(۴)

عقل اورمذاہب

مذہب کی ضرورت

انسان فطری طورپر کمزور اوربیکس ہے۔ اور کسی ایسے دستگیر وحاجت روا قادر اورعظیم طاقت کے تحت ہوکر رہنا چاہتا ہے جو اُس کی مشکلات ومصائب کو حل اورحوائج وضروریات کو پورا کرسکے۔ ہر انسان اپنی طبعی کمزوری کے سبب ایک حاجت روا کی ضرورت کا قائل ہے۔ کوئی زبان سے لاکھ انکار کرے لیکن زبانی انکار اُس زبردست حقیقت کے وجدانی احساس کی تسکین کا موجب نہیں ہوسکتا۔ اس عالم اسباب میں اُس فوق الفہم اورغیر مرئی ہستی کے ثبوت کے لئے سب سے بڑی عقلی دلیل استدلال اِنی ہے (یعنی مصنوع سے صانع کا تصور ) اس سے آگے عقل طبعی کی رسائی محال ہے اور انسان محدود العلم اورقاصر العقل عقلی دلائل کے زینے لگا کر وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔ جس طرح اس خارجی مادی عالم کے قوانین طبعیہ کے ساتھ اجسام مادیہ کثیفہ کی موافقت ومناسبت رہنے سے اجسام قائم اورزندہ رہتے ہیں۔ اسی طرح رُوح انسانی کے اُس عالم رُوحانی کے قوانین رُوحانیہ کے ساتھ تطابق و توافق کے باعث  رُوح انسانی صحت کی حالت میں برقرار رہتی ہے۔ اگراجسام مادیہ کی عالم خارجی کے ساتھ مطابقت قائم نہ رہے۔ تو وہ فنا ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اگر اَرواح انسانی کی اُس عالم رُوحآنیہ لطیفہ کے ساتھ موافقت قائم نہ رہے تو وہ فنا ہوجاتی ہیں۔ خُدائے قدیر وحکیم نے اپنی قدرت کاملہ اورحکمت بالغہ سے جس طرح ہماری جسمانی پرورش کے لئے اس مادی دنیا میں تمام ضروری اورامکتفی سامان مہیا کردئے ہیں۔ اُسی طرح ہماری رُوحانی پرورش کے لئے بھی اُس نے تمام ضروری سامان پیدا کردئے ہیں۔ اوروہ سامان جو ہماری حوائج رُوحانیہ اورضروریات اخلاقیہ کو پورا کرتا ہے اُسی کانام مذہب ہے۔ بعض لوگ جن کا روحانی معیار اورمذہبی نکتہ نظر بہت پست ہے خواہ مخواہ امور معاشرت اورچند ظاہری نشان وغیرہ رکھنے کوبھی مذہب کا جُز بنائے بیٹھے ہیں۔ معاشرت وسیاست تو جسمانی مذہب ہی کا جُز ہیں۔ رُوحانی مذہب میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ مذہب کا تعلق صرف ہماری رُوحانی زندگی کے ساتھ ہے اوربس۔ پس ثابت ہوا کہ جس طرح جسمانی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے جسمانی اسباب کی ضرورت کا نکار نا ممکن ہے۔ اسی طرح رُوحانی زندگی کے قیام وبقا کے لئے مذہب کی ضرورت کا انکار ناممکن ہے پس یہی مذہب کی ضرورت ہے۔

عدم مذہب سے انسانی زندگی میں بداثرات نظر آنے لگتے ہیں۔ تجربہ شاہد ہے کہ جسم میں صحت مفقود اورعلالت موجود ہوجاتی ہے۔ دیگر صورت میں جب ہم روحانی قوانین سے تجاوز کرتے ہیں تو ہماری رُوح صحت کی بجائے رُوحانی امراض کا شکار ہوجاتی ہے۔ اورروحانی مرض کا نام گناہ ہے۔ خُداوند کریم نے اپنی عنایت بے غایت سے ایسے سامان بھی فطرت میں پیدا کردئے ہیں جن سے ان جسمانی امرا ض کی مدافعت ہوسکے۔ ہر مرض کے علاج کے لئے ہر نوع کی جڑی بوٹیاں اورادویہ کارخانہ فطرت میں موجود ہیں۔ ہر مرض کی تشخیص اورعلاج ومعالجہ کی مفصل تشریحات کُتب ِطب میں موجود ہیں۔ اب جبکہ  خُدائے حکیم قدیر نے انسان کو جسمانی عوارخ سے نجات دلانے کے لئے اس قدر اعلیٰ سامان عطا کئے ہیں تو لازمی امر ہے کہ روحانی امراض (گناہ) کی مدافعت کے لئ نسبتاً اُن سے بھی اعلیٰ سامان عنایت کرے۔ چنانچہ روحانی طب کی کتاب بائبل مقدس ہے جس میں روحانی امراض کی تشخیص اوراُن (گناہوں ) سے نجات حاصل کرنے کے نہایت تیر بہد ف اورلاثانی نسخے مرقوم ہیں۔ جو کوئی مرض گناہ کے شافی وقطعی علاج کا خواہشمندہ ہو وہ بائبل مقدس کی طرف متوجہ ہو۔ پس مذہب کا پہلا کام یہی ہے کہ وہ انسان کی روحانی فطرت کلے فساد کو دور کرکے اُسے اُس کی اصلی فطرت یعنی پاکیزگی پربحال کرے۔ اورجب تک خاطی وعاضی انسان خُدا کی طبیعت پر مطبوع نہ ہوجائے۔ یعنی گناہ سے قطعی مبرہ منزہ نہ ہوجائے اُس کا خُدائے پاک وقدوس کے ساتھ ملاپ ناممکن ہے۔ کیونکہ متضاد طبائع کا اجتماع محال ہے۔ مذہب کا دوسرا کا م یہی ہے کہ وہ انسان کا خُدا تعالیٰ سے میل کروائے۔ گناہ اوراُس کے تمام بدنتائج سے رہائی۔ نیک اورپاک طبیعت کا حصول اورخُدا اورانسان کے مابین ملاپ پیدا کرنے اسی کانام نجات یامکتی ہے۔ لہٰذا مذہب کا کام یہی ہے کہ وہ انسان کو گناہ سے کامل نجات دلائے۔

