دفعہ ۲۹

انسانی رُوح جب گناہ میں ہے ،مردہ ہے ،مسیح اُسے جلاتا ہے

ایسا ’’مردہ‘‘ نہیں کہ بے حس وحرکت مثل لاش کے ہومگر موت کے سایہ میں ہے اورموت کا زہر اُسے چڑھا ہوا ہے۔ اسی لئے خُدا کے کلام میں بے ایمانوں اوربدکرداروں کو’’ مردہ ‘‘کہاگیا ہے ۔’’یسوع نے اس سے کہا تو میرے پیچھے چل اور مردوں کو اپنے مردے دفن کرنے دے‘‘(متی۲۲:۸) ، ’’اوراُس نے تمہیں بھی زندہ کیا جب اپنے قصوروں اورگناہوں کے سبب سے مردہ تھے‘‘(افسیوں۱:۲)،’’جب قصوروں کے سبب سے مردہ ہی تھے توہم کو مسیح کے ساتھ زندہ کیا‘‘(آیت ۵)،’’ ۔۔۔اے سونے والےجاگ اورمردوں میں سےجی اُٹھ ‘‘(افسیوں۱۴:۵)، ’’۔۔۔گناہ کے سبب سےموت آئی اوریوں موت سب  آدمیوں میں پھیل گئی اس لئے کہ سب نے گناہ کیا‘‘(رومیوں۱۲:۵)،’’ جسمانی نیت موت ہے‘‘(رومیوں۶:۸)۔

یہ مردہ روحیں جب تک کہ آدمیوں کے بدنوں میں ہیں اُن کا علاج ہوسکتا ہے کہ موت ان میں سے نکل جائے اورزندگی آجائے اورپھر وہ ابدتک زندہ رہیں ۔لیکن یہ کام صرف یسوع مسیح سے اوراُس کی رُوح سے ہوتا ہے اوریہی بات مسیحی دین کی بڑی فضیلت ہے۔ دنیا میں اَورکوئی تدبیر دفع موت کے لئے نہیں ہے مگر صرف یسوع مسیح کا نام ہےجس سے لاکھوں کروڑوں آدمیوں کی روحوں میں سے موت نکل گئی ہے اورزندگی آگئی ہے۔

جب سچے مسیحی بنتے ہیں تب گناہ دل میں سے نکلتا ہے اورموت رُوح میں سےنکلتی ہے۔ اندھیرا دفع ہوتا ہے اورگناہ کا وبال مسیحی کفارہ سے جاتا رہتا ہے اورجب فرمابنردار ہوکے مسیح کے پیچھے ہولیتے ہیں تب اُس کے نور سے منور ہوتے ہیں اورمسیح کی رُوح سے ہماری روحوں میں زندگی آجاتی ہے۔ تب ہم خُدا کی عبادت رُوح اورراستی سے کرتے ہیں (یوحنا۲۴:۴) ۔

توبھی جب تک دنیا میں ہیں جسم فانی میں اور جنگ روحانی میں پھنسی ہیں۔ لیکن دلوں  اورخیالوں میں روشنی اورآنند ہے ۔آئندہ کو فرشتوں کی مانند ہونگے (لوقا ۳۶:۲۰)۔ بقا اورجلال اورقدرت اورروحانی جسم خُدا سے پائیں گے۔ فنا اورحقارت ناتوانی اورنفسانیت جاتی رہے گی (۱۔ کرنتھیوں ۴۲:۱۵۔۴۴) ،بلکہ ہم مسیح کی مانند ہونگے (۱۔ یوحنا۲:۳) ،خداکے بیٹے کے ہمشکل ہونگے (رومیوں۲۹:۸)، آسمانی صورت پائیں گے (ا۔کرنتھیوں۴۹:۱۵)، ہمارے خاکی بدن بھی اُس کے جلالی جسم کی مانند ہونگے (فلپیوں۲۱:۳) اورہم جلال میں ظاہر ہونگے (کلسیوں ۳۔۴)۔

