دفعہ ۱۸

انسانی حواس عشرہ کے بیان میں

’’حواس ‘‘جمع ہے ’’حاسہ‘‘ کی اُس کے معنی ہیں ’’دریافت کرنے کی قوت ‘‘۔انسان میں پانچ حواس ظاہری صاف نظر آتے ہیں لیکن حکیم کہتے ہیں کہ پانچ حواس باطنی بھی ہیں۔ قدیم محمدی ان پانچ حواس باطنی کے قائل نہیں ہیں ۔لیکن ہم اگر اُن کے بھی قائل ہوں تو کچھ مضائقہ نہیں ہے۔ پس میں اس مقام پر ظاہری اورباطنی حواس کو ملا کے دس حواس کا ذکر کرتا ہوں ۔ انسانی رُوح بوسیلہ ان حواس عشرہ کے اس جہان کی چیزوں کو دریافت کیاکرتی ہے اورجوکچھ دریافت کرتی ہے بموجب اُس کے تجویزیں اورارادے اوربندوبست باندھتی ہے اور اپنے بدنی اعضاکو ہلاتی اورکام بھی کرتی ہے۔ حواس خمسہ ظاہری یہ ہیں’’ قوتؔ لامسہ ‘‘،’’قوتؔ باصرہ ‘‘،’’قوتؔ سامعہ‘‘،’’ قوتؔ ذائقہ‘‘،’’ قوتؔ شامہ‘‘۔

قوتِ لامسہ کا بیان

’’ لمس‘‘ کے معنی ہیں ’’چھونا‘‘ پس چھو کے دریافت کرنے کی قوت کو لامسہ کہتے ہیں۔ یہ قوت انسان کے سارے بدن میں ہے۔ کوئی چیز انسان کو کسی جگہ سے چھوئے یا انسان کا کوئی عضو کسی چیز کو چھوئے رُوح کو معلوم ہوجاتا ہے کہ کسی نے مجھے چھوا اوریہ کہ وہ چیز سخت ہے یا نرم ، سرد ہے یا گرم ،نوکدار ہے یا مسطح۔ اگرچہ یہ قوت سارے بدن میں ہے لیکن ہاتھوں میں خصوصاً انگلیوں کے سروں میں زیادہ ہے ۔اسی لئے حکیم انگلیوں کے سروں سے نبض کو دیکھتا ہے اورسردی ،گرمی، سستی وسرعت  (پُھرتی)نبض کی معلوم کرلیتا ہے۔ اگر یہ قوت اللہ تعالیٰ ہمارے سارے بدن میں نہ رکھتا تو ہم مضر چیزوں کے صدمات سے کیونکر بچتے۔  رُوح کو خبر بھی نہ ہوتی اوربدن کہیں سردی یا آگ میں تلف ہوجاتا۔ پس اس قوت کے لئے خُدا کے شکر گزار ہو یا نہیں۔

’’لمس‘‘ کے وسیلہ سے جب رُوح کو کچھ خبر ملتی ہے تب وہ فوراً بدن کو حرکت دیتی اور اس شے کی طرف متوجہ ہوکے پہلے آنکھوں سے دیکھنا چاہتی ہے کہ وہ کیا ہے پھر جو مناسب سمجھتی ہے سوکرتی ہے۔

قوتِ باصر ہ کابیان

یہ دیکھنے والی قوت ہے اورصرف ان دو آنکھوں میں ہے اوربدن کے کسی ٹکڑے میں نہیں ہے۔ ان  میں خُدا کی تجویز سے ایک تروتازہ شیشہ سا ہے جس کے نیچے صاف پانی کا ایک چشمہ سا ہے۔ رونے کے وقت آنسو اُسی چشمہ سے بہتے ہیں اور اس پانی سے وہ شیشہ یا پردہ تروتازہ رہتا ہے ۔اس پردہ کی حفاظت اورروشنی کی کمی بیشی کے لئے پلکیں ہیں۔ ہرپیش آئندہ شےکی تصویر بطور عکس کے اس پر دہ یا شیشہ میں منقش ہوتی ہے۔ اُس کے آگے دماغ میں ایک نقطہ ہے اور نقطہ انسانی رُوح اوراس شیشہ کے ساتھ ایک خاص نسبت میں واقع ہے۔ پس رُوح انسانی بوسیلہ اُس نقطہ کے اُس عکس منقوش کو صاف دیکھ لیا کرتی ہے۔

