فصل سوم

قرآن و تعدد از واج

دفعہ اول

نئی تاویل عدل کی دل لگی

ایک نئی تاویل قرآنی حکم کثرت مناکحت کی سید صاحب کرتے ہیں اور وہ تاویل’’ نئی روشنی‘‘ کا حصہ ہے۔ علما ئےاسلام اس کی داد نہیں دے سکتے ہیں ۔ سورۃ نساء کی آیت ۳میں ہے وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا ترجمہ:’’ نکاح کر و جو تم کو خوش آئیں عورتیں دو دو، تین تین، چار چار ۔پھرا گر ڈر و کہ برابر نہ رکھوگے تو ایک ہی یا جو اپنے ہاتھ کامال ہے‘‘ اور پھرع میں ہے ۔’’ تم ہر گز نہ رکھ سکوگےعورتوں کو برابر اگر چہ اس کا شوق کرو ،سونہ رہے پھر بھی نہ جاؤکہ ڈال رکھو ایک کو جیسی آوہڑ میں لٹکتی‘‘ ۔سید صاحب فرماتے ہیں کہ:

’’ شارع اسلام نے از واج کی ایک تعداد مقرر کردی اور ازواج کےمواجب وحقوق اُن کے شوہروں پر معین کردیئے اور شوہرپر فرض عین کردیا کہ سب ازواج سے من جمیع الوجوہ برابر برتاؤ رکھے۔ تعد د ازواج میں ایک قید ایسی لگادی ہے جس سے یہ فعل صرف محدود ہی نہیں ہوگیا ہے بلکہ جس آیت سے اِذن (حکم ۔اجازت)مفہوم ہوتاہے ،اس آیت کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ کوئی شخص ایک سے زیادہ زوجہ نہ کرے،اگر وہ چاروں ازواج کے ساتھ برابراور منصفانہ برتاؤ نہ کر سکے‘‘ ۔

جیسا مولوی سید احمد خان صاحب نے فرمایا ہے کہ تعد دازواج میں بہت سے شدید قیوولگادیئے گئے ہیں اوربہت سے سخت قواعد مقرر کردیئے گئے ہیں، جیسا چاروں ازواج کے مواجب و حقوق میں مساوات کلّی رکھنا اور چاروں سے برابر الفت اورمحبت رکھنا وغیرہ وغیرہ۔ پس بہر کیف حکم تعد د ازواج کو ازقبیل نوا ہی سمجھنا چاہیے ، نہ از قبیل اوامر(صفحہ۲۰۵،۲۰۴)۔ سب پر ظاہر ہےکہ قرآن مجیدچار عورتوں کو بشرط عدل جائزبتاتا ہےاور یہ بھی کہتا ہے کہ’’ تم ہر گر عد ل نہ کر سکو گے عورتوں میں اگرچہ اس کا شوق کرو‘‘۔ پس یاتو یہاں بقول سید صاحب ’’بمفااذفات الشرط فات مشروط ‘‘تعد دازواج حرام ہوا اور تعددازواج کو ازقبیل نواہی سمجھنا چاہئے ، کیونکہ عدل ناممکن ہے۔ جیسا قرآن مجیدکہتا ہے اور سید صاحب خود تسلیم کرتے ہیں کہ’’ ایسا عدل کرنا انسان کے امکان سے باہر ہے ‘‘( حاشیہ صفحہ ۲۱۹)۔تواب ماننا پڑا کہ یا تو ہر مسلمان محمدﷺ سےلےکر امام حسن اور مابعد کےایمانداروں تک جس نے کبھی تعد دازواجی کو اپنے لئے جائزرکھا، موافق شریعت اسلام حرام کاری اور نواہی کا مرتکب ہوا یایہ قول کہ ’’تم ہرگز عد ل نہ کرسکوگے عورتوں میں‘‘ باطل ہے ۔ اور اگر یہ دونوں قول درست ہیں تومعلوم ہو ا کہ عدل سے مراد کچھ اَور ہے جس کاکرنا دشوار نہیں اور تعد دازواج کے لئے ’’سب ازواج سے من جمیع الوجوہ برابر تاؤرکھنا یا اُن کے مواجب وحقوق میں مساوات کلی رکھنا اور چاروں سے برابر الفت و محبت رکھنا وغیرہ وغیرہ‘‘ ہر گز فر ض نہیں۔ اور ہم یہ بھی دکھادیں گے کہ ان شرائط کو نہ تو خود محمدﷺ نے کبھی پورا کیا اور نہ اپنے اوپر ان کا پورا کرنا واجب جانا اور نہ کسی ایماندار مسلمان نے ایسا سمجھا اور یہ کیونکہ ممکن تھا کہ جو فعل خود محمدﷺ کی ذات کے لئے ناممکن تھا ، کسی مومن اُمتی کے لئے ممکن ہو سکتا ۔

