متلاشی محبوب مسیح کی مشکلاتیں
یہہ کہنا کی خدا ہمارے اعمال سے خوش و ناخوش ہوتا ہے محض بناوٹ ہے
Seeker Lover of Christ and His Problems
Published in Nur-i-Afshan January 15, 1885
By. Rev. G.L.Thakkur Dass
برادر محبوب مسیح نے خدا کے کاموں کو دیکھلے اور ُسکے کلام کو پڑھکر شائید یہہ نتیجہ نکالا ہے!! مگر حقیقت میں خدا کے کام یعنے نیچر ؔ اور اُسکے کلام یعنے بائیبل جو بعض امور متعلق انسان کی نسبت ہر جزوکا بیان نہیں کرتے اور فقط حقیقت کو انسان کے سامنے پیش کرتے ہیں اُنہیں چند ایک اجزا کی رو سے محبوب مسیح صاحب خدا کو بھلا بُرا کہتے ہیں۔ آپ نے اپنے دعویٰ کے سات وجوہ لکھے ہیں اور اُن کو تیس سطروں میں تمام کیا ہے۔ خلاصہ آپکی تحریر کا یہہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے بھلے یا برُے اعمال کی رو سے خدا کو خوش یا نا خوش بتلاتا درست نہین ہے یعنے بلا لحاظ انسان کے کاموں کے خدا بجائے خودانند ہے۔ اُنسے کچھ سرو کار نہیں رکھتا۔
اب پیشتر اُس سے کہ آپ کے وجوہات کی پرتال کی جوعے میں کہتا ہوں کہ جب تک خدا نے کو ئی چیز نہ بتائی تھی تب تک تو ہم کہہ سکتے ہین کہ وہ اپنے ہی میں انند تھا۔ مگر جب اُسنے اپنے تئیں خالق ٹھہرایا اور کچھ پیدا کیا تو خلقت سے اُسکا کچھ سروکارہوایا نہیں۔ خواہ کسی قسم کا ہو۔ اور تھوڑا ہو یا بہت ؟ سوال ہے کہ خدا نے یہہ دنیا کیوں بنائی ؟ وہ جو اسکے بغیر خوش تھا اُسکے ہونیکا محتاج نہیں ہو سکتا ےتاکہ یہہ اُسکی تنہائی کے لیے رونق اور ازاں موجب اُسکی خوشی کا باعث ہوئے۔ پھر اُسنے یہہ سب کچھ کیوں بنایا؟ اس گرداب میں پڑ کر ارسؔطو نے کہا کہ خالؔقی ؟خدا کے لائیق صفت نہیں وہ خالق ہونے سے آزاد ہے کیونکہ خلق کرنا ایک ادنی ٰفعل ہے۔ اور رایچا ؔقورس نے خدا کو ایک بے پروا جیسا شخص کہا جو انسان کے کاموں سے چند اں سروکار نہین رکھتا۔ کیا آپ بھی مثل اُن داناؤں کے خدا کی صفت خلقیؔ کے منُکر ہیں؟ اگر آپ منکر ہوگے تب ہی اپنے دعوے پر نازاں ہو سکو گے اور جو چا ہو گے کرو گے اور کوئی خدا تمہارے کاموں سے خوش اور نہ خوش ہو نے والا نہ ہوگا۔ ارے بھائی پھر تو آپ گلے۔!
پس اگر یہہ دنیا خدا نے بنائی تو کیوں بنائی اور کیسے قوانین سے اُسے انتظام دیا ؟ اگر ہمَ تم ُ اسبات کا جواب دے لیں تو معلوم ہو گا کہ انسان کے اعمال کی نسبت خدا کے خیال و طبیعت کیسے ہوتے ہیں۔ سو معلوم ہو کہ یوں ہی نہین بنائی لیکن بنظر اولیٰ خدا نے اپنے نام و جلال کی خاطر یہہ سب کچھ بنایا۔ امثال ۱۶۔ ۴۔ ۱ قرنتیون ۶:۲۰ ۔ اور بہ نظر ثانی انسان کی خوشی و آرام کے لیے بنایا۔ کیونکہ خدا کی بزرگی کرنے میں انسان کی خوشی و آرام ہے۔ اور ایسے قوانین مقرر کئے ہیں جنکی پیروی کر کے انسان آرام و خوشی پاوے۔ زبور ۵۰: ۲۳ ۔ اور اُنکی عدولی اُسکے رنج و دکھ کا باعث ہوئی۔ جب انسان اُن قوانین کی پیروی کرتا ہے تو اُسکا اجر آرام و خوشی ہوتا ہے۔ اور اس تعمیل حکم سے خدا خوش ہوتا ہے اور عدم تعمیل سے ناراض ہوتا ہے۔ اول اسلئے کہ انسان نے اُسکا حکم نہ مانا خدا کی بذرگی نہ کی۔ دوسرے اسلئے کہ اپنے دکھ و رنج کا باعث ہوا یہہ اُس عدولی کی سزا ہے پس اجر خدا کی خوشی اور نبرا اُسکی ناراضگی کی دلیل ہے اور یہہ امر خدا نے انسان پر دو طرح سے ظاہر کیا ہے ۔
اوؔلاً انتظام نیچر سے۔ یعنے اپنے کام سے جاننا چاہیئے کہ انسان میں اور انسان کے آسپاس قوانین قوانین ہیں جنسے انسان مفید ہے۔ ایسا کہ اگر انکو توڑے تو رنج و دکھ پاتا ہے اور اُنکے موافق عمل کرنے سے آرام پاتا ہے۔ اب اس تعمیل اور عدم تعمیل کے نتیجے کس نے مقرر کرئے؟ بے شک خدائے خالق نے اور اگر کسی قانون کو توڑنے سے دکھ ہو اور تعمیل سے آرام و خوشی ہو تو یہہ دُکھ اور آرام کسکی طرف سے مانے جائینگے اور کیا ثابت کرنیگے؟ یقیناً اپنے مقنن کی خوشی اور ناخوشی کو ۔ اور یہی دسکھلا دینگے کہ وہ خالق و مقنّن فلان طریق سے خوش اور فلاں سے ناخوش نہ ہے ورنہ آرام و دُکھ انسانکے اعمال کا نتیجہ نہ ٹھہراتا۔ مثلاً محنت کا اجر ہے اور کاہلی کی سزا ہے ۔ اگر انسان اپنی ادنی خواہشوں کو پورا کرنے میں جائیؔز اور ترتؔیب سے دائیں بائیں ہووے تو انجام تکلیف اور خرابی ہے۔ یہہ باتیں انسان اپنے تجربہ سے معلوم کرتے ہیں اور یوں خدا انسان کو اُسکے تجربہ سے بتلاتا ہے کہ کس طریق سے خدا وند خوش ہے ۔ اور کس سے ناخوش ہے امید ہے کہ آپ میرا مطلب اتنے ہی میں سمجھ لیں گے اسلئے نظریں نہیں لکھی جاتی ہیں۔
ثانیاً خدا کے کلام یعنے بائبل سے یہہ بات بالکل صاف نظر آتی ہے کہ خدا انسان کے اعمال سے خوش و نا خوش ہے۔ انسان کے نیچری تجربے کے شکوک اس کلام ربانی سے رفع ہو جاتے ہیں ۔ اور یوں انسان کو یقین کامل ہو سکتا ہے کہ بدی کو ترک کرنا چاہئے اور نیکی کو اختیار کرنا چاہئے کیونکہ یوں ہی خدا کو پسند آتا ہے ۔ اور اُسکا ضمیر اُسکے اندر اسبات پر گواہی دیتا ہے۔ اب بائبل ہمکو بتلاتی ہے کہ آدم حواَ کو عدولی کی سزا دی گئی۔ داؤد کو اور اَور سیکڑوں کو نالائق کاموں کی سزا دی گئی۔ اسطور سے خدا نےگویا عملاً لوگوں پر ظاہر کیا کہ اُسکو کیا خوش آتا ہے اور کیا نہیں۔ اور پھر بار بار یوں فرمایا کہ خداوند کا منہُ اُنکے برخلاف ہے جو بد کردار ہیں۔ زبور ۳۴: ۱۶۔ کہ خداوند جو صادق ہے صداقت کو چاہتا ہے۔ ۷:۱۱ ۔ اور کہ خدا صداقت کا دوست اور شرارت کا دشمن ہے۔ ۴۵: ۷ پس طریق ہائے مذکور ہ بالا سے خدا نے ظاہر کیا کہ وہ انسان کے اعمال سے بے پرواہ نہیں مگر خوش و ناخوش ہوتا ہے۔ ارے صاحب اپنے خیالوں کے ژداب میں کہیں برباد نہ ہو جانا۔کیونکہ خدا ہے۔ اور اگر ہے تو وہ بدی کا دشمن اور صداقت کا دوست ہے نہ کہ وہ جیسا آپ نے تجویز کیا ہے۔ جہاں کوئی قانون ہے وہ قانون مقنّن کی مرضی و طبیعت کا طہور ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے اور کیا نہیں چاہتا۔ اب آپ اپنی وجوہ کا حال بھی سنُئے ۔ جو آپنے اپنے خیال کے لیے گھڑے ہیں اور ایک واقعی امر کے برخلاف رُخ کیا ہے۔
