دفعہ ۳۳

خواب کے بیان میں

کبھی کبھی سوتے وقت آدمی کچھ دیکھتے ہیں یا اُنہیں کچھ معلوم ہوتا ہے اورجب جاگتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے یہ خواب دیکھا۔ یہ تو سچ ہے کہ اُنہوں نے خواب دیکھا۔ مگر واقعات کے تجربوں سے معلوم ہوا ہے کہ یہ خواب کئی طور پر ہوا کرتے ہیں ۔چاہئے کہ ہم خوابوں کی قسموں سے بھی آگاہ ہوجائیں۔ اول ’’ اَضغاثِ اَحلام‘‘(پریشان خواب جن کی کوئی تعبیر ہو) ہیں۔ اس لفظ  کے معنی ہیں’’ سوکھے گھاس کے مٹھے‘‘  ۔خوابوں کے یہ وہ واہیات پریشان خواب ہیں جو معدہ کی خرابی سے نظر آتے ہیں جب کہ پیٹ میں قبض ہے یاکوئی ایسی غذا کھائی ہے جس سے خراب ابخرے دماغ کی طرف چڑھے ہیں۔ یا وہ شخص اپنی بدنی کیفیت اوردماغی واہمی خیالات کے موافق کچھ دیکھتا ہے مثلاً دموی مزاج (وہ شخص جس میں خون کی خِلط بڑھ جائے)آدمی اکثر خواب میں سرخ رنگ کی چیزیں دیکھتا ہے اورصفراوی مزاج(تلخ مزاج) کو آگ وانگار ے نظر آتے ہیں۔ اورجب ریح (معدہ کی ہوا۔باد)کا غلبہ ہے اورمزاج میں کچھ بادی ہے تب دیکھتا ہے کہ گویا ہوا میں اُڑتا ہوں اوراحمق سمجھ لیتا ہے کہ میں شایدولی اللہ ہوگیا ہوں۔ سودا وی مزاج (جنونی آدمی)کو پہاڑ اوردھوئیں کے غبار نظر آتے ہیں اوربلغمی مزاج(وہ شخص جس میں بلغمی خلط زیادہ ہو۔ موٹا) کو پانی کی نہریں اوربارش اورسفید رنگ کی چیزیں دکھائی دیتی ہیں۔

کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو یاچند کیفیتوں میں ترکیب ہوجاتی ہے۔ نفسانی خواہشیں اوررُوح کی بُری کیفیت اوربدنی امراض وغیرہ مل کے عجیب شکلیں پیدا کرتے ہیں۔ یہ سب واہیات خواب ہیں اورخُدا کے کلام میں ان خوابوں کو ناچیز بتایا گیا ہے ۔ بھو کا اورپیاسا آدمی خواب دیکھتا ہے کہ کھاتا اورپیتا ہوں(یسعیاہ۸:۲۹    )۔ ’’کیونکہ خوابوں  کی زیادتی اور بطالت اور باتوں کی کثرت سے ایسا ہوتا ہے لیکن تُو خدا سے ڈر‘‘(واعظ ۷:۵)۔

ف۔ وہ جو دانشمند آدمی ہے وہ خوابوں کے وسیلہ سے اپنی اندرونی بگڑی ہوئی کیفیت سے خبردار ہوکے صحت اورصفائی کےدرپے ہوتا ہے اورمزاج کو اعتدال پر لانے کی جلابوں وغیرہ سے کوشش کرتا ہے۔ لیکن بیو قوف آدمی کبھی کبھی ایسے خوابوں کا معتقد ہوکے اپنے دین کا اوردنیا کا بھی نقصان کرلیتا ہے۔

