دفعہ ۱۳
نطق کے بیان میں
اب ’’نطق ‘‘کی طرف دیکھئے کہ وہ کیا چیز ہے؟ عربی زبان میں ’’نطق ‘‘کے معنی ہیں ’’بولنا‘‘ لیکن اصطلاح میں صرف ’’بولنا ‘‘ہی نہیں بلکہ ادراک ِمعنی کی بھی اُس میں شرط ہے اور اس صورت میں ’’نطق ‘‘نام ہواا ُس قوت کا جوادراک معنی کی قوت انسان میں ہے اوراسی قوت کے لحاظ سے انسان کی رُوح کو ’’نفس ناطقہ‘‘ کہتے ہیں۔
جب کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کانفس ناطقہ یا بولتا نکل گیا تو یہ مراد ہے کہ اُس کی رُوح نکل گئی۔لفظ’’ نفس‘‘ کےمعنی ہیں’’ حقیقت شے‘‘۔ ’’انسانی نفس‘‘ سے مراد ہے انسانی حقیقت یعنی وہ اصلی چیز جو انساں میں ہے۔
اُس کا دوسرا نام ’’ رُوح‘‘ ہے۔ لطافت کےسبب سے اس وقت یہ معلوم ہوجائے کہ وہ حقیقت ِانسان جس کو’’ نفس انسان ‘‘کہتے ہیں وہ ایک ہی چیز ہے اوراُس کے نام چھ ہیں۔ بلحاظ اُس کی چھ صفتوں کے قوت ِادراک کے لحاظ سے اُس کو ’’نفس ِناطقہ ‘‘کہتے ہیں کیونکہ اُس میں ادراک کی قوت ہے۔ اورجب وہ نفس دنیا وی لذتوں کی طرف بشدت مائل ہوتا ہے تو اُس صورت میں اُس کو’’ نفس امارہ‘‘ کہتے ہیں۔ اورجب وہ نفس اپنی بدکرداری سے پچھتا تاہے اورشرمسار ہوتا ہے اُس کا نام ’’نفس ِلوّامَہ‘‘ ہوتا ہے اورجب وہ خُدا سے مغفرت اورتسلی حاصل کرکے خوشی میں ہوتا ہے اُس وقت اُس کو ’’نفسِ مُطمئنّہ‘‘ کہتے ہیں اورجب اس پر ہدایت غیبی کے انوار الہٰی فیضان سے نازل ہوتے ہیں یا اُس پر چکمتےہیں تب اُس کا نام ’’نفس ملہمہ ‘‘ہوتا ہے اور لطافت کے لحاظ سے ہر کوئی اُسے رُوح کہتا ہے۔ پس چیز ایک ہی ہے نام چھ ہیں۔
یہ حقیقت انسان یعنی رُوح جس میں یہ چھ کیفیتیں ہیں اورجس کے سبب سے انسان ارضی مخلوقات میں اشرف نظر آتا ہے ۔تمیزی ادراک کہتا ہے کہ وہ حیوانی جان کے اوپر کوئی شے ہے لیکن اُس کی ماہیت کہ وہ کیا ہے؟عقل انسانی سے پوری پوری دریافت نہیں ہوسکتی ہے۔ مگر بائبل شریف نے اس بارے میں ہماری تسلی کردی ہے یہ دِکھا کے کہ یہ ’’نفس ناطقہ‘‘ یا ’’رُو ح ‘‘عالم بالا کا ایک شخص ہے اورمخلوق ہے جسے خُدا نے پیدا کیا اورانسان کے بدن میں اُسکی جان کے اوپر رکھا ہے۔ اُسی کانام کلام اللہ میں ’’زندگی کا دم‘‘ ہے جو خُدا نے آدم میں پھونکا یعنی پیدا کیا گیا تھا۔ پس ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ یہ نفس ناطقہ جو انسان میں ہے مثل ِنمو اورحیات کے ترکیب عناصر کا حاصل نہیں ہے بلکہ عالم علوی کا ایک جو ہر بڑا شریف اوربیش قیمت ہے۔
دفعہ ۱۴
