فصل یا زدہم
تقویم پار ینہ
ہم نے حضرت کی ازواج کے حالات مفصل پر تحقیق کےساتھ نظر ڈالی اور ان کے ساتھ حضرت کی بے حیائی کے تعلقات دیکھے ۔ ہم یہ کہےبغیر نہیں رہ سکتے( گو وہ بمصداق الحق مر انکے تابعین کو کیساہی ناگوار کیوں نہ معلوم ہو) کہ حضرت شہوت پر ست وعیا ش پر لے درجہ کے تھے۔خدیجہؓ کی وفات کے دو ماہ بعدہی حضرت نے دو عورتوں سے یعنی سودہ اور عائشہؓ سے نکاح کر لیا اور اُن کی جورؤوں کا روزنامچہ جس سے مسلمان انکا ر نہیں کرسکتے ہم ہدیہ ناظرین کرتے ہیں ۔
سن | حضرت کی عمر شریف | نام ازواج مطہرات | مختصر کیفیت ازواج مطہرات کی |
۱۰ نبو ی | ۵۱ سال | سودہ | حضرت سودہ کو جب تک عائشہؓ تیار نہ ہوئی مثل پر تل کے رکھتے رہے۔ مابعد کبرسنی کے باعث حضرت نے اُن کو بالکل پنشن دےدی تھی اور اُن کی جگہ عائشہؓ کو قبول فرمایا اور محمدحسین بٹالوی کےقول پلاؤ اور جو کی سو کھی روٹی کی داد دی ۔ |
عائشہ | اس وقت اُن کی عمر کل سات(۷) سال کی تھی۔ پہلے ہی سے حضرت نے اُن کو اپنےواسطے رکھ چھوڑا ۔ | ||
۱ ہجری | ۵۳سال | عائشہ | دو برس بعد جب عائشہؓ ۹ برس کی ہوئیں حضرت نے ان سے زفاف فرمایا۔ یہ حضرت کی بڑی چہیتی بی بی تھیں کیونکہ کنواری صرف یہی تھیں یعنی منکوحہ عورتوں میں۔ ماریہ لونڈی بھی کنواری تھی بعد عائشہؓ کے حضرت اس پر بھی دل دادہ تھی اور یوں توتمام جوان عورتوں کو چاہتے تھے۔ |
۳ ہجری | ۵۵ سال | حفصہ | یہ بڑی قبول صورت پر ی تمثال عورت ۱۷ سال کی نوجوان تھی ۔ |
۳ہجری | ۵۵سال | ام المساکین | یہ بہت جلد فوت ہوگئی ۔ |
۴ ہجری | ۵۶ سال | ام سلمہ | کوئی ۲۷ سا ل کی عمر والی عورت تھی ۔ |
۵ ہجری | ۵۷سال | زینب بنت جحش | یہ زید حضرت کے فرزند متبنیٰ کی جورو تھی مگر بڑی حسین ماہ پارہ عابد فریب تھی۔ آخر حضرت نے اس کو اپنی جورو بنا لیا۔ |
۵ ہجری | ۵۷ سال | ریحانہ | حضرت نے اس کو بہت سی عورتوں میں سے چھا نٹ کر اپنی جورو بنا یا ۔ |
۶ہجری | ۵۸ سال | جویریہ | ازحد حسین، عمر اس کی ۲۰ سا ل تھی ۔ |
۷ ہجری | ۵۹سال | ماریہ قبطی | گورے رنگ والی بڑی صاحب جمال تھی۔حضرت اس پر فدا تھے حتیٰ کہ عائشہ رشک کھاتی تھی ۔آپ کو تحفہ میں ملی تھی اور کنواری تھی۔ |
۷ہجری | ۵۹ سال | صفیہ | ازحد حسین تھی۔ نوعروس ۱۷ سا ل کی ۔ |
۷ہجری | ۵۹ سال | ام حبیبہ | اس کو حضرت نے اپنے واسطے حبش سے بلوایا تھا ۔اُس کی عمر تیس سا ل تھی۔ حضرت اس کو ایک ملکی غرض سی بھی نکاح میں لائےتھی ۔ |
