دفعہ ۲۰

دماغ، جگر، گُردوں اورانتڑیوں کا بیان

دماغ یہ لفظ تین معنوں میں آتا ہے کبھی سر کے اندر کے پردوں کی چربی اورگودے کو دماغ کہتے ہیں اوروہاں کچھ حس نہیں ہے۔ کبھی تمام کھوپڑی کو دماغ کہتے ہیں اورچو نکہ وہاں پٹھے بھی ہیں اس لئے وہاں حِس بھی ہے۔ کبھی سارے سر کو دماغ کہتے ہیں۔ لیکن جب کہا جاتا ہے کہ فُلاں بڑے دماغ کا آدمی ہےتب اُس کی عقل کی گہرائی اوربڑی رسائی پراشارہ ہوتا ہےاورکبھی اُس کے غرور پر اورکبھی اس کی حماقت پر بھی اسی لفظ سے اشارہ کرتے ہیں۔

حکیم کہتے ہیں کہ ’’دماغ وہ عضو رئیس ہے جو کھو پڑی میں ہے اوراُس کی شکل مثلث مخروطی ہے ۔وہی رُوح کا محل ہے جہا ں وہ رہتی ہے۔ کان اورآنکھیں زبان اورناک جو پیشی کے خادم ہیں اُس کےبہت ہی نزدیک ہیں صرف ایک قوت لامسہ بطور جاسوسی کے سارے بدن میں چھوڑی ہوئی ہے۔ دیکھو اللہ کی شان‘‘۔

جگر یعنی’’ کبد‘‘ دہنے پہلو میں ایک عضو ہے اوروہ بھی عضو رئیس ہے۔ دل ،دماغ اورجگر یہی تین عضو رئیس کہلاتے ہیں۔ ان کی بہت حفاظت چاہئے کیونکہ جب ان میں سے کسی میں خلل آیا تو پھر آدمی کی زندگی نہیں ہے۔ جسمانی دلاوری جگر کی قوت پرمنحصر سمجھتے ہیں۔ جب کہتے ہیں کہ وہ بڑے جگرے کا آدمی ہے تب اس کی دلاوری پر اشارہ ہوتا ہے۔

گُردے وہی دوگولے سے ہیں جوجانوروں میں دیکھتے ہو۔ عربی میں واحد کو’’ کلیہ‘‘ یا ’’کلوہ‘‘ کہتے ہیں اوردونوں کو کلیتیں کہا کرتے ہیں۔(زبور۹:۷) میں ہے کہ خدائے صادق دلوں اور گردوں کو جانچتا ہے۔

انتڑیاں جنہیں عربی میں’’ معا‘‘کہتے ہیں جس کی جمع’’ امعا‘‘ ہے ۔انسان کے پیٹ میں چھ انٹریاں بتاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ گہرا غم اوربڑی خوشی انتڑیوں تک محسوس ہوتی ہے ۔(نوحہ ۲۰:۱)میں بیان ہے کہ میری انتڑیاں اُبلتی ہیں۔ اُس زمانہ کے لوگ ایسا سمجھتے تھے کہ دل کی پوشیدہ باتیں گردوں میں چھپی رہتی ہیں اور گہرا غم اور گہری خوشی دل سےآگے بڑھا کے انتڑیوں تک موثر ہے۔ پس یہ اگلے زمانہ کا محاور ہ تھا اوراسی محاورہ پر کلام اللہ میں کہاگیا ہے کہ خُدا دل اورگُردوں کا جاننے والا ہے اورکہ غم سے میری انتڑیاں کلپتی ہیں۔ اورکبھی کبھی محاورہ میں کہا جاتا ہے کہ انتڑیاں اسیسں دیتی ہیں۔

دفعہ ۲۱

غم کے بیان میں

غم ایک کیفیت ہےناپسندیدہ جو انسان کے دل پر طاری ہوتی ہے ۔جس سے دل سُست اورچہرہ افسردہ ہوجاتا ہے اورزیادہ غم سے جسمانی قوت میں ضعف آجاتا ہے (امثال۲۵:۱۲)۔ انسان کے دل کا غم اُسے جھکا دیتا ہے اورشکستہ خاطر کرتا ہے (امثال۱۳:۱۵) ۔