جان اوررُوح کا بیان
لفظ’’ رُوح ‘‘کے معنی ہیں’’ ہوا‘‘ لیکن نہ وہ ’’ہوا ‘‘جو ہمارے چاروں طرف بہتی ہے کیونکہ آدمی کی رُوح میں کچھ کیفیت ہے جو عام ہوا میں نہیں ہے تو بھی اس عام ہوا کے ساتھ اُس کی رُوح کا کچھ علاقہ ہے ۔لطاؔفت اورسکونت کے لحاظ سے چنانچہ اگر کسی مکان میں خلا کردیا جائے اورہوا کھینچ لی جائے تو وہاں کوئی جانور اورانسان جی نہیں سکتا، فوراً جان نکل جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نہیں ہوسکتا کہ رُوح انسانی محض’’ ہوا‘‘ ہے بلکہ یہ بات ہے کہ گویا رُوح ’’ہوا‘‘ پرسوار ہے اور’’ہوا ‘‘اس کا مسکن ساہے جب ’’ہوا‘‘ پہنچے گی تو رُوح کے لئے مسکن نہ رہا اس لئے وہ غائب ہوجاتی ہے اورکہیں چلی جاتی ہے ہوا میں رَل مِل بھی نہیں جاتی۔
لفظ’’ رُوح ‘‘کے اصطلاحی معنوں میں اوراس کی ماہیت کے بیان میں اہل علم میں آج تک بہت سا اختلاف کیا ہے اور ان لوگوں کا سارا بیان پڑھنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ رُوح کی ماہیت آدمیوں کو اب تک معلوم نہیں ہوئی ہے۔ ہاں یہ بات تو خوب معلوم ہے کہ انسان میں مثل سب حیوانات کے ایک حرارت ہے جس کو یہ حکیم ’’حرارت غریزی ‘‘کہتے ہیں۔’’ غریزہ‘‘ نام ہے ’’سرشت یا طبیعت ‘‘ کا اورسرشتی حرارت جو عناصر کی آمیزش سے پیدا ہوتی ہے وہی ’’حرارت غریزی یا سرشتی‘‘ ہے۔
یہ حرارت قلب میں کہ گوشت کے ٹکرا سے پیدا ہوتی ہے اورنسوں کے وسیلہ سے سارے بدن میں پھلتی ہے۔ اسی کو طبیب لوگ ’’رُوح حیوانی‘‘ کہتے ہیں اوربیماری کی حالت میں اسی کے سنبھالنے کی کوشش ہوتی ہے کیونکہ ہر جاندار کی زندگی اُسی پر موقوف ہے اوراُس کا نام جان ہے جس کے سبب سے سب حیوان ’’جانور‘‘ یعنی’’ جان والے ‘‘کہلاتے ہیں۔ لیکن یہ جسمانی ہے اور جسم کے ساتھ فنا ہوجاتی ہے ۔اُس کو کوئی حکیم’’ ہوائی جسم ‘‘کہتا ہے اورکوئی’’ آتشی‘‘ اورکوئی’’ آبی‘‘ بتاتا ہے اوریہاں تک انسان میں اورسب حیوانات میں مساوات رہتی ہے ۔اورجب کہا جاتا ہے کہ انسان میں دو چیزیں ہیں یعنی رُوح اورجسؔم تو جسم کی غایت اُس کے اعضا ئے کثیفہ سے لے کے اُس کی ایسی جان تک مراد ہوتی ہے یعنی جسم کی حد میں یہ جان بھی آجاتی ہے اور رُوح سے مراد وہ چیز ہوتی ہے جو حد جسمانی سے باہر ہے۔
خُداوند یسوع مسیح کی نسبت اتھناسیس کے عقائد نامہ میں لکھا ہے (فقرہ۳۷) کا مل خداکامل انسان نفس ناطقہ اورانسانی جسم کی ترکیب میں موجود۔ یہا ں لفظ جسم میں یہ حیوانی جان بھی شامل ہے۔