قرآن مجید نے حکم دیا تھا کہ بشر ط عدل چار بیویاں رکھ سکتے ہو، مگر فوراً کہہ دیا کہ’’ تم ہر گز عد ل نہ کر سکوگے عورتو ں میں اگرچہ تم اس کا شوق کرو‘‘ چاہے کتناہی چاہو عد ل کرنا ناممکن ہے ۔ ’’یہ صاف صاف کہہ دیا گیا کہ عدل کا لحاظ رکھنا انسانی قدرت سے باہر ہے‘‘ (صفحہ ۳۴۹ ،انگریزی)اور محمدﷺ کو ذاتی تجربہ ہے، وہ زیادہ عورتیں رکھ کے دیکھ چکے ۔ پس وہ اب عدل کی کوئی شرط مقر ر نہیں کرتے بلکہ بجائے عدل کے جو ناممکن تھا ایک منفی حکم ہلکا سا دیتے ہیں جو کسی کےلئے محال کیا مشکل بھی نہیں اور وہ شرط صرف یہ ہے’’ سونہ رہے پھر بھی نہ جاؤکہ ڈال رکھو ایک کو جیسی آوہڑ میں لٹکتی ‘‘ صرف یہی ایک شرط ہے ۔ جب ایک سے زیادہ عورتیں کر لوتو ان میں سے کسی ایک کو بالکل رانڈ کی طرح ڈال نہ رکھو نہ یہ ضرور ہے کہ ’’من جمیع الوجوہ برابر برتاؤ کرے‘‘ ،’’ نہ ازواج کےمواجب اور حقوق میں مساوات رکھے‘‘ اور نہ’’ چاروں سے الفت اور محبت رکھے۔ اورمحض اس ایک طرح سے اگلے اور پچھلے مسلمانوں کی کثرت ازواجی شریعت اسلام کے مطابق ہوسکتی ہے، ورنہ سب حرام کرتےرہے، جس کا حاصل یہ ہوا کہ جناب بجائے کثرت ازواجی کے شرط عدل کو’’ ازقبیل نواہی سمجھے نہ ازقبیل اوامر‘‘ (امام حسین بٹالوی کے اسلامی اخلاق کےموافق ’’اُس وقت کے دونوں آنرایبل ریفا رمروں ‘‘کی رائے شرط عدل کا بڑے زور شور سے ابطال کیاہے اور اُ سکو گویا بہت جورؤوں کے شوہر پر ظلم سمجھاہے (دیکھو ان کا رسالہ صفحہ۱۵۷۔۱۵۸)۔

دفعہ دوم

شرط عدل وسنت نبوی

محمدحسین صاحب فرماتے ہیں کہ عدل کو (جوفی الحقیقت ظلم ہے ( قائم رکھنے کےلیے شریعت اسلام نے چار سے زیادہ جورؤوں کی اجازت نہیں دی۔

’’ہرایک پریہ ظن تو عموماً ہو سکتاہے کہ کثرت ازواج کی حالت میں وہ عورتوں کی حق تلفی کرے گا اور ان میں عدل نہ کر سکےگا اور آنحضرت صلعم چونکہ اُن ظنوں اوربرے گمانوں سے پاک اور مبرا تھے اور اپنا حال وہ یقیناً جانتے تھے اور بے اعتدالی کے خوف سےمطمئن تھے ۔ لہٰذا آپ کے لئے وہ تحدید (جو صرف مفلنہ پر مبنی تھی) ضروری نہ تھی‘‘ ۔

