مراۃالحق
از
علامہ ایف۔ ایس ۔ تاج
۱۹۵۹
Mirror of Truth
Mirat-ul-Haq
BY
Allama F.S.Taj
فہرست مضامین |
مضامین |
مضامین | صفحہ | مضامین | صفحہ | ||
حمد | (۷) معیار الہام | ||||
حسن عقیدت | معجزہ | ||||
سوءعقیدت | پیشینگوئی | ||||
(۱)ویدانت | نیک سیرتی | ||||
آتما نیتہ مُکت | مطابقت بہ الہام ماقبل | ||||
گیان | مسیح کا اقرار | ||||
مُکتی ازروئے ویدانت | (۸) تجسم الہٰی | ||||
انجیلی نجات | موجودات اور خدا کا علم | ||||
(۲) رُوح کے متعلق عقائد | الہام اورخدا کا علم | ||||
رُوح مُرکب امتزاجی | ایک سعیدہ خواہش | ||||
رُوح قدیم وقائم بالذات | مظہر اور خدا کا علم | ||||
رُوح مخلوق وحادث | ایک بدیہی مثال | ||||
(۳) تزکیہ نفس وریاضت بدنی | قدرت واختیار | ||||
(۴ ( عقل اور مذہب | محبت | ||||
مذہب کی ضرورت | قدوسیت | ||||
مذہب کا کام | تمام انبیاء کرام پر فضیلت | ||||
عقل کا کام | ایک اعتراض کا جواب | ||||
عقل کا دائرہ عمل | کیا تجسم خدا کی کسر شان ہے؟ | ||||
ارتقائے عقل | مسیح کامل انسان | ||||
عقل اور موالید ثلاثہ | مسیح کن معانی میں خدا کا بیٹا ہے؟۔۔۔ | ||||
عقل کی عدم صحت | مسیح انسان اورخدا کا برزخ کامل۔۔۔۔ | ||||
(۵) الہام کی ضرورت | کلام مجسم کی تین صورتیں | ||||
جوڑا اور ترقی | تجسم کے فوائد | ||||
عقل الہام کی متقاضی ہے | (۹) گناہ | ||||
الہام اور باطنی شریعت | آغاز گناہ | ||||
شخصی مذہب | ایک اعتراض کا جواب | ||||
قومی مذہب | گناہ کیا ہے؟ | ||||
شریعت کا مرکز | گناہ کی علت | ||||
عہد عتیق مختص بالقوم اورمختص بالزمان تھا | گناہ ہمہ گیر ہے | ||||
توریت میں ایک عالمگیر نئے عہد کی خبر ۔۔ | کیا گناہ انسان ک اصلی فطرت ہے؟ | ||||
نئے عہد کے بانی کے متعلق مفصل خبریں | طبعی موروثی گناہ | ||||
عہد عتیق وعہد جدید کے بانیوں کی باہمی مشابہت الہام اور مذہب الہٰی کی تدریجی ۔ | متعدی گناہ | ||||
کمالیت | کسبی گناہ | ||||
(۶) عالمگیر مذہب | گناہ کے نتائج | ||||
عہد جدید کی بنیاد عہد عتیق پر | (۱۰)نجات | ||||
توریت کا تجزیہ | اختیاری طریقہ | ||||
احکام خاص | جبری طریقہ | ||||
قربانیاں | ناسخ | ||||
ختنہ | تزکیہ نفس | ||||
سبت | اعمال حسنہ | ||||
ظاہری طہارت | توبہ محض | ||||
حلت وحرمت | عدل ورحم | ||||
روزہ | قسری ملاپ | ||||
عیدیں | طبعی ملاپ | ||||
طریق عبادت | نجات بالکفارہ | ||||
احکام عام | خلاصہ مطلب | ||||
رُوح القدس کا نزول اور مذہب الہٰی کی انتہائی کمالیت | ایک اعتراض کا جواب | ||||
مسیحیت غیر اقوام میں | نجات کے مدارج | ||||
مسیحیت ہند میں | کفارہ مسیح کی وسعت بلحاظ تاثیر | ||||
لوگ مذہب سے کیوں بیزار ہیں؟ | ابدی زندگی اور ابدی سزا | ||||
مذہبی بیزاری کا علاج | آخری التماس | ||||
مسیحیت کی مخالفت |
