فصل ششم
حالات مزید
ہمارے سید صاحب نے اس قدر حضرت کی بیبیان گنوائی ہیں اور ان کے حالات میں بھی وہ قطع برید کی کہ نہ حضرت کی شکل اصلی پہچانی جاتی ہے، نہ اس کی بیویوں کی اور خاتمہ میں آپ فرماتے ہیں’’ حضرت ﷺنے جونکاح کئے تھے ان کی یہ حقیقت ہے‘‘۔ ہم بھی اپنے بیان کی طرف اشارہ کرکے یہی کہتے ہیں ۔مگر حضرت ﷺکی عشق بازی کی داستان طویل ہےاور ہمارے سید صاحب کو اختصار موجب افتصار منظور۔ تاہم کچھ حالات مشتے نمونہ اور عورات کے جن کو نیم جوروع وہ لوسے گلروہیں جو ہم نے نہیں کہورے کہنا چاہئےمدارج النبوۃ سے نقل کر کے سناتے ہیں تا کہ ہمارے مخاطب کی پالیسی حمایت شارع اسلام میں تشت ازبام(مشہور) ہو۔
حضرت ﷺکی نیم جوروئیں
۱۔’’بیٹی ضحاک کلابیہ کی تھی جس نےدنیاکو اختیارکیا‘‘۔ یہ حضرت کی جورو ہوئی تھی۔ آخر چھوڑ کر نکل گئی اور چونکہ حضرت نے اس قسم کی عورتوں کی روک کےلئے کہ بھاگ نہ جائیں اپنی جورؤوں کو مسلمانوں پر حرام قرار کیا تھا۔ پس اس کو کسی نے نہ پوچھا کوئی اس سے نکاح نہ کرسکا ۔ آخر انتہا درجہ کے افلاس میں مُبتلا ہوئی۔ خرما کی گٹھلیاں او ر اونٹ کی منگنیاں چن چن کر گزران کرتی تھی( منہاج،صفحہ۸۷۷)۔
۲۔’’اسماکندیہ ہے کہ اُس کو جونیہ کرکے کہا ہے ‘‘۔ جب حضرت نےاسے بلایا اپنے نزدیک اِبا(انکار۔نافرمانی)لائی وہ عورت اور سر کشی کی۔ جب لائی گئی جونیہ اور اتاری گئی اس نخلستان میں۔۔۔ اے حضرت پاس اُس کے فرمایا مہیا کر اپنی ذات کو واسطے میرے کہا اُس نے آیا آمادہ کرتی ہےملکہ اپنی ذات کو فرومایہ لوگوں کےلئے ‘‘۔اس عورت کا باپ نعمان پیشوا اور سردار اہل کنندہ کا تھا۔ یہ عورت عزت دار اور باعصمت معلوم ہوتی ہے۔ حضرت نے چاہا کہ اس سے صحبت کریں۔ عورت نے اپنا حسب ونسب بیان کرکے اُنکو قائل کرنا چاہا اور گویا کہاکہ اے بڈھے نفس پرست کیا زیبا ہے کہ مجھ سی ملکہ شریف نسب تجھے فرومایہ کو اپنی آبرو دے ڈالے۔ حضرت کو فردمایہ اس نےشاید اس قرینہ سےکہا ہوگا کہ باوجود دعویٰ نبوت پرائی بیٹیوں اور شریف زادیوں کو خراب کرنا چاہتا ہے ۔ مگر حضرت پر یہ زجر(تنبیہ۔جھڑکی)کچھ اثر پذیر ہوا بلکہ دراز کیا حضرت نےاپنے دست شریف (کیا موضوع لفظ ہے ! یہ تو تبت بَد آپڑھنے کا محل ہے)کے تئیں تا کہ پکڑیں اُس کے ہاتھ کو اور ساکن ہوئے وہ شہوت سے حضرت اس وقت مغلوب ہیں۔ اس کی نصیحت نہیں سنتے، اپنی فرومائیگی نہیں دیکھتے، زبر دستی کرتے ہیں۔ وہاں کوئی پولیس نہیں تعزیرات ہند نہیں جوبے کسوں کا چارہ ہے۔’’بولی وہ اعوذ باللہ منک ‘‘اللہ کی پناہ تجھے۔نفس سر کش بے حمیت درکہ ضلالت میں بھی اللہ کے نام سے کانپ جاتا ہے ۔اُس کی پاک دامنی وعصمت اُس کی زجر و توبیخ اور نام خدا نے حضرت کے دل کوہلادیا۔ شہوت کا غلبہ زائل ہوا۔ ان کے اور اُس کےنفس کی خباثت اور شرافت کی نامناسبت نے چونکا دیا۔’’ حضرت نے اُسے فرمایا پناہ ڈھونڈی تونے پناہ گا ہ عظیم سے ،پس باہر آئے حضرت ‘‘ اپنا سامنہ لئے ہوئے۔چند ساعت ضمیر کے ڈنک سے خستہ و پرآشوب اور عورت کی آبرو رہ گئی ‘‘(منہاج ،صفحہ ۸۷۷، ۸۷۸)۔