ان باتوں کا یقین ہمیں اِس لئے ہے کہ ہم نے مسیح سے اپنی روحوں میں اس وقت بطور بیعانہ کے کچھ پایا ہے۔اورکہ ہم مسیح کو پہچان گئے کہ وہ کون ہے؟ اورکہ اُس کی قو ت سے بھی آگاہ ہوگئے ہیں اوراُس کا کلام حق ثابت ہوچکا ہے اور جب کہ یہ سب باتیں امور واقعی ہیں تو ثابت ہے کہ ہماری رُوحوں کی اصلیت ملکی ہے کہ ہم اپنی تکمیل فرشتوں کی مانند ہونے میں دیکھتے ہیں۔

دفعہ ۳۰

آدمیوں کی روحوں پر کچھ اندھیرا سا ہے جس کے چار مخزن ہیں

نہ سب آدمیوں کی روحوں پر مگراکثروں کی روحوں پر۔ہاں وہ جو اَب منور نظر آتے ہیں پہلے اُن کی روحوں پر بھی اندھیرا تھا۔اُن کو مسیح نے اب روشن کیا ہے۔اِس میں کچھ شک نہیں کہ بہت سی روحوں میں اندھیرا ہے۔لیکن یہ اندھیرا کہاں سے آگیا ہے؟یہ قابلِ غور بات ہے۔

اولاً یہ دیکھتے ہیں کہ آدمی کے اندر سے اندھیرا نکلتا ہے۔جب آدمی اپنی خواہشوں اور بد منصوبوں اور خود غرضیوں وغیرہ کا مغلوب ہو کے برے کام کرتا ہے تو یہ اندھیرا اُسی کے اندر سے نکلتا ہے۔’’۔۔۔کیونکہ انہوں نے اپنے غضب میں ایک مرد کو قتل کیا۔اور اپنی خود رائی سے بیلوں کی کونچیں کاٹیں‘‘(پیدائش۶:۴۹)۔’’۔۔۔اوراپنی جان سے کہوں گا اے جان! تیرے پاس بہت برسوں کے لئے بہت سا مال جمع ہے۔چین کر اورکھاپی۔خوش رِہ‘‘(لوقا۱۹:۱۲)۔دیکھو یہ سب اندھیرے کی باتیں ہیں اور انسان کے اندر سے نکلتی ہیں۔

ثانیاً خارج میں بہکانے والے بھی ہیں۔شریر دوست ،بدکار ہم نشین اور بد نمونے جو دنیا میں نظر آتے ہیں اندھیرے کا باعث ہیں۔

ثالثاً ایک اور پوشیدہ بدروح ہے جو انسان کی دشمن ہے جس نے حوّا کو بہکایا تھا(پیدائش۱۳:۳)اور یہی بد روح انسان پر غالب آکے دنیا میں ایسی مسلط ہو گئی ہے کہ مسیح نے اُسے اس ’’جہان کا سردار‘‘ اور پولس رسول نے اُسے اس ’’جہان کا خدا ‘‘کہا ہے۔کیونکہ وہ بد ارادے لوگوں کے دلوں میں پیدا کرتا ہے اور بہتوں سے اپنی پرستش کراتا ہے۔ اُس کا نام شیطان ہے۔اُس نے بہت سا اندھیرا لوگوں کی روحوں میں ڈال رکھا ہے۔انجیل شریف میں لکھا ہے’’یعنی ان بے ایمانوں کے واسطے جن کی عقلوں کو اس جہان کے خدا نے اندھا کر دیا ہےتاکہ مسیح جو خدا کی صورت ہے اُس کے جلال کی خوشخبری کی روشنی اُن پر نہ پڑے‘‘(۲۔کرنتھیوں۴:۴)۔وہ لالچ دیتا ہے اور باطن میں تاثیر کرتا ہے(متی۸:۴)۔