عقل کاکام

بعض مذاہب محض عقل کی محدود اورکمزور بنیاد پر قائم ہیں۔ اورمجروعقل کی دوڑ دھوپ کے حاصلات کو مذہب حقہ قرار دے کر خُدا کی ہستی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اوربعض جو خُدا کی ہستی اوروجود کے قائل  بھی ہیں تو وہ نیچر ہی کو خُدا سمجھے ہوئے ہیں اور خُدا کو غیر از فطرت یا فوق الفطرت ہستی تسلیم نہیں کرتے۔ ان دونوں سوالات کا خلاصہ یہ ہوسکتا ہے کہ یا تو خُدا کوئی شے نہیں اوراگر وہ کچھ ہے تو یہ ثابت ہے کہ یا تو خُدا اسم بلا مسمی اورقوت واہمہ کی اختراع ہے اور یا خود خُدا ہے۔ مذہب جنسی اعلیٰ وارفع برکت تو خُدا نے اس لئے بخش دی تھی کہ انسان ا سکی پیروی میں اپنی روش کو درست کرے۔ اوراُس کے سانچے میں ڈھل کے حقیقی روحانی اخلاقی شائستگی کو حاصل کرے۔ لیکن فی زمانہ زندہ دل لوگ ا س کو اُلٹے معنوں میں لے رہے ہیں۔ مذہب کو اپنی تقلید پر چلارہے ہیں۔ اوراپنی عقلی ودنیوی شائستگی کے سانچے میں اُس کو ڈھال کر اُس میں جدت طرازیاں کرتے ہیں۔ اورمذہب کو سائنس کی قیود میں ڈال کو تسخیر ہمزاد کی طرح اُس پر غالب آنا چاہتے ہیں۔۔۔آریہ بھائی مذہب کو سائنس کے ماتحت کرکے ریل گاڑیاں اورہوائی جہاز بھی ویدوں میں سے برآمد کررہے ہیں۔حالانکہ سائنس کا تعوزہر۔ ادویات ومحسوسات سے ہے اورمذہب کا تعلق غیر مادی روحانی حقائق سے سائنس کا نکتہ خیال اورہے اورمذہب کل سطح نظر اورسائنس اوراُس کے مادی مشاہدات وتجربات اوراُس کی دیگر معلومات۔۔۔اس مادی وحادث خلقت کا بیان کرتی ہے اورمذہب ا س خلقت کی مادی وغیر فانی حیثیت کے متعلق واقفیت بہم پہنچاتا ہے۔ مذہب کا تعلق طبیعات کی زندگی سے نہیں۔ اس کے برعکس سائنس کا تعلق غیر مرئی۔ فوق الفہم اورلطیف روحانی حقائق سے نہیں ہے۔دونوں کے مقاصد جدا۔خیالات جُدا۔ طریق کا ر مختلف اورنتائج مختلف ہیں۔ جس طرح علم النفس اورعلم اقلیدس دونوں کے اغراض ومقاصد اورنکتہ ہائے نگاہ میں بعد المشر قین ہے۔ اسی طرح مذہب اورسائنس کے مقاصد و نکتہ ہائے نگاہ میں تفادت ہے۔ واضح ہو کہ انسان کے گنہگار ہوکر فطرت کی طبعی مادی حقیقتوں کا علم نہیں کھویا تھا۔ اس واسطےمذہب کا یہ کام نہیں کہ اُس کا قدرتی اشیاء کی ماہیت سے تعارف کروائے۔ بلکہ گناہ کی تازیکی نے اُس کی اصلی روحانی اورپاکیزہ فطرت اورخُدائے تعالیٰ کی صحیح پہچان پرپردہڈال دیا تھا۔ اس واسطے مذہب صرف خُدا شناسی تک پہنچانے اورانسان کو اُس کی اصلی پاکیزہ فطرت کا تصور دلانے کا ضامن ہے۔ اوریہی اُس کا نفس مضمون ہے کشش ثقل کے قانون کی واقفیت انسان کے طبعی بگاڑ کو دور کرکے اُسے پاک دراست نہیں بنا سکتی۔ پس سائنس کا دائرہ عمل اس خارجی مادی عالم کی طبعی حقیقتوں تک محدود ہے۔ اورسائنس کی حدود سے آگے مذہب کی عملداری ہے۔ وہ لامحدود ،غیر مادی ، غیر مرئی رُوحانی حقیقتوں کے علم وعرفان کا سرمایہ دار ہے۔ اگرمذہب کا کام صرف سائنس بیان کرنا ہوتا تو پھر مذہب کی عدم ضرورت ثابت ہے۔ کیونکہ سائنس کی تحقیقات کے نتائج مذہب سے حاصل نہیں ہوئے۔ بلکہ عقل انسانی کے محدود وغور خوخ کا ماحصل ہیں۔ یہ بھاری غلطی مدتوں سے اس واسطے پڑی ہوئی ہے کہ مجرد عقل پر بھروسہ کرکے اصولات عقلیہ اوراُصولات ِدین ومذہب قرار دے کر انسان نے مذہب کو مجردعقل کا مشغلہ اوردماغی ورزش کا تختہ مشق سمجھا ہوا ہے۔ عقل کا کام۔۔۔یہ ہے کہ کسی شئے کا امکان یا ضرورت ثابت کرے۔ اس سے آگے انسان کو۔۔۔ دو و آمیز روشنی میں کچھ نظر نہیں آتا۔ عقل صرف یہ حکم کرتی ہے کہ یہ کارخانہ حیات ایک نہایت اعلیٰ اورنے نظیر صنعت ہے۔ اورکوئی بڑے سے بڑا حکیم فلاسفر یا سائنس دان نیچر کی ادنی ٰ سے ادنیٰ شئے کا مثل بنا نہیں سکتا۔ اس سےآگے عقل یہ کہتی ہے کہ نیچر کی اس بے نظیر کل کے پرزوں کو حرکت دینے والا کوئ انجینئر بھی ایسا ہی بے مثل ہونا چاہئے۔ اوروہی انجینئر مصنوعات فطرت کا صانع بھی ہوگا لیکن یقینی طورپر یہ نہیں کہہ سکتےے کہ کوئی صانع یا کاریگر ہے۔ کیونکہ اگر ہے توعقل کے پاس اُس کا کیا ثبوت ہے ؟ عقل ایسے نادیدہ اورالطف وادق وجود کا کوئی ثبوت جو قابل اشارہ حسی ہودے نہیں سکتی۔ عقل کا جواب یہی ہوسکتا ہے کہ ہونا چاہئےنہ کہ ہے مثلاً ایک خوابیدہ شخص کے پاس سے ایک گدھا گزرتا اورغائب ہوجاتا ہے۔اوربیدار ہونے پردہ اُس کے آثار ِقدیم دیکھتا ہے۔ تو اُس کے دل میں فوراً دوخیال پیدا ہوتے ہیں۔ کہ یا تو کوئی گدھا یہاں سے گذرہے اوریا گھوڑی کا بچھرا۔ کیونکہ ان دونوں کے پاوں کی بناوٹ اورکمیت وکیفیت میں کچھ فرق وامتیاز نہیں ہے۔ اگر گدھے کے نقش ِقدم کہے تو اُس کے پاس کوئی ثبوت نہیں کیونکہ گدھا وہاں موجو د نہیں ہے۔اورنہ ہی بچھرے کے نقش ِپاء کہہ سکتا ہے کیونکہیہ امر یقینی نہیں ہے۔ اورہردو کے سموں میں کوئی مابہ الامتیاز نہیں۔پس ثابت ہوا کہ وہ عقل اس معاملہ میں محض امکان ہی ثابت کرسکتی ہے نہ کہ حقیقت جکہ مجرد عقل فطرت کے روزانہ صدہاواقعات کے یقینی ثبوت کے لئے کوئی قطعی حکم نہیں لگا سکتی تو اُس فوق الفطرت اوربعید از فہم وادراک صانع حقیقی ومالک تحقیقی کو کیسے ثابت کرسکتی ہے۔ اورغیر مرئی رُوحانی حقائق کی تفہیم و تعقیل میں کیسےے کامیاب ہوسکتی ہ۔ اس منزل پر پہچن کر عقل طبعی کے پر جلتے ہیں اور وہ معطل وحیران ہوجاتی ہے۔ کیا تو تلاش سے خُدا کو پاسکتا ہے ؟ کیا تو قادر ِمطلق کا بھید کمال کے ساتھ دریافت کرسکتا ہے (ایوب ۱۱: ۷)۔ خُداوند خُدائے اَ بدی وتمام زمین کا خالق تھکتا نہیں اورماندہ نہیں ہوتا۔ اُس کی حکمت ادراک سے باہر ہے (یسعیاہ ۴۰: ۲۸)۔