قولہ۔ اوّل و دویم ۔ اسلئے کہ ہمارے اعمال ہر نوع میں خدا کی قدرت و ارادہ کو کچھ دخل و اثر ہے یا نہیں، بہ صورت اولَ وہ اپنی ہی قدرت و ارادہ کے دخل و اثر سے صادر شدہ اعمال سے نا خوش ہوتا ہو نہ ہمارے پس اسکے اس خود کردہ کا کیا علاج۔ اسواسطے کہ یہہ خوشی و نا خوشی وہ اپنے اوپر بہ رضاؤ اختیار خود لیتا ہے ورنہ اُس خدا ئے قدیر کا مجبور ہونا ثابت ہوا۔
اقوال ۔واضح ہو کہ اگرچہ ہم خدا ہی سے جیتے اور چلتے پھرتے اور موجود ہیں (اعمال ۱۷: ۲۸) تاہم خدا نے انسان کو آزاد بنایا ہے ایسا کہ جا چاہے کرے۔بھلائی کرے خواہ برُائی۔ جسطرح خداآپ قدرت دارادہ رکھتا ہے اسیطرح انسان کبھی قدرت دارادہ دیا ہے کہ کچھ کرے۔ اسکے مطابق جب انسان کچھ کرتا ہے تو خدا کی قدرت دارا دے کا اُسکو کچھ زور معلوم نہیں ہوتا کو ئی ظاہری روک خدا کی قدرت دارادہ کی اپنے ارادہ و قدرت کا مزاحمت میں نہیں دیکھتا۔ اوریوں کام کرتا ہے کہ گویا کوئی اور اُسکے کاموں کا نگران حال یا مزاحم نہیں ہے۔ خدا اپنے ارادے اپنے طور پر پورے کرتا ہے اور انسان اپنے طور پر اور خدا سے کرنے دیتا ہے روز کا تجربہ اسبات کا شاہد ہے کہ فی الواؔقعی یو نہیں ہے۔ البتہ اُسکو نصحیت و تربیت پزیر ہے مگر اُسکی قدرت دارادہ اُس سے چھین لیتا ہے۔ بے شک جسحال کہ انسان کی زندگی خدا کے ہاتھ میں ہے تو خدا اُسکو عمل کرنے سے بھی روک سکتا ہے وہ اُنکی طاقت سے اُنہیں مجرم کر سکتا ہے اور یا ایسی رکاوٹ اُنکے سامنے رکھ سکتا ہے کہ وہ فقط ایک ہی طرح کے کام کریں۔ لیکن خدا ایسا نہیں کرتا بلکہ سب سامان دیکر سب قوموں کو چھوڑ دیا کہ اپنی اپنی راہ پر چلیں۔ اعمال ۱۴: ۱۶۔ اور بھی دیکھو رومیوں ۱: ۲۴ ، ۲۸۔ یہاں سے ظاہر ہے کہ خدا انسان کو بدی کرنے سے بطریق مذکورہ نہیں روکتا بلکہ اُسکو اپنی مرضی کرنے دیتا ہے۔یہہ بھی فی الواقعی(۲) امر ہے پھر یہہ اسلئے کہ انسان کے اعمال سے بے پرواہی نہ خوش ہو نہ ناخوش ۔ کیونکہ اگر بے پروا ہوتا تو اپنے کام اور کلام سے انسان کے تجادزوں کے ساتھ سزا لازمی نہ ٹھہراتا ایسی تادیب و تربیت کی تجویز فعلاً اور قولاً نہ کرتا ۔ اب یہہ تربیت بھی فی الوقعی(۳) امر ہے جسکا پہلے مذکور ہوا۔ پس اِن ہر سہ امور واقعی کے روسے ظاہر ہے کہ یہہ قول کہ خدا کا انسان کے اعمال سے ناخوش ہونا گویا اپنے ہی اختیار کردہ اعمال سے ناخوش ہونا ہے۔ درست نہین ہے بلکہ خدا اور انسان کے اعمال اپنی اپنی جگہ اور ناخوشی کے موجب ہیں۔ انسان کے کام انسان کے زمہ ہیں کیونکہ جو کچھ کرتا ہے اپنی آزادی و مرضی سے کرتا ہے۔ اور اسلئے اُسکے اعمال خدا کو خوش اور نا خوش کرتے ہیں۔
قولہ ششمؔ و سوؔم۔خدا کا باوجود علم ہمارے نقص اور کمزوریوں کے ہم سے اپنی خوشی اور ہماری کما یسّت ناممکن الوقوعہ بدیہیہ کا فواستگار ہو کر اُسکے پورا ہونے میں ناکام ربنا کیا صریح خلاف اسکی صفت علامّ الغیوبی کی نہیں ہے۔ اور بنظر ظاہر حال کثرت برُون اور قلّت نیکون اہل دنیا کے خدا کا زائید ترا اور اکثر اوقات مبتلائے عارفئہ ناخوشی ہونا ثابت ہوتا ہے اور اسکا فعل خلقت انسان خاص اُسی خالق کے لیے وبالِ جان ہونا ثابت ہوا۔
اقوال۔ میں کہتا ہوں کہ خدا کو اِن سب باتوں کا علم تھا۔ مگر پھر وہ اپنی مرضی ع مصلحت سے سب کچھ کرتا ہے افسیون ۱: ۱۱ ۔ اور اُسی میں ہم بھی اُس کے اِرادہ کے مُوافِق جو اپنی مرضی کی مصلحت سے سب کُچھ کرتا ہے پیشتر سے مُقرّر ہو کر مِیراث بنے۔ اور اپس مرضی و مصلحت کے بھید کا یہہ جزُو انسان پر بخوبی ظاہر کر دیا ہے کہ انسان کے بد اعمال خدا کو نا پسند ہیں۔ اسلئے ہمارا تمہارا کچھ عذر نہیں ہے۔ اور ہم پر فرض ہے کہ اُسپر اور اسیطرح عمل کریں جسطرح ہم پر ظاہر کیا گیا ہے۔ اور خدا کی اس مرضی اور مصلحت کے بھید کو نہ جانکر اگر ہم خدا کو بے علم اور نالائق بھی کہیں تو بھی ہم اُسکی خوشی یا ناخوشی سے بھاگ نہیں سکتے۔
اسپر یہہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں انتظام الہیٰ ایسا بے ترتیب ہے کہ نیکوں کو نیکی کا اجر ہمیشہ نہیں ملتا اور بروں کو بدی کی سزا نہیں ہوتی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا انسان کے کاموں سے بے پرواہی اور بائبل میں بھی اسکے موافق آیا ہے میں کہتا ہوں کہ یہہ بات اُن امور میں سے ہے جنکی رو سے ہم برہموؔ اور نیچریوں وغیرہ کو الہام الہیٰ یعنے بائبل کی ضرورت پیش کرتے رہے ہیں۔ تاکہ وہ نیچر کی اس بے ترتیبی سے دھوکہ نہ کھاویں۔ اور لامذہب آدمی کے لیے بھی ہماری طرف سے یہی آوازہ ہے کہ نیچر میں بے ترتیبی تو بے شک ہے اور خدا نے اس بے ترتیبی کو دور نہ کیا ( اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ کیوں دور نہ کیا) مگر اُس نےاپنا کلام بھیجا۔ اُسمیں اِس با ترتیبی کے قیام کا سبب تو نہ بتلایا اور بتلایا تو یہہ بتلایا کہ خدا اپنی مرضی اور مصلحت سے سب کچھ کرتا ہے اور اُسپر یہہ فرمایا کہ باوجود اِس بے ترتیبی کے خدا صداقت کا دوست ہے اور بدی کا دشمن ہے۔ اسلئے ہم بدی کو ترک کریں اور نیکی کا پیچھا کریں۔ یہہ جانکر خداوند راستی سے دنیا کی عدالت کریگا۔ اور یوں بائبل ؔ نیچری ہدایت کی کمی کو پورا کرتی ہے۔