۷ ہجری | ۵۹ سال | میمونہ | انہوں نے حضرت کو اپنا نفس بخش دیا تھا’’ بر گ ِسبز اَست تحفہء درویش‘‘(سبز پتا فقیر کا ہدیہ ہے) اور حضرت نے جودو کرم کو کام فرما کر ان کو ’’گر قبول افتدزہی عرذشرف‘‘ قبول فرمایا لیا اور اس میں ایک بڑی غرض یہ بھی تھی کہ آپ اس کےرشتہ واروں کو جو مخالفت کرتے تھے ٹھنڈا کرنا چاہتے تھے ۔ |
اب حضرت کے جوروئیں فراہم کرنےکے آگے بجزموت کے کوئی روک باقی نہ رہی تھی۔ آخر حضرت ہجرت کےدس برس بعدمرگئے اور مرتے مرتے نکاح کر گئے۔ چنانچہ حیات القلوب والا کسی شنیاہ دختر ضلت کا ذکر کرتا ہےکہ’’ حضرت اور اتنرویج نمودوپیش ازان کر اور بخد مت حضرت بیادندحضرت زوارفانی رحلت نمود‘‘(صفحہ ۵۶۸)جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بستر مرگ ہی پر جس کو وہ بستر مرگ نہ جانتے تھی حضرت نےیہ نکاح کیاتھا مگر نوبت صحبت کی نہ آنے پائی۔ یہ انتہائی بو الہوسی (بہت زیادہ حرص۔نفسانی خواہشات پر بہت زیادہ چلنا)ہے ۔
اس روزنامچہ سے جو مکمل نہیں کیونکہ ا س میں حضرت کی چار لونڈیوں میں سے دو کا تذکرہ نہیں کیا گیاصاف عیا ں ہے کہ علاوہ بی بی خدیجہؓ کے جن کا انتقال قبل ہو گیاتھا ،حضرت کے پا س کم سے کم کوئی چو د ہ جوروئیں تھیں اور حضرت نےیہ نکاح وغیرہ بعد وفات خدیجہؓ شروع کئے تھے۔ خدیجہؓ ۱۰سن دعویٰ نبوت میں مری اور اس کے بعد حضرت ۱۳ برس اور جئے ۔ اگر آنحضرت اس ۱۳ برس کے زمانہ میں صرف ۱۳ عورتیں کرتے تو وہ شیخ سعدی کے اُس لطیفہ کے مصداق ہوتے ’’ زنے نو کن اسے دوست ہرنوبہار۔ کہ تقو یم پاری نباید بکار‘‘ ۔ مگر حضرت نے اُ س کو نافذکر دیا۔
ہمارے مخاطب اول تو حضرت کے حرم سرا کی تعد اد میں قطع برید کرتے رہے پھر حضرت کی جورؤوں کو بڈھی سے بڈھی ثابت کرتے ہے اور یہی کہتی گئے کہ بیکس بیوا ؤں کی پرورش کرنے کے لئے حضرت جوروئیں رکھتے تھے۔ گویا حرم سرا کیاایک محتاج خانہ تھا۔ مگر ہم نے دکھایا کہ حضرت شہوت زنی و عیاشی کرتے تھی ۔ہر عمر کی ایک عورت حضرت رکھتے تھے۔ یہاں ۷سے ۹ برس تک کی باکرہ بھی ہے۔ ۱۷ برس کی نوعروس بھی، دو تین ۲۰ سا ل والی بھی، ۲۷ سال والی بھی، ۳۰ والی بھی، ۳۵ والی بھی، ۴۰ والی بھی اور پچاس والی بھی تاکہ ہوس کم نہ ہو اورتجربہ زیادہ ہو۔ فرنگی محل، چینی محل،حبشی محل والوں نے حضرت ہی کو اپنا استاد مانا ہوگا ۔