عقل کا دائرہ عمل

کو لھو کے بیل کی نقل وحرکت ایک خاص دائرہ تک محدود ہوتی ہے اوروہ اُس مخصوصہ محیط سے باہر نہیں جاسکتا۔ وہی اُس کا دائرہ عمل ہوتا ہے۔ اسی طرح عقل کا دائرہ علم وادراک محض محسوسات ومرئیات تک ہی محدود ہے۔ اورمحسوسات و مادیات کے متعلق ہی عقل کے تجربات قابل ِتقسیم ہوسکتے ہیں۔ اوربدیہی حقائق کی تحقیق وتدقیق کے لئے عقل خالق نے اچھی رہنما بخش دی ہے۔ اوروہ محض ظاہر ی وباطنی حؤاس ِعشرہ کی مدد سے خارجی عالم کی طبعی حقیقتوں کی دریافت کرسکتی ہے۔ حواس ِخمسہ ظاہری یہ ہیں۔ حس مشترک ،خیال ،وہم ،حافظہ ، قوت متصرفہ ،جس طرح ظاہری کی تمام قوی ٰ کی درہ التاج قوت ِباصر ہ ہے۔ اُسی طرح حواس ِباطنی میں قوت متصرفہ سب سے زیادہ کا ر آمد اوراعلی ٰ ہے۔ بس عقل ان ہی حواس عشرہ کے کندھوں پرہاتھ دھرکے چلنے والی ہے۔اور اُن کی محتاج ہے۔ جس طرح ایک جنگی سپہ سالا ر کی کامرانی ونصرت کا تمامتر اِنحصار اچھی ، قابل اورتربیت یافتہ پلٹن اوربہترین اسلاح محاربہ پر ہوتا ہے۔اور بغیر ان کے وہ معطل وبیکار ہوتا ہے۔ اسی طرح عقل اعضا ئے جسمانیہ کی سپا ہ اورحواس عشرہ کے ہتھیاروں کے بغیر محض نکمی اورناکارہ ہے۔ مثلاً اگر آنکھ نہ ہوتی تو حروف ایجادنہ ہوتے۔کتابیں لکھی نہ جاتیں۔پریس اورمطابع کی اختراع نہ  ہوتی۔ فوٹو گرافی،فلم سازی ، رنگریزی ورنگسازی ،نقاشی ومصوری خیاطی ،بخاری ہوائی جہاز ،ریل گاڑی ،اوردیگر ہر قسم کی مشینری کا وجود نہ ہوتا۔ علم النجوم ،علم الاجسام ،علم طب ، علم جغرافیہ ، علم اقلیدس اورخورد بین ودوربین وغیرہ ہر گز معرض ِظہور میں نہ آتے۔غیر ضیکہ انسان علم وفضل اورتہذیب وشائستگی سے قطعی بے بہرہ ہوتا۔ اورانسان وحیوان میں کوئی بالاامتیاز نہ رہتا۔ دیگر حواس پر آنکھ کو ہم نے اسی لئے فضیلت دی ہے کہ وہ عقل کے لئے سب سے زیادہ کار آمد آلہ ہے۔ اسی واسطے جناب خُداوند مسیح نے کیا خوب فرمایا کہ بدن کا چراغ آنکھ ہے۔اگر تیری آنکھ درست ہوتو تیرا سارابدن روشن ہوگا۔ اوراگر تیری آنکھھ خراب ہو تو تیرا سارا بدن تاریک ہوگا۔ پس اگروہ روشنی جو تجھ میں ہے تاریکی ہوتو  تاریکی کیسی بڑی ہوگی (متی ۶: ۲۲-۲۴)۔ لوقا ۱۱: ۳۴-۳۶)۔ پس ثابت ہوا کہ تمام عقلی کارنامے محض حواس کی موجودگی کی برکت ہیں۔ اورجہاں حواس کا م نہ دیں وہاں عقل مجرد بیکار ثابت ہوتی ہے۔ لہٰذا رُوحانی واخلاقی حقائق ودقائق جو کسی حس سے محسوس نہیں ہوسکتے اُن کی تفہیم وتعقیل عقل مجرد سے قطعی ناممکن ہے۔ اورعقلی وعلمی کمالیت سےروحانی واخلاقی ترقی لازم نہیں آتی۔ جب تک اُس میں کوشش نہ کی جائے۔جو شخص کمیسٹری میں باہر اوریگانہ عصر ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ اُسی علم کی روشنی میں الہٰیات کا بھی عالم ہو۔عقلی باتیں تو عقل دریافت کرسکتی ہے۔لیکن فوق العقل حقائق کو کیسے جان سکتی ہے ؟ آگ جلا دیتی ہے برف ٹھنڈی ہوتی ہے۔ پانی ہمیشہ نشیب کی طرف بہتا ہے۔ سورج سے روشنی اورحرارت صادر ہوتی ہے۔ ہوا اوراپانی کے بغیر زندگی نہیں۔ سنکھیا مہلک ہے۔عسل شیریں ہے۔جنظل تلخ ہے۔ جب الملوک دست آور شے ہے۔ دو متوازی خطوط کا اتصال محال ہے۔ دو اوردو چار ہوتے ہیں۔ جو جُز میں ہے وہ کل میں ہے وغیرہ یہ سب بدیہی حقیقیتں ہیں۔ ان پر اورایسے ہی اورہزاروں امور پر تمام افراد ِعالم من حیث الاجتماع اتفاق کلی رکھتے ہیں۔ ا سکی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام حقائق تجارب ِمشہودہ پر مبنی اورحواس سے محسوس ہوسکتے اوربدیہی الظہور ہیں۔ لیکن طبعیات  بدیہیات میں بھی بعض امور ایسے ہیں جن پرسب لوگ اتفاق نہیں رکھتے۔ مثلاً آریہ وغیرہ مادہ واَرواح انسانی کو قدیم مانتے ہیں۔ اورمسیحی ومسلمان اوردیگر بہت لوگ حادث مانتے ہیں۔ حالانکہ مادہ دیدنی کثیف اورعقلیات حسیات سے ہے۔ اورہر انسانی اپنی رُوح کاکم وبیش وجدانی اِحساس رکھتا ہے۔ جب بدیہیات میں ایک عقل دوسری عقل کے مخالف ہے۔ اورعقلی نتائج میں بعد المشہ قین ہے۔ تو عقل روحانی اورغیر مرئی وغیر محسوس حقائق لطیفہ اورامور دقیقہ کی دریافت میں کیسے کامیاب ہوسکتی ہے ؟ اوررُوحانیات ومدہبیات کے متعلق تضاد وتناقض فی العقول بدیہی ہے۔ عالم کا عدم سے بحکم الہٰی موجود ہو جانا۔ اِلہام معجزات ،گناہ اورنجات ،حیات بعد از ممات ،وجود ملائکہ۔ قیامت ، عدالت ، اَبدی سزا اوراَبدی زندگی وجود ایزد تعالیٰ وغیرہ امور سب مزہیبات وایمانیات سے متعلق ہیں۔ اورسب فوق الفہم والعقل حقائق ہیں۔ اورعقل کی رَسائی سے باہر ہیں۔ اور جب تک کوئی صداقت یا حقیقت اپنے علم کا موقع نہ دے عقل خود بخود اُس کا علم حاصل نہیں کرسکتی۔ پس عقل محدود ہے اور محدودات سے باہر اُس کی قوت پر بھروسہ رکھنا لاحاصل ہے۔