پھر کثرت برُوں اور قلتّ نیکوں کے سبب سے ناخوشی کو خدا کے لیے ایک عارضہ اور وبال جان بتلانا اور اُسکے ارادے میں ناکام رہنا بتلانا خدا کو ایسا بیمار اور بے علم نہیں کرتے جیسا آپ کی ہمدردی سے ظاہر ہوتا ہے!! اسلئے کہ باوجود عالم ہونیکے ایسا ہی ہونے دینا اُسکی نیک مرضی و مصلحت کے موافق ہے کیونکہ اگر خدا نے اس ارادہ سے کہ اپنےغصے کو ظاہر کرے اور قدرت کو دکھاوے قہر کے برتنوں کی جو تباہ کرنے کے لائق تھے۔ نہایت برداشت کی اور اپنے بے نہایت جلال کو رحم کے برتنوں پر جو اُسنے حشمت کے لیے آگے تیار کئے تھے ظاہر کیا تو کیا ہوا( رومیوں ۹: ۲۳۔۲۳) پس یہہ دور ہماری آزمائیش اور خدا کی برداشت کا ہے۔ چاہئے کہ ہم فکر اور شکر کریں اور پھر ایک وقت اُسکی قدرت و رحم کا ہوگا چاہئے ہم ڈریں کیونکہ تب وہ اپنی ساری باقیاں طلب کرے گا اور تب قہر کے برتن جو اُسکو ناراض کر رہے ہیں تباہ ہوں گے۔ اے بنی آدم خداوند کے صبر کی قدر جانو اور بےدیں مت ہو۔ یقین کرو۔
قولہ پنجم و ہفتم۔ خدا ہم سے اپنی خوشی کا خواہاں ہے یا نہین اور یہہ اپنے فائیدے کے لیے یا ہمارے۔ بہ تسلیم شق ادل جیسا کہ ظاہر بھی یہی ہے وہ ہم بندوں سے فائیدہ پانے کا محتاج ہوا۔ دبہشق دوم خدائے قدیر کی خواہش کا اپنے مخلوق سے بر نہ آنا ثابت ہوا کہ جو اسکی الوہّیت کے خلاف ہے۔ ( اس پچھلی بات کے جواب کے لیے دیکھو ما قبل پراگراف)
اقوُل۔ اس بات سے وہ ہم بندوں سے فائیدہ پانے کا محتاج نہیں ٹھہرتا لیکن یہہ اُس طرح کی بات ہے جسطرح باپ اپنے بیٹے سے مُتقا ضی ہو کہ تو مجھے باپ کہہ۔ اگر بیٹا اپنے باپ کو جو فطرتاؔ اسکا باپ ہے باپ کہے تو باپ کو کیا فائیدہ ہے۔ کچھ نہیں صرف پانے نام کی بڑائی سے باپ کو خوشی ہے۔ اور اگر نہ کہے تو کچھ گھٹ نہیں جاتا۔ کیونکہ خواہ وہ کہے خواہ نہ کہے باپ باپ ہی ہے۔ اسیطرح خدا کو خدا مانکے اسکی بڑائی کرنا ہم بندوں پر فطرتاً فرض ہے اور خدا ہم سے یہہ طلب کرتا ہے۔ اگر ہم اسکا کہا کریں تو خدا کا کچھ بڑھ نہیں جاتا۔ البتہ وہ خوش ہوتا ہے۔ اور اگر نہ کہیں تو بذاتہ اسکا کچھ گھٹ نہیں جاتا صرف وہ ناخوش ہوتا ہے ۔ پس اپنے فائدہ کے لیے نہیں لیکن اپنے نام کی بڑائی اور ہماری بھلائی کے لیے خدا یہہ چاہتا ہے۔ اور بندوں سے اپنے نام کی بزرگی چاہنا اسکا حق ہے اور اُس کے نام کی بزرگی ہم اُس حالت میں کر سکتے ہیں اگر اُسکے حکم مانیں۔ نرے الا اﷲالااﷲ سے فائیدہ نہیں۔
قولہ ۔ چہارم۔ ازروے ظاہر حال پرُاختلال ہمارے اعمال ہر نوعہکے خدا کا ہمسے کبھی خوشی اور کبھی ناخوش ہونا بالہذا تہ ثابت کرتا ہے کہ اُسکی یہہ خوشی نہ دائیمی بلکہ عارضی و حارث ہے۔ اس سے خدا کا متغیر الحال ہونا ثابت ہے۔
اقوُل۔ اگر یہہ بات خدا کو متغیر الحال ثابت کرتی تو یاد ہے کہ انسان کو پیدا کرنے سے پہلے ہاں اُس سے پہلے کہ انسان عمل کر سکے خدا متغیر الحال ہو چکا تھا۔ اور جب وہ دنیا کو خلق کرنے سے متغیر ہو اور ویسا ہی سمجھو کہ انسان کے اعمال سے خوش یا نا خوش ہو کر متغیر ہوتا ہے مگر حقیقت میں یہہ درست نہیں۔ اور خدا کی نسبت یہہ بات ہم اُس حال میں کہہ سکتے اگر ہمکو معلوم ہوتا کہ اِس عالم کی پیدائیش سے پہلے خدا کا کیا حال تھا۔ بے شک یہہ مشکل بات ہے کہ اس تبدیل الحال دنیا کے ساتھ سروکار رکھ کر بھی خدا لا تبدیل رہتا ہے۔ جیسے آفتاب جنؤں کا تیئوں رہتا ہے اور انسان بدلتا رہتا ہے۔ اور بھی یاد رہے کہ خدا نیکی سے ہمیشہ خوش اور بدی ہمیشہ ناخوش ہے۔ اور اگر کبھی بدی سے خوش اور کبھی نیکی سے خوش ہو یہہ بات تبدیلی ثابت کرے گی۔ اور اگرچہ انتظام نیچر سے ہمیں اسبات میں پوری تسلیّ نہیں تا ہم خدا کا الہام۔ اسکا کلام اس دنیا کے پیچیدہ سفر میں ہمارے لیے چراغ ہدائیت ہے۔ اُسکی مندرجہ واقعات اور اقوال سے ہمارے شہبے جاتے رہتے ہیں۔
قولہ۔ہفتم ۔اسوقت خدا کا ہم سے ہمارے اعمال حسنہ کے سبب سے خوش ہونا بتانا ثابت کرتا ہے کہ وہ قبل اس سے بدون ہمارے اعمال کے ہم سے خوش نہ تھا۔ حالانکہ اُسکا ہمکو اسصورت و صفت کا انسان بنانا صاف ثابت کرتا ہے کہ وہ ہم سے بخوبی خوش تھانہ ناخوش۔
اقول۔ جب ہمارے اعمال ہی نہ تھے تو وہ یو نہیں ہمسے نا خوش کیونکر ہو سکتا تھا۔ اور جب ہمارے اعمال حسنہ اُسکی خوشی کا سبب مانے جاویں تو اعمال سیہّ نہ کہ عدم اعمالی اُسکی ناخوشی کا باعث ٹھہرے اور بے شک ہمکو اس صورت و سیرت کا انسان بنانا اُسکی خوشی کو ثابت کرتا ہے۔ ہاں خدا نے اپنی خوشی سے اس سیرت کا انسان بنایا کہ عمل کی طاقت رکھےلیکن جب انسان اعمال مطلوبہ نہیں کرتا تو یہہ خدا کو ناخوش کرتا ہے۔ اور اُنکی نسبت خدا اپنی قدرت نہیں مگر صبر دکھاتا ہے۔ اور اُسکے صبر کے سبب سے آپ خدا کو نالائق اور کمزور کہتے ہو۔ اور یوں ہر قدم پر خدا سے بغاوت دکھاتے ہو۔