اس جان میں بھی کسی قدر شعور معیشت کی روشنی خالق سے ڈالی ہوئی نظر آتی ہے لیکن وہ شعور ہے نہ عقل۔ جانور اس شعور محدود کے وسیلہ سے دنیا میں گزارہ کرتے ہیں اورمعمولی طریقہ میں اُس سے کام لیتے ہیں۔ نہ اُس میں ترقی کرسکتے ہیں نہ اسے اشکال ِ متنوعہ میں استعمال کرسکتے ہیں۔ پس وہ ایک خاص حد میں رہتے ہیں۔
آدمی میں اس جان کے اوپر کوئی اورچیز ہے اوروہ صرف انسان ہی میں پائی جاتی ہے اوروہی فصل ہے جو کہ انسان کو حیوان مطلق میں سے نکالتی ہے۔ جمادات میں سے نکالنے کے لئے نموفصل تھا اورنباتا ت میں سے نکالنے کے لئے یہ جان فصل ہوئی تھی۔ اب حیوانات میں سے نکالنے کے لئے یہ چیز فصل ہے جس کو ’’نفس ناطقہ ‘‘کہتے ہیں۔
یہ رُوح کیا چیز ہے ؟کوئی کہتا ہے کہ وہ ایک نور ہے اُس میں تعقل اورادراک ہے اورحرکت وارادہ کی استعداد ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ وہ کوئی شے قدیم ہے لیکن ایسا بولنے والا کچھ ثبوت نہیں دے سکتا ۔کوئی کہتا ہے کہ وہ حادؔث (نئی چیز جو پہلے نہ ہو۔فانی)ہے لیکن غیر فانی ہے خالق نے اُسے ابد تک زندہ رکھنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ اُس کے لئے ابتدا تو ہے لیکن انتہا نہیں ہے۔ ایسا بندوبست خالق نے اس کے لئے کیا ہے۔ ہمارا بھی رُوح کی نسبت ایسا ہی یقین ہے اور یہی خیال سب پیغمبروں کا تھا اورثبوت اس خیال کا اسی رُوح کی صفتوں میں سے نکلتا ہے۔ بعض اہل فکر نے کہا ہے کہ یہ رُوح عالم تجرد کا ایک شخصؔ ہےجو خاکی بدن میں رہتا ہے جیسے جسمانی اعضابدن میں ہیں ویسے ہی رُوح میں بھی اعضا ہیں۔ لیکن یہ خیال صوفیہ کا ہے اوراُس کا ثبوت کچھ نہیں ہے۔ کلام اللہ میں اس رُوح کو ’’باطنی انسان‘‘ کہا گیا ہے ۔’’۔۔۔گوہماری ظاہر ی انسانیت زائل ہوتی جاتی ہے پھر بھی ہماری باطنی انسانیت روز بروز نئی ہوتی جاتی ہے‘‘(۲۔کرنتھیوں۱۶:۴)۔ ’’کیونکہ باطنی انسانیت کی رُو سےتو مَیں خُدا کی شریعت کو بہت پسندکرتاہوں‘‘(رومیوں۲۲:۷) ۔ اِسی باطنی انسانیت کے ذمہ افعال کی جو ابدہی ہے۔ سارے پیغمبر اس بات پر زور لگا رہے ہیں کہ یہ باطنی انسان ابدی دکھوں سے بچایا جائے ۔اسی کی اصلاح کے لئے مسیح خُداوند مجسم ہوکے دنیا میں آیا اورمصلوب ہوا، مرگیا ،دفن ہوا ،تیسرے دن جی اُٹھا اوراپنی اس بیش قیمت موت اورحیات کی تاثیروں سے وہ ہمارے اس باطنی انسان کو نیا بناتا ہے (افسیوں ۵:۲؛۲۴:۴) اوریہی باطنی انسان ہے جو خُدا کی قربت اوررفاقت حاصل کرتا ہے اوریہ ہر انسان کی جان یا رُوح حیوانی پر سوار سا ہے لیکن اس کا جلال دماغ میں زیادہ ظاہر ہے۔