اس لئے آپ کو چار سے زائدجورؤوں کی رخصت خدانے دی پھر فرماتے ہیں ’’مگر یہ جواب ان ہی لوگوں کے لئے طمانیت بخش ہے جو آنحضرتﷺ کو نبی برحق مانتے اور ان ظنوں سے بری جانتے ہیں ۔ آنحضرت ﷺکے مخالف اور دین اسلام سے منکراس جواب کو تسلیم نہ کریں گے‘‘(صفحہ۱۶۸،۱۶۷) ۔

میں دکھائے دیتاہوں کہ اس فرضی عدل والے قانون کو حضرت نے خود کیسے برتا اور آپ کس درجہ اور کس معنی میں ’’بے اعتدالی کے خوف سے مطمئن تھے ‘‘تاکہ مخالف و موالف دونوں کی آنکھیں کھل جائیں ۔ سورہ احزاب رکوع چھ(۶)آیت ۵۱ میں ہے تُرْجِىْ مَنْ تَشَآءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِىٓ اِلَيْكَ مَنْ تَشَآءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۚ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ تَقَرَّ اَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَآ اٰتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۚ وَاللّـٰهُ يَعْلَمُ مَا فِىْ قُلُوْبِكُمْ ۚ وَكَانَ اللّـٰهُ عَلِيْمًا حَلِيْمًا ’’ پیچھے رکھ دے تو جس کو چاہے ان میں اور جگہ دے اپنے پاس جس کو چاہے اور جس کو جی چاہےتیرا اُن میں سے جو کنارے کردی تھیں تو کچھ گناہ نہیں تجھ پر‘‘۔ اس کی صحیح تفسیر میں حسینی لکھتا ہے ’’ دروسیط اور وہ کہ جوب قسم بدین آیت ازحضرت صلعم ساقط شدہ ‘‘لوحضرت کےاوپر کسی قسم کاعدل وانصاف اس آیت سے واجب نہ رہا۔ عام طور سےسمجھنا ہے کہ مسلمانوں پرواجب ہے کہ درمیان عورات کے کسی قسم کی مساوات (گووہ مساوات وہ ہرگز نہیں جس کے سید احمد یاسید امیر علی مدعی ہیں) کی رعایات رکھیں، مگر محمدﷺ صاحب آزاد کردیئے گئے چاہے کسی عورت سے ملیں چاہے نہ ملیں،چھوڑ رکھیں چاہے چھوڑی ہوئی کو پھر بغل میں بلا لیں اور چاہیں تو ڈال رکھیں کسی ایک کو اوہڑ میں لٹکتی جیسا سو دہ کے بیان میں ہم دکھادیں گے ۔چنانچہ حضرت ﷺکی عورات میں ناانصافی ظلم سے نالاں ہوئی تھیں ۔’’ درروایت دیگر زینب گفت تو عدل نمی کنی میا ن مابآنکہ پیغمبر خدائی‘‘ (حیات القوب صفحہ ۵۷۳)مگر حضرت پر انصاف ہی فرض نہیں ۔شاید اس وقت ہمارے سید صاحب کو وہ سچاسخن یاد نہ ہوگا کہ ’’فعل کا اثر ہمیشہ قول سے زیادہ ہوتاہے۔ لہٰذا جب بادشاہوں کےمتعددمحلات ہوئی تب رعایا اُن کی تقلید ہے کب چوکتی تھی ‘‘۔ سواب تو محمدﷺ کو قول بھی موجود ہے اور فعل بھی موجود ہے’’ اور فعل کااثر ہمیشہ قول سے زیادہ ہوتا ہے ‘‘۔کون ہے جو مسلمانوں کو ان کے نبی کی سنت موکدہ کے اثر سےمحروم کر سکتا ہے، کیا کسی نئی روشنی والے کا قول صفحہ۴۔