دل کے کمزور آدمی غم کی برداشت نہ کرکے کڑکڑاتے اور واویلا کرتے اورکبھی کبھی حدِاعتدال سے باہر ہوجاتے ہیں لیکن بردبار اشخاص جو صابر اورجفاکش ہیں برداشت کرکے اعتدال میں رہتے ہیں۔ غم کھانے کا ایک وقت ہے (واعظ۴:۳)۔ سب جانتے ہیں کہ انسان کو غم کبھی کبھی ہوتا ہے ہمیشہ نہیں رہتا۔ اگر کوئی آدمی اپنی زندگی کے گذشتہ وقت پر فکر کرے اورسوچے کہ کس قدر وقت غم اوردُکھ میں کٹا اورکتنا وقت آرام میں گزرا تو اُسے معلوم ہوجائیگا کہ خوشی وآرام کےلئے بہت وقت تھا اورغم کے لئے بہت ہی تھوڑا وقت تھا۔ لیکن نادانی سے یا مبالغہ سے بعض آدمی کہا کرتے ہیں کہ میری تو ساری عمر غم میں گزری ہے یہ ناشکر ی کی بات ہے اوردرست نہیں ہے۔

غم جو کبھی کبھی دلوں میں آجاتا ہے اچھا نمونہ ہے ۔اُس آئندہ دکھ کی حالت کا جو گناہوں کے وبال کے سبب سے بے ایمانوں اوربدکاروں کا حصہ ہوگا جسے آدمیوں نے ابھی نہیں دیکھا چاہئے کہ ہم سب ان دنیاوی غموں کی تلخی کوچکھ کے ہوشیار ہوجائیں اوروہ کام نہ کریں جن کے سبب سے آئندہ ابدی غموں کے سزاوار ہوتے ہیں۔

لوگ ہنسی خوشی کو بہت پسند کرتے ہیں اوراپنی زندگی کا وقت خوشی میں بسر کرنا چاہتے ہیں بلکہ بعضوں کے تو ہروقت دانت پسرے ہی رہتے  ہیں۔ قہقے مار مار کر ہنستے اور ایسی ایسی باتیں دل سے نکالتے ہیں جن سے آپ ہی ہنسیں اوردوسروں کو بھی ہنسائیں۔ لیکن کلام اللہ میں لکھا ہے ۔’’ غمگینی ہنسی سے بہتر ہے‘‘(واعظ۳:۷)۔ بہت ہنسی سے آدمی کا دل مردہ سا ہوجاتا ہے اورغم دل کو سدھا رتا ہے خُداوند مسیح نے فرمایا ہے  کہ غمگین لوگ مبارک ہیں(متی ۴:۵)۔ پس غم نشان برکت ہے۔غم دو قسم کا ہوتا ہے  ۔

اول دنیا کا غم ہے کہ دنیاوی چیزوں کے لئے اہل دنیا کے دلوں میں موثر ہوتا ہے اوریہ بہت ہے۔ چاروں طرف اہل دنیا اسی غم میں مبتلا ہیں۔ کبھی کبھی یہ دنیا وی غم بھی آدمیوں کو خُدا کی طرف کھینچ لاتا ہے لیکن اکثر یہ غم ہلاکت کا باعث ہوتا ہے۔

دوسرا الہٰی غم ہے جو اپنے اوردوسروں کے گناہوں کی یادگاری سے دلوں میں آتا ہے اورتوبہ کی برکت دل میں پیدا کرتا ہے یہی غم مبارک ہے (۲۔کرنتھیوں۱۰:۷)۔غم کی پھر اورطرح پر دو قسمیں ہیں ’’بیوقوفی کا غم‘‘ اور’’دانشمندی کا غم‘‘۔

 بیوقوفی کا وہ غم ہے جو قاضی صاحب کو تھا کسی نے پوچھا قاضی جی آپ دُبلے کیوں ہوگئے ہیں؟ فرمایا کہ شہر کے غم نے مجھے دُبلا کردیا ہے۔ جو باتیں الہٰی انتظام کے واقعات سے دنیا میں ہوتی ہیں اوریوں ہی ہوا کریں گی جب تک کہ آخرت آئے۔ پس اُن کے لئے بے حد واویلاسے کیا فائدہ ہے مثلاً زوال دولت کا غم یا موت احباب  کا غم یابعض رشتہ داروں اوردوستوں کی طرف سے بے مروتی اوربے انصافی اورجفاودغا دیکھنے کا غم وغیرہ ۔بہت باتیں ایسی ہیں جن سے دل پر چوٹ لگتی ہےلیکن ایسی چوٹوں کے نیچے دانت پسار کے گرجانا بیوقوفی ہے کچھ عقل کو بھی کام میں لانا چاہئے۔