یہ سو جھ بوجھ مرحباسید مکی مدنی والعربی ہی کوتھی اورعورتو ں کا انتخاب حضرت یوں کرتے تھےجیسا حیات القلوب والے نے لکھا ہے’’ کلینی بسند معتبر روایت کردہ است کہ چون حضرت رسول ارادہ خواستگار ی زنے می نمودوزنے افرستاد کہ نظر کندبسوی ادومی فرمود کہ بوکن گردنش راا گر گرونش خوش بوست ہمہ بدنش خوش بوست وغورک پایش راملاخطہ کن کہ اگر آنجاپر گوشت است ہمہ جائے تن اوپر گوشت است وجوہ ‘‘عورتوں کی پر کھ تو شاید کسی ریئس اودہ کو بھی نہ معلوم تھی ۔اے سید صاحب شرم کیجیئے اور ایسے بے تکی نہ ہانکیے۔حضرت عیاش تھے پر گوشت عورتوں کو تلاش کر اکراور جبرائیل کےلائے ہوئے ایسےاور حبوب امساک کھاکھا کریا شہد اور کیکر کارس پی پی کر جس کاپتا مولانا عمادالدین نےدیا ہے (تاریخ محمدی ، صفحہ ۲۳۲)رات بھر عیاشی کیا کرتے تھے ۔جیسا خود محمد حسین قبول کرتے ہیں کہ’’ حضرت ایک ہی ساعت میں رات یادن کےسبھی ازواج سے ہم بستر ہوتے‘‘(صفحہ ۱۹۴)۔ پس بیوہ پرور ی کا خیال تو جانے دیجیے۔ محمدحسین کہتے ہیں کہ’’ مخالف بھی تجویز نہیں کر سکتا کہ آپ کا کثرت تعدد نکاح شہوت پرستی ونفس پروری کی غرض سے تھا۔۔۔ آپ نفسانی ا غراض رکھتی اور ان اغراض سے عیش چاہتے تو عالم شباب میں رسم ورواج قوم کےمطابق بہت سی عورتیں نکاح میں لاسکتے تھے۔ سو بھی جوان اور باکرہ جونفسانی اغراض کا اصل محل ہیں‘‘(صفحہ ۱۷۲،۱۷۱)۔اس کا جواب ہم دے چکے کہ عالم شباب میں زرنیست عشق ٹیں ٹیں تھا ۔ حضرت کوا یک جوروڈھو نڈے نہ مل سکتی تھی اور جب خدیجہؓ سے آپ نے نکاح کیا تو آپ اس کی زندگی بھر اس کےحلقہ بگوش طو عاًو کر ہاًرہے۔ کان بھرنے کا ابھی کوئی ظاہری موقع نہ تھا۔ پھر مولوی صاحب فرماتےہیں اگر کوئی اس بات کونہ مانے (اور مانے کیسے) تو وہ یہی خیال کرلے کہ اس تکثرو تعد دازواج پر باعث آپ کو نفسانی اغراض ہوتے تو جس وقت آپ صاحب سلطنت اور ملک عرب ویمن وشام کےمالک و متصرف ہوگئےاور اس تعداد نکاح کے مرتکب ہوئے تھے اسی وقت آپ جوان باکرہ عورتوں سے نکاح کرتے ۔مولوی صاحب کو نہیں معلوم کہ یوں ہی حضرت نےاپنے آپ کوصاحب سلطنت دیکھا۔ملک الموت نےرگ جان کو کاٹا۔ حضرت کو جینے کی مہلت ہی نہ ملی اور کوئی نئی کلی دل کی نہ کھلی۔امید بستہ برآمدوے چھ فاید ہ زان ۔امید نیست کہ عمر گذشتہ باز آید ۔