دفعہ سوم

حدتعددنمائشی ،نہ حقیقی

سید صاحب کا قول کہ’’ شارع اسلام نے ازواج کی ایک تعداد مقررکردی ‘‘غلط ہے ۔اتنا تو سچ ہے کہ کوئی مسلمان ایک ساتھ چار سے زیادہ منکوحہ عورتیں نہیں رکھ سکتا ،مگر آگے اسی آیت میں ہے’’جو اپنے ہاتھ کامال ہے ‘‘۔ اور سورہ احزاب ع ۶آیت ۵۲میں ہے إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيبًا ’’ہم کو معلوم ہے جو ٹھہرادیا ہم نے اُن پر اُن کی عورتوں میں اور اُن کے ہاتھ کے مال میں‘‘۔ اور سورہ مومنون آیت۵ وَالَّـذِيْنَ هُـمْ لِفُرُوْجِهِـمْ حَافِظُوْنَ اِلَّا عَلٰٓى اَزْوَاجِهِـمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُـهُـمْ فَاِنَّـهُـمْ غَيْـرُ مَلُوْمِيْنَ ’’اور جو اپنی شہوت کی جگہ تھامتے ہیں مگر اپنی عورتوں پر یااپنے ہاتھ کے مال پر سو ان پرنہیں اُلاہنا(گلہ شکوہ۔برائی) ‘‘۔یہ ’’ہاتھ کامال ‘‘جن پر شہوت زنی مباح (حلال)ہے ،لونڈیا ں ہیں ان کی کوئی حد نہیں ۔اگر کسی مسلمان کے ہاتھ ہزار لونڈیاں لگ جائیں تو وہ اُن کو اپنی مدخو لہ بنا کر اور اپنی چار جورؤوں پر اضافہ کرکے شریعت اسلام سے باہر نہیں جاتا ۔پس لونڈیوں کی کوئی تعدا د نہیں ،مگر لونڈیاں جو منکوحہ نہ ہوں اور بےنکاح تصرف میں آئیں ،عورتیں ضرور ہیں۔ پیش رکھناعین حق ہے کہ اسلام کی رو سے مرد کو اختیار ہے، چاہے جس قدر عورتیں اپنے حظ نفس کےلئے جمع کرے ۔ اُن میں عدل وغیرہ کسی قسم کی قید نہیں اور حضرتﷺ کے پاس بھی باوجود ایک درجن سے زیادہ منکوحہ عورتوں کے چار لونڈیاں بھی تھیں جن میں سے ماریہ ،قبطیہ اور ریحانہ بہت مشہور ہیں۔

دفعہ چہارم

لونڈیاں حلال

لونڈی حلال ہے،مگر ہمارے مخاطب نے غضب ڈھایاہے،وہ انکا ر کرنے پر آگئے ہیں اور ہر حقیقت اور واقعہ کا جواب ان کے پاس انکار محض ہے۔ ہم ابھی قرآن مجید کی آیات پیش کرچکے کہ لونڈیا ں مسلمانوں کو حلال ہیں اور ان کی کوئی تعد اد محد ود نہیں ۔سید صاحب فرماتے ہیں :

’’یہ بھی کہاہے کہ آنحضرت نے اپنی اُمت کو علاوہ چار نکاحوں کےاجازت دی ہےکہ جتنی لونڈیاں چاہوکرو ۔۔۔ یہ قول سچے احکام شرع کے کس قدرخلاف ہے۔ اس بات میں حکم شرع یہ ہے جوشخص تم میں سے اتنا مقدور نہ رکھتاہو کہ ایک آزاد مسلمہ سے عقد کرسکے تو اس کو چاہئے کہ اُن لونڈیو ں سے نکاح کرے جن کو جہاد میں گرفتار کیا ہو۔اس کی اجازت اس شخص کو دی جاتی ہے جو ارتکاب معصیت کا اندیشہ رکھتا ہو، لیکن اگر تم پر ہیز کرو تو تمہارے حق میں بہتر ہو گا‘‘(صفحہ نمبر۲۱۸)۔

