دفعہ ۲۴

انسانی جسم کے ناموں کا بیان

تمام دنیا کی زبانوں میں جسم کے کچھ ایسے نام ملتے ہیں جو رُوح انسانی کو جسم سے جدا ظاہر کرتے ہیں اوریہ بات بھی غور طلب ہے کلام اللہ میں انسانی جسم کے لئے چھ نام مذکورہیں۔ پیدائش ۷:۲میں جسم کو ’’مٹی‘‘،ایوب ۱۹:۴میں اُسے ’’مٹی کا مکان‘‘، (ایوب۱۱:۱۰)  میں جسم کو’’چمڑا،گوشت،ہڈی اور نسیں‘‘ ، ۲۔ کرنتھیوں ۱:۵میں جسم کو’’ خیمہ کا گھر‘‘،۲۔کرنتھیوں۷:۴میں جسم کو ’’مٹی کا برتن‘‘ ،۲۔ پطرس۱۳:۱میں اُسے ’’خیمہ‘‘ بیان کیا گیا ہے۔ ان ناموں میں بدن کو ’’مکان ‘‘اوررُوح کو’’ مکیں‘‘ ظاہر کیا ہے جس سے بدن اوررُوح میں صاف صاف فرق دکھایا گیاہے۔ پھر جب رُوح بدن سے نکل جاتی ہے تو اس جسم کا نام ’’لاش‘‘ ہوتا ہے اورلفظ’’ لاش ‘‘کی اصل ’’لاشی‘‘ یعنی’’ کچھ چیز نہیں ہے‘‘ کیونکہ شے وہی تھی جو اُس میں سے نکل کے چلی گئی ہے۔

دفعہ ۲۵

رُوح انسانی کی صفات کے بیان میں

امثال ۲۷:۲۰میں ’’آدمی کی رُوح (ضمیر)‘‘کو ’’خُداوند کا چراغ‘‘ کہاگیا ہے کیونکہ اس تمام کارخانہ بدنی میں روشنی بخش چیزرُوح ہے ۔ متی۲۳:۶میں خُداوند مسیح نے فرمایا ہے کہ ’’۔۔۔اگر وہ روشنی جو تجھ میں ہے تاریکی ہوجائے تو تاریکی کیسی بڑی ہوگی‘‘۔یہ اُسی روحانی روشنی کا ذکر ہے ۔ ا۔کرنتھیوں۱۱:۲میں لکھا ہے کہ’’ کیونکہ انسانوں میں سے کون کسی انسان کی باتیں جانتا ہے سوائے انسان کی اپنی رُوح  کےجو اُس میں ہے؟ اسی طرح خُدا کے رُوح کے سوا کوئی خُدا کی باتیں نہیں جانتا ‘‘۔ پس انسانی رُوح میں علمی روشنی ہے اپنی نسبت۔

تب یہ رُوح انسانی ایک روشنی سی ہے جس میں زندگی ہے اوراُس میں حِسؔ ،ادؔراک ،ارادؔدہ اورقوؔت بھی ایک حد میں ہے۔ مصنوعات کی طرف دیکھ کے رُوح انسانی جو صانع کا سراغ لگاتی ہے ۔اس کا یہی سبب ہے کہ اُس میں خُدا کی طرف سے یہ استعداد رکھی ہوئی ۔رومیوں۲۰:۱ میں لکھاہے کہ ’’اُس کی اَن دیکھی صفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اورالوہیت دنیا کی پیدائش  کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعے سے معلوم ہوکرصاف نظر آتی ہیں۔ یہاں تک کہ اُ ن کو کچھ عذر باقی نہیں‘‘۔ یہ علم کس کو حاصل ہوتا ہے’’ انسا ن کی رُوح‘‘ کو ؟ نوحہ۲۴:۳ میں ہے کہ ’’میری رُوح (جان)نےکہا   میرا بخرہ خداوند ہے‘‘۔ وہ ایسا کیوں کہتی ہے ادراک کے سبب سے اوراُس کی خاص مہربانی اپنی طرف معلوم کرکے ۔آستر۱۴:۴میں بیان ہے کہ’’۔۔۔خلاصی اور نجات   یہودیوں کے لئے کسی اَور جگہ سےآئےگی‘‘۔ یہ کون کہتا تھا؟ اُس کی انسانی رُوح ،اُس ادراکی استعداد سے جو اُس میں تھی۔ زبور۱۴:۱۳۹ میں زبور نویس کہتا ہے کہ ’’۔۔۔میرا دل  اسے خوب جانتا ہے‘‘۔یہ یقین کیونکر پیدا ہوا؟روحی ادراک سے۔امثال۳:۲۳میں’’دغا کے کھانے‘‘ کابیان ہے اورامثال ۳۰:۶  میں ’’بھوکے چور کو حقیر نہ جاننا‘‘لکھا ہوا ہے۔یہ سب ہدایتیں روحی استعداد ادراکی سے ہیں ۔پھر ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی روح نیکی پر آفرین اوربدی پر نفرین کرتی ہے ، ظلم سے ایذا پاتی ہے، انصاف سے خوش ہوتی ہے اور فانی خوشی سے آسودہ نہیں ہوتی ۔یہ سب کچھ اس کی ذاتی استعداد کے سبب سے ہے۔