آخر میں میں آپ سے چند ای باتوں کا زکر کرتا ہوں جو ہماری بحث کے متعلق ہیں۔ اوّل یہہ کہ اگر ہم اپنی ہستی کی نگاہ سے دیکھیں تو خدا کی خوشی اور نا خوشی انسان کے اعمال سے کچھ تعلق رکھتی ہے اور بغیر اسکے اسکی کوشی کس بات میں ہے یہہ ہم سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔ کیونکہ اس دنیا کے بغیر ہم خدا کی خوشی اور ناخوشی کا کچھ خیال نہیں کر سکتے۔ لیکن یہہ دنیا اور اسکے قوانین بنانے سے ہم معلوم کرتے ہین کہ خدا کیونکر خوش و نا خوش ہوتا ہے۔ اب چونکہ خدا نے یہہ دنیا پیدا کی ہے لہذا خدا کا اسکے ساتھ ضرور کچھ سروکار ہے۔ اس دنیا کی یوؔ ں اور اسطرح ضرور خالق کی مرضی و مصلحت کو شامل کرتے ہیں۔
دوم یہہ کہ اصل میں آپ نے کوئی ایسی سند پیش نہیں کی جس سے ہمکو یقین ہو سکے کہ خدا انسان کے اعمال سے ہمکو یقین ہو سکے کہ خدا انسان کے اعمال سے نہ خوش ہے اور نہ ناخوش بلکہ بے پرواہ ہے۔ اور اپنے اس خیال کے لیے (کہ دنیا کا بہت ہی پُرانا خیال ہے) جو باتیں پیش کی ہیں وہ اس عالم کے انتظام الہیٰ اور صفاتؔ الہیٰ کے باہم مخالف ہونے کا بیان ہے۔ اس قسم کی باتیں آپنے اپنی اور تحریروں میں بھی زرا زیادہ جوش کے ساتھ بیان کی ہیں۔ گویا کہ اور لوگ ایسی باتوں کی کچھ خبر نہیں۔ خبر تو ہے اور کبھی کی مگر آپ جیسی کو تہ اندیشی کی باتیں فضول سمجھتے ہیں۔ سو اگر خدا کی واجبی صفات کا خیال کریں اور دوسری طرف اس انتظام الہیٰ پر غور کریں تو وہ خدا اس عالم کا خالق نہیں معلوم ہوتا کیونکہ کئی ایک باتیں اسکی صفات مسُلمہ کے برخلاف معلو م ہوتی ہے۔ اور یوں یا تو ہم اُس خدا کا خالق ہونا منظور نہ کریں اور یا کہ وہ بھی رہے اور اس دنیا کا کوئی اور خالق اور منتظم تجویز کریں جیسا فارسیؔ محد نے کیا تھا۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ کئی ایک خالق اور منتظم تجویز کرنے پڑئینگے اگرچہ انتظام ہمیں اس گھبراہٹ میں ڈالے مگر الہامؔ الہیٰ جسکی ایسی ہی باتون کے سبب سے اشد ضرورت تھی ہمکو قطعاً بتلاتا ہے ایک ہی خدا ہے اور کوئی نہیں۔ اور وہ ہی خدا اس عالم کا خالق و منتظم ہے۔ اور کہ اس انتظام نیچر کی بے ترتیبی میں اس کالق کی کچھ مصلحت ہو جو ہنوز ہمارے لیے ایک بھید ہے جب تک لوگ اس الہام رباّنی سے باہر ہیں تب تک پخیر یوں اور لا مذہبوں اور ویدانیتوںؔ کی کچھ کمی نہیں ۔ آپ تو ایسے تسلیّ بخش الہام سے ناحق منحرف ہو کے لا مذہبی کے گرداب میں پڑ گئے ہو۔
ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا اور کلام مجسم ہوا۔ یوحنا ۱: ۱۔ ۱۴۔
کلمہ یا کلام سے بجز حکم و امر وبات خدا کے خدا نے ازلی مرادمراد لینا محض بناوٹ ہے۔
برادر محبوب مسیح نے ایک چھ ورقی رسالہ تحقیقؔ کلمہ میں یہہ نتیجہ پیش کیا ہے۔ اور کہتے ہیں کہ ولائیتی پادری صاحبان کی تقلید تعلیم کی وجہ سے ہمارے اکثر ہندوستانی عیسائی بھائی صاحبان بھیاس آیت کو الوہّیت مسیح کی دلیل مانتے ہیں اِسکے جواب میں میں کہتا ہوں کہ ایسا ہونا کچھ عجیب نہیں ہے۔ مگر اِس آیت کی نسبت ایک اور تعلیم ہے اور بھی بعض ولائیتی صاحبان کی تقلید مین ہمارے بعض ہندوستانی بھائیوں نے اختیار کر لی ہے یعنے فرقہ یونی ٹیرئین کی تعلیم اور ایسا ہونا بھی کچھ عجیب نہیں ہے۔ اب یاد رہے کہ ہمیں ولائیتی صاحبان کی اندھی تقلید سے انکار ہے مگر انکی تعلیم موجہ سے خواہ نخواہ انکار کرنا بھی اچھا نہین ہے۔ کیونکہ تحقیق میں جو اُنہیں رسائی ہے وہ دیسیوں کو نہیں ہے۔ خیر یہہ زکر جانے دیجئے کیونکہ آپ نے اپنی تحقیق کی رو سے اِس ؤیت کو مسیح کی الوہیت کے برخلاف دلیل پیش کیا ہے اور ہمارے نزدیک مسیح کی الوہّیت کے لئے اس سے صریحتر آیت انجیل میں نہیں ہے البتہ مسیح کی نسبت دریافت کرنا چاہئے کہ مسیح میں الوہّیت کیا تھی۔ اِ س آیت پر آپنے پانچ اعتراض کئے ہیں۔
پہلا اِعتراض
قولہ۔ اول لفظ ابتداؔ کہ جس کے معنے شروع کرنیکے ہیں صاف بتلاتا ہے کہ وہ کلام نہ ازلی ابتدا والا بلکہ ابتدا والا غیر ازلی تھا پس کلام کا صاحب ابتدا ہونیکے سب سے ہم صفت خدائے ازلی کا ہونا محض غیر صحیح ہے۔
اقول۔ یہہ سچ ہے کہ جس چیز کی ابتدا ہے وہ ازلی نہیں۔ مگر اِس آیت میں لفظ ابتدا ؔ کا استعمال کلام کی ازلیت کے برخلاف دلیل نہیں بلکہ اس کے استعمال سے مصّنف اُسکی ازلیت چابت کرتا ہے۔ حقِ مصّنف متقاضی ہے کہ آپ بجائے ابتداؔ کے پوری عبارت کا خیال کریں یعنے ابتدا میں تھا۔ اور پھر دیکھئے کہ کیا معنے بنتے ہیں۔ مجھ کمترین کو یہہ معلوم ہوتا ہےکہ رسول ابتداؔ سے ابتدائے خلقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ آیت ۱۔ بمقابلہ ۳۔ یعنے ابتدا میں کلام تھا۔ سب چیزیں اُس سے موجود ہوئیں ۔ تو ظاہر ہے کہ کلامؔ موجود شدہ چیزوں سے پہلے تھا۔ اور جدا تھا۔ ابتدا میں یعنے جب دنیا بننی شروع ہوئی کلام ؔ تھا ۔ ابتدا چیزوں کا ہوا مگر کلام اُسوقت تھاؔ۔ اُس ابتدائی پیدائیش میں کلام پیدا نہ ہوا مگر تھا۔ جسطرح خدا کی بابت لکھا ہے کہ ابتداؔ میں خدا نے آسمان اور زمیں کو پیدا کیا ( پیدائیش ۱: ۱) اُسیطرح کلمہ کی بابت لکھا ہے کہ ابتدا میں کلام تھا اور سب چیزیں اس موجود ہوئیں کداؔ اور کلمہؔ اُس ابتدا میں تھےؔ جب سب چیزیں موجود ہوئیں پس رسول کے بیان سےکلمہ کی پیشی ہستی ثابت ہو نہ کہ جیسا آپ نے خواہ نخواہ اُلٹایا ہے۔
