فصل نہم
حضرت کی کثرت ازواجی کی معذرت
حضرت کی کثرت ازواجی کی معذرت میں لوگوں نےبہت کچھ کہا ہے، مگر وہ کل عذرات بدتر ازگناہ ہیں اور معتر ضین کی گرفت بصد اق ’’زنند جامہء ناپاک گازراں برسنگ‘‘(عیب دار کا عیب دور کرنے کے لئے سختی کی ضرورت ہے) ہے ۔
دفعہ اول
خواہش اولاد وذکور
چنانچہ سید صاحب فرماتے ہیں ’’شاید بعض عقد آپ نے اولاد ذکور کی خواہش سے کئے ہوں ‘‘۔اولاد ذکور کی خواہش کوئی شرعی خواہش نہیں۔ حضرت ہندو نہ تھےکہ فرزند نرینہ کاوجود اپنی نجات اُخروی کے لئے لازمی سمجھتے ۔او رپھر آپ یہ بھی تسلیم نہیں کرتے کہ حضرت اپنے لئے کوئی بادشاہت پیدا کر رہے تھے، تخت نشینی کے واسطے فرزند چاہتے تھے۔ اگر یہ ہوتا تو اس کے لئے بھی فرزند لازمی نہ تھا۔ پھر قرآن مجید میں کفار عرب کی رسم کی مذمت آئی ہے کہ وہ لوگ مثل ہندوؤ ں کے لڑکوں کو مبارک اور لڑکیوں کو منحوس جانتے تھے۔ حضرت ﷺاس وقت ہر گز بے اولاد نہ تھے۔ آپ کی بیٹی فاطمہ زندہ تھی ۔علی آپ کا داماد موجود تھا ۔ نواسے موجود تھے ۔ اگر اب بھی آپ کو فرزند کی حرص تھی تو آپ بوالہوس تھے۔ بے اولادی کی حالت میں شاید آپ کا عذر کسی درجہ تک سموع ہوتا۔ مولوی محمدحسین صاحب کہتے ہیں:
’’ اولاد خصوصاَ نرینہ جس کو پہلے انبیا نے بھی چاہا ہے اور ہر ایک انسان بالطبع اس کی خواہش رکھتا ہے ان نکاحوں سے آپ کو مطلوب تھے‘‘(اور آپ ہم کو یاد دلاتے ہیں کہ)’’ حضرت زکر یاہ نے اپنے لئےخدا سے فرزند نرینہ کی دعا کی تھی‘‘ (صفحہ۱۹۱)۔
ہمارا اعتراض یہ ہے کہ ان تمام حرص و ہوا کو پورا کرنے کےلئے حضرت نے موافق شرع اسلام چار جورؤوں پر اکتفا کیوں نہ کیا۔ کوئی نیک مرد اولاد ذکور کی آرزو میں مر تکب منہیات(منہی کی جمع۔منع کی گئی) نہ ہوگا۔ جب شریعت چار کی موجود تھی تو چارسے زیادہ کر کے اولاد کی خواہش کرنا کے کیا معنی ؟کیا دنیا میں حرام زادوں کی کثرت متصور ہے۔ آپ بتائیں کہ کس نبی نے اولاد ذکور کی خواہش میں اپنی شریعت کا عدول جائز رکھا۔ سچ ہے کہ زکریاہ نے فرزند کی خواہش کی ، مگر کس حالت میں جبکہ وہ بڈھا ہو گیا تھا اور اس کی عورت بانجھ ثابت ہوئی ۔وہ بالکل لاولد تھا۔ بیٹی یا نواسے نہ رکھتا تھا۔ اُس کی خواہش حق بجانب تھی۔ مگر اس آرزو کو پورا کرنے کی تجویز زکریاہ نے کثرت ازواجی کے ذریعے نہ چاہی۔ حنت العمر خدا پر شاکر رہا اور خدا نے اُس کی آرزو پوری کی ۔تو ا س کی ایک ہی بیوی کو جو اس کی جوانی کی رفیق تھی بارور کیا اوربرکت دی۔ اگر حضرت مثل زکریاہ کے خدا پر شاکر رہتے اور خد ا سے فرزند چاہتے تو بہتر ہوتا مگر حضرت کو اس کی ضرورت نہ تھی۔ آپ نے اولاد نہ تھے اور اگر آرزو کی تھی تو اپنی شریعت کے اندرر ہتے اِس سے تجاوز کیوں کیا۔ اس کا جواب نہ سید صاحب سے بن آتا ہے، نہ مولوی صاحب سے ۔اس کا جواب وہی ہے کہ حضرت شہوت پرست تھے، عیش اُڑاتے تھے۔
دفعہ دوم
صلح واتحاد خاندانی
دوسرا عذر سید صاحب یوں کرتے ہیں’’واقعات کو بحیثیت کذائی دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان نکاحوں سے عمدہ نتائج پیدا ہوئے یعنی انہیں کی بدولت قبائل عرب میں باہمی جنگ وجدل موقوف ہوا اور گونہ موافقت اور اتحاد پید ہوا‘‘(صفحہ۳۱۱)۔ کتنا لغوسخن ہے، سراسر خلاف۔واقعہ بتایئے کس قبیلہ سے اور کب اور کیونکر کسی ایک نکاح کی وجہ سے صلح وآشتی کی بنیاد پڑی؟ ’’ باہمی جنگ و جدل موقوف ہونا‘‘ آپ کس خواب خرگوش میں ہیں ۔ خانہ جنگیاں پیدا ہوئیں ،حضرت کا ناک میں دم آگیا۔موئیا ڈاہ نے تمام امورتہ وبالا کردئیے تھے ۔خاندان کو مٹادیا ۔ حفصہ و عائشہؓ نے اولاد حضرت کو تمام حقوق سے محروم کرادیا۔ جنگ جمل کے حالات تو خود آپ نے انگریزی کتاب میں تسطیر فرمائے ۔