بعض وقت وہ مشائخ جو خلوص سے بے بہر ہ ہیں اوردینداری کے لباس میں ہوکے دنیا کماتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آج ہم نے ایک خواب دیکھا اُس کی تعبیر یہ ہے کہ یوں یوں ہوگا۔ اورایسے لوگ نہ صرف باطل مذہبوں کے مشائخوں میں ہیں بلکہ خُدا کی جماعت کے درمیان بھی ہوتے ہیں۔ ان کی شکایت خُدا تعالیٰ نے اپنے کلام میں یوں کی ہے’’ خداوند فرماتا ہے کہ دیکھ مَیں اُن کا مخالف ہوں جو جھوٹے خوابوں کونبوت کہتے  اور بیان کرتے ہیں اوراپنی جھوٹی باتوں سے اورلاف زنی سے میرے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ‘‘(یرمیاہ۳۲:۲۳ )۔ یرمیاہ۸:۲۹میں ہے کہ اپنے خواب بینوں کو جو تمہارے ہی  کہنے سے خواب دیکھتے ہیں مت مانو۔

ان جھوٹے اورواہیات خوابوں کا ذکر سن کے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ خواب مطلق غلط اورباطل ہی ہوتے ہیں۔ ایسی بات ہر گز نہیں ہے بلکہ وہ جو حقیقی خواب ہیں اورخُدا کی طرف سے بعض آدمیوں کی رُوحوں پر ظاہر ہوتے ہیں برحق اورراست ہیں ۔ محمد ی لوگ ان کومبشرات کہتے ہیں۔ ان میں یہ خصوصیت نہیں ہے کہ صرف نیک اورخدا پر ست دیندار اورباایمان آدمی ہی دیکھتے ہیں بلکہ کافر اوربُت پرست بھی کبھی کبھی سچے خواب دیکھتے ہیں۔ دیکھو فرعون اورنبوکدنضر نے بھی جو بُت پرست لوگ تھے سچے خواب دیکھتے ہیں۔ اورفرعون کے نان پز اور ساقی نے بھی جو دیکھا تھا سچ تھا (پیدائش۸:۴۰۔۲۰؛۱:۴۱۔۸؛دانی ایل باب۲) ۔نبو کدنضر کے خواب کا بیا ن کیسی تعجب کی بات ہے کہ دانی ایل نے اس کا خواب بھی بتایا اورتعبیر بھی کہی اورویسے ہی ظہور میں آیا ۔اب کون کہہ سکتا ہے کہ وہ خواب نہ تھا خیال تھا؟ پھر دیکھو ایک آدمی بُت پرست پیلاطس کی زوجہ نے جو عدالت کے وقت اپنے شوہر کے پاس یسوع مسیح خُداوند کی نسبت اپنےخواب کی خبر پہنچائی کیسی صحیح خبر تھی؟ (متی۱۹:۲۷) ۔دنیا میں سچے خوابوں کا وجود بھی ضرور پایا جاتا ہے۔ بعض لوگ اپنے سچی خوابوں کے ایسے معتقد ملیں گے کہ اُن کے اس اعتقاد کو کوئی فلاسفر ہرگز ہٹا نہ سکے گا۔ وہ کہیں گے کہ البتہ دنیا میں باطل خواب خیال بھی ہوتے ہیں مگر ہمارا فلاں خواب ضرور سچاتھا۔ پس اگرچہ اس کا وہ خواب سچا ہو لیکن غیر شخص کے لئے وہ سندی بات نہیں ہوسکتی ہے۔ اگرکچھ سندی بات ہے تو اُسی کے لئے ہے جس نے وہ خواب دیکھا ہے۔ کیونکہ بعض اوقات آئندہ واقعہ کا عکس ہوسکتا ہے کہ کسی آدمی کے دل پر گرے اورمدبر عالم کے ارادہ سے گرے جبکہ خُداکوئی بات کسی پرظاہر کرنا چاہے۔

لیکن آدمیوں کی نجات کے بار ےمیں جو تعلیم ضرور ی تھی وہ سب پیغمبروں اورصاحبان الہام کے وسیلہ سے بائبل شریف میں خُدا کی طرف سے بیان ہوچکی ہے اورکامل ثبوت کو پہنچ گئی ہے اوریہ کام ختم ہوگیا ہے ۔اب جو کچھ ا س بار ے میں کوئی آدمی بائبل کے خلاف کہے گا وہ ہرگز خُدا سے نہ ہوگا ۔ ’’اگرہم یا آسمان سے کوئی فرشتہ سوائے اُس انجیل کے جو ہم نے سنائی دوسری انجیل تمہیں سنائے سو ملعون ہو‘‘( گلیتوں۸:۱)۔