پھر اگر چہ لفظ ابتدا کے معنے شروع کرنے کے ہین تاہم معلوم ہو کہ بائبل خدا کی ازلیت ؔ کو لفظ ابتداؔ سے بھی بیان کرتی ہے چنانچہ خداوندیوں فرماتا ہے کہ میں الفاؔ اور اومیگاؔ ابتدا اور انتہا ہوں مکاشفات ۱: ۸ بمقالہ یسعیایہ ۴۴: ۶، ۴۸: ۱۲۔ اور بھی دیکھو مکاشفات ۲۲: ۱۳ ۔ پھر معلوم ہو کہ ابتداؔ میں اور ابتداؔ سے بمرادازلؔ میں اور ازلؔ سے مستعمل ہوئے ہیں۔ امثال ۸: ۲۳ ۔ میں ازلؔ سے مقرر ہوئی ابتداؔ سے زمین سے پہلے ۔ اور ۲ تسلونیقیوں ۲: ۱۳ بمقابلہ افسیوں ۱: ۴ ۔ ان مقاموں میں شروع سے مراد دنیا کی پیدائیش سے پیشتر مستعمل ہوا ہے۔ اور جو کچھ پیدائیش سے پیشتر ہے وہ ازلی ہے۔ پس بہر صورت لفظ ابتداؔ سے کلمہ ابتدا وا لا ثابت نہین ہوتا اور تاکہ آپ جیسے تحقیق ؔ لفظ ابتدا سے کلام کو ابتدا والا نہ سمجھ لیں رسول بتلاتا ہے کہ ابتدا میں کلام کہاں تھا یعنے خدا کے ساتھ تھا اور خدا تھا ۔ پس لفظ ابتدا کی رو سے آپکی تحقیق روئی ٹھہری ہے۔
دوسرا اعتراض
قولہ دوم۔ لفظ کلام مذکورہ آیت بالا میں کیا معنے رکھتا ہے۔ وہی معنے کہ جسکے سبب سے متکلم ّ کو متکلمّ کہہ سکتے ہیں یا اور کچھ۔ پہلی صورت میں وہ قابلیّت الوہیّت ہرگز نہیں رکھ سکتا تھا۔ اولاً اسلئے کہ وہ بہ مدد کام و زبان دارادہ متکلم کے یہہ جسم ہوائی ہیدا ہو کر کچھ دیر بھی قرار نہیں پکڑتا۔ اور جو پیدا دفعتاً ہوتا ہے وہ اﷲ نہیں ہو سکتا۔ ثانیاً اسواسطے کہ ہر ایک لفظ و کلمہ و کلام کا ظہور و وجود اسکے خاص متلفظ اور متکلم مقدم کے وجود اور ارادہ و فعل اکتیارہ پر ایسا موقوف ہے کہ بدوناُس کے وہ کسیطرح پیدا نہیں ہو سکتا۔ ۱سلئے ضرور ہوا کہ اس کلمہ مذکورہ بانجیل کا بھی کوئی متکلم یعنے موجد ضرور ہو۔ بہ صورت دوم لفظ کلمہ بمعنے امر و حکم و بات نہایت صحیح معلوم ہوتا ہے۔
اقول۔ واضح ہو کہ جو کچھ آپ لفظؔ کلمہ کی بابت لکھتے ہیں درست ہے۔ یعنے لفظ کلام بات و امر و حکم الہیٰ پر بولا گیا ہے بلکہ انجیلؔ سے ظاہر ہے کہ وہ اور معنوں میں بھی مستعمل ہو ا ہے۔ مثلاً اعمال ۱: ۱ میں بمعنے کیفیت یا بیان یا رسالہ کے آیا ہے۔ اور میں یہہ بھی مانتا ہوں کہ کلمہ انسان کے خیالوں کی پاشاک یا ظاہر کرنے کا وسیلہ ہے اور خیال کا ہم عصر اور ہم زاد ہے۔ مگر جسطرح آپ لفظ کلمہ کی پیدائیشی کا بیان کرتے ہیں اُسکو کلمہ اﷲمسیح سے کچھ نسبت نہیں۔ انجیل اُس کے تولد کا ایسا بیان نہیں کرتی کہ وقعتاً پیدا ہو اور پھر ہستی نہ رکھے۔ جو تعریف آپ کلمہ کی بیان کرتے ہیں اور جسپر ہم بھی صادکرتے ہیں اُسکا تو ہم انسانوں کے محاورہ کے ساتھ تعلق ہے اور اگر اسیطرح کلام اﷲ مسیح کا خدا کے ارادہ اور زبان اور کام کے ساتھ تعلق ہو تو بیشک کلمہ مسیح الہیٰ اور کلمہ انسانی محض ایک لفظ ۔ ایک آواز بے وجود ہوں گے۔ پس آپ خیال رکھیں کہ لفظ کلمہ جو مفرد بامعنے خدایا انسان کے منُہ سے نکلتا ہے وہ خدا نہیں۔ الا کلام ؔ خاص سببوں سے مسیح ؔ کو خطاب دیا گیا ہے۔ جسطرح کلمہ یا بات خیال کو ظاہر کرتا ہے اُسیطرح مسیح ماہیّت اور مرضی الہیٰ کا مظہر ہے۔ کیونکہ لکھا ہے کہ بیٹے کی معرفت خدا ہم سے بولو اور اسکے وسلیے سے عالم بنائے۔ وہ اُسکے خیال کی رونق اور اُسکی ماہیّت کا نقش ہے۔ پس خدا کے خیالوں اور زات کو اپنی زات اور خیالوں سے ظاہر کرنے کی وجہ سے مسیح کو کلمہ اﷲ کہا گیا ہے۔ اور بھی دیکھو یوحنا ۱: ۱۸ ۔ لہذا لفظ کلمہ کی تعریف کرنے میں بھی آپکی تحقیق رائیگاں ٹھہری۔ لازم تھا کہ لفظ کلمہ کا مطلب آپ کی باتوں سے دریافت کرتے نہ کہ اپنی یہہ تعریف پیش کرتے جسکو رسول کی باتوں سے کچھ نسبت نہیں ہے۔
تیسرا اعتراض
قولہ۔ قابل دریافت یہہ امر ہے کہ مسیح کویہہ خطاب کس نے دیا۔ خدا باپ نے یا خود مسیح نے اپنے لیے یہہ خطاب تجویز کر لیا تھا۔ اولاً کتب عہد عتیق سے اسکی سند چاہئے کہ لوگوس مسیح موعود کا خطاب ہو یا ہوگا اور مسیح کو وجہ استحقاق ملنے اس خطاب کی کیا تھی وغیرہ۔
اقول۔ جو کچھ میں لوگوس کی نسبت دریافت کر چکا ہوں وہ آپکے لئے تحریر کرتا ہوں۔ پس معلوم کرنا چاہئے کہاول عہد عتیق میں لوگس کا کیا اور کسقدر بیان ہوا ہے۔
(۱)عہد عتیق میں خدا کی زات ظاہر اور زات باطن میں تمیز کی گی ہے اور وہ جسکے زریعہ سے اِس زات نہانی کا ظہور و علاقہ اس عالم کے ساتھ ظاہر کیا جاتا ہے کلمہ ہے(خروج ۳۳: ۱۲أ۲۳۔ زبور ۱۰۴: ۲۹ ، ۳۰)
(۲)عہد عتیق میں لوگس (عبرانی ممِرہؔ) کی بابت وہ بیان آیا ہے جسکی بنا پر یو حنا رسول عہد جدید میں یہہ لفظ مسیح پر عاید کرتا ہے۔ چنانچہ کلمہؔ دنیا کی پیدایش پر سوچ کرتا ہے ( زبور ۳۳۔: ۶۔ ۲ پطرس ۳: ۵) اور زبور ۱۴۷: ۱۵۔ اور یسعیاہ ۵۵: ۱۱ میں دنیا کی حکومت اور الہیٰ قدرت کے ظہور پر سوچ کرتا ہے۔ اور بھی دیکھو ۳۳: ۴، ۶۔ ۱۴۸: ۹ بمقابلہ آیت ۱۵۔ پس اسوجہ سے کلمہؔ خدا کے ظہور کا وسیلہ کہا گیا ۔ ہاں اس سب کا جو خدا کی بابت ظاہر ہو سکتا ہے۔ اسلئے یوحنا رسول لکھتا ہے کہ خدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے ہی نے بتلا دیا۔ خدا کی قابل ظہور ماہیّت کو ظاہر کرنے کی وجہ سے مسیح ابن اﷲ کووہ کلمہ کہا گیا ہے جو عہد عتیق میں اسبات کا مظہر بیان ہوا ہے۔ یوحناّ رسول پر ظاہر کیا گیا کہ مسیح ابن اﷲ کو کلام خدا لکھے۔
دوم اسپر یہود کا لوگوس کی نسبت کیا خیال ہو گیاتھا۔