تمام چیزیں جو تم دیکھتے ہو وہ چیزیں تو نہیں دیکھتے ہو مگر اُن کے عکوس (عکس) دیکھتے ہو۔ رُوح شئے لطیف ہے اورعکوس بھی جو نظروں میں آتے ہیں لطیف ہیں۔ خُدتعالیٰ سب کثیف اوربڑی بڑی چیزوں کو لطیف شکل میں لاکے اس لطیف رُوح کو دکھاتا ہے۔ دیکھو اللہ تعالیٰ کی حکمت۔ جب دور کی چیز دیکھنا ہے تورُوح انسانی آنکھ کا مُنہ زیادہ کھولتی ہے  اورزیادہ ترخارجی  روشنی کی طالب ہے۔ اگر نزدیک کی چیز دیکھنا ہے تو آنکھ کا منہ کچھ تنگ کھلتا ہے اور اسی حساب پر لوگوں نے دور  بین  اورخورد بین بنائی ہیں، جن کے شیشوں میں چیزوں کے عکس پڑتے اور بوسیلہ آنکھ کے اُن عکسوں کے عکس رُوح کو نظر آتے ہیں۔ اگر آدمی اُس چیز سے جو بوسیلہ آنکھ کے معلوم ہوئی ہے واقف تھا تو اُسے پہچان لیتا ہے کہ وہ فلاں چیز ہے ورنہ اورزیادہ دریافت کے درپے ہوتا ہے کہ وہ کیا ہے؟

قوتِ سامعہ کا بیان

 یہ سُننے کی طاقت ہے اورصرف دوکانوں میں ہے اورکہیں نہیں اوربغیر خارجی آواز کے سُن بھی نہیں سکتے۔  کان سلامت ہوں اورآواز بھی کہیں سے آئے تب سُن سکتے ہیں۔ آواز خواہ دیمی ہو یا بلند، مگر کچھ آواز ہو اور آواز بھی بامعنی معلومہ ہو ورنہ صرف ایک کھڑکا ساکان میں پہنچے گا اوررُوح اُس کا مطلب نہ سمجھے گی۔ جانوروں کی آوازیں ،ہوا کے سناٹے ،بادلوں کی گرج ،بجلی کی کڑک ،چیزوں کے ٹکرانے کے کھڑ کے اوراجنبی زبانوں کے الفاظ سُننے سے رُوح کو کچھ مطلب معلوم نہیں ہوتا صرف آوازیں پہنچتی ہیں۔

عربی میں ’’لفظ‘‘ کے معنی ہیں’’ پھینکنا‘‘۔جب ایک آدمی دوسرے آدمی سے بات کرنا چاہتا ہے توا پنے دل کا مطلب کلمات معلومہ میں لپیٹ کر بوسیلہ اپنی زبان کے ہوا میں مخاطب کی طرف پھینکتا ہے۔ اوردیکھتے ہو کہ جیسے پانی کے تالاب میں پتھر مارنے سے ایک حلقہ سا بندھ جاتا ہے اسی طرح اس ہوا کے سمندر میں جو ہمارے چار طرف بھرا ہے جوکلمہ یا لفظ رُوح سے بوسیلہ زبان کے پھینکا جاتا ہے وہ ہوا میں ایک حلقہ یا دائرہ پیدا کرتا ہے اورحلقہ صدمہ کی طاقت کے موافق بند ھتا ہے جس قدر لوگ کانوں والے اوراُن الفاظ کے سمجھنے والے اس حلقہ کے درمیان ہوتے ہیں وہ سب سُن اورسمجھ لیتے ہیں۔ اورسُننے کا طور یہ ہے کہ یہ دوکان مثل دوپنکھوں کے  ہیں جو ہوا کی جنبش کو جمع کرلیتے ہیں یا روک لیتے ہیں اوراُن کے آگے ایک سوراخ ہےجسکے سرے پر ایک جلی سی ہے اسی کو کان کا پردہ کہتے ہیں۔ یہ پردہ ایسا کسا ہوا ہے جیسے ڈھولک کا چمڑا کسا ہوا ہوتا ہے ۔پس ان پنکھوں کی جمع کی ہوئی یارُکی ہوئی جنبش اُس ڈھولک میں  جاکے بجتی ہے اوروہ پرد ہ اُس کے صدمہ سے ہلتا ہے۔ اُس کے آگے ایک زنجیرسی ہے اوروہ زنجیر اُس جنبش کو مغز کے اندر پہنچا دیتی ہے وہاں سے نفس ناطقہ کو معلوم ہوجاتا ہے کہ فلاں شخص نے یوں کہا ہے۔ پس میں پوچھتا ہوں کہ خالق کی اس حکمت پر فکر کرکے اُسے سجدہ کرنا چاہتے ہو یا نہیں۔