دانشمندی کا وہ غم ہے جس کا ذکر (واعظ ۴:۷) میں ہے کہ ’’دانا کا دل ماتم کے گھر میں ہے اوراحمق کا دل عشرت خانہ سے لگا ہے‘‘۔ دانشمند آدمی ہر وقت ہرامر میں انجام بخیر کے لئے دور اندیش اورفکر مند رہتا ہے اوریہ دور اندیشی وفکرمندی اس کے دل کے لئے گویا ایک ماتم خانہ سا ہوتا ہے اوریہ ماتم خانہ اچھا ہے۔ بیوقوف آدمی نادان بچوں کی مانند کچھ دور اندیش نہیں ہے ۔ادنیٰ فانی چیزوں کو پاکے خوش ہوتا اور اُن کے زوال سے بچوں کی طرح چِلا چِلا کر روتا ہے۔ پس اِس (بیوقوف آدمی)کی خوشی اوراس کا غم بیوقوفی کے ساتھ ہے اوراُس (دانش مند آدمی)کی خوشی اورغم دانشمندی کے ساتھ ہے اورکامیاب بھی وہی ہوگا۔

بعض غم اوردکھ انسان کی صحت روحانی کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے جو حقیقی مدبر اورپیار اباپ ہے آیا کرتے ہیں۔ وہ انسان کے حق میں بمنزلہ دوا کے ہوتے ہیں اُن کی تحقیر نہ چاہئے۔ ہر ایک غم اوردکھ جو انسان پر آتا ہے اگر وہ اُس سے کچھ نصیحت حاصل نہ کرے تو وہ غم فی الحقیقت غم ہے اورجو وہ اُس سے کچھ اصلاح پذیر ہو تو وہ نہ صرف غم ہے بلکہ برکت ہے۔

غم اگرچہ تلخ چیز ہے مگر اُس میں کچھ مزہ بھی ہے۔ ایک شاعر کہتا ہے ’’غم کھاتا ہوں لیکن میری نیت نہیں بھرتی‘‘۔ کیا غم ہے مزہ کا کہ طبیعت نہیں بھرتی ۔اگرچہ ا س شاعر نے دنیاوی غم کی نسبت ایسا کہا ہے لیکن فی الحقیقت الہٰی غم میں مزہ ہے ۔دنیا کے غم میں محض تلخی ہے ۔ مسیح خُداوند کی صلیبی موت کے وقت مسیحیوںکو بھی بڑا غم اورالم ہوا تھا لیکن بموجب  ارشاد مسیح کے اُن کا وہ غم مبدل بخوشی ہوگیا تھا (یوحنا ۲۰:۱۶) اوروہ خوشی اب تک ہماری روحوں میں برابر چلی آتی ہے اورابد تک بجلال رہے گی۔ غم اورالم کا وجود تو معدوم نہ ہوگا بلکہ بے ایمانوں کے لئے غم کا سمندر ظاہر ہوگا اوروہ ابد تک مغموم رہیں گے۔ ہاں مسیحی مومینن کے لئے غم ایسا معدوم ہوگا کہ وہ پھر اُس کا منہ نہ دیکھیں گے ۔’’اور جن کوخُداوند نے مخلصی لوٹیں گے اورصیون میں گاتے  ہوئے آئینگے  اورابدی سرور اُن کے سروں پر ہوگا ۔وہ خوشی اورشادمانی حاصل کرینگے اورغم واندوہ کافور جائیں گے‘‘(یسعیاہ ۱۰:۳۵) ۔ ’’اور وہ (خُدا) اُن کی آنکھوں کے سب  آنسو پونچھ دےگا ۔اس کے بعد نہ موت  رہے گی اورنہ ماتم رہے گا ۔ نہ آہ و نالہ نہ درد۔پہلی چیزیں جاتی رہیں ‘‘(مکاشفہ۴:۲۱) ۔ اس وقت بھی مسیحیوں کے غموں میں غیرمسیحیوں کے غمو ں کی نسبت بہت فرق ہوتا ہے۔ ان کے غم ہلکے اوراُن کے غم بھاری ہیں۔ دیکھو کیا لکھا ہے  تم اوروں کی مانند جو نا امید ہیں غم نہ کرو(۱۔تھسلینکوں۱۳:۴)۔ وہ قوی امید جو عیسائیوں کو مسیح میں ہےان کے غموں کا بوجھ ہلکا کرتی ہے۔ ناامید شخص کے لئے کیا آسرا ہے کچھ نہیں پورا بوجھ غم کا اُسے اُٹھانا ہوتا ہے۔ یہ بھی یادر ہے کہ غم کے وقت ہمیں کیا کرنا چاہئے ۔ اگرکوئی تم میں غمگین ہو وہ دعا مانگے(یعقوب۱۳:۵)یعنی خُدا کےحضور میں جائے اوراپنا بوجھ اُس کے سامنے رکھے وہاں سے قوت صبری اورتسلی حاصل کرےگا۔