حضرت کی جورؤوں کی باتو ں نے خلافت کو دبا کر اور آل محمدﷺ کو محروم کر کے معرکہ کربلا کی بنیاد ڈالی تھی اور وہ جنگ و جدل وشور و شغب برپا کرایا جس کی نظیرصفحہ تاریخ جہان پر نہیں مل سکتی ۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اُن نکاحوں نے حضرت کے ایوان نبوت کو خاک میں ملادیا ہے اور حضرت کو جوروئیں جمع کر نے والا، عورتوں کے عشق میں مبتلا، صحبت اور جماع سے عدیم الفرصت (جسے بالکل فرصت نہ ہو) ثابت کردیا ہے ۔ ان نکاحوں کی کثرت وحقیقت نے عائشہؓ پر سے الزام زنا ہٹانے کےلئے سورہ نور کونازل کرایا۔ طلحہ وزبیر کے ہاتھ میں عنان حکومت دےدی ۔ علی کو خراب کیا۔ فاطمہ کو غم زدہ گور میں اُتارا۔ حسن و حسین اورا سکی اولاد کا خون بہایااور کیا کیا کِیا چھپا نہیں گو آپ نہ دیکھیں ۔ اگر کوئی حضرت سے پوچھتا تو وہ آپ فرمادیتے ’’شامت احمال مامورت ناور گرفت‘‘۔
مگر حضرت اپنی زندگی میں اپنے کئے کی کافی پاداش پا چکے ہیں۔ چنانچہ مدارج والا لکھتا ہے(صفحہ۶۵۱)جلد۲’’ حضرت نے ازواج سے بہت آزار کھینچےاور ملول ہوئے ۔پھر سو گند کی کہ ایک مہینہ تک ان کے پاس نہ جائیں اور دوسرا سزا دیں تاکہ اپنے کئے سے پشیمان ہوں‘‘ ۔آخر حضرت خود اپنے کئے سے پشیمان ہوئے۔ ایک ماہ پورا بھی نہ ہوا تھا کہ آپ جورؤں سے ملنے کو آئے ۔ نوجوان عائشہؓ نے اس بے صبری پر طنہ مارا ہے توکہا ’’ یا رسول اللہ آپ نے قسم کی تھی کہ ایک ماہ تک ہمارے پاس نہ آؤ گےاور حال یہ کہ میں نے شمار کئے کہ ۲۹ روز سے زیادہ نہیں ہوتا ‘‘۔ فرمایا ’’ ایسا بھی ہوتا ہےکہ مہینہ ۲۹ روز سے زیادہ نہیں ہوتا‘‘ (منہاج،صفحہ۷۵۴) ۔ہم حضرت کی تاویل کی داد دیتے ہیں حضرت نے سچ فرمایا تھا میں عورتوں سے صبر نہیں کر سکتا ۔ حضرت اس عائشہؓ کی نسبت ہمیشہ بدظن رہے۔ اُنکو ڈرتھا کہ کہیں عائشہؓ مجھ کو چھوڑ نہ دے۔ چنانچہ جب آیت تخیر سنائی تو آپ کو غم عائشہؓ کی وصلت کا اور فراق دامن گیر حال ہو اکہ عائشہؓ دنیا کو اور’’اور زینت دنیاکو اختیار کرے‘‘(منہاج، صفحہ۷۵۵)۔ ہم کو اُمید کرنا چاہئے کہ بہرحال مسلمان بیٹیاں ممالک مغربی و شمالی کی اُمہات مومنین سے زیادہ وفادار اور تابعدار شوہر کی ہوتی ہیں اور ان کے شوہر اُ ن سے ’’بہت آزادرنہیں کھینچتے‘‘۔ شکر ہے اگر وہ جیسی ماں ویسی بیٹی کی مصداق نہیں اور انہوں نے حضرت کی ازواج کے اخلاق نہیں سیکھے ۔ ہم اس طوفان بدتمیزی کے افسانہ کو کہاں تک بیان کریں۔
دفعہ سوم
بیو ہ پروری
ہمارا مخاطب یہ بھی کہتا ہے کہ حضرت نے ’’غریب ونادار و بیوہ زنوں کو جوکوئی ذریعہ معاش نہ رکھتی تھیں۔۔۔اپنےحرم متحرم میں داخل کرکے اُنکی پرورش اور دستگیری کی‘‘۔ اس کی تردید تو سابق میں کما حقہ ہو چکی مگر یہ قول بھی غضب کا ہے۔ قول کیا کشت زعفران ہے اور صرف آپ ہی کا حصہ ہے ۔’’ اُس زمانہ اور اس قوم کے حالات کےموافق صرف یہی طریقہ ان بیچاریوں کی پرورش کا تھا‘‘۔ بیوہ پروری کا طریقہ اس زمانہ میں جو رو بنا نا تھا! صرف یہی طریقہ تھا،اے حضرت ۔زینب بنت جحش کی بابت جو لکھا ہے کہ ’’وہ پالنے والی یتیموں اور بیوہ عورتوں کی تھی‘‘(منہاج، صفحہ ۸۶۷)تو کیا اس سے ہم یہ سمجھیں کہ حضرت کی جورو زینب رانڈ،بیواؤں کواپنی جورو بنا لیتی تھی؟ ورنہ کوئی طریقہ بین بیوہ پروری کا تھا۔ اور اگر نہ ہوتا تو حضرت اہل عرب سے کیوں فرماتے ہیں کہ ’’بیوہ محتاج کی پرورش میں ساعی کا ثواب مجاہد کے ثواب کے برابر ہے‘‘(مشارق الانوار حدیث نمبر۱۳۹۳)۔ ہمارے مولوی بٹا لوی کو اس بیوہ پروری کے عذ ر نےبہت ستایا ہے ۔چنانچہ مخالفین کا یہ اعتراض نقل کرتے ہیں:
’’ اغراض نکاح تو اور ہی ہیں جن کا بیان تمہارے کلام میں ہوچکا ( یعنی تسکین و عفت نفس اور اولاد صالح کی طلب ۱۴۷ ) ۔ آنحضرت کو اُن نکاحوں سے صرف یتیم و بیوہ پروری اور دوست یا دشمن نوازی منظوری تھی تو یہ یوں بھی ہو سکتی تھی کہ ان لوگوں کی تنخواہ مقرر کردیتے یا اورسبیل سے احسان کر تے ،اُن عورتوں کونکاح میں کیوں پھنسالیا اگر اتنا ہی مقصود تھا ‘‘ (صفحہ ۱۹۱)۔
اس کا جواب مولوی صاحب سے کچھ نہیں بن آتابجز اس کے کہ ’’اولاد خصوصاً نرینہ۔۔۔ان نکاحوں سے آپ کو مطلوب تھی ‘‘۔ پس بیوہ پروری کا خیال تو دھرارہ گیا۔ یہ عورتیں ضرور اس قسم کی ہوں گی جن سےا ولاد کی توقع کی جاسکتی تھی۔ پس بڑھاپے کو رونابے سود ہےاور اولاد کی تمنا کے بارے میں آئندہ عرض کیا جائے گا۔
مگر بیوہ پروری پر حضرت کےدوسرے وکیل حکیم نورالدین صاحب کو ایک باکرہ برہان سوجھی ہے اور انہوں نےجج صاحب اور نیز مولوی صاحب کو مات کردیا ۔ آپ فرماتے ہیں’’ ان ایام میں چند بیوہ عورتوں کی پرورش اگر بدون نکاح حضور متکفل ہوتے تو پادری اور الزام پر کمر باندھتے‘‘ (فصل الخطاب جلد اول ، صفحہ۲۹) یعنی حضرت نے پادریوں کے ڈر کے مارے بہت سے نکاح کرلئے! بھئی یہ بھی ایک ہی ہوئی۔ میرا گمان توہے کہ محمدﷺ کو ڈر کسی کا نہیں تھا ۔ جورؤوں کےمعاملہ میں وہ تو خدا سے بھی نہیں ڈرے۔مگر ہاں انکے وکیل ’’ پادریوں کے اعتراضات کو دیکھ کر حیران ہیں اور مضطرب و پریشان ‘‘( ایضاً، صفحہ۲) اور یہ کچھ بے ہوشی کی ہانک رہے ہیں۔ بہر کیف سید صاحب کو بھی معلوم ہو گیا اور حکیم صاحب کو بھی کہ بیوہ پروری کا حیلہ کیسا باطل تھا۔ کیونکہ اگر حضرت کو بیوہ پروری کا خیال ہوتا اور اس فیاضی کے آگے عرب میں کوئی پیچیدگی حائل ہوتی تو حضرت ان رانڈوں سے اپنی اُمت کی بال بچہ دار رنڈوں کی دستگیری فرمانا زیادہ مناسب سمجھتے ۔ مگر ہم تو کبھی یہ صلائے کرم نہیں سنتے کہ ’’بخشیدم اگرچہ مصلحت ندیدم‘‘۔
دفعہ چہارم
تبلیغ اسلام و تعلیم نسواں
بعض مولویوں نے حضرت کی کثرت ازواجی کی معذرت میں ایک یہ امر بھی پیش کیا ہے کہ ’’جب اسلام خوب پھیلنے لگا اور بہت سے مرد و عورتیں مسلمان ہوگئیں تو ضرور ہو ا کہ اسلام کی باتیں سکھانے والے بھی زائد ہوں۔ مردوں کےلیے مرد اور عورتوں کےلیے عورتیں تاکہ تبلیغ احکام الٰہی اچھی طرح انجام پائے۔ ظاہر ہے کہ جس طرح عورت سے عورت ہر ایک امر کہہ سکتی ہے اور دریافت کرسکتی ہے ،مرد سے ہر گز نہیں کرسکتی ۔اس لئے ضرور تھاکہ آپ کی ہم صحبت عورتیں بھی ہو جائیں تا کہ وہ عورتوں کو احکام شرعی پہنچائیں ۔اور یہ امر ممکن نہ تھا بغیر اس کےکہ آنحضرت متعد د نکاح کریں کیونکہ شریعت محمدیہ میں غیر عورت کا ہم صحبت رہنا جائز نہیں۔ البتہ شریعت عیسوی میں غیر عورتوں سے خلاملا درست ہے۔ اور شاید اس وجہ سے عیسائیوں کی عورتیں بے تکلیف اور بے روک ٹوک غیر مرد کے پاس خلوت و جلوت میں جاتی ہیں۔ ۔ ۔ مگر اس کی وجہ سے جو کچھ فتنہ متصور ہے، وہ ظاہر ہے‘‘( مولوی محمدﷺ علی کا نپوری کے تلبیسات ، صفحہ۴۳،۴۱)۔ اے کاش کہ اس معذرت کا کوئی ایک جملہ بھی تو سچ ہوتا۔ ہم کہتے ہیں کیاکوئی استثناکسی مسلمان کے لئے اس حکم شریعت میں کہ چار عورات سے زیادہ کوئی شخص ایک وقت میں نکاح نہ کرے روارکھی گئی ہے ؟ چاہے کیسی ہی ضرورت در پیش ہو۔
۱۔کوئی مسلمان ۴ سے زیادہ نکاح نہیں کرسکتا۔ پس اب شریعت اسلام نے محمدﷺ کےاس فعل کو(اس کےلئے چاہے وہ آپ کی معذرت والی ضرورت تسلیم ہی کی جائے) حرام ٹھہرایا۔پس کیا محمدﷺ تبلیغ اسلام سے حلال فعل کے لئے ۴ سے زیادہ جوروئیں رکھنے کے حرام فعل کو جائز رکھیں گے اور اگرجائز رکھیں تو کیونکرحرام کار نہ کہلائیں گے۔
۲۔عورتوں کی تبلیغ کے لئے کیا مسلمان شوہر کافی نہ تھے ۔کیا وہ اب کافی نہیں؟ہم آپ کوبلکہ محمدﷺ کو ایک بہتر صلاح دیں۔محمدﷺ مردوں کو تبلیغ اسلام کریں مرد اپنی جورؤوں کو ،اپنی ماوں کو، اپنی بہنوں کو، اپنی بھانجیوں کو،اپنی بہو بیٹیوں کوتبلیغ اسلام کریں۔