التماس
معزز ناظرین! بندہ نےیہ کتاب"مراۃ الحق" طالبانِ راہ حق کی راہنمائی وہدایت کے لئے تصنیف کی ہے۔ مراۃ آئینہ کو کہتے ہیں ۔ جس طرح انسان آئینے میں اپنی شکل وصورت کی اصلیت کودیکھتاہے۔اُسی طرح میری یہ کتاب متلاشیان جادہ حق کو خدا کا جمال دکھانے گی۔ لیکن جیسے کل چشم کے لئے آئینہ کا وجودِ عدم برابر ہے۔ اسی طرح وہ لوگ " جن کی عقلوں کو اس جہان کے خدا (ابلیس ) نے اندھا کردیاہے" مراۃ الحق سے مستفیض نہ ہوسکیں گے۔ اس کتاب کی تیاری میں چند کتب اور پُرانے اخبارات سے بھی امداد لی گئی ہے۔ چونکہ جا بجا عقلی دلائل سے حقائق کوثابت کیا گیا ہے اور اکثر احباب کلام مقدس کے حقائق وسائل کوعقلی دلائل وبراہین سے ثابت کئے جانے سے سخت بیزار ہوتے ہیں۔اس لئے عرض ہے کہ ایسے اصحاب مندرجہ ذیل اُمور پر ضرور غورکریں تاکہ اُن کی غلط فہمی دُور ہوجائے۔
اول: یہ کائنات خدا کا فعل ہے۔ اورکلام اللہ خدا کا قول ۔ لہذا اُس کے ہی فعل سے اُس کے کلام کو ثابت کرنا کوئی عیب نہیں بلکہ جائز ہے۔
دوم: دنیا کی چیزیں آسمانی چیزوں کا عکس اور نقل ہیں (عبرانیوں ۸: ۵۔ ۹: ۲۳۔۱۰: ۱) اس لئے نقل سے اصل کوثابت کرنا ناجائز نہیں۔ بلکہ بطور استدلال انی لابدی وضروری ہے۔
سوم: ساری شرع الہٰی کے خلاصہ کا اول جزیہ ہے کہ" توخداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اوراپنی ساری جان اوراپنی ساری عقل سے محبت رکھ" پس یہ خدا کوعقل سے پیار کرنا ہے۔ سگانِ دنیا اِسی عقل کوناجائز طورپر استعمال کرکے فوائد حاصل کرتے ہیں اورہم اپنی عقل سے خدا کا جلال ظاہر کرتے ہیں۔
چہارم: حقائق غیر مرئیہ اور دقائق لطیفہ روحانیہ کا ثبوتی تصور محسوسات ومرئیات ہی سے ہوسکتا ہے۔اس لئے نادیدنی رُوحانی حقیقتوں کومریبات کے پیرائے میں ظاہر کرنا لازمی ہے۔
پنجم: سب سے زیادہ قابل لحاظ امر یہ ہے کہ خدا باپ اور خداوند مسیح نے تشبیہوں اور تمثیلوں میں کلام کیا۔ ملاحظہ ہو۔زبور ۷۸: ۲۔ ہوسیع ۱۲: ۱۰ اور متی ۱۳: ۳۴۔ مرقس ۴: ۳۳۔ ۳۴۔ اور آنخداوند مسیح نے فرمایا" جب میں نے تم سے زمین کی باتیں کہیں اور تم نے یقین نہیں کیا۔تواگر میں تم سے آسمان کی باتیں کہوں توکیونکر یقین کرو گے؟"(یوحنا ۳: ۲) واضح ہوکہ میں فلاسفر نہیں منطقی نہیں ایک محدود قابلیت کا مالک ہوں لیکن خداوند مسیح کی طاقت سے یہ خدمت انجام دے رہا ہوں۔
اس تصنیف کے تہیہ سے پیشتر ہی میرا جسم صحت اور علالت کے برزخ میں پھنسا ہوا تھا اور یہی اطمینان سوز اورہمت شکن حالات اس خدمت میں بہترین صورت میں انجام دہی کے مانع رہے ۔
اس لئے التجا ہے کہ میری ناداری صحت کوملحوظ رکھتے ہوئے اس مصائب ونقائص سے چشم پوشی فرمائیے۔ خیال رہے کہ محض تردیدی جذبات میری اس غامہ فرسائی کے متحرک نہیں ہوئے۔ اگرچہ بعض جگہ خاص ضروریات کے ماتحت تردید وتنقید واجب سے بھی کام لینا پڑا ہے۔ خداوند کریم میرے نیک مقصد کو پورا کرے۔ اُمید کامل ہے کہ اس کے مطالعہ سے بہت لوگ اپنی روحوں کی سعادت حاصل کرینگے۔آمین