رابعاً جب آدمی گناہ پر گناہ کرتا چلا جاتا ہے اورخُدا کی ہدایتوں کے تابع نہیں ہوتا ہے تب ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ خُدا اُس آدمی کو چھوڑ دیتا ہے ۔ مہربانی اورفضل کو اس کی طرف سے ہٹالیتا ہے۔ تب اُس آدمی کے دل پر بڑا اندھیر اسا آجاتا ہے اوروہ سنگدل ہوجاتا ہے ۔یہاں تک کہ ہلا ک ہوجائے۔فرعون اورحسبون کا حال ایسا ہی ہوا اورہر زمانہ میں گردن کش شریر جو خُدا کی طرف آنا نہیں چاہتے اورہمیشہ ہدایت الہٰی کی تحقیر کرتے اوربجائے الہٰی ہدایتوں کے اپنے دل سے خیال نکالتے ہیں اورجھوٹی راہوں کے حمایتی ہورہتے ہیں ۔اسی طرح خُدا سے چھوڑے جاتے ہیں اورفرعون بے سامان ہوکے مرتے ہیں۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے کئی ایک ہمارے دوست خُدا سے چھوڑے گئے ۔اُن کی طرف سے روشنی ہٹ گئی اوروہ سخت تاریکی میں پھنس کے ہلاک ہوگئے۔ اس لئے مناسب اورفرض ہے کہ ہم ان اندھیرے کے چار مخرجوں سے خبردار ہیں۔

دفعہ۳۱

خُد اتعالیٰ ہمارا نشانہ ہے

یعنی وہ چیز جس کی طرف آدمیوں کو ہمیشہ تاکنا چاہئے کہ اُس کی مشابہت ہوکے اپنے کمال کو پہنچیں خُدا تعالیٰ ہے اور اس سے ہماری روحوں کی شان ظاہر ہوتی ہے کہ وہ کس رتبہ کی ہیں؟ اگرچہ خُداتعالیٰ کے کام دنیا میں کچھ نظر آتے ہیں مگر اُس کی ذات پاک غیر مرے یا نادیدنی ہے۔ یسوع مسیح خُدا کی صورت ہے ۔وہ نادیدہ خُدا کو اپنی ذات میں دکھاتا ہے اور یوں ہدایت کرتا ہے کہ’’ تم کامل ہو جیسا تمہاراآسمانی باپ  کامل ہے ‘‘(متی ۵: ۴۸ )۔ آدمی اس  سے کامل ہوتا ہے کہ خُدا کی صفتوں کا مظہربنے۔اس طرح سے کہ خُدا کی طرف بدل وجان متوجہ ہو اوراپنےمزاج کو اُس کے مزاج کے مشابہہ کرنے میں کوشش کرے ۔خُدا نیک، پاک ، حلیم، صابر ،بردبار ،غیو ر ،رحیم ،منصف اور عادل وغیرہ صفتوں کے ساتھ موصوف ہے اوریہ سب صفتیں کامل طورپر اس میں ہیں اوریہی صفات ہیں جن سے آدمی لائق ہوتا ہے۔ اگر یہ صفتیں انسان میں نہ ہوں تو وہ آدمی بڑا نالائق اورنفرتی ہوتا ہے۔ اس بیان سے سمجھ لو کہ ہماری روحوں میں اورخُدا میں کیا علاقہ ہے؟ لیکن اس بات کا  لطف انسان پر اُس وقت کھلتا ہے کہ وہ گناہ کے نشے سے ہوش میں آتا ہے۔ تب کہتا ہے کہ میں اپنے باپ پاس جاؤں گا (لوقا۱۸،۱۷:۱۵) ۔کلام اللہ میں خُدا تعالیٰ کی نسبت تین خاص باتوں کا ذکر ہے۔

اوّل خُدا رُوح ہے (یوحنا ۲۴:۴) ۔

دوم خدا نور ہے اور اُس میں تاریکی ذرہ بھر بھی نہیں(ا۔یوحنا۵:۱)۔

سومؔ خُد امحبت ہے (ا۔یوحنا۱۶:۴) ۔

اورانسان کے اعلیٰ فرائض بھی یہی تین ہیں کہ آدمی اپنی رُوح سے خُدا کے سامنے جھکے اورالہٰی نور کی روشنی میں چلے پھر ے اوریہ کہ خُدا کی محبت اوربرادرانہ محبت کے احاطہ میں ہروقت رہے ۔اس کا حاصل یہ ہے کہ وہ جو خُدا تعالیٰ کی خاص خوبی ہے اُسی میں قائم رہنا انسان کی خوبی ہے۔