۳۔پردہ کی رسم عرب میں ویسی نہ تھی جیسی مسلمان اب ہند میں کرتے ہیں۔ عورتیں مسجدوں میں مردوں کے ساتھ نماز کرتی تھیں۔احکام شرعی پوچھنے کے واسطے فقیہوں کےپاس آتی تھیں ۔ خود حضرت کی جورو پر دہ کرتی ہوئی فوج کی سرداری کرتی تھی۔ جنگ جمل میں احکام نافذ کرتی تھی۔
۴۔پردہ کی رسم کی ابتدا زمانہ محمدﷺ میں نہیں ہوئی بلکہ جب حضرت ۱۸ برس تک نبو ت کا دعویٰ کر چکے اور ایک عمر تبلغ اسلام بسر کرچکے تب حکم پردہ نافذ کیا ۔ جبکہ آپ ایک ساتھ چھ جورؤوں کےخصم بن چکے تھے اور وہ بھی جبکہ آپ زینب کوغسل کرتے ہوئے ننگا دیکھ کر اس پر عاشق ہوچکےتھے ۔اور المَرءُیَقِیسُ عَلیٰ نَفسِہٖ (ہر شخص دوسرے کو اپنے پر قیاس کرتا ہے)اس ڈر کےمارے کہ شاید سب مسلمان ویساہی کریں آپ نے۵ ہجری میں اپنی عورت کی بابت پردہ کی آیت اتاری ۔چنانچہ زینت کے قصہ میں مدارج والا کہتا ہے کہ’’ شریعت حجاب بھی اس قصہ میں واقع ہوئی‘‘(صفحہ۲۶۶)۔نبض البہاری والا لکھتا ہے کہ’’امت کی عورتوں کے پردہ کا حکم حدیث صحیح صریح سے ثابت نہیں ہوا ‘‘ (صفحہ ۹۴، مطبوعہ لاہور)۔
۵۔حضرت عورتوں سے ایسی شرم کی باتیں بیان کرکے تبلیغ اسلام کرتے اور عورتیں ایسی ایسی بےحیائی کی باتیں ان سے دریافت کرتی تھیں کہ مجھ کو حیرت ہے کہ یا ان میں وہ کون ساحکم شریعت اسلام کاتھا کہ کوئی عورت بے جھجک حضرت سے خود نہ پوچھ سکتی تھی اور جس کے بتانے میں حضرت کو سر موتامل ہوتا ۔چنانچہ پارہ اول صحیح بخاری میں باب الحیا فی العلم میں ہے کہ’’ ام سلیم آئی رسول اللہ پاس، سو اس نے کہا یا رسول اللہ مقر ر خدا حق بات سے شرماتا نہیں کیا عورت پر غسل واجب ہے جو۔۔۔ ہو پس فرمایا حضرت نے اگر۔۔۔دیکھے‘‘(اس وقت تک عورت منہ کھولئے ہوئے حضرت سے ہم کلام تھی۔ اب حضرت نے ایک بے شرمی کی طرف اشارہ کیا کہ عورت شرماگئی)’’ پس ام سلیم نے اپنا منہ ڈھانک لیا اور کہا یارسول اللہ کیا عور بھی۔۔۔ ہوتی ہے فرمایا’’ ہاں ‘‘(اور شاید منہ ڈھانکنے پر خفا ہوئےفرمایا)’’ خاک آلودہ ہو تیرا دہنا ہاتھ‘‘( جس سے چادر منہ پرلے آئی تھی)’’ پس کس لئے ہم شکل ہوتا ہے اس سے بچہ اس کا ‘‘۔حضرت تو اس بےحجابی کی باتوں سے بھی حجاب کرنےسے خفا ہوتے ہیں اور آپ پردہ داری کرتے ہیں۔ شاید اس بے حیائی کی گفتگو کی نظیر مسیلمہ اور سجاحتہ کی گفتگو ہو ) ذراسمجھئے تو یہ مسلمان عورت اور مسلمانوں کے نبی کیسے بے تکلف وبے روک ٹوک خلوت و جلوت کر رہےہیں اور آپ عیسائی عورتوں پر طعن کرتے ہیں؟ شرم !یہ تو ایک غیر عورت نے حضرت سے مسئلہ شرعی پوچھا۔ اب میں ایک اَور نظیر اس بات کی دیتا ہوں کہ حضرت کی زوجہ ایک غیر مرد سےکس طرح مسئلہ شرعی بیان کرتی ہے۔ اسی پارہ صحیح بخاری کے آخر میں ہےکہ’’ مسلمان بن یسار سے روایت سے کہ میں نے عائشہؓ سے اس ۔۔۔ کا حال پوچھا جو کپڑے پر لگ جائے ،کہا میں دھوتی تھی۔۔ ۔ کپڑے سے نبی کےپس نمازکو جاتے اور کپڑے میں تیری رہتی تھی‘‘۔ لیجیے،مردعورت کو وہ بتاتا ہے جو عورت ہی خوب جانتی ہے اورعورت مرد کا حال ایسا بتاتی ہے کہ مرد شرماجائے ۔اسی طرح صحیح بخاری پارہ ثانی میں’’ عائشہؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت کی جورؤوں میں سے کسی کو حیض آتا اور حضرت اس کے ساتھ اسی حالت میں مباشرت کرنا چاہتے( آگے بڑی بےشرعی کے عمل کا مذکور ہے ۔ ہم ترک کرتے ہیں) جوچاہے کتاب پڑھ لے( فیض الباری ،ترجمہ اُردو بخاری مطبو عہ لاہور،صفحہ۱۷۳)۔ آخر کچھ بے شرمی کی انتہابھی ہے؟ حیض میں مباشرت اورام المومنین کا اس کو یوں علانیہ بیان کرنا اورامام بخاری کااس سے مسائل اخذ کرنابرین ریش فش !