مگر آپ ہماری تقویم کا مطالعہ کریں اور حضرت کی حرم سرا کا تماشہ دیکھیں۔ حفصہ جوان بھی ہے اور خوبصورت، زینب حسن وجمال کی موہنی مورت ،صفیہ نوعروس ۱۷سال ،جویر یہ نئی عمر پری تمثال ،ریحانہ کو حضرت نے چھانٹ کر پسند کر لیا ہے اور عائشہؓ کی کم سنی نےآپ کو اپنا پائے بند۔ جوروش ماریہ شہرہ آفاق ہے۔ جدائی اس کی حضرت کو شاق ہے۔ مگر آپ کو جوان اور باکرہ عورتوں کا پتا نہیں لگتا۔ عائشہؓ بھی باکرہ ہے اور کیاچاہئے ۔دوسری عورتیں جوانی کا نمونہ ہیں، اگر باکرہ نہیں تو کیامضائقہ۔ جہانگیر ایک غیر باکرہ بیوہ عورت کی طلب میں کیوں دیوانہ تھااور پھر یہ حضرت کی ازواج کس رنگ ڈھنگ کی تھیں۔ہم بتاتے ہیں بلکہ آپ کو اپنا کہایاددلاتے ہیں ۔سورہ احزاب رکوع۴میں خدا کوآپ کہناپڑا’’ اے نبی کی بیو یوتم اور عورتوں کی طرح نہیں تم خدا سے ڈرنےوالی ہو تو اجنبی مرد سے لچک اور پیار کی بات نہ کرو۔ اس سے بیمار دل والے طمع کریں گے۔دستور کے موافق بات کیا کرو۔ گھرمیں پڑی رہو، نادانی کے زنانہ کی طرح اپنی زینت سب مردوں کو نہ دکھاؤ‘‘(خطبہ، صفحہ ۳۲۸) ۔ان عورتوں کوآپ بڑھیانا حق کہتے ہیں ،حرمت کو اُن کی جوانی کا اس درجہ اندیشہ تھا۔
اور یہ جو آپ نے ارشاد فرمایا کہ’’ عقلی وطبعی قاعدہ ہے کہ جس عورت کا جمال وشباب کسی مرد کو مرغوب ومعشوق ہوتا ہے وہ ا س کے ہوتے دوسری عورت کا جو جمال و شباب میں اس سے کمتر ہو ہرگز طالب وراغب نہیں ہوتا‘‘(صفحہ۱۷۸)۔ اس کی تصد یق بھی سودہ اور عائشہؓ کے حالات میں ہم دکھا چکے ۔جو عیاش بہت سی نمائشی عورتوں جمع کررکھتے ہیں وہ بھی کسی ایک پر دلدادہ رہتے ہیں۔ ہمارے حضرت علیہ السلام بھی بنت ابوبکر پر گرویدہ تھے کیونکہ یہ بھی با کرہ تھیں اور کم سن بھی ۔بعد ان کے یعنی دوسرے درجہ پر آپ سفید پوست ماریہ پر شیداتھے۔ یہ بھی عائشہؓ کی مثیل تھی۔ اس کے بعد جویرپر پھر صفیہ پر پھرحفصہ پرعلیٰ ہٰذاالقیاس ہر جوان پر سودہ عمر میں بڑی تھی حضرت نےاس کو پنشن عطا فرمائی۔ میمونہ اور ام جیبہ وغیرہ جو عمر میں کچھ زیادہ تھیں حضرت کے دل میں کم جگہ پاتی تھی۔ مگر یہ عورتیں بھی بڈھی نہ تھیں بلکہ جس کوآپ بڑھیا سمجھتے ہیں اُس پر بھی جناب کا یہ سخن چسپا ں ہوتا ہےکہ’’ بن ٹھن زینت وسنگار سے بڑھیا بھی جوان معلوم ہوتی ہے اور وہ شدت کے حریصوں کی محل طع ہو جاتی ہے‘‘(خطبہ،صفحہ ۳۲۹)۔اس لئے حضرت بیمار دل لوگوں سے اندیشہ لاک تھے اور ان ازواج کو ارشادتھا کہ ان سے لچک اور پیار کی بات نہ کرو اور نہ اُن کو اپنی زینت دکھاؤ۔ مولوی صاحب کس کس بات کا انکار کروگےحضرت اپنی کرنی کر توت کےکافی سے زیادہ ثبوت اپنی تاریخ میں لکھاگئے ہیں۔