ارتقائے عقل

ہم نے نہایت تفصیل کے ساتھ اس امر کو واضح کردیا۔ کہ عقل ِانسانی محدود ہے اوروہ کسی حد کے اندر اندر رہ کرہی اپنا کام کرسکتی ہے اوراس سے آگے نہیں جاسکتی۔درختوں کے اُوپر بیجد خلاء  موجودہے۔ اُن کے آسمان تک بڑھ جانے میں کوئی شئے مانع نہیں۔ تمام فضاء اُن کو آسمان تک بلند ہونے کے لئے دعوت دے رہی ہے۔لیکن دیکھئے کہ وہ اپنی مقررہ حدود تک ترقی کرلینےکے بعد رُک جاتے ہیں۔ اسی طرح طبقہ نباتات ،حیوانات اورانسان کے قدوقامت کے آسمان تک بڑھ جانے میں کوئی شئے محدود مُسد نہیں۔ جہاں تک وہ بڑھنا چاہیں بڑھیں۔ لیکن مشاہد ہ یہ ثابت کرتا ہے کہ کوئی شئے ارتقائی لحاظ سے اپنی مقررہ حُدود سے تجاوز نہیں کرسکتی۔ تو بھلا عقل انسانی اپنی حدود سے کیسے متجاوز ہوسکتی اور کس طرح امور رُوحانیہ اورحقائق لطیفہ وغیر محسوسہ کو جان سکتی ہے ؟ خُدا نے ہر شئے کے ساتھ عقل کی بھی حد ٹھہرائی ہے۔ تُو نے اُس کی حدوں کو مقرر کردیا ہے جنہیں وہ پار نہیں کرسکتا (ایوب ۱۴: ۱۵)۔ تُونے حدباندھ دی تاکہ وہ آگے نہ بڑھ سکے۔(زبور ۱۰۴: ۹، ۱۹۹: ۹۶ )۔ واضح ہوکہ گو خُدا نے عقل کو محدود بنایا ہے۔لیکن جس طر ح تمام اشیاء میں اُس قادر مطلق نے ارتقائی قوت ِفطری طورپر رکھ دی ہے۔اور ہر شئے ابتدائی وسطی اورانتہائی منازل ترقی کو بتدریج طے کرتی جاتی ہے۔ اسی طرح عقل انسانی کے لئے بھی میدان ترقی وسیع ہے۔ ایک بیج جو زمین میں بویا جاتا ہے وہ تہ خاک ہی میں پورا درخت نہیں بن جاتا۔ وہ خاک کے نیچے زیادہ سے زیادہ دو یاتین انچ لمبا ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ارتقا ء انتہائی کے تمام سامان زمین کے نیچے موجود ہیں ہوتے۔ پوری ترقی پودا زمین سے باہر نکل کر ہی کرسکتا ہے۔ اسی طرح انڈے کے اندر جو چوزہ ہے وہ اُس خول کے اندر بقدر گنجائش ہی بڑھ سکتاہے۔ لیکن کمالیت اُس خول سے باہر نکل کر ہی حاصل کرسکتا ہے۔ اس بیان سے پودے اورچوزے میں کمالیت کی عدم استعداد مُراد نہیں ،بلکہ ارتقائی صلاحیت واستعداد تو ہوتی ہے پر زمین اورخول بیضہ اُن کی کمالیت کے محدود ہوتے ہیں۔ اورحصول کمال کے تمام وکمال سامان وہاں نہیں ملتے۔ اسی طرح رُوح ِانسانی اسی جسمی خول کے اندر رہتے ہوئے حصول بڑھ سکتی۔ اوررُوح کی قوت ِتعقل کو ترقی کے واقع نہیں ملتے۔ مقدس پولوس رسول نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ اب ہم کو آئینے میں دھندلا سا دکھائی دیتا ہے۔مگر اُس وقت رُو برو دیکھیں گے۔ اس وقت میرا علم ناقص ہے مگر اُس وقت ایسے پورے طورپر پہچانوں گا جیسے میں پہچا نا گیا ہوں (۱۔ کرنتھیوں ۳۱: ۱۲) کیونکہ ہمارا علم ناقص ہے اور ہماری نبوت ناتمام لیکن جب کامل آئے گا تو ناقص جاتا رہیگا (۱۔کرنتھیوں ۱۳: ۹-۱۰) ہماری عقل اس جس میں خول کے اندر رہ کر رُوحانی اورنادیدنی حقائق کو ایمان کی آنکھ سے دُھندلا سادیکھتی ہے۔لیکن ایک وقت آئے گا جب عقل انسانی سے حجاب اُٹھ جائے گا اوراُس وقت وہ رُوحانی حقیقتوں کو رُوبر و دیکھے گی۔ رُوحانی ترقی اس جسم میں شروع ہوجاتی ہے اوربتدریج اس فانی جسم سے آزاد ہوکر وہ ترقی کمال کو پہنچے گی۔ اورہم اُس جلالی صورت میں درجہ بدرجہ بدلتے جاتے ہیں(۱۔ کرنتھیوں ۳: ۱۸) اورہمارے عقلی ورُوحانی قویٰ بقدر متناہ ترقی کرتے کرتے لامحدودنہ ہوجائیں گے۔ کیونکہ محدود شئے ابد تک ترقی کرنے سے بھی لامحدود نہیں ہوسکتی۔

عقل اَور موالید ِثلٰثہ

ماہرین طبعیات تمام موجودات کو طبقات ِثلٰثہ میں منقسم کرتے ہیں جمادات نباتات اورحیوانات اورانسان کو طبقہ حیوانات میں شامل کرکے اُسے حیوان ِناطق کہتے ہیں۔ ان ہرسہ طبقات میں خاصیات وصفات کے لحاظ سے خاص امتیازات نظر آتے ہیں۔ جو ایک طبقہ کو دوسرے سے اشرف یا ادنی ٰ ٹھہراتے ہیں۔ مثلاً جمادات میں فوت ِنامیہ مفقود ہے اورنباتات جسم نامی ہے۔یعنی اُس میں نمو کی قوت موجود ہے۔ ازیں وجہ وہ جمادات سے اعلیٰ ہے۔ پھر نباتا ت میں حس، ارادہ اورحرکت معدوم ہے۔ لیکن حیوانات میں قوت ِنامیہ کے علاوہ حِس ،حرکت ، ارادہ اورجان موجود ہے۔حیوانات حسِاس،متحرک بالا رادہ اورذی جان ہیں۔ اورانسان وحیوان میں وجہ امتیاز نفسِ ناطقہ ہے یعنی انسان ذی جان ہونے کے علاوہ ذی رُوح بھی ہے۔ اوراُس میں ادنی ٰ طبقات ِثلٰثہ کی حیثیتں اُس کے اعلیٰ وافضل مدراج میں پائی جاتی ہیں۔