دفعہ ۱۵
رُوح اورجان کی زیادہ توضیح
ایک فارسی شاعر نے یوں کہا ہے اوربہت خوب کہا ہے اُس پر خوب غور کیجئے۔
آدمی زادہ طرفہ معجونی ست گر کند میل اینؔ شووبد زیں |
از فرشتہؔ سر شتہ وز حَیوَانؔ درکند میل اَن شود بہ زاں |
اس جگہ لفظ ’’فرشتہ‘‘ سے مراد ’’فرستہ ‘‘یعنی ’’فرستادہ ‘‘ہے جو خُدا سے بھیجا گیا یا پیدا ہوا ہے یعنی رُوح جسے خُدا نے انسان میں پھونکا کہ اس خاکی بدن میں کچھ عرصہ تک رہے اورکچھ خاص کام کرے۔ لفظ’’ سرشتہ‘‘ جو’’ سرشتن‘‘ مصدر سے ہے اس میل ملاپ کا بیاں کرتا ہےجو اُس فرشتہ کو رُوح حیوانی سے ہوا ہے ۔گویا اُس کے ساتھ گوند ھاگیاہےاورا س ترکیب سے جو پیدا ہوا ہے وہی آدمی زادہ ہے۔ اُس میں دومیلان صاف نظر آتے ہیں جن میں سخت مخالفت ہے ۔جسم کی خواہش رُوح کے مخالف ہے اوررُوح کی خواہش جسم کے مخالف ہے(گلیتوں ۱۷:۵) اوراس مرکب شخص کا اپنا اختیار ہے ۔جدھر چاہے زیادہ متوجہ ہو وہ کسی تقدیر کا مجبور نہیں ہے۔ اگر وہ حیوانیت کی طرف مائل ہوتا ہے جیسے کہ سب نفس پرور اورعیاش اوردنیا کے مغلوب لوگ ہیں توحیوان سے زیادہ ذلیل اورخوار ہے کیونکہ حیوان سے زیادہ عزت دار چیز اُس میں تھی یعنی رُوح اور اگر وہ فرشتہ کی طرف مائل ہوتا ہے یعنی رُوحانی خواہشوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو دیگر آسمانی فرشتوں سے زیادہ رتبہ پاتا ہےکیونکہ اُس نے وہ بہادری کی جو اور فرشتوں نےنہیں کی ہے۔ اُن میں کچھ حیوانیت نہ تھی ،اس میں تھی پھر بھی یہ غالب آیا اوربہادر نکلا۔ اب ناظرین سوچیں کہ یہ بیان سچ ہے یا نہیں؟ اگر سچ ہے تو فکر کرو کہ آپ لوگ کیسے ہیں؟ آپ کے مزاج شریف کس طرف مائل ہیں؟ آپ حیوان سے بدتر ہیں یافرشتوں سے اچھے ہیں مرنے سے پہلے ابھی فیصلہ کرلیجئے۔
یادرہے کہ مقربان(مقرب کی جمع۔دوست،ہمراز) درگاہ الہٰی کی بھی شناخت ہے کہ اُن کی سفلیت (پستی)پر اُن کی علویت(بلندی) غالب آتی ہے اوربُرے آدمی اسی لئے بُر ے ہیں کہ وہ سفلیت کے مغلوب ہیں عُلویت کی طرف متوجہ نہیں ہوتے بلکہ ایسے خیالوں کو ٹھٹھہ میں اڑاتے ہیں۔
سفلیت اُس وقت غالب آتی ہے جب آدمی اپنی روحانی قوتوں اورخواہشوں کا کام چھوڑ دیتا ہے اورسفلی قوتوں اور خواہشوں کو کام میں لاتا ہے۔ اگر کوئی چاہے کہ میں اپنی سفلیت پر غالب آؤں تو چاہئے کہ وہ اپنی ساری طاقت سے اس بارے میں ساعی(کوشش) ہو اورخُدا سے مدد مانگے وہ اُسے طاقت بخثے گا۔