فصل چہارم

تنزیہ المطاعن

اب مصنف صاحب حضرت پر سے اس طعن کے دفع کرنے کی کوشش کرنے میں کہ’’ آنحضرت نے متعد داز واج کرکے اپنے نفس سے وہ رعایت کی جس کے مستحق آپ شرع شریف کےبموجب نہ تھے‘‘(صفحہ۲۱۷) ۔ حق تویوں ہے کہ عورتوں کے بارے میں حضرت نے نہ حکم کا لحاظ کیا، نہ قانون قدرت کا ،نہ قرآن مجید کا،نہ اسلام کا،نہ رسم ورواج ،نہ عرب کا۔ہر اصول حیا وشرم واخلاق وتہذیب کا خون کیاہے۔مصنف صاحب نے اُن مطاعن کےتذکرہ میں کوتاہی کی ہے ۔ہم پہلے اُن کی تفصیل بیان کرتے ہیں تاکہ بعد میں دیکھیں اُن میں سے کن کن کا جواب ہم کو ملتا ہے۔

طعن اول :حضرت ﷺکا تجاوز شرعی

جو تعداد قرآن مجید یعنی شریعت اسلام نے ازواج کی مقرر کی حضرت ﷺ نے اُس سے بدرجہ انتہا تجاوز فرمایا۔کوئی مسلمان ایک ساتھ چار سے زیادہ نکاح نہیں کر سکتا۔حضرت نے چہار چند (چوگنا)چہار پر بھی اکتفا نہ کی۔

طعن دوم:ہبہ نفس

کوئی مسلمان شریعت اسلام کےمطابق بے مہر نکاح نہیں کرسکتا۔ حضرت ﷺنےبے مہر نکاح کیایعنی اپنے تئیں نکاح کی حقیقی ذمہ داری سے سبکدوش کردیا ۔ اس کو ہبہ نفس کہتے ہیں جو مسلمان کےلئے حرام ہے۔ اس ہبہ نفس کا حکم حضرت ﷺکی ذات سے مخصوص ہے، چنانچہ قرآن مجید میں وارد ہوايَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا

’’ اے پیغمبر ہم نے تمہارے لئے تمہاری بیویاں جن کو تم نے ان کے مہر دے دیئے ہیں حلال کردی ہیں اور تمہاری لونڈیاں جو خدا نے تم کو (کفار سے بطور مال غنیمت) دلوائی ہیں اور تمہارے چچا کی بیٹیاں اور تمہاری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تمہارے ماموؤں کی بیٹیاں اور تمہاری خالاؤں کی بیٹیاں جو تمہارے ساتھ وطن چھوڑ کر آئی ہیں (سب حلال ہیں) اور جوکوئی عورت مسلمان اگر بخشے اپنی جان نبی کو اگر نبی چاہے کہ اس کو نکاح میں لے صرف تجھے کو سوائے سب مسلمانوں کے تانہ رہے تجھ پرتنگی ‘‘(احزاب ع۶آیت ۵۰)۔

مولوی ڈسکو ی بڑی سردمہری سےکہتے ہیں کہ:

’’ مہر کی اگر عورت د عویدار نہ ہوتو صحبت نکاح کےلئے وہ کب مانع ہے‘‘(صفحہ۳۶) ۔

اور نہیں سمجھتےکہ مہرکادعویٰ نہ کرنااَو ریہ بات ہےاور بے مہر عورت کوجورُوبنانا اَور ۔چنانچہ قرآن مجید میں صریح آیا ہے۔ ان تبتغوا باموالکم ’’عورتوں کو طلب کرو اپنے مال کے بدلے‘‘( نساع۴)۔ پس جو مسلمان بلامہر عورت کوجور ُو بنائے زانی ہے، اسی لئےتوبغیر مہر جورُو بنانے کے بارےمیں محمدﷺ نے اپنے حق میں فرمالیا کہ :

’’یہ صرف تیرے لئے خاص حکم ہے اَور مومنوں کے سوا ‘‘(صفحہ۳۶)۔

پس کہو یہ خصوصیت کیسی تھی ۔ یہاں مہر شروع ہی سے گدھے کےسرپر سینگ ہورہا ہے۔ پس عورت د عویدا ر کیسے ہو اور اگر عورت شرعاًاپنا مہر شروع سے چھوڑ سکتی تو پھر اور مومنین اس استحقاق سےمحروم کیسے رہ گئے ، نہیں حضرت۔ آنحضرتﷺ اپنےنفس کی رعایت چاہتے ہیں ، عورتوں کے حقوق اپنی نسبت کرتاہ کررہے ہیں ۔ یہاں تنگی اور فراخی کی باتیں ہیں’’ جائزہے تجھ پر تنگی‘‘ ۔ حضرت کی ان البیلی باتوں نے حامیاں اسلام کو کیسے ضیق (تنگی۔دشواری)میں ڈالاہے ۔