پہلی صدی عیسوی میں پالٹاؔئن اور اسکندریہؔ کے یہودی عہد عتیق کے مقامات منقولہ بالا کی بنا پر لفظ ممہؔ کو خدا کے کاموں کا وسیلہ بیان کرنے لگے۔ چنانچہ اُنکی ٹارؔگم سے یہہ امر مصرُحّ ہے۔ خدا کو لفظ خدا ؔ سے بولنے کے بجائے ہمیشہ کلمہؔ اور جلال ؔ اور شیخنہ سے بیان کرتے تھے۔ مثلاً پیدائیش ۳: ۸ میں خدا وند کی آواز سُنی گئے کے بجائے کلمہؔ کی آواز سُنی گئی۔ ۔ ۹: ۲۷ اور وہ سیم کے ڈیروں مین رہیگا۔ ۱۷: ۲۲ ۔ اور خداوند ابراہام کے پاس سے اوپر گیا کے بجائے خدا کا جلالؔ اوپر گیا۔ ۲۰: ۳۔ اور خدا ابی ملک کے پا س آیا کے بجائے اور کلمہؔ خدا کے حضور سے ابی ملک کے آیا۔ ۲۱: ۲ ۔ اور خداوند اُس لڑکے کے ساتھ تھا۔ کے بجائے اور کلمہؔ خدا اُس لڑکے کی مدد کرتا تھا۔ خروج ۳۳: ۲۲ ۔ اور میں تجھے اپنی ہتھیلی سے ڈھاپوں گا۔ بجائے میں تجھے اپنے کلمہؔ سے سمبھالوں گا آیا ہے۔ لڑری ری مینس۔ مُصنفّہ دایٔچہہ۔ مضمون ٹارگم۔ پھر جہاں کہیں عہد عتیق میں یہوداہ یا فرشتہ یہوداہ آیا ہے مثلاً قاضیوں ۶ : ۱۱ تو اِن نامون کے بجائے ٹارگم والے ممرؔہ یعنے کملہ یا شیخنہ یعنے خدا کا خیمہ استعمال کرتے ہیں۔
سوم لوگوس کی نسبت ناسُٹکس کا کیا خیال ہو گیا ۔
جب یونانی فلسفہ اور یہود کی الہیٰا ت کی آمیزش ہوئی تو کلمہ کی نسبت ایک نیا خیال جاری ہوا۔ چنانچہ سر نتھس نے جو جنم کا یہودی تھا اور پہلی صدی کے آخر مین ہوا اسکندریہ میں انشا اور فلسفہ پڑھکے یسوع کی تعلیم اور یہودیوں اور ناسٹکس کی تعلیم کو ملا کر ایک نیا طریقہ بنایا ۔ ناسٹکس سے اُسنے پلے روما (آسمان اور اے آنس(یعنے روحوں) اورڈیمی ارگسؔ (یعنے اُس کے خالق ) کی تعلیم حاصل کی ۔ اور اسکی ‘‘رنگینی’’ ترقی کے لیے یہودیوں کی تعلیم و طرز بھی اختیار کی۔ اُسنے سکھلایا کہ خدائے تعالیٰ مسیح کے ظاہر ہونے سے پہلے بالکل نا معلوم تھا۔ اور ایک دور کے آسمان پلے روما میں اعلیٰ اے انسؔ کے ساتھ رہتا تھا۔ سب سے اوّل اُس خدا تعالیٰ سے ایک اکلوتا بیتا پیدا ہوا اور اُ س بیٹے لوگوس تولد ہوا جو اکلوتے سے کم قدر رکھتا تھا۔ کہ مسیح ایک اور بھی چھوٹا اےؔ ان تھا مگر بعض اوروں سے بڑا تھا۔ وغیرہ۔
چہارم انجیل کابیان
جب یہودی اور ناسٹک کلمہ کی نسبت ایسے پڑے تھے اور حقیقت میں نہ جانتے تھے کہ وہ کلمہ کون ہے۔ یہودی اُسے خدا کے کاموں کو کوئی زریعنہ اور ناسٹک اُسے کچھ اور خیال کرنے لگے تب مسیح اور اُسکے رسولوں نے اُس مظہر زات الہیٰ کا پتا دیا کہ مسیح ابن ا ﷲ وہ کلمہ اﷲ ہے جسکے وسیلے سے خدا نے عالم بنائے یوحنا ۱: ۳ بمقابلہ عبرانیوں ۱: ۱ ۔ اور طرح بہ طرح اپنا ظہور اس دنیا میں دکھا کیونہ خدا ایک زات نہانی ہے اُسکو کسی نے کبھی نہیں دیکھا اکلوتا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے اُسی نے بتا دیا کہ خدا کیا ہے اور اُسکی کیا مرضی یوحنا ۱: ۱۸۔ اب انجیل میں کلمہ کا بیان یوں آیا ہے۔ دیکھو یوحنّا ا: ۱ ۔ ۴ ۔ مکاشفات ۱۹ : ۱۳ ۔ پس لوگوں کے خیالوں اور شبہوں کے برخلاف مسیح نےخود رسول پر یہہ بات ظاہر کی کہ کلام خدا اُسکا نام ہے۔ اور اس نام کی کیا وجہ ہے۔ اور جب وجہ استحقاق ملنے اس خطاب کا خیال کرتے ہیں تو بجز الوہّیت مسیح کے اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی ۔ اور یون وہ جو عہد عتیق میں دھُندلے طور پر خدا کے کاموں کا زریعہ معلوم ہوتا تھا اُسکا انجیل صاف پتہ بتاتی ہے کہ وہ کلمہ یسوع مسیح ہے۔ اور اسوجہ سے مسیح کا کلمہ کہلانا اُسکی الوہیّت کے لئے دلیل ٹھہرتی ہے۔ نہ اسکے برخلاف ۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ بائبل میں خدا کی زات ظاہر یا ظاہر کش کا نام کلمہ اﷲ ہے۔
چوتھا اور پانچواں اعتراض
کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔ اور کلام مجسم ہوا۔
ان باتوں پر جو جو اعتراضآپ نے پیش کئے ہیں وہ کم و بیش بزرگ اتھاؔنےسس کے عقیدہ پر اور مثل اُسکے پر اثر کرتے ہیں ۔ یعنے اُن عقیدوں پر جو تثلیث فی الوحدت کے متعلق ہیں۔ یا یوں کہوں کہ آپ کے اعتراضوں کی بنا یہہ عقیدہ ہیں۔ سو آپ کو اور اَوروں کو بھی معلوم ہو کہ بندہ اُن عقیدونکے ثبوت کا زمہ نہین لیتا اور نہ میں یہہ کہسکتا ہوں کہ انجیل میں اور اُنمیں کہاں تک موافقت ہے۔ البتہ اگر اآپ کے اعتراض انجیل کی آیتوں پر ہوتے تو آپ میرے ہاتھوں سے س کھے نہ بچتے اگر اُن اعتراضوں کا جواب آپ مجھسے چاہیں تو پہلے اُن اعتراضوں کو انجیل سے ثابت کریں۔ اسی بحث میں لازم ہے کہ تم اور ہم انجیل مقدس کا بہت ہی لحاظ کریں نسپر بھی آپکے چند ایک قولوں زیل کا جواب ضروری سمجھتا ہوں۔ چنانچہ۔
قولہ۔ اولاً اگر درحقیقت وہ کلمہ جس سے مسیح مراد ہے ہمدم و ہمقدم ازلی الہیٰ تھا تو پھر اُسکے اُس سے مولود ہونے کے کیا معنے ہیں۔
اقول۔ واضح ہو کہ مسیح خدا سے مولود ہونا وہ معنے رکھتا ہے جو لوکاؔ حواری کی انجیل ا:۳۵ سے ظاہر ہوتے ہیں۔ یعنے روھ قدس تجھ پر اُترے گی اور خدائے تعالیٰ کی قدرت کا سایہ تجھ پر ہوگا اس سبب سے وہ قدوس بھی جو پیدا ہوگا خدا کا بیٹا کہلائے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کا خدا سے مولود ہونا اور ابن اﷲ ٹھہرنا مسیح کی الوہیت کے متعلق نہیں مگر اُسکی انسانیّت کے متعلق ہے جو بطریق اعجاز خدا سے پیدا ہوئی۔
قولہ۔ ثالثا ً اگر کلمہ مزکور کو ئی صفت منجملہ صفات نا متناہیہ الیہ کے ہے تو بھی اسکی یہہ تخصیص محض غیر مسلم ہے اسلئے کہ خدائے مستجمع جمیع صفات جمیلہ سے اسکی کسی صفت کا کسی وقت بھی علیحدہ ماننا ہرگز تسلیم نہین ہو سکتا۔