ہمارے دوست نہ سمجھے کہ یہاں اس کی اجازت ہےکہ اگر کسی شخص کےپاس لونڈی نہ ہواور آزاد عورت نکاح میں لانے کامقدور بھی نہ ہو اور جورو چاہتا ہو تو اور کسی شخص کو لونڈی سے آسا ن شرائط پر نکاح کرے۔ سورہ نساع ۴دیکھیے یہاں بے مقدور شخص کا ذکر ہےاور ہم آپ سے اُس شخص کےبارےمیں بحث کرتے ہیں جس کو علاوہ چار جورؤوں کےلونڈیاں رکھنے کا مقدور ہے ۔افسوس آپ اتنابھی نہ سمجھےکہ کیادارالاسلام کی لاکھوں لونڈیاںصرف بے مقدور لوگوں کے نکاح کےواسطے ہوسکتی ہیں ۔افسوس آپ مومنین کی حق تلفی کرتے ہیں۔پہلےتو اُ ن کے چار جوروئیں رکھنے کے حق سےمنکر ہوئے جاتے تھے ،اب اُن کی لونڈیاں بھی خلاف شرع دین محمدی اُن سے جداکرنے کاقصد کرتےہیں اورسنت نبوی کامطلق خیال نہیں کرتے۔آپ کوکوئی منصب نہیں کہ آپ زبان درازی سے علما ئےاسلام کو جوقرآن مجید اور سنت پر اس امر میں چل رہے ہیں ’’خیالات کہنہ کے بار ے‘‘ الزام دیں اور اُلٹا کہیں کہ وہ’’ رسول اللہ کے احکام کو کماحقہ نہیں سمجھ سکتے ‘‘۔یہ الزام آپ پر عائد ہوتا ہے مگرتعجب ہے کہ آپ قرآن مجید کی نص کا خیال نہ کرکے بلاتامل فرماتے ہیں کہ’’ ہمارے فقہانےلونڈیاں رکھنے کو جائز قرار دیاہے۔ حالانکہ یہ فعل آنحضرت کےاصل منشا کے خلاف ہے‘‘(صفحہ۲۱۸)۔افسوس اصل منشا کی کیسی خرابی کی ہے۔ اگراصل منشا یہی تھا تو محمدﷺ نےاپنے اوپر لونڈیاں کیسےحلال کرلیں اور امام نسائی جس کی کتاب صحاح ستہ میں داخل ہے، چار جورؤوں کےساتھ بہتیری لونڈیاں صحبت میں کیوں رکھتا تھا؟ ا یسے حضرت علما ئےاسلام جن خیالات کہنہ کےبارسے لدے ہوئے ہیں وہ بار اُن کو مثل حدیث متصل و صحیح کےحضرت ﷺسے پہنچا ہے۔حضرت محمدﷺ اس ’’نئی روشنی‘‘ کےاسلام سے واقف نہ تھے ۔

دفعہ پنجم

متعہ النسا

ہم دکھلا چکے کہ اسلام میں نہ صرف چار جوروئیں نکاحی حلال کی گئی ہیں بلکہ لاتعد اد لونڈیاں بھی جن کی حد صرف عیاشی کی قدرتی انتہا ہے، مباح ٹھہری ہیں، نہیں بلکہ اُن سے بھی بڑھ کر عام رنڈی بازی جس کو شرعی اصطلاح میں متعہ کہتے ہیں ،حلال ومشروع ہے جس کے تما م شیعے قائل ہیں۔ سُنیوں نے اس مسئلے سے عفایت وضعیف ووسواسی شہادت کی بنا پر انکار کیا ہے اور وجہ اُ س انکار کی بجنسہ وہی ہے جس سے فی زمانہ نئی روشنی والے مہذب مسلمان اسلام میں زبردستی کثرت ازواجی کو حرام ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ فصل دہم میں ہم اس ناپاک مسئلہ کاشریعت اسلام کےساتھ تعلق ثابت کریں گے ۔