمان خالص اسلام کےپیروا پنے نبی کی سنت موکدہ سے سے دست بردار ہو جائیں گےاور کیا وہ یہ روغنی جملہ کہہ کر کہ ’’اس ترقی وتہذیب کے زمانہ میں کثرت ازواجی کو ایک قبح عظیم تصور کرنا چاہیے‘‘جو اس آخری زمانہ میں عقل و اخلاق میں ترقی ہوئی اس کے سراسر خلاف ہے‘‘۔ یہ مان لینا کہ ان کے نبی کو اپنے زمانہ میں جب روح الامین ان پروحی لےکر نازل ہو ا کرتے تھے اور جن کو شب معراج خدا سے آمناسامنا ہواتھا، اس قدربھی ترقی و تہذیب، عقل واخلاق میسر نہ تھےجتنا آج کسی نئی روشنی والے کو حاصل ہے کہ ان کو کثرت ازواجی سے روک سکیں۔ اور آپ یادر کھیں کہ آپ کےیہ چکنے چکنے تہذیب کےالفاظ سنت نبی پر فدا ہونے والوں کے دل پر کتنا اثر پیدا کریں گے جبکہ آپ خود تسلیم کررہے ہیں کہ جب بادشاہ وقت اس رسم (تعددازواج ) کو عمل میں لاتا تھا اور بادشاہ ہر ملک میں ظل اللہ سمجھا جاتاتھا تو رعایا بھی اس رسم کو مقدس سمجھتی تھی‘‘(صفحہ۱۹۶) ۔’’فعل کا اثر ہمیشہ قول سے زیادہ ہوتا ہے ،لہٰذا جب بادشاہوں کے متعد د محلات ہوئےتو رعایا اُن کی تقلیدسے کب چوکتی تھی‘‘۔ شاید آپ بھول گئے کہ نبی اور اس کے اُمتّی کے تعلقات بادشاہ اور اس کی رعایا سے کئی درجہ بڑھ کر ہوتے ہیں ’’حسنت جمیع حصار حضرت کی شان میں کوئی بے فکر رکھ گیاہے بے فکر کہہ کیا‘‘۔