اور اگر ان مسائل کے سیکھنے کےلئے عورتیں ضروری تھیں تو لا کلام’’ ضرور تھا کہ حضرت کی ہم صحبت عورتیں بھی ہو جائیں تاکہ عورتوں کو احکام شرعی پہنچائیں ا وریہ امرممکن نہ تھابغیر اس کے کہ آنحضرت متعد و نکاح کریں‘‘ بیشک، کیونکہ ان مسائل بتانے کے لئے پورا تھیڑہونا چاہئے تھا۔ مگر اب تک ہم نہ سمجھے کہ کیا صرف بی بی عائشہؓ کافی نہ تھیں کہ تمام عورتوں کوبتادیں کہ حضرت کس طرح صحبت کرتے تھے، کون کون سی حرکات عمل میں لاتے تھے، کپڑ ا کیسے صاف کرتے تھے ، ایام میں کس طرح مباشرت کرتے تھے ۔کیا ضرور تھا کہ ان گند گی کے مسائل کی تبلیغ کے لئے چار سے زیادہ عورتیں حضرت کی ہم صحبت ہوں۔ پس یہ کیا عذر بد تراز گناہ ہے۔
۶۔آپ کو یہ بھی معلوم ہو کہ مثل مردوں کے حضرت عورتوں کو بھی وعظ سنایا کرتے تھے ۔ چنانچہ پار اول صحیح بخاری میں ہے کہ ’’ابن عباس سے روایت ہےکہ تحقیق نبی بلال کے ساتھ نکلے اورگمان کیا کہ عورتوں نے وعظ نہیں سنا ۔سو حضرت نے ان کو وعظ سنایا‘‘ ۔ اور دوسری حدیث اسی جگہ یوں مرقوم ہے ’’ابی سعید حذری سے روایت ہے کہ عورتوں نےنبی سے کہا کہ آپ کےپاس مردہم پر غالب آگئے۔ پس آپ ایک دن خاص ہمارے واسطے مقرر فرمائیں۔ سو حضرت نے عورتوں سے ایک دن کا وعدہ کیاجس اُن سے ملا قات کی اور وعظ سنایا اُن کو اور حکم دیااُن کو‘‘۔ پس جناب مولوی صاحب آپ تبلیغ اسلام کے لئے حضرت کو متعد دنکاح کرنے پر مجبور نہ کریں ۔ وہ تبلیغ اسلام بغیر نکاح کے کررہےہیں اور نکاح بغیر تبلیغ اسلام کے ۔
دفعہ پنجم
کثرت ازواجی حضرت قبل آیت نکاح غلط
ایک اور معذرت ہمارے مخاطب نے حضرت کی کثرت ازواجی پر پیش کی ہے ۔وہ کتاب انگریزی میں اس طرح مرقوم ہے’’ کثرت ازواجی کی حد کی تلقین مدینہ میں چند سال بعد ہجرت کے ہوئی۔۔ ۔ تمام نکاح حضرت کے قبل نزول آیت تعددکثرت ازواجی عمل میں آچکے تھے اور اس کے ساتھ دوسری آیت نازل ہوئی جس سے تمام حقوق حضرت کے ساقط ہوگئے۔ اور گو کہ تابعین چار تک نکاح کرنے کے مجاز تھے اور اختیار طلاق کی وجہ سے نئے نکاح بھی کرسکتے تھے۔ حضرت نہ تواپنی کسی زوجہ کو طلاق دے سکتے تھی اورنہ کسی نئی کونکاح میں لاسکتےتھے‘‘(صفحہ۳۴۳)۔جھوٹ ہو توایسا ’’این کاوازتو آید و مردان چنین کنند‘‘۔ آیت حد نکاح سورہ نسامیں وارد ہوئی ہے اور سورہ نسا کو مکی سورۃ بھی کہا گیا ہے (دیکھواتقان ن جلد اول شروع)۔ حضرت نے جورؤوں کی بھر مار مدینہ میں جاکر بعد ہجرت کی۔ پس اس بیرونی شہادت سے آیت حد نکاح کا وجود قبل کثرت ازواجی آپ کے پیغمبر کے ثابت ہے۔ مگر ہم آپ کو اس کی تاکید میں اندرونی شہادت قرآن مجید بھی سنائیں کیونکہ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’کثرت ازواجی کی حد‘‘ کی آیت بہت پہلے سے سنائی جاچکی تھی ۔اور جس وقت حضرت عورتوں پر عورتیں کرتے جاتے تھے اس وقت ان کو معلوم تھا کہ شریعت اسلام میں صرف چار عورتیں حلال ہیں۔چنانچہ سورہ احزاب میں جس میں زینب کےساتھ حضرت کے نکاح کی کیفیت مندرج ہےحضرت کو وہ عورتیں گنائی گئئ ہیں جن کووہ جورو بناسکتےتھے۔یعنی وہ عورتیں جن کونکاح کے مہردئیے جائیں یا لونڈ یاں یا چچا اور پھوپھی اور ماموں اور خالہ کی بیٹیاں جنہوں نے ہجرت کی یا کوئی عورت مسلمان جو اپنی جان بخش دے نر ی تجھی کو سوائے سب مسلمانوں کے اور اسی شریعت کے ساتھ کہا جاتا ہے’’ ہم کو معلوم ہے جو ہم نے ٹھہرا دیا مسلمانوں پر اُنکی عورتوں میں اور اُ ن کے ہاتھ کے مال میں تانہ رہے تجھ پرتنگی‘‘ (رکوع۷)۔ پس جومسلمانوں پر ٹھہرا یا کہ چا ر جوروان اور لونڈیاں حلال ،وہ ان واقعات سے بہت قبل ہے اور فراخی صرف حضرت کو دی جاتی ہے سوائے سب مسلمان کے تانہ ر ہے محمدﷺ پر تنگی‘‘ ۔
۴ہجری تک حضرت ۴ جوروان کر چکے تھے ۔۵ ہجری میں حضرت نےپانچویں جوروکی زینب زوجہ زید ۔ اس کا قصہ سورہ احزاب میں وار د ہوا ۔ اس قصہ کے بیان میں حضرت کو فراخی دی گئی اور بتایا گیا کہ ’’ہم کو معلوم ہے جو ٹھہر ا دیا مسلمانوں پر‘‘ جس سے اظہر ہے کہ آیت حد کثرت ابتدا میں ہو چکی ہے اور حضرت کی کثرت ا زواجی اس آیت کےبعد۔ چنانچہ زینب کے نکاح کے بعد حضرت نے جو یر یہ ، ام حبیبہ، حفصہ، میمونہ، مار یہ وغیرہ وغیرہ کو جوروان بنایا۔ پس حضرت کاجوروان کرناقبل آیت حد کےبتانا جھوٹ بولنا ہے ۔ آیت حد قبل ہے اور جوروان کرنا بعد میں اور اسی غرض سے کہ ’’محمد پر تنگی نہ رہے‘‘ ۔ اب وہ آیت جس پر آپ استدلال کرتے ہیں یہ ہے:
لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيبًا ’’ (اے پیغمبر) ان کے سوا اور عورتیں تم کو جائز نہیں اور نہ یہ کہ ان بیویوں کو چھوڑ کر اور بیویاں کرو خواہ ان کا حسن تم کو (کیسا ہی) اچھالگے مگر وہ جو تمہارے ہاتھ کا مال ہے (یعنی لونڈیوں کے بارے میں تم کو اختیار ہے) اور خدا ہر چیز پر نگاہ رکھتا ہے ‘‘(احزاب رکوع۶آیت ۵۱)۔’’ اس پیچھے‘‘ ابی بن کعب وغیر ہ نےاس کے معنی یہ بتائےہیں کہ اس کا اشارہ ان چار قسم کی عورتوں کی طرف ہے جن کا ذکر اوپر ہوا جو محمدﷺ کو حلال تھیں یعنی’’ حلال نہیں تجھ کو عورتیں سوائے ان اقسام مذکورہ کے‘‘اور بسند ترمذی ابن عباس سے بھی یہی مروی ہے ۔ لایحل نُک من بعدالا جنا س الار بعتہ ۔جلالین معہ مالین حاشیہ اور فتح الرحمٰن شاہ ولی اللہ صاحب میں بھی یہی وارد ہوا ہے۔ پس اس سے حضرت کےلئے کوئی حد معین ہوئی بلکہ قسم عورات معین ہوئی ہے یعنی اُن چار قسموں میں اختیار ہے چاہے حضرت ہزار کر لیں یا بارہ سو۔چنانچہ شاہ عبد القادر بھی اپنے فائدہ میں بتاتے ہیں’’ یعنی جتنی قسمیں کہہ د یں اس سے زیادہ حلال نہیں ۔۔۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا یہ منع آخر کو موقوف ہو ا سب عورتیں حلال ہوگئیں۔ پس کہو حضرت کی شہوت زنی کےلئے یہ آیت کیسے روک ٹھہر سکتی ہے۔اس میں تو حد مقرر نہیں اور جو حد اقسام عورات کی مقرر معلوم ہوتی ہے وہ بھی موقوف و منسوخ ہوئی یا یوں کہیں کہ اس حد کو بھی حضرت نے مثل قسم تحر یم ماریہ کے توڑا ۔
پراگر ہم آپ کےاس جھوٹے بہانے کو کچھ دیر کےلئے تسلیم کر لیں کہ دراصل حضرت اپنی ۹ یا ۱۰ جوروان قبل آیت حد کر چکے تھے تو بھی حضرت کی صفائی نہیں ہوسکتی ۔ کیا اس سے یہ لازم آتا ہےکہ حضرت وہ زیادہ نکاح جوبقول جناب اُس آیت کےقبل کر چکے اپنے اوپر حلال کر سکتے ہیں ۔اگر اُس آیت کی پابندی کسی طر ح فرض تھی تو زائد نکاحوں کامابعد فسخ کرنا لازم تھا ،جس طرح کہ اگر کوئی شخص قبل اسلام ماں سے۔۔۔ نکاح کر چکا ہوتا توا سلام میں آنے سے اس پر ماں ۔۔۔کارکھنا حرام ہوجاتا اور نکاح فسخ ہوتا اور جس طرح یہ حدیث ہے کہ اگر کوئی دس جورؤوں کا شوہر مسلمان ہوجائے تو اُس کو ۶ جورؤوں کو طلاق دینا چاہئے (جامع تر مذی مترجم کتاب النکاح،صفحہ۳۴۷ نو لکشوری)۔ پس حضرت کو لازم تھا کہ اگر وہ شریعت حد نکاح کے قبل ایک فعل کر چکے تھے تو اسلام کی شریعت کے اعلان پر اُس کی پابندی مثل ہرمسلمان کے کرتے ۔
آپ کایہ کہنا بےجاہے کہ اس آیت حدنکاح کےساتھ ہی دوسری آیت بھی نازل ہوئی جیسا ہم دیکھا چکے۔ پر تھوڑی دیر کےلئےہم یہ بھی مان لیتے ہیں اور آپ غور کریں کہ اگر اس آیت حد نکاح سے تمام مسلمانوں کو ان کی زائد جوروان جائزنہیں تھیں توحضرت نےدراصل اپنے واسطے اس آیت کے جواز سے وہ جائز رکھا جس کے مستحق نہ تھے کیونکہ اپنی جورؤوں کو جدا کرنا ان پر شاق گزرا۔ اپنی رعایت کی گو دوسروں کی رعایت نہ کرسکے ۔ اب رہی اپنے اوپر طلاق کو نا جا ئز کرنے کی صورت توپہلےتوآپ اپنی جورؤوں کو مسلمانوں پر حرام کر چکے تھے اور اُن کو ڈرا چکے تھے کہ کوئی تم سے شادی نہ کر ےگا جو مجھ کو چھوڑدوگی ۔ آخر ایک جورو نکل گئی پس آپ نے اپنےاوپر طلاق ہی ناجائز کر لیاتاکہ کوئی جورو نکل نہ جائے کیونکہ ان کی جوروان اُن کو ڈرایا کرتی تھیں کہ ہم چاہیں تو نکل جائیں’’ کلینی بسند ہائے معتبر بسیا رروایت کرددبست ازامام محمد باقر وامام جعفرصادق کہ گفت بعضے از زنان محمد گمان میکند کہ اگر مارااخلاق بگوید ماکغو خودرانخوہم یافت از قوم خود کہ ماراتز ویج تماید و بروایت دیگر زینب گفت کہ تو عدالت نمی کنی میاں مابآ نکہ پیغمبر خدائی و حفصہ گفت کہ اگر مارا طلاق بگویدہمتائے خودرا اخواہم یافت ازقوم خود کہ مارا تزویج تمایدوبروایت دیگر این ہر دو سخن رازینب گفت‘‘( حیات القلوب باب۵۳، صفحہ۵۸۲) بلکہ حضرت کو نکل جانے کابڑا اندیشہ خود اپنی پیاری بی بی عائشہؓ کی نسبت بھی رہا کرتا تھا ۔