۳۔ ’’ایک اور امراُُۃ تھی ملکہ بنت کعب ‘‘۔روضتہ الاحباب میں آتا ہے کہ جب حضرت نے خلوت کی اُس سے اور جب پوشش اس سے دور کی(یہ بے حیائی کے حالات حضرت نے خود ہی بیان کئے ہوں گے )سپیدی ایک نظر پڑی ،اس سے متفرق ہوئے اور فرمایا کہ لبا س پہن اور طرف اپنے اہل کےملحق ہو‘‘(منہاج النبوۃ، صفحہ ۸۸۰)۔
۴۔ ’’ شراف وحیہ کلبی کی بہن تزویج فرمایا حضرت نے اُسے ،پس ہوئی وہ پیش ازدخول‘‘۔
۵۔ ’’لیلیٰ بنت حظیم تزویج فرمایا اس کو اور تھی یہ عورت غیورّ ‘‘۔ اس عورت نے حضرت سے طلاق لے لی تھی ۔غیرت دار عورتیں حضرت کے پاس نہیں رہ سکتی تھیں۔ اُن عورتوں میں جو حضرت نے قبول کیں شاید ایک شروع میں باغیرت تھی یعنی ام سلمہ، مگر حضرت نے دعا کر کے اس کی غیرت خد ا سے دور کر ادی جس کا ذکر ہم اُوپر کر چکے ہیں۔ ایک یہ عورت بھی غیرت دار تھی۔ شاید حضرت کی دعا اُس کے حق میں مُستجاب نہیں ہوئی، اس لئے اس کو طلاق لینی پڑی۔ اس کا قصہ طلاق یوں مرقوم ہے کہ :
’’ لیلیٰ اپنی قوم کے پاس گئی اور انہوں نے اس کوآگا ہ گردانا کہ تو ایک عورت ہے غیورّ اور محمدﷺ بہت سے قبیلے رکھتا ہے۔تو غیرت سے جلےگی اور باتیں کرےگی اور وہ قہر میں آئےگااور تجھ پر بد عا کرے گااور دعا اس کی مستجاب ہے ۔ جاطلب فسخ نکاح کر ‘‘۔
یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سے اخلاق اپنی عورتو ں کے ساتھ کیسے تھے۔ چنانچہ اس عورت نے حضرت سے طلاق لیا ،مگر قسمت بری نہ تھی اُس کو شوہر مل گیا۔ کوئی غیر مسلمان ہوگاجس پر حضرت کی جوروئیں حرام نہ تھیں( منہاج النبوۃ، صفحہ ۸۸۰ )۔
۶۔ایک عورت تھی مرہ بن عوف سعد ۔حضرت نے اس کی خواستگاری تھی مگر اس کے باپ نے بہانہ کیا کہ وہ لڑکی برص رکھتی ہے ،آپ کے لائق نہیں ۔ مسلمان کہتے ہیں چونکہ لڑکی بچانے کےلئے باپ نےجھوٹ بولا ۔حضرت کی کرامت سے لڑکی مبروص ہوگئی( منہاج النبوۃ ۸۸۱)۔
۷۔ ایک عورت ام ہانی تھی جس سے زمانہ جاہلیت میں حضرت کی آنکھ لڑی تھی۔ یہ آپ کے چچا ابوطالب کی صاحبزادی تھی او رآپ کے بھائی و جمائی حضرت علی کی ہمشیرہ۔ مگر حضرت کو یہ نہ ملی ۔چچا نے بیٹی کسی اور کو دیدی ۔ بعد مدت یہ پھر قبضہ میں آئی تھی جب گود میں اُس کے ننھے بچے تھے۔ حضرت سے اُس نے عذ رکیا نکاح سے، حضرت نے منظور فرمایا ۔ ذکر اس کاپہلے ہو چکا ہے۔واضح ہو کے ہم نے مدارج النبوۃ سے ان سات عورتوں کا ذکر کیا ہے اور یہ سات علاوہ اُن گیارہ یا پندرہ کے ہیں جوازواج محمدﷺ میں داخل سمجھی جاتی ہیں۔اوریہ سات ’’اُن بیس یاایک زیادہ عورتوں میں سے جن کو حضرت نےوقتا ًفوقتاً علاوہ ازواج مطہرات کے تاڑاتھا(منہاج، صفحہ ۸۷۷ )