قوتِ ذائقہ کا بیان

یہ  چکھنے کی قوت ہے جوصرف زبان میں اللہ نے رکھی ہے ۔جب کوئی چیز زبان پر آتی ہے اوراُس کے اجزاتھوک میں کسی قدر گھلتے ہیں تو اس حِس کے وسیلہ سے اُس شے کا مزہ رُوح کو معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ کس مزہ کی ہے؟

زبان سے تین کام نکلتےہیں مزے چکھتی ہے، بولتی ہے اوردانتوں سے چبائی ہوئی غذا کو ٹٹول کے معدہ میں اُترنے کی اجازت رُوح سے دلواتی ہے اوریہ زبان بڑی پھر تیلی ہے جلد جلد کام کرتی ہے۔

قوتِ شامہ کا بیان

 یہ سونگنے کی قوت ہے اورصرف ناک میں ہے۔ جب کسی چیز کے لطیف اجزا  بوسیلہ ہوا کے اُڑ کے ناک میں آتے ہیں یا آدمی کسی چیز کو ناک کے پاس لاکے بوسیلہ ہوا کے اوپر کی طرف دَم کھینچ کے اُس چیز کے اجزا لطیفہ کو ناک میں چڑھاتا ہے تب اُس چیز کی خوشبو یا بدبو بوسیلہ اس حس کے رُوح کو معلوم ہوجاتی ہے ۔یہ حواس خمسہ ظاہری ہیں اوراُن کے کام بھی خاص خاص ہیں۔ حکیم کہتے ہیں کہ پانچ حواس باطنی اَوربھی ہیں اوروہ ان حواس ظاہری سےدریافت شدہ امور میں اپنا اپناکام کیاکرتے ہیں۔ اُن کے نام یہ ہیں’’حِس مشترک ‘‘،’’خیال‘‘ ،’’ وہم‘‘ ، ’’قوت متصرفہ‘‘ ،’’قوت حافظہ‘‘۔

حِس مشترک کابیان

حکماکہتے ہیں کہ انسان کے دماغ میں تین خانےیا تین بطن ہیں اوراُن کو’’ بطن اول ‘‘،’’بطن دوم ‘‘اور’’بطن سوم ‘‘کہتے ہیں ۔ہر بطن میں دو مقام بتاتے ہیں اور اِن کو ’’درجہ اول‘‘اور’’ درجہ دوم ‘‘کہتے ہیں۔’’حِس مشترک ‘‘ایک قوت ہے ۔دماغ کے بطن اول کے پہلے درجہ میں اُس کو حِس اس لئے کہتے ہیں کہ وہ ایک قوت ِحاسہ ہے اورمشترک اس لئے کہتے ہیں کہ وہ حواس خمسہ ظاہری اورنفس ناطقہ کے درمیان ہے۔ دونوں طرف اس کا علاقہ ہے جو کچھ حواس ظاہری دریافت کرتے ہیں اولاً اسی حِس کے سامنے آتا ہے اوریہی حِس رُوح کو خبر دیتی ہے۔