یہ اوربات ہے کہ کوئی کہے میں نے ایک خواب دیکھا ہےفلاں شخص پر کوئی آفت یا برکت آتی  ہوئی نظر آتی ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ شاید ایسا ہو دیکھا جائےگا۔ جب ویسا ہوتو کہہ سکتے ہیں کہ تمہارا خواب سچا تھا۔ لیکن ہمیں اورتمہیں دونوں کو کلام اللہ کا مطیع ہونا ضرورہے نہ خواب خیالوں کا۔

دفعہ ۳۴

پیغمبروں اورمومنین کےخواب کابیان

چونکہ یہ لوگ بھی انسان ہیں۔ اُنہیں بھی بدہضمی اوربیماری وغیرہ اسباب سے باطل خیال آسکتے ہیں اورآتے بھی ہیں۔ مگر ان لوگوں کے وہ خاص خاص خواب جو کلام اللہ میں مذکور ہیں الہام کی قسم سے ہیں۔ اس لئے اُن کےاُن خوابوں کو حقیقی خواب ماننا واجب ہے۔

دیکھو کیا لکھا ہے’’خواب میں رات کی رویا میں جب  لوگوں  کو گہری نیند آتی ہے اوربسترپر سوتے  وقت۔تب وہ لوگوں  کے کان کھولتا ہے اوراُنکی تعلیم پر مُہرلگاتا ہے‘‘(ایوب۱۶،۱۵:۳۳) ۔

اب سوچئے کہ یہ تعلیم درست ہے یا نہیں۔ تجربہ سے یقین ہے کہ درست ہے ۔اُس وقت آدمی کے حواس معطل سے ہوتے ہیں تو بھی اُس کی رُوح کچھ سنتی ،کچھ دیکھتی، کچھ سیکھتی ہے۔ اگر رُوح انسانی ایک مستقل جو ہر نہ ہوتا تو ایسا معاملہ کس طرح ہوسکتا تھا ؟

(ایوب۱۲:۴۔۲۱پڑھو)دیکھو جب وہ سوتا تھا اورآنکھیں بند تھیں حواس معطل تھے تب اس کی رُوح نے ایک اَوررُوح کو دیکھا اوراُس سے متاثر ہوئی اورایک آواز بھی سُنی اس حالت میں جو دیکھنا اورسُننا ہوا نفس ناطقہ سے بلا توسط حواس ظاہر ی کے ہوا ۔(گنتی ۶:۱۲۔۹)خُدا تعالیٰ نبی کو اپنے تین رویا میں معلوم کراتا ہے اوراُس سے باتیں کرتا ہے اورموسیٰ سے آمنے سامنے بولتا ہے۔ اوریہ بھی لکھا ہے کہ سچے خواب والا نبی جو بدتعلیم دے قبول نہ کیاجائے کہ وہ آزمائش کا مقام ہے (استثنا ۴،۳:۱۳)۔

دفعہ ۳۵

اطوار تعلیم وتعلم

انسان محض جاہل پیدا ہوتے ہیں اورپیدا ہوتے ہی اس جہا ن کی باتیں سیکھنا شروع کرتے ہیں اور وہ سُننے ،دیکھنے ،قیاس  اورتجربہ سے تعلیم پاتے چلے جاتے ہیں۔ وہ بدی بھی سیکھتے ہیں اورنیکی بھی سیکھتے ہیں۔ اُن کی تعلیم کبھی پوری نہیں ہوتی کہ وہ مرجاتے ہیں اورسیکھنے کے لئے بہت کچھ باقی رہ جاتا ہے۔ اُنہیں نہ اس قدر فرصت ہے نہ اس قدر طاقت ہے کہ سب کچھ سیکھ سکیں۔

