فصل دہم
متعتہ النسا
عورات کی نسبت صرف اسی قدر کارروائی اسلام کی شریعت میں نہیں اگر اتنی ہی ہوتی تو صبر کیاجاتا ۔ حضرت کی شریعت میں متعہ بھی حلال ہے ۔ متعہ صریح رنڈی بازی ہے۔ خرچی دے کر کسی عورت سے رات دورات تعلق پیدا کرنا اور چلتے پھرتے نظر آنا نہیں بلکہ وضع دار لوگ رنڈی بازی میں متعہ کرنے والوں سے زیادہ وفاداری وآدمیت برتتےہیں ۔مولوی محمدعلی کہتے ہیں کہ’’ متعہ کو جواز تو قرآن مجید سے ثابت نہیں ہوتا بلکہ کسی مقام سے اس کا حرام ہونا اظہر میں الشمس ہے ۔ اب اگر احادیث سے ا س کا ثبوت ہوتا ہو تو عیسائیوں کو اس پر اعتراض کرنا ہرگز نہیں پہنچتا‘‘ اور پھر یہ کہ’’ کیا متعہ کا ثبوت قرآن مجید سے ہوتا ہے ہرگز نہیں کیاایسی آئتیں قرآن مجید میں نہیں ہیں جن سے صاف صاف متعہ کی حرمت ثابت ہوتی ہے ،بے شک ہیں۔ دیکھو سرغام الشیا طین وغیرہ ‘‘(پیغام محمدی ،صفحہ ۱۷۹،۱۷۵)۔بے شک متعہ کا ثبوت قرآن مجید سے ہوتا ہےاور ایسی کوئی آیت قرآن مجید میں نہیں ہے جس سے صاف صاف متعہ کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ دیکھو ضربت حید ریہ وغیرہ ۔مسئلہ متعہ کےاثبات میں نص قرآن موجود ہے۔فمااستَمتَعتُم بہ منھن فاتُو مٰن اجورھُن فریفتہً پھر جو کام میں لائے تم اُن عورتوں کو دےدو اُن کاا جورہ جو مقرر ہوا( سورہ النسا رکوع ۴)۔ضربت حیدر یہ میں نہایت قاطع دلائل سےثابت کر دیا ہے کہ یہ آیت متعہ پر نص ہے اور سنی علما کو بھی اس سے جیسا شیعوں نے ثابت کیا ہے انکا رنہیں ہو سکتا ۔چنانچہ تفسیر ثعلبی میں منقول ہے کہ:
’’عمران بن حصین کہتا ہے کہ نازل ہوئی آیت المتعہ بیچ کتاب اللہ تعالیٰ کی ،نہیں نازل ہوئی بعد اُس کےکوئی آیت جو منسوخ کرے اُس کو۔ پس امر کیا ہم کو رسول اللہ صلعم نے اُس کا متعہ کیا ہم نے ساتھ رسول ﷺ کے اور وہ مر گئے اور نہیں منع کیا ہم کو اس سے اور کہا ایک شخص نےاپنی رائے سےجو چاہا ‘‘۔
(یہ اشارہ ہے عمر کے حکم منع متعہ کی طرف )اور تبیا ن الحقائق شرح کنیز الاقائق میں کتاب النکاح محرمات میں مذکور ہے کہ ابن عباس حلت متعہ میں اس آیت سے استدلال کرتے تھے۔اور یہ تو سب کو معلوم ہے کہ ہدایہ میں امام مالک کی نسبت منسوب کیا گیا کہ وہ متعہ کےجواز کا قائل ہے۔ پس اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ قرآن مجید میں آیت متعہ موجود ہے۔سنّی ناحق اس کو منسوخ بتاتے ہیں۔ کوئی قرینہ اُس کے منسوخ ہو نیکا نہیں ہے۔ شیعوں نے بڑے بڑے قطعی دلایل تاریخ وحدیث سے ثابت کر دیا ہے کہ اسلام میں خود بحکم محمدﷺ متعہ حلال تھا اوراس وقت بھی حلال ہے ۔چنانچہ جملہ امامیہ اس پرکار بند ہیں ۔پس آپ کا یہ کہنا کہ متعہ کا جواز قرآن مجید سے نہیں ثابت مردود ہے اور یہ حیلہ کہ چونکہ احادیث میں اس کا ثبوت ہے اس لئے عیسائیوں کو اس پر اعتراض کرناہر گز نہیں پہنچتا ابلہ فریبی ہے ۔ ہم اسلام پر اعتراض کرتے ہیں اور اسلام کی بنیاد تم خودقرآن مجید اور احادیث دونوں کو تسلیم کرتے ہو۔ پس اگر قرآن مجید میں مسئلہ متعہ کاثبوت نہ ہوتا بلکہ صرف حدیث میں ہوتا تو بھی اسلام ہمارے اعتراض سے محفوظ نہیں رہ سکتا ہے ۔ مگر اب توقرآن مجید کی نص موجود ہے اور کوئی امر منافی متعہ قرآن مجید میں نہیں اور احادیث بھی موجود ہیں جو قطعی ہیں اور اس پر مسلماناں طبقہ اولےٰ وثانی کےعمل بھی موجود ہیں جن پر تواریخ شاہد ہے۔ پس متعہ سے انکا ر کرنا اور اسلام کو ماننا ممکن نہیں۔سنیّوں نے اب متعہ کو باوجود تسلیم سند حدیث حرام ٹھہرایا ہے اور کچھ اُسی بنا پر جس بناپر ہمارے سید صاحب کثر ت ازواجی سےبیزار ہیں اور اس کو اب زناکاری کا تعلق فرماتے ہیں ۔ دراصل متعہ نہایت ہی بے حیائی، بداخلاقی وعیاشی کامسئلہ ہے ۔عورتوں کو یہ خود دےکر کا م میں لانا ہے۔مگر قرآن مجید کی آیت مذ کورہ صاف صاف اس کی مویدہے۔سنّی اس متعہ کو یہ نہیں کہتے کہ اسلام میں حلال نہ تھا بلکہ صرف یہ کہ حضرت نے آخر زمانہ میں اس کو حرام ٹھہرا دیا۔ حضرت کےوقت میں وہ حرام نہ تھا ۔بھئی تمہارے حضرت بھی بڑے حضرت تھے۔ چنانچہ متر جم موطاامام مالک نکاح المتعہ کےفائدہ میں یوں رقمطراز ہے کہ:
’’اوائل اسلام میں درست تھا پھر۔۔۔ فتح مکہ کے روز حرام ہو ا۔پھر جنگ وطاس میں درست ہوا ،پھر حرام ہو ا،پھر تبوک میں درست ہوا، پھر حجتہ الوداع میں حرام ہوا۔اس بار بار کی حرمت اور رحلت سے لوگوں کو شبہ باقی رہا بعض لوگ متعہ کرتے تھے بعض نہیں کرتے تھے ۔یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ کی وفات ہوئی اور حضرت ابوبکر کی خلافت میں ایسا ہی رہا اور حضرت عمر کی اوائل خلافت میں بھی یہی حال رہا بعد اس کے حضرت عمر نے اُس کی حرمت بر سر منبربیان کی۔ جب لوگوں نے متعہ کرنا چھوڑدیا مگر بعض صحابہ اُس کے جوا ز کے قائل رہے جیسے جابربن عبد اللہ اور عبداللہ بن مسعو د اور ابوسعید اور معاویہ اور اسمابنت ابی بکر اور عبداللہ بن عباس اور عمر بن حو یرث اور سلمہ بن الاکوع اور ایک جماعت تابعین میں سے بھی جواز کی قائل ہوئی ہے (ملخص زرقانی، کشف العظامطبو عہ مطبع مرتضوی دہلی ۱۲۹۶ھ جلد ثانی ،صفحہ ۳۴۱)۔
غزوہ خیبر ۷ہجری میں واقع ہوا یعنی دعویٰ نبوت کے ۲۰ برس بعد۔ حضرت اس کے ۳ بر س بعد مرگئے۔ فتح مکہ ۸ ہجری میں ہوئی۔ غزوہ تبوک ۹ ہجری میں ہوا اور آخری حرمت متد عویہ حجتہ الوداع میں ہوئی جو آخری سال حضرت کی عمر کاتھا ۔ پس کم سے کم ۲۰ برس زمانہ نبوت محمدﷺ میں متعہ کا حلال رہنا خود مخالفین متعہ کے اقوال سے ثابت ہے اور سال سوا سال قبل وفات حضرت متعہ کے حرام ہو نیکا شبہ تاریخی قرینہ سے باطل ہے۔ کیونکہ سنّی اس سے بھی انکار نہیں کرتے کہ حضرت عمر نے پہلا حکم دیا تھا کہ جو شخص متعہ کر یگا میں اُس کو رجم کر وں گا۔ مگر خلیفہ اول ابوبکر کے زمانہ میں متعہ ہو تا رہا اور اس عمر کے فیصلہ کو خود اُس کے بیٹے نے خلاف شرح کہا ۔چنانچہ جلا ل الد ین سیوطی تاریخ الخلفا میں عمر و کو اول من حرم المتعہ اول شخص جس نے متعہ کو حرام ٹھہر ایا لکھتے ہیں۔ پس خلیفہ اول ابو بکر کے زمانہ میں متعہ حرام ہو ا۔ اگر محمدﷺ اپنی حین حیات متعہ کو حرام کر گئے تھے تو خلیفہ اول ککے عہد میں حلا ل کیسے ہوگیاتھا کہ حرمت کا حکم عمر کو دینا پڑا۔ حقیقت یوں ہے کہ متعہ حرام کبھی نہیں ہوا آیت متعہ قرآن مجید میں موجود ہے ۔ اس کا ناسخ کوئی حکم قرآن مجید میں نہیں اور اگر قرآن مجید میں کوئی آیت حرمت متعہ پر ہوتی تو آخراختلاف صحابہ کےلئے گنجائش نہ تھی ۔ اور اگر قرآن مجید میں صریح آیت متعہ واردہوتی تو عبد اللہ بن مسعو د ساقرآن دان متعہ پر اصرار کیو نکرکر سکتا ہے۔ چنانچہ صحابہ کے عمل کی یہ کیفیت ہے جیسا جابر سے اوپر منقو ل ہواوہ کہتا تھا کہ ’’ہم نے متعہ کیا عہدرسول اللہ صلعم میں اور عہدابوبکر اور نصف خلافت عمر میں، پھر منع کیا اُس نے لوگوں کو اُس سے‘‘۔ یہ ایک پرانا مسئلہ ہے جس کے طرح بہ طرح کے اثبات شیعہ مقابلہ میں سنیوں کے دے چکے اور سنیوں سے کوئی جواب نہ بن پڑا جو شخص چاہے طرفین کی کتب مناظر ہ ا س باب میں دیکھ لے۔
پس اہل سنت کا متعہ کو حرام ٹھہر اناقرآن مجید و سنت سے درگزر کرنا ہے ۔شیعے حق پر ہیں ورنہ اس کی حرمت ایسی ہے جیسی کہ کثرت ازواجی کی جس کو ہمارے سید صاحب مخالف منشا قرآن و تعلیم محمدی سمجھ کر’’ زناکاری کا تعلق ‘‘فرماتے ہیں۔