دفعہ ۵

لفظ انسان کے بیان میں

لفظ انسان کی اصل’’ اِ نسی‘‘ ہے۔ لفظ ’’ انسی‘‘ پر زیادتی معنی کی غرض سے الف نون زیادہ کیا گیا جیسے رحما ں میں کثرت رحم دکھانے کے لئے الف نون زیادہ کیاگیا ہے۔پس ’’اِنسی‘‘ سے ’’انسیان ‘‘بناکثرت استعمال سے یائے تحتانی (وہ حرف جس کے نیچے نقطے ہوں) گرگئی (یعنی ختم کر دی گئی) انسان رہ گیا۔لفظ’’ اِنسی‘‘ ضد ہے ’’وحشی‘‘ کی۔ ’’انسان‘‘ کے معنی ہیں ’’وہ شخص جو بڑے محبت واُنس والا ہے‘‘۔ مذکر، مونث، واحد وجمع سب اس میں یکساں ہیں۔ انسان کی حالت تمدنی کا بیان اس لفظ میں خوب ہے۔ اب آپ سوچیں کہ اگر ہم کینہؔ توز  اورخود غرؔض اور بے محبت اور وحشی مزاج ہوں تو ہم اسم بامُسمّٰی (جیسا نام ویسے گُن)انسان ہیں یا نہیں اورایسے لوگوں نے کہاں تک اپنی وضع سے انحراف کیا ہے؟

دفعہ ۶

لفظ آدم کے ذکر میں

’’آدم‘‘ نام ہے اُس شخص کا جو پہلا انسان اورسب انسانو ں کا باپ تھا۔ اس لفظ کےمعنی ہیں ’’مٹی یا سرخ مٹی ‘‘کیونکہ وہ شخص سرخ مٹی سے بنایا گیاتھا۔ اگرچہ اس کی بناوٹ میں اور سب مخلوقات ارضی کی ساخت میں بڑا امتیاز ہے کہ وہ عجیب طور سے بنا ہے اوراس میں زندگی کا دم خُدا نے پھونکا ہے۔ اور وہ سب ارضی  مخلوقات پر حاکم ہے بلکہ تمام کا رخانہِ زمین  اسی کے لئے تیار ہوا ہے ۔تو بھی اُس کا نام ’’آدم‘‘ ہے یعنی ’’مٹی‘‘۔ اس لفظ میں اُس کے جُز اسفلی کا بیان ہوتا ہے کہ وہ یادرکھے کہ میں آدم ہوں یعنی مٹی۔پس ہم سب کو چاہئے کہ اس لفظ کے معنی یادرکھیں اورخاکسار رہیں۔ مغروری کی سربلندی کو دل میں جگہ نہ دیں کہ ہم خاک ہیں اورخاک میں جائیں گے۔ ’’خاک شوپیش ازآں کہ خاک شوی ‘‘۔

دفعہ۷

لفظ حوا کابیان

اس لفظ کے معنی ہیں ’’زندگی‘‘۔ یہ نام آدم نے اپنی بی بی کو دیا تھا کیونکہ وہ سب زندوں کی ماں ہے (پیدائش۲۰:۳)۔ اِس عورت کی پیدائش نر میں سے ہوئی تھی۔اسی لئے ناری کہلاتی ہے کہ نرمیں سے نکلی۔ خُدا نے آدم کو ایک ہی عورت دی تھی۔اس سے خُدا کا قانون معلوم ہوا کہ ہر مرد کو ایک ہی عورت چاہئے۔ عورتوں کی کثرت کا دستور آدم کےپوتےلمک بن قائن نے سب سے پہلے دنیا میں نکالا ہے۔ عدہ اورضِلہ اُس کی دو بیویاں تھیں (پیدائش ۱۹:۴)۔یہ آدمی خونی تھا اوراس کا باپ قائن بھی خونی تھا۔ اب جو کوئی ایک سے زیادہ عورتیں جمع کرتا ہے وہ اس شخص کی سنت پر چلتا ہےخواہ وہ نبی ہو یا غیر نبی۔ یہ سچ ہے کہ پرانے عہد نامہ کے انتظام میں یہ دستور کچھ معیوب نہ تھا اورخُدا تعالیٰ نے بھی اس معاملہ میں کچھ طرح(درگزر) سی دی تھی۔ کسی حکمت کے سبب سے لیکن جب پاکیزگی کا کمال ظاہر ہوا تو سب کچھ صاف روشن ہوا ہے۔ خُدا نے ایک جوڑا آدم اورحوا کا شروع میں پیدا کیا اوراب دیکھو کہ یہ زمیں اُس جوڑے کے بچوں سے کس قدر معمور ہے۔