وہ پتھر لکڑی اورہتھیار کے نقصان سے بھی واقف ہیں۔پھر طبقہ حیوانات کو انسان کی نسبت بہت ہی تھوڑا علم ہے۔گائے بھینس ،بیل ،گھوڑا ، اُونٹ،بھیڑ ،بکری ،گدھا ،کُتا ،طوطا ،مُرغی وغیرہ اپنے مالک کو خُوب پہچانتے ہیں۔ اورغیر آدمی کو غیر سمجھتے ہیں۔ا نسان کے غصہ اورنرمی وہمدردی میں امتیاز کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ بدیہی بات ہے کہ وہ انسان کی حقیقت کو ایسا نہیں جان سکتے جیسا انسان اُن کو جان سکتا ہے۔ انسان جمادات کو جانتا ہے۔ پتھر کوئلے ،سونا ،چاندی ،اوردیگر دھاتوں کے خواص وفوائد سے بخوبی واقف ہے۔ علم طب میں ہرنوع کی جڑی بوٹیوں اورپھولوں پھلوں کی تشریحات موجود ہیں۔ ان کے فوائد اورنقصانات سے کامل ِواقفیت رکھتا ہے۔ حیوانات کا پورا علم رکھتا ہے۔ علم الا جسام، علم خواص الا شیاء،علم الانوار، علم النفس طب اور صد ہا علوم وفنون جوانسانی تحقیقات کا ماحصل ہیں اس حقیقت پر شاہد ہیں۔ کہ انسان ہر سہ ادنی ٰ طبقات کا علم کامل اوریقینی رکھتا ہے۔ برخلاف اس کے ادنیٰ طبقات کو انسان کاکچھ علم نہیں ہے۔پھر طبقہ انسانی میں بھی عقلاء و جُہلا کی تفریق ہے۔ جو کچھ حکما ء وعقلا طبقہ جُہلا ء کے متعلق علم رکھتے ہیں وہ جُہلاء کی تفریق ہے۔ جو کچھ حکما ء و عقلا طبقہ جُہلاء کے متعلق علم رکھتے ہیں وہ جُہلا ء اُن کے متعلق نہیں رکھتے۔ بچے والدین کی نسبت اُس قدر علم نہیں رکھتے جس قدر والدین بچوں کی نسبت۔اسی طرح انسان صنعیف البیان اورناقص العقل ومحدود العلم کی ہستی جس قدر مذکورہ بالا تین طبقوں سے اعلیٰ ہے اُسی قدر بلکہ اُس سے بھی لاکھ درجہ خُدائے تعالیٰ بے حدود بے عد کے بالمقابل ادنی ٰ ہے۔ تو بھلا انسانی عقل کی کیا مجال ہے کہ وہ طبقہ الہٰی اورحقائق رُوحانی ودقائق فوق الفہم کی حیطہ ادراک میں لاسکے۔ عقل انسانی محض من حیث الآ ثار ہی طبقہ الہٰی اوروجود لامتناہی کا کچھ تصور کرسکتی ہے۔ جس طرح حیوانات کا علم انسان کے متعلق بہت ہی معمولی اور ناقص ہے۔ اُسی قدر بلکہ اُس سے بھی بدرجہا کم انسان اپنی عقل مستناہیہ وفہم محدود سے حقائق قُدسیہ الہٰیہ کی تفہیم کرسکتا ہے۔ اوربطور استدلال انی معلول سے علت اورمصنوع سے صانع کا تصور کرسکتا ہے۔ کیونکہ جو کچھ خُدا کی نسبت معلوم ہوسکتا ہے وہ اُن کے باطن میں ظاہر ہے۔(اوروہ بھی ) اس لئے کہ خُدا نے اُس کو اُن پر ظاہر کردیا۔ کیونکہ اُس کی اَن دیکھی صفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اورالوہیت دُنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعے سے معلوم ہوکر صاف نظر آتی ہیں۔ یہا ں تک کہ اُن کو کچھ عذر باقی نہیں۔ (رُومیوں ۱: ۱۹-۲۰) مشاہد ہ فطرت سے خُدا کا صرف مثالی علم ہی حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اُس کی حقیقت کا یقینی علم محال ہے۔ اگر کائنات کے صرف مشاہدہ ہی سے خالق کایقینی اورصحیح علم حاصل ہونا ممکن ہوتا۔تو دُنیا میں اُس کی ہستی اورماہیت کے متعلق خیالات وآراء میں منافقت نہ مخالفت نہ ہوتی۔پس انسان مجوب الفہم من حیث العقل حقائق الہٰی اوروجود لامتناہی کے صحیح تصور میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ واہ ! خُدا کی ذات اورحکمت اورعلم کیا ہی عمیق ہے۔ اُس کے فیصلے کس قدر ادراک سے پرے اوراُس کی راہیں کیا ہی بے نشان ہیں۔ خُداوند کی عقل کو کس نے جانا۔ یاکون اُس کا صلاح کار ہوا ؟ (رُومیوں ۱۱: ۳۳- ۳۴)۔