طعن سوم:وجوب قسم کی خرابی

مسلمانوں کو بہر حال اپنی متعد د عورتوں کے ساتھ کسی نہ کسی قسم کی مساوات ور عایت فرض ہے،مگر محمدﷺ ہر طرح کی رعایت سے سبکدوش ہیں ۔ بالکل ان کی مرضی پر منحصر ہے، جیسا چاہیں اپنی عورات سےسلوک کریں ۔چنانچہ نص قرآن مجید ہم پیش کرچکے ہیں۔

طعن چہارم :بیوہ و مطلقہ کی حق تلفی

ہر مسلمان مطلقہ عورت کو اختیار ہے کہ دوسرے شوہر سےملے، یعنی شوہر اگر بدسلوکی کرے اور وہ اُس سے راضی نہ ہو تو وہ شوہر سے طلاق حاصل کرلے ۔حضرت ﷺنےاپنی عورات سے یہ استحقاق چھین لیا باوجود اس کےکہ اپنے اوپر معمولی مساوات بھی شرعاً فرض نہ رکھے۔اِدھرتو فرمایا:

وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ (احزاب ع۱)جوروئیں اُس (محمدﷺ)کی مسلمانوں کی مائیں ہیں اور ماں کی حرمت ہمیشہ واجب ہے ۔

اور اُدھر یہ لکھ دیا:

’’تم کو نہیں پہنچتا کہ تکلیف دو اللہ کے رسول کو اور نہ یہ کہ نکاح کرو اُس کی عورتوں کواس کے پیچھے ،البتہ یہ بات تمہارےاللہ کے یہاں بڑا گناہ ہے‘‘( احزاب ع۷)۔

پس وہ جھوٹھی اور ظالمانہ غیرت جس کو خدا کی شریعت روا نہیں رکھ سکتی ،محمدﷺ صاحب نےاپنےلئے روارکھی ۔ اور مسلمانوں کو بھی یہ امر بہت شان گزرتا تھا کہ وہ دیکھتے تھے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے محمدﷺ ہماری عورتیں لے لیتے ہیں اور اپنی عورتوں کو ہماری مان بنا کر ہم پر حرام کردیتے ہیں۔ چنانچہ حیات القلوب (صفحہ ۵۷۰)میں ہے کہ یہ سن کر کہ محمدﷺ ﷺصاحب کی جوروئیں مسلمانوں کی مائیں ہیں۔’’ طلحہ بغضب امدو گفت محمدﷺ زنان خودرا ابر ماحرام میگر واندوخودزنان ماراتز ویج می نمایداگر خدا محمدﷺ را بمیراندہر آئینہ مابکینم بازنان اوا نچہ اوبازنان مامیکرو‘‘ اور طلحہ وغیرہ کی بابت اس قسم کی روایت کا حوالہ اس آیت کی شان نزول میں اکثرتفاسیرمیں آیا ہے۔ دیکھو حسینی احزاب ع۷اور نیزر وضۃ الاحباب صفحہ ۶۱۴ پس یوں اپنے اوپر وہ روار کھاجس کا مستحق کوئی شریعت محمدﷺی کاتابع شرعاًنہیں ہو سکتا اور اپنی عورتوں پر وہ ظلم کیا جس ظلم کی متحمل کوئی عورت مسلمان شرعاً نہیں ہوسکتی ہے۔ ہم نے یہ چارمطا عن چار جورؤوں کی رعایت سےگنوائے ہیں جن کےجواب میں سید امیر علی صاحب دوواقعات تاریخی کوبلاتعصب ونفسانیت دکھاکر یہ ثابت کرنے کا وعدہ کرتے ہیں کہ ہمارے مطاعن ’’صا ف باطنی اور ایمانداری اور عیسائی نیک نہادی سے بالکل معرا(پاک۔صاف)ہیں‘‘(صفحہ ۲۰۶)۔آیا ہمارے مطاعن یاسید صاحب کےجوابات اس صفت سے زیادہ منصف ہونے کے سزا وار ہیں ۔ناظرین تم ہی انصاف کردینا۔