دفعہ ۲۶

انسانی روح غیر فانی ہے

عبرانیوں۹:۱۲میں لکھا ہے کہ خدا’’روحوں کا باپ ‘‘ہے۔زکریاہ۱:۱۲میں ہے کہ ’’خداوند انسان کے اندر اس کی روح پیدا کرتا ہے‘‘۔گنتی۲۲:۱۶میں لکھا ہےکہ ’’خدا سب بشر کی روحوں کا خدا ہے‘‘۔اسی طرح کے بہت سے اور حوالہ جات میں بھی بیان ہے کہ انسانی روح خداکی طرف سے ہے  اور اُسی کی طرف واپس لوٹ جاتی ہےمثلاً’’جانیں جو میں نے بنائیں‘‘(یسعیاہ۱۶:۵۷)،’’توان کا دَم روک لیتا ہے اور یہ مر جاتے ہیں‘‘(زبور۲۹:۱۰۴)، ’’وہ اپنی روح اور اپنے دَم کو واپس لے لے  ۔تو تمام بشر اکٹھے فنا ہو جائیں گے‘‘(ایوب۱۵،۱۴:۳۴)،’’اس وقت خاک خاک سے جا ملے گی جس طرح پہلے ملی ہوئی تھی اور روح خداکے پاس  لوٹ جائے گی جس نے اسے دیاتھا‘‘(واعظ۷:۱۲)۔

ان آیتوں سے یہ بات  ثابت ہے کہ انسان کی روح میں اور خدا میں ایک خاص قسم کا علاقہ ہے اور کہ جب انسان مر جاتاہے تو اس کا بدن خاک میں مل جاتا ہےاور اس کی روح اللہ کے پاس چلی جاتی نیست نہیں ہو جاتی۔

دفعہ۲۷

انسان کی روح مجبور نہیں آزاد ہے

پیدائش۲۲:۳میں لکھاہے ’’۔۔۔ایسانہ ہو کہ وہ اپنا ہاتھ بڑھائےاور حیات کے درخت سے بھی کچھ لے کرکھا ئےاور ہمیشہ جیتا رہے‘‘کیونکہ آدم مجبور نہ تھا ۔وہ ارادہ اور فعل میں آزاد تھا۔بائبل مقدس کے بیشتر حوالہ جات سے انسان کی اس آزادی کا ثبوت ملتا ہے۔۱۔ پطرس۱۶:۲میں لکھا ہے کہ ’’اوراپنےآپ کو آزاد جانو مگر اس آزادی کو بدی کا پردہ نہ بناؤ‘‘۔زبور ۳:۱۱۰میں ہے کہ’’لشکر کشی کے دن تیرے لوگ خوشی سے اپنے آپ کو پیش کرتےہیں‘‘ ۔’’ اپنی مستعد رُوح سے مجھے سنبھال‘‘(زبور۱۲:۵۱) ،  ’’جہاں کہیں خُداوند کا رُوح ہے وہاں آزاد ی ہے‘‘(۲۔کرنتھیوں۱۷:۳) ،’’میری رُوح انسان کے ساتھ ہمیشہ مزاحمت نہ کرتی رہے گی‘‘(پیدائش۱:۶۔۴)۔ اس لئے کہ وہ آزاد ہے اورکبھی کبھی اللہ کی رُوح کی ہدایت کو بھی نہیں مانتا اوراپنے منصوبوں  کی طرف جاتا ہے۔ یہ سزا اورجزا اسی آزادی پر مرتب ہےاورگناہوں پر ملامت کا اورہدایت کا طریقہ اسی سبب سے جاری ہے کہ آدمی آزاد پیدا ہوئے ہیں ۔وہ ہرگز کسی تقدیر کے مجبور نہیں ہیں۔ اورخُدا کی مرضی یہ ہے کہ سب آدمی اپنی آزادی کے ساتھ اپنی خوشی سے اُس کے تابع فرمان ہوں۔

 

ف۔ جس خُدا نے آدمیوں کو آزاد پیدا کیا کیا عقل مانتی ہے کہ اُس کی طرف سے کوئی جبری شرع آدمیوں کے لئے نکلے کہ ضرور کلمہ پڑھو یا جز یہ دو یامارے جاؤ؟

دفعہ ۲۸

رُو ح انسانی میں ہمیشہ دوطرفہ توجہ ہے

ہر آدمی اپنے آپ کو ایک شخص موجود سمجھتا ہے اورمَیں بولتا ہے اوردنیا کی چیزوں کی طرف بھی متوجہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ میں یقیناً قائم بالذات نہیں ہوں ۔کسی دوسرے کے ہاتھ میں میری زندگی ہے اوریہ دوسرا وہی ہے جو قائم بالذات اورجہان کا مالک ہے۔ پس انسانی رُوح ہردو طرف دیکھتی ہے۔ اپنی طرف اورخُدا کی طرف اوراس کی یہ دونوں تو جہات اُس کی ذاتی خصلتیں ہیں۔