خیال کابیان

’’ خیال‘‘  کے لفظی معنی ہیں پندؔار وانچہ درخواب دیدہ شود دیا دربیداری تخیل کردہ اید وانچہ درآئینہ دیدہ شود۔ لیکن یہاں خیال سے مراد’’قوت متخیلہ‘‘ ہے اوروہ ایک قوت ہے۔ بطن اول کے درجہ دوم میں جو کچھ حِس مشترک کو بوسیلہ حواس کے معلوم ہوتا ہے یہ قوت اس معلوم کے تصور کو اپنے اندر کچھ عرصہ تک محفوظ رکھتی ہے۔

وہم کابیان

وہم کے معنی ہیں’’ انچہ دردل گذرد۔ یارفتن دل بسوئے چیز ے بے قصد اَِن ‘‘ لیکن یہاں مراد وہم سے قوت واہمہ ہے اوریہ قوت بطن دوم کے آخر میں ہے اوراس کا یہ کام ہے کہ اپنے اندر تصورات کی تصویریں کھینچا کرتی ہے خواہ غلط ہوں یا صحیح۔

حواس خمسہ ظاہری سے دریافت ہوکے بوسیلہ حس مشترک کے جو کچھ خیال ہیں وہ حِس مشترک کے مخزن سے پہنچا کرتا ہے۔ یہ قوت واہمہ اُسے دیکھ کے شک وشبہ اورجو جو کچھ چاہتی ہے اپنی وہمی عمارتیں بنانا شروع کرتی ہے اورکبھی کسی دلی خواہش پر خواہ وہ خواہش نیک ہو یا بد بنیاد قائم کرکے اپنی وہمی عمارت کا ایک محل سا بنا کھڑا کرتی ہے ۔اس کا میدان بہت فراخ ہے۔ وہ لوگ جو اپنے دل ہی دل میں باتوں کا سلسلہ باند ھاکرتے ہیں وہاں یہی قوت کام کیاکرتی ہے۔ کتاب الف لیلہ اورسب زٹلی مضمون جو دنیا میں ہیں اسی قوت کی تصنیف سے ہیں ۔ساری بے ایمانی کی جڑ یہی قوت ہے ۔یہ قوت نہ خُدا کے تابع ہوتی ہے نہ عقل کے ۔یہ رات دن بھونکتی رہتی ہے جب تک کہ انسان کی رُوح اس کو دھمکا کے چُپ نہ کرائے یہ چُپ نہیں کرتی ہے سارے وسوسے اورشکوک اورخوف اورسب جھوٹے مذہب اورتمام بھوتوں اورجادو ٹونوں کے واہیات خیال اسی سے نکلے ہیں۔ اسی نے بعض آدمیوں کو دہریا بعض کو ہمہ اُوست بولنے والا بنایا ہے اورقسم قسم کے واہیات اس نے آدمیوں کے خیالوں  میں بھر رکھے ہیں۔ بعض صاحب علم آدمی کہتے ہیں کہ ایمانی عقائد کے بارے میں جیسے جاہلوں کےیقین واثق نظر آتے ہیں ہمارے ایسے یقین نہیں ہوتے ہیں۔ اس کاسبب میں یہی جانتا ہوں کہ ان لوگوں نے اس قوت واہمہ کی بہت اطاعت کی ہے اوراپنےآپ کو اسکے تابع کردیا ہے ۔اس لئے شک میں شک اُن کے دلوں میں چلے آتے ہیں ۔اگر چاہو اُن سے کلام کرکے دیکھ لو کہ وہم پر وہم وہ اگلتے ہیں۔ افسوس ہے کہ آدمی اپنےآپ کو اس قوت کی تابع کرے جو کہ نہ خُدا کے اورنہ عقل کے تابع ہوسکتی ہے اورپھر وہ آدمی یوں بھی کہے کہ میں سچا محقق ہوں۔

ہاں یہ قوت کچھ مفید بھی ہے اگر اس کو ایک حد میں کام کرنے دیں تاکہ ہم دھوکا نہ کھائیں۔ جو شکوک یہ پیش کرے اُن پر فکر کیا جائے نہ یہ کہ اُس سے مطلق العنان کرکے ہم خود اُس کے پیچھے  ہولیں۔ پھر وہ تو کبھی کسی بات پر بھی قائم نہ  ہونے دےگی۔ ہمیشہ کہے گی شاید یوں نہ ہویوں ہو ،پھر بھی یوں ہو، یوں ہو۔