دفعہ ۸

وحدت ابوی کا بیان

سب آدمی  بنی آدم کہلاتے ہیں۔’’  بنی‘‘ اصل میں ’’بنیں‘‘ تھا۔ نون جمع کا باضافت گرگیا یعنی آدم کے فرزند۔یہ آواز دنیا کے شروع سے چلی آتی ہے کہ سب آدم کے بچے ہیں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ خیال تھوڑے دنوں سے مشہور ہوا ہے۔

ہم نے سُنا ہے کہ آدم ایک خاص شخص تھا اوراُس کی ایک خاص زوجہ تھی اوراُن دونوں کو خالق نے کچھ اورہی قاعدہ سے پیدا کیا تھا۔اُن سے یہ سب آدمی پیدا ہوئے ہیں اوراسی آدم کی طرف منسوب ہوکے’’ بنی آدم ‘‘کہلاتے ہیں۔ اگر یہ خیال درست ہے تو’’وحدت ابوی‘‘ کے سبب سے ہم سب ایک ہی گھرانے کے بچے ہیں۔

بعض اشخاص نے ’’وحدت ابوی‘‘ کے بارےمیں اختلاف ظاہر کیا ہے۔پس ان کے گمان میں کئی ایک آدم ہوں گے لیکن اُن کی دلیلیں جو اس بارے میں ہیں تسلی بخش نہیں ہیں۔ اُنہیں عقل سلیم قبول نہیں کرتی۔ ’’وحدت ابوی ‘‘  کا خیال بہت صحیح معلوم ہوتا ہے اورا لہامی تواریخ میں ہے اورجہانگیر ہے۔ دلکش بھی ہے اوراس کے ثبوت کی تائید میں ہمارے پاس ذیل  میں خیالات موجود ہیں۔ ان پر بھی غورو فکر کرو۔

  1. ۔ سب دنیا کے آدمیوں میں بدنی ساخت یکساں ہے۔
  2. ۔ ہر درجہ کے آدمیوں میں اخلاقی ا وروحی کیفیت کے اصول مساوی ہیں۔ اوراس سے اتحاد نوعی ظاہر ہوکے منبع کی وحدت دکھاتا ہے۔
  3. ۔ آدمیوں میں کچھ تفریقیں بھی ہیں، لیکن ایسی تفریقیں نہیں ہیں جیسی مختلف انواع کے جانوروں کی آمیزش سے اُن کےپھلوں میں ہوتی ہیں۔ آدمیوںمیں جو تفریقیں ہیں وہ مختلف ممالک کی آب و ہوا اورمختلف اطوار معیشت اورتاثیرات ملکیہ کے سبب سے ہیں۔ چنانچہ افریقہ ،ایشیا اوریورپ کے باشندوں میں کچھ فرق سا نظرآتا ہے مگرا نسانیت کے ذاتی اصول برابر ہیں۔
  4. ۔ علم ترکیب ارضی سے ثا بت ہوگیا ہے کہ ترکیبی نسلیں آگے نہیں بڑھتیں ،صرف فطری نسلیں آگے چلتی ہیں۔ پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مختلف ممالک کے آدمی آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں اور اُنکی نسلیں برابر دنیا میں چلتی ہیں۔ اس سے وحدت ابوی ظاہر ہے۔

     

  5. ۔ کل بنی آدم میں نوعی موانست ہے اوریہ سرچشمہ کی وحدت کے سبب سے ہے اوراَور قیاس بھی اسی طرح کے نکلتے چلے آتے ہیں۔ ہمارے دلوں کو مستعد کرتے ہیں کہ ہم بموجب ہدایت بائبل شریف کے آدمیوں میں وحدت ابوی کے قائل ہوں اورکہیں کہ ہم سب آدم کےبچے ہیں۔ کسی کا باوا آدم نرالا نہیں ہے اوریہ جدائیاں جو باطل تعلیمات نے آدمیوں میں ڈالی ہیں نادانی اورمغروری کے سبب سے ہیں اوربہت مضر ہیں۔ انجیل شریف ان جدایوں کو دور کرتی ہے اورسب آدمیوں میں ایک ہی لہوثابت کرتی ہے۔ اب وہ سب لوگ جنہیں دنیا کے خود پسند لوگوں نے ذلیل ٹھہرا کے الگ کھڑا کررکھا ہے چاہئے کہ خوشی کا نعرہ مار کے مسیح یسوع خُداوند کی جماعت میں چلے آئیں کہ وہی ہے جو سب کا حق دیتا ہے۔