نیاز کیش۔ ایف ۔ ایس تاج
اے ۔ پی مشن لدھیانہ
مراۃ الحق
حمد: ہر طرح کی تعریف وتوصیف اور حمد وتمجید کی حقدار وہی ذاتِ بیچون وبچگون ہے جوادراک وفہم انسانی سے بعید اور وارء الوراء ہے۔ جس کے الطاف واکرام میں حیث الاجتماع تمام افراد عالم پر شبانہ روز مشترک ومساوی طورپر ظاہر ہوتے ہیں ۔ جس کی بے قیاس محبت منصفہ شہود پر طرح بطرح آشکارا ہوتی رہتی ہے۔ فطرت کے ذرے ذرے میں اُس کا نور حقانیت جلوہ فگن ہے۔ اُس نے انسان خاطی وعاصی کی شقاوت قلبی اور کورباطنی کے اندفاغ وازالہ کےلئے اپنے اکلوتے بیٹے خداوند مسیح کو جسم میں بھیجا اوراُس کے پاک کفارہ کے طفیل انسان کی مصیبت وگناہ کا چارا فرمایا۔ اورمریضان گناہ کے بہتے ہوئے آنسو پونچھے جس کے باعث ہم اُس کے فضل کے تخت کے سامنے دلیری سے جاسکتے ہیں۔ اُس کی تمجید خداوند مسیح میں ابدالاآباد ہوتی رہے۔ آمین۔
حُسنِ عقیدت: ابتدائی زمانوں میں جبکہ انسان بالکل سیدھا سادھا تھا۔ اوراُس کے قلب ظلمانیہ وفطرت محبوبہ پر آفتابِ عالم وتہذیب کے برق وش پر تونہیں پڑتے تھے۔ اخلاق وتہذیب کوکسی ذہن ودل میں باریابی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ ظلمت وتاریکی کے سمندر میں جُہل ونادانی کی طغانیاں تھیں۔ اورہر طرف جہالت آمیز سادگی کے آثار نظر آتے تھے۔ اُس وقت بھی انسان کے وجدانیات میں دوحقیقتیں صاف اُبھری ہوئی جگہ رکھتی تھیں۔ اول اپنے آپ کو فطرتی طورپر کمزور بیکس تصور کرنا۔ کسی دستگیر وحاجت روا کی ضرورت کوبزور محسوس کرنا۔ ان ہی دوحقیقتوں کی بناء پر اگر اُس کوکوئی حاجت روا یا دستگیر خواہ وہمی ہو پیش کیا گیا ۔ تواُس نے بطیب خاطر اُس کی پرستش کی۔ اُس وقت انسان مثل ایک طفل کمسن کے فطرتی طور پر عجائبات کا مشتاق تھا ۔ اور غیر مرئی دوہمی اشیاء کی پرستش کے لئے ایک دم تیارہوجاتا تھا۔ اُس وقت انسان میں ایک طرح کی حُسنِ عقیدت پائی جاتی تھی۔ ان زمانوں میں علماء نے اُس کے حسن عقیدت اور سریع الاعتقادی سے ناجائر فائدہ اٹھایا۔ اسی زمانہ میں آندھی آگ پانی بارش آفتاب مہتاب اور رعد وغیرہ کی پرستش شروع ہوئی۔ چونکہ یہ اشیاء انسانی طاقت سے بالا تھیں اورانسانی جدوجہد اُن کے مقابلہ میں قطعی بے سُود تھی۔ اس لئے انسان نے سمجھ لیا کہ یہ کوئی اعلیٰ اورقادرہستیاں ہیں جن کے سامنے ہم بالکل کمزورومجبور ہیں۔ اسی طرح فطرت کی اٹل اشیاء کی طاقت وقدرت سے مرعوب ومجبور ہوکر یہ حسن عقیدت اُن میں پیدا ہوئی کہ ان فطرت کی طاقتوں کودیوتا تصورکرکے اُن کی رضا جوئی اورحصول خوشنودی کے لئے اُن کے آگے قربانیاں چڑھانی شروع کردیں۔تاکہ وہ اُن کے ایثار وعبودیت سے خوش ہوکر اُن کے دامانِ مُراد کے مقصود کے موتیوں سے بھردیں۔ اورہرقسم کی غارت گری وتباہ کاری سے باز رہیں۔ اور جب کہیں بارش کی زیادتی سے فصلوں مویشیوں کھیتوں اورمکانوں کا نقصان ہوجاتا تھا توسمجھتے تھے کہ اندر دیوتا ناراض ہے۔ اوراگر آندھی یا آگ سے کچھ نقصان ہوتا تھا توماروت اوراگنی دیوتا کی ناراضگی کے قیاس لگاتے تھے۔ اورہرممکن کوشش سے اُن کے قہر وغضب کوروکنے کے لئے اوراُن کی خوشنودی کی خاطر گائے۔ بچھڑے گھوڑے بلکہ انسان تک کو بیدریغ قربان کردیتے تھے اور سوم رس دیوتوں کے اکل وشرب کے لئے رکھ دیتے تھے۔ اس قسم کی فطرت پرستی اورخداکی قدرت کے مظاہرات وآثار کی پوجا نہ صرف ہندوستان ہی میں ہوتی تھی بلکہ ایک زمانہ کہ ایسی جہالت اورخوش اعتقادی ہمہ گیری تھی اورکوئی ملک یاقوم اس سے آزادنہ تھی۔مصری اُمیرس واسس تھا ۔ تھاتھ ۔کھیم ۔پتھا اور میض اورمُتبرک سانڈ کے پوجاری تھے۔اسی طرح یونان ۔ایران۔کارتھیج بابل۔ نینوہ۔ سریہ۔ روم۔ امریکہ اورجرمنی وغیرہ تمام ممالک میں اُلو۔بیل ۔وینس ۔ جیوپیٹر۔بعل۔عستارات ۔ ہرکیولیس۔ آطیس۔ سٹارٹی۔ ایڈونس۔ بیکس اوراپالو وغیرہ کی پرستش بڑے زوروں پر تھی۔ اورتاحال ایسی باطل پرستی کا بقیہ دنیا کے تمام حصص میں کم وبیش موجود ہے۔ بائبل مقدس میں بھی اُس زمانہ کی وحشیانہ رسوم کا کئی جگہ صاف ذکر موجود ہے۔بائبل مقدس میں بھی اُس زمانہ کی وحشیانہ رسوم کا کئی جگہ صاف ذکر موجود ہے۔ مثلاً طفل کشی ۔ اور وادیوں میں چٹانوں کے شگافوں کے نیچے بچوں کی ذبح کرتے ہوگا(یسیعاہ ۵۷: ۵)۔ پھر بچوں کو آگ میں جلانا " اور اُنہوں نے توفت کے اُونچے مقام بن ہنوم کی اُونچی وادی میں بنائے تاکہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو آگ میں جلائیں "(یرمیاہ ۷: ۳۱)۔ "تم خداوند اپنے خدا کے لئے ایسا نہ کرنا۔ کیونکہ جن جن کاموں سے خداوند کونفرت اور عداوت ہے وہ سب اُنہوں نے اپنے دیوتاؤں کے لئے کئے ہیں۔ بلکہ اپنے بیٹوں اوربیٹیوں کوبھی اپنے دیوتاؤں کے نام پر آگ میں ڈال کرجلادیتے ہیں "(استشنا ۱۲: ۳۱)۔
زمانے نے ایک کروٹ بدلی۔ کچھ انقلاب پیدا ہوا۔ تعلیم وتہذیب ہے۔ زندگی کے ہرشعبہ میں خواہ وہ اُمور جسمانی سے متعلق ہو یا روحانی سے اعتدال اورمیاہ روی نہایت ضروری ہے۔ افراط وتفریط کی مُورت خواہ کسی صورت میں پوجی جائے۔ہرحال میں نتائج بجائے خوشگوار ہونے کے غیر مفید ومضرت رساں ثابت ہوں گے۔ اعتدالِ فطرت کا ناسخ منسوخ ہے ۔ اوراس کے خلاف عمل کرنے سے ہر پہلو سے تشویشناک آثار ونتائج کا ظہور بطور لازم وملزوم کے لابُدی ہے۔ حسن عقیدت اور سوء عقیدت میں افراط وتفریط ہے۔اس لئے ان ہردوخیالات کا باطل اور ناقابل تسلیم ہونا بدیہی۔ عقیدہ ویدانت بھی چُونکہ سوء عقیدت کا نتیجہ ہے۔ اس لئے اس جگہ اُس کو معرض بحث میں لانا ضروری ہوگا۔ لہذا اب ہم مختصر طورپر مسئلہ ویدانت کی کھوج کریں گے۔