عقل کی عدم صحت

واضح ہوکہ عقل طبعی کی کارگزاری کے نتائج عالم میں مختلف ہیں جس سے عقل ناقابل اعتبار ٹھہرتی ہے۔ اسی عقل نے ہزاروں لوگوں کی رہنمائی کی اور وہ خُدا کی ہستی سے منکر ہوگئے اورعقل کفر ولحاد کی موید دبانی ٹھہری۔اسی عقل کی رہنمائی میں لاکھوں انسان بتوں کو خُدا سمجھنے لگے۔ اسی عقل کی روشنی میں بیشمار لوگ بُت پرستی پر آمادہ ہوگئے۔ اسی عقل نے لاکھوں انسانوں کو گمراہ کردیا۔ او ر وہ گور پرستی پیرپرستی،لنگ پرستی، مردم پرستی، عناصر پر ستی،فطرت پرستی اور تناسخ جیسے غیر معقول ومجہول عقائد پر ضمیر فروشی کرنے لگے۔ اسی عقل نے ہدایت کی اورآریہ لوگ مادہ وارواح کو قدیم ماننے لگ۔ اسی عقل نے ہدایت کی اور آریہ لوگ مادہ وارواح کو قدیم ماننے لگے۔ اسی عقل کے اشاروں پر مسیحی ومحمدی مادہ وارواح کی ازلیت وقدامت کی تردید وتکذیب پر جھکے۔ غرضیکہ آج تک تفادت فی العقول بدیہی طورپر ظاہر وبا ہر ہے۔ آخر یہ تمام عقائد یا عقل کے تمام نتائج تو صحیح نہیں ہوسکتے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ پانچ اورپانچ نو ہوتے ہیں۔ دوسرا کہتا ہے گیارہ تیسرا کہتا ہے سات اورچوتھا کہا پانچ نو ہوتے ہیں۔ دوسرا کہتا ہے گیارہ تیسرا کہتا ہے سات اورچوتھا کہتا ہے دس، آخر ان چاروں کے جواب توصحیح نہ ہوں گے۔ ایک ہی جواب درست ہوسکتا ہے۔ جب خُداواحد وبرحق ہے۔ اورتمام عقلیں بھی صحیح ہیں۔ تو مختلف عقائد اورمتضادخیالات کے وجود کے کیامعنی ؟ ایک ہی خُدا اتنے متضاد ومتناقض عقائد کابانی نہیں ہوسکتا۔ پس انسانی عقلوں میں اختلاف وتناقص کی وجہ اُن کی عدم صحت ہے اورعد م صحت کا موجب گناہ۔ اس لئے موضوعات ِعقلیہ کو کوئی حقیقی والہٰی مذہب قرار دینا سراسر جہالت اورکج فہمی ہے۔ عقل کے تمام پُرزوں پر گناہ کا زنگ لگ گیا ہے۔ اس لئے اُس کی رفتار ہیں فرق ہے ۔اوراٗن آدمیوں میں رد وبدل پیدا ہوتا ہے جن کی عقل بگڑ گئی ہے۔ اوروہ حق سے محروم ہیں۔(۱۔ تمتھیس ۶: ۵)۔ کیونکہ اُن کی عقل تاریک ہوگئی ہے۔(افسیوں ۴: ۱۸)۔ یہ ایسے آدمی ہیں جن کی عقل بگڑی ہوئی ہے اور وہ ایمان کے اعتبار سے نامقبول ہیں (۲۔ تمتھیس ۳: ۸) جن کی عقلوں کو اس جہان کے خُدا (یعنی ابلیس ) نے اندھا کر دیا ہے۔(۲۔ کرنتھیوں ۴:۴)۔

میرا مطلب عقل کی عدم صحت سے یہ نہ سمجھا جائے کے گناہ کے باعث عقل کی قوتیں زاہ ہوگی ہیں یا معدوم وناپیدا نہیں ہوگئیں۔بلکہ مطلب یہ ہے کہ اصلی حالت پر نہ رہیں۔ مثلاً ہمارے سامنے میز پر دس گھڑیاں رکھی جائیں جو بخوبی چل رہی ہیں۔ بظاہر صاف اورصحیح معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن جب اُن میں وقت دیکھا جاتا ہے۔ تو سب میں دس دس،پندرہ پندرہ اوربیس بیس منٹ کا فرق ہے تو آخر کس بناء اُن کی رفتار پر صحت کا حکم لگایا جائے ؟ گھڑیاں ثابت ہیں،پُرزے قائم ہیں۔گھنٹے،منٹ اورسیکنڈ کی سوئیاں حرکت کررہی ہیں۔مگر سب کے اوقات میں مطابقت ویکسانیت نہیں۔ اسی سے اُن کی عدم صحت ثابت ہوگی۔ یہی حالت جمیع عقول انسانی کی ہے۔اس واسطے مجرد عقل کے نتائج وحاصلات کو کسی مذہب کا صحیح قرار دینا ضلالت وگمراہی کو خوش آمدید کہنا ہے۔ عقل کی مذکورہ بالا حالت پر غور کرتے ہوئے ہمیں عقلی ونقلی طورپر عقل کی دوحالتیں معلوم ہوتی ہیں۔ یعنی۔