چنانچہ جب آپ نے آیت تخیر سنائی’’ تب حضرت کو بھی غم عائشہؓ کی وصلت کااور فراق دامن گیر حال ہو اکہ ایسا نہ ہو عائشہؓ دنیا کو اور زینب دنیا کو اختیا ر کرے‘‘ یعنی میرے پاس سے نکل جائے (منہاج جلد۲، صفحہ۶۵۵)۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر حضرت کوئی ضرورت درپیش آتی تو وہ اس آیت کی اصلاًپر وانہ کرتے بلکہ حرف غلط کی طرح مٹادیتے ۔ یہ سب خود غرضی پر مبنی تھا کیو نکہ اگر اس آیت سے مطلق منع طلاق وغیرہ نکلتا ہے تو اُس واقعہ کے بعد ماریہ کےساتھ پکڑ ےجانے پر آپ نے اپنی ازواج کو دھمکایا کیسے تھا ۔’’ابھی اگر نبی طلاق دے تم سب کو اُس کا رب بدلے میں دے عورتیں تم سے بہتر‘‘ (سورہ تحریم رکوع۱) ۔یہاں طلاق دینے کا اختیار بھی ثابت ہے’’اگر نبی چاہے‘‘ اور دوسری عورتیں کرنے کا اختیار بھی ۔خداجانے یہ مولوی قرآن مجید کو کس طرح پڑھتے ہیں ۔ حضرت اپنے عمل سے جابجابار بار اسی کو توڑتے ہیں جس کو وہ کلام خدا بتاتے ہیں ۔ مگر خیر ہم مولویوں کو راضی کئےلیتے ہیں، اُن کی خاطر ایک دم کو مانے لیتے ہیں کہ حضرت پر جورؤوں کی تعداد محد ود ہوگئی تھی اور یہ بھی کہ وہ کسی جورو کو طلاق نہ دیں تو بھی آپ گوش ہوش سے سنیں کہ اس آیت میں مما نعت ہے تو جورؤوں کی نہ مطلق عورتوں کی کیونکہ آخر فقرہ میں’’ جو مال ہے تیر ےہاتھ کا‘‘ اس قید سے مستثنیٰ ہے۔پس حضرت نے دراصل اپنے اوپر آسانی کی کہ عیاشی بھی کرتے جائیں۔نت نئی عورتوں سے صحبت کریں کیونکہ یہ وقت عروج اسلام کا ہے۔ ہز ارہا لونڈیاں ایک سے ایک بڑھ کر حور تمثال حضرت کےہاتھ آتی ہیں اور جوروئیں کرنے کی سردردی بھی نہ اٹھائیں۔ چنانچہ مدار ک سے معلوم ہوتا ہے اس آیت کی تفسیر میں کہ اس آیت کےبعد ماریہ لونڈی سے حضرت ملے۔ محمدﷺ علی صاحب نے بھی اپنی تلبیسات میں اس آیت سے استدلال کیا ہے اور حضرت کی گویا مصیبتیں بیان کرکے روئے ہیں۔ مگر ہم نے دکھایا کہ کیسی کچھ آسانی حضرت نےاپنے نفس پر روا رکھی ہے ۔ مگر ایک بات اور ہے کہ یہ آیت جیسا ہم کہہ چکے برائے بیت ہے ،حضرت کےلئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ان کے اعمال اس کے خلاف ہر طرح سے ہیں ۔چنانچہ ملا نوں نےاس کو قرآن مجید سے بھی منسوخ بتایا ہے اور حدیث سےبھی۔ مدارک میں ام سلمہ و عائشہؓ کی حدیث کا حوالہ ہے اور آیت ماسبق سے بھی اس کی تنسیخ ہوتی ہے ۔ یہ بھی مدارک ہی سے ظاہر ہے۔ مگر ہم اُس پر ایک اور شہادت خود ہندوستان کی لاتے ہیں ۔صاحب تفسیر حقانی اپنے مقد مہ (صفحہ۱۳۶) بیان فرماتے ہیں ’’ آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ میں بھی تنا سخ واقع ہوتا ہے یا نہیں؟ مجہور کہتے ہیں واقع ہوتا ہے اور ا سکی دو قسم میں اقل نسخ الکتاب بالسنتہ جیسا کہ یہ آیت لائیحل لک النسا الّا۔یہ حدیث عائشہؓ سےمنسوخ ہے کہ آنحضرت صلعم نے ان کو خبردی ہے کہ خدانے اُن کو جس قد ر عورتیں چاہئیں مباح کردیں۔ رواہ عبدالرزاق و النسائی واحمدو التر مذی والحاکم ۔اقول فیہ نظر کس لئے کہ اس آیت کی ناسخ اس سے پہلی آیت ہے‘‘۔ پس معلوم ہو ا کہ ہمارےیار ایک آیت منسوخ سے استدلال کرکے حضرت کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔ چنانچہ صاحب تفسیر حقانی نےان لوگوں کی نسبت خوب فرمایا ہے(حاشیہ) ’’بعض خفیہ کرسچن آنحضرت علیہ اسلام کےلئے نکاح محددو نہ ہونےکو عیب سمجھتے ہیں اور اس حد یث کو یہ پیر ایہ خیر خواہی اسلام بلاقاعد ہ محدثین جھوٹی بتاتے ہیں‘‘۔ ہم اُن خفیہ کر سچنوں کو کیا کہیں جب ایک ڈنکے کی چوٹ پر بولنے والا مسلمان ’’تفسیر فتح الحنان میں اُن کی یوں خبر لیتا ہے۔ پس معلوم ہو ا کہ اس آیت نے حضرت کو بچایا نہیں بلکہ اور بگاڑا کیونکہ حضرت نے عین اس کے خلاف عمل کیا ۔
دفعہ ششم
سنت انبیا وسابقین
ایک معذرت اور باقی رہی جاتی ہے۔ محمدعلی صاحب فرماتے ہیں’’جب انبیا سابقین نےموافق رضا خدائے تعالیٰ کے یہ فعل کیا تو حضرت سرور انبیا محمدﷺ مصطفیٰ بھی اسی زمرہ میں ہیں۔ اُن کےلئے کوئی نئی اجازت کی ضرورت نہیں ہے ۔وہی انبیا سابقین کی اجازت کافی ہےجب ۱۰۰بیبیوں کا کرنا منصب نبوت کے خلاف اور قابل طعن ہو جائے گا‘‘(پیغام محمدی ،صفحہ۱۷۵)۔ اور مولوی محمدحسین بھی حضرت کو اسی برتے پرمثل داؤد، سلیمان کھینچتے ہیں ۔محمدﷺ کو انبیا سابقین کے زمرہ میں تسلیم کو ن کرتا ہے کہ آپ اُس تسلیم کی بنا پر استدلال کرتے ہیں ۔انبیا سابقین کے زمرہ میں حضرت کو بٹھانا یہ آپ کی زبردستی ہے اور بےبا کی مان نہ مان میں تیر ا مہمان، مگر جواب سنئے ۔