ایک قسم کے آدمی ہیں جن کو کلام خدا میں ’’خدا‘‘کہاگیا ہے مجازاً دیکھو۔ ’’میں نے کہا تھاکہ تم خُدا(الٰہ) ہو‘‘ (زبور ۸۳: ۶)۔یوحنا۱۰: ۳۴۔۳۵میں لکھا ہے کہ’’۔۔۔۔مَیں نے کہا کہ تم خدا ہو؟ جب کہ  اُس نے اُنہیں خدا کہا جن کے پاس خُدا کا کلام آیا ‘‘۔ یہ وہی کلام ہے جس کا ذکر (یوحنا ۱:۱) میں ہے کہ ’’ابتدا میں کلام تھا اورکلام خُدا کے ساتھ تھا اورکلام خُدا تھا‘‘۔ یہ یسوع مسیح کی نسبت لکھا ہے جو مجسم  ہوکے ظاہر ہے۔وہ اندیکھے خُدا کی صورت ہے۔ جب وہ آدمی کے دل میں آتا ہے توآدمی کو خُدا کی صورت میں اور الہٰی طبیعت اور مزاج میں لاتا ہے اورآدمی اتنا بڑا خطاب پاتے ہیں ۔بائبل کی عبارت کو جو’’ کلام اللہ ‘‘کہاگیا ہےاس لئے کہا گیا ہے کہ وہ اُس کا کلام ہے (یوحنا۲۳:۱۴) اوریہ زندگی کاکلام ہے جو اُسی سے آتا ہے اورجب یہ عبارتی کلام دل میں آتا ہے ،تو وہ آتا ہے ،جس کا وہ کلام ہے ۔آدمی جو پیدا ہوتا ہے روحانی  نہیں بلکہ جسمانی پیدا ہوتا ہے۔ پھر ایک خاص وقت بعض آدمیوں پر ایسا آتا ہے کہ وہ جسمانی سے روحانی ہوجاتے ہیں جبکہ تولید جدید اُن کی رُوحوں میں ہوتی ہے (۱۔ کرنتھیوں۴۶،۴۵:۱۵) اورجب یہ ہوتا ہے  تو  انسان کی رُوح موت سے گزر کے زندگی میں آجاتی ہے (ا۔یوحنا۱۴:۳) ۔

دفعہ۳۲

نیند اورغنودگی کے بیان میں

نیند ایک حالت ہے ہر ایک حیوان کو عارض ہوتی ہے۔ اُس میں یہ سب حو اس کچھ معطل سے ہوجاتے ہیں اورغیر ضروری حرکات چھوڑ دیتے ہیں صرف ضروری حرکتیں مثلاً سانس لینا وغیرہ قائم رہتے ہیں ۔کیونکہ تھکان کے سبب سے لطیف ابخر ے (بُخار کی جمع ۔بخارات،بھاپ)دماغ میں گھس جاتے ہیں اورحیوانی رُوح کو ایسا غلیظ کرتے ہیں کہ وہ پٹھوں میں نہیں بہتی۔ جب تک کہ نیند کا وقت پورا نہ ہوجائے یاوہ آدمی صدمات سخت سے جگایا نہ جائے۔ نیند صحت کے لئے مفید ہے اگر اپنی حد میں ہو اُس سےحیوان تروتازہ ہوکے پھر اُٹھتا  ہے۔

’’غنود گی ‘‘یا     ’’نوم متململ‘‘     ایک اورحالت ہے جو نیند اوربیداری کے درمیان ہوتی ہے جس میں حیوان کچھ سوتا ہے کچھ جاگتا ہے۔ نیند کو تشبیہً موت کی چھوٹی بہن سمجھنا چاہئے۔ بڑی بہن موت ہے جس میں تمام کا رخانہ اُلٹ پُلٹ ہوجاتا ہے۔ روز روز سونا اورپھر جاگنا مرکے جی اُٹھنے کا ایک نمونہ سا ہے۔