ضروری بات انسان کے لئے یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کی مرضی کو دریافت کرے کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ اوراُسی کے موافق اپنی زندگی بسر کرکے اِس سے رخصت ہو۔ ہاں دنیا کی اَورباتیں بھی جہاں تک وہ سیکھ سکتا ہے سیکھے اس سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن اعلیٰ غرض یہی ہونا چاہئے کہ وہ خُدا کی مرضی کو دریافت کرےکیونکہ بہبودی اس کی اُسی پر موقوف ہے۔عام طریقہ تعلیم آدمیوں کے لئے اکتساب اوراستفاضہ (فائدہ اٹھانا)اورفکر  ہے اوریہ طریقہ حواس سے علاقہ رکھتا ہے اورپورا ہوتا ہے۔ لیکن خُدا کی مرضی اس طریقہ سے پوری پوری دریافت نہیں ہوسکتی ہے۔ اس لئے خُدا نے ایک اورطریقہ تعلیم کا دنیا میں ظاہر کیا ہے جسے ’’الہام ‘‘کہتے ہیں ۔یہ طریقہ خاص الہٰی مرضی کے اظہار کے لئے ہے اور یہ عام آدمیوں کے لئے نہیں ہے بلکہ خاص لوگوں کو بخشا گیا تھا جن کے وسیلہ سے الہٰی مرضی بائبل شریف میں قلم بند ہوگئی ہے۔ اس طریقہ سے جو تعلیم ہوتی ہے اس کے لئے الفاظ ذیل دنیا میں مشہور ہیں یعنی الہام ،مکاشفہ، القا،وحی ،وجد، وجد ان، فیض۔

’’الہام‘‘ کے معنی ہیں کہ’’ کوئی مطلب انسان کے دل میں خُدا کی طرف سے آئے جس میں اکتساب اوراستفاضہ اورفکر کو اورقوت واہمہ کو دخل نہ ہو‘‘۔

’’مکاشفہ‘‘ کے معنی ہیں’’ پردہ ہٹا کے کچھ دکھانا‘‘۔

’’القا‘‘ کے معنی ہیں’’ خُدا کی طرف سے کوئی بات دل میں ڈالا جانا‘‘۔

’’وحی‘‘ کے معنی ہیں’’ خُدا کا پیغام‘‘۔

’’وجد‘‘ کے کے معنی ہیں’’ بوسیلہ چشم دل کے خُدا کو دیکھنا‘‘۔

’’وجدؔ ان‘‘ کے معنی ہیں’’ گم شدہ کو پانا‘‘۔

’’فیض‘‘ کے معنی ہیں’’ خُدا کی طرف سے دلوں میں برکت کا بہہ کے آنا ‘‘۔

دنیا میں بڑا مباحثہ اس بار ے میں ہورہا ہے کہ آیا یہ دو طریقے یعنی ’’اکتسابی‘‘ اور’’الہامی‘‘ فی الحقیقت جہان میں ہیں یا نہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ صرف اکتسابی طریقہ ہے الہامی طریقہ فرضی بات ہے یا وہ مغالطہ دے کے الہامی طریقہ کو اکتسابی میں شامل کردیتے ہیں۔ چنانچہ برہمواور نیچر یوں کا یہی حال ہے ۔یہ سب الہام کے منکر ہیں۔ اُن کی باتیں ہمیں کچھ سنجیدہ نظر نہیں آتیں اورنہ اُن لوگوں میں کچھ خیر خوبی دکھائی دیتی ہے ۔دنیا کے درمیان جس قدر خیر خوبی نظر آتی ہے وہ صرف اسی الہامی طریقہ سے نکلی ہوئی معلوم ہوتی ہے ۔اس لئے ایسے منکر ہمیں بطلان پر نظر آتے ہیں۔

بعض کہتے ہیں کہ ہاں الہام کا طریقہ توموجود ہے مگر وہ عام ہے۔ ہر زمانہ میں لوگوں کو الہام ہوا کرتا ہے۔ خاص زمانہ میں خاص لوگوں پر اور خاص کتابوں میں منحصر نہیں ہے۔ یہ قول فریب کا ہےجومنکرین الہام نے قایلیں الہام کو فریب اورمغالطہ دے کے اپنے جال میں پھنسانے کے لئے بنایا ہے تاکہ اپنی واہمی باتوں کو اس زمانہ کا الہام کہہ کے اُن سے قبول کروائیں اورحقیقی الہام کو اُن سے چُھڑائیں۔ ایسے لوگوں کو منکر ین الہام کہنا چاہئے۔