اعتراض یہ ہے کہ کسی نبی یا غیر نبی کو شریعت کےلحاظ سے عاصی و خاطی ثابت ہوگا۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ’’ اس میں شک نہیں کہ تعد دازوج کو غیر محدود چھوڑ دینا جیساکہ شریعت موسوی میں کیا گیا حداعتدال سے خارج ہے‘‘(صفحہ ۱۷۳)۔پس آپ کومعلوم ہے کہ شریعت موسوی میں تعددازواج کو غیر محد ود چھوڑ دیاگیا۔ پس اگر کسی نبی یا غیر نبی نےاُس شریعت کی متابعت میں غیر محد ود جوروان کیں تو وہ اُس شریعت کے اعتبار سے پاک ہے پر اگربر خلاف اس کے اُس شریعت کے خلاف کوئی فعل کیا جائے چاہے اُس شریعت کے قبل وہ فعل مستحسن ہی کیوں نہ رہا ہو کرنیوالاگنہگار ہے ۔ جیسے شریعت موسوی کے قبل دو بہنوں کا ایک وقت نکاح ۔شریعت موسوی میں دو بہنوں کا رکھنا حرام ہوا۔پس اگر کوئی شخص اب دو بہنیں نکاح میں لائے حرام کرتا ہے ۔ایسا ہی غیر محد ود ازواج کا رکھنا شریعت موسوی میں حلال تھا مگر اب فرماتے ہیں کہ ’’شریعت محمدیہ نے ایسا نافع اور عمدہ حکم دیا کہ پہلی شریعت اور اس وقت کے رواج نے جو بلاحصر وتعین جواز تعدد کا فتویٰ دے رکھا تھااول تو اُسے چارمیں محدود کر دیا ۔ مگر اس جواز میں بھی عدل کی ایک سخت قید لگا دی‘‘(صفحہ۱۷۳) تو اب آپ بتائیں کہ محمدﷺ نے جنہوں نے شریعت موسوی کے اصلاح میں دم مار کر بقول جناب ’’ایسا نافع اور عمدہ حکم دیا‘‘ اپنی شریعت کےخلاف ’’ایسےنافع اور عمدہ حکم ‘‘کا کیوں عدول کیا۔
انبیا سابقین نےموسوی شریعت پر ہو کر غیر محد ود تعد دازواج کو جائز رکھا۔ شریعت اسلام نے اُس کو جائز نہیں رکھا اور تعدد کو محد ود کیا حتی ٰ کہ اگر کوئی مسلما ن پانچ جوروان ایک ساتھ رکھ لے تو وہ زناکارکہلائے اورانبیا سابقین کی سنت یا شریعت موسوی کاجواز اُس کی حمایت میں دم نہ مار سکے۔ حضرت نے ’’ایسا نافع اور عمدہ حکم ‘‘شریعت محمدیہ سے خلاف کر کے کس طرح ۱۵یا ۱۶ یا۲۰ یا زیادہ جوروئیں کیں۔ اعتراض ہے سویہ ہے آپ بہکیں نہیں۔ یا تو محمدﷺ کو تعد ادازواج میں شریعت موسوی کا پابند بنائیں اور تعدد کےمحد ود کرنے کو ناجائز ٹھہرائیں اور اُسے’’ نافع اور عمدہ ‘‘حکم نہ فرمائیں۔ یامحمدﷺ صاحب کو شریعت اسلام اور قرآن مجید کا عدول کرنے والاعیاش اور شہوت پر ست مانیں او رسمجھ جائیں کہ کیوں سو (۱۰۰) بیبیون کا کرنا منصب نبوت کے خلاف نہیں ہو سکتا ۔مگر نو بیبیون کا کرنا منصب نبوت کے خلاف ہےبلکہ منصب معمولی شرافت اور دینداری اسلام کے خلاف بھی ۔یہ آپ کے عذرات تے ۔سچ ہے’’ پائی چوبیس سخت بے تمکبین بود ‘‘۔
سید امیر علی صاحب اعتراضوں سے بچنے کےلئے فرماتے ہیں کہ’’ غالباًیہ کہا جائےگا کہ آنحضرت کو نہ چاہئے تھا کہ کسی ضرورت سے خواہ کیسی ہی شدید ہو تعددازواج کی رسم قبیح کو خود عمل میں لاتے یا اُس کو مباح کردیتے ‘‘(صفحہ ۲۱۳)۔یقیناًیہ ہر گزنہ کہا جائیگا۔ حضرت نے خوب کیا جو تعدد ازواج کو عمل میں لائے۔ ہم ان سے کوئی بہتر امید نہیں رکھتی ہیں ۔ مگرہا ں اگراس رسم قبیح کو ’’مباح‘‘ کیا تھا تو اپنے لئے صرف اس قدر مباح رکھتے جو اور وں کےلئے مباح رکھا تھا۔ اُس سے تجاورنہ کرتے پس صرف یہ کہاجائیگا کہ’’آنحضرت کو نہ چاہئے تھا کہ کسی ضرورت سے خواہ وہ کیسی ہی شدید ہو تعد دازواج کی رم قبیح کو ‘‘اپنےلئے اُس حدسے زیادہ روا رکھتے جو انہوں نے اپنی شرعات میں آپ مباح قراردی تھی ۔جب کسی امتی کےلئے کسی ضرورت کی خواہ وہ کیسی ہی شدید ہو رعایت نہ رکھی تھی تو اپنے نفس کےلئے رعایت رکھنا کیا معنی تھی اوریہیں آپ صم ویکم ہیں اور اب معلوم ہوگیا کہ’’ جن مورخین عیسائی نے آنحضرت پر طعن کیاکہ آنحضرت نے تعددازواج کر کے اپنے نفس سے وہ رعایت کی جس کے مستحق آپ شرع شریف کے مو جب نہ تھے‘‘(صفحہ۲۰۶) ۔ ہمارے ذی علم وشہرہ آفاق مسلمان جج نےلاکھ سرمارا کہ اُس طعن کو اُ ٹھائے مگر اُس طعن کا ایک ایک حرف ہزار زور کےساتھ حضرت پر اور چسپاں ہوگیا اور اس کا ایک ذرہ بھی ہمارے مخاطب کےاُٹھانے سے نہ اٹھ سکا ۔