اول۔ پہلی حالت عقل کی وہ تھی جبکہ وہ کمالیت،صحت اورپاکیزگی کی حالت میں خالق کے ہاتھ سے نکلی۔ اس کے متعلق کلام اللہ کی شہادت یہ ہے اورخُدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا(پیدا ئش ۱: ۲۷)۔ یہا ں خُدا کی صورت سے وجہ اللہ مُراد نہیں ہے بلکہ اس صورت سے مُراد رُوحانی صورت ہے۔ اکثر خبیس الطبع لوگ نادانی سے یہ سوال کیا کرتے ہیں۔ کہ چونکہ انسان خُدا کی صورت پر بنایا گیا ہے اوروہ جسم واعضا ء رکھتا ہے۔ الہٰذا انسان کی طرح خُدا بھی جسم واعضا ء رکھتا ہوگا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر اُن کے اس نامعقول معارضہ کا مدفل جواب لکھا جائے۔ اورگمراہوں کو راہ دکھائی جائے۔ جو لوگ علم تشبیہ واستعارہ سے واقف ہیں وہ ایسا پودا اعتراض نہیں کر سکتے۔واضح ہو کہ ہر جگہ لفظی معنی لینا جائز نہیں۔ اوربالخصوص صحائف مطہرہ کی عبارات کے سمجھنے میں زیادہ احتیاط برتنا چاہئے۔ ایک حکیم کہتا ہے کہ یہ نسخہ ہتیلی پر سرسوں جمانے والا ہے تو اس سے لفظی معنی مُراد نہ ہوں گے بلکہ محض دوا کی زور اثر ہی مُراد ہوگی اورداود ہوگی اورداود نبی خُدا سے یہ التجا کرتا ہے کہ مجھے اپنے پروں کے سایہ میں چھپالے (زبور ۱۷: ۸)۔ تو کیا اس سے خُدا کو پرندہ سمجھا جائے گا؟ ہر گز نہیں بلکہ مُراد یہ ہے کہ اَے خُدا مجھے اپنی پناہ و حفاظت میں رکھ۔ خُدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا اس آیت میں انسان مشبہ حتی ہے۔ خُدا مشبہ بہ عقلی اوروجہ شبہ مرکب عقلی ہے۔ جب مشبہ حسی اورمشبرہ دونوں حسی ہوں تو یہ سوال جائز ہوسکتا ہے۔ لیکن آیت زیربحث میں تشبیہ تمثیل ہے۔ اورتشبیہ تمثیل میں وجہ شبہ مرکب حسی نہیں ہو ا کرتی بلکہ مرکب عقلی ہوتی ہے۔ اور خُدا کے ساتھ انسان کا یہ اشتراک صفائی تشبہی ہے۔ عین مطابقی نہیں۔ اورخلاصہ مطلب یہ ہوا کہ جس طرح خُدا پاک وفاعل مختار ذی عقل اورصاحب ِارادہ ہے۔ اُسی طرح اُس نے انسان کو بھی ان صفات سے متصف فرمایا۔ خُدا کی صورت کے معنی ملاحظہ ہوں (افسیوں ۴: ۲۴،کلسیوں ۳: ۱۰ عقلی طورپر یہ حقیقت اس لحاظ سے درست ہے کہ اگر خُدا نے انسان کو پاک اورکامل نہیں بنایا تھا تو اُس کا گناہ میں گرنا خُدا سے انحراف وبغاوت نہیں۔ نہ ہی الہٰی سرتابی ہے اورخُدا نے اُس سے نیکی پاکیزگی اوراپنی متابعت کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ دوم خُدائے پاک وقدوس سے ناپاک طبعیت کے معلول کا اصدار محال ہے۔پس ثابت ہوا کہ خُدا نے انسان کو پاک وراست بنایا تھا۔ یہ انسانی رُوح اورعقل کی حالت اولہ تھی (واعظ ۷: ۲۹)۔

دوم۔ اورعقل کی حالتِ ثانیہ موجود متنزل اوربگڑی ہوئی حالت ہے۔ اُن کی عقل اور دل دونوں گناہ آلودہ ہیں(۱۔ طیطس ۱: ۱۵ ۲۔ تیمتھس ۳: ۸ ) قتل کے اسی لخطاط وتنزل کے باعث پولوس رسول فرماتا ہے۔ مگر نفسانی آدمی خُدا کے رُوح کی باتیں قبول نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ اُس کے نزدیک بیوقوفی کی باتیں ہیں اور نہ وہ اُنہیں سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ رُوحانی طورپر پرکھی جاتی ہیں(۱۔ کرنتھیوں ۲: ۱۴)۔ خُداوند یسوع مسیح نےجو مسرف بیٹے کی تمثیل (لوقا ۱۵: ۱۱- ۲۳)میں فرمایا ہے وہ انسان کی اِسی دوقسم کی حالت کا مکمل فوٹو ہے۔ مسرف بیٹے کی پہلی حالت جبکہ وہ باپ سے رُخصت ہوا بہت دولتمندی اورخوشحالی و خوشی کی تھی۔ اوردوسری حالت انتہائی تنگدستی۔ ناداری اورکس مپرسی کی تی۔ چنانچہ رُوح وعقل انسانی کی موجود ہ حالت مسرف بیٹے کی حالت ِثانیہ کے مطابق ہے۔اب خُدا جو رحیم وکریم اورسرچشمہ محبت ہے کبھی ہو نہیں سکتا کہ انسان کو ابدتک اس عقلی وروحانی گمراہی میں رہنے دے۔اورہم یہ بھی خوب جان گئے کہ محض عقل سے اوروہ بھی مریض ومتنزل عقل سے خُدائے قادرِمطلق کو جان نہیں سکتے۔ کیونکہ عقل کے بازو ہم نے صدیوں آزمادیکھے۔ اب عقلی مذاہب کے دعوے دار اور عقل کے شیدائی جواُس کو اُس کے اصل مرتبہ سے بہت زیادہ بلند کرکے دکھاتے ہیں خوب غور کرلیں کہ عقل طبعی کس قدر قابلیت کی سرمایہ دار ہے ۔ا ورا ُس کو اُس ک جائز درجہ سے بڑھ کر سمجھنا کس قر کو ر اعتقادی،خوش فہمی اورحقیقت سے روگردانی ہے۔ اب آخری ممکن اور صحیح صورت ہی ہوسکتی ہے کہ خُدا ئے تعالیٰ خود اپنا علم وعرفان انسان کو عطا فرمائے۔ اورکسی طرح سے اپنی ذات وصفات اورمرضی کو اُس پر ظاہر کرے۔ تاکہ انسان عقل کوے پیچھے لگ کر گمراہی سے گمراہی کی طرف نہ بڑھتا چلاجائے۔ اگلے باب میں ہم خُدا کے اُسی ذریعہ ووسیلہ کا بیان کریں گے جس کی وساطت سے ہم خُدا شناسی تک پہنچ سکتے ہیں۔