اقول۔ کلمہؔ خدا کی کوئی صفت نہیں ہے مگر خدا کی زات ظاہر کا نام ہے جو خدا سے جدا نہیں ۔
قولہ۔ اور کلام خدا تھا۔ اس فقرہ میں کلمہؔ کو نہ موصوف و صفت بلکہ مصاف و مضاف الیہ پڑھنا اصّح ہے۔
اقول۔ اس فقرہ میں کلمہؔ کو نہ موصوف و صفت اور نہ مضاف الیہ بلکہ مبتدٔ اور جز ٔ پڑھنا صحیح ہے یعنے کلمہ مبتداؔ اور خدا اسکی خبر ہے۔ اور یہہ یونانی کے موافق ہے۔
اور کلام مجسمّ ہوا
جو کچھ آپ نے کلمہ کے مجّسم ہونے کی بابت تین آخری صفحوں میں لکھا ہے اُس میں یہہ باتیں پیش کی ہیں کہ آپ خدا نے کلمہ کو مجّسم کیا یا کلمہ خود مجّسم ہوا۔ اگر خدا نے مجسمّ کیا تو وہ خدا کا محتاج ہوا اور اسلئے خدا نہ ٹھہرا۔ اور کلمہ کا اپنے تئیں مجسم کرنا تو ثابت ہی نہیں ہے۔ اور جب وہ یہہ کام اپنے لئے خود نہ کر سکا تو وہ خدا کیونکر مانا جاوے اور مسئلہ تثلیث کی رو سے مسیح کی الوہّیت پر اِدھر اُدھر کے اعتراض کر دئیے ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ باوجود آپ کی ان باتوں کے کلمہ کا ہمذات الہیٰ ہونا ثابت ہے۔ آپ میری باتوں پر ذرہ دھیان دینا۔
اوّل۔ یہہ بات جاننے کے قابل ہے کہ عہد عتیق میں خدا کی زات پوؔشیدہ اور زات ظاہرؔ میں فرق کیا گیا ہے۔ اُسکی زات پوشیؔدہ سے مراد اُسکا کسی شہر سے بے تعلق ہونا ہے۔ اُسکی کو ئی نظیرنہیں۔ وہ کسی ما سواے اﷲ کی حسدّ میں نہیں آتی۔ اور خدا کی زات ظاہر سے اُسی زات کا وہ ظہور مراد ہے جسمین وہ موجو ان کے ساتھ تعلق ظاہر کرتی ہے۔ اسمیں طرح طرح کے کام ظاہر کرتی ہے۔ خدا کی مرضی کو ظاہر کرتی ہے۔ خدا کی مرضی کو ظاہر کرتی ہے۔ ہاں یہہ زات زات پوشیدہ کی کاشف ہے اور لفظونمیں یوں کہیں کہ وہ زاتؔ پوشیدہ اپنے تئیں کسی نی کسیطرح ظاہر کرتی ہے اور جو وسیلے اُسکے ظہور کے ہیں وہی موجودات میں خصوصاً انسانوں میں کام ظاہر کرتے ہیں۔ حتی کہ چیزوں کا نزدیکی واسطہ اُنہیں کے ساتھ ہے گو آخر یہہ رشتہ اُس خدائے پوشیدہ ہی کے ساتھ ٹھہرتا ہے ۔ اور اگرچہ اُن وسائل یا ذریعوں کو بہ سبب قید مکان و قید زمان کے وہ خدائی پوشیدہ کہنے میں تامل ہوتا ہم اُن کو خدا سے جدا بھی نہیں کہہ سکتے۔ اور نہ جدُا کر سکتے ہیں۔ اور وہ جسکے زریعہ سے اُس زات نہانی کا ظہور و علاقہ اِس عالم کے ساتھ کیا جاتا ہے اُسکو کلمہؔ کہا گیا ہے۔
یہہ فرق عہد عتیق میں یوں بیان ہوا ہے۔تب اُسنے (خدا نے) کہا کہ یہہ چہرہ ساتھ جائیگا۔ تب موسیٰ نے کہا کہ میں تیری منّت کرتا ہوں کہ مجھے اپنا جلال ؔ دکھا اُسنے کہا کہ میں اپنی خوبی کو تیرے آگے چلاؤنگا اور میں خداوند کے نام کی منادی تیرے آگے کروں گا اور بولا کہ تو میرا چہرہ نہیں دیکھ سکتا اسلئے کہ کوئی انسان نہیں کہ مجھے دیکھے اور جیتا رہے۔ تو میرا پیچھا دیکھیگا۔ لیکن میرا چہرہ ہر گز دکھائی نہ دیگا۔ (خروج ۳۳: ۱۴، ۱۸، ۱۹، ۲۰، ۲۳) یہاں خدا کی زات نا دیدہ اور قابل دیدہ کا صریح بیان ہے۔ اور بھی دیکھو زبور ۱۰۴ ۔ آیت ۲۹، ۳۰،۳۱،۔ اب اُس زات نادیدنی کا ظہور خدا سے جدا نہ تھا اسکو دیکھنا اور ماننا خدا کو دیکھنا اور ماننا تھا۔ہاں اُس چہرے اور اُس جلال کو خدا کہنے سے خدائے نادیدہ کو غیرت نہ تھی۔ اور نہ اُسمیں شرک تھا۔ وہ ظہور اگرچہ بلحاظ زمانہ اور مکان کے خدا سے جدا تھا نسپر بھی مخلوق نہ تھا مگر خداوند خود تھا۔
دوم۔ یہہ معلوم کرنا چاہئے کہ یسوع مسیح کلمہ اﷲ میں الوہیت کیا تھی۔ انجیل اُسکا الوہیت کے ساتھ کیا رشتہ بتلاتی ہے ۔ ایسا نادان اور جاہل کوئی نہیں ہو سکتا کہ انجیل پڑھکے مسیح کی الوہیّت کے انکار کی جگہ پاوے اور جو ایسا کرتے ہیں وہ نہ صرف انجیل سے لیکن اپنے سر سے خواہ نخواہ دشمنی کرتے ہیں ۔ کیونکہ خیال کرنا چاہئے کہ اگرچہ بڑے بڑے نامی شخص اور انبیاء بائبل میں مذکور ہوئے ہیں مگر کسی کی نسبت ایسی عبارت نہیں آئی جسمیں خدا کی خاص خصوصیتیں اُسکی طرف منسوب کی گئی ہوں۔ خواہ کیسا ہی بڑا ہوا ہو اُسکو ہایۂ انسانیّت سے جلال اور ماہیّت الوہّیت میں سر فراز نہیں کیا ہے۔ خدا اور انسان میں ہمیشہ صریح تمیز رکھی گئی ہے۔ خالق کو مخلوق سے جدا بتلایا ہے۔ آفتاب اور مہتاب کو زمین اور آسمان کو اُسکی دستکاری کہا ہے۔ اور کوئی الہیٰ خصوصیّت کسیکو منسوب نہیں کی ہیں ہاں خدا کو خدا اور مخلوق کو مخلوق بتلایا ہے۔ مگر وہی کتاب جب یسوع مسیح کو پیش کرتی ہے تو جو فرق خدا اور انسان میں کرتی ہے وہ مسیح اور خدا میں نہیں کرتی مسیح کی نسبت عبارت بدلتی ہے۔ مگر اس تبدیلی عبارت کا کیا سبب ہے؟ یہہ کہ مسیحؔ کی خدا کے ساتھ ضرور کچھ یگانہ نسبت ہے جسکے سبب رسول مسیحؔ کو خدائی طرز پر بیان کرتے ہیں۔ پس تو کیا دو خدا ٹھہرے؟ میں بائبل کی سند پر کہتا ہوں کہ ۔ نہیں۔
پس جاننا چاہئے کہ انجیل میں ایسے الفاظ اور عبارتیں استعمال ہوئی ہیں جنسے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کاخدا کے ساتھ الوہیّت میں کیا اور کسطرح کا علاقہ ہے۔ اور کہ کچھ علاقہ ہے یا نہیں ۔ اور لفظوں میں یوں کہیں کہ مسیح کلمہ اﷲ و ابن اﷲ میں الوہیّت کی سکونت کسطور پر تھی۔ اور وہ لفظ اور عبارتیں یہہ ہیں۔
(۱) نامہ قلسیّوں ۱: ۱۵ و ہ اندیکھے خدا کی صورت ہے۔
(۲) نامہ عبرانیوں ۱:۳ ۔ وہ خدا کی ماہّیت کا نقش اور اُس کے جلال کی رونق ہے۔ ( بمقابلہ حزقیل ۱۰: ۴ جہاں خدا کے جلال ؔ کی رونق آیا ہے)۔
(۳) یوحنا ۱: ۱ کلام خدا۔