یہ قوت حیوانات میں زیادہ ہے۔ اس لئے کہ یہ خاص رُوح حیوانی کی قوتوں میں سے ہے ۔نفس ناطقہ کی یہ قوت نہیں ہے ۔نفس ناطقہ کی خدمت میں تو ہی پر خود حیوانی صفت ہے نہ ملکی۔ بعض اوقات اس کے کام سے فائدہ بھی ہوتا ہے۔ پس چاہئے کہ ہر آدمی یہ باتیں سُن کے ہوشیار ہوجائے کیونکہ اس قوت نے بہتوں کو گمراہی میں ڈال رکھا ہے۔ اگراُس کو قابو میں نہ رکھا جائے تو وہ بعض صداقتوں کو بھی ماننے نہ دے گی ۔جب یہ قوت زیادتی دکھائے اُس کو دھمکا نا چاہئے۔ صرف دھمکی سے اُس کا منہ بند ہوتا ہے اورہم اس کا کان پکڑکے اس کو خُد ا کےاورعقل کے تابع کرتے ہیں اورجب یہ بیہود ہ بکتی ہے تو ہم کہتے ہیں چُپ رہ مت بَک۔ ہم اپنےآپ کو اس کے حوالہ ہر گز نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کو اپنے تابع  رکھتے ہیں۔

قوتِ متصرفہ کا بیان

یہ وہ قوت ہے جو خیالات میں اُلٹ پلٹ کرکے نتیجے نکالا کرتی ہے۔ یہ بطن دوم کے درجہ اول میں ہے۔ یہ نہایت خوب  چیز ہے اوریہ حیوانی قوت نہیں ہے بلکہ نفس ناطقہ کی قوت ہے ۔اس کی بہت پرورش چاہئے۔ اس کا کام یہ ہے کہ بعض حاصل شدہ شکلوں کو بعض مطالب کے ساتھ مرکب کرکےاوراُن سے نتیجے نکال کے کہا کرتی ہے کہ ان شکلوں کا مقصد اورمطلب مجھے یوں معلوم ہوتا ہے سو میں نفس ناطقہ کے سامنے پیش کرتی ہوں ،فتوی دینا اُس کا کام ہے۔ پس یہ قوت نفس ناطقہ کے لئے صلا ح کار اورمشیر ساہے۔ تجویزیں اس سے ہوتی ہیں اورحکم نفس ناطقہ سے ملتا ہے اورکبھی کبھی نفس ناطقہ اس کی تجویزوں میں بھی مرمت کرتا ہے۔ اس قوت کے دونام ہیں کیونکہ دو طرح کے کام اس سے ہوتے ہیں جبکہ یہ قوت معلومات کی ترکیب میں نفس ناطقہ کے ساتھ مل کے کام کرتی ہے۔ تب اس کا نام’’ قوت متفکر ہ‘‘ ہوتا ہے اور یہ اس کا کام اعلیٰ درجہ کاکام ہے لیکن جب یہ اپنا کام قوت واہمہ کے ساتھ  مل کے کرتی ہے اُس وقت اُس کو’’قوت متخیلہ‘‘ کہتے ہیں اوراس کا م میں خطرے ہوتے ہیں۔

سب محققوں پرفرض ہے کہ تفکر وتخیل میں امتیاز کیا کریں تاکہ غلطی سے بچیں ۔تخیلات نے ایمان میں بڑا افساد مچارکھا ہے ۔تفکرات بہت کم نظر آتے ہیں۔