میں پوچھتا ہوں کہ الہام کی ہمیں ضرورت کیوں ہے؟ صرف اس لئے کہ ہم خُدا کی مرضی کو معلوم کریں کہ ہماری اُخر وی اورحال کی بہبو دی کیونکر ہوسکتی ہے؟ اورعقل اس بات کو قبول نہیں کرتی ہے کہ خُدا کی مرضی ہر زمانہ میں لوگوں کی نسبت بدلا کر ے آج کچھ مرضی ہے اورکل کچھ اور مرضی ہوجائے۔ اُس کی ایک مرضی ہے جو اول سے آخر تک سب آدمیوں کی نسبت ہے۔ سو ایک دفعہ ایک زمانہ میں اُس کا اظہار کافی ہے۔ ہر زمانہ میں الہام کی کچھ ضرورت اورحاجت نہیں ہے ۔ہاں فیض کی حاجت ہے کہ ہرزمانہ میں ہر کوئی اپنے دل میں برکت پانے کا محتاج ہے کہ الٰہی مرضی ظاہر شدہ میں مستقیم ہو۔ خُدا کی طرف سے جو پیغام آنا تھا وہ پیغمبروں کے وسیلہ سے آچکا ہے۔ اُس کی مرضی ظاہر ہوگئی ہے جو بائبل میں مندرج ہے اوربرکت روحانی ایمانداروں کو ہرزمانہ میں برابر ملتی رہتی ہے جس سے وہ دینداری میں قائم اورایمان میں خوش وقت رہتے ہیں۔ دنیا میں اہل بائبل کے سوا اورلوگ بھی ہیں جو ایک ایک کتاب لے کے  اُس کے الہامی ہونے کے مدعی ہیں اس کا فیصلہ کیونکر ہوسکتا ہے؟

ہم جانتے ہیں کہ بعض آدمیوں کو وہم بھی ہوتے ہیں کیونکہ قوت واہمہ اُن  میں ہے۔بعض آدمی دھوکا بھی کھاتے ہیں کیونکہ وہ انسان ’’ضعیف البنیان‘‘(جس کی بنیاد کمزور ہو) ہیں اوردنیا میں فریب بہت ہے۔ بعض آدمیوں کو مالیخو لیا بھی ہوجاتا ہے ۔صفر اوی غلبہ سے بعض آدمی خود بھی فریب دینا چاہتے ہیں کہ اپنی کوئی غرض پوری کریں ۔بعض آدمی بیوقوف بھی ہیں کیونکہ سب نے مناسب تعلیم نہیں پائی ہے ۔بعض آدمی شریر بھی ہیں  کیونکہ اُن کے دلوں میں شر ہے۔ بعض آدمی بجائے خود نیک اورخُدا ترس اور سچے بھی ہیں اس لئے ہر مدعی کا قول بے تامل قبول کرنا یا ردکرنا مناسب نہیں ہےجب تک کہ مناسب تحقیق نہ ہو جائے ۔پس جو کوئی چاہے اُٹھے اورتحقیق کرے کہ کونسی کتاب اللہ سے ہے اورایسی سچائی سے دریافت کرے کہ خُدا کے سامنے روسیاہ نہ ہو  جائے۔ بے ایمان اوربے انصاف منصف ہوکے فیصلہ نہ کرے۔ بائبل شریف کی کیفیت کا مقابلہ سب اہل مذاہب کی کتابوں کی کیفیتوں سے بہ ہزار کوشش اورانصاف لائق آدمیوں سے ہوگیا ہے اورثابت ہو چکا ہے کہ صرف بائبل ہی حق ہے۔وہی خدا سے ہے۔اسی میں الہام ہے۔اسی میں انسان کے لئے زندگی اورتسلی ہے۔اسی میں روشنی ہے ۔چاہو تو باانصاف  خود مقابلہ کر کے دیکھو۔