(۴) یوحنا ۱۴: ۱۰۔ مسیح نے خود یہہ کہا کہ میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے۔ اور باپ مجھ میں رہتا ہے۔ میں اور باپ ایک ہیں۔ ۱۰ : ۳۰۔
اب ان لفظوں اور عبارتوںسے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بولنے اور لکھنے کا یہی منشا تھا کہ مسیح اور خدا میں کچھ نسبت ہے اور وہ بھی زاتی کلمہ اﷲ کی کیفیت ہم لکھ چکے ہیں۔ اب باقی عبارتوں سے معلوم کریں کہ کلمہ ؔ اور خدؔا میں کیا علاقہ ہے۔ اور ہم ابھی معلوم کرینگے کہ کلاؔم کا مجسم ہونا کیا ہے۔ یاد رہے کہ نیچر اور اُسکی چیزوں کی نسبت بائبل ایسے محاورے استعمال نہیں کرتی جنسے خالق اور مخلوق ایک ہی ہونے کا احتمال ہو سکے جیسا ہمنے پیشتر زکر کیا ۔
پس معلوم ہو کے دنیا کی دینی فلا سفی نے خدا کی ماہیّت کو خدا کے کاموں میں تلاش کیا اور اسلئے آؔگ یا ہؔوا یا پانیؔ یا مٹیؔ یا وقتؔ یا فضح سے بیان کیا اور یوں صانع کو صفت میں تبدیل کر دیا اور اُسکی واحد ماہیّت سے پھر بھی بے علم رہے۔ مگر بائبل کی رو سے موجود ات کی چیزیں اُسکی ماہیّت کا نقش و صورت نہیں ہیں اُسکے جلال کی چمک نہیں ہیں مگر خدا سے جدا اور اُسکی وسعت کاری ہیں۔ الا وہی بائبل خداوند یسوع مسیح کو خدا کی ماہیّت کا نقش اور اُسکے جلال کی رونق بتلاتی ہے۔ اور اسلئے اسکوخدائی نام اور صفات منسوب کرتی ہے۔ آدمیوں اور حیوانوں اور بے جان چیزوں کی صورتیں یا نقش جو کھینچے یا کھودے جاتے ہیں وہ ان چیزوں کی ماہیّت کا نقش و صورت نہیں ہوتے مگر اُنکے ظاہر عرض و طول و رنگ کے ہوتے ہیں۔ تو مسیح کو جو ماہیّت الہیٰ صورت و نقش کہا ہے تو وہ اُن صورتوں اور مورتوں مذکور ہ کی مانند نہیں ہے۔ پر خدا کی زات یا ماہیّت کی صورت و نقش اُس زات یا ماہیّت کے ساتھ نسبت رکھتی ہے پس اِن لفظوں سے ظاہر ہے کہ مسیح کو زات الہیٰ کے ساتھ نسبت ہے اور کہ کیسی نسبت ہے۔ ور جو کچھ زات الہیٰ کا نقش ہو وہ مرد یسوع مسیح میں مجسم ہوا۔
پھر الفاظ اسکے جلال کی رونق یا چمک سے مسیح ؔ اور خداؔ میں زات کی نسبت کسیقدر زیادہ فہم میں آتی ہیں۔ چنانچہ آفتاب اور اُسکی چمک میں زاتی نسبت ہے۔ اسیطرح خدا ؔ ور مسیحؔ میں ہے۔ اور وجود انسانی میں میں ماہیّت نوری کی چمک مسکن پذیر ہوئی۔ا ور اسلئے مسیح اُس بزرگی و عذت کے لائق ہوا جو اُسکو منسوب کئے گئے ہیں۔پس ان عبارتوں کی رو سے مسیح کو خدا ماننے سے دو خدا نہیں ٹھہرتے مگر رسولوں کے اسطور کے بیان سے زات الہیٰ بلا تقسیم واحد کی واحد ہی ٹھہرتی ہے۔
پھر عہد عتیق میں اگرچہ یہہ تاکیداً فرمایا گیا کہ خداوند اپنی شوکت ٍ دوسرے کو ندیگا۔ یسعیاہ ۴۲ : ۸ ۔ تاہم انجیل کا بیان عہد عتیق کے برخلاف نہیں ٹھہرتا بلکہ موافق ہے کیونکہ عہد عتیق میں خدا کی ماہیّت یعنے اندیکھے خدا کی صورت و نقش اور اُسکے واقعی ظہور کا بھی مکرر بیان آیا ہے۔ دیکھو۔
(۱) خروج ۳: ۲۔ ۶ اور ۲۴ :۱۶۔ اُسوقت خدا کا فرشتہ ایک بوٹے میں سے آگ کے شعلے میں اُسپر ظاہر ہوا۔ اُسنے نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہے ایک بوٹا آگ میں روشن ہے اور وہ جل نہیں جاتا۔ جب خداوند نےدیکھا کہ وہ دیکھنے کو نزدیک آیا تو خدا نے اُسی بوٹے کے اندر سے پکارا۔ وغیرہ۔ پھر خداوند کا جلالؔ کوہ سیناؔ پر ٹھہرا اور بدلی اُسے چھ دن تک ڈھانپے رہی۔ اور ساتویں دن اُسنے بدلی سے موسیٰ کوطلب کیا۔ (یعنے خداوند کے جلال نے طلب کیا۔یہاں خدا اور خدا کا جلال اگرچہ ظاہر میں جدا مگر اصل ایک ہی ہے۔
(۲) خروج ۴۰: ۳۴۔ پاکترین مکان میں خدا کا جلال۔ تب بادل نے جماعت کے خیمہ کو چھپایا اور خداوند کے جلال نے مسکن کو بھرا ۔ ابظاہر ہے کہ خداوند کا جلال اندیکھے خدا کا ظہور تھا۔ اُس نمود کو دیکھنا خدا کو دیکھنا تھا۔ اُس جلال کے زریعہ سے خداوند اپنے تین خدا کہتا تھا۔ اُس جلال کا پاکترین مکان میں اور اَور جگہوں میں بھی آنا خداوند کا سکونت کرنا سمجھا جاتا تھا۔ اُس جلال میں سے آواز آنے کو خدا کی آواز مانا جاتا تھا اور خدا کی طرف سے یہی یونہیں باور کروایا جاتا تھا۔ مگر بہرحال ایکہی خدا مانا جاتا تھا نہ کہ دو یا زیادہ۔
پس رسول کی مذکورہ بالا عبارتوں اور عہد عتیق کی عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خداوند مسیح میں خدا کے جلال کی رونق اسیطرح مسکن پزیر ہوئی جسطرح پاکترین مکان میں ہو کرتی تھی۔ اور مسیحؔ اور خداؔ میں ویسی ہی نسبت ہے جیسے پاکترین مکان میں خدا کے جلال اور خدا میں تھی۔ اور اسی سبب سے مسیح کو خدائی نام اور صفات اور کام منسوب کئے جاتے ہیں۔ کیونکہ اس صورت میں وہ خدا کے ساتھ ایک ہی مسیح میں سے جو آواز آتی ہے وہ خدا کی آواز ہے اور جسنے مسیح کو دیکھا اُسنے خدا کو دیکھا اور خدا کی ماہیّت کے نقش اور اُسکے جلال کی رونق کو ہی مسیح میں خدائی کا سارا کمال مسکن پذیر کیا ہے جسطرح پاک ترین مکان میں خدا کے جلال کو خدا کی سکونت کہا رو پس اس بیان سے ظاہر ہے کہ مسیح کلمہ اﷲ خدا خود ہی ہے اور خدا کی زات واحد ثابت ہے۔ پس صاحب یہہ کچھ بات نہیں کہ کلام خود مجّسم ہوا یا مجّسم کیا گیا ۔ جیسے خدا نے مسکن کو اپنے جلال سے بھر دیا یا خداوند کے جلال نے مسکن بھر دیا۔ ایکہی بات تھی۔ فی الجملہ انجیل کو مڑھکر مسیح کو الوہیّت سے انکار کرنا عجیب نادانی ہے۔ کیونکہ انجیل سے مسیح میں الوہیّت بالکل ثابت ہے۔
راقم۔ ایل ۔ ٹھاکر داس