فصل د وا زدہم
طلاق
ہم نے ابتد ا میں بیان کیا کہ طلاق و کثرت ازواجی لازم وملزوم ہیں بلکہ ہمیشہ ہمدوش چلنے والے ۔ایک برائی کی صلاح دوسری برائی سے ہوتی ہے۔ اس لیے شرع عیسوی نے کثرت ازواجی کو حرام ٹھہر ا کر طلاق کو حرام ٹھہرا یا اور ایک حالت میں یعنی زنا کی حالت میں ا س کو جائز رکھا ۔ عہد عتیق میں کثرت ازواجی حلا ل ومباح تھی ۔طلاق بھی حلال ومباح تھی اور خداوند مسیح نےطلاق کو انسان کی سخت دلی کا نتیجہ بتایا ۔ اسلام میں جب کثرت ازواجی حلال ومشروع بلکہ ایک مستحسن امرٹھہرا تو اس حال میں کوئی الزام اسلام پر اس و جہ سے عائد نہیں ہوسکتا کہ اُس نےطلاق کو کیوں جائز رکھا۔ مگر یہ امر کہ دراصل طلاق ایک خرابی ہے اور خداوند کو نا پسند پیغمبر اسلام کے ناموافق اقوال بھی اس کی تائید کرکے عیسوی شریعت منع طلاق کی تصدیق کرتے ہیں۔ چنانچہ سید صاحب ایک حد یث نقل کرتے ہیں ’’ آنحضرت نےفرمایا خدا نے کوئی چیز دنیا میں ایسی نہیں پیدا کی جس کو وہ طلاق سے زیادہ ناپسند کرتا ہو‘‘(صفحہ۲۱۶) اورمولوی محمد علی صاحب بھی ایک حدیث سناتےہیں کہ ’’حلال چیزوں میں خدا کو زیادہ غصہ میں لانے والی طلاق ہے‘‘(پیغام محمدی ،صفحہ۱۶۴) ۔ پس بیان سےا ظہر ہے کہ طلاق خدا کو نا پسند اور اُس کی مرضی کے خلاف بلکہ اُس کو غصہ میں لانے والی ہے ۔اب یہ جرات اسلام کو ہی ہو سکتی تھی کہ وہ ایسے امر کو جس کو ان کا پیغمبر صریح خدا کے مباح قرار دیکر خدا کے غضب کو بھڑکائے ۔ مگر اس اسلامی طلاق کو اسلام کے حامی بہت رنگ دے کرپیش کرتے ہیں۔ سید صاحب فرماتے ہیں:
’’ آنحضرت طلاق کے مفہوم ذہنی کو بہت ناپسند فرماتے تھے اور اس کے وجود خارجی یعنی کل کو قانع بنیا ن (جو کچھ ہو اسی پر قناعت کرنا)تمدن جانتے تھے۔ ( شکر ہے) مگر بایں ہمہ ایک حکیمانہ قانون طلاق منضبط کرکے آپ نے اُن ضرورتوں کا تدارک کامل فرمایا جو تمام اوقات میں اور سب خاندانوں میں اس وقت تک ضرور پیش آئیں گےجب تک کہ انسان جامہ بشریت پہنے رہے گا‘‘(صفحہ۲۱۵)۔
محمدعلی صاحب فرماتے ہیں کہ:
’’شریعت محمدیہ نےاس بات میں ایسے احکام نافذ کئے جس سے شریعت کا پابند بجزحالت ضرورت اور مجبوری کے کسی طرح بیوی کو علیحدہ نہیں کر سکتا‘‘(صفحہ۱۶۴)۔
اور پھر بزرگ مولوی صفدر علی صاحب کے اس قول کی کہ’’ قرآن و حد یث لوگوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ جب تمہاری خواہش ہوا کرے جورؤوں کو طلاق دےدیا کرو‘‘ تردید کرتے ہیں ۔پیغام محمدی (صفحہ ۱۶۵)میں ایک عملی دلیل سے اس امر کو ثابت کئے دیتا ہوں کہ دراصل قرآن وحدیث کا منشادہی ہے جو مولوی صفدر علی صاحب نے بیان کیا ۔بلا کسی وجہ کےبھی جب چاہئے مرد جورو کو طلاق دےدے اور دوسری جو رو کرے ۔اسلام کے اماموں نے ایسا کِیا۔ پیغمبر اسلام کے پیاروں نے ایسا کِیا ۔وہ جو بہشت کے سردار سمجھے جاتے ہیں انہوں نے ایسا کِیا۔ جو پیشوا ئے امت محمد یہ ہیں انہوں نے ایسا کِیا ،جو اسلام اور قرآن مجید اور حدیث اور سنت نبی کے مناد ہیں انہوں نے ایسا کِیااور خوب ضرور سے کیا بڑےمزے سےکِیا ۔ پوری طرح شریعت کاپابند ہو کر کِیا اور کوئی اصول شریعت محمدیہ اُنکو اس بے اعتدالی فطرتی سے روکنےوالا نہ تھا اور نہ کسی نے ان کو بے ایمان مسلمان کہا ، نہ شریعت کاتو ڑنےوالا۔سید امیر علی صاحب نے بڑی دلیری سے فرمایا ہے کہ:
’’ حضرت علی اور اُن کے صاحب ز اد وں نے کیسی عالی ہمتی ظاہر فرمائی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حرمت نسواں کا ایک غیر مکتوب قانون مسلمانوں میں علیحدہ مقرر ہوگیا‘‘(صفحہ۲۲۰)۔
میں حضرت علی کے صاحبزادوں میں سے ایک کی نظیر پیش کرتا ہوں تاکہ’’ حرمت نسوان کاغیر مکتوب قانون ‘‘ظاہر ہوجائے ۔حضرت امام حسن کومحمدصاحب نے جوانان بہشت کا سردار فرمایا ہے۔’’ آپ سینہ لےکر سر تک رسول خدا سے مشابہ تھے اور جسمانی مشابہت کے موافق آپ کو اخلاقی مشابہت بھی تھی۔ مراۃ الکائنات میں ہے کہ تمام توا ریخوں میں مذکور ہے کہ حضرت امام حسن بڑے کثرت سے نکاح کرنے والے اور طلاق دینےوالے تھے۔ حتی ٰ کہ اپنے والد کے حین حیات انہوں نے ۹۰ یا ۱۱۰ نکاح کئے اور باوجود حسن اخلاق کے ادنیٰ ادنیٰ وجہ پر ان میں سے ہر ایک کو طلاق دے دی۔ فاطمہ کا نکاح حضرت علی کے ساتھ ۲ہجری میں ہو ا اور حضرت علی۰ ۴ہجری میں مقتول ہوئے ۔پیدائش امام حسن ۳ہجری کی ہے اور اگر فرض کیا جائے کہ انہوں نے شروع سن سے عیاشی کرناشروع کی تھی اور اس سن کو ابتدائی زمانہ ۱۷ برس کا فرض کریں جو ۲۰ ہجری میں ہوتا ہے تو اُن کےوالد کی وفات تک ۲۰ برس باقی رہتے ہیں تو اس حساب سے ۲۰برس میں حضرت نے(۹۰یا۱۱۰ کا اوسط قریب)۱۰۰ جوروئیں کیں۔ مگر کبھی چار سے زیادہ ایک آن میں نہیں رکھیں بپابندی شرع محمد یہ۔ پس صاف ظاہر ہے کہ حضرت امام حسن بحساب۵ جوروئیں فی سا ل طلاق دیتےتھے یعنی ہر ڈھائی ماہ میں ایک نئی جو روکرتے تھے اور پرانی کو طلاق دیتے تھے ۔ بعد وفات علی امام حسن ۹ برس اور جئے کیونکہ ۴۹ہجری میں اُن کواُن کی جورونے زہردےکرمارڈالا ۱۱ ۔ اس ۹ برس کے عرصہ میں۵*۹= ۴۵ نکاح اور طلاق حضرت نےاور اورکئے ہوں گے یانہ کئےہوں قبل ہی آسودہ ہوگئے ہوں۔ مگرا س میں شک نہیں کہ وہ سوا سو جوروئیں جن کاذکر اوپر کیاگیا علاوہ اُن بے شمار لونڈیوں کےہیں جو کسی حساب میں نہیں آسکتی مگر ناظرین ان کا بھی خیال رکھیں ۔ اب آپ فرمائیں یہ امام عیاش بلا کسی وجہ کے محض خط نفس کی غرض سے نکاح پر نکاح کرتاجاتا ہے اور طلاق پر طلاق دیتا ہے اور آپ نہیں کہہ سکتی کہ اُس نےشریعت محمدیہ کا عدول کیا یاوہ اس کے اعتبارسے گنہگار و عیاش ٹھہر ا ۔ اور اگر آج کوئی مسلمان اس امام کی طرح نکاح وطلاق کو روارکھے تو کو ن اس کو برا کہہ سکتاہے۔ حضرت علی زندہ ہیں ،امیر المومنین ہیں۔ ان کی آنکھوں کے سامنے صاحب زاوہ بلنداقبال یہ کررہے ہیں اور کوئی حکم شرع اُن کے عمل کے خلاف وہ نہیں پاتے بلکہ صحابہ بھی یہی کہتے ہیں ’’بہتر اس امت میں سے وہ شخص ہے جس کی بیبیاں بہت ہیں‘‘ (منہاج ، صفحہ ۷۲۷)اور بہت جوروان تبھی ہوں جب بہت طلاق ہوں اور بہت طلاق ویسی ہی ہوں جیسےامام حسن نےدئیے۔ ہم اس حیوانی حرکت کو کیا کہیں اور اس کے مرتکب کو کس موضوع نام سے یاد کریں۔ اگر مسلمان انصاف کریں تو خود سمجھ سکتے ہیں۔ چنانچہ مولوی محمدحسین صاحب اس شخص کی نسبت جو چارجورؤوں سے بھی آسودہ نہیں ہوتا اور زیادہ عورتیں چاہتا ہےیہ ارشاد فرماتے ہیں:
’’ اگر کوئی ایسا چھپا رستم نکل آئے جو چار قوی اور تواناعورتوں کاکام تمام کرکے بھی خو دناکام رہے تو اس کی حاجت روائی کےلئے پانچویں یا چھٹی عورت کی اجازت دینے کی نسبت کم مضرت لو ۔ سہل العمل یہ تر کیب ہے کہ وہ پہلی چار آسامیوں کوپنشن دےکر یکے بعددیگرے یا یکبارگی ریٹائر کردے اور ان کی جگہ چار اور بھرتی کرلے۔ ان کو بھی وہ چھپارستم ہر ا دے تو ان کو چھوڑ کر چار اور کرلے وعلیٰ ہٰذاالقیاس ایسے شخص مفروض الوجودو الصفات کو چار کی موجودگی میں پانچویں کی اجازت دی جائے تو اس میں دیندار بدمعاشوں و عیا شوں کو ایک حیلہ و بہانہ ہاتھ آجائےگا ۔وہ اس بہانہ سے بہت سی عورتوں کوگھیر لیں گےاور مخلوق خدا کی حق تلفی کریں گے۔ دیند ار ان کو اُن کے دعویٰ کے بموجب کہا اور حقیقت میں وہ بدمعاش ہیں‘‘(صفحہ ۱۶۶)۔
مولوی صاحب کو ہر گزنہیں یاد تھا کہ ایسا شخص ’’مفروض الوجودالصفا ت ‘‘نہیں ہے بلکہ خود امام حسن صاحب ہیں اور وہ ہی صلاح پر کاربندرہے۔ اگر یہ معلوم ہوتا تو آپ ایسے لوگوں کو’’ دیند ار بدمعاش وعیاش ‘‘نہ فرماتے ۔بہرحال ان دیندار بدمعاشوں کی سرپرست شریعت اسلام ہے۔ مگربا ینمہ حیف کےیہ مولوی صاحبان صفد ر علی صاحب کو یہ نہیں کہنے دیتے کہ’’ قرآن و حدیث لوگوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ جب تمہاری خواہش ہوا کرے جورؤوں کو طلاق دیدیا کر و‘‘۔ ان مولویوں کو امام حسن جھٹلائیں جو فعل سردار جوانان بہشت اور امیر المومنین کو خلاف شریعت ٹھہرا رہے ہیں اور نہیں سوچتے ’’چو کفراز کعبہ بر خیز دکجا ماند مسلمانی‘‘۔
۱۱. حاشیہ تاریخ الا یمہ مصنف سید وزیر حسین خاں صاحب بہادر قائم مقام سب جج مطبوعہ نو لکشوری صفحہ۷۴ عین کتاب کنز المصائب سے منقول ہے کہ معاویہ نے ایک پارچہ زہر آلودہ زوجہ امام حسن مسماۃ جعدہ بنت شعث کو اس ہدایت سے بھجوایا کہ’’جب امام حسن تیرے پاس آئیں تو بعد انفراغ خلوت اس رومال زہر آلودہ سے آپ کے جسم اطہر کو پاک کرنا کہ زہر اس کےجسم امام حسن میں اثر کرے گا اور پھر جان بر نہ ہو پائیں گے۔چنانچہ اس لمعونہ نے ایسا کیا اور بوجہ اس صدمہ کے ۴۰ روز تک آپ تکلیف میں رہے‘‘جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب نے جان بھی عیاشی کے ذہان کی اور خدا جانے کسی مرض اور میں مبتلا ہو کر مرے جس کے لئے اس قسم کے قصوں کی ضرورت پیدا ہوئی۔