قوتِ حافظہ کا بیان

یہ قوت بطن ِسوم کے درجہ اول میں رہتی ہے اورتصورات خیالیہ اورواقعات کی شکلوں کو یادرکھتی ہے اوریہی دماغی دفتر کا آخری مخرن ہے اوریہ قوت واہمہ کی چیزوں کو بھی رکھ چھوڑتی ہے۔ پچاس برس گزرے یا کم زیادہ کہ زید نے عمر کو ایک  خاص لباس میں جوا ن دیکھا تھا۔ اب عمر بوڑھاہوکے اَورطرح کا ہوگیا لیکن زیدکی قوت حافظہ میں اس کی وہی پہلی صورت محفوظ ہے۔ علیٰ ہذالقیاس اوراورمثالیں خود سوچ لو۔ یہ پانچ قوتیں جنہیں باطنی حواس کہاگیاانسان میں بچشم غور دکھائی تودیتی ہیں تو بھی رُوح ایک شے ممتاز رہتی ہے۔ ان قوتوں ہی میں رَل مل نہیں جاتی۔ سب سے زیادہ بلند رتبہ کی قوت قوت متصرفہ ہے اوروہ بھی اپنے کام میں کبھی واہمہ کی طرف اورکبھی رُوح کی طرف جھکی ہوئی نظر آیا کرتی ہے۔ ایسی باتوں سے رُوح میں اورقوتوں میں امتیاز ہوتا ہے اوررُوح سب قوتوں پر حاکم رہتی ہے۔ غور سے اپنی اندرونی کیفیت پر سوچو۔

دفعہ ۱۹

انسان کے دل کا بیان

’’دل‘‘ فارسی لفظ ہے۔ عربی میں اس کو’’ قلب‘‘ کہتے ہیں اوریہ عربی کا لفظ نہایت خوب اورپُرتعلیم ہے ۔’’قلب‘‘ کے معنی ہیں’’ پلٹے کھانا اوراُلٹ پلٹ ہونا ‘‘۔چونکہ انسان کا دل قسم قسم کے اثروں سے اُلٹ پُلٹ ہوتا  رہتا ہے اس لئے اُس کا نام اچھا ہے اورخُدا کو بھی مقلب القلوب اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ دلوں کو اُلٹ پلٹ کردیا کرتا ہے۔ دوسرے معنی قلب کے ہیں درمیانی جگہ یا صدر جگہ اورچونکہ یہ دل انسان میں گویا صد رجگہ ہے جہاں سے ارادے اورخواہشیں نکلتی ہیں ا س لئے بھی اس کا نام قلب اچھا ہے۔ عام اصطلاح میں’’ دل ‘‘نام ہے اُس گوشت کے ٹکڑے کا جس کی شکل صنوبری یا گاجر جیسی ہے اور وہ انسان کے سینہ میں بائیں طرف ہے اوروہ ایک عضو رئیس ہے۔

صوفی کہتے ہیں کہ ’’دل ایک ربانی لطیفہ ہے اُس کا علاقہ اس جسمانی دل کے ساتھ ایسا ہے جیسا عرضوں اورصفتوں کا علاقہ اجسام اورموضوفات سے ہوتا ہے‘‘۔

 ایک اورمحقق نے کہا ہے’’ حقائق روحانی اورخصائص نفسانی کے درمیان اورحقائق جسمانی وقوائی مزاجی کے درمیان ایک حقیقت ہے جامعہ اُس کو دل کہتے ہیں‘‘۔

 ایک اورعالم نے کہا کہ ’’دل ایک نورانی جو ہر ہے۔ مجرد اوروہ رُوح حیوانی اورنفس ناطقہ کے درمیان ہے اوراسی سے انسانیت قائم ہوتی ہے۔گویا یہ دل ملکیت اورحیوانیت کے درمیان کامقام ہے جو دونوں ماہیتوں سے علاقہ رکھتا ہے‘‘۔ یہ بات توصاف ہے کہ انسان کے دل ہی سے ساری بدی اورنفسانی وحیوانی خواہشیں نکلتی ہیں اوردل ہی میں سے بہت سی خوبیاں بھی ظاہر ہوتی ہیں اوریہ بھی دیکھتے ہیں کہ جب دل سے خوبیاں نکلتی ہیں تب اس دل کو نفسانی حیوانی بدخواہشوں سے بڑا جنگ کرنا پڑتا ہے اورجب دل سے بدی آتی ہے تب اُس سے ملکیت کی مخالفت ہوتی ہے۔ اسی سےظاہر ہے کہ دل درمیان میں ہےملکیت اورحیوانیت کے اوراس  کا علاقہ دونوں طرف ہے۔

 کلام اللہ میں انسان کے دل کا بیان بہت ہوا ہے۔ بائبل  کے درمیان تخمیناًدو سو آیتیں ہونگی جن میں دل کا بیان ہو اہے ۔اورکوئی کتاب دنیا میں ایسی نہیں ہے جو دل کا ایسا بیان دکھائے جیسا بائبل شریف نے دکھایا ہے۔ اس کا سبب یہی ہے کہ بائبل خُدا سے ہے اورخُدا تعالیٰ سب آدمیوں کے دلوں کی کیفیت سے پوری واقف ہے ۔اس کی نگاہ میں سب اولین وآخرین کے دلوں کی کیفیت پوری پوری موجود ہے۔ اسی لئے وہ آدمی کے دل کا بیان اپنی کتاب میں پورا پورا کرسکا ہے۔

خُدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہر ایک انسان کی رُوح اپنے دل کی حفاظت خوب طرح سے کرے کیونکہ جنگ کا مقام وہی ہے اسی جگہ سے فتح یا شکست ہوتی ہے۔ شیطان چاہتا ہے کہ آدمی اپنادل اُس کو دے تاکہ وہاں بیٹھ کے وہ اُس پر حکومت کرے اورقابض ہو کے اپنے ساتھ اُسے جہنم میں لےجائے۔

خُدا فرماتا ہے کہ تم سب اپنا دل مجھے دو تاکہ میں تمہارے دلوں میں سکونت کروں اورتم میرے ساتھ ہمیشہ خوشی میں رہو۔

 اورانسان کی رُوح کا یہ اختیار ہے کہ اپنا دل جس کو چاہے دے اور یہ اختیار اس لئے ہے کہ انسان آزاد پیدا کیاگیا ہے تاکہ اس پر عدالت واجبی ہوسکے۔ قیامت اورعدالت کےدن سے پہلے دوزخی اوربہشتی لوگ اسی سے پہچانے جاسکتے ہیں کہ اُن کے دلوں میں حاکم کون ہے؟ اورکہ وہ کس کی حکومت کے تحت میں موئے ہیں؟ وہ جسکی حکومت میں موئے ہیں اُسی کے ساتھ، اُسی کے سپاہی اوراسی کی چیزوں کے وارث ہوتے ہیں۔ اب ناظرین اپنے دلوں کی طرف غور کرکے آپ کو پہچانیں کہ وہ کس کے لوگ ہیں؟

بہ نسبت محمدی اہل شرع کے صوفیوں نے دل کا فکر زیادہ کیا ہے اور اُس کے درست کرنے کی کچھ تدبیریں بھی سوچی ہیں۔ میں نے جب تک بائبل شریف سے روشنی نہ حاصل کی تھی میں بھی صوفیوں کی تدبیروں پر فریفتہ تھا۔ اب مجھے معلوم ہوگیا کہ صوفیوں کی باتیں اگرچہ محمد یوں کی باتوں سے بہتر ہیں مگر فی الحقیقت نکمی ہیں۔ وہ لوگ بعض ریاضتوں اوربعض تصورات اوربعض وظائف کے وسیلہ سے دلوں کو سدھارنے کے درپے رہتے ہیں لیکن یہ چیزیں اس مرض کی دوا نہیں ہیں۔

دل پاک ہوتا ہے صرف مسیحی ایمان سے کیونکہ وہ ایمان خُدا کی بخشش ہے اورمسیح کی صلیبی موت کی تاثیر سے جو بوسیلہ ایمان کے مومن میں اثر کرتی ہے ۔دل کی بدخواہشیں  مردہ سی ہوجاتی ہیں اورمسیح خُداوند کی قیامت کی تاثیر سے دل میں ایسی تازگی اورقوت اوررروشنی آتی ہے کہ مسیحی مومن بدی پر اوردنیا ،نفس اورشیطان پر غالب آتا ہے اورفتح پاتا ہے اورخُدا کا مقرب ہوجاتا اوردُنیوی دکھ سکھ میں خُدا کی مرضی کا مطیع ہوکے اپنی زندگی بسر کرتا ہے اوریہی بڑی نعمت ہے